بنی نوع انسان کے لئے دم دار تارے (Comets)ہمیشہ سے آسمانی پہیلیاں بنی رہی ہیں۔یہ خلائے بسیط سے آنے والےہمارے پاس خود خلاء کا نمائندہ بن کر آتے رہے ہیں۔یہ کائنات کی ابتداء کو جاننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ دم دار تارے کائنات کی گہری پہیلیوں کو سلجھانے میں ہماری مدد کرسکتے ہیں۔ اگر ہم دم دار تارے پر پائے جانے والے امینو ایسڈ س (Amino Acids)اور زمین پر موجود حیات میں کوئی باہمی تعلق تلاش کر سکیں تو یقینا یہ سائنس کے میدان میں ایک کافی بڑی کامیابی ہوگی۔ یہ دم دار تارے انسانیت کی بقاء کے لئے ہمیشہ سے خطرہ بھی بنے رہے ہیں۔اگر کوئی پہاڑ کے حجم جتنا دم دار تاراخدانخواستہ زمین سےٹکرا جائے تو اس تصادم کے نتیجے میں بہت زیادہ تباہی و بربادی ہوگی ۔اس کے باوجود اب تک کی ہماری تحقیق و جستجو یہ کہنے پر مجبور ہے کہ اگر یہ دم دار تارے کائنات میں موجود نہیں ہوتے تو زمین پر زندگی کی شروعات نہیں ہو سکتی تھی اور نتیجتاً ہم بھی وجود نہیں پا سکتے تھا۔ ہمیں ان دم دار تاروں کا احسان مند ہونا چاہئے کیونکہ یہ زمین پر وہ کیمیائی اجزاء ترکیبی جو زندگی کے دوام کے لئے ضروری ہیں ، لانے کے ذمے دار ہیں۔
آسمان پر نمودار ہوتی ہوئی ایک ڈرامائی روشنی کی لکیر ہمارے قریب سے گذرتے ہوئے دم دار تارے کا شاندار نظارہ ہوتا ہے۔ یہ دھندلی سی روشن گیندیں جن کے پیچھے ایک دم سی موجود ہوتی ہے نظر آنے میں بہت خوبصورت ہوتے ہیں۔اس طرح کے فلکی اجسام ہمیں زیادہ نظر نہیں آتے ۔ دم دار تارے غیر معمولی ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کسی دم دار تارے کو پہلی دفہ دیکھیں تو یہ نظارہ آپ کو ساری زندگی یاد رہے گا۔ دم دار تارے کا نظام شمسی کا سفرکسی بھی کسی بھی دوسرے اجرام فلکی کے مقابلے میں شروع سے آخر تک بہت شاندار ہوتا ہے ۔
یہ سورج کے گرد حلقہ بناتے ہوئےآتے ہیں ان میں سے کئی ایک کا سورج کی طرف کا سفر دسیوں لاکھوں برسوں پر محیط ہوتا ہے۔ان میں سے کئی زمین کے قریب سے ایسے گذرتے ہیں جیسے کہ وہ اس کے پرانے دوست ہوں۔ ہر دم دار تارا کئی میلوں پر محیط منجمد برف اور چٹانوں کا ڈھیر ہوتا ہے جب یہ ہمارے قریب سے گزرتے ہیں تو ہمیں روشنی کی دمکتی ہوئی گیندیں سی لگتی ہیں جن کی ایک لمبی سی دم ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ دم دار تارے آسمانی آتش بازی کےشاندار نظارے سے بڑھ کر ہیں ۔
سائنس دان یہ بات جاننے کے لئے ہمیشہ سے کوشاں رہے ہیں کہ ہماری ابتداء کہاں سے ہوئی ۔یہ بات جاننا اتنی سادی سی بات نہیں ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم نظام شمسی میں زندگی کی کی شروعات سے لے کر کائنات کی ابتداء تک کو سمجھیں ۔ دم دار ستارے اس بات کو سمجھنے کے لئے ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ یہ ہمیں اس بارے میں اشارے دیتے ہیں کہ کس طرح سے نظام شمسی وجود پایا۔ اگر ہم ان دم دار تاروں کو سمجھ نہیں پائیں گے تو اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہوجائے گا کہ ہم زمین پر کیسے پہنچے۔ دم دار ستارے خود ہی حیات کا سوتا ہو سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا احسان مند ہونے چاہئے کہ ارب ہا سال پہلے انہوں نے زمین پر حیات کی شروعاتی بنیاد کی اساس کے لئے اجزاء ترکیبی فراہم کئے۔
یہ اتنی زبردست تباہی پھیلا سکتے ہیں کہ ہم سب کو فنا کر سکتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر کوئی دم دار ستارہ زمین سےمتصادم ہوا تویہ زمین پر زبردست دھماکے سے ٹکرائے گا اور زمین پر موجود تمام حیات کا خاتمہ کر دے گا۔ ان دم دار تاروں کے بارے میں جان کرنہ صرف ہم ان کی تباہ کاریوں سے بچنا سیکھ سکتے ہیں بلکہ کائنات کو بھی سمجھنا شروع کرسکتے ہیں۔
جب ہم ان کا مشاہدہ کرتے ہیں تونا صرف ہم اس بات کو سمجھنا شروع کردیتے ہیں کہ ہمارا نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کیسا رہا ہوگا بلکہ ہم دوسرے نظام ہائے شمسی کی پیدائش کے بارے میں بھی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔ سائنس دان پر امید ہیں کہ ان کے مطالعہ و مشاہدہ سے نا صرف ہمیں ستاروں، سیاروں بلکہ خود ان دم دار ستاروں کے بارے میں زبردست معلومات حاصل ہوں گی۔
چلیں ہم اب ٤۔٥ ارب سال پہلے کے دور میں چلتے ہیں جہاں یہ دم دار ستارے اسی قوّت ثقل کی بدولت وجود میں آرہے ہیں جس کے طفیل اس پورے نظام شمسی نے وجود پایا ہے۔ ان کی شروعات بھی اسی افراتفری والے ماحول میں ہوئی تھی جس میں ایک جناتی حجم کے بادل نے منہدم ہوتے ہوئے ایک گھومتی ہوئی قرص بنائی تھی۔ سورج سے نزدیک جھلسا دینے والی گرمی تھی جبکہ سورج سے دور اتنی ٹھنڈ تھی جس میں گیس کے بادل آسانی کے ساتھ گاڑھے ہو کر جم سکیں۔ برف کی قلمیں گرد کے ذرّات کے ساتھ مل گئیں تھیں اور آہستہ آہستہ انہوں نے بڑے اجسام میں ڈھالنا شروع کیا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ برف کی ان گیندوں نے بالکل اس برف کی گیند کی طرح جو کسی برف کی پہاڑی سے گرتے ہوئی اپنا حجم بڑھاتی ہے ،بڑھانا شروع کیا اور آ س پاس کے مادّے کو کھینچنا شروع کردیا اور آخر میں انہوں نے مشتری اور زحل جیسی گیسی دیوہیکل سیاروں کی شکل اختیار کر لی۔ مگر اس ٹکیہ میں موجود سارا گرد و غبار کا بادل سیاروں کی شکل اختیار نہیں کر سکا۔ بچ جانے والے دسیوں کھرب برف کے گندے ڈھیلے دم دار ستاروں کی شکل میں وجود میں آ گئے ۔ یہ نظام شمسی کے سورج اور اس کے گرد چکر لگانے والے سیاروں کی پیدائش کے بعد بچ جانے والے مادّے سے وجود میں آئے اور جب سے یہ بالکل ویسے ہی ہیں۔ یہ بالکل ان پراچینی کیپسولوں کی طرح ہیں کہ اگر ہم ان کو کھول کر دیکھ سکیں تو ہم یہ جان پائیں گے کہ نظام شمسی اپنی پیدائش کے وقت کس چیز سے بنا تھا۔یہ واقعی ایک غیر معمولی بات ہے۔
دم دار تارے ایک جگہ پر قید نہیں رہے ۔نظام شمسی کی پیدائش کے کچھ کروڑں سال بعداس میں پھر سے اودھم مچنے لگا تھا۔ گرد و غبار کے تصادموں نے گیسی دیو ہیکل سیاروں کو ان کو اپنی پہلی والی جگہ سے نکال کر دوسری جگہ ڈال دیا تھا۔ ان جناتی سیاروں کی زبردست قوّت ثقل نے دم دار ستاروں کو خلاء میں ہر جگہ پھیلا دیا تھا اور نظام شمسی کی ابتداء میں بنے ہوئے اس مادّے کو دور ٹھنڈے حصّے میں روانہ کردیا تھا ۔ کچھ دم دار تارے سورج سے دور خلاء کے اس حصّہ میں جاکر رک گئے جس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٤ ارب میل تھا جس کو ہم اب کائپر کی پٹی کے نام سے جانتے ہیں۔ مگر زیادہ تر اس سے بھی زیادہ دور تک اچھال دیے گئے اور وہاں جا کر انہوں نے نظام شمسی کے گرد ایک جناتی کرۂ بنا دیا جس کو ہم اورٹ کا بادل کہتے ہیں۔ یہ نظام شمسی کا سب سے دور دراز کا حصّہ ہے۔ سورج یہاں سے بالکل ایک چھوٹے سے نقطہ کی طرح جیسے ہمیں آسمان پر دوسرے ستارے دیکھتے ہیں نظر آتا ہے اور اس سے آگے کا حصّہ بالکل خالی ہی ہے۔ وہاں بہت معمولی چیزیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کبھی کبھار ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں دور دراز، تاریکی میں ڈوبی ہوئی ، ٹھنڈی خلاء سے کوئی اکیلا دم دار ستارہ تیرتا ہوا ہماری طرف نکل آتا ہے۔
اس دور دراز ٹھنڈ کے بادل میں دس کھرب سے بھی زیادہ دم دار ستارے موجود ہیں۔ سورج کے گرد مدار میں چکر پورا کرنے کے لئے ان کو دسیوں لاکھوں سال لگ جاتے ہیں۔ ہر دم دار ستارے کا مدار نہایت نازک ثقلی توازن پر قائم ہوتا ہے۔ کوئی ہلکا سا ٹہوکا بھی اس نازک توازن میں گڑ بڑ کر سکتا ہے ۔ زیادہ تک دم دار ستارے سورج سے ارب ہا میل دور ساکن ، غیر فعال اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کہیں کچھ ایسا ہو جو انہیں متحرک کرے۔ جب کہیں کوئی ایسا تصادم رونما ہوجاتا ہے جس سے سورج کی قوّت ثقل ان میں سے کسی کو اندر کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
قوّت ثقل کی جس طاقت نے ان دم دار ستاروں کو پیدا کر کے خلاء کے اس حصّے میں دھکیلا تھاوہ انہیں اب واپس کھینچنا شروع کردیتی ہے جس سے ان کا نظام شمسی میں تخلیق و تباہی پھیلانے والاسخت اور لمبا سفر شروع ہو جاتا ہے۔ سورج کے گرد نظام شمسی کے اس دور دراز کے کنارے میں جما دینے والی سردی میں رہنے والے ان کھرب ہا دم دار ستاروں میں سے کچھ یہاں رکنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں۔ ایک ہلکی سی بھی ثقلی کشش ان کو موجودہ مدار سے باہر نکال دیتی ہے۔ چاہئے کوئی دور جاتا ہوا ستارہ ہو یا ہمارا اپنی کہکشاں کا کسی ایسی جگہ کا سفر جو ثقلی قوّت میں ہلکی سی ہلچل مچا دے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو ثقلی قوّت کو ہلکا سا ٹہوکا دے وہ اس بات کا سبب بن سکتی ہے کہ دم دار ستارہ سورج کے اندرونی حصّے کی طرف دوڑا آئے ۔
خلل کھائے ہوئی دم دار ستارے پر سورج کی قوّت ثقل غالب آجاتی ہے۔ اس بات کو یوں زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں کہ جس طرح سے ہم پہاڑی پر سے اترتے ہوئی پہلے آہستہ اور پھر تیزی سے نیچے آتے ہیں بالکل اسی طرح سورج کی ثقلی قوّت کام کرتی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ نیچے سورج موجود ہےاور دم دار تارا پہاڑ کی چوٹی پر ہے جیسے ہی وہ اپنی جگہ سے نکالا جاتا ہے اس کے پاس جانے کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہوتا ہے۔اس کو سورج کی طرف ہی بھاگنا پڑتا ہے۔وہ سورج کی طرف تیزی سے دوڑ پڑتا ہےمگر کیونکہ اس کا راستہ سورج سے بہت دور ہوتا ہےلہٰذا راستے میں آتے ہوئے سیاروں کی قوّت ثقل یا تو اس کی رفتار کو اور تیز کردیتی ہے یا پھر اس کو نظام شمسی سے باہر نکال پھینکتی ہے۔ اگر یہ سیاروں کو چکمہ دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اپنا سفر سورج کی جانب جاری رکھتے ہیں اور ان میں اس دوران وہ غیر معمولی تبدیلی جو سائنس کی دنیا اب تک جانتی ہے رونما ہوتی ہے۔
وہ کائنات میں موجود سب سے شاندار نظاروں میں سے ایک نظارہ دکھانا شروع کردیتے ہیں۔(تصویر نمبر ١)
دم دار ستارے آسمان میں بہت ہی شاندار دکھائی دیتے ہیں |
جوں ہی وہ مشتری سے آگے آتا ہے ویسے ہی تبدیلی کا آغاز ہوجاتا ہے۔اس کی رفتار بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور وہ سورج سے قریب سے قریب تر ہوتے ہوئے سورج کی حرارت کو محسوس کرنا شروع کرتا ہے اور بس یہ ہی وہ وقت ہوتا ہے جب اس میں تغیر کا آغاز ہوتا ہے۔ سورج سے ٥٠ کروڑ میل کی دوری پر حرارت اس میں زندگی کی روح پھونک دیتی ہے۔ منجمد گیسیں بخارات کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں۔برف کے ٹکڑے اور گرد اس کی سطح سے اوپر اٹھنے لگتے ہیں۔ جیسے جیسے سورج سے قریب آتا ہے ویسے ویسے گیسوں کا اخراج زیادہ تیزی سے ہونے لگتا ہے اور دم دار ستارہ ایک روئی کے گالے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس کی ٹھوس سطح کے ارد گرد گیسوں کا ایک کافی بڑا بادل سا جمع ہوجاتا ہے جونا صرف اس دم دار ستارہ کا کرۂ فضائی بنا دیتا ہے بلکہ اس کی دم بھی بناتا ہے۔ یہ سب سورج کی کارستانیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جس کا سلسلہ اب بھی جاری رہتا ہے۔
شمسی طوفان جناتی بار دار موجوں کی شکل میں سورج سے نکلتے ہوئے تمام نظام شمسی میں پھیل جاتے ہیں۔ سورج سے قریب شمسی طوفان زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
شمسی ہواؤں کے زیر اثر بننے والی دم دار ستاروں کی دو دمیں |
کائناتی طوفان کی طرح ، شمسی ہوائیں دم دار ستارے کے گیس کے سالموں کو خلاء میں اڑا دیتی ہیں۔ جس سے ایک دوسری عظیم الجثہ دم بن جاتی ہے(تصویر نمبر ٢)۔ دم دار ستارے کا ٹھوس حصّہ تو صرف چند میل پر ہی مشتمل ہوتا ہے جبکہ دھندلہ حصّہ کئی ہزار میل یا دسیوں ہزار میل لمبا ہوتا ہے۔شمسی ہواؤں سے اڑی ہوئی دم تو کئی لاکھ میل بلکہ کروڑں میل دور تک پھیلی ہو سکتی ہے۔ اس وقت دم دار ستارے کی رفتار ٥٠ ہزار میل فی گھنٹہ ہوجاتی ہے۔ اس کا یہ سفر ایک خلاء میں موجود ایک خطرناک جگہ میں داخل ہوجاتا ہے۔ سورج سے ٢٠ کروڑ میل کی دوری پر پانی کی برف بخارات میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ دم دار ستارے کی سطح میں ہلچل اور زلزلہ سا آجاتا ہے سطح پر موجود مادّہ گھلنے لگتا ہے جس سے کاربن ڈائی آکسائڈ اور پانی کے فوارے پھوٹنے لگتے ہیں اس وقت دم دار ستارے کی سطح پر کوئی بھی چیز ٹکی نہیں رہ سکتی۔ سطح پر موجوددراڑیں کھلنے لگتی ہیں ۔ گیس پھٹ کر نکل پڑتی ہے جس سے گرد و غبار کا طوفان ہر جگہ پھیل جاتا ہے۔ ان دھماکوں کی طاقت سے دم دار ستارہ لڑکھڑانے لگتا ہے۔ ہر وہ فوارہ جو اس کی سطح پر موجود ہوتا ہےوہ ایک چھوٹے سے جیٹ انجن کی طرح نظر آتا ہے ۔
پھٹنے کے قریب دم دار ستارہ |
جس طرح کار ریس میں حصّہ لینے والی کار ٹریک پر آکر دھاڑھتی ہے اسی طرح سے دم دارستارے میں چابی سی بھر جاتی ہے۔ زبردست رفتار ، غیر معمولی توانائی اور وسیع گرد کے بادلوں سے لبریز دم دار ستارہ ایک ایسی کونیاتی گرم راڈ میں بدل گیا ہے جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا ہے(تصویر نمبر ٣)۔ اس کے گرد موجود بادل مشتری سے بھی زیادہ بڑا ہوجاتا ہے۔ اس کی دم ١٠ کروڑ میل جتنی کھینچ جاتی ہے۔ ٤۔٥ ارب سال پہلے پیدا ہونے والا دم دار ستارہ دور تاریک خلاء میں سے نمودار ہوتا ہوا ہمارے لئے کائنات کی طرف سے ایک طرح کا تحفہ ہوتا ہے۔ اس کے آنے سے پہلے ہم نے نظام شمسی کی یہ صورت کبھی نہیں دیکھی تھی یہ ہمارے لئے بالکل نئی چیز ہے۔
دم دار تارے ہمیں اس بات کا موقع دیتے ہیں کہ ہم اپنے نظام شمسی کی ابتداء کے بارے میں جان سکیں یہ دم دار ستارے ہم پر بہت سارے نئے انکشافات کر رہے ہیں۔ دم دار ستارے ہماری سوچ سے بھی زیادہ اجنبی اور خطرناک ہیں۔ جدید دوربینوں کے ذریعہ ہم ان کا زیادہ باریکی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔ مگر ان کو صحیح طرح سےسمجھنے کے لئے ہمیں ان کے دل یعنی مرکزے کا مطالعہ کرنا ہوگا۔اس کی سطح پر کیا چیز موجود ہے؟اس کی کیمیائی بناوٹ کیا ہے؟ اس کی سطح پر موجود ان تغیر پزیر چٹانوں اور مادّے کی کیا خصوصیات ہیں ؟ اور اس طرح کے کئی سوالوں کے جوابات ہی ہمیں ان کو بہتر طور سے سمجھنے میں مدد کریں گے۔ اس کا مرکزہ ہی نظام شمسی کا وہ بنیادی جز ہے جس پر پورا نظام شمسی کھڑا ہے۔ سائنس دان اس کے مرکزے کے بارے میں جاننے کے لئے بیتاب ہیں۔ اس کا مرکزہ ہی وہ جگہ ہے جہاں اصل پراسراریت موجود ہے۔
آخری تین دہایوں میں درجنوں خلائی مشن ان دم دار ستاروں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے ان کے بارے میں کچھ نیا ہی انکشاف کیا ہے۔اب ہم ان کی کیمیائی ساخت کے بارے میں جان چکے ہیں۔ہم ان کے سورج کے ساتھ باہمی تعلق کے بارے میں بھی جانتے ہیں۔ ہمیں اب ان کی سطح کے بارے میں، ان کی ارضیاتی بناوٹ کے بارے میں اور وہ ایک دوسرے سے کیسے مختلف ہیں اس کے بارے میں یہاں تک کہ ان پر موجود ایک جگہ سے دوسری جگہ کے بارے میں بھی ہم کافی کچھ جان چکے ہیں۔ یہ تمام باتیں جو ہم نے ان سے سیکھیں ہیںوہ ہمیں اس بات کا عندیہ دے رہی ہیں کہ دم دار ستارے اپنے آپ میں ایک جہاں ہیں۔
ہیلے کے دم دارستارے کے قلب کی تصویر |
سائنس دان سمجھتے تھے کہ دم دار ستارے سفید برف کی گیند کی طرح ہیں۔ ان کا یہ خیال ١٩٨٦ء میں بدل گیا جب جیاتو خلائی کھوجی نے ہیلے کے دم دار (Halley Comet)ستارے کی تصاویر زمین پر بھیجیں۔ یہ تاریخ میں پہلی دفہ کسی بھی دم دار ستارے کے مرکز کی تصاویر تھیں(تصویر نمبر ٤)، یہ اس دم دار ستارے کی تصاویر تھیں جو تاریخ میں کئی اہم موقعوں پر نمودار ہوا تھا ان تصویروں میں یہ دم دار ستارہ ایک بنجر اور ٹھنڈی دنیا نظر آرہی تھی۔ ہیلے کا دم دار تاراکوئی برف کی گیند نہیں تھی بلکہ یہ ایک مونگ پھلی کی شکل کا تھا۔ ایک کالی مٹی کی موٹی سی تہہ اس کی سطح کو ڈھکے ہوئے تھی۔ وہاں گڑھے اور پہاڑیاں بھی تھیں اور یہ ٩ میل لمبا تھا کوئی بھی یہ توقع نہیں کررہا تھا کہ یہ اتنا لمبا ہوگا۔
اسٹار رڈسٹ کھوجی دم دار تارے وائلڈ کی طرف محو پرواز - ایک مصّور کی نگاہ میں |
سائنس دان سمجھتے تھے کہ تمام دم دار تارے ایک جیسے ہوتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ٢٠٠٤ءمیں سٹارڈسٹ کھوجی (Star Dust Probe)جب ایک دم دار تارے جس کا نام وائلڈ ٢ (Wild 2)تھا(تصویر نمبر ٥) کی دم کے پاس سے گزرا تو اس نے ہزار ہا چھوٹے مٹی کے ذرّات حاصل کئے ۔ سٹارڈسٹ جب ان مٹی کے ذرّات کو واپس زمین پر لایا تو سائنس دانوں کو اندازہ ہوا کہ ہر دم دار تارا بالکل الگ اور انوکھا ہوتا ہے۔ جس طرح سے ہر سیارہ منفرد ہوتا ہےاور اس کی ایک اپنی علیحدہ کہانی ہوتی ہے۔بالکل اسی طرح دم دار ستارہ ہوتا ہے ہر دم دار تارے کی خلقت میں مختلف مادّوں نے حصّہ لیا تھا۔ حرارت کے مختلف منبع اس کے اندروں میں موجود تھے جس سے مختلف کیمیائی اور ارضیاتی عمل وقوع پزیر ہو رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک مختلف جہاں ہے جو اس بات کے انتظار میں ہے کہ کب ہم اس کو کھوجتے ہیں۔
ہارٹلے ٢ دم دار تارا –تصویر میں بنے دائروں میں خشک برف کی گالف کی گیند کے حجم کے ٹکڑے اس کے مرکز کے پیچھے نظر آرہے ہیں |
کچھ دم دار تارے بہت ہی عجیب ہوتے ہیں۔ ہارٹلے ٢ (Hartley 2)دم دار تارا بہت ہی عجیب ہے(تصویر نمبر ٦)۔یہ برف پر مشتمل ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خشک برف کی گالف کی گیند کے حجم کے ٹکڑے اس کے مرکز کے پیچھےدس لاکھ میل دور تک موجود ہیں۔ اس نے خلاء میں زبردست گند مچائی ہوئی تھی۔یوں سمجھ لیں کہ آپ کسی برفیلی دنیا میں موجود ہوں جس کو آپ ہلائیں تواس سے یہ چھوٹی برف کی گیندیں سی نکلیں گی۔ یہ برفیلی چیزیں اس دم دار ستارے کے گرد بالکل ایسے لگیں ہیں جیسے کھانے کے گرد مکھیاں بھنبھناتی ہوئی نظرآتی ہیں ۔
ٹیمپل ١ دم دار ستارے کی طرف ڈیپ امپیکٹ خلائی کھوجی مصروف پرواز - ایک آرٹسٹ کی نگاہ میں |
ہارٹلے ٢ اس بہت تیز رفتار(Hyper Active) دم دار تارا ہے۔ یہ تیزی سے لڑکھڑا تے ہوئی اپنے جیسے دوسرے دم دار تاروں کے مقابلے میں زیادہ گرد پھینک رہا ہے۔ دم دار تارے ٹیمپل ١ (Temple 1)میں ہموار سطح مرتفع ، گڑھے ، ٦٠ فٹ اونچی پہاڑ کی چوٹی ، اور ایک کےاوپر ایک چٹانوں کی تہہ بالکل اس طرح جیسے ایک کو اوپر ایک کیک رکھے ہوں موجود ہیں۔ ہر دم دار ستارے کی اپنی تاریخ ہے۔ٹیمپل ١ دم دار ستاروں کی دنیا میں ایک اہم کھوج ہے(تصویر نمبر ٧)۔٢٠٠٥ میں ڈیپ امپیکٹ خلائی کھوجی(Deep Impact Space Probe) نے اس کی سطح پر ایک گولہ داغا جس نے اس کی سطح پر ١٥٠ گز جتنا شگاف ڈال دیا۔٤ جولائی ایک بہت ہی یادگار دن تھا جب انسان کی بنائی ہوئی ایک چیز نے ایک دم دار ستارے کی سطح پر ایک سوراخ کیا تھا۔ ناسا کی تاریخ کے کچھ بہترین کارناموں میں سے یہ ایک کارنامہ تھا۔
ڈیپ امپیکٹ کے گولے سے بننے والے سوراخ سے نکلنے والے مادّے نے سائنس دانوں کو اس کے مرکزے میں پہلی بار جھانکنے کا موقع دیا ۔ وہاں جوکچھ سائنس دانوں نے پایا وہ ناقابل یقین تھا۔ان کو وہاںمرکزے کے اندر یاقوت(Rubies) اور زبرجد(Peridot) جیسے قیمتی پتھروں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے ملے ۔ان کو وہاں ہر قسم کے وہ حیاتیاتی سالمے بھی ملےجن سے ہم بنے ہیں۔سائنس دانوں کو یقین ہے کہ دم دار ستارے ہماری کائنات میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
حیات کے بنیادی اجزاء ترکیبی زمین پر کہاں سےوارد ہوئے ہیں ؟یہ سب آپس میں کہاں ایک ساتھ ملے ہیں؟مائع پانی زمین پر کہاں سے آیا ؟دم دار ستارے ان سب سوالوں اور حیات کی نوعیت کو سمجھنے کی چابی ہیں۔
مگر ان کو سمجھنے کے مواقع نہایت ہی کم میسر ہیں۔دم دار ستارے زبردست رفتار کے ساتھ اس جگہ بھی جاسکتے ہیں جہاں کوئی خلائی کھوجی نہیں جاسکتا یعنی کہ سورج کے اندر ۔٤ ارب سال پہلے قوّت ثقل نے ان دم دار ستاروں کو نظام شمسی کے باہری کنارے کی طرف ہنکا دیا تھ اور وہ ہی قوّت ان کو واپس سورج کے اندرونی مدار کی طرف کھینچ لاتی ہے۔ جب کوئی دم دار تر زمین کو پاس کرتاہے تو وہ اپنے اس سفر کے سب سے شدید حصّے میں داخل ہوجا تا ہے ۔ اب یہ سورج کی طرف ایک لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑا جاتا ہے اب اس کی سطح دھواں دھواں ہوتی ہے۔اس کی سطح پر جھلسا دینے والا درجہ حرارت ہوتا ہے۔ زبردست قسم کے برف اور گیس کے چشمے اس کی سطح سے پھوٹ پڑھتے ہیں۔ فوارے ہرجگہ بن جاتے ہیں اس کی لڑکھڑا تی ہوئی چل اور محوری گردش بدل جاتی ہے اور اس کی سطح جگہ جگہ سے چٹخ جاتی ہے۔ دم دار ستارے کے اندر گیس چٹان کے بڑے ٹکڑے فضا میں اچھال دیتی ہے۔
اس کی کمیت مسلسل کم ہوتی جاتی ہے اور اس کا حجم سکڑتا جاتا ہے۔جوں جوں یہ سورج کے قریب پہنچتا ہے ویسے ویسے پتلا مادّہ اس کی سطح پر نمودار ہوتا جاتا ہے جس سے اس کی محوری گردش بدل جاتی ہے جس سے یہ لڑکھڑانے لگتا ہے اور اپنے مدار میں دھکے کھانے لگتا ہے جس سے اس کا مدار بھی تبدیل ہوجاتا ہے ۔
تصویر میں چھوٹے دم دار تارے جن کو سورج کا چارہ نام دیا ہے ڈوبتے ہوئے نظر آرہے ہیں |
دم دارتارا ہر سیکنڈ میں ٥٠ ٹن برف اور گیس نکال رہا ہوتا ہے۔اس کے مرکزے میں زبردست دباؤ بننے لگتا ہے جس سے یہ غیر پائیدار ہوجاتا ہے اور کسی بھی وقت بکھر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔ جب یہ سورج کے قریب ترین حصّہ میں پہنچتا ہے تو بس اس کے گلے پر خنجر چلنے والا ہی ہوتا ہے۔ان میں سے کئی بچ نہیں پاتے ۔سائنس دانوں نے کئی دم دار تارے سورج کو نگلتے ہوئے دیکھے ہیں جہاں وہ پگھلتے ہوئے سورج میں گر گئے ہیں اور پورے کے پورے دم دار تارے چاہئے وہ ایک میل کے ہوں یا ١٠ میل کے مکمل تباہ ہوجاتے ہیں۔ ایک شمسی رصدگاہ میں ریکارڈ کئے گئی تصویروں میں چھوٹے دم دار تارے جن کو سورج کا چارہ (Sungrazers)نام دیا ہے ڈوبتے ہوئے نظر آرہے ہیں(تصویر نمبر ٨)۔وہاں پر ان پر قوّت ثقل زبردست اثر ڈال رہی ہے اور سورج کی زبردست حرارت ان کو جلا دے رہی ہے۔ ان میں سے کئی مر جاتے ہیں ۔ کئی دم دار تارے خلائے بسیط میں بھی پھٹ پڑتے ہیں۔
دم دارستارہ ہومزپھٹنے سے پہلے سورج جتنا ہوگیا تھا . اس تصویر میں ہومز، سورج اور مشتری کے حجم کا تقابل کیا گیا ہے |
٢٠٠٧ء میں دم دارستارہ ہومز(Holmes) سورج سے دور جارہا تھا جب اس کے ساتھ ایک غیر معمولی واقعہ رونما ہوا۔ ایک دن کے بھی کم عرصے میں وہ ٥ لاکھ گنا زیادہ روشن ہوگیا۔اس کے گرد گیس کے بادل غباروں کی طرح پھول گئے ۔ اگرچہ دم دار ستاروں میں یہ بات عام ہے کہ وہ مشتری سے بھی بڑے ہوجاتے ہیں جو ایک لاکھ میل پر پھیل جاتے ہیں۔مگر اس میں ہفتے اور مہینے لگتے ہیں۔کوئی ایسی چیز ہوئی ہوگی جس نے دم دار تارے کو اتنی جلدی اس کے گرد خول کو پھلا دیا جو مشتری سے بھی بڑاا تھا اور اس بات نے سائنس دانوں کو حیران کردیا تھا۔انہوں نے اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ در حقیقت میں دم دار ستارے کی سحابیت سورج سے بھی زیادہ بڑی تھی(تصویر نمبر ٩) ۔ قصہ مختصر یہ ہمارے نظام سشمسی کا اس قت کا سب سے بڑا اجرام بن گیا تھا ۔یہ ایک ایسا واقعہ تھا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یہ دم دار ستارہ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑا ۔ یہ دھماکا اب تک کسی بھی دم دار ستارےکے دھماکے سےبڑاا دھماکہ تھا۔ اس سے نکلنے والی دھول دس لاکھ میل پر پھیل گئی تھی۔ یہ بات ابھی بھی صحیح طرح سے نہیں معلوم کہ کس چیز نے اس کو ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا مگر ایک نظریہ یہ ہے کہ شاید ہومز دم دارستارا کسی شہابیے سے ٹکرایا جس نے زبردست قسم کا طوفان خلاء میں برپا کردیا ۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شاید دم دار ستارا غیر متوازن ہوگیاتھا جس سےپھیلتی ہوئی گیسوں نے شاید ایک دھماکہ کردیاتھا اوراسی وجہ سے پورا کا پورا دم دار ستارا ریزہ ریزہ ہوگیا تھا ۔فی الوقت تو ہم اس بارے میں حتمی طور پر کچھ زیادہ نہیں جانتے۔
کوئی بھی دم دار تارا جو سورج سےبھلے بچ نکلےمگر اس کو بھی قیمت تو چکانی ہی پڑتی ہے۔اس کی پوری ارضیاتی ماہیت بدل جاتی ہے۔بڑے ٹکڑے، پہاڑوں کی چوٹیاں اور چٹانیں خلاء میں غائب ہوجاتی ہیں۔ایک ایسا اجرام فلکی جو ١٠ یا ٢٠ میل پر پھیلا ہو وہ ہزار ہا ٹن چٹانوں اور برف سے اپنے اس سفر میں محروم ہوجاتا ہے۔جیسے ہی وہ سورج سے دور ہوتا ہے اس کی سطح پر چلتی ہوئی ہلچل آہستہ پڑجاتی ہے۔ سورج سے دور جاتے ہوئے سفر پر ایک طرح سے دم دار ستارے اپنا انجن بند کر دیتے ہیں۔ یہ سرد ہونا شروع ہوجاتا ہے، سطح پر ہلچل دھیمی پڑ جاتی ہے ، فوارے بند ہوجاتے ہیں اوراس کی دم غائب ہوجاتی ہے اور بچ جانے والی چیز صرف برف اور دھول کی چھوٹی سی گیند ہی باقی رہتی ہے۔ یہ خلاء بسیط میں جاکر دوبارہ غنودگی میں چلا جاتا ہے۔مگر دم دار ستاروں کے لئے صرف سورج ہی ایک چیلنج نہیں ہوتا ان کو سیاروں کی بھی ثقلی قوّت سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ زمین کی قوّت ثقل اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ ان پر کچھ زیادہ اثر انداز ہوسکے مگر مشتری بہت بڑا سیارہ ہے جو زمین سے ٣٠٠ گنا زیادہ کمیت کا حامل ہے ۔ اگر کوئی دم دار تارا مشتری سے کچھ لاکھ میل دور سے بھی گزرے تو یہ اس کا مدار بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے جس کا نتیجہ نہایت ہی بھیانک نکل سکتا ہے۔
شو میکر لیوی ٩ کا مشتری سے ٹکرانے کے مختلف منظر .
|
١٩٩٤ء ایک دم دار تارا جس کا نامشو میکر لیوی ٩ (Shoemaker Levy 9)تھا مشتری کے بہت ہی قریب سے گزرا (تصویر نمبر ١٠ )۔سائنس دانوں نے دیکھا کہ مشتری کی زبردست قوّت ثقل نے اس کو ریزہ ریزہ کردیا اور اس کی باقیات سیدھی مشتری میں جاگریں ۔
بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ٹکراؤ نے مشتری پر کوئی خاص اثر نہیں ڈالا ہوگا اور مشتری اس کو بغیر ڈکار لئے ہضم کر گیا ہوگا مگر ایسا بالکل نہیں ہوا تھا۔دم دار ستارے کے ٢١ ٹکڑے مشتری کی فضاء میں داخل ہوئے تھے اس میں سے ہر ایک ٹکر نے اس قدر توانائی پیدا کی تھی جتنی کرۂ ارض پر موجود تمام جوہری ہتھیار مل کر کر سکتے ہیں۔شو میکر لیوی ٩ دم دار تارا کوئی بہت زیادہ کمیت والا دم دار تارا نہیں تھا نہ ہی اس کی کثافت کچھ زیادہ تھی۔یہ تو گڑیا کے بالوں(Cotton Candy) جیسا تھا ۔ ہم اس کے حصّوں کو اپنی انگلیوں سے کھینچ سکتے تھے۔مگر اس کے باوجود اس اتنی کمزور سی برفیلی چیزنے ناقابل بیان تباہی مچا دی تھی۔ اس تصادم نے گرد کا غبار وں کو ہزار ہا میل اوپر ہنکا دیا تھا اور مشتری کی فضاء پر گہرے دھبے بنا دیے تھے۔سائنس دان اس واقعہ کو دیکھنے کے لئے بیتاب تھے۔وہ ایک چھوٹی سی پہاڑی سے کچھ بڑے اجرام کا مشتری سے ٹکراؤ اور اس سے پھیلتی ہوئی زبردست تباہی خود سے دیکھنے کے لئے بہت زیادہ پرجوش تھے۔اگرچہ نظری طور پر وہ جانتے تھے کہ اس ٹکر کا کیا نتیجہ ظاہر ہوگا مگر پھر بھی اس کو خود سے دیکھنا بہت ہی حیران کن تھا۔
شو میکر لیوی ٩ کی اس ٹکر نے ماہرین فلکیات کو خواب غفلت سےجگا دیا اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ اگر یہ ٹکر مشتری پر ہوسکتی ہے تو زمین پر بھی ہو سکتی تھی۔اگر کچھ میل پر پھیلا ہوا کوئی دم دار ستارا ہمارے سیارے سے ٹکرا جائے تو اس کا نتیجہ تباہی و بربادی ہوگا۔ رگڑ کی موجیں زمین کو تباہ کردیں گی۔گرد آسمان سے برسے گی۔ حیات جس کو ہم ابھی جانتے ہیں اس کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اتنی تباہی پھیلانے کا باوجود یہ تصادم تخلیقی قوّت کے طور پر بھی کام کرتے ہیں۔
پوری کائنات میں ہر جگہ دم دار ستارے زبردست تباہی پھیلاتے ہیں۔ ان کی رفتاربندوق سے نکلی ہوئی گولی سے ٥٠ گنا زیادہ تک ہوسکتی ہے۔ ہم ایک ایسے دم دار ستارے کی بات کر رہے ہیں جو ایک پہاڑ کے جتنا ہے۔لہٰذا یہ اجرام جس طرح کی توانائی پیدا کرے گا ہم اس کا تصّور بھی نہیں کر سکتے۔ مگر یہ ہمیشہ سے تباہی نہیں پھیلاتے ۔ ان کا ایک اور پہلو بھی ہے۔سائنس دان سمجھتے ہیں کہ یہ پورے جہانوں کو بھی تشکیل دینے میں مدد کرتے ہیں۔
ٹائٹن جو زحل کا سب سے بڑا چاند ہے نظام شمسی میں موجود واحد چاند ہے جس کا اپنا کثیف کرۂ فضائی ہے۔ مائع میتھین کی جھیلیں اور دریا اس کی سطح پر بہتے ہیں ۔ٹائٹن کی یہ صورت دم دار ستاروں کی وجہ سے ہی بنی ہے۔ریڈار سے حاصل کردہ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ اس کی سطح پرلاکھوں برس سے دم دارستارے برستے رہے ہیں ۔ہر ایک دم دار ستارا ٹکرانے کا بعد بخارات بن کر اڑجاتا تھا اور اپنے پیچھے مرکزے سے نکلنے والی گیس چھوڑ دیتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے وہاں نامیاتی کرۂ فضائی اور عجیب و غریب مائع میتھین کے دریا اور جھیلیں بنا دیں۔دم دار ستارے نے چٹان کے ایک ٹکڑے کو ایک جہاں کی شکل دے دی۔
یہ دم دار ستارے ہمارے نظام شمسی کے بہترین انجنیئر ہوتے ہیں۔دم دار ستارے کے تصادموں سے نہ صرف وہ کیمیائی عنصر ملتے ہیں جو ٹائٹن جیسے چاند کے کرۂ فضائی کو بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں بلکہ شاید زمین جیسی دنیا کے ہوائی کرۂ کو بھی بناتے ہیں اگر دم دار ستارے جہاں کو بناتے ہیں تو انہوں نے ہمارے جہاں کو بنانے میں کیا کردار ادا کیا۔اس بات کی تلاش کے لئے ہمیں کسی دم دار ستارے کے کافی قریب جانا ہوگا۔ ہمیں ان میں سے کسی پر اترنا ہوگا۔٢٠٠٤ء میں روزیٹا(Rosetta) مشن شروع کیا اس کا نام اس پتھر کی لوح سیاہ(Rosetta Stone) پر رکھا گیا تھا جو قدیمی زبان کو سمجھنے کی چابی سمجھی جاتی ہے ۔ سائنس دانوں کو امید تھی کہ دم دار ستارے ہمارے لئے نظام شمسی کو سمجھنے کی کنجی ثابت ہوں گے۔
روزیٹا خلائی جہاز اپنا لینڈر فائلی دم دار ستارے کی سطح پر اتارتے ہوئے - ایک مصّور کی نگاہ میں |
١٢ نومبر٢٠١٤ خلائی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا تھا۔تاریخ میں پہلی دفہ کسی خلائی گاڑی نے دم دار ستارے کی سطح کو چھوا تھا(تصویر نمبر ١١)۔ اس سے پہلے جتنے بھی مشن تھے وہ سب ان کے پاس سے گزرے تھا جنہوں نے اس بات کو ہم پر عیاں کیا تھا کہ ان پر موجود بہت ہی بڑے معمہ موجود ہیں جن کو سلجھانا ہوگا۔اب ہم دم دار ستارے پر قدم رکھنے جارہے تھے۔ سائنس دان خلائی گاڑی کو اس پر بھیج کر براہ راست اس کی اڑتی دھول کو خلاء میں دیکھ رہےتھے یہ ایک بے نظیر مشن تھا جس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
روزیٹا ایک کار کے جتنی تھی۔یہ خلاء میں ٢٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہی تھی۔وہ اس دم دار ستارے کی طرف رواں دواں تھی جس کا مرکزہ صرف ٣ میل جتنا ہی تھا اور یہ سورج کے گرد اپنا ایک چکر ٦۔٥ سال میں مکمل کرتا تھا۔ اس نے ایک روبوٹ کو اس کی سطح پر اتاردیا ہے جس نے بہت ہی باریکی سے اس دم دار ستارے کا مطالعہ کرناہے۔ اس نے دیکھناہے کہ اس کی سطح کیسی ہے۔اس نے وہاں کے نمونے جمع کرنےہیں ۔اس نے وہاں پر موجود زمین کو بھی دیکھناہے۔ وہ اس بات کی کھوج کرنے جارہاہے کہ دم دار ستارے کے اندر اصل میں کیا ہے ؟وہ کس سے بنا ہوا ہے؟ اور کس طرح سے تمام مادّہ اس میں ایک ساتھ بنا ہوا ہے۔ سائنس دان پر امیدہیں کہ وہ اس مشن سے ایک دم دار ستارے کے بارے میں ان تمام باتوں سے زیادہ معلوم کر لیں گے جتنی انہوں پچھلی کئی صدیوں میں حاصل کی ہیں۔
روزیٹا سے ہمیں کچھ بنیادی قسم کے جوابات بھی چاہئے تھے۔ سائنس دان یہ معلوم کرنا چاہتے تھا کہ کیا اس کی سطح سپنج کی طرح مسام دار تھی؟ یا پھر وہ نلکیوں جیسی ساخت کی تھی؟یا پھروہ برف کے گولے جیسی ساخت کا تھا؟ یہ تمام باتیں سائنس دانوں کو یہ بات سمجھنے کا موقع فراہم کرتی کہ حرارت کیسے ان میں سے گزرتی ہے اور کیا وجہ ہے کہ سطح کے کچھ حصّوں میں تو فوارے بنتے ہیں جبکہ کچھ حصّوں میں نہیں بنتے۔
مگر یہ تو صرف شروعات ہے۔روزیٹا پورے ایک سال تک اس پر رہتے ہوئے سورج کے گردچکر لگاتے ہوئے اس کا تجزیہ کرے گا۔ اس میں موجود جدید ٹیکنالوجی انسانی پانچ حسوں کی نقل کرسکتی ہے۔
روزیٹا پر موجود آلات چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں اس پر موجود الٹراساؤنڈ آلات وہ کام کرسکتے ہیں جو ہم اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ لہٰذا اس بات کا غالب امکان ہے کہ سورج کے گرد چکر لگاتے ہوئے سفر میں اس پر موجود رہ کرسائنس دان ان تمام باتوں کوجان سکیں گے جو اس پر وقوع پزیر ہوں گی جیسے کہ کب یہ بہت زیادہ متحرک ہوتا ہے اور کب یہ غنودگی میں چلا جاتا ہے۔ مگر ان تمام باتوں کے لئے سب سے پہلے وہاں پر پہنچنا ضروری ہے۔
سائنس دانوں کو روزیٹا کو وہاں تک پہنچانے کے لئے زبردست تکنیکی رکاوٹوں کو عبور کرناتھا ۔ روزیٹا کو اس ٹارگٹ پر اتارنا تھا جس کا رقبہ صرف ٣ میل کا ہے روزیٹا کو ٣٤ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے وہاں اترناتھا ۔ اس پر اترنا بہت زیادہ مشکل کام تھا کیونکہ وہاں قوّت ثقل نہ ہونے کے برابرتھی۔ وہاں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اس کو سطح کی طرف کھینچ لے ۔ کیونکہ وہاں کوئی کرۂ فضائی بھی موجود نہیں ہے لہٰذا ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ پیراشوٹ کے ذریعہ وہاں پر اترا جائے۔ان تمام مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لئے سائنس دانوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈھ نکالا کہ نہ صرف وہاں پرخلائی گاڑی کو صحیح طریقے سے اترا جائے بلکہ اس کو سطح پر بھی ٹکایا جا سکے۔
ٹیکنیشنز کے پاس بھی بہت ہی اختراع پسندانہ حل موجودتھے انہوں نے خلائی گاڑی پر شاک آبزرور (Shock Observers)اور برجھی جیسا آنکڑا(Harpoons) لگا دیے۔ جب یہ سطح پر اترے گا تو اسی وقت برجھی کو بھی اس کی سطح پر مارے گا۔ اس برجھی کے سرے پر دو شاخہ کانٹے (Prongs)سے لگے ہوئے ہیں جو اس وقت کھل جائیں گے اور سطح میں گھس کروہاں پھنس جائیں گے اس کو واپس اوپر جانے سے روکیں گے۔
روزیٹا کوشش کرے گا کہ سائنس کی کچھ گہری گتھیوں کو سلجھا سکے۔ سائنس دان جاننا چاہتے ہیں کہ زمین پر دوسرے سیارےیا جگہوں جن کو ہم اب تک دیکھ چکے ہیں ان کی نسبت مائع پانی زیادہ کیوں ہے۔ زمین پر پانی کہاں سے آیا۔ ہمارے پاس ایک نظریہ ہے کہ دم دار ستاروں نے عرصہ دراز پہلے زمین پر پانی پہنچایا مگر اصل سوال یہ ہے کہ ہم اس بات کو کیسے ثابت کریں۔ اس بات کو جانچنے کے لئے خلائی گاڑی وہاں سے پانی کے سالموں کا تجزیہ کر کے ان کو زمین پر موجود پانی کے سالموں سے ملائے گی۔ مگر سائنس دانوں کو اس مشن سے اس سے بھی زیادہ کی امید ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس وقت ایک غیر معمولی دریافت کرنے کے قریب ہیں۔وہ پر امید ہیں کہ شاید وہ اس بات کا ثبوت حاصل کر لیں کہ زمین پر حیات کہیں دوسری دنیا سےدم دار ستاروں کے ذریعہ سے منتقل ہوئی ہے۔
ہمارے سیارے پر حیات لگ بھگ ٣۔٥ ارب سال پہلے سے موجود ہے۔مگر ہم اس بات کو کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی اب تک سمجھ نہیں سکے ہیں۔ اب تک ہم یہ ہی سمجھتے ہیں کہ حیات کی ابتداء زمین پر ہی ہوئی ہے۔ آتش فشانی گیسوں اور پانی کے بخارات نے سمندر اور کرۂ فضائی کو مل کر پنا یا۔بجلی کی کڑک نے شروعاتی زندگی کو تیلی دکھائی ۔ مگر اب سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ اس بارے میں ان کے اندازے درست نہیں ہیں۔
تصویر میں ہیل بوپ دم دار تارہ نظر آرہا ہے جو اب تک کا دیکھا جانے والا سب سے بڑا اور روشن دم دار تارا تھا |
١٩٩٧ء میں ایک دم دار تارا جس کا نام ہیل بوپ (Hale Bopp)تھا نمودار ہوا جو اب تک کا دیکھا جانے والا سب سے بڑا اور روشن دم دار تارا تھا(تصویر نمبر ١٢)۔ سائنس دانوں نے دیکھا کہ یہ پانی، گیسوں اور کاربن یعنی زندگی کے ان بنیادی اجزاء سے جن سے حیات شروع ہوسکتی ہے لبالب بھرا ہوا تھا۔ اس دریافت نے نئے سوالات کے دریچے کھول دیے۔سائنس دان یہ ہی سمجھتے رہے ہیں کہ حیات کی ابتداء زمین پر ہی ہوئی ہے اور شاید وہ یہ بات سوچنے میں بالکل صحیح تھے کہ پیچیدہ حیات کی ابتداء تو زمین پر ہی ہوئی ہے۔ مگر حیات کے بنیادی اجزاء کہاں سےآئے تھے؟ پانی جو ہمارےجسم میں سب سے زیادہ موجود ہے ، وہ نامیاتی سالمے جن کے اوپر پوری حیات کھڑی ہے یہ سب تو زمین کے اوپر اس کی پیدائش کے وقت موجود نہیں تھے۔ یہ سب کہیں اور سے ہی آئے تھے۔
ہیل بوپ نے اس بات کے امکانات روشن کردیے کہ حیات کی اصل دنیا کوئی غیر ارضیاتی جہاں ہی تھا ۔اس کے بعد سے سائنس دانوں نے اس بارے میں اور ثبوت تلاش کر لئے ہیں۔فلکی حیات داں دانتے لوریٹا (Astrobiologist Dante Lauretta) نے یہ بات دریافت کی کہ وائلڈ ٢ کی مٹی میں وہ معدنیات موجود تھے جو صرف حرارت اور مائع پانی کی موجودگی میں ہی بن سکتے تھے۔
سائنس دانوں کو وہاں سلفائڈ ملا،آئرن آکسائڈ ، کاربونیٹ معدنیات اور اس قسم کی چیزیں ملی ہیں جن کو سمندری حیات اپنے خول بنانے میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ مادّے نظام شمسی کی ابتداء میں بننے بہت ہی مشکل تھے۔ سائنس دانوں نےیہ بھی دریافت کیا کہ وائلڈ ٢ میں امینو ایسڈ بھی موجود تھے۔ یہ دریافت ناقابل یقین اور ہیجان انگیز تھی کیونکہ امینو ایسڈ پروٹین بنانے کی بنیادی اینٹیں ہیں اور پروٹین حیاتی سالموں کو بنانے کے لئے درکار ہوتے ہیں جو آگے جاکر زمین پر موجود زندگی کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔
ان تمام دریافتوں نے سائنس دانوں کی دم دار ستاروں کے بارے میں سوچ کو بالکل بدل کر رکھ دیا۔ ہوسکتا ہے کہ دم دار ستاروں نے ہمارے سیارے کی تاریخ میں صف اول کا کردار ادا کیا ہو۔ہم نے ابھی تک ایک دم دار ستارے کے تجزیہ اور سٹارڈسٹ مشن سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر یہ جان لیا کہ دم دار ستارے کیمیا کی پیچیدہ تجربہ گاہیں ہیں جہاں حیات کے بنیادی اجزاء تیار ہوتے ہیں۔یہ مادّے سطح زمین پر موجود قدرتی عمل کے ذریعہ نہیں بن سکتے تھے۔یہ صرف نظام شمسی کے بیرونی حصّے سے ہی ہماری زمین پر کسی قاصد کے ذریعہ منتقل ہو سکتے تھے۔
یہ خیال ہی ہمیں بھونچکا کر دیتا ہے کہ زمین پر ہماری موجودگی کے ذمے دار یہ دم دار تارے ہوسکتے ہیں۔ مگر اس بات سے تمام سائنس دان متفق نہیں ہیں۔ کافی واقعاتی شا ہداتیں موجود ہیں کہ دم دار ستارے زندگی کے لئے بہت ضروری ہو سکتے ہیں ۔ مگر ہم اگر تفتیشی ٹیم کا حصّہ ہوتے جو دم دار ستاروں کی تحقیقات کر رہی ہوتی اور اس کا کام اس بات کو ثابت کرنا ہوتا کہ انہوں نے ہی زندگی کے بنیادی اجزاء زمین پر بہم پہنچائے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تک ہمارے پاس اس بات کے اطمینان بخش ثبوت موجود نہیں ہیں۔ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ وہاں پر موجود چیزوں کے زمین پر موجوداس زندگی سےجس کو ہم جانتے ہیں کوئی لینا دینا نہ ہو۔
سائنس دان پر امید ہیں کہ روزیٹا مشن کافی ساری گتھیوں کو سلجھا دے گا۔اگر ہم کوئی ارتباط وہاں پر موجود امینو ایسڈ اور زمین پر موجود امینو ایسڈ کے درمیان ڈھونڈ پائے تو یہ سائنس کی دنیا میں ایک زبردست دریافت ہوگی۔ زمین پر زندگی کی کہانی ٤۔٥ ارب سال پہلے شروع ہوئی ۔ جب ہمارا سیارہ زمین پیدا ہوا تھا اس وقت یہ بنجر اور زندگی کے لئے ایک نامہرباں جگہ تھی۔٧٠ کروڑ سال بعد نظام شمسی ایک شورش زدہ صورتحال سے گزرنے لگا۔ثقلی قوّت نے دم دار ستاروں کو ان کے مداروں سے نکل کر خلاء میں ہر جگہ ہنکا دیا اس میں سے کئی نظام شمسی کے اندورنی مدار کے قریب دھکیل دیے گئے ۔ جس میں سے کچھ نے زمین پر٣٠ کروڑ سال بعد برسات کی طرح برسنا شروع کردیا جس سے گیسوں اور نامیاتی مادّے کا اخراج ہونے شروع ہوا جن سے سمندر اور کرۂ فضائی وجود میں آیا اور آخر کار حیات نمودار ہوئی۔
یہ ایک ڈرامائی کہانی کی طرح ہے مگر کیا یہ کہانی درست ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ ہم چیزوں کو صحیح طور سے سمجھ رہے ہیں یا نہیں اگر ہم پرسرار چیزوں کی تحقیق کرتے رہیں گےاور اس بات کی تلاش کرتے رہیں گے کہ چیزوں کی شروعات کیسے ہوئی تویہ آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے کہ یہ کہانی درست ہے کہ نہیں۔١٠٠ سال بعد ہمیں امید ہے کہ ہم جب تاریخ میں پیچھے دیکھیں گے تو کہیں گے کہ اس قت میں جینا جب ہم ناقابل یقین دریافتوں کو پا رہے ہیں کتنا اچھا ہے۔ اس دوران ثبوتوں کی تلاش جاری رکھی جائے گی۔ سائنس دان یہ بات قطی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ دم دار ستاروں نے وہ تمام بنیادی خام اجزاء زمین پر پہنچائے جس سے ہم نے ارتقاء پایا ۔ مگر یہ بات ممکن بھی ہوسکتی ہے اور ایسا سوچنا کہ ہم کہیں دور سے آئے ہیں ایک شاعرانہ خیال ہی ہے۔
2 comments:
بہترین تحریر، کمال کردیا آپ نے۔
بہت سکریہ ....
ایک تبصرہ شائع کریں