- جب کوئی ممتاز و جید سائنس دان کسی امر کے ممکن ہونے کے بارے میں رائے زنی کرے تو وہ یقینی طور پر صحیح ہوتا ہے۔ لیکن جب وہ کہے کہ یہ امر ناممکن ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ غلط ہو۔
- ممکنات کی حد کو جاننے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ناممکنات کی سرحد کو تھوڑا سا زیادہ پار کرنے کا جوکھم اٹھایا جائے۔
- جادو او ر جدید ٹیکنالوجی (ٹیکنالوجی ) میں امتیاز نہیں کیا جا سکتا۔
- آرتھر سی کلارک - تین قوانین(تھری لاز)
"خلائی جہاز کی حفاظتی ڈھال کو کھول دو!"
کپتان کرک(Kirk) اسٹار ٹریک (Star Trek)کی ان گنت اقساط میں اپنے عملے کو سب سے پہلا یہ ہی حکم دیتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس حکم کی تعمیل کے نتیجے میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (فورس فیلڈ[Force Field] یا قوّت میدان) کو جہاز کے گرد حصار بنانے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ خلائی جہاز "انٹرپرائز" (Enterprise)کو دشمن کی آگ سے بچایا جا سکے۔
1۔ اسٹار ٹریک میں
دکھائی جانے والی خلائی جہازوں کے قوّت میدان (فورس فیلڈ)
|
اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّت میدان) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی جنگ میں بطور فریق اپنی طاقت و حیثیت کا قیاس خلائی جہاز میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی باقی بچی ہوئی طاقت سے لگاتا ہے۔ جب بھی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی طاقت میں کمی ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں "انٹرپرائز" کو زیادہ سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے یہاں تک کہ اس کا ہتھیار ڈالنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال (قوّت میدان )آخر میں ہے کیا؟ سائنسی قصّوں میں تو یہ بیوقوف بنانے کی حد تک سادہ سی چیز ہوتی ہے۔ جس میں ایک پتلی سی غیر مرئی مگر غیر نفوذ پذیر رکاوٹ جو اپنی جانب داغے ہوئے لیزر اور راکٹوں کو دوسری طرف موڑ دیتی ہے۔ پہلی نظر میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال اس قدر سادہ لگتی ہے جیسے کہ بس میدان جنگ میں جلد ہی بنا لی جائی گی۔ فلم میں اس کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ کسی بھی دن کوئی موجد اس دفاعی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو بنانے کا اعلان کر دے گا۔ مگر سچائی اس سے کہیں زیادہ کڑوی و تلخ ہے۔
جس طرح سے ایڈیسن(Edison) کے روشنی کے بلب نے جدید تہذیب میں انقلاب برپا کر دیا بالکل اسی طرح سے قوّت میدان ہماری روز مرہ کی زندگی پر نہایت ہی عمیق اثر ڈال سکتی ہے۔ افواج اس غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو اپنے جنگی حربے کے طور استعمال کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک غیر متداخل حفاظتی تہ دشمنوں کے میزائل اور گولیوں سے بچاؤ کی بنا کر ناقابل تسخیر ہو جائیں۔ اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی ایجاد کے بعد پل ، سپر ہائی وے اور سڑکیں بٹن کو دباتے ہی بنائے جا سکیں گے۔ پلک جھپکتے میں صحرا میں پورے کے پورے شہر کھڑے کیے جا سکتے ہیں جہاں کی بلند و بالا عمارتیں غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے بنی ہوئی ہوں گی۔ شہروں کے اوپر کھڑی غیر مرئی حفاظتی ڈھال سے شہری اس قابل ہو جائیں گے کہ اپنے موسموں کے اثر کو اپنی مرضی سے قابو کر سکیں۔ ان موسمی اثرات میں تیز ہوائیں، برفانی طوفان، گرد و باراں کے طوفان وغیرہ شامل ہیں۔ سمندر کے اندر محفوظ غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی چھتری تلے شہر بسائے جا سکیں گے۔ شیشہ، اسٹیل، اور موٹریں سب کچھ اس سے بدل جائے گا۔ ان تمام خوش آئند باتوں کے باوجود غیر مرئی حفاظتی ڈھال کو کسی تجربہ گاہ میں بنانا سب سے مشکل ترین کام ہے۔ درحقیقت کچھ ماہرین طبیعیات تو اس کی خصوصیات کو تبدیل کئے بغیر بنانے کو ہی ناممکن گردانتے ہیں۔
مائیکل فیراڈے (Michael Faraday)
غیر مرئی حفاظتی ڈھال کا خیال انیسویں صدی کے عظیم برطانوی سائنس دان مائیکل فیراڈے کے کام سے نکلا۔ فیراڈے ایک متوسط سفید پوش گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ لوہار تھا۔ اس نے اپنی روزی روٹی کمانے کا سلسلہ ایک چھوٹے سے کام یعنی کتاب کی جلد بندی کرنے والے کی حیثیت سے ١٨٠٠ء صدی عیسوی میں شروع کیا۔ نوجوان فیراڈے اس دور کی اہم دریافتوں سے بہت زیادہ متاثر تھا جنہوں نے دو نئی طاقتوں – برق اور مقناطیسیت - کی پراسرار خصوصیات کو بے نقاب کیا تھا۔ فیراڈے نے ان موضوعات پر جتنا کچھ مواد جمع ہو سکتا تھا، جمع کیا۔ اس کے علاوہ وہ رائل انسٹیٹیوٹ آف لندن کے پروفیسر ہمفرے ڈےوی(Humphrey Davy) کے لیکچر ز میں بھی حاضری دیتا تھا ۔
ایک دن پروفیسر ڈے وی کی آنکھ کو ایک کیمیائی حادثے کے نتیجہ میں زبردست نقصان پہنچا جس کے بعد انہوں نے فیراڈے کو اپنا سیکرٹری رکھ لیا۔ فیراڈے نے رفتہ رفتہ رائل انسٹیٹیوٹ میں موجود سائنس دانوں کا اعتماد حاصل کرنا شروع کیا۔ اگرچہ اکثر اس کو یہاں پر تجربات کرنے منع کر دیا جاتا تھا لیکن پھر بھی وہ کوشش کرکے اپنے کچھ اہم تجربات کرنے کی اجازت حاصل کر ہی لیتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ پروفیسر ڈے وی اپنے نوجوان معاون کی زبردست ذکاوت سے جلنے لگا جو اس وقت تجرباتی حلقوں میں ایک ابھرتا ہوا ستارا بن کر پروفیسر ڈے وی کو گہنا رہا تھا۔ ١٨٢٩ء میں ڈے وی کی موت کے بعد فیراڈے کو اس بات کی کھلی چھٹی مل گئی تھی کہ وہ اپنے چونکا دینے والے ان تجربات کے سلسلوں کو جاری رکھے جن کے نتیجے میں جنریٹر کی ایجاد ہوئی جس نے پورے کے پورے شہروں کو فعال و روشن کر دیا تھا اور دنیا کی تہذیب کو بدل کر رکھ دیا تھا۔
فیراڈے کی عظیم دریافتوں کی کنجی اس کی قوّت کے میدان تھے۔ اگر لوہے کا برادہ (Iron Filings)مقناطیس کے اوپر رکھا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ لوہے کے اس برادے نے مکڑی کے جالے جیسا نمونہ بنا کر خالی جگہ کو بھر دیا ہوگا۔ یہ فیراڈے کی قوّت کی لکیریں تھیں جو ترسیمی (گرافیکلی) طور پر اس بات کو بیان کرتی ہے کہ کیسے برقی اور مقناطیسی قوّت میدان خالی جگہ میں نفوذ کر جاتے ہیں۔ اگر مثال کے طور پر کوئی زمین کے مقناطیسی میدانوں کو گراف کی شکل میں بنائے تو وہ دیکھے گا کہ لکیریں شمالی قطب سے نکل کر زمین کے جنوبی قطب میں جا کر گر رہی ہیں۔ اسی طرح سے اگر کوئی برق و باراں کے طوفان میں بجلی کی لکیروں کے برقی میدان کا گراف بنائے تو اس کو قوّت کی یہ لکیریں بجلی کش سلاخ کے اوپری حصّے پر مرتکز نظر آئیں گی۔ فیراڈے کے مطابق خالی خلاء بجائے خالی ہونے کے قوّت کی لکیروں سے بھری ہوئی ہوتی ہے جو دور دراز کے اجسام کو حرکت میں لا سکتی ہے۔ (فیراڈے نوجوانی میں غربت کی وجہ سے ریاضی سے نابلد تھا جس کے نتیجے میں اس کی نوٹ بک میں ریاضی کی مساوات بھری ہونے کے بجائے ہاتھ سے بنی ہوئی ان لکیروں کی قوّت کے خاکے تھے۔ حیرت انگیز طور پر ریاضی میں نا تجربہ کاری کے باوجود اس کی بنائی ہوئی لکیروں کی قوّت کے خوبصورت خاکے آج کی کسی بھی طبیعیات کی ٹیکسٹ بک میں ملتے ہیں۔ طبیعیات کی دنیا میں اس کو بیان کرنے کے لئے اکثر تصاویر ریاضی کی مساوات سے زیادہ اہم ہوتی ہیں۔)
تاریخ دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ کس طرح سے فیراڈے اپنی اس دریافت قوت میدان تک پہنچا جو سائنس کی دنیا میں ایک نہایت ہی اہم تصوّر ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جدید طبیعیات کا اگر ہم نچوڑ لیں تو وہ فیراڈے کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی زبان میں ہی لکھا جائے گا۔ ١٩٨٣ء اس نے غیر مرئی حفاظتی ڈھال کی وہ اہم بات دریافت کر لی تھی جس نے انسانی تہذیب کو ہمیشہ کے لئے بدل کر رکھ دیا تھا۔ ایک دن وہ بچوں کے مقناطیس کو کسی تار کے لچھے پر گھما رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ اس طریقے میں اس نے تار کو چھوئے بغیر اس میں برقی رو پیدا کر لی ہے۔ اس نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقناطیس کے غیر مرئی میدان نے تار میں موجود الیکٹران کو خالی جگہ میں دھکا دے کر برقی رو پیدا کردی تھی۔
فیراڈے کی دریافت کردہ قوّت کے میدان جو پہلے فضول ، بیکار اور بے مقصد سمجھے جاتے تھے وہ درحقیقت اصل میں مادّے کو حرکت دے سکتے تھے اور برق کو پیدا کر سکتے تھے۔ آج جس بجلی کی روشنی میں آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں اس نے شاید فیراڈے کی دریافت شدہ برقی مقناطیسیت سے توانائی حاصل کی ہو۔ ایک گھومتا ہوا مقناطیس ایک ایسا قوّت میدان پیدا کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو حرکت دیتا ہے جس کے نتیجے میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ تار میں موجود یہ برق کسی بلب کو روشن کرنے کے کام آسکتی ہے۔ یہ ہی اصول اس بجلی کی پیداوار میں استعمال ہوتا ہے جن سے آج کی دنیا کے ہمارے شہر روشن ہیں۔ مثال کے طور پر ڈیم میں بہتا ہوا پانی ٹربائن میں موجود ایک بہت بڑے مقناطیس کو گھومنے پر مجبور کرتا ہے جو تار میں موجود الیکٹران کو دھکیلتا ہے جس سے برقی رو وجود میں آتی ہے جسے ہائی وولٹیج تاروں کے ذریعہ ہمارے گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔
دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ مائیکل فیراڈے کی قوّت کے میدان وہی طاقت ہے جس نے جدید انسانی تہذیب کی بنیاد ڈالی۔ اس کی دریافت کی بدولت ہی ہم برقی بلڈوزر سے لے کر ، آج کے کمپیوٹر ، انٹرنیٹ، اور آئی پوڈ استعمال کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔
فیراڈے کی قوّت میدان پچھلے ١٥٠ سال سے ماہرین طبیعیات کے لئے تشویق کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ آئن سٹائن اس کے کام سے اتنا متاثر تھا کہ اس نے اپنا قوّت ثقل سے متعلق نظریہ قوّت کے میدان کی صورت میں پیش کیا۔ میں خود بھی فیراڈے کے کام سے بہت زیادہ متاثر ہوں۔ کافی سال پہلے میں نے کامیابی کے ساتھ ا سٹرنگ کا نظریہ فیراڈے کی قوّت میدان کی زبان میں لکھا جس نے بعد میں چل کرا سٹرنگ کے میدان کے نظریہ کی بنیاد ڈالی۔ اگر کبھی طبیعیات میں کوئی یہ کہے کہ وہ لکیروں کی قوّت کی طرح سوچتا ہے تو اس کا مطلب ایک زبردست داد دینا ہوتا ہے۔
چار قوّتیں
دو ہزار برسوں پر محیط طبیعیات کی ایک شاہانہ دریافت قدرت کی بنیادی چار قوّتوں کو پہچاننا اور ان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ہے جو کائنات پر راج کر رہی ہیں۔ یہ سب کی سب میدان کی اس زبان میں بیان کی جا سکتی ہیں جس کو فیراڈے نے متعارف کروایا تھا۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی میں بھی وہ قوّت میدان والی خصوصیات موجود نہیں ہیں جو زیادہ تر سائنس فکشن فلموں میں بیان کی جاتی ہیں۔ وہ طاقتیں یہ ہیں۔
١۔ کشش ثقل، ایک خاموش طاقت ہے جو ہمارے قدموں کو زمین کے اوپر رکھنے میں مدد دیتی ہے، یہ زمین اور ستاروں کو ٹوٹنے سے بچاتی ہے اور نظام شمسی اور کہکشاؤں کو باندھ کر رکھتی ہے۔ قوّت ثقل کے بغیر ہم اس گھومتے ہوئے سیارے کی بدولت، زمین کی سطح سے اٹھا کر خلاء میں ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینک دیئے جائیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ قوّت کے میدان کی وہ خصوصیات جن کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے، قوّت ثقل کی خصوصیات اس کے بالکل برعکس ہوتی ہیں۔ قوّت ثقل کشش رکھتی ہے دھکیلتی نہیں ، جبکہ نسبتاً یہ بہت ہی زیادہ نحیف ہوتی ہے اور یہ فلکیاتی بے انتہاء فاصلوں پر کام کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اس پتلی، چپٹی ، غیر نفوذ پذیر رکاوٹ ، جو لوگ سائنس فکشن میں پڑھتے اور دیکھتے ہیں ،سے بالکل ہی مختلف ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر پورے سیارہ زمین کی کشش ثقل ایک" پر" کو نیچے گرنے پر مجبور کرتی ہے مگر ہم اپنی صرف انگلی سے اس" پر" کو زمین کی ثقلی قوّت سے آزاد کر کے اٹھا لیتے ہیں۔ اس دوران ہماری انگلیوں نے اس پورے سیارے کی قوّت ثقل کے مخالفت میں کام کیا ہوتا ہے جس کا وزن ٦٠٠ کھرب کھرب کلوگرام ہے۔
٢۔ برقی مقناطیسی قوّت ، وہ طاقت جس نے ہمارے شہروں کو روشن کیا ہوا ہے۔ لیزر، ریڈیو، ٹیلی ویژن، جدید الیکٹرانکس ، کمپیوٹرز، انٹرنیٹ، برقی رو ، مقناطیسیت سب کے سب برقی مقناطیسی قوّت کے کرشمے ہیں۔ شاید ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ انسان کی دریافت کردہ طاقتوں میں یہ سب سے زیادہ مفید ہے۔ قوّت ثقل کے برخلاف یہ کھینچنے اور دھکیلنے دونوں کے کام کرتی ہے۔ اس کے باوجود کافی ایسی وجوہات ہیں جن کے سبب یہ قوت میدان کے طور پر کام کرنے کے لئے بالکل نامناسب قوّت ہے۔ یہ آسانی سے معتدل ہو سکتی ہے۔ پلاسٹک اور دوسرے حاجز مادّے آسانی سے طاقتور مقناطیسی میدان یا برقی میدان میں سے گزر سکتے ہیں۔ پلاسٹک کا کوئی بھی ٹکڑا مقناطیسی میدان کی طرف پھینکا جائے تو وہ آسانی سے اس کو پار کر لے گا۔ دوسری بات یہ ہے کہ برقی مقناطیسی قوّت لمبے فاصلوں سے کام کرتی ہیں اور آسانی کے ساتھ کسی سطح پر مرتکز نہیں ہوتی۔ برقی مقناطیسی قوّت کے قوانین جیمز کلارک میکس ویل (James Clerk Maxwell)نے وضع کر دیئے ہیں جو مساوات کی شکل میں ہیں اور یہ مساوات کسی بھی قوّت کے میدان کا حل نہیں بتاتی ہے۔
٣۔ کمزور اور مضبوط نیوکلیائی قوّتیں۔ کمزور نیوکلیائی قوّت تابکاری کے انحطاط کے سلسلے کی طاقت ہے۔ یہ وہ تابکار طاقت ہے جس نے زمین کے قلب کو گرم کیا ہوا ہے۔ یہ ہی وہ طاقت ہے جو آتش فشانوں، زلزلوں، اور بر اعظموں کے بہنے کی ذمہ دار ہے۔ مضبوط نیوکلیائی قوّت ایٹم کے مرکزے کو تھام کر رکھتی ہے۔ سورج اور ستاروں کی توانائی نیوکلیائی قوّت سے ہی پیدا ہوتی ہے جو کائنات کو روشن کرنے کی ذمہ دار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ نیوکلیائی قوّتیں بہت ہی کم علاقے میں عمل پیرا ہوتی ہیں جس کے نتیجے میں یہ صرف مرکزے کے اندر ہی کام کر سکتی ہیں۔ کیونکہ یہ مرکزے کا ساتھ بہت زیادہ جڑی ہوئی ہوتی ہے لہٰذا اس میں توڑ جوڑ کرنا نا ممکن کی حد تک مشکل کام ہے۔ اس وقت تو ہمارے پاس اس قوّت کو استعمال کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم ایٹم کے ذیلی ذرّات دوسرے ایٹموں پر مار کر پھاڑ کر الگ کریں یا اس کا استعمال نیوکلیائی بم کو پھاڑنے کریں۔
اگرچہ قوّت کے میدان جن کا استعمال سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے کسی بھی مروجہ طبیعیات کے قوانین سے مطابقت نہیں رکھتی ہیں۔ اب بھی ایسے کافی زیادہ نقائص موجود ہیں جو کسی بھی قوّت کے میدان کی تخلیق میں آڑے آئیں گے۔ سب سے پہلے تو ایک پانچویں طاقت موجود ہو سکتی ہے جسے ابھی تک کسی بھی تجربہ گاہ میں نمودار ہوتا ہوا نہیں دیکھا گیا۔ مثال کے طور پر ایسی کوئی بھی قوّت شاید فلکیاتی فاصلوں کے بجائے چند انچ سے لے کر چند فٹ تک کام کر سکے۔(اس پانچویں قوّت کو ناپنے کی ابتدائی کوششوں نے منفی نتائج ہی دیئے۔)
دوسرے یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ پلازما کا استعمال کرتے ہوئے قوّت میدان کی کچھ خصوصیات کو بنایا جا سکے۔ پلازما" مادّے کی چوتھی" حالت ہے۔ ٹھوس، مائع اور گیس مادّے کی وہ تین حالتیں ہیں جن سے ہم زیادہ شناسا ہیں ، مگر کائنات میں مادّے کی سب سے زیادہ پائی جانے والی حالت پلازما کی ہے، جو کہ برق پارہ(جس کو آئن اور روان بھی کہتے ہیں ) ایٹموں پر مشتمل گیس ہوتی ہے۔ کیونکہ پلازما میں ایٹم علیحدہ علیحدہ توڑ دیئے جاتے ہیں ، جس میں الیکٹران ایٹموں سے اتار لئے جاتے ہیں ، اس لئے ایٹم برقی طور پر بار دار ہوتے ہیں لہٰذا ان کو آسانی سے برقی اور مقناطیسی میدانوں میں توڑا جوڑا جا سکتا ہے۔ پلازما کائنات میں دکھائی دینے والا سب سے زیادہ مادّہ ہے۔ سورج، ستارے، اور بین النجم گیسیں سب کے سب پلازما سے بنی ہوئی ہیں۔ ہم پلازما سے اس لئے زیادہ شناسا نہیں ہیں کیونکہ یہ زمین پر زیادہ نظر نہیں آتا ہے۔ مگر ہم اس کو کڑکتی بجلی میں، سورج میں اور اپنے پلازما ٹیلی ویژن کے اندر دیکھ سکتے ہیں۔
پلازمے کی کھڑکیاں
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ جب گیس کے درجہ حرارت کو کافی بڑھایا جائے تو پلازما بنتا ہے۔ جس کو مقناطیسی اور برقی میدان کے ذریعہ موڑا اور ڈھالا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس کو کسی چادر (شیٹ) یا کھڑکی کی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ مزید براں اس پلازما کی کھڑکی کو ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اصولی طور پر اس پلازما کو خلائی جہاز میں موجود ہوا کو باہر نکلنے سے روکنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں ایک شفاف نقطہ اتصال باہری خلاء اور خلائی جہاز کے درمیان بنایا جا سکتا ہے۔
اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن فلم کے سلسلے میں ایک ایسی قوّت میدان کو شٹل بے کو باہری خلاء سے الگ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ شٹل بے میں ایک چھوٹی شٹل کرافٹ موجود ہوتی ہے۔ اس طریقے میں نا صرف چالاکی سے مداریوں سے پیسے بچائے جا سکتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایک ایسا آلہ بھی حاصل کیا جا سکتا ہے جو کہ بنانا ممکن ہو۔
پلازما کی کھڑکی ١٩٩٥ء میں بروک ہیون نیشنل لیبارٹری جو کہ لونگ آئی لینڈ نیو یارک میں واقع ہے وہاں پر کام کرنے والے ایک ماہر طبیعیات ایڈی ہرش کاوچ (Ady Hershcovitch) نے ایجاد کی۔ اس نے ایک مسئلے سے نمٹنے کے لئے اس کھڑکی کو بنایا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھا کہ کس طرح سے دھاتوں کو الیکٹران کی کرنوں سے ویلڈ کیا جائے۔ ایک ویلڈر کی ايسيٹيلِيَن(Acetylene) کی ٹارچ میں گرم گیسوں کے دھماکے سے دھات کو پگھلایا جاتا ہے اور پھر اس پگھلی ہوئی دھات سے ٹکڑوں کو جوڑا جاتا ہے۔ دوسرے عام طریقوں کے مقابلے میں الیکٹران کی کرن دھاتوں کو تیزی ، صفائی اور سستے میں ویلڈ کر لیتی ہے۔ لیکن الیکٹران کی کرن کے ساتھ ویلڈنگ کرنے میں ایک مسئلہ جڑا ہوا تھا۔ وہ مسئلہ یہ تھی کہ ویلڈنگ صرف خالی جگہ میں ہی ہو سکتی تھی ۔ اس ویلڈنگ کے طریقے میں ایک خلاء کا خالی ڈبہ جو ایک کمرے جتنا ہو بنا نا پڑ تا ہے یعنی اس طرح کی ویلڈنگ کے لوازمات کافی زحمت زدہ ہیں۔
ڈاکٹر ہرش کا وچ نے اس مسئلہ کا حل پلازما کی کھڑکی ایجاد کر کے نکال لیا۔ صرف تین فٹ اونچی اور ایک فٹ سے بھی کم قطر میں پلازما کی کھڑکی گیس کے درجہ حرارت کو بارہ ہزار فارن ہائیٹ درجہ تک جا پہنچاتا ہے جس کے نتیجے میں پلازما ، برقی اور مقناطیسی میدان کے درمیان قید ہو جاتا ہے۔ یہ ذرّات دباؤ ڈالتے ہیں جیسا کہ کسی بھی گیس میں ہوتا ہے، جو ہوا کو خالی چیمبر میں جانے سے روکتا ہے ، جس سے ہوا کو خالی جگہ سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے۔(جب آرگان(Argon) گیس پلازما کی کھڑکی میں استعمال کی جاتی ہے تو یہ نیلے رنگ میں دہکتی ہے بعینہ ویسے ہی جیسے اسٹار ٹریک میں غیر مرئی حفاظتی ڈھال میں نظر آتی ہے۔)
پلازما کی کھڑکی کا استعمال خلائی صنعت و سیاحت میں کافی وسیع پیمانے پر ہے۔ کئی موقعوں پر صنعتکاری کے عمل میں خرد بناوٹوں(Microfabrication) اور صنعتی عمل کی خشک نقش کاری(Dry Etching) کے لئے خالی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن خالی جگہ میں کام کرنا ایک مہنگا عمل ہے۔ اب پلازما کی کھڑکی کی ایجاد کے بعد اس کے ذریعہ کوئی بھی سستے طریقے میں ایک بٹن سے پلک جھپکتے میں خالی خلاء کو بنا سکتا ہے۔
کیا پلازما کی کھڑکی کو نفوذ ناپذیر ڈھال بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے؟ کیا وہ کسی توپ سے داغے گئے گولے کو روکنے کے قابل ہے؟ مستقبل میں ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں کہ پلازما کی کھڑکی بہت زیادہ طاقتور اور اونچے درجہ حرارت والی ہو سکتی ہے ، جو باہر سے آنے والی کسی بھی چیز کو آسانی سے نقصان پہنچا سکتی ہے یا پھر اسے تحلیل بھی کر سکے گی۔ بہرحال اس قسم کی غیر مرئی حفاظتی ڈھال جیسی کہ سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جاتی ہے بنانے کے لئے کئی قسم کی مہارتوں کو جمع کرکے تہ در تہ رکھ کر ہی ایسی کوئی حقیقی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہر تہ اس قابل نہیں ہو کہ توپ کے گولے کو روک سکے مگر تمام تہیں مل کر شاید اس کو روک سکیں گی۔
ہو سکتا ہے کہ باہری پرت زبردست بار (Charge)والی پلازما کی کھڑکی ہو جس کا درجہ حرارت اس قدر زیادہ ہوگا کہ وہ دھاتوں کو پگھلا سکے گی۔ دوسری تہ میں اونچے درجے کی توانائی والی لیزر کی کرنیں ہوں گے۔ اس تہ میں ہزاروں لیزر کی کرنیں آڑھی ترچھی ہو کر ایک جالی کی سی صورت بنا دیں گی جو تہ میں سے گزرنے والے کسی بھی جسم کو گرم کرکے تحلیل کر دیں گی۔ میں لیزر پر اگلے باب میں مزید بات کروں گا۔
اور اس لیزر کے پردے کے پیچھے ایک کاربن نینو ٹیوبز سے بنی جالی بھی موجود ہو سکتی ہے۔ کاربن نینو ٹیوبز ننھی سی نلکیاں ہوتی ہیں جو کاربن کے انفرادی ایٹموں سے مل کر بنتی ہیں ان کی چوڑائی ایک ایٹم جتنی ہوتی ہے اور یہ سٹیل سے کئی گنا زیادہ مضبوط ہوتی ہیں۔ کاربن نینو ٹیوبز کی لمبائی کا ابھی تک کا عالمگیر ریکارڈ صرف ١٥ ملی میٹر لمبا ہی ہے۔ مگر اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم اپنی مرضی کے مطابق ان کو لمبا بنا سکیں گے۔ فرض کریں کہ کاربن نینو ٹیوبز کو اس جال میں پرویا جا سکتا ہو تو اس کے ذریعہ ایک ایسی انتہائی طاقتور اسکرین بنائی جا سکے گی جو زیادہ تر چیزوں کو دور پھینکنے کے قابل ہوگی۔ یہ اسکرین ایک طرح سے غیر مرئی ہوگی کیونکہ ہر کاربن نینو ٹیوب صرف ایک ایٹم پر ہی مشتمل ہوگی اس کے باوجود کاربن نینو ٹیوبز پر مشتمل یہ جال کسی بھی دوسرے مادّے سے بنے ہوئے جال سے زیادہ مضبوط ہوگا۔
لہٰذا پلازما کی کھڑکی کے ساتھ مل کر ، لیزر کا پردہ اور کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرین ایک غیر مرئی دیوار بنا سکتی ہیں جو ایک طرح سے کافی سارے اجسام کے لئے پار کرنا تقریباً ناممکن ہی ہوگا۔
اس کے باوجود یہ مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بھی مکمل طور پر سائنس فکشن میں دکھائی جانے والی قوّت میدان کی خصوصیات پوری نہیں کر پائے گی۔ کیونکہ یہ شفاف ہوں گی اور لیزر کی گزرنے والی کرنوں کو نہیں روک پائے گی۔ لہٰذا ایک ایسی جنگ میں جہاں لیزر کے گولے داغے جا رہے ہوں ، مختلف تہوں پر مشتمل حفاظتی ڈھال بیکار ہو جائے گی۔
لیزر کی شعاعوں کو روکنے کے لئے ڈھال کو ایک جدید ضیا لونی (Photo chromatics) طریقے کی ضرورت ہوگی۔ یہ وہ عمل ہے جو دھوپ سے بچنے کے لئے چشموں کو بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طریقے میں بننے والے دھوپ کے چشمے بالائے بنفشی شعاعوں(Ultra Violet Radiation) کے پڑتے ہی گہرے رنگ کے ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) کی بنیاد ان سالموں پر ہوتی ہے جو کم از کم دو حالتوں میں رہ سکتے ہیں۔ اپنی ایک حالت میں وہ سالمات شفاف ہوتے ہیں مگر جب ان پر بالائے بنفشی شعاعیں پڑتی ہیں تو وہ فوراً دوسری حالت میں آ جاتے ہیں جو کہ غیر شفاف ہوتی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں ہم ایک دن اس قابل ہو جائیں کہ نینو ٹیکنالوجی ( ٹیکنالوجی) کو استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا مادّہ پیدا کر لیں جو کاربن نینو ٹیوبز جتنا مضبوط ہو اور جس میں وہ بصری خصوصیات موجود ہوں جو ضیا لونی میں ہوتی ہیں تاکہ جب اس پر کوئی لیزر کی شعاع پڑے تو وہ تبدیل ہو جائے۔ اس طرح ایک ایسی ڈھال بن سکے گی جو اس صلاحیت کی حامل ہوگی کہ لیزر کی بوچھاڑ کو روکنے کے ساتھ ساتھ ذرّات کی بوچھاڑ اور توپ کے گولے کو بھی روک سکے۔ فل الحال ایک ایسا ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) جو لیزر کی شعاع کو روک سکے وجود نہیں رکھتا۔
مقناطیسی ارتفاع(Magnetic Levitation )
سائنس افسانوی فلموں میں قوّت میدان کا مقصد شعاعی گنوں کی بوچھاڑ کو پرے دھکیلنے کے علاوہ ایک ایسی مچان کا بھی کردار ادا کرنا تھا جو قوّت ثقل کو للکار سکے۔" بیک ٹو دا فیوچر" فلم میں مائیکل جے فاکس (Micheal J۔ Fox) ایک معلق تختے (ہوور بورڈ) پر سواری کرتا ہے جس کی شکل ا سکیٹ بورڈ سے ملتی ہے بس صرف فرق اتنا ہوتا ہے کہ وہ سڑک سے اوپر معلق ہو کر چلتا ہے۔ اس قسم کا آلہ جو قوّت ثقل کے مخالف کام کرتا ہو ہمارے جانے پہچانے طبیعیاتی قوانین کے تحت بنانا ممکن ہے(اس بات کی مزید تفصیل باب نمبر ١٠ میں بیان کی جائے گی۔) لیکن اس طرح کے مقناطیسی افزوں معلق تختے اور معلق کاریں مستقبل میں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں بشرط یہ کہ ہم بڑے اجسام کو اپنی مرضی سے ہوا میں اڑا سکیں۔ مستقبل میں اگر کمرے کے عام درجہ حرارت پرفوقی موصل ( سپر کنڈکٹر) حقیقت کا روپ دھار لیں تو مقناطیسی میدان کی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چیزوں کو ہوا میں معلق کرنا ممکن ہو سکے گا۔
" بیک ٹو دا
فیوچر" فلم میں مائیکل جے فاکس (Micheal J Fox) ایک معلق تختے
(ہوور بورڈ) پر سواری کرتا ہوا ۔
|
اگر ہم دو مقناطیسی پٹیاں ایک دوسرے کے قریب رکھیں جس میں دونوں کے شمالی قطبین ایک دوسرے کے مخالف ہوں تو وہ دونوں مقناطیس ایک دوسرے کو دھکیلیں گے(اگر ہم مقناطیسی پٹی کو گھما کر اس طرح سے دوسرے مقناطیسی بار کی طرف کر دیں کہ اس کا جنوبی قطب دوسرے کے شمالی قطب کی طرف ہو جائے تو وہ ایک دوسرے کو کھینچ لیں گے۔) اس اصول کا استعمال کرتے ہوئے جس میں ایک جیسے قطبین ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں زمین سے بڑی بھاری چیزیں اٹھائی جا سکتی ہیں۔ پہلے ہی کافی قومیں جدید مقناطیسی معلق ریل گاڑیاں (میگ لو ریلیں)بنا چکی ہیں جو عام مقناطیس کا استعمال کرتے ہوئے ریل کی پٹری سے تھوڑا سا اوپر رہتے ہوئے ہوا میں معلق رہتی ہیں۔ اس طرح سے انھیں رگڑ کی قوّت سے نبرد آزما ہونا نہیں پڑتا اور وہ ہوا کے اوپر تیرتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں ان کی رفتار سابقہ ریل گاڑیوں کی رفتار سے کہیں زیادہ ہے۔
١٩٨٤ء میں دنیا کی پہلی تجارتی خودکار معلق ریل (میگ لو ٹرین) نے اپنا نظام برطانیہ میں چلانا شروع کیا جو برمنگھم ایئرپورٹ سے شروع ہو کر قریبی برمنگھم ریلوے ا سٹیشن تک جاتی تھی۔ میگ لو ریل جرمنی، جاپان اور کوریا میں بھی چلائی گئیں اگرچہ ان میں سے زیادہ تر کو تیز سمتی رفتار کے لئے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔ سب سے پہلی تجارتی میگ لو ریل جو تیز سمتی رفتار پر چلنے کے لئے بنائی گئی ہے وہ انیشل آپریٹنگ سیگمنٹ (آئی او ایس)ڈیمونسٹریشن لائن ان شنگائی ہے جس کی زیادہ سے زیادہ رفتار ٢٦٨ میل فی گھنٹہ ہے۔ جاپانی میگ لو ریل نے یاما ناشی(Yamanashi) میں٣٦١ میل فی گھنٹہ کی سمتی رفتار حاصل کر لی ہے جو عام پہیے والی ریل سے زیادہ ہے۔
مگر یہ میگ لو گاڑیاں بہت زیادہ مہنگی ہیں۔ ان کی استعداد کو بڑھانے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فوقی موصل کا استعمال کیا جائے۔ جب فوقی موصل کو مطلق صفر درجہ حرارت کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کی برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔فوقی موصل ١٩١١ء میں ہیک اونس(Heike Onnes) نے دریافت کیا تھا۔ اگر کچھ مادّے ٢٠ کیلون درجہ حرارت سے نیچے ٹھنڈے کیے جائیں تو ان میں موجود ساری برقی مزاحمت ختم ہو جاتی ہے۔ عام طور سے جب ہم کسی دھات کو ٹھنڈا کرتے ہیں تو اس کی مزاحمت بتدریج کم ہوتی رہتی ہے(یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ایٹموں کی بے ترتیب ارتعاش الیکٹران کے بہاؤ میں مزاحم ہوتی ہے۔ درجہ حرارت کے کم کرنے پر ایٹموں کی یہ حرکت کم ہو جاتی ہے لہٰذا برق کم مزاحمت کے ساتھ گزر سکتی ہے۔) اونس کو اس وقت بہت ہی حیرت ہوئی جب اس نے دیکھا کہ کچھ مادوں میں یہ مزاحمت ایک دم فاصل درجہ حرارت (Critical Temperature)پر جا کر ختم ہو گئی۔
ماہرین طبیعیات نے اس دریافت کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیا تھا۔ برقی موصل کی تاروں میں توانائی کی اچھی خاصی مقدار بجلی کی لمبے فاصلوں میں ترسیل کے دوران ضائع ہو جاتی ہے۔ اگر اس ساری مزاحمت کو ختم کر دیا جائے تو برقی قوّت تقریباً مفت میں ہی پہنچائی جا سکتی ہے۔ در حقیقت بجلی اگر تاروں کے لچھے میں بنا کر چھوڑ دی جائے تو بجلی دسیوں لاکھوں سال تک تاروں کے لچھے میں کم ہوئے بغیر ہی گھومتی رہے گی۔ مزید براں زبردست طاقت کے مقناطیس تھوڑی سی کوشش کے ذریعہ اس عظیم برقی رو سے بنائے جا سکتے ہیں۔ ان مقناطیسوں کے ذریعہ زبردست وزن آسانی کے ساتھ اٹھائے جا سکتے ہیں۔
اپنی ان تمام تر معجزاتی طاقت کے باوجود فوق ایصالیت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان جسیم مقناطیسوں کو زبردست ٹھنڈے مائع میں ڈبو کر رکھنا بہت ہی زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔ مائع کو زبردست ٹھنڈا رکھنے کے لئے بہت بڑے ریفریجریشن پلانٹس درکار ہوں گے جس کے نتیجے میں بننے والے کامل موصل مقناطیس بہت زیادہ مہنگے پڑیں گے۔
ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب ماہرین طبیعیات اس قابل ہو جائیں گے کہ عام کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھوس جامد طبیعیات (Solid-State- Physics)کی دنیا کے شجر ممنوع فوقی موصل کو بنانے سکیں۔ فوقی موصل کی تجربہ گاہ میں ایجاد دوسرا صنعتی انقلاب برپا کر دے گا۔ طاقتور مقناطیسی میدان جو گاڑیوں اور ریل گاڑیوں کو اٹھانے کے قابل ہوں گے اس قدر سستے ہو جائیں گے کہ زمین کے اوپر منڈلاتی ہوئی گاڑیاں معاشی طور پر قابل عمل ہو سکیں گی۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرتے ہوئے فوقی موصل ، بیک ٹو دی فیوچر ، منور ٹی رپورٹ(Minority Report) اور اسٹار وارز میں دکھائی جانے والی اڑتی ہوئی گاڑیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔
حقیقت میں کوئی بھی فوقی موصل سے بنی ہوئی بیلٹ پہن کر بغیر کچھ کئے آسانی کے ساتھ زمین سے اٹھ کر ہوا میں معلق ہو سکتا ہے۔ اس بیلٹ کے سہارے کوئی بھی سپرمین کی طرح اڑ سکتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل اس قدر غیر معمولی ہیں کہ یہ کئی سائنسی افسانوی ناولوں میں بھی دکھائے دیئے ہیں (جیسا کہ رنگ ورلڈ سیریز جو ١٩٧٠ء میں لیری نیوِن[Larry Niven] نے لکھی تھی)۔
کئی دہائیوں سے ماہرین طبیعیات عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں ہیں جس میں انھیں ابھی تک ناکامی ہوئی ہے۔ ایک مادّے کے بعد دوسرے مادّے کو جانچنے کا یہ کام بہت زیادہ تھکا دینے والا اور آر یا پھر پار والا کام ہوتا ہے۔ ١٩٨٦ء میں ایک مادّے کی نئی جماعت تلاش کر لی گئی جو مطلق صفر درجے سے ٩٠ ڈگری اوپر فوقی موصل جیسا برتاؤ کرنے لگتی ہے۔ اس مادّے کو اونچے درجے کے فوقی موصل کا نام دیا گیا تھا۔ اس دریافت نے طبیعیات کی دنیا میں سنسنی پھیلا دی۔ ایسا لگا جیسے کہ نلکا کھول دیا گیا ہو۔ ہر گزرتے مہینے ، ماہرین طبیعیات نے ایک کے بعد ایک کم درجہ حرارت پر فوقی موصل حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑنے کی دوڑ لگا دی۔ تھوڑے عرصے کے لئے ایسا لگا کہ شاید کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل سائنسی افسانوی ناولوں میں سے چھلانگ لگا کر حقیقت کی دنیا میں آ جائیں گے۔ مگر کچھ سال کی تیزی کے بعد اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل پر تحقیق میں کمی ہو گئی۔
سر دست تو اونچے درجے پر فوقی موصل کا ریکارڈ جس مادّے کو حاصل ہے اس کا نام ہے "مرکری تھلیم بیریم کیلشیم کاپر آکسائڈ " جو فوقی موصل منفی ١٣٥ ڈگری پر بن جاتا ہے۔ عام کمرے کے درجہ حرارت سے یہ اب بھی کافی زیادہ ہے اس کو کمرے کے درجہ حرارت پر آنے میں ابھی کافی لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔ مگر یہ منفی ١٣٥ ڈگری درجہ حرارت کافی اہم ہے۔ نائٹروجن منفی ١٩٦ ڈگری درجہ حرارت میں مائع کی حالت میں بدل جاتی ہے اور اس کی قیمت عام بکنے والے دودھ جتنی ہی ہوتی ہے۔ لہٰذا عام مائع نائٹروجن ان اونچے درجہ حرارت والے فوقی موصل کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سستے میں استعمال کی جا سکتی ہے(بے شک کمرے کے درجہ حرارت پر فوقی موصل کو کام کرنے کے لئے کسی بھی قسم کی ٹھنڈ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔)
کافی شرمندگی کی بات ہے کہ ابھی تک کوئی بھی نظریہ اونچے درجے والے فوقی موصل کی خصوصیات کو بیان نہیں کر سکا۔ نوبل پرائز اس بات کی انتظار میں ہے کہ کوئی اولوالعزم ماہر طبیعیات اس بات کو بیان کر سکے کہ کس طرح سے یہ اونچے درجہ والی فوقی موصل کام کرتے ہیں۔(یہ اونچے درجے حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل ایٹموں کی جداگانہ تہوں کو لگا کر بنائے جاتے ہیں۔ کئی ماہر ین طبیعیات نے اس بات کو پیش کرنے کی کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ سفالی[سرامک] مادّے کی تہیں الیکٹران کے ایک تہ سے دوسرے تہ تک کے آزادانہ بہنے کو ممکن بناتی ہوں جس کے نتیجے میں یہ فوقی موصل بن جاتے ہوں۔ لیکن یہ عمل ہوبہو کیسا ہوتا ہے یہ ابھی تک ایک معمہ ہی ہے۔)
بدقسمتی سے اس علم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی ماہرین طبیعیات نئے اونچے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کی تلاش میں اسی آر یا پھر پار والے عمل کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہو سکتا ہے کہ افسانوی عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کل دریافت ہو جائے، یا پھر اگلے سال یا پھر کبھی نہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لگے گا نا ہی یہ معلوم ہے کہ کیا کوئی ایسے مادّے کا وجود بھی ہے کہ نہیں جو فوقی موصل کے طور پر عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کر سکتا ہے۔
کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والی فوقی موصل دریافت ہو گئے تو تجارتی پیمانے پر اشیاء کا سیلاب آ جائے گا۔ زمین کے مقناطیسی میدانوں سے دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور مقناطیسی میدان ہر جگہ نظر آئیں گے۔ فوق ایصالیت کی ایک خاصیت کو" میسسنر کا اثر"(Meissner effect) کہتے ہیں۔ اگر آپ مقناطیس کو فوقی موصل کے اوپر رکھ دیں تو مقناطیس ہوا میں معلق ہو جائے گا ایسا لگے گا جیسے کہ کسی غیر مرئی طاقت نے اس کو تھام کر رکھا ہوا ہے۔(میسسنر اثر میں ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مقناطیس اپنا عکسی مقناطیس فوقی موصل کے اندر بنا لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اصل مقناطیس اور اس کا عکسی مقناطیس ایک دوسرے کو دفع کرتے ہیں۔ اس بات کو ایک دوسرے طریقے سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ مقناطیسی میدان فوقی موصل میں داخل نہیں ہو سکتے اس کے بجائے فوقی موصل مقناطیسی میدان کو دھکیلتے ہیں۔ لہٰذا اگر مقناطیس کسی فوقی موصل کے اوپر رکھا جائے گا اس کے لکیروں کی قوّت کو فوقی موصل دفع کرے گا جس کے نتیجے میں لکیروں کی قوّت مقناطیس کو اوپر کی جانب دھکیلتی ہوئی اس کو ہوا میں معلق کر دے گی۔
میسنر کے اثر کے ذریعہ ہم مستقبل میں اس بات کا تصوّر کر سکتے ہیں کہ ہائی ویز اس خصوصی سفال (سیرامکس) سے بنے ہوں گے۔ ہماری بیلٹ یا گاڑی کے پہیوں میں لگے ہوئے مقناطیس ہمیں ہماری منزل کی طرف جادوئی طریقے سے تیرتے ہوئی بغیر رگڑ یا توانائی کے زیاں کے پہنچا دیں گے۔
میسنر کا اثر صرف مقناطیسی مادّوں پر ہی ہوتا ہے جیسے کہ دھاتیں۔ مگر یہ بات بھی ممکن ہے کہ کامل موصلیت والے مقناطیسوں کو غیر مقناطیسی مادّوں کو معلق کرنے میں استعمال کیا جا سکے۔ غیر مقناطیسی مادّوں کو پیرا مقناطیسی(Paramagnet) مادّے اور ارضی مقناطیسی(Diamagnet) مادّہ بھی کہتے ہیں۔ ان مادّوں کی اپنی مقناطیسی خاصیت نہیں ہوتی مگر یہ اپنی مقناطیسی خاصیت صرف داخلی مقناطیسی میدان کی موجودگی میں ہی حاصل کر سکتے ہیں۔ پیرا مقناطیسی مادّے مقناطیس کی طرف کھینچتے ہیں جب کہ ارضی مقناطیسی مادّے مقناطیس کو دھکیلتے ہیں۔
مثال کے طور پر پانی ارضی مقناطیس ہے۔ کیونکہ تمام جاندار پانی سے بنے ہیں لہٰذا وہ طاقتور مقناطیسی میدان کی موجودگی میں معلق ہو سکتے ہیں۔ ١٥ تسلا کے مقناطیسی میدان میں (جو زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٣٠ ہزار گنا زیادہ ہے ) سائنس دانوں نے چھوٹے جانوروں جیسے کہ مینڈک کو ہوا میں اٹھا لیا ہے۔ اگر کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل حقیقت بن گئے تو بڑی غیر مقناطیسی اشیاء کو ان کی ارضی مقناطیسی خصوصیت کی بناء پر اٹھانا ممکن ہو جائے گا۔
قصہ مختصر سائنسی افسانوں میں بیان کیے جانے والی قوّت کے میدان کائنات کی بنیادی چار قوّتوں میں کہیں پوری نہیں اترتیں۔ اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ قوّت کے میدان کی بیان کی جانی والی کئی خصوصیات کی نقل کی جا سکے۔ یہ نقل کئی تہوں والی ڈھال جو پلازما کی کھڑکی، لیزر کے پردے، کاربن نینو ٹیوبز کی اسکرینوں اور ضیا لونی (فوٹو کرومٹکس) پر مشتمل ہو کر بنائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس قسم کی غیر مرئی ڈھال کو بنانے میں کئی دہائیاں یا ہو سکتا ہے کہ پوری صدی بھی لگ جائے۔ لیکن عام کمرے کے درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل تلاش کر لئے گئے تو ان کے ذریعہ طاقتور مقناطیسی میدان سائنسی افسانوی فلموں میں دکھائی جانے کاروں اور ریل گاڑیوں کو زمین سے بلند کرکے ہوا میں معلق کر سکیں گے۔
ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے قوّت میدان کو ناممکنات کی جماعت I میں رکھا ہے۔ یعنی کہ جو چیز آج کی ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ناممکن ہے وہ اگلی ایک صدی یا اس سے زیادہ کے عرصے میں اپنی شکل کو بدلتے ہوئے ممکن ہو سکتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں