Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 3 جون، 2015

    سپرنووا

    ایک زبردست دھماکے سے پھٹتا ہوا ستارہ ‘‘سپرنووا’’ (Supernova) کہلاتا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر1)۔ 


    یہ کائنات میں ایک قیامت انگیز لمحہ ہوتا ہے۔ ماہرین فلکیات نے سپرنووا کو ان کی جسامت کے اعتبار سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ ہر ایک سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ تمام کائنات میں بہ آسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ سپرنووا دراصل ستارے کی بھیانک ترین موت ہوتی ہے۔ مگر ستارے کی اس موت میں پوشیدہ حیات کو ہم اپنے چاروں طرف روز دیکھتے ہیں۔ جسیم یعنی دیو ستارے (Giant Star) سپرنووا کی صورت میں پھٹتے ہوئے اپنی زندگی تمام کرتے ہیں۔ ایسے کسی پھٹتے ہوئے سپرنووا کی روشنی اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ ایک پوری کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی کو اپنی روشنی سے گہنا دیتی ہے۔ اس سے خارج ہونے والی توانائی، سورج سے نکلنے والی توانائی سے کھرب ہا کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے۔

    ان ہلاکت خیزی کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی سپرنووا، ہماری زمین سے صرف بیس یا تیس نوری سال کے فاصلے پر بھی واقع ہو تو اس سے آنے والی زبردست شعاعیں، ہماری زمین کو بھون کر رکھ دیں گی۔ کوئی بھی قریبی سپرنووا، زمین کو آسانی سے ویران کردے گا۔ سب سے پہلے ریڈیائی لہروں کی بمباری زمینی کرہ ہوائی (فضا) کو بالکل ختم کردے گی۔ اس ہلاکت خیزی سے بچنے کی صرف ایک ہی صورت ہوگی: ہم زمین کے اندر پناہ لے لیں۔ مگر بات یہیں پر ختم نہیں ہوگی۔ زیر زمین ایکس ریز، آبلہ انگیز قوّت کے ساتھ ٹکرائیں گی اور ساری نباتاتی حیات کو، سارے پیڑ پودوں کو، ختم کردیں گی۔ اور اسی کے ساتھ انسانیت معدوم ہوجائے گی۔

    سپرنووا انسانیت کےلئے زہر قاتل تو ہوسکتے ہیں، مگر یہ زندگی کی اساس اور اسے جاری وساری رکھنے والے بنیادی عناصر بھی تشکیل دیتے ہیں۔ ہمارا سیارہ زمین، ہمارا سورج اور ہر وہ چیز جو ہمارے ارد گرد موجود ہے، وہ ان ہی سپرنووا کے بچے کچھے ملبے سے تخلیق شدہ ہے۔ ہمارا جسم بھی نہ جانے کتنے سپرنووا کی خاکِ لحد سے بنا ہوا ہے۔ سارا لوہا، تمام سلیکان اور ہر وہ چیز جس سے ہمارے مکان اور فلک بوس عمارتیں بنی ہیں، ہمارا جسم اور اس میں دوڑتا ہوا خون اور قیمتی سونا، غرض سب کچھ ان ہی سپرنووا کی دین ہے۔

    اکثر ہمارے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات کی بازگشت ہوتی ہے کہ ستارے، سپرنووا کیسے بنتے ہیں؟ اور کیا کبھی ہمارا سورج بھی سپرنووا بن سکے گا؟ ہمارا سورج، کائنات میں موجود دوسرے ستاروں کے مقابلے میں ایک چھوٹا سا ستارہ ہے۔ ہر ستارے کی طرح یہ بھی ایک عظیم نیوکلیائی ری ایکٹر ہے۔ ستارہ اس گداختی عمل (Fusion) کے دوران کائنات میں سب سے زیادہ پائی جانے والی گیس ‘‘ہائیڈروجن’’ کو بطور ایندھن (فیول) استعمال کرتا ہے۔ وہ ہائیڈروجن ایٹموں کو ملاکر ہیلیم بناتا ہے اور نتیجتاً زبردست توانائی خارج ہوتی ہے۔ جب ہائیڈروجن ایندھن ختم ہوجاتا ہے تو پھر ہیلیم ایٹموں کو ایک دوسرے میں ضم کرکے کاربن ایٹموں میں ڈھالنا شروع کردیتا ہے اور اپنے آپ کو زندہ رکھتا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ ہیلیم بھی ختم ہوجاتی ہے؛ تو پھر وہ کاربن ایٹموں کو ملاکر آکسیجن بنانے لگتا ہے… بس یوں سمجھئے کہ اس طرح وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے۔

    جب کسی چھوٹے ستارے (جیسے کہ ہمارا سورج) میں گداخت کے عمل سے کاربن بننے کا مرحلہ شروع ہوتا ہے، تو اس کی موت کا وقت قریب آجاتا ہے۔ ستاروں کی تمام زندگی میں قوّت ثقل اور نیوکلیائی طاقت میں ایک توازن قائم رہتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو بھینچ کر دبانا چاہتی ہے؛ جبکہ نیوکلیائی قوّت اسے دھماکے سے بکھیردینا چاہتی ہے۔ جب تک یہ توازن قائم رہتا ہے اور توانائی پیدا ہوتی رہتی ہے، تب تک کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ مشکل تب درپیش آتی ہے جب وہ توانائی پیدا کرنا بند کردیتا ہے۔ قوّت ثقل ستارے کو دبانا، اور اسے زبردست قوّت کے ساتھ بھینچنا شروع کردیتی ہے؛ جبکہ نیوکلیائی قوّت ستارے میں موجود، بچی کچی ہائیڈروجن میں، جو ستارے کی سب سے بیرونی پرت میں ہوتی ہے، گداخت کا عمل جاری رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ چونکہ گداخت کا عمل زبردست توانائی (حرارت) پیدا کرتا ہے، لہٰذا ستارے کی بیرونی سطح باہر کی طرف پھیلنا شروع کردیتی ہے اور وہ ایک عظیم الجثہ گیند کی مانند پھیلتی چلی جاتی ہے… اب یہ ستارہ ایک ‘‘سرخ دیو’’ (Red Giant) میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج سے لگ بھگ ساڑھے چار ارب سے پانچ ارب سال بعد، ہمارا سورج بھی پھیل کر ایسا ہی ایک سرخ دیو بن جائے گا۔ یہ پھیل کر مریخ تک جاپہنچے گا۔ کرۂ ارض پر موجود ہر چیز بھاپ بن کر ختم ہوچکی ہوگی۔ جب سورج کی بیرونی سطح پھیل رہی ہوگی تو اسی وقت، اس کے مرکز میں قوّت ثقل بالکل الٹ اثر ڈال رہی ہوگی: وہ سورج کے قلب کو اس قدر دباؤ کے ساتھ بھینچ رہی ہوگی کہ آخرکار اس کا قلب سکڑ کر (اپنی موجودہ جسامت کے مقابلے میں) دس لاکھ گنا چھوٹا ہوجائے گا۔ بس یوں سمجھئے کہ صرف سیارہ زمین جتنا بڑا۔ اب ہمارے سورج کا قلب، آکسیجن اور کاربن کی کثیف سی گیند بن جائے گا۔ اسی کے ساتھ ہمارا سورج ایک ‘‘سفید بونا’’ (White Dwarf) ستارہ بن جائے گا۔ ہمارے نظام شمسی کی کہانی یہیں تک چلے گی؛ اور اس کے بعد تمام شد ہوجائے گی۔ مرتے ہوئے سورج کی گیس، وقت کے ساتھ ساتھ ادھر ادھر ہوجائے گی۔ مگر یہ سفید بونا ستارہ تب بھی ارب ہا ارب سال تک مدھم مدھم جلتا رہے گا۔

    ہمارا نظام شمسی، کائنات میں موجود زیادہ تر نظام ہائے شمسی سے تھوڑا مختلف ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج ایک اکلوتا ستارہہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں زیادہ تر ستارے جوڑے بنا کر ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر2)۔


    جب ان دو ستاروں میں سے کوئی ایک بھی سفید بونا بنتا ہے اور اپنے جوڑی دار ستارے کے نزدیک ہوتا ہے، تو وہ دوسرے ستارے کا مادّہ چرانے لگتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ دو جڑواں ستارے ایک دوسرے کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہوں اور ایک ستارہ، دوسرے ستارے کی ہائیڈروجن اور ہیلیم کھینچ رہا ہو۔ یہ بالکل ایسا ہی لگے گا جیسے کوئی خون آشام چمگاڈر، کسی کا خون چوس رہی ہو۔ خون آشام ستارہ جیسے جیسے اپنے ساتھی ستارے کاایندھن چراتا ہے، ویسے ویسے وہ زیادہ بھاری اور کثیف ہوتا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ غیرمستحکم بھی ہوتا جاتا ہے۔ اس کے اندر کاربن اور آکسیجن کے ایٹم، گداختی عمل (فیوژن) سے گزرنے کےلئے تیار ہوتے ہیں اور یہ بات اس ستارے کےلئے نہایت بھیانک خبر ہوتی ہے۔

    سفید بونا ایک طرح کا بم ہوتا ہے جو پھٹ پڑنے کےلئے گویا ایک اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ اس ستارے کے اندر بہت زیادہ توانائی جمع ہوچکی ہوتی ہے؛ جو ثقلی توانائی اور نیوکلیائی توانائی کی صورت میں ہوتی ہے۔ اب یہ سفید بونا ایک عفریت میں بدلنے لگتا ہے جسے سائنس دانوں نے ‘‘ٹائپ 1-A’’ سپرنووا کا نام دیا ہے (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر3)۔



    ٹائپ 1-Aسپرنووا، بیس ارب ارب ارب میگا ٹن (Twenty Octillion) توانائی کا حامل، ایک کاربن نیوکلیائی بم ہوتا ہے۔ اس کا شمار کائنات میں سب سے زیادہ دھماکہ خیز چیزوں میں ہوتا ہے۔ آخرکار سفید بونا اپنے ساتھی ستارے کا اتنا زیادہ مادّہ چرا چکا ہوتا ہے کہ وہ اس کی برداشت سے بہت زیادہ ہوجاتا ہے۔ ستارے کے قلب میں کاربن اور آکسیجن گداختی عمل شروع کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ایسا عنصر وجود میں آتا ہے جو ستارے کےلئے موت کا پروانہ ہوتا ہے۔

    سائنس فکشن فلم ‘‘اسٹار ٹریک’’ میں ایک ایسی خفیہ ٹیکنالوجی دکھائی گئی ہے جس سے ستارے کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ مگر ستارے کی موت کا اصل ذمہ دار کوئی خفیہ ہتھیار نہیں بلکہ ہمارے روزمرّہ استعمال کی چیزوں میں شامل ایک چیز ہے۔ اس سے بنی بہت سی اشیاء، میں اور آپ یہ سطریں پڑھتے وقت بھی استعمال کررہے ہوں گے۔ (میں یہ مضمون لوہے سے بنی ہوئی پن کی نوک سے لکھ رہا ہوں جبکہ ہوسکتا ہے کہ آپ اس مضمون کو کمپیوٹر پر پڑھ رہے ہوں کہ جس میں اچھا خاصا لوہا موجود ہوتا ہے۔) اس وقت جب کوئی سفید بونا ستارہ کاربن اور آکسیجن کے مرکزے آپس میں ملاکر، کاربن پر منتج ہونے والا گداختی عمل شروع کرتا ہے؛ تو بس وہی اس کےلئے نوشتہ دیوار ثابت ہوتا ہے۔ سفید بونا یکدم پھٹ پڑتا ہے۔ اس ستارے کے نیوکلیائی دھماکے میں دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ لوہے کی بھی بہت بڑی مقدار خارج ہوتی ہے۔ درحقیقت ٹائپ اے ون (1-A) سپرنووا ان عناصر کو پھیلانے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں جو زندگی کو بنیاد فراہم کرنے میں نہایت ضروری ہوتے۔ ٹائپ 1-A سپرنووا، لوہے کو خلاء میں ارب ہا ارب میل دور تک پھیلا دیتے ہیں۔ پوری کائنات میں موجود لوہا وہیں سے آتا ہے۔

    مگر اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ لوہے سے بھاری عناصر کہاں سے آتے ہیں؟ جیسے کہ سونا، چاندی وغیرہ۔ تو اس سوال کا جواب ہے: لوہے سے بھاری عناصر دوسرے اور اکلوتے ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹ جانے سے وجود میں آتے ہیں۔ سپرنووا، کائنات میں موجود ہر چیز بناتے ہیں۔ ہر وہ چیز جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں، وہ سب کی سب کسی ستارے نے ہی بنائی ہے۔ زمین پر موجود سارے کا سارا مادّہ، سپرنووا کے دوران ہی تخلیق ہوا تھا۔ ہم اور آپ بھی اسی بچے کچھے مادّے سے بنے ہیں۔ درحقیقت ہم ستاروں کی خاک (Star Dust) ہی تو ہیں!

    ہمارے سیارے پر موجود زیادہ تر لوہا ثنائی ستاروں (Binary Stars) کے سپرنووا بن کر پھٹنے ہی سے وجود میں آیا ہے۔ یہ سپرنووا آج سے لگ بھگ پانچ ارب سال پہلے پھٹے تھے۔ زمینی اندرون میں کھربوں ٹن لوہے سے لے کر آسمان چھوتی عمارتوں تک، اور ہماری رگوں میں دوڑتے پھرنے والے خون میں شامل ہیموگلوبین تک، سارے کا سارا لوہا ان ہی ٹائپ 1-Aسپرنووا کے پھٹنے سے وجود میں آیا ہے۔ مگر کائنات میں لوہے سے بھاری عناصر (جیسے سونا، چاندی اور یورینیم وغیرہ) دوسری قسم کے سپرنووا سے وجود میں آئے ہیں۔ اس قسم کا سپرنووا وہ ستارے بنتے ہیں جو اکلوتے ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ستاروں کی کمیت، ہمارے سورج سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ کائنات میں ایسے ان گنت عفریت موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کمیت سورج کی کمیت سے کوئی پچیس تیس گنا زیادہ ہوتی ہے؛ تو کچھ کی کمیت، سورج کے مقابلے میں سینکڑوں گنا زیادہ ہوتی ہے۔ جتنی زیادہ کمیت ہوگی، ستارے کی عمر بھی اتنی ہی کم ہوگی۔ جتنا بھاری ستارہ ہوگا، وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا نیوکلیائی ایندھن پھونک ڈالے گا۔ جب اس قسم کے عظیم و جسیم ستارے، اپنی عمر پوری کرتے ہوئے موت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں، تو ان کے اندر جاری نیوکلیائی عمل تیز سے تیز تر ہوجاتا ہے۔ بھاری اور بڑے ستارے اپنا نیوکلیائی ایندھن بہت ہی جلدی پھونک دیتے ہیں۔ جو ستارہ جتنی تیزی سے جلتا ہے، وہ اتنی ہی تیزی سے اپنا ایندھن ختم کرتا ہے۔ ستارے کی کمیت جتنی زیادہ ہوگی، وہ اتنا ہی زیادہ گرم ہوگا۔ نتیجتاً وہ اپنا ایندھن بھی اتنی ہی جلدی ختم کردے گا۔

    جب بہت ہی زیادہ کمیت والے ‘‘فوق ضخیم ستارے’’ (Supermassive Stars) سپرنووا کا روپ دھارتے ہیں، تو وہ کائنات میں صرف لوہا ہی نہیں پھیلاتے بلکہ اس دوران وہ لوہے سے بھاری عناصر بھی تخلیق کرلیتے ہیں۔ ایک بار جب وہ اپنے قلب میں موجود ہائیڈروجن کو ہیلیم میں، ہیلیم کو کاربن میں، اور کاربن کو آکسیجن میں تبدیل کرچکے ہوتے ہیں (عملِ گداخت یعنی فیوژن ری ایکشن کے نتیجے میں) تو وہ سفید بونے نہیں بنتے… بلکہ ان میں جلنے کا عمل، گداخت کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس سے ان کے مرکز میں نت نئے عناصر، پرت در پرت جمع ہوتے رہتے ہیں۔ وہ کاربن سے زیادہ بھاری عنصر بناتے رہتے ہیں۔ نیون، آکسیجن سے لے کر سلیکان تک۔ یہ عناصر کائنات میں زندگی کی اساس ہیں۔ مگر یہ عناصر، ستاروں کے قلوب میں قید ہوتے ہیں؛ اور انہیں کسی بھی طریقے سے باہر نکلنا ہوتا ہے… یہاں سے فرار ہوکر دور خلاؤں میں پھیلنا ہوتا ہے۔ سپرنووا بن کر پھٹنے والے ستاروں کا مطالعہ کرکے ہی ہم یہ جان سکے ہیں کہ بھاری عناصر کیسے وجود میں آتے ہیں۔ یہ بھاری عناصر نیوکلیائی گداخت (نیوکلیئر فیوژن) کے ذریعے ہی ستاروں کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ستارے سپرنووا بن کر نہیں پھٹتے تو وہ عناصر ہمیشہ کےلئے ان مُردہ ستاروں کے قلوب ہی میں دفن رہتے۔ تاہم، بڑے یعنی فوق ضخیم ستاروں کے پھٹنے کا ذمہ دار بھی وہی عنصر ہے جو ٹائپ 1-A کے سپرنووا کو پھاڑنے کا موجب بنتا ہے؛ یعنی کہ لوہا۔

    لوہا ستاروں کی گداخت سے پیدا ہونے والی توانائی کو پی جاتا ہے۔ توانائی کے بغیر نیوکلیائی عمل رک جاتا ہے اور قوّت ثقل غالب آکر ستارے کو دبانا اور بھینچنا شروع کردیتی ہے۔ یہ لمحہ بس ستارے کےلئے موت کا پروانہ ہی لے کر آتا ہے۔ ستارے کا آخری لمحہ بہت ہی مختصر سا ہوتا ہے۔ سپرنووا بننے کیلئے درکار عرصہ تقریباً ایک کروڑ سال کا ہوتا ہے؛ مگر اس کا آخری وقت تو صرف چند لمحوں پر محیط ہوتا ہے۔ ستارے کے قلب میں ایک بار لوہا جمع ہوجائے تو وہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے اور ایک سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصّے میں، یعنی صرف ایک ملی سیکنڈ میں منہدم ہوکر سیارہ زمین کی جسامت سے سکڑ کر ایک چھوٹے جتنا ہی رہ جاتا ہے۔ تب اس کے سکڑنے کی رفتار، اپنے آپ میں منہدم ہونے کی رفتار، روشنی کی رفتار کا ایک تہائی ہوتی ہے۔ ستارہ جیسے ہی غیر متوازن ہوتا ہے، ویسے ہی قوّت ثقل اس کے قلب کو منہدم کر دیتی ہے۔ یہ اتنی شدت سے ہوتا ہے کہ ستارے کے قلب میں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے سے متصادم ہوکر آپس میں ضم ہونے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے ستارے کا قلب چھوٹا اور کثیف ہوتا جاتا ہے، ویسے ویسے اس کے مرکز میں توانائی کا ذخیرہ بھی بڑھتا جاتا ہے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ کمیت والی چیز دب کر صرف پندرہ میل قطر ہی کی رہ جائے۔ وہ ستارہ ناقابل بیان حد تک کثیف ہوجاتا ہے۔ پانی کی عمومی کثافت کے مقابلے میں اس کی کثافت دس ہزار کھرب گنا زیادہ ہوجاتی ہے۔

    دھماکا، ستارے کی بیرونی پرت کو اڑا کر رکھ دیتا ہے؛ اور اسی دوران لوہے سے بھاری عناصر تشکیل پاتے ہیں۔ لوہے سے کوبالٹ، کوبالٹ سے نکل، اور اسی طرح ہوتے ہوتے سونا، پلاٹینم اور یورینیم بنتے چلے ہیں۔ اس دھماکے کی مدّت اس قدر مختصر ہوتی ہے کہ بھاری عناصر بہت ہی کم مقدار میں بن پاتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ عناصر زمین پر بھی کمیاب ہیں۔ سپرنووا دھماکے سے یہ بھاری عناصر خلاء میں ارب ہا میل دور تک پھیل جاتے ہیں۔ بھاری عناصر کی تشکیل کا عمل اور طریقہ کار، پوری کائنات میں ہمیں اب تک جو ملا ہے، وہ یہی ہے کہ یہ عناصر ستاروں کے سپرنووا بن کر پھٹنے کے نتیجے میں وجود میں آتے ہیں۔ ناقابلِ یقین سا لگتا ہے کہ اس قیامت خیز دھماکے کے بعد بھی کوئی چیز سلامت بچی رہے۔ مگر اب یہ بات ہمارے مشاہدے میں آچکی ہے کہ اتنے زبردست دھماکے کے بعد بھی ستارے کی لاش باقی رہ ہی جاتی ہے۔ ستارے کی لاش اب تک کی دریافت ہونے والی چیزوں میں نہایت عجیب و غریب اور مہلک ہوتی ہے۔

    جب کوئی دیوہیکل ستارہ سپرنووا بن کر پھٹتا ہے، تو یہ ہمیشہ اس ستارے کا اختتام نہیں ہوتا۔ کبھی کبھار اس کی باقیات بھی رہ جاتی ہیں۔ ان باقیات کا انحصار ستارے کی جسامت اور کمیت پر ہوتا ہے۔ ہمارے سورج سے لگ بھگ آٹھ گنا بڑے ستارے سپرنووا دھماکے کے بعد ایک نیوٹرون ستارہ (Neutron Star) اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر4)۔


    یہ نیوٹرون ستارہ، کائنات کی عجیب و غریب ترین چیزوں میں سے ایک ہے۔ نیوٹرون ستارے اگرچہ نہایت خطرناک اور انوکھے ہوتے ہیں، لیکن کائنات میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

    جب ایک دیوہیکل ستارہ سپرنووا بنتا ہے، تو اس کا قلب سکڑ کر اتنا چھوٹا ہوجاتا ہے جیسے کوئی پورا سیارہ سکڑ کر ایک چھوٹے سے شہر جتنا ہوجائے۔ ستارے کے قلب میں اتنا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ وہاں موجود ایٹموں کے مرکزے بھی ایک دوسرے کے ساتھ دبنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور جب یہ ایٹمی مرکزے آپس میں اس قدر پیوست ہوجاتے ہیں کہ بالکل بھی جگہ نہیں بچتی، تو زبردست توانائی بننے لگتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ ستارہ اس زبردست توانائی کو کسی نہ کسی طور پر نکال باہر کرے؛ اور اپنے آپ کو نسبتاً سکون کی حالت میں لے آئے۔ بس! یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب ایک بہت ہی شدید دھماکہ ہوتا ہے اور قلب کی بیرونی پرت، خلاء میں بکھر جاتی ہے جو اپنے پیچھے ایک فوق ضخیم نیوٹرون ستارہ (Super-massive Neutron Star) ہی بچ جاتا ہے۔ نیوٹرون ستارے کی کمیت بہت ہی زیادہ اور جسامت بہت ہی کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے ہے کہ اس کی کثافت بھی بہت ہی زیادہ ہوگی۔ بس یوں سمجھ لجئے کہ نیوٹرون ستارے میں پوری ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی کمیت، ریت کے ایک ذرّے جتنی جسامت میں سما جائے گی۔ نیوٹرون ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اگر ہمارے پاس اتنا کثیف کوئی مادّہ موجود ہو اور ہم اسے زمین پر ڈالیں، تو وہ زمین کے آرپار ہوجائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے گرم چھری، مکھن میں سے گزرتی چلی جاتی ہے۔ نیوٹرون ستارے میں ایک چائے کے چمچے جتنا مادّہ، دس کروڑ ٹن کے برابر ہوتا ہے۔ ذرا تصور کیجئے کہ ایک پورا ستارہ صرف ایک چھوٹے سے شہر کے رقبے جتنا ہوجائے تو وہ کتنا کثیف ہوگا!

    نیوٹرون ستارہ نہایت ہی تیزی سے گھومتا ہے۔ کچھ تو ایک سیکنڈ میں ہزار مرتبہ گھومتے ہیں۔ صرف یہ بات سوچنے میں ہی ہمارا دماغ چکرا کر رہ جاتا ہے کہ کوئی چیز سورج سے ڈیڑھ گنا زیادہ بڑی ہو اور ایک سیکنڈ میں ایک ہزار بار (اپنے محور پر) چکر لگا رہی ہو۔ کچھ نیوٹرون ستارے اس قدر تیزی سے چکر لگاتے ہیں کہ وہ زبردست قسم کی توانائی کی دھڑکنیں (Pulses of Energy) پیدا کرتے ہیں۔ توانائی کا یہ اخراج، ریڈیو لہروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ اگر کسی نیوٹرون ستارے کو کچھ مختلف حالات درپیش آجائیں اور وہ اپنے قطبین کے بجائے استواء (ایکویٹر) کے گرد گھومنا شروع کردے، تو پھر وہ ‘‘نابض ستارہ’’ یعنی پلسار (Pulsar) کہلاتا ہے۔ ان کے قطبین سے نکلنے والی ریڈیو لہریں (جو بذاتِ خود برقی مقناطیسی لہروں ہی کی ایک قسم ہیں) بہت ہی لگے بندھے اور ٹھیک ٹھیک وقفے کے ساتھ ہمیں اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں یہ اس لئے محسوس ہوتا ہے کیونکہ ایسے سپرنووا کے قطبین ہماری سیدھ میں ہوتے ہیں۔ پلسار سے آنے والی ریڈیو لہروں کا درمیانی وقفہ اس قدر نپا تلا ہوتا ہے کہ جیسے کوئی دور دراز خلائی مخلوق ہمیں اپنی موجودگی کے سگنل بھیج رہی ہو۔ پہلے پہل جب پلسار دریافت ہوئے، تو ان کا مشاہدہ کرنے والے ماہرینِ فلکیات کی ٹیم بھی اسی غلط فہمی کا شکار ہوگئی تھی کہ کوئی خلائی مخلوق، ریڈیو سگنلوں کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ اسی لئے ابتداء میں انہیں ‘‘چھوٹے سبز آدمی’’ (Little Green Men) یا مختصراً ‘‘ایل جی ایم’’ (LGM) کا نام دے دیا۔ البتہ، بعد میں یہ نیوٹرون ستاروں ہی کی ایک قسم ثابت ہوئے۔ ماہرینِ فلکیات آج بھی پیار سے پلساروں کو ‘‘چھوٹے سبز آدمی’’ ہی کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر5)۔


    ایسا ہی ایک پلسار، کیکڑے کی شکل والے سحابئے (Crab Nebula) میں موجود ہے جہاں کوئی ہزار سال پہلے سپرنووا دھماکہ ہوا تھا۔ یہ اپنی قسم کا تیز ترین گھومنے والا ستارہ ہے۔ یہ اپنے محور پر ایک سیکنڈ میں تیس مرتبہ چکر لگالیتا ہے؛ اور اگلے لاکھوں سال تک اسی طرح کرتا رہے گا۔

    مگر صرف پلسار ہی وہ عجیب و غریب اجسام نہیں جو سپرنووا پھٹنے سے وجود میں آتے ہیں۔ جب کوئی ستارہ، جو اپنی کمیت میں سورج سے لگ بھگ تیس گنا زیادہ ہو، اور سپرنووا دھماکے میں اپنی جان گنوادے، تو وہ مرتے ہوئے اپنے پیچھے ایک ایسا نیوٹرون ستارہ چھوڑ جاتا ہے جسے ہم میگنیٹار (Magnetar) یعنی ‘‘مقناتارہ’’ (مقناطیسی ستارہ) کہتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر6)۔


    مقناطیسی ستارے (مقناتارے) پلسار سے زیادہ عجیب ہوتے ہیں۔ یہ نہایت طاقتور مقناطیسی میدان بناتے ہیں۔ ان کے مقناطیسی میدان کی قوّت، زمینی مقناطیسی میدان کے مقابلے میں ایک ہزار کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے! ان کی طاقت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی مقناطیسی ستارہ، ہم سے ہزاروں میل دور ہو، تب بھی یہ ہمارے جسم میں موجود لوہے کے تمام ذرّات کھینچ نکال سکتا ہے۔ مگر سپرنووا کے پھٹنے سے صرف پلسار اور مقناطیسی ستارے جیسی خطرناک چیزیں ہی وجود میں نہیں آتیں، بلکہ ایک اور خطرناک شئے بھی بن سکتی ہے۔ جب کوئی فوق ضخیم ستارہ، سپرنووا دھماکے میں پھٹتا ہے تو اس کی لاش صرف ایٹموں ہی کو نہیں بھینچتی بلکہ وہ زمان و مکان کا تانا بانا بھی منہدم کردیتی ہے… اور یہ سپرنووا ایک بلیک ہول (Black Hole) کو جنم دیتا ہے۔

    جب سورج سے سو گنا بڑا ستارہ سپرنووا بنتا ہے، تو اس کا دھماکا اتنا زبردست ہوتا ہے کہ عام سپرنووا اس کے سامنے محض ایک چنگاری محسوس ہوتا ہے۔ اسی لئے سائنس دانوں نے اسے ‘‘ہائپرنووا’’ (Hypernova) کا نام دیا ہے۔ یہ ہائپرنووا ہی تھا جو شاید تیسری عالمی جنگ شروع کروانے کی وجہ بن جاتا؛ لیکن خوش قسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔

    ١٩٦٣ء میں امریکہ اور سوویت یونین نے نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجرباتی دھماکوں پر پابندی کا معاہدہ کیا۔ روس پر نظر رکھنے کےلئے امریکہ نے ایک جاسوس سیارچہ خلاء میں چھوڑا۔ اس سیارچے نے دور خلاء سے آتی ہوئی زبردست شعاعیں ریکارڈ کیں۔ یہ شعاعیں کسی ایٹمی دھماکے سے بھی پیدا ہوتی ہیں۔ اسی لئے امریکیوں کو یہ گمان ہوا کہ شاید روس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کوئی ایٹمی دھماکہ کیا ہے۔ لہٰذا، اسے انہوں نے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ تصور کیا۔ تاہم، مزید تصدیق کی غرض سے امریکی حکومت نے ایک اور سیارچہ، جس کا نام ‘‘ویلا’’ (Vela) تھا، خلاء میں چھوڑا تاکہ دنیا بھر میں کہیں بھی ہونے والے نیوکلیائی دھماکوں کا سراغ لگاسکیں۔ اس سیارچے نے بھی دُور خلاء سے آتے ہوئے یہ جناتی دھماکے (تابکار شعاعوں کی بوچھاڑیں) ریکارڈ کئے۔ پہلے تو امریکیوں نے سمجھا کہ شاید روس چوری چھپے خلاء میں نیوکلیائی ہتھیاروں کے تجربات کررہا ہے۔ مگر نہ تو وہ کوئی نیوکلیائی ہتھیار تھے اور نہ ہی ان دھماکوں سے روس کا کوئی لینا دینا تھا۔ جب امریکیوں نے ان دھماکوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو انہیں یہ کہکشاں میں ہرطرف سے، بلکہ کہکشاں سے بھی دور سے آتے نظر آئے۔ اب انہیں یقین ہوگیا کہ روس کوئی بھی نیوکلیائی دھماکہ، کہکشاں سے دور جاکر نہیں کرسکتا۔ سائنس داں سمجھ چکے تھے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز دریافت کرلی ہے… وہ دراصل انتہائی طاقتور دھماکے تھے جن سے زبردست توانائی کی حامل گیما شعاعیں خارج ہورہی تھیں۔ اب چونکہ نیوکلیائی ہتھیاروں کے دھماکوں سے بھی گیما شعاعیں خارج ہوتی ہیں، اسی لئے مذکورہ غلط فہمی بھی پیدا ہوئی تھی۔ خیر! مزید چھان بین اور تحقیق کے بعد، دُور خلاء سے آتی ہوئی ان شعاعوں کو ‘‘گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں’’ (Gamma Rays Bursts) قرار دے دیا گیا۔ یہ شعاعیں ہائپرنووا کے پھٹنے کے مقام سے ہماری طرف آرہی تھیں۔

    ایک عام سپرنووا دھماکے کے دوران قوّت ثقل، ستارے کے قلب کو نیوٹرون ستارے میں بدل دیتی ہے۔ مگر ہائپرنووا کے دھماکے میں دیوہیکل ستارہ اس قدر بڑا ہوتا ہے کہ قوّت ثقل اس کے قلب کو دباکر ایک عجیب سی شئے میں بدل دیتی ہے؛ جس کا نام بلیک ہول ہے۔

    ستارے کے قلب میں جیسے ہی بلیک ہول بنتا ہے، وہ فوراً ہی اس ستارے کے باقی ماندہ بیرونی مادّے کو نگلنا شروع کردیتا ہے۔ تاہم، یہ مادّہ بہت زیادہ ہوتا ہے اور نوزائیدہ بلیک ہول انتہائی مختصر؛ لہٰذا بلیک ہول (ستارے کے قلب) کے گرد ایک بھنور سا بنانے لگتا ہے جس کے باعث بلیک ہول کے گرد ایک پرت دار ٹکیہ (Accretion Disk) وجود میں آجاتی ہے۔ اب یہ پرت دار ٹکیہ، بلیک ہول کو ہر ایک سیکنڈ کے دوران، دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ فی فراہم کرنا شروع کردیتی ہے۔ اتنی تیزی سے اس قدر زیادہ مادّہ نگلنے کی وجہ سے ایک ڈرامائی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ نومولود بلیک ہول کےلئے ہر سیکنڈ میں دس لاکھ زمینی کمیت جتنا مادّہ ہضم کرنا بہت ہی زیادہ ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اس میں سے بہت سا مادّہ واپس خلاء میں تقریباً روشنی کی رفتار سے واپس پھینکنا شروع کردیتا ہے۔ اپنی زبردست توانائی کی وجہ سے یہ مادّہ دو بوچھاڑوں کو جنم دیتا ہے جو خالص توانائی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ اب چونکہ یہ انتہائی توانائی کی حامل گیما شعاعوں کی صورت میں ہوتی ہے، اس لئے ہمیں گیما شعاعوں کی بوچھاڑیں نظر آتی ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر7)۔ 


    یہ گیما شعاعیں جو بلیک ہول کے عین کنارے سے نکلتی ہیں، ستارے کی بیرونی پرت کو چیرتی ہوئی خلاء میں دور دور تک بکھرجاتی ہیں۔ یہ گیما بوچھاڑیں اپنے آپ میں ایک نہایت ہنگامہ خیز واقعہ ہوتی ہیں: ایک جناتی ستارہ اپنے آپ کو ریزہ ریزہ کرکے بلیک ہول بن جاتا ہے۔ یہ گیما بوچھاڑیں اس قدر توانا ہوتی ہیں کہ پوری کائنات کو منوّر کردیتی ہیں۔ یہ اس قدر طاقتور ہوتی ہیں کہ کائنات کے کسی بھی دور دراز حصے میں ان کا اخراج دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ کائنات کی روشن ترین چیزوں میں سے ایک ہیں۔

    ایک سپرنووا اس قدر توانائی خارج کرتا ہے جتنی ہمارا سورج اپنی دس ارب سالہ زندگی میں مجموعی طور پر خارج کرے گا۔ لیکن گیما شعاعوں کا اخراج، سپرنووا سے بھی دس کروڑ گنا زیادہ توانائی سے لبریز ہوتا ہے۔ توانا ہونے کے ساتھ ساتھ، یہ شعاعیں انتہائی مہلک بھی ہوتی ہیں۔ خدانخواستہ اگر گیما شعاعوں کی کوئی بوچھاڑ اپنی اسی توانائی کے ساتھ ہماری زمین سے آٹکرائے، تو سیکنڈوں میں زمین کی تمام فضا کو ختم کردے گی۔ ایک بار اگر یہ زمین تک پہنچ گئیں، تو وہ زمین کو نائٹرک آکسائڈ میں نہلا دیں گی، جو اوزون کی حفاظتی تہہ کو تہس نہس کردے گی۔ یہ شعاعیں کرۂ ارض کی زندگی کو براہ راست نشانہ بنائیں گی۔ ان سے الجی ختم ہوجائے گی۔ غذائی پیداوار کی پوری زنجیر، جس پر خود ہمارا انحصار ہے، پوری ختم ہوجائی گی۔ اگر ان شعاؤں کا اخراج، زمین کے تھوڑے بھی نزدیک سے ہوا، تو یہاں جاندار انواع بڑے پیمانے پر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی، معدوم ہوجائیں گی۔ گیما شعاعوں کی یہ بوچھاڑیں، ہمارے سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ عام ہیں۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ ماضی میں کبھی انہوں نے کرۂ ارض کا رخ بھی کیا ہو۔ یہ یقیناً بہت ہی خوفناک صورتحال رہی ہوگی، اگر ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو۔

    اب سوال یہ ہے کہ اگر ماضی میں ایسا کچھ وقوع پذیر ہوچکا ہے، تو کیا دوبارہ بھی ایسا ہوسکتا ہے؟ مگر ایسا دوبارہ ہونے کےلئے کسی بہت ہی دیوہیکل ستارے کا مرنا لازمی ہے۔ ہم سے سب سے قریبی ستارہ ایٹا کرینائی (Eta Crainae) ہے، جو اس قدر دیوہیکل ہے کہ اس کی موت، گیما شعاعوں کی زبردست بوچھاڑ خارج کرسکے۔ یہ سحابیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، جو خلاء میں ہر طرح کا مادّہ بکھیر رہا ہے۔ یہ ستارہ بہت ہی غیر قیام پذیر ہے۔ مگر صرف ایٹا کرینائی ہی ہمارے لئے واحد خطرہ نہیں۔ بہت سے دوسرے مرتے ہوئے ستارے، خلاء میں ہم سے قریب موجود ہیں۔ آپ چاہے یقین کیجئے یا نہ کیجئے، ان میں سے ایک ستارہ جس کا نام WR104 ہے، وہ بالکل ہماری زمین ہی کی طرف رخ کئے ہوئے ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ایسا ہوگا؛ بلکہ یہ ہے کہ کب ہوگا؟ البتہ، اچھی خبر یہ ہے کہ شاید ہمیں کبھی پہلے سے پتا ہی نہیں چلے گا۔ گیما بوچھاڑیں اس سے پہلے ہی ہمیں آلیں گی کہ جب تک ہم کچھ کرنے کے قابل ہوں۔ لہٰذ قصہ مختصر کہ ہمیں اس کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

    سچ تو یہ ہے کہ ہمیں کبھی پتا ہی نہیں چلے گا کہ کب کوئی ستارہ ہائپرنووا کی شکل میں پھٹ پڑے گا۔ خیر! اس سے پہلے کہ ہم جان سکیں کہ کوئی ستارہ ہمارے آس پاس (صرف چند نوری سال کے فاصلے پر) یہ حرکت کرنے جارہا ہے، اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ دراصل ہم پہلے ہی گیما بوچھاڑوں کا سامنا کررہے ہوتے ہیں۔ ہر دن، ہر سیکنڈ میں ہمارا واسطہ ان گیما بوچھاڑوں سے پڑتا ہے۔ مگر یہ ہم سے بہت دور ہوتی ہیں۔

    جب جناتی حجم کے عظیم ستارے پھٹتے ہیں، تو یہ کائنات میں عظیم دھماکے کرتے ہیں۔ مگر ابھی کچھ عرصہ پہلے تک کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کیا چیز ہے جو انہیں اس قدر توانائی بہم پہنچاتی ہے۔ سائنس دانوں نے جب کمپیوٹر پر سپرنووا بننے کی نقل (سمیولیشن) تیار کی تو انہیں ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ کمپیوٹر سمیولیشن یہ ظاہر کررہی تھی کہ مرتے ہوئے ستارے میں اتنی توانائی نہیں ہوگی جو اسے پھٹ پڑنے کےلئے درکار تھی۔ فلکیات کی دنیا میں یہ مسئلہ ایک مصیبت بن گیا تھا۔ کمپیوٹر سمیولیشن نے ستارے کے پھٹ پڑنے کے عمل میں اس توانائی کا ساتھ دینے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ ستارے کو پھاڑنے کےلئے مزید توانائی کی ضرورت تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ ماہرینِ فلکیات اس گتھی کو سلجھانے سے قاصر تھے۔

    بصری اشعاع جو ہم تک پہنچتی ہیں، وہ اس ستارے سے پیدا ہونے والی تمام توانائی کا نہایت ہی معمولی سا حصّہ ہوتی ہیں۔ پھیلتی ہوئی گیسوں سے جو حرکی توانائی خارج ہوتی ہے، وہ پوری توانائی کا صرف ایک فیصد بنا پاتی ہے۔ یہ بات سائنس دانوں کو پریشان کررہی تھی کہ باقی نناوے فیصد توانائی آخر کہاں گئی۔ سائنس دانوں کے پاس کمپیوٹر سمیولیشن کو اصل سپرنووا سے مطابقت میں لانے کا صرف ایک ہی راستہ تھا۔ اور وہ یہ کہ سمیولیشن میں پراسرار ذیلی ذرّات ‘‘نیوٹرائنو’’ (Neutrino) بھی شامل کردیئے جائیں۔ ان کے بغیر کام نہیں چل سکتا تھا۔ یہ تو کہیں آسان کام تھا، مگر اصل بات اس چیز کو واقعتاً ثابت کرنا تھا کہ درحقیقت سپرنووا میں یہی نیوٹرائنو کارفرما ہوتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہماری ایک قریبی کہکشاں میں، جس کا نام ‘‘بڑا مجیلانی بادل’’ (Large Magellanic Cloud) ہے، ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار سال پہلے سپرنووا کا ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے کی روشنی (اور دیگر اشعاع) ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار نوری سال کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم تک 1987ء میں پہنچیں؛ یعنی اُس سال ہم نے اس سپرنووا کی پہلی جھلک دیکھی۔ اسی مناسبت سے اس سپرنووا کا نام SN-1987-A رکھ دیا گیا۔

    سپرنووا 1987-A کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ کسی بھی سپرنووا کو اس کے پھٹتے وقت، دوربین کی ایجاد کے بعد، پہلی بار دیکھا جارہا تھا۔ ہم اس قابل ہوگئے تھے کہ اسے اپنے جدید آلات کی مدد سے پھٹتے ہوئے دیکھ سکیں؛ جو ہم نے اب تک خاص اسی مقصد کےلئے بنائے تھے۔ ان میں سے ایک جناتی قسم کا آلہ تھا جو زیر زمین دفن تھا۔ اس آلے کا کام ہی نیوٹرائنو کی تلاش تھا۔ سائنس دانوں نے نیوٹرائنو کی بوچھاڑ کا سراغ لگا لیا تھا۔ یہ نہایت شاندار دریافت تھی کیونکہ سائنس دان برسوں سے کہتے آرہے تھے کہ ننانوے فیصد توانائی، نیوٹرائنو کی صورت میں ہوتی ہے۔ مگر اس سے پہلے کسی نے اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا تھا۔ اب ہم نے یہ ثابت کردیا تھا کہ سپرنووا کی وہ ننانوے فیصد توانائی ان نیوٹرائنو ہی کی صورت میں خارج ہوتی ہے۔ نیوٹرائنو بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں، اتنے چھوٹے کہ ہائیڈروجن ایٹم کا مرکزہ بھی ان کی جسامت سے ایک ارب بڑا ہوتا ہے۔ یہ ہر قسم کے نیوکلیائی تعامل میں پیدا ہوتے ہیں؛ چاہے وہ نیوکلیائی بم کا دھماکہ ہو، ایٹمی بجلی گھر ہو یا پھر ستاروں کے پھٹنے کا عمل۔ اگر ہم کسی روشنی کے بجائے نیوٹرائنو کی مدد سے دیکھنے کے قابل ہوجائیں، تو ہمیں اپنے ہر طرف نیوٹرائنو ہی نیوٹرائنو دکھائی دیں گے… یہ اتنے زیادہ ہیں کہ ہماری ‘‘نیوٹرائنو بصارت’’ کو خیرہ کردیں گے۔ (لیکن ہمارے لئے فی الحال تو یہ نادیدہ قسم کے ذرّات ہی ہیں۔) اس وقت بھی جبکہ آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں، کھرب ہا کھرب نیوٹرائنو آپ کے جسم میں سے گزر رہے ہیں۔ درحقیقت وہ فرش کے نیجے سے نکل کر ہماری ٹانگوں میں سے گزر رہے ہیں۔ یہ بات واقعی نہایت عجیب سی ہے۔ مگر اصل سوال یہ ہے کہ اتنے زیادہ چھوٹے ذرّات جو ہمارے جسم میں سے تیزی سے گزر رہے ہیں، وہ کہاں سے توانائی حاصل کررہے ہیں؟

    سپرنووا کے پھٹنے سے پہلے جب کسی ستارے کا قلب منہدم ہونا شروع ہوتا ہے، تو اس میں موجود ایٹم بھی شدید دباؤ کے تحت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ستارے کا قلب اس قدر گرم اور شدید دباؤ کا حامل ہوتا ہے کہ وہ اس ایٹمی ملبے کو نیوٹرائنو ذرّات میں تبدیل کردیتا ہے۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ سپرنووا بہت ہی بڑی تعداد میں نیوٹرائنو کو اس وقت جنم دیتے ہیں جن ان کا قلب، نیوٹرون ستارے میں منہدم ہوتا ہے۔ لگ بھگ دس سیکنڈ تک ستارے کے قلب سے اتنے زیادہ نیوٹرائنو ذرّات خارج ہوتے ہیں جو اس مختصر سے دورانئے میں ساری کائنات میں پیدا ہونے والی توانائی سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بہ الفاظِ دیگر، یہ واقعی بہت ہی روشن ہوتا ہے۔ قوّت ثقل ان نیوٹرائنو کو قلب میں جکڑ کر نہیں رکھ سکتی۔ وہ بڑی تیزی سے، اور انتہائی توانائی کے ساتھ، گویا مرتے ہوئے ستارے کا سینہ چیرتے ہوئے باہر نکل جاتے ہیں؛ اور روشنی کے اس زبردست جھماکے کا حصہ بن جاتے ہیں جو سپرنووا کے پھٹتے وقت وجود میں آکر ہر طرف پھیل رہا ہوتا ہے۔

    نیوٹرائنو کی دریافت نے سپرنووا کو سمجھنے کا انداز مکمل طور پر تبدیل کردیا۔ مگر ابھی سپرنووا کا اس راز سے پردہ اٹھانا باقی تھا جس نے کائنات کا مقدر بدل کر رکھ دیا تھا۔ سپرنووا دھماکے سے پیدا ہونے والی روشنی اس قدر چمکدار ہوتی ہے کہ کائنات میں دور دور تک نظر آتی ہے۔ اسی سے ماہرین فلکیات کو کائنات کی پراسرار ترین گتھیاں سلجھانے میں بہت مدد ملی۔

    جیسا کہ ہم پہلے باب میں پڑھ چکے ہیں، کائنات کی ابتداء آج سے 13.7 اَرب سال (تقریباً 14 اَرب سال) پہلے، بگ بینگ سے ہوئی تھی۔ ابتدائی کائنات نے ایک ایسے نقطے سے پھیلنا شروع کیا جس کی جسامت ایک ایٹم سے بھی بہت چھوٹی تھی۔ آج کائنات اب ارب ہا ارب نوری سال پر پھیلی ہوئی ہے؛ اور مزید پھیل رہی ہے۔ شاید مستقبل بعید کی نسلیں، بگ بینگ کے بارے میں نہ جان سکیں۔ ہم اس لئے بگ بینگ کی سراغرسی کرسکتے ہیں کیونکہ ہم اپنے ارد گرد کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور ہٹتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن، ایک دن وہ بھی آئے گا جب کہکشائیں ایک دوسرے سے اتنی زیادہ دور ہوچکی ہوں گی کہ انہیں آسمان پر دیکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ کہکشاؤں کے درمیان اتنا زیادہ فاصلہ ہوگا کہ روشنی بھی ایک سے دوسری کہکشاں تک پہنچنے سے قاصر رہے گی۔ قبل ازیں سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ پھیلتی ہوئی کائنات بتدریج سست پڑجائے گی۔ مگر یہ ثابت کرنے کےلئے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ دوہرے ستاروں سے ٹائپ 1-Aسپرنووا وجود میں آتے ہیں۔ یہ اس وقت پھٹتے ہیں جب کوئی سفید بونا ستارہ ہمارے سورج کی کمیت سے ٹھیک 1.4 گنا زیادہ کمیت کا ہو۔ ان کی روشنی بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ یہ خلاء میں فاصلہ ناپنے کا بہترین پیمانہ ہیں۔ ہمیں ٹھیک ٹھیک معلوم ہے کہ ان سے کتنی روشنی خارج ہوتی ہے، اور یہ کہ ان سے کتنا دُور ہونے پر یہ روشنی کس قدر ماند پڑجائے گی۔ غرض ٹائپ 1-A سپرنووا کو دیکھتے ہوئے جب ہم ان کی روشنی ناپتے ہیں، تو ہم ان کا فاصلہ آسانی سے معلوم کرسکتے ہیں۔ ان کے ذریعے نہ صرف ہم اپنی اور قریبی کہکشاؤں کے فاصلے ناپ سکتے ہیں بلکہ ارب ہا ارب نوری سال دور سے آنے والی روشنی کا بھی صحیح سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اور ان کے ذریعہ فاصلہ ناپنے کی اس صلاحیت نے ایک زبردست دریافت کی بنیاد رکھی۔

    ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ انہوں نے یہ ثابت کرنے کےلئے کافی ثبوت تلاش کرلئے ہیں کہ کائنات کا پھیلاؤ سست پڑرہا ہے۔ مگر ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ہوا یوں کہ 1998ء میں ماہرینِ فلکیات نے ایک غیرمعمولی اور ہماری تمام سابقہ امیدوں کے برخلاف ایک دریافت کرلی۔ اس وقت تک یہ بات مسلّم تھی کہ کائناتی پھیلاؤ، قوّت ثقل کی وجہ سے، سست پڑرہا ہے۔ مگر یہ دریافت تو بالکل اُلٹ تھی: کائناتی پھیلاؤ تو تیز تر ہورہا تھا؛ یہ تو اسرا ع پذیر تھا! ٹائپ 1-A سپرنووا سے آنے والی روشنی نے کائناتی پھیلاؤ کے بارے میں ماہرین فلکیات کی سوچ ایک بار پھر اُتھل پتھل کرکے رکھ دی۔ مگر تب تک ماہرین فلکیات یہ نہیں جان پائے تھے کہ آخر وہ ایسی کونسی چیز ہے جو کائنات کے اسراع پذیر پھیلاؤ کا سبب بن رہی ہے۔ پھر انہوں نے غوروفکر شروع کیا کہ کہیں یہ کوئی ایسی توانائی تو نہیں جو اسراع پذیر کائناتی پھیلاؤ کا موجب بن رہی ہے۔ ہم اب تک یہ نہیں جانتے کہ وہ توانائی آخر کیا ہے، کیسی ہے، اور کس طرح عمل پذیر ہورہی ہے۔ بہرحال! یہ جو کچھ بھی ہے، نہایت پراسرار ہے۔ اور اس پراسرار چیز کو آج ہم ‘‘تاریک توانائی’’ (Dark Energy) کے نام سے جانتے ہیں۔

    مگر اسے ثابت کرنا نہایت ہی مشکل ہے، کیونکہ نہ تو یہ نظر آتی ہے اور نہ ہی اسے چھوا جاسکتا ہے؛ اور نہ ہی اس کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔ سرِدست ہمیں تاریک توانائی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں معلوم۔ اس کی طبیعیاتی نوعیت کیا ہے؟ یہ کہاں سے آئی ہے؟ یہ اب تک دنیائے طبیعیات کی ایک مشکل ترین پہیلی بنی ہوئی ہے۔ تاریک توانائی سے لے کر بلیک ہول کے بننے تک، سپرنووا نے کائنات کی بہت سی پیچیدہ گتھیاں سلجھائی ہیں؛ اور ساتھ ہی ساتھ نئے سوالوں کو بھی جنم دیا ہے۔ پھٹتے ہوئے ستارے، زندگی اور کائنات کو بنیادی خام مال فراہم کرتے ہیں؛ اور ہمیں بتاتے ہیں کہ کائنات میں بکھرے ہوئے عناصر کی تخلیق کیسے ہوتی ہے۔ یہ ہضم کرنا نہایت مشکل ہے کہ ہمارے جسموں کے ایٹم، اربوں سال پہلے کسی سپرنووا میں پیدا ہوئے تھے۔ صحائف کہتے ہیں کہ انسان کی تخلیق خاک (Dust) سے ہوئی ہے؛ اور سائنس یہ تصدیق اس طرح کرتی ہے کہ انسان، ستاروں کی خاک (Star Dust) سے پیدا ہوئے ہیں۔

    سپرنووا، زندگی کو پروان چڑھانے کی ناگزیر کڑی ہیں۔ ہم سپرنووا کی باقیات میں سے ہیں۔ ہم ان ہی کے بچے ہیں۔ انہوں نے ہمارے لئے اپنی جان قربان کردی۔ ہم ان ہی کی خاک ہیں۔ سپرنووا کے بغیر ہمارا وجود ممکن ہی نہیں تھا۔ جب ہم کبھی آسمان میں دور ستاروں کو دیکھیں، تو یہ ضرور یاد رکھیں کہ کبھی ہم بھی ان ہی کا حصّہ تھے۔ کچھ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ سپرنووا کا سنہرا دور ختم ہورہا ہے۔ چھوٹے چھوٹے، کفایت شعاری سے جلنے والے ستارے، جیسا کہ ہمارا سورج ہے، زیادہ اور وافر مقدار میں کائنات میں موجود ہیں؛ اور جناتی حجم والے ستارے کم ہورہے ہیں۔ بہرحال! سپرنووا نے ہمیں کہکشائیں دیں، نظام ہائے شمسی دیئے۔ ستارے اور سیارے دیے۔ انہوں نے ہمیں اور ہر اُس چیز کو جو ہم دیکھتے ہیں، پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سپرنووا، تعمیر و تخریب کے عین درمیان میں ہیں۔ ہماری کائنات کی تقدیر، ان مرتے ہوئے ستاروں ہی کی راکھ میں پنہاں ہے۔



    تمام شد

    اردو ترجمہ: زہیر عبّاس
    ترمیم و ادارت: علیم احمد
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    1 comments:

    Unknown کہا... 16 اگست، 2016 کو 5:52 PM

    بہت فکر انگیز مضمون ہے ۔۔کا ش ہمارا علم کائنا ت کے بارے میں مزید آگے چلتا رہے اور دنیا کے وسائل با شعور طریقے سے سرف ہون ۔۔

    Item Reviewed: سپرنووا Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top