کائنات میں موجود ہرچیز کسی نہ کسی کا گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ ستارے کہکشاؤں کے مرکز کے گرد،سیّارے ستاروں کے گرد ارو چاند سیّاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود کچھ چاند وں پر پرفیلے آتش فشاں موجود ہیں جبکہ کچھ کی سطح کے نیچے عظیم الشان سمندر بہہ رہے ہیں۔ یہ چاند ہمیں نظام شمسی کی وہ ان کہی داستان سناتے ہیں جو ہم میں سے زیادہ تر نہیں جانتے یہ ہمیں نظام شمسی کےکام کرنے کےطریقہ کار کو بہتر انداز سے سمجھاتے ہیں۔ ہماری کائنات میں قابل رہائش چاندوں کی تعداد قابل رہائش سیّاروں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں کل ملا کر آٹھ سیّارے ہیں۔ ان میں سے صرف ٦ کے گرد چاند موجود ہیں۔مگر ان چاندوں کی تعداد اچھی خاصی ہے لگ بھگ١٦٨ کے قریب چاند ان ٦ سیّاروں کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ان میں سے ہر ایک چاند ایک مفرد اور مختلف شناخت رکھتا ہے اور اپنی مثال آپ ہے۔ جب ہم نظام شمسی کے جائزہ لیتے ہیں تو ہم کو سیّاروں کی اچھی خاصی تعداد نظر آتی ہے مگر ان سیّاروں کے گرد چکر کاٹنے والےمہتابوں کی تعدادان سے کہیں زیادہ ہے ۔ نظام شمسی میں موجود یہ چاند کئی طرح سےان سیّاروں سے زیادہ دلچسپی کے حامل ہیں جن کے گرد وہ چکر کاٹ رہے ہیں ۔
ہمارے نظام شمسی میں فضا اور حرارت سے محروم اور مردہ چاند بھی ہیں جیسے کے ہمارا اپنا چندا ماما۔ پھر سورج کے بیرونی مدار میں موجود سیّاروں کے گرد گھومتے ہوئے ایسا چاند بھی ہیں جن کے زیر زمین اپنے سمندر اور اپنے ماحول (Atmosphere)بھی ہیں۔ عظیم الشان جولا مکھی ، سرد ترین درجہ اور نظام شمسی کے سب سے بڑے سمندر یہ سب چاندوں پر ہی موجود ہیں۔ کچھ چاندوں پر برفیلے آتش فشاں (Ice Volcanoes)موجود ہیں، کچھ چاندوں پر پر میتھین گیس کی جھیلیں ، میتھین گیس کے بادل اور اس کی بارش کا نظام بھی موجود ہے۔ ان پر موجود آتش فشاں اس قدر زندہ اور عامل ہیں کہ وہ چاند کی سطح کو مستقل بناتے رہتے ہیں۔ ہر قسم کے گرد و غبار کو اگلتے ہوئے چاند بھی ہمارے نظام شمسی کا حصّہ ہیں۔ نظام شمسی میں موجود چاندوں کا ماحول اور فضا اس قدر متنوع فیہ ہے کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔
مشتری اور زحل کے چاند اتنے پیچیدہ اور پرسرار ہیں کہ وہ بالکل ایک الگ ہی جہاں کی طرح ہیں۔مشتری اور زحل ہر ایک کے علیحده علیحده٦٠ سے زائد چاند ہیں۔ یہ گیسی دیو اور ان کے چاندوں نے ایک طرح سے چھوٹا نظام شمسی(Mini Solar System) قائم کر رکھا ہے۔ ان کے ہر چاند کی ایک منفرد شناخت ہے۔ آیا پٹس کالے اور سفید (Iapetus) دو رنگوں کا چاند ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١)۔ ٹائٹن (Titan)اپنے کثیف ماحول اور نارنجی رنگ کی وجہہ سے سب سے ممتاز نظر آتا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٢)۔ برفیلا انسیلیڈس (Enceladus) برف کےچشمے Geysers)) ٢٠٠ میل فضا میں چھوڑتا ہوا ایک منفرد چاند ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣)۔ ان تمام چاندوں کی منفرد شناخت کے باوجود جو ایک چیز ان میں قدر مشترک ہے وہ ان کا اپنے سیّارے کا قدرتی سیّارچہ(Natural Satellite) ہونا ہے۔ یہ قوّت ثقل کی وجہہ سے اپنے سیّارے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ مگر چاند صرف سیّاروں کے گرد ہی چکر نہیں کاٹتے بلکہ یہ اس سے بڑھ کر کام کرتے ہیں۔ یہ سیّاروں کو ان کے مداروں میں پائیداری کے ساتھ جمے رہنے میں مدد کرتے ہیں تاکہ نظام شمسی پرسکون انداز میں قائم و دائم رہے۔
چاندوں کی یہ منفرد شناخت اور آپس کی تفاوت قوانین سائنس اور اٹکل چٹانی اور گیسی تصادموں کے درمیان بہت ہی دلچسپ ہم آہنگی کا مظہر ہے۔آپ قوانین سائنس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی کسی بھی چیز کو تو قیاس کرسکتے ہیں کہ وہ کیسی ہوگی مگر بے ترتیب اور اٹکل ٹکراؤ کے نتیجے میں کیا حاصل ہوگا اور اس بات کا کیا امکان ہوگا کہ وہ ایک مخصوص ماہیت ہی حاصل کرسکیں یہ کبھی بھی درست طرح سے قیاس نہیں کرسکتے ۔سیّارے اور چاند دونوں ایک ہی پیدائشی عمل سے گزرتے ہیں۔ایک دفعہ ستارے کی پیدائش کا عمل شروع ہوجائے اس کے نتیجے میں بچنے والی گرد و غبار کے گیسی بادل اتنے ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر چٹانیں بناتے ہیں، پھر وہ چٹانیں بٹے بناتی ہیں،وہ بٹے بڑے بٹے بناتے ہیں ۔ یہ عمل تہہ پر تہہ چڑھانے کا عمل(Accretion) کہلاتا ہے ۔ بالکل ایسا ہی جیسے کہ ایک برف کی گیند کو بنا کر کسی برف کے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دیں۔ جیسے جیسے وہ گیند نیچے لڑکے گی ویسے ویسے بڑی اور سخت ہوتی جائے گی۔ اسی تہہ دار عمل کے نتیجے میں سیّاروں اور ان کے گرد موجود چاندوں کی پیدائش ہوتی ہے۔اگرچہ یہ عمل بہت ہی سادہ سا لگتا ہے مگر یہ ہوتا کیسا ہے ٢٠٠٣ءسے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا ۔ ہم سیّاروں کے پیدائش کے اس طریقے کی کھوج کو اپنے پچھلے مضمون " کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے "میں کافی تفصیل کے ساتھ بتا چکے ہیں لہٰذا یہاں دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
اب یہاں یہ سوا ل پیدا ہوتا ہے کہ اگر سب چاند ایک ہی طریقے سے پیدا ہوتے ہیں تو یہ اتنے مختلف اور منفرد کیوں ہیں۔صرف مشتری کے دو چاندوں ہی کو لیجئے ۔ کللسٹو(Callisto) اور گینا میڈ(Ganymede) ۔ دونوں ہی نہایت مختلف چاند ہیں جبکہ دونوں ایک ہی گیسی گرد و غبار کے بادل سے وجود میں آئے ہیں۔ مشتری کے پیدائش کے اولین دور میں گینا میڈ مشتری کے قریب پیدا ہوا۔اس وقت وہاں گرد و غبار کے کافی بادل موجود تھے ۔ مادّے کی وافر مقدار کے موجود ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ بہت جلدلگ بھگ ١٠ ہزار سال میں پیدا ہوگیا۔ اس کا درجہ حرارت پیدائش کے وقت کافی زیادہ تھا۔ حرارت نے برف کو چٹانوں سے الگ کردیا تھا جس کی وجہہ سے اس کے مختلف ارضی مناظر آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤)۔ اصل میں چاند اس طرح کے کیوں نظر آتے ہیں جیسے کہ وہ آج ہیں ۔ ان کی اس صورت گری کی اصل وجہہ توانائی ہے وہ توانائی جو ان کو اس تہہ دار عمل میں ملی اوراس میں سے کتنی توانائی انہوں نے بچا کر رکھی اور کتنی توانائی انہوں نے کھو دی۔ یہ تمام عوامل ہمیں اس بات کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں کہ چاند ایسا برتاؤ کیوں کرتے ہیں اور آج اپنی اس موجودہ شکل میں کیوں نظر آتے ہیں۔
کللسٹوکی سطح ایک مختلف کہانی سناتی ہے ۔ یہ اس جگہ پیدا ہوا تھا جہاں گیس اور گرد کے غبار اور حرارت نسبتا"کم موجود تھی۔ اس نے پیدا ہونے میں زیادہ وقت لیا اور جلد ہی ٹھنڈا بھی ہوگیا۔ اس کی سطح گینا میڈ سے بالکل الگ ایک جیسی ہے۔ یہاں چٹانیں اور برف کبھی علیحده ہو ہی نہ سکے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥)۔ چاندوں کی پیدائش کے علاقے ان کے بچے رہنے اور تباہ ہونے کہ بھی ذمے دار ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ سیّارے سے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ قوّت ثقل اس کے چاندوں کو تباہ کردے گی۔سائنس دانوں کو پورا یقین ہے کہ مشتری کے بہت سارے چاندوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہوگا۔ جب مشتری جوان تھا توایسا ممکن ہے کہ اس کے ہر طرف چاند پیدا ہونے کے لئے بےچین تھے ۔ مگر ان میں سے زیادہ تر کو پیدا ہوتے ہی مشتری نے نگل لیا تھا۔ مشتری کے باقی مانندہ اور بچے ہوئے چاند جو آج ہمیں نظر آتے ہیں ان میں سےوہ زندہ رہنے والے خوش قسمت چاند ہیں جنہوں نے اپنے مدار کو مشتری سے بالکل صحیح فاصلے پر متوازن کر لیا تھا۔ مگر مشتری کی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ ان بچ جانے والے چاندوں کو بھی نگل لے۔ اس دیوہیکل سیّارے کی قوّت ثقل وہاں تک جا پہنچتی ہے اور ان کو اپنے مداروں میں ٹکے رہنے میں کافی پریشان کرتی ہے۔ مشتری کی قوّت ثقل ان مردار چاندوں کو نہایت عجیب اور ڈرامائی دنیا بنا دیتی ہے۔
مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیّارہ ہے۔ اس کے لگ بھگ ٦٣ چاند ہیں۔ان میں سے ٤ بڑے چاندوں کو گلیلین(Galilean Moons) کہتے ہیں ۔ ان کا یہ نام گلیلیو(Galileo) کے نام پر پڑا ہے جس نے ان کو١٦١٠ء میں دریافت کیا تھا۔ یہ چاند ہمیں بتاتے ہیں کہ کس طرح قوّت ثقل ان کی ساخت اور ان کے برتاؤ کو کنٹرول کرتی ہے۔ ان میں سے سب سے پہلا چاند جس کا نام آئی او (Io)ہے وہ مشتری سے سب سے قریبی مدار میں٢٦٠ ہزار میل اوپر چکر لگاتا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٦)۔یہ فاصلہ اتنا ہی ہے جتنا ہماری زمین سے ہمارے چاند کاہے۔ مگر ہمارے چاند کی طرح اس کی سطح پر شہابی گڑھے موجود نہیں ہیں۔ سائنس دان سمجھ گئے کہ اس کی سطح نئی نئی ہے ۔ مگر ایسا کیسے ہوسکتا تھا۔ ہر مرتبہ جب وہ آئی او کو چاہے خلائی جہاز سے دیکھتے یا دوربین سے ان کو اس کی سطح مختلف ہی نظر آتی تھی۔ آئی او کی سطح ایسے تبدیل ہورہی تھی جیسے کہ سیّاروں پر موسم تبدیل ہوتے ہیں۔ ان کو اس کی اس تفاوت پسندی کی وجہہ سمجھ میں نہیں آ سکی۔ جب ناسا نے پہلی دفعہ خلائی جہاز آئی او کے قریب سے گزارا تو وہ ششدر رہ گئے ۔انہوں نے وہاں درجنوں زندہ آتش فشاں دیکھے اور پھر ہر ایک کی زبان پر ایک ہی سوال تھا کہ چاند کی سطح پر زندہ آتش فشاں کیسے ہو سکتے ہیں۔ صرف ایک ہی قوّت وہاں یہ کام کرسکتی تھی اور وہ تھی قوّت ثقل۔
مشتری کی قوّت ثقل اس قدر زبردست ہوتی ہے کہ وہ اس چاند پر پہنچ کر اس کی سطح کو چرمرا دیتی ہے۔ اور صرف مشتری کی قوّت ثقل ہی اس پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ جب وہ دوسرے چاندوں کے پاس سے گزرتا ہے تو ان کی ثقلی قوّت بھی اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ لہٰذا چاند کے قلب کو ہر وقت دھرا دباؤ جھیلنا پڑتا ہے۔ اس کو مدو جزر کی رگڑ (Tidal Friction)کہتے ہیں۔ اس عمل سے اس کے قلب میں زبردست گرمی پیدا ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی کوٹ کے ہینگر کو اس وقت تک موڑیں جب تک وہ ٹوٹ نہ جائے بس وہاں حرارت کچھ زیادہ ہی پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہی رگڑ کی قوّت آئی او (Io)کے قلب کو اس قدر گرماتی ہے کہ وہ نظام شمسی میں موجود ایک زبردست زندہ آتش فشانی دنیا بن جاتی ہے۔ مستقل کھینچا تانی آئی او کے قلب میں درجہ حرارت کو ہزار ہا ڈگری تک پہنچا دیتی ہے اور وہ لاوے کو اگل دیتا ہے۔آئی او مدو جزر اور قوّت ثقل کے باہمی تعلق کی سب سے بہترین مثال ہے۔ آئی او مستقل مشتری اور اس کے چاندوں کے درمیان پستا رہتا ہے جس کے نتیجہ میں زبردست حرارت پیدا ہوتی ہے۔آتش فشانی سیلاب لاوے کی شکل میں آئی او کی سطح پر بہتے رہتے ہیں جس کی وجہہ سے کسی شہابیہ کے ٹکراؤ کا کوئی نشان نظر نہیں اتا۔
قوّت ثقل آئی او کے پڑوسی چاند یوروپا (Europa)کو بھی گرماتی ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔ یوروپا کا مدار مشتری سے کافی دور ہے لہٰذا یہ قدرے سرد ہے ۔لاوے کے بجائے یہاں کی سطح برفیلی ہے۔ انٹارکٹیکا میں سب سے کم درجہ حرارت منفی ١٢٨ ڈگری ریکارڈ کیا ہے۔ جبکہ یوروپا کی سطح اس سے دگنی سرد ہوتی ہے۔ مگر اس برف کے نیچے پانی کا ٹھاٹیں مارتا سمندر موجود ہوسکتا ہے۔ جس کو وہی مدو جزر والی رگڑ حرارت پہنچاتی ہے جو آئی او کو آتش فشانی بناتی ہے۔یوروپا میں یقینی طور پر اس کی سطح کے نیچے سمندر موجود ہو سکتا ہے جس کا رابطہ سطح کے نیچے اس کی چٹانی قشر سے بھی ہوگا جو اس کو حرارت اور زرخیزی جو زندگی کو برقرا ر رکھنے کے لئے ضروری ہےپہنچا تاہوگا۔ مستقبل میں شاید ہم کوئی کھوجی یوروپا کی برف کے نیچے اس کی چھان بین کے لئے بھیج سکیں اور ہوسکتا ہے کہ ہم وہاں کے گرم پانیوں میں زندگی دریافت کرلیں۔مشتری کے آئی او اور یوروپا سے دور مزید ٦٠ چاند اور ہیں۔یہ مشتری سے کافی دور چکر کاٹ رہے ہیں جہاں اس کی قوّت ثقل اتنی طاقتور نہیں ہے۔ یہاں یہ اس قدر طاقتور نہیں ہے کہ مدو جزر کا اثر پیدا کرسکے جس سے ان کو حرارت بہم پہنچے۔لہٰذا یہ دور کی دنیائیں سرد اور بنجر ہیں ۔ مگر یہ بالکل روکھی پھیکی بھی نہیں ہیں۔ وہ لاتعداد شہابیوں کے تصادموں کے نشان سے مزین ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ ہی نشان ہمیں بتا تے ہیں کہ کس طرح ان تصادموں کے بعد مشتری کے چاندوں کا نظام وجود میں آیا۔
زحل کے چاندوں کا نظام بھی مشتری سے کچھ کم نہیں ہے۔یہ تقریبا" دو لاکھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو زحل کے ایک ارب سے بھی زیادہ چاند ہیں۔ جی ہاں ایک ارب چاند۔اس وقت تک کوئی بھی چیزکسی سیّارے کا چاند ہی کہلائے گی جب تک وہ کسی سیّارے کے مدار میں چکر لگائے چاہے وہ چیز کوئی کنکر ہو یاکسی شہر جتنی بڑی کوئی چٹان۔ یہ سب مل کر زحل کے چھلے بناتے ہیں۔ زحل کے حلقے لاتعداد برفیلے ٹکروں اور چٹانوں پر مشتمل ہیں۔ان کا حجم ایک کنکر سے لے کر ایک شہر کے جتنا ہوسکتا ہے۔ ان تمام چھلوں کے ٹکڑوں کو جو ١٠ سے ٢٠ میٹر تک کے ہوسکتے ہیں ان کو کوئی نام تو نہیں دے سکتے نا ہی ان کی کوئی علیحده شناخت کر کے چاند کا نام دیا جاسکتا ہے ۔مگر جب کوئی ایک یا دو کلومیٹر کا کوئی ٹکرا نظر آتا ہے تو آپ اس کو چاند یا ما ہچہ کہنے کے لئے سوچتے ضرور ہیں۔
زحل کے چھلے فلکیات کی دنیا میں عرصہ دراز تک معمہ بنے ہوئے تھے ۔ اس بات کو جاننے کے لئے کے وہ کیسے بنے تھے۔ ناسا نے کسینی کھوجی(Cassini Probe) ١٢ سالہ مشن پر بھیجا تاکہ وہ زحلاور اس کےگرد چھلوں،اور اس کے چاندوں پر تحقیق کر سکے ۔ کسینی نے زحل کی شاندار تصاویر لیں ۔ ایک دفعہ کسینی زحل کے سائے میں موجود تھا اور اس پر سورج زحل کا سایہ بنا رہا تھا ۔ سورج بالکل زحل کے پیچھے موجود تھا اور زحل کے پیچھے ایک نکتہ بھی نظر آرہا تھا ۔ وہ نکتہ اس کا کوئی چاند نہیں تھا بلکہ وہ وہاں سے دور دراز خلاء میں ایک ارب میل کے فاصلے پر موجود ہماری زمین تھی(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٨)۔ زحل ، اس کے گرد موجود چھلوں اور اس کے چاندوں کے بارے میں ہمیں زیادہ تر معلومات کسینی کے ذریعہ ہی پتا لگیں۔ کسینی کے پہنچنے سے پہلے ہم سمجھتے تھے کہ زحل کے صرف آٹھ چھلے ہیں مگر اب ہمیں معلوم ہے کے ان کی تعداد ٣٠ سے بھی زیادہ ہے۔ کسینی کے ذریعہ جو چیزیں ہم نے وہاں دیکھیں اگرچہ ہم وہ پہلے ہی دیکھ چکے تھے مگر جتنی جزیات کے ساتھ کسینی نے ہم کو یہ معلومات بہم پہنچائی ہیں وہ دماغ کو ہلا دینے والی ہیں۔ سائنس دان سمجھتے تھے کہ یہ چھلے اس بچی کچی گیس و گرد کے غبار سے بنے تھا جو زحل کے بننے کے بعد٤ ارب سال پہلے بچ گئی تھی۔ مگر ان کو حیرت اس بات پر تھی کہ اتنی پرانی چیز کو کائناتی دھول و غبار سے اٹ جانا چاہئے تھا مگر زحل کے چھلے تو صاف اور چمکدار نظر آتے ہیں بلکہ نئے لگتے ہیں ۔ اس بات کی کھوج کے لئے مشن کنٹرول نے کسینی کو ان چھلوں کے قریب کیا۔ اس کھوجی نے دیکھا کہ چھلوں میں موجود برف کے ٹکڑے مستقل ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں اور ٹوٹ رہے ہیں اور ہر نیا تصادم ایک نئی سطح کو اجاگر کرتا ہے جو نئی اور چمکتی ہوئی ہوتی ہے۔
شروع میں نوزائیدہ زحل کے چھلے نہیں تھے بس کافی سارے چاند ہی تھے۔ پھر کسی وقت ماضی میں کوئی دم دار ستارہ خلائے بسیط سے آکر اس کے کس چاند سے ٹکرا گیا ۔ وہ دم دار ستارہ اس کے چاند سے ٹکرا کر ارب ہا ٹکڑوں میں بٹ گیا تھا اور اس تصادم نے زحل کے چاند کو اس کے مدار سے نکل کر اس کے قریب کر دیا تھا۔ زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کو بھی ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا ۔ اب دم دار ستارہ اور زحل کے چاند کے گرد و غبار نے مل کر زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر اس کے ان ٹکڑوں کو زحل کے گردچھلوں کی شکل میں جمع کردیا تھا۔
چاندوں کی کہانی قوّت ثقل کی ہی کہانی ہے۔ قوّت ثقل ان چاندوں کو ان کے مدار میں قائم رکھتی ہے، وہ ان کے قلب کو گرماتی ہے اور ان کی سطح کو شکل عطا کرتی ہے اور آخر میں ہر چیز کو کنٹرول کرتی ہے ۔ان کی بقاء اور سلامتی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ قوّت ثقل صرف چاندوں کو ہی تباہ نہیں کرتی بلکہ یہ نئے چاند بھی بناتی ہے۔ یہ شہابیوں، سیّارچوں، اور پورے کے پورے سیّارے کو بھی کسی سیّارے کا قیدی بنا کر اس کا قدرتی سیّارچہ بنادیتی ہے۔ ہم کو معلوم ہے کہ قوّت ثقل ہی چاندوں کے پیدا کرنے کا سبب ہے ۔ عام طور سے یہ اس بچے ہوئے گیسی گرد و غبار سے چاند بناتی ہے جو کسی سیّارے کی پیدائش کے بعد بچ جاتے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ایک اور طریقے سے بھی چاند بناتی ہے۔ یہ ان کو پکڑ کر کسی بھی سیّارے کا قدرتی سیّارچہ بنا دیتی ہے۔ذرا کسی آوارہ گرد شہابیے یا سیّارچہ کا تصور کریں کہ وہ بھٹکتا ہوا کسی سیّارے کے قریب آ پہنچا ہو۔ قوّت ثقل کسی سائنس فکشن فلم میں دکھائے ہوئے جال کی طرح اس کو گرفت میں لے لیتی ہے ۔ اگر ذرا سی بھی کم ثقلی قوّت ہوئی تو وہ فرار ہوجاتا ہے اور اگر تھوڑی سی زیادہ ہوئی تو سیّارے سے جا ٹکراتا ہےاور اگر بالکل مناسب فاصلے سے آتا ہوا کوئی شہابیہ یا سیّارچہ پکڑا گیا تو وہ اس کو سیّارے کے مدار میں چکر کاٹنے پر مجبور کردیتی ہے اور وہ اس کا چاند بن جاتا ہے۔
مریخ کے دو چھوٹے چاند ہیں جن کے نام فوبوس(Phobos) اور ڈیموس (Deimos)ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٩ )۔یہ دونوں مقید سیّارچے(Captured Asteroids) ہی ہیں۔ان میں سے ایک باہر کی طرف زور لگا رہا ہے اور آخرکار مریخ سے راہ فرار حاصل کرلے گا۔ دوسرے اس سے قریب سے قریب تر ہوتا جارہا ہے اور آخر کار اس سے ٹکرا کر پاش پاش ہوجائے گا۔ کرویتھنیا (Cruithne)کو اکثر زمین کا دوسرا چاند کہتے ہیں یہ تین میل پر پھیلا ہوا ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠)۔اتنے چھوٹے جسامت کی چیز کی دریافت کے ساتھ ١٩٨٦ءمیں یہ بحث شروع ہوگئی کہ آخر چاند کہتے کس کو ہیں۔صرف چند ہزار سال پہلے ہی کرویتھنیا ایک عام سے سیّارچہ تھا جو سورج کے گرد چکر لگا رہا تھا جیسے کہ ارب ہا ارب سیّارچے سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔ یہ سیّارچوں کی پٹی سے بھٹکتا ہوا آنکلا اور زمین کی قوّت ثقل کے پھندے میں پھنس گیا۔ مگر پھر کرویتھنیا نے ایک عجیب سی حرکت کی اس نے بجائے زمین کے گرد چکر کاٹنے کے جس طرح سےعام چاند کرتے ہیں زمین کے مدار کا پیچھا کرنا شروع کردیا۔ اس کو شاید زمین کا چاند کہہ سکتے ہیں مگریہ اصل میں زمین کے گرد نہیں بلکہ اپنے خود مختار مدار میں سورج کے گرد چکر کاٹ رہا ہے۔
کبھی کبھی سیّارچے اپنا چاند بھی پکڑ لیتے ہیں۔١٩٩٣ء عیسوی میں گلیلیو خلائی جہازآئیڈاسیّارچہ (Ida Asteroid) کے پاس سے گزرا اور وہاں اس نے جو دیکھا وہ اس وقت کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ایک چھوٹا آدھے میل کا چاند اس شہابیے کا چکر کاٹ رہا تھا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١١)۔ابھی تک صرف کوئی بھی خلائی جہاز صرف دو شہابیوں کے پاس سے ہی گزرا ہے جس میں سے ایک کا اپنا چاند ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شہابیوں کے اپنے چاند ہونا کائنات میں ایک عام سی بات ہوگی۔
سارے مقیّد چاند چھوٹے نہیں ہوتے۔ٹرائٹن(Triton) ان سب مقیّد چاندوں کا باپ ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٢)۔ یہ سیّارہ نیپچون کے گرد چکر کاٹتا ہے۔ یہ کافی بڑا ہے اور اس کا قطر تقریبا"١٧٠٠ میل پر محیط ہے۔ مگر ٹرائٹن چاند کی اپنی ایک الگ انوکھی کہانی ہے۔ ٹرائٹن نے ماہرین فلکیات کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی تھیں۔ عام طور سے یہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ جس طرف سیّارہ خود گردش کر رہا ہے اسی طرف اس کے چاند بھی اس کے مدار میں گردش کرتے ہیں۔ مگر نیپچون کے چاند ٹرائٹن کا معاملہ تو بالکل ہی الٹ تھا۔ نیپچون ایک طرف گھوم رہا ہے جبکہ اس کا چاند اس کی گردشی سمت کے مخالف طرف گھوم رہا ہے۔ اس کا مطلب تو سائنس دانوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ اس کی پیدائش نیپچون سیّارے کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے گرد و غبار سے نہیں ہوئی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ اسی طرف چکر کاٹتا جس طرف سیّارہ خود گھوم رہے ہے۔ لہٰذاکوئی چیزتو ہے جو اس الٹی گنگا بہنے کا سبب بنی ہے۔ ٹرائٹن کافی بڑا ہے اور اس کا مدار بھی کچھ عجیب سا ہی ہے۔ ٹرائٹن خود بھی کافی الگ ہے اور سائنس دانوں کو محسوس ہوتا تھا کہ یہ نیپچون کے چاندوں کے نظام کے تحت نہیں پیدا ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی بونا سیّارہ (Dwarf Planet)تھا جو نیپچون کی قوّت ثقل کے زیر اثر یہاں قید ہوگیا ہے۔ سائنس دانوں کو یقین ہوا چلا ہے کہ ٹرائٹن، پلوٹو کی ہی طرح کا کوئی بونا سیّارہ تھا اور نیپچون جیسے دیوہیکل سیّارے کی قوّت ثقل لازمی طور پر اس قدر تھی کہ اس نے ایک ٹرائٹن کے حجم کا چاند پکڑ لیا۔ لازمی طور ٹرائٹن نظام شمسی کے باہر ی حصّے میں پیدا ہوا تھا اور کسی موقع پر نیپچون کی گرفت میں آگیا تھا۔ شاید ٹرائٹن کا اپنا بھی چاند تھا اور وہ بھی اس کے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا مگر بعد میں وہ تباہ ہوگیا ہوگا۔ ٹرائٹن کا وجود خطرے میں ہے۔نیپچون اس کو اپنے سے قریب سے قریب ترکررہا ہے۔ آخرکار وہ اس قدر قریب ہوجائے گا کہ نیپچون کی زبردست قوّت ثقل اس کو پارہ پارہ کردے گی۔ ٹرائٹن چاند نیپچون کے چھلے بنا کر پھر زندہ ہوگا۔
اب ہم ذکر کرتے ہیں اپنے چاندا ماما کا۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔ یہ یہاں کیسے آیا؟ کیا یہ بھی کوئی مقیّد سیّارچہ تو نہیں ہے۔ حقیقت تو اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی ہے۔ یہ تو بہت ہی قیامت خیز ماحول میں وجود میں آیا ہے۔ ہمارا چاند دوسرے بہت سے چاندوں کی طرح چٹانی ، بنجر اور شہابی گڑھوں سے بھرا ہوا چاند ہے۔ مگر ایک طرح سے ہمارا چاند نظام شمسی کا ایک نہایت ہی منفرد چاند ہے۔ بہت عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ چاند بھی سیّارہ زمین کے پیدا ہونے کے بعد بچی ہوئی گرد و غبار سے ہی وجود میں آیا۔ مگر ١٩٦٠ میں ہوئی تحقیق نے بالکل ہی الگ نظریہ پیش کیا ۔ اس تحقیق میں بتا یا گیا کہ چاند ایک زبردست تصادم کے نتیجہ میں وجود میں آیا ۔ شروع میں تو یہ نظریہ زیادہ مقبول عام نہیں ہوا کیونکہ اس بات کے ثبوت تو چاند ہی پر موجود تھےاور اس ثبوت کو حاصل کرنے کے لئے اس وقت تک انتظار کرنا تھا جب تک اپالو کے خلانورد چاند پر پہنچ نہیں گئے۔ وہ وہاں سے سینکڑوں پونڈ چاند کی چٹانیں لے آئے ۔ سائنس دانوں نے ان چٹانوں کا تجزیہ کیا اور وہ اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے چاند سے لائی ہوئی چٹانوں کو بالکل زمین کے جیسی چٹانوں کے جیسا پایا جن کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا ہو۔ آخر ایسا کیسا ہوسکتا تھا کہ زمین کے ٹکڑے زبردست گرم ہوکر چاند کی سطح پر پہنچ گئے ہوں۔ ہارٹ مین کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ یہ ٹکڑے زمین سے ہی بنے ہیں۔زمین سے کسی چیز کی ٹکر سے اس کی ہلکی سطح پھٹ گئی ہوگی اور چٹانی مادّہ اوپر آگیا ہوگا۔ پھر اس غبار نے زمین کے مدار میں جا کر چاند کو بنایا ہوگا۔ چاند کی پیدائش زمینی چٹانی گرد و غبار سے ہی ہوئی ہے۔ ذرا آج سے ٤۔٥ ارب سال پہلے نظام شمسی کا تصور کریں۔ نوزائیدہ زمین ان سینکڑوں سیّاروں میں سے ایک تھی جو سورج کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان میں سے ایک مریخ کے حجم کا سیّارہ جس کا نام تھیا (Theia)تھا اس کا تصادم زمین سے ہوا۔زمین اور تھیا ایک دوسرے سے کی ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرائے ۔ تھیا تباہ ہوگیا اور زمین بمشکل بچ پائی۔ اس تصادم نے ارب ہا ٹن گرد و غبار خلاء میں چھوڑا ۔ اب یہ زمین کے بچے ہوئے ٹکڑے آپس میں جڑنا شروع ہوئے اور ہمارے چاند کی پیدائش ہوئی۔ یہ بہرحال ایک نظریہ ہی ہے۔
مگر اس نظریے کی جانچ کس طرح کی جاسکتی ہے۔ناسا میں ورٹیکل گن رینج تجربہ گاہ میں اس قدیمی حادثاتی ٹکراؤ کو دہرایا جا رہا ہے۔جہاں ایک ٣٠ فٹ لمبی بندوق ایک چھوٹی سی چیز کو ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکتی ہے۔ یہ چھوٹی سی چیز تھیا کی نقل ہے جبکہ جس گیند پر یہ پھینکی جارہی ہے وہ زمین کی شبیہ ہے۔ اس تجربے میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے مختلف زاویوں سے تھیا کو زمین پر مارا تاکہ وہ اس بات کی جانچ کر سکیں کہ کس زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرایا تھا جس سے چاندکا ظہور ہوا۔ پہلی ٹکر میں تھیا زمین کے اوپری حصّے سے ٹکرایا ۔ اس ٹکر میں زمین نے کچھ دھول اور مٹی خلاء میں پھینکی اور اس پر ایک طاس (Basin)بن گیا۔ یہ طا س ہزاروں میل لمبا اور چوڑا تھا۔ ان تجربے میں تھیا نے صرف زمین کی اوپری سطح ہی چھیلا تھا اور دھول اور مٹی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جس سے چاند پیدا ہوسکے۔ دوسرے تجربے میں تھیا سیدھا زمین سے ٹکرایا ۔ اس سے زمین ہی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کی بچی ہوئی مٹی نے کئی دوسرے چھوٹے سیّارے بنا دیئے ۔ لہٰذا جب زمین ہی نہ رہی تو چاند کہاں سے آتا۔ تیسرے تجربہ میں بندوق کا رخ پھر تبدیل کیا اور ایک نئے زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرائی۔ اس تجربے میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین بمشکل بچ سکی۔ اس ٹکر میں زمین کا ایک بڑا ٹکرا ٹوٹ گیا اور دھول اور مٹی خلاء میں بکھر گئی۔ یہ ہی چاند کے بننے کی شروعات تھی۔ تجربے نے بتایا کہ تھیا زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوسکتا تھا اور اس حادثے میں چاند کی تخلیق ہو سکتی تھی۔ مگر اس تصادم کو بالکل ٹھیک زاویے سے ہونا تھا ۔ ہماری خوش قسمتی کہ ایسا ہی ہوا۔آج چاند زمین سے ٢٥٠ ہزار میل دور ہے۔ مگر جب یہ پہلی دفعہ بنا تھا تو زمین سے صرف ١٥ ہزار میل اوپر ہی تھا ۔ چاند کی تخلیق کے ہم ٥٠ کروڑ سال بعد اگر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے تو وہ آسمان کا کافی حصّہ گھیرے ہوئے نظر آتا ۔ وہ بہت ہی بڑا نظر آتا کیوں کہ وہ زمین سے بہت ہی قریب تھا۔ اس وقت زمین کی گردش اتنی تیز تھی کہ ایک دن چھ گھنٹے میں پورا ہوجاتا تھا۔ چاند کے زمین سے اس قدر نزدیک ہونے کی وجہہ سے اس نے ایک بریک کی طرح کام کیا اور زمین کی گردش کو آہستہ کیا اتنا آہستہ کہ اب اس کی گردش ٢٤ گھنٹے میں مکمل ہوجاتی ہے۔چاند کی قوّت ثقل عظیم مدو جزر پیدا کرتی ہے۔جس سے سمندروں میں معدنیات اور غذایت بخش اجزاء حل ہوجاتی ہیں۔ اس ہی نے وہ اوّلین گاڑھا مادّہ پیدا کیا جس سے زندگی کا آغاز ہوا۔ ہمارے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کی شروعات نہیں ہوسکتی تھی اور شاید دوسرے چاند بھی زندگی کو پنپنے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
چاند کائنات کی عظیم حیاتیاتی تجربہ گاہیں ہیں۔ چاند حیرتوں کے پہاڑ ہیں۔ان کی متنوع فیہ قسمیں ہیں ۔ جس میں عظیم آتش فشاں سے لے کر وسیع سمندر تک موجود ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ حیات کو دوام بخشنے والے مرکبات سے بھرپور ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں موجود چاند کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہیں۔ شاید ہم یہاں زندگی کو کسی شکل میں ڈھونڈھ ہی نکالیں گے۔ شاید یہاں ہمیں ایسی زندگی مل سکے جو کائنات میں موجود حیات کے بارے میں راز افشا کرے۔
پہلی نظر میں کوئی بھی چاند حیات کے لئے موزوں نہیں لگتا۔ انسیلیڈس کو ہی لیجئے ۔ یہ چمکتی ہوئی برفیلی گیند ہے٣٠٠ میل پر محیط یہ زحل کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ یہ نظام شمسی کا روشن ترین جسم ہے۔یہ ١٠٠ فیصد روشنی کو منعکس کرتا ہے۔ یہ نہایت روشن اور چمکدار ہے۔کیونکہ یہ پانی کی برف سے بنا ہوا ہے۔٢٠٠٥ءمیں کسینی کھوجی نے یہاں کے برفیلے آتش فشاں دیکھے جو اس کی سطح پر موجود تھے۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس کے قلب میں موجود حرارت ہی یہ کام کررہی ہوگی اور حرارت ہی پانی کے سمندر بناتی ہے اور جہاں پانی ہوتا ہے وہاں زندگی ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ یہاں پر موجود ایک چشمہ پانی کو ١٥٠ فٹ کی بلندی تک پھینک رہا ہے۔یہ بہت ہی حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔ اگر آپ انسیلیڈس کی سطح پر کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں موجود چشمے برف کے ذرے اور پانی کے بخارات خلاء میں میلوں دور پھینک رہے ہوں گے۔
برفیلے آتش فشاں کو قوّت ثقل توانائی پہنچاتی ہے ۔ یہاں زحل کی قوّت اس کے چاند کے قلب کو گرما رہی ہے۔ اس کی سطح کے نیچے موجود پانی گرم ہوکر پھیلتا ہے اور سطح سے پھٹ کر باہر نکلتا ہے اور فضا میں برف کی قلمیں بنا کر اچھال دیتا ہے۔ یہ نظام شمسی کے چند شاندار نظروں میں سے ایک ہیں۔ان آتش فشانیوں کی برف میں سائنس دانوں کو سادہ حیاتی سالمے ملے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ سطح زمین کے نیچے موجود پانی نہ صرف گرم ہے بلکہ حیاتیاتی مرکبات سے بھی بھرپور ہے۔زندگی کی شروعات کے لئے تین انتہائی اہم چیزیں یعنی حرارت، پانی اور غذایت سے بھرپور اجزاء زمین کے سمندروں میں موجود ہوتی ہیں یہ تینوں چیزیں وہاں پر زیر زمین سمندروں میں بھی موجود ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک زبردست دریافت تھی کہ انسیلیڈس میں زیر زمین سمندر موجود ہے اور شاید مشتری کے چاند یوروپا میں بھی۔ مگر صرف یہ ہی وہ چاند نہیں ہیں جہاں زندگی شروع ہو سکتی ہے ۔ زحل کا ایک اور چاند ہے ٹائٹن جہاں زندگی شروع ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے۔
٢٠٠٥ءمیں کسینی نے ایک کھوجی جس کا نام ہائی گنز (Huygens)تھا وہ یکطرفہ مشن پر ٹائٹن پر بھیجا۔ صرف ٣١۔٥ گھنٹے ہائی گنز نےبراہ راست ٹائٹن کی سطح کی تصاویر زمین سے ایک ارب میل دور سےبھیجیں۔ اس کے بعد اس کی بیٹری ختم ہوگئی۔یہ بہت ہی ہیجان انگیز تھا پہلی دفعہ انسان کی بنائی ہوئی کسی چیز نے اس کی سطح کو چھوا تھا۔یہ ایک ایسا موقع تھا جسے پوری دنیا میں منانا چاہیے تھا ۔ یہ واقعی تاریخ ساز لمحہ تھا۔
ٹائٹن میں بارش کے قطرے زمین سے دوگنے ہوتے ہیں مگر وہاں بارش پانی کی نہیں بلکہ میتھین کی ہوتی ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣)۔زمین پر میتھین گیس کی شکل میں موجود ہوتی ہے مگر ٹائٹن پر یہ مائع حالت میں پائی جاتی ہے ۔کیونکہ وہاں درجہ حرارت کافی کم ہوتا ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی میتھین کی برف کے تودے موجود ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں جھیلیں، دریا، بارش اور بادل سب کے سب میتھین کے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی کیڑا بھی میتھین میں تیرتا ہوا مل جائے۔ مائع میتھین میں پلنے والے کیڑے سوچ کر ہی عجیب سے محسوس ہوتے ہیں۔ سائنس دان یہ دریافت کرچکے ہیں کہ انسیلیڈس ، یوروپا اور ٹائٹن سب کے سب ایک مادّے جس کا نام تھولین(Tholin) ہے سے بھرپور ہیں۔ تھولین زندگی کو شروع کرنے والے بنیادی عنصر کا ایک اہم جز ہے۔ ہوسکتا ہے کہ زندگی کسی ایک یا ایک سے زیادہ ماوراء ارض چاندوں پر نمودار ہوجائے۔
کرس مکآئی(Chris Mckay) تھولین بنانے کے عمل کو تجربہ گاہ میں دہرا رہے ہیں ۔ انہوں نے ٹائٹن میں پائے جانے والے مکسچر کو بجلی کے ساتھ ملایا تو ان کو ایک سرخی مائل بھورے رنگ کا گارا ملا جس کو ہم تھولین کہتے ہیں۔ یہ غیر حیاتیاتی اور غیر نامیاتی مرکب ہے۔ انہوں نے اس کو کیمیائی توانائی سے بنایا جس میں نائٹروجن اور میتھین شامل ہیں اور یہ گیسیں ٹائٹن میں عام پائی جاتی ہیں۔ سائنس دانوں نے اس طرح کے ثبوت انسیلیڈس میں بھی دیکھے ہیں۔ بلکہ سورج کے بیرونی مدار میں موجود اکثر چاندوں پر اس قسم کے مرکب پائے گئے ہیں۔ یہ قدرت کے وہ اجزاء ترکیبی ہیں جن سے آخر کار زندگی نمودار ہوجاتی ہے۔ سورج کے بیرونی مدار میں موجود کسی چاند پر ہوسکتا ہے زندگی کی شروعات ہوچکی ہو۔ مگر شاید وہ زندگی اس زندگی سے کافی مختلف ہو جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں۔ یہ زندگی کا ورژن ٢ ہو جو زندگی کے ورژن ١ سے کافی مختلف ہو۔ درحقیقت زندگی ٢ جتنی زیادہ الگ ہوگی اتنی زیادہ دلچسپ ہوگی۔چاہے یہ زندگی پر پائی جانے والی زندگی کے جیسی ہو یا اس سے مختلف ، سورج کے بیرونی مدار میں پائے جانے والے ان چاندوں میں ملنے والی زندگی ہمیں کائنات میں موجود زندگی کو ڈھونڈھنے کے طریقہ کو بدل کر رکھ دے گی۔ اگر ہم نظام شمسی میں زندگی کو کسی دوسری جگہ پر ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم اس بحث کو ختم کرسکتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی کائنات میں منفرد اور انوکھی ہے۔
چاند سیّاروں کے مقابلے میں اگرچہ چھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ نہایت متنوع فیہ اور متحرک ہوتے ہیں ۔ یہ ہمیں کائنات کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ یہ اس کونیاتی نظام کا لازمی حصّہ ہیں۔چاندوں کے بغیر ہمارا نظام شمسی بالکل ہی علیحده ہوتا ۔ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کبھی پنپ ہی نہیں سکتی تھی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں