Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 3 جون، 2015

    کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے

    کچھ عرصےپہلے تک ہم صرف کرۂ ارض اور ان سیّاروں سے واقف تھے جو سورج کے گرد چکر لگاتے تھے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر 1)۔


    مگر اب دوسرے چٹانی سیّارے(Rocky Planets)اور گیس کے عظیم گولے(Gas Giants) دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے دریافت ہوچکے ہیں اور اپنی ارتقاء کی انوکھی سرگزشت سنا رہے ہیں۔ان سیّاروں کی ابتدائی تاریخ ہنگاموں سے بھرپور رہی ہے۔ سیّارےپوری کائنات میں ایک ہی طریقے سے جنم لیتے ہیں۔ ان کی پیدائش اس باقی ماندہ بچی ہوئی خاک اور گردکے ملبے سے ہوتی ہے جو ستارے کی پیدائش کے بعدباقی رہ جاتی ہے۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر وہ سب ایک ہی مادّے سے اور ایک ہی طریقے سے پیدا ہوئے ہیں تو پھر وہ ایک دوسرے سے اتنے مختلف کیوں ہوتے ہیں۔کائنات کہکشاؤں، ستاروں، بلیک ہول اور دیگر اجسام سے بھری ہوئی ہے ۔ اب سیّارےبھی اسی لامحدود تعداد کی دوڑ میں شامل ہوچکے ہیں۔

    ہمارے نظام شمسی کے آٹھ سیّارےہیں۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ وہ سمندر میں سے ایک قطرے ہی کی مانند ہیں۔ جس لمحے سائنس دانوں کو یہ پتہ چلا کہ کائنات میں دوسرے ستاروں کے گرد بھی سیّارےچکر لگا رہے ہیں وہ سائنسی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ تھا۔ سیّارےتو کائنات میں نہایت ہی عام ہیں۔ ملکی وے کہکشاں کے دو کھرب ستاروں میں سےکئی ارب ستاروں کے گرد سیارےمو موجود ہیں۔

    ٢٠٠٩؁ء میں ناسا نے کیپلر خلائی دوربین (Kepler Space Telescope) چھ سالہ مشن پر خلاء میں بھیجی۔اس کا کام نئے سیّاروں کی کھوج کرنا تھا۔ ابھی تک خلاء نوردوں نے ١٨٥٠کے قریب سیّارےتلاش کر لئے ہیں ١۔ ان میں سے کچھ گیس کےگھومتے ہوئے عظیم گولے ہیں جو سیّارہ مشتری سے پانچ گنا زیادہ حجم کے ہیں۔ دوسرے دیوقامت چٹانی دنیائیں بھی (Super Earths)ہماری کرۂ ارض کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑی دنیائیں ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٢)۔


    ان میں سے کچھ انتہائی خطرناک قسم کے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں وہ مدار ان کے اپنے ستارے سے اس قدر قریب ہیں کے وہ ستارے ان کو سوختہ کر رہے ہیں۔ ایک بات تو نہایت واضح ہے کہ کوئی بھی ایک سیّارہ کسی دوسرے سیّارےجیسا نہیں ہے۔ ہر ایک اپنی مثال آپ ہے۔ زیادہ تر سیّارےبہت دور ہیں اور ان کا مشاہدہ کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے۔ ان سیّاروں کے کام کرنے کا طریقہ کار کو سمجھنے کے لئے ہمیں زیادہ انحصار اپنے ان آٹھ سیّاروں کے کام کرنے کے طریقہ پر کرنا پڑتا ہے۔ ان سیّاروں پر جو ہمارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔

    ہمارے اپنے نظام شمسی کے سیّارےدو گروہوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں سے چار پتھریلے اور چٹانی سیّارےسورج کے قریب اندرونی مدار میں چکر لگا رہے ہیں جن میں عطارد (Mercury)، زہرہ(Venus) ،زمین(Earth) اور مریخ(Mars) شامل ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٣)۔


    جبکہ سورج کے بیرونی مدار میں بھی چار سیّارےجو گیس کے عظیم گولے ہیں چکر کاٹ رہے ہیں جن میں مشتری(Jupiter)، زحل(Saturn) ، نیپچون(Neptune) اور یورینس(Uranus) شامل ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٤)۔


    ان آٹھ سیّاروں میں سے ہر ایک سیّارہ بہت ہی مختلف اور منفرد ہے۔ ان کی یہ انفرادیت ان کے پیدا ہونے کے ساتھ آج سے ٤۔٦ ارب سال پہلے ہی شروع ہوگئی تھی۔ جب سورج نے جلنا شروع کیا تو اس نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے عظیم بادلوں کو چھوڑ دیا تھا۔سارے سیّارےچاہے وہ اندرونی چٹانی سیّارےہوں یا بیرونی گیس کے گولے ہوں سب کے سب اسی بچی ہوئی کونیاتی گردکے ملبے سے وجود میں آئے ۔ ہمارے نظام شمسی کے سارے سیّارےایک ہی خام مال سے پیدا ہوئے ہیں ۔ وہ اسی ایک گرد و غبار اور گیس کے بادل سے بنے ہیں ۔مگر وہ مختلف ماحول میں پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ سورج کے قریب پیدا ہوئے ہیں جہاں انتہائی درجہ کی گرمی تھی۔کچھ سورج سے تھوڑے دور جو نسبتا"کم گرم علاقے تھے وہاں بنے۔کیونکہ ان کے بننے کی جگہ کا ماحول بہت زیادہ ایک دوسرے سے الگ تھا لہٰذا ہر سیّارہ ایک منفرد شناخت کے ساتھ پیدا ہوا۔ یوں سمجھ لیں کہ ایک جیسے خام مال کے ساتھ جس میں سلیکٹ،پانی،ہائیڈروجن،میتھین،اور دوسرے عناصر شامل تھے ، نظام شمسی کے سیّاروں کی ابتداء ہوئی۔ یہ عناصر ان سیّاروں کے بنیادی اجزاء میں شامل تھے جیسے کہ کسی کیک کو بناتے ہوئے ہم میدہ ، چینی،انڈے، وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مختلف ماحول اور درجہ حرارت میں پید ا ہوئے ۔ہمارے نظام شمسی میں تمام سیّارےمختلف درجہ حرارت میں رہتے ہوئے تشکیل پائے ۔ درجہ حرارت کے اسی تفاوت نے ان کو ایک دوسرے سے بالکل مختلف بنا دیا۔حرارت اور گرمی کی زیادتی کی وجہہ سےسورج سے قریب سیّاروں کی گیس جل گئی اور پانی ابل گیا۔صرف وہ مادّہ جو زیادہ درجہ حرارت برداشت کرسکتا تھا جیسا کہ دھاتیں اور پتھر وغیرہ وہ ہی باقی بچے رہ گئے۔ یہ ہی وجہہ ہے کہ سورج کے اندرونی حصّے میں پتھریلے سیّارےوجود میں آئے جبکہ سورج کی گرمی سے دور مختلف سیّارےوجود میں آئے ۔

    سیّاروں کی قسمیں ان کے گیسی و گردی بادلوں میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں۔یہ بات اس چیز پر منحصر ہے کہ گیسی و گردی غبار میں کون سے اجزاء ترکیبی موجود ہیں۔ اگر کسی ستارے کے ارد گرد کوئی چٹانی سیّارہ چکر نہیں لگا رہا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے گیسی بادلوں میں وہ مادّہ شامل نہیں تھا جو اس کو پتھریلا و دھاتی بنا سکے۔لہٰذا اس کے ارد گرد صرف گیس کے عظیم گولے ہی بن سکتے ہیں۔پتھریلے سیّاروں کے لئے چٹانوں اور دھاتوں سے لبریز گردو گیس کے بادلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

    دوسرے دور میں جب گرمی کم ہوتی ہے تو سیّارےٹھنڈا ہونا شروع کردیتے ہیں۔ ان میں موجود کچھ عنصر جن کا درجہ ابال کافی زیادہ ہوتا ہے وہ ٹھنڈا ہو کر ٹھوس شکل اختیار کرلیتے ہیں اور اس کے نتیجے میں معدنیات کے ذرّات جنم لیتے ہیں۔ یہ ننھے ذرّات ان نئے بننے والے پتھریلے سیّاروں کی بنیاد ہوتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایک دوسرے کے ساتھ چپکنا شروع کردیتے ہیں۔ ایک ذرّہ دوسرے ذرّے سے ٹکراتا ہے اور پھر ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ ان سے دوسرے ذرّات آکر ٹکراتے ہیں اور گرد کا ایک بڑا سالمہ بناتے ہیں اور اسی طرح کرتے کرتے وہ بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ اس عمل کو تہہ جما نا (Accretion) کہتے ہیں۔ یہ بڑے ہوتے ہوتے چٹانی پتھر بناتے ہیں۔ پھر یہ چٹانیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے بٹے(Boulder))بناتی ہیں ۔ پھر وہ بٹے آپس میں مل کر اور بڑے بٹے بناتے ہیں(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٥)۔


    آخرکار اس کا حجم اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ اس کی قوّت ثقل مادّہ کو کھینچنا شروع کردیتی ہے۔اب وہ ایک دوسرے سے ٹکرا کر بڑے ہونے کے بجائے مادّے کو کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔

    ہمارے اپنے نظام شمسی میں پہلے پہل کافی نوزائیدہ سیّارےموجود تھے جن کی تعداد کا تخمینہ کوئی سو کے قریب لگایا گیا ہے۔ان میں سے زیادہ تر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائے۔ ہم اگر سیارچوں کی پٹی میں ویسٹا ٤ کو دیکھیں گے(ملاحظہ کیجئےتصویر نمبر ٦) 


    تو ہم کو اندازہ ہوگا کہ چٹانی سیّارےکو کتنا بڑا ہونا چاہے کہ وہ اس قابل ہو کہ مادّے کو اپنی طرف کھینچ سکے اورکرۂ کی شکل حاصل ہوسکے ۔ ویسٹا ٤ صرف ٣٢٩ میل پر محیط ہے اور حجم میں اتنے چھوٹے ہونے کی وجہہ سے ہی وہ کرۂ کی شکل حاصل نہیں کر سکا۔ایک بڑھتے ہوئے سیّارےکو ٥٠٠ میل پر پھیلا ہوا ہونے چاہے۔ تب کہیں جا کر اس کی ثقلی قوّت اس قابل ہوگی کہ اس کوکرۂ کی شکل میں ڈھال سکے۔ اس سے تھوڑا سا بھی چھوٹا ہوا تو اس کی شکل کرۂ کے علاوہ ہی ہوگی۔

    نوزائیدہ سیّارےمادّے کو ہضم کرتے رہے ۔ ہر ٹکراؤ ان کو گرم سے گرم تر کرتا رہا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٧)۔


    یہاں تک کہ وہ پگھلنا شروع ہوگئے۔ اب قوّت ثقل کا کام پھر شروع ہوگیا۔اس نے بھاری چیزوں کو ہلکی چیزوں سےعلیحده کرنا شروع کردیا۔ہلکے عناصر قشری سطح پر تیرنے لگےاور بھاری عناصر جن میں سے اکثریت دھاتی عناصر کی تھی وہ نیچے جمع ہونے شروع ہوگئے اور انہوں نے سیّاروں کی کثیف قلب ان کے مرکز میں بنانی شروع کردی جیسے کہ وہ آج ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ اب ان سیّاروں کو ایک ہنگامہ خیزوقت سے بھی گزرنا تھا ایک ایسا بے رحمانہ دور جو اس بات کا تعین کرتا کہ کون سا سیّارہ باقی رہے گا اور کونسا فنا ہوجائے گا۔ جنم لینے والا کوئی بھی ستارا اپنی ابتدائی شکل میں موجود نہیں تھا ۔ وہ بہت زیادہ بدل چکے تھے۔ انہوں نے صرف اور صرف قوانین قدرت کے آگے سر جھکا دیئے تھے۔ ٤۔٥ ارب سال پہلے ہمارے سورج کے گرد سو کے قریب ستارے گردش میں تھے۔مگر پھر وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔سیّاروں کی ابتدائی زندگی نہایت ہی تباہی و بربادی سے بھری تھی اور اسی ہنگامہ خیزی نے ان کا مقدر مقررکرنا تھے۔ سیّاروں کے ٹکراؤ کے بڑھنے کا ساتھ ساتھ کچھ سیّارےدوسروں کا مال ہضم کر کے خود کو پروان چڑھا تے رہے اور جس سیّارےکا جتنا حجم بڑھتا گیا وہ اتنا ہی زیادہ دوسروں کا مال ہضم کرتا گیا۔سیّاروں کی سطح پر خلاء میں سے گرد و غبار کی بارش ہوتی رہی۔

    جب کافی عرصہ گزرجانے کے بعد یہ ہنگامہ رکا تو سورج کے اندرونی مدار میں صرف چار چٹانی سیّارےہی باقی بچے تھے۔یہ چاروں سیّارےآپس میں ایک دوسرے سے نہایت ہی مختلف تھے۔ ہر ایک کی اپنی کتھا تھی۔ مریخ ایک منجمد بنجر زمین کی طرح ابھرا۔ زمین کی سطح پر پانی مائع حالت میں بہنے لگا۔زہرہ آتش فشانی جہنم بن گیا اور عطارد ایک ایک چھوٹا بے لطف اور نہایت گرم ترین جگہ بن گئی ۔ عطارد کی یہ حالت ایک نہایت زبردست ٹکر کا نتیجہ ہی تھا۔عطارد نہایت زیادہ کثیف اور بہت ہی باریک قشر رکھتا ہے۔لہٰذا اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اپنی موجودہ شکل سے کافی بڑا ہو مگر پھر اس سے کوئی چیز اس طرح اور اس زاویے سے ٹکرائی ہو کہ اس ٹکر نے اس کا ہلکا چھلکا اتار دیا ہو اور اس کا کثیف حصّہ ہی بچ پایا ہو۔نوزائیدہ کرہ ارض نے بھی ایک بڑا ٹکراؤ جھیلا۔ اس کے پیدا ہونے اور موجودہ شکل میں آنے کے آخری وقتوں میں کوئی چیز زمین سے ایسے ٹکرائی کہ زمین کا کافی سارا حصّہ خلاء میں بکھر گیا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ٨)


    اور اس ملبے نے زمین کے مدار میں جمع ہونے شروع کردیا او ر جمع ہوتے ہوتے اس چیز نے ہمارے چندا ما ما کی شکل لے لی۔ اس بات کا بھی ثبوت ملا ہے کہ کسی چیز نے مریخ کو بھی ٹکر ماری ہے۔ مریخ کی شمالی کرۂ کی پرت اس کے جنوبی کرۂ کی پرت سے کافی ہلکی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ سیّارہ مریخ کے ماضی میں کوئی چیز اس کی شمالی کرۂ کی طرف ٹکرائی جس نے اس کی کافی پرت اتار دی اور اس پرت نے مریخ کے جنوبی حصّے میں جمع ہونے شروع کردیا۔ ان تمام تصادموں نے دوکام کئے ۔ ایک تو انہوں نے نوزائیدہ سیّاروں کی تعداد کو کم کیا ۔ دوسرے انہوں نے باقی بچ جانے والے ستاروں کو نئے اجزاء سے نوازا۔ اگر تصادم کسی دھاتی چٹان سے ہوا تو اس ٹکراؤ کے نتیجے میں بچ جانے والی دھات سیّارےکے قلب میں چلی گئی۔ٹکراؤ اگر کسی ہلکی یا برفانی چیز سے ہوا تو اس نے سطح پر تیرنا شروع کردیا اور اوپری پرت کا حصّہ بن گئی۔سورج کے مدار میں چکر لگا نے والے چاروں سیّاروں کی کہانی تو مکمل ہوگئی۔ ان تمام سیّاروں کا قلب تو ٹھوس دھاتوں سے بن چکا تھا ۔جس کے گرد لوہے کی پگھلی ہوئی دھات بہہ رہی تھی۔اس پگھلی ہوئی لوہے کی دھات کو پگھلی ہوئی چٹانوں نے اپنے حصار میں لے لیا تھا اور ان پگھلی ہوئی چٹانیں کے اوپر باہری یا اوپری پرت بن گئی تھی۔ ہر چٹانی سیّارہ ایک ہی طرح اور ایک ہی جیسے اجزاء سے بنا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس میں سے ہر ایک نہایت ہی منفرد اور دوسرے سے مختلف تھا۔ ان کی جسامت اور مدار بھی الگ الگ تھے۔

    خلاء ہمیں کافی خالی خالی لگتی ہے مگر دراصل ایسا نہیں ہے۔وہ سورج سے نکلے ہوئے ذرّوں سے بھری ہوئی ہے۔سورج زبردست قسم کے مقناطیسی جھکڑMagnetic Field)) پیدا کرتا ہے جو اس کی سطح سے بلند ہو کر جناتی قسم کے حلقے ب(Giant Loops)ناتے ہیں۔جب یہ آپس میں ٹکراتے ہیں تو اس سے شمسی طوفان (Solar Winds)اٹھتے ہیں جو نہایت ہی گرم اور باردار ذرّات خلاء میں دور دور تک پھیلا دیتے ہیں۔یہ شمسی طوفان کہلاتے ہیں۔خلاء میں خلاء نورد ان کو دیکھ سکتے ہیں۔ مگر اس وقت جب وہ اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ جب وہ آنکھیں بند کرتے ہیں تو روشنی کے ہلکے جھماکے سے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ توانائی کےذرّات ہوتے ہیں جو ہماری آنکھوں میں موجود مائع سے ٹکراتے ہیں تو ہمیں روشنی کے ہلکے جھماکے محسوس ہوتے ہیں اور یہ ہر تھوڑی دیر بعد آپ کو محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ خلاء نورد اگر شمسی ہواؤں کا زیادہ سامنا کریں تو وہ ان کے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہیں ۔ اپالو مشن میں چاند کا دو پروگراموں کے درمیان شمسی ہوا چاند سے ٹکرائی تھی اگر وہاں کوئی خلاء نورد ہوتا تو اس کی جان چلی جاتی۔خلاء میں جانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔

    زمین پر یہ شمسی ہوائیں اس قدر نقصان دہ نہیں ہوتی ہیں ۔کیونکہ ہمیں ایک نادیدہ ڈھال نے ڈھانپے رکھا ہے جو کہ زمین کی قلب کا بنایا ہوا مقناطیسی میدان ہے۔ زمین کے عین مرکز میں میں ٹھوس دھاتی قلب ہے جو کہ سخت لوہے پر مشتمل ایک گیند سی ہے جو مستقل گھومتی رہتی ہے۔ جس کی وجہہ سے مقناطیسی میدان وجود میں آتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک نظریہ ہی تھا۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لئے سائنس دانوں کو اپنا سیّارہ ایک تجربہ گاہ میں بنانا پڑا۔اس میں انہوں نے ١٠ فٹ کی ٢٦ ٹن کی دھاتی گیند کو زمین کے قلب کی نقل کے طور پر استعمال کیا۔اس کے گرد مائع سوڈیم کو ٩٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھمایا۔تاکہ اس پگھلے ہوئے دھاتی مادّے کی نقل کی جاسکے جو زمین کے قلب میں چکر لگا رہا ہے۔اس تجربہ کا مقصد صرف یہ جاننا تھا کہ آیا اس سے مقناطیسی میدان پیدا ہوتا ہے یا نہیں ۔تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ زمین کے مقناطیسی میدان کیوں ہیں اور دوسرے سیّاروں کے کیوں نہیں ہیں۔ یہ بالکل ایسے کام کرتا ہے جیسے ہماری گاڑی میں موجودجنریٹر کام کرتا ہے۔ جنریٹر میں گھومتے ہوئے تاروں کے لچھے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ اس تجربے میں مائع سوڈیم نے قلب کے گرد گھومتے ہوئے مقناطیسی میدان پیدا کردیئے ۔ اس نے کافی حد تک برقی موٹر کی طرح کام کیا جس میں حرکی توانائی موٹر کی حرکت سے مقناطیسی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے۔ بالکل یہی چیز زمین کے اندر ہوتی ہے ۔ جیسے زمین گھومتی ہے تو اس کے ساتھ گرم مائع دھات اس ٹھوس قلب کے گرد گھومنا شروع کردیتی ہے۔جس سے اس کی توانائی مقناطیسی توانائی میں تبدیل ہوجاتی ہے جو زمین کے قطبین سے نکل کر دور تک پھیل جاتی ہے۔

    یہ مقناطیسی میدان زمین کی فضا کو شمسی طوفانوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر سیّارےکے اپنا مقناطیسی میدان ہوں تو یہ شمسی طوفانوں کو ادھر ادھر بھگا دیتی ہیں۔ یہ مقناطیسی میدان سورج کے شمسی طوفانوں کو موڑ کرکرۂ ارض کی فضا اور اس میں موجود سانس لینے والی ہر شئے کو اس سے بچاتی ہیں۔کبھی کبھی بڑے شمسی طوفانوں سے نکلنے والی اشعا ع مقناطیسی میدان سے الجھ پڑتی ہیں۔جو ہمیں قطبین پر قطبی روشنیوں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ مقناطیسی میدان کے بغیر شمسی جھکڑ ہماری فضا کو لمحوں میں تباہ کردیں گے اور پانی کو بھی ختم کردیں گے۔جس کے بعد زمین ایک مردہ سیّارےکی طرح بنجر ہوجائی گی۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ مریخ۔ 

    سیّارہ مریخ بھی زمین ہی کی طرح پیدا ہوا تھا۔مگر آج یہ ٹھنڈا ،خشک اور بے آب و گیا ہے۔اس کی فضا نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔مریخ زمین سے اتنا مختلف کیوں ہے؟اس بات کا جواب حاصل کرنے کے لئے ٢٠٠٤؁ء میں ناسا نے دو کھوجی گاڑیاں مریخ کو جانچنے کے لئے روانہ کیں۔ ان کے نام سپرٹ (Spirit) اور اپر چونٹی(Opportunity) تھے۔(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر٩)


    جنہوں نے مریخ کی سطح کا میلوں تجزیہ کیا ۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ مریخ ایک مردہ اور زندگی پنپنے کے لئے ایک نامہرباں صحرا ہی کی طرح ہے۔ اس کی فضا زمین کی فضا کا صرف ایک فیصد ہی ہے۔مگر اس نے اس بات کی بھی تصدیق کہ ہے کہ وہاں ماضی میں پانی کے پائے جانے کے ثبوت بھی ملے ہیں۔ مریخ ہمیشہ سے صحرا نہیں تھا ۔اس بات کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ پانی کبھی اس کی سطح کے نیچے بہتا تھا ۔پھر وہ سطح پر بھی آیا مگر بخارات بن کر اڑگیا ۔ وہاں کچھ جگہیں ایسی بھی ملی ہیں جن کے نشانات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہاں پانی کبھی بہتا تھا۔ نہ صرف پانی اس کی سطح کے نیچے موجود تھا بلکہ وہ اوپر کی سطح پر بہتا بھی تھا اور اگر کبھی وہاں پانی موجود تھا تو غالب امکان یہ بھی ہے کہ وہاں فضا بھی موجود ہوگی۔ تو پھر آخر ایسا ہوا کیا کہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ مریخ میں کبھی زندہ آتش فشاں بھی موجود تھے۔لہٰذا اس کا اندرونی حصّہ کبھی بہت ہی گرم رہا ہوگا اور کیونکہ اس کے اجزاء ترکیبی بھی وہی تھے جو زمین کے تھے لہٰذا اس کے قلب میں بھی ٹھوس دھاتی گیند بھی ہوگی ۔ جس کے گرد مائع دھاتیں بھی موجود ہوں گی۔ لہٰذا اس کا مقناطیسی میدان بھی ضرور رہا ہوگا۔

    اہم سوال یہ ہے کہ وہاں اب مقناطیسی میدان کیوں موجود نہیں ہے۔ سیّاروں کی ابتدائی تاریخ میں مریخ کے اپنے زبردست مقناطیسی میدان موجود تھےاور وہ بھی اسی وجہ سے اور اسی طرح سے بنے تھے جیسے کہ زمین کے مقناطیسی میدان۔ مگر مریخ زمین سے چھوٹا سیّارہ ہے۔ جس کی وجہ سے اس کی حرارت جلد ہی ختم ہوگئی ۔ اور اس وجہہ سے مائع دھاتیں ٹھوس حالت میں آگئیں۔ ایصال حرارت رک گئی۔جیسے ہی ایصال حرارت رکی ویسے ہی مقناطیسی میدان غائب ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی شمسی ہواؤں نے اس کی فضا کا تیا پانچہ کر دیا ۔ پانی بخارات بن کر اڑ گیا۔مریخ سرد اور بنجر سیّارہ بن گیا۔

    مریخ،زمین،زہرہ اور عطارد سب کے سب چٹانی سیّارےسورج کے ١٥ کروڑ میل کے دائرے میں بننے۔ مگر اس سے چار گنا زیادہ دور سورج نے مختلف قسم کے سیّاروں کو گرمایا ۔ وہ دیوقامت ہیں اور گیس سے بنی ہوئی عظیم گیندوں کی مانند ہیں ۔ ان عفریتوں کی کوئی ٹھوس سطح موجود ہی نہیں ہے۔ابھی تک خلاء نوردوں نے دوسرے نظام ہائے شمسی میں ١٨٥٠ کے قریب سیّارےدریافت کیئے ہیں۔ تقریبا" سب کے سب نہایت مہیب اور قوی ہیکل ہیں اور سب کے سب گیس سے بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے نظام شمسی میں وہ چار نام نہاد قوی ہیکل گیسی جناتی سیّارے مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون ہیں۔ان سب کی فضا نہایت گاڑھی اور شوربے جیسی ہے ۔ جس میں ہائیڈروجن، ہیلیم، او ر بہت ساری میتھین ہے۔اب سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ سورج کے بیرونی حصّہ میں گیسی سیّارےاور اندورنی حصّے میں چٹانی سیّارے کیوں بنے ہیں ۔ کیا ان کے اس طرح کی ماہیت کا سبب کہیں ان کا محل وقوع تو نہیں تھا۔

    سورج سے ٥٠ کروڑ میل دور کافی ٹھنڈ ہے۔نظام شمسی کی ابتداء میں کچھ گرد تھی مگر زیادہ تر گیس اور پانی ، برف کے دانوں میں منجمد تھے۔جہاں یہ گیسی دیو بننے شروع ہوئے وہاں اتنی سردی تھی کہ برف ٹھوس شکل اختیار کر سکتی تھی۔ وہاں یہ جمع ہوکر دیوہیکل سیّاروں کی قلب میں ڈھل سکتی تھی اسی وجہ سے یہ دیوہیکل سیّارےاس قدر قوی الجثہ ہیں۔ وہاں اس قدر برف اور گیس جمع تھی کہ قلب بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس کا حجم زمین سے تقریبا"١٠ گنا بڑھ گیا۔ اتنے بڑے مرکزوں نے زبردست قوّت ثقل پیدا کی۔ جس سے اس کی مادّے کو کھینچنے کی طاقت اس قدر بلند ہوگئی کہ اس نے آ س پاس کی ساری گیسوں کو کھینچنا شروع کردیا۔ گاڑھی فضا دسیوں ہزار میل گہری بن گئی۔ وہ سیّارےجتنے بڑے ہوتے گئے قوّت ثقل اتنی ہی بڑھتی گئی۔ سیّاروں کے گرد جمع ہوتے ہوئے گرد و گیس کے بادلوں نے ان سیّاروں کے چاندوں کے لئے خام مال کا کام کیا۔

    مشتری اور زحل ہر ایک کے ٦٠ سے زائد چاند ہیں۔گیسی دیوہیکل سیّاروں کی ایک اور منفرد خصوصیت ان کے گرد موجود خوبصورت چھلے(Rings) ہیں۔زحل ان تمام گیسی سیّاروں میں اس لئے منفرد ہے کہ اس کے چھلے سب سے زیادہ خوبصورت ہیں۔مشتری،یورینس اور نیپچون کے چھلے اس قدر کمزور ہیں کہ ان کو ڈھونڈھ نکالنا ایک دقّت طلب کام ہے۔ مگر بہرحال وہ چھلے ان کے گرد بھی موجود ہیں۔ اگر زحل کے چھلے دور سے دیکھیں تو وہ ایک ٹھوس چپٹی ٹکیہ کی شکل کے لگتے ہیں مگر اصل میں وہ ہزاروں مختلف ٹکڑے ہیں ہر ٹکرا کچھ میل پر پھیلا ہوا ہے۔

    جب کسینی (Cassini) کھوجی زحل کے پاس سے گزراتو اس نے ارب ہا ارب برف کے ٹکڑے دیکھے جو ٥٠ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے ان چھلوں میں مدار کے گرد چکر کاٹ رہے تھے۔ یہ برف اور پتھروں کے ٹکڑے آپس میں مستقل ٹکرا رہے تھے۔ ان میں سے کچھ چھوٹے چاندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو دوسرے مزید ریزہ ریزہ ہوجاتے ہیں۔ مگر کبھی وہ ایک بڑا چاند نہیں بنا سکتے کیونکہ زحل کی زبردست قوّت ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ سائنس دان ابھی اس بات کی تلاش میں ہیں کہ یہ چھلے شروع میں بنے کیسے تھے۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ ایک دم دار ستارہ زحل کے ایک چاند سے اس زور سے ٹکرایا کہ اسے اس کے مدار سے دھکیل کر زحل کے قریب کردیا اور پھر زحل کی زبردست قوّت ثقل نے اس چاند کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے اور اس چاند کا سارا ملبہ زحل کی قوّت ثقل کے زیر اثر وہاں پھنس گیا جہاں انہوں نے چھلوں کی شکل اختیار کرلی۔

    مگر اصل راز تو ان دیوقامت گیسی سیّاروں کے اندر دفن ہے۔ دسیوں ہزار میل ان کے بادلوں کے نیچے جہاں اصل کام ہورہا ہے۔ یہ اتنی خطرناک جگہ ہے کہ قانون فطرت کو کھلا چیلنج دیتی ہے۔نئے دریافت ہونے والے سیّارےزیادہ تر گیسی دیو ہیں جو اپنے ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں۔ وہ اس قدر عظیم الجثہ ہیں کہ ان کے سامنے مشتری ایک بونا سیّارہ لگتا ہے۔ مگر سائنس دان اس جستجو میں ہیں کہ کسی طرح یہ معلوم ہوجائے کہ ان کے اندرون خانہ کیسا ماحول ہوتا ہے۔ مگر فی الحال ابھی یہ ان کے لئے راز ہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کے سیّارہ مشتری کی فضا ٤٠ ہزار میل گہری ہے اور ہم اس کی سطح پر چلتے ہوئے زبردست قسم کے طوفانوں بھی کو دیکھتے ہیں جو وہاں موجود گیس جنم دیتی ہے۔مگر ہم اس بات سے بے خبر ہیں کہ ان طوفانوں کے نیچے کیا عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اس بات کو جاننے کے لئے ناسا نے ایک ١٤ سالہ مشن جس کا نام گلیلیو (Galileo) تھا مشتری کی جانب روانہ کیا(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٠)


    ۔ گلیلیو نے ایک کھوجی مشتری کی فضا میں چھوڑا جس کی رفتار ١٦٠ ہزار میل فی گھنٹہ تھی ۔ مشتری کی گاڑھی فضا میں داخل ہوتے ہوئے پیراشوٹوں نے اس کی رفتار کو کم کیا۔ جب یہ وہاں سے گزر راہ تھا تو اس نے بجلی کو کڑکتے دیکھا ۔ وہاں اس نے ٤٥٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے طوفانی ہوائیں چلتے ہوئے دیکھیں ۔ اس کھوجی نے اگلے ٥٨ منٹوں تک زمین پر سیّارےکی فضا سے مطلق مواد بھیجا۔

    ایک دلچسپ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب گیسی سیّاروں کی کوئی ٹھوس سطح نہیں ہوتی تو پھر اس گلیلیوکے کھوجی کا کیا ہوا جو مشتری کی فضا میں پھینکا گیا تھا۔ کیا وہ کسی چیز سے ٹکرایا ہوگا۔ اصل میں وہ کھوجی تو بس مشتری کی فضا میں گرتا ہی چلا گیا اور مشتری کی فضا کا دباؤ اس پر بڑھتا چلا گیا ۔ جب وہ مشتری کی فضا میں داخل ہوا تھا تو اس پر زمین سے ٢٣ گنا زیادہ دباؤ تھا اور اس کا درجہ حرارت ٣٠٠ ڈگری تک جا پہنچا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ گیسی دیو سیّارےکی ٹھوس سطح نہیں ہوتی ہے ۔ مگر جب آپ اس کی فضا میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں آپ بہت زیادہ وزن محسوس کرتے ہیں اور آخر کار آپ اس دباؤ کی وجہہ سے پچک جاتے ہیں۔اگرچہ وہ کھوجی صرف ١٢٤ میل دور ہی گیا تھا مگر وہاں پہنچتے پہنچتے وہ کچلا گیا۔اگرچہ اس کھوجی کے ذریعہ مشتری کے اندرون خانہ کی تانک جھانک ہوگئی مگر اس کا تاریک دل اب بھی سائنس دانوں کے لئے ایک معمہ ہی بنا ہوا ہے۔

    کچھ چٹانی سیّاروں کی طرح گیسی دیوہیکل سیّاروں کے بھی مقناطیسی میدان ہوتے ہیں۔ مگر ان کا مقابلہ کسی بھی طرح چٹانی سیّاروں سے نہیں کیا جاسکتا۔ مشتری کے مقناطیسی میدان کی طاقت زمین کے مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ٢٠ ہزار گنا زیادہ ہے اور یہ اس قدر وسیع و عریض ہے کہ زحل تک جا پہنچتی ہے۔مطلب اس کے دائرہ اثر ٤٠ کروڑ میل دور تک جا پہنچتا ہے۔ زمین ہی کی طرح اس کے مقناطیسی میدان اس کی فضا کی حفاظت کرتے ہوئے شمسی طوفانوں کا رخ موڑ دیتے ہیں۔ جب سائنس داں مشتری کے مقناطیسی میدانوں کا مطالعہ کررہے تھے تو انہوں نے یہ بات محسوس کی کہ اس کے مقناطیسی میدان اس کے مہتابوں پر اثر انداز ہورہے ہیں۔ آتش فشانی چاند جس کا نام آئی او (IO) ہے وہ مشتری سے ٢٧ ہزار میل کی دوری پر اس کا چکر کاٹ رہا ہے۔آئی او کے آتش فشاں ہر لمحہ ایک ٹن گیس اور غبار فضا میں پھینک رہے ہوتے ہیں۔ مشتری کے مقناطیسی میدان اس کو زبردست بار دار کر دیتے ہیں جس سے اشعاع کی طاقتور پٹی بن جاتی ہے اور یہ ہی بات مشتری کے آ س پاس کے علاقے کو بہت زیادہ متحرک کرتی ہے۔ اگر ہم انٹینا کا رخ مشتری کی جانب کریں تو ہم کو مقناطیسی میدان اور سیّارےکے درمیان تمام رابطوں کو سن سکیں گے۔ 

    مریخ اور زحل کو قطبی روشنیوں کے لئے شمسی ہواؤں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان کے مقناطیسی میدان اس قدر وسیع ہوتے ہیں کہ وہ اپنی قطبی روشنی خود ہی پیدا کر لیتے ہیں۔چاندرا خلائی دوربین (Chandra X-Ray Observatory ) نے مشتری کے قطبین کی روشنیوں کی منظر کشی کی ہے۔ اسی طرح ناسا کے کھوجی کسینی نے زحل کے قطبین کی روشنیوں کی تصویر کشی کی ہے۔ یہ قطبی روشنیاں اس بات کا مظہر ہیں کہ ان گیسی سیّاروں کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گیسی سیّارےکس طرح سے اپنا مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔ زمین پر تو ایک زبردست گرم مائع دھات ٹھوس لوہے کی گیند کے گرد گھوم کر یہ کام کرتی ہے۔ مگر کیونکر گیسی سیّارےبھی ایسے ہی مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔ جب کہ ان کے قلب میں تو کھولتا ہوا لوہا نہیں موجود ہے۔ سائنس دانوں کو یہ سوال زچ کئے ہوئے تھا کہ آخر کار ان کے قلبوں میں یہ کام کس طرح انجام پذیر ہورہا ہے۔ ان گیسی سیّاروں کے قلب تو جمی ہوئی گیس اور برف سے بنے ہوئے ہیں۔ سائنس دان ابھی تک اس بات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے کہ مشتری کے قلب کی گہرائی میں اس کا اندرون کس چیز سے بنا ہوگا۔ یہ بات بھی ممکن ہے کہ مشتری کے قلب میں کوئی ٹھوس چیز موجود ہو ۔ یا اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس کے قلب میں کوئی دھات مائع حالت میں موجود ہو۔ شاید ہم یہ بات مستقبل بعید میں کبھی جان پائیں ابھی تو کوئی بھی کھوجی اس قابل نہیں ہے کہ وہ ٤٤ ہزار میل کی گہرائی میں جا کر اس کے قلب کو جانچ سکے۔ گلیلیو تو کچھ دور ہی جا کر تباہ ہوگیا تھا۔

    گیسی سیّاروں کے قلبوں پر تحقیق کرنے کے لئے سائنس دانوں نے مشتری کے قلب کو تجربہ گاہ میں بنانے کی کوشش کی ہے۔لیور مور ، کیلی فورنیا میں واقع نیشنل اگنیشن فیسلٹی تجربہ گاہ (The National Ignition Facility) میں سائنس دان مشتری کے قلب کی نقل بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کام کے لئے وہ نہایت طاقتور لیزر مشینیں استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مشینیں خاص طور پر اس لئے بنائی ہیں کہ ہائیڈروجن کو اس کی کثافت کی انتہائی بلندیوں پر لے جایا جائے۔ مشتری کے اندر ٤٠ ہزار میل پر پھیلی ہوئی ہائیڈروجن مشتری کے قلب کو زبردست دباؤ کے ساتھ کچل رہی ہے ۔ تجربہ گاہ میں اس بات کو دہرانے کے لئے ١٩٢ لیزر کی کرنیں ایک چھوٹے سے ہائیڈروجن کے ٹکڑے پر ماری گئیں جس سے ہائیڈروجن کے اس ٹکڑے پر اتنا دباؤ بڑھ گیا کہ وہ زمینی دباؤ سے ١٠ لاکھ گنا زیادہ ہوگیا اس دباؤ پر ہائیڈروجن مائع حالت میں تبدیل ہو گئی مگر جب اس دباؤ کو زمینی دباؤ سے کروڑوں گنااتنا زیادہ کیا جتنا کہ مشتری کے قلب میں ہوگا تو تو ہائیڈروجن نے نہایت ہی عجیب سا برتاؤکیا۔ ہائیڈروجن نہایت ہی بنیادی عنصر ہے مگر اتنا زیادہ دباؤ ہائیڈروجن کی ہیت ہی بدل دیتا ہے۔ لہٰذا وہ2 H کی سخت دھات میں ڈھل جاتی ہے۔ سائنس دانوں کے خیال میں مشتری کے قلب میں یہ ہی ہوتا ہے۔ دباؤ اور حرارت مشتری کے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو دھاتی شکل دے دیتی ہے۔ مشتری کا یہ دھاتی قلب یا مرکزہ بالکل اسی طرح کام کرتا ہے جیسے زمین پر لوہے کا مرکزہ کام کرتا ہے اور اسی دھاتی ہائیڈروجن سے گیسی سیّارےزبردست مقناطیسی میدان پیدا کرتے ہیں۔

    قوّت ثقل اور حرارت دونوں سیّاروں کے ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دونوں سیّاروں کے مرکز سے لے کر اس کی فضا بنانے تک کا تعین کرتے ہیں۔یہ دونوں سیّاروں کو ان کی موجودہ شکل و صورت دیتے ہیں اور زبردست تخلیقی قوّت کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مگر ابھی ایک نہایت اہم جز باقی ہے جو سیّاروں کو بالکل مختلف طرح سے بدل دیتا ہے اور وہ اہم جز ہے ہمارا جانا پہچانا پانی۔ سیّارے غیر متغیر اور پائیدار لگتے ہیں مگر ان کی ارتقاء پذیری کا عمل کبھی بھی نہیں رکتا۔ ہمارے اپنے نظام شمسی میں ایک سیّارےنے اپنی فضا کو کھو دیا اور ایک بنجر اور ناکارہ زمین میں تبدیل ہوگیا جبکہ ایک اور سیّارہ جہنم بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ سیّارہ زمین بھی تبدیل ہوگیا مگر یہاں یہ تبدیلی پانی کی وجہ سے آئی۔جب ہم زمین کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ خلاء میں ہمارا سیّارہ نیلا نظر آتا ہے۔ اس قدر پانی کا مطلب تو یہ ہونا چاہئے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کم از کم خلاء میں دور سے ایسا ہی لگتا ہے کہ ہماری زمین پانی میں ڈوبی ہوئی ہے اس کا تین چوتھائی حصّہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے ۔ زمین کی کمیت کے حساب سے پانی کا حصّہ صرف ٠۔٦ فیصد ہے ۔ اس میں وہ سارا پانی شامل ہے جو سمندر کی شکل میں ہو یا زیر زمین میں موجود ہو۔حقیقت میں تو زمین بہت ہی سوکھی ہوئی ہے۔

    اندرونی چٹانی سیّارےسورج کے قریب پیدا ہوئے لہٰذا وہ جلد ہی سوکھنے لگے۔ ان میں موجود پانی یا تو بخارات بن گیا یا پھر ٹکراؤ کے نتیجے میں ادھر ادھر خلاء میں پھیل گیا ۔ یہ تصادم اس قدر خوفناک تھے کہ پانی بخارات کی شکل میں زمین سے ضرور اڑ گیا ہوگا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ زمین پر جو ہم پانی دیکھتے ہیں وہ کہاں سے آیا۔ جب ہم مزید دور دیکھتے ہیں تو ہمیں مشتری ، زحل، یورینس اور نیپچون نظر آتے ہیں جہاں پانی کی کثیر اور عظیم الشان مقدار ان کے اندر دفن دکھائی دیتی ہے۔ زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے چاندوں میں بھی کافی مقدار میں پانی موجود ہےان چاروں گیسی سیّاروں کے تمام چاند کم از کم ٥٠ فیصد پانی سے بنے ہیں۔ مگر یہ سوال اب بھی اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ آخر زمین پر پانی کہاں سے آیا۔ اس کا جواب ہم سے بہت دور ہمارے نظام شمسی میں سیارچوں اور شہابیوں میں دفن ہے جنہوں نے پانی کی کافی بڑی مقدار اب بھی بچا کر رکھی ہوئی ہے۔ پانی سے بھرپور ان لاکھوں سیارچوں اور شہابیوں میں سےاکثر سیارچے اور شہابیے سورج کے اندرنی حصّے کی طرف نکلتے رہتے ہیں۔ ماضی میں ان میں سے کچھ زمین سے ٹکرا گئےہوں گے ۔ زمین نے یہ سارا پانی ان سیارچوں اور شہابیوں سے ہی حاصل کیا ۔ یہ وہی پانی ہے جس نے زمین کو اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ مگر دلچسپ بات جو سائنس دانوں کو تنگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ پانی کی اتنی ہی مقدار کیوں سیارچوں اور شہابیوں نے زمین کو عطا کی جتنی کہ زمین کو زندگی کو پروان چڑھانے کی ضرورت تھی۔ کیا یہ زمین کی خوش قسمتی تھی ؟ اگر پانی کے تناسب میں ذرّہ برابر بھی اونچ نیچ ہوجاتی تو کیا ہوتا۔ اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے ٥٠ فیصد بھی کم ہوتا تو سطح زمین تقریبا"خشک ہی ہوتی اور اگر تھوڑا بہت پانی سطح سے اوپر رہ بھی جاتا تو وہ بھی زمین چوس لیتی ۔ سطح کے اوپر پانی نہ ہونے کا مطلب بنجر اور ویران زمین ہی ہے۔دوسری طرف اگر پانی بہت زیادہ ہوتا تو سطح زمین پوری پانی سے ڈھک جاتی یہاں تک کہ ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹی بھی پانی میں ڈوب جاتی۔

    اگر پانی اپنی موجودہ مقدار سے دگنا ہوتا تو کیا سیّارہ زمین جدیدزندگی کے لئے موزوں ماحول فراہم کرسکتی تھی۔ ظاہر سی بات ہی کہ جدید طرز زندگی گزارنے کے لئے خشک زمین کی ضرورت ہوتی ہے ۔پانی کی بالکل صحیح اور نپی تلی مقدار نے ہماری جیسی نوع انسانی کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنےکا موقع دیا۔ آج سے لگ بھگ ٤ ارب سال پہلے ان سیارچوں اور شہابیوں نے اس دنیا کو جس کو میں اور آپ جانتے ہیں بالکل صحیح اور مناسب مقدار میں پانی فراہم کیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات کی کسی اور جگہ یہ ہی سب کچھ دہرایا جارہا ہو۔ایک بات تو ثابت ہے کہ کائنات میں پانی کی کہیں کوئی قلّت نہیں ہے۔ ہائیڈروجن کائنات میں سب سے زیادہ پایا جانے والا سب سے عنصر ہے اور آکسیجن بھی کافی مقدار میں کائنات میں موجود ہے لہٰذا غالب امکان یہ ہے کہ پانی کا سالمہ کائنات کا پسندیدہ ترین سالمہ ہوگا۔ H2O کا سالمہ کائنات میں بننا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی اور درحقیقت یہ سالمہ ہماری کائنات میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے۔ پانی کائنات میں ہر جگہ دستیاب ہے اور اب ہم نے نظام شمسی کے باہر بھی سیّارےدریافت کرنا شروع کر دیئے ہیں ۔

    بہرحال زمین جیسا سیّارہ جو کسی دوسرے نظام شمسی میں موجود ہو ااور اپنے ستارے کی گرد مدار میں چکر کاٹ رہا ہو جس کی کمیت اور کیمیائی حالت زمین کے جیسی ہو ابھی دریافت کرنا باقی ہے۔ انسانیت کے لئے کسی ایسے سیّارےکی کھوج جو ہم سے مماثلت رکھتا ہو اور ہم جس کو دوسرا گھر کہہ سکیں ابھی بہت دور ہے ۔ مگر ہم اب بھی تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں میں موجود ٢ کھرب ستاروں میں لگ بھگ ٤٠ ارب ستاروں کے گرد سیّارےچکر لگا رہے ہیں ۔ ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ جب ہم اس سیّاروں کو دریافت کرلیں گے تو وہ ہمیں اپنے سیّارےکے ارتقاء کو سمجھنے میں کافی مدد دیں گے۔ ان دور دراز نظام ہائے شمسی کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیّاروں سے ہم اپنے نظام شمسی کے سیّاروں کی ارتقاء کے عمل کو جان سکیں گے۔

    ہم سیّاروں کے سنہرے دور میں داخل ہوئے چاہتے ہیں ۔ کائنات میں موجود متنوع فیہ قسم کے سیّاروں کو سمجھنے کی یہ توبس شروعات ہے۔ سیّارےتو بس کیمیا اور طبیعیات کے قوانین پر پیرا عمل ہوتے ہیں۔ باقی ان کا مقدر اور قسمت ہوتی ہے جو یہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ کیسے بنیں اور کیسے نظر آئیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ بس اب کچھ عرصہ کی ہی بات ہے جب وہ زمین کے جیسا کوئی سیّارہ تلاش کرلیں گے جس کے کیمیائی عناصر بالکل زمین ہی کی طرح ہوں گے اور اس کا فاصلہ اپنے ستارے سے بالکل مناسب مقام پر ہوگا اور جس کے پاس موزوں مقدار میں پانی کی بھی فراوانی ہوگی۔ ایک بات تو ثابت ہے کہ کائنات میں ارب ہا ارب سیّارےاپنی دریافت کے منتظر ہیں۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: کرۂ ارض اور اس کے پڑوسی سیّارے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top