خلاء تباہی وبربادی کاوہ گرداب ہےجہاں ستارے دوسرے ستاروں کو ہڑپ کرنے کے درپے ہیں۔ بلیک ہولزایک کے بعد ایک ستارے کو نگل رہے ہیں۔ کہکشائیں ایک دوسرے سے بغلگیر ہورہی ہیں۔
کائنات ایک انتہائی نا مہربان جگہ ہے۔یہاں ستارے دھماکے سےپھٹتےہوئےسپرنووامیں جس قسم کی توانائی پیداکرتے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام مظاہر قدرت کے وقوع پزیر ہونے کے پیچھے چھپی ہوئی قوّت ان کے "مدار"(Orbits) ہیں جن میں یہ اجرام فلکی چکر کاٹ رہے ہیں۔اگرہم کائنات میں موجو اجرام فلکی کےتمام ممکنہ مداروں کو سمجھ گئے تو ہم کارخانہ قدرت کے کام کرنے کا طریقہ کار کو کافی حد تک جان سکیں گے۔ مدارنا صرف تمام چیزوں کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھتے ہیں بلکہ یہ ان تمام چیزوں کوایک دوسرےسےعلیحدہ بھی کر دیتے ہیں۔ انتہاءاورخطرناک کے مداروں کا مطلب ٹکراتی ہوئی کہکشائیں ، منہدم ہوتے ہوئے غبار کے بادل اور زندگی کی تخلیق و بربادی ہے۔ یہ زبردست مدار ہمارے کائنات میں موجود حیات و موت کو انضباط کرتے ہیں۔
ہمارا نظام شمسی ٨ سیاروں،١٥٠ سے زائد مہتابوں ، ارب ہا خلائی چٹانوں ، گرد ،اور گیس کے ساتھ ایک ستارے کے گرد چکر کاٹتے ہوئے ایک جناتی ١٠ ارب میل پر پھیلی ہوئی گھومتی ہوئی قرص بنا رہا ہے۔یہ سارا سلسلہ آج سے ٤ ارب سال پہلے سے ایسے ہی چل رہا ہے ۔ ہر چیز اپنے مدار میں نہایت پائیداری،سکون اور نظم و ضبط کے ساتھ چکر کاٹ رہی ہے۔ہمارا کائنات کااب تک کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہمارا نظام شمسی ایک منفرد اور انوکھا نظام ہے اوراب تک ہمارےعلم کے مطابق کائنات میں کہیں پر بھی ہمارے نظام شمسی جیسے منظم مدار موجود نہیں ہیں۔ ہم کائنات میں اپنے نظام شمسی کے علاوہ جن اجرام فلکی کے مدار دیکھتے ہیں وہ ہمیں غیر پائیدار، بے ربط یہاں تک کہ تباہی پھیلانے والے نظر آتے ہیں۔
کائنات میں اپنے سے قریب بھی ہمیں جناتی سیارے اپنے میزبان تارے کے گرددھکیلے جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہم ہزار ہا ڈگری درجہ حرارت والی صدماتی موجوں کو فضاء چیرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کائنات میں ایسے سیارے بھی نظر آتے ہیں جو اپنے میزبان تارے کی سطح سے ٹکرا رہے ہیں ، بڑے ستارے ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں ، کئی کئی مدار والے نظام بھی موجود ہیں جہاں صرف افراتفری ہی کا راج ہے اور پورےکے پورے اجسام اپنے علاقےسے دھکے دے کر نکال دیے جاتے ہیں۔ اس قسم کے دوسرے کئی واقعات کائنات کا معمول ہیں۔
زمین آ ب و حرارت سے بھرپور ایک نخلستان ہے۔ سورج کے گرد زمین کےپرسکون اورمستحکم مدار نے یہاں حیات کے پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا۔ زمین کا مدار سورج کے گرد لگ بھگ گول دائرہ میں ہے۔ ہمارا سورج سے فاصلہ پورے سال قریب قریب برابر ہی رہتا ہے جس سے زمین کا درجہ حرارت کافی حد تک ایک جیسا ہی رہتا ہے ۔ اتنے متناسب اور پائیدار مدار کے بغیر ہم وجود نہیں پا سکتےتھے ۔سمندروں سے ڈی این اے کی تخلیق کچھ کروڑوں سال یا شاید ایک ارب سال میں ہوئی ہوگی۔ اس اتنے لمبےعرصے میں سکون اور پائیداری کے لئے گول دائرے جیسا مدار لازماً چاہئے تھا۔ نظام شمسی کے استحکام اور زمین کا سورج کے گردگول دائرے میں چکر لگانے کی وجہ سے ہی زمین پر زندگی موجود ہے۔ زمین کے مدار کی وجہ ہی سے اس دنیا کی رنگینی قائم ہے۔
اس تند و تیز اور خطرناک کائنات میں اس قدر مستحکم اور اس قدر مکمل مدار ہماری خوش قسمتی ہے۔بہرحال فلکی اجسام کے غیر منظم مدار ہم سے کچھ زیادہ دور بھی نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارے اپنے نظام شمسی میں بھی ایسے مدار موجود ہیں جو بہت زیادہ انتہاءدرجے اور شدت کے ہیں جہاں زندگی کا اپنا وجود قائم رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔ سورج سے سب سے قریبی اورچھوٹے چٹانی سیارے عطارد کا مدار بیضوی شکل کا ہے۔اس کا سورج سے زیادہ سے زیادہ فاصلہ ٤ کروڑ ٣٠ لاکھ جبکہ کم سے کم فاصلہ ٢ کروڑ ٨٠ لاکھ ہے۔
سورج سے اتنی قربت کی وجہ سے اس کا درجہ حرارت ٨٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے یہ کسی بھی بیکری کی بھٹی میں موجود درجہ حرارت سے بھی زیادہ ہے۔کرۂ فضائی نہ ہونے کی وجہ سے ہم انسانوں کا وہاں فورا ہی دم گھٹ جائے گا۔ ہوا کی غیر موجودگی ہمارے جسم میں موجود خون کو ابال کر ہماری جلد سے پھاڑ کر باہر نکال دے گی۔ کوئی بھی انسان عطارد کی سطح پر پہنچ کر حقیقت میں ایک دھماکے سے پھٹ جائے گا۔
صرف یہ ہی نہیں بلکہ یہاں پر درجہ حرارت صفر ڈگری سے ٣٠٠ درجے سے بھی نیچے بھی چلا جاتا ہے۔ یہ زمین پر موجود سردترین مقام سے بھی تین گنا زیادہ سرد ہے۔ عطارد میں درجہ حرارت کا یہ تفاوت نظام شمسی میں سب سےزیادہ ہے۔مگر اس کا مدار اس بات کا بھی ثبوت ہے کے مدار کے لئے پورا حلقہ بنانا ضروری نہیں ہوتا۔ عطارد کا مدار حلقہ بنانے کے بجائے ہر مکمل چکر میں اپنا مدار ہلکا سا تبدیل کرلیتا ہے ۔ ہزار ہا سال گزرنے کے بعد اس کا مدار "گل داوودی کے پتوں"(Daisy Flower) کے نمونے جیسا ہوجاتا ہے(تصویر نمبر ١)۔
عطارد(Mercury) کا لمبوترا مدار جو پورا حلقہ بنانے کے بجائے گل داؤدی Daisy Flowerکے پتوں - ( )جیسا نمونہ بناتا ہے |
نظام شمسی کے دور دراز کونے پربونا سیارہ پلوٹو موجود ہے جس کا سورج سے فاصلہ ٤ ارب میل کا ہے۔ نظام شمسی میں موجود جو اجرام فلکی سورج سے جتنا دور ہوگا اس کی سورج کےگرد مدار میں چکر لگانے کی رفتار اتنی ہی زیادہ آہستہ ہوتی ہے۔ پلوٹو سورج کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں ٢٤٨ سال لے لیتا ہے۔پلوٹو کا مدار خلاف قاعدہ ہے۔ اس کا کھینچا ہوا مدار تمام دوسرے اہم سیاروں کی" سطح"(Plane) سے ہٹ کر ہے جو ایک شاندار نظارہ پیش کرتا ہے(تصویر نمبر ٢)۔
پلوٹو کا خلاف قاعدہ مدار جو دوسرے سیاروں کی سطح سے ہٹ کر ہے |
اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے پلوٹو زیادہ عرصہ ایک منجمدبرف اور چٹان کا ٹکڑابنا رہتا ہے مگر جوں جوں یہ سورج کے قریب آتا ہے ویسے ویسےاس پر گرمی کا موسم شروع ہوجاتا ہے۔ گرمی کے موسم میں جب پلوٹو کو حرارت ملتی ہے تو اس کی سطح پر موجود پانی، کاربن ڈائی آکسائڈ ، کچھ کاربن مونو آکسائڈ اور میتھین پر مشتمل برف بخارات بن کر اس کی فضاء میں جمع ہونا شروع ہوجا تی ہے جس سے کہر بنتی ہے اور یہ آہستہ آہستہ گہری ہوتی جاتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ اتنی کثیف ہو جاتی ہے کہ بادلوں کی شکل اختیار کر لیتی ہے اور اچانک ہی پلوٹو پر فضائی کرۂ جنم لے لیتا ہےجو اس سے پہلے اس پر موجود نہیں ہوتا ۔ اس فضائی ماحول کی کثافت سورج سے قریب ہوتے ہوئے بڑھتی رہتی ہے۔مگر پھر جب سیارہ سورج سے واپس دور جانا شروع کرتا ہے تو اس کی سطح پر موجود درجہ حرارت صفر ڈگری سے ٤٠٠ درجہ نیچے گر جاتا ہے اور نائٹروجن اور میتھین دوبارہ سے برف کے گالوں میں ڈھلنا شروع ہوجاتی ہیں۔
جیسے ہی سردی کی شروعات ہوتی ہے گیسیں آہستہ آہستہ کرۂ فضائی کو جمانا شروع کردیتی ہیں یہ برف کے گالوں کی صورت میں اس کی سطح پربھی گر سکتے ہیں مگر دھیرے دھیرے یہ شیشے کی طرح کی غیر شفاف تہہ میں جمع ہونا شروع ہوتے ہیں اور پلوٹو کی سطح پر اس کا کرۂ ہوائی منجمد ہوجاتا ہے۔
سخت سڑی ہوئی سردی کے بعد پلوٹو سورج سے پھر قریب ہونا شروع ہوتا ہے اور ٢٤٨ سالہ چکر کا پھر سے آغاز ہوجاتا ہے۔درجہ حرارت میں اس قدر تفریق ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہم کس قدر خوش قسمت ہیں اور حیات کے پھلنے پھولنے کے لئے زمین کا مدار کس قدر شفیق اور پائیدار ہے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زمین کا یہ مدار اس قدر نازک توازن پر قائم ہے کہ اس میں ذرّہ برابر تبدیلی بھی ہم سب کو ہلاک کرسکتی ہے۔ اگر زمین کا مدار سورج سے تھوڑا سا بھی قریب ہوتا تو ہم اپنے سب سے قریبی پڑوسی سیارے زہرہ کی طرح ہوتے۔
زہرہ اس بات کی بہت اچھی مثال ہے کہ اگر زمین اپنے موجودہ مدار سے تھوڑا سا بھی ہٹ کر ہوتی تو اس کا کیا حال ہوتا۔ زہرہ کا بہت ہی کثیف کرۂ ہوائی ساری حرارت کو قید کرلیتا ہے جس سے اس کی سطح کا درجہ حرارت ٩٠٠ ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ اگر ہم سورج سے اپنی موجودہ جگہ سے تھوڑا سے بھی قریب ہوتے تو ہمارا حال بھی زہرہ کے جیسا ہی ہوتا۔ سمندر ابل جاتے اور ہمارا سیارہ ایک صحرا کی طرح بن جاتا ۔ حیات برباد ہوجاتی۔ہم اپنے موجودہ مدار سے تھوڑا سے بھی ہٹ کر مخالف سمت میں ہوتے تو بجائے ابلنے کے سمندر برف بن کر منجمد ہوجاتے۔ کرۂ ارض ایک برف کے گولے کی مانند ہوجاتی ، زمین پوری برف سے ڈھک جاتی۔ اس تمام تباہی کے لئے زمین کوسورج کے گرد اپنے مدار میں کچھ زیادہ تبدیلی نہیں کرنا پڑتی بس تھوڑی سی تبدیلی ہی یہ سب تباہی مچانے کے لئے کافی تھی۔ قطبی برف پورے سیارے پرپھیل جاتی۔سمندر جم کر برف بن جاتے ۔ ابدی برفیلا دور شروع ہوجاتا۔ مدار میں ذرّہ برابر معمولی سی تبدیلی کا نتیجہ آگ یا پھر برف کی صورت میں نکلتا۔
جہاں پائیدار اور موزوں فاصلے والے مدار حیات کو پھلنے پھولنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں وہیں مدار افراتفری پھیلانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ مداروں کی ہی وجہ سے پورے کے پورے ستارے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے سیارےکے مدار نے زندگی کی شروعات کو ممکن بنایا مگر زیادہ تر مدار بہت زیادہ ہنگامے باز ہوتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ خلاء کونیاتی ہائی وے ہے جہاں کوئی بھی چیزحالت سکون میں نہیں رہتی۔ ہر چیز قوّت ثقل کی مہربانیوں کی وجہ سے کسی نہ کسی اجرام کے گرد چکر کاٹ رہی ہوتی ہے۔ قوّت ثقل ایک ایسی جاذبی قوّت ہے جو تمام کائنات میں پائی جاتی ہے۔یہ ہی وہ طاقت ہے جو نا صرف ستاروں کوبلکہ نظام ہائے شمسی کو بھی باندھ کر رکھتی ہے ۔ ہر شئے میں قوّت ثقل موجود ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو کھینچتی ہے۔ کسی بھی شئے کی جتنی زیادہ کمیت ہوگی وہ اتنی زیادہ ہی قوّت ثقل کی حامل ہوگی۔ سیبوں کے زمین پر گرنے کی وجہ یہ ہی قوّت تو ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سورج سب سے زیادہ بڑا ہے اس کی کمیت تمام سیاروں کی کمیت سے ٧٠٠ گنا زیادہ ہے۔اتنی زبردست ثقلی قوّت کے ساتھ یہ تمام سیاروں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔مگر کوئی چیز تو ایسی ہے جو ان تمام سیاروں کو سورج میں گرنے سے روکتی ہے۔
سیارے مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔وہ خلاء میں زبردست رفتار کے ساتھ سورج کی طرف دوڑنے کے بجائے اس کے ایک جانب بھاگ رہے ہیں جس سے سورج کی قوّت ثقل میں اور سیاروں کی رفتار میں ایک رسا کشی کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ جب سورج کی قوّت ثقل اور سیاروں کی رفتار میں توازن قائم ہوجاتا ہے تو سیارے سورج کے گرد ایک حلقے میں چکر کاٹنا شروع کردیتے ہیں جس کو ہم مدار کہتے ہیں۔ مدار اس حرکت کو کہا جاتا ہے جو ایک اجرام کسی دوسرے اجرام کے گرد ایک معین راستے سے ہوتا ہوا ثقلی قوّت کے زیر اثر مکمل کرتا ہے۔مدار گول دائرے کی شکل میں بھی ہوسکتے ہیں جبکہ یہ بیضوی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔ اگر ہم کسی گیند کو ہوا میں اچھالیں تو بہت ہی مختصر عرصے کے لئے گیند زمین کے مرکز کی طرف مدار بنا لے گی۔ یہ قوّت ثقل کے حرکت پر اثر انداز ہونے کی وجہ سے ایسا کرتی ہے۔
ذرا تصّور کریں اگر سورج قوّت ثقل کے بغیر ہوتا تو اس کا نتیجہ کیا ہوتا؟ سیاروں کی غضب کی رفتار ان کو خلاء بسیط میں دور لے جاتی۔ دوسری طرف اگر سیارے اپنی حرکت کو بند کردیں تو وہ سورج کی زبردست قوّت ثقل کی بنا پر اس میں جا گریں گے۔ تمام مدار قوّت ثقل اور حرکت کے درمیان توازن سے قائم ہوتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کائنات میں ہر چیز بالکل ٹھیک قاعدے سے صاف ستھرے انداز میں چل رہی ہے اور سیارے کونیاتی ہم آہنگی کامثالی نمونہ ہیں۔ مگر یہ بات درست نہیں ہے ۔ مدار بہت زیادہ سرکش بھی ہوتے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے بالکل ٹھیک پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی ۔ کائنات میں جتنے زیادہ اجرام دریافت ہو رہے ہیں ان کے مدار اتنے ہی نا قابل پیشنگوئی ثابت ہورہے ہیں۔ پیچیدگی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب دو اجرام ایک دوسرے کے مدار میں چکر لگانے کی کوشش شروع کردیں تب مدار اصل میں ان دو اجرام کے درمیان ایک حلقہ بن جاتا ہے۔مدار میں چکر لگاتے ہوئے ان اجسام کی رفتار کبھی ہلکی تو کبھی تیز ہونے لگتی ہے۔ کسی بھی مدار کے لئے ضروری نہیں ہے کہ اس کا ایک مستقل معین راستہ ہو۔
قدرت کی کاریگری ہمارے تخیل کی پرواز کو للکارتی رہتی ہے۔پلوٹو سے آگے قریبی ترین سیارے سے آدھے فاصلے پر پہنچیں تو دمدار تارے ، برف کے ٹکڑے اور چٹانیں وسیع بادلوں میں تیرتی ہوئی ملیں گی جو نظام شمسی کے نقطہ آغاز کے وقت کے باقی ماندہ جمے ہوئے مادّے سے بنے ہیں۔ ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ان میں سے کوئی اجرام سورج کی طرف کھینچا چلا آتا ہے جو اپنا سفر دس کھرب ہا میل سے شروع کرتا ہوا سورج کی سطح پر جا گرتا ہے۔ جب یہ اجرام سورج سے کافی دور ہوتے ہیں تو بمشکل ہی حرکت میں ہوتے ہیں مگر جب وہ سورج کی طرف ہنکائے جاتے ہیں تو وہ بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں اور اس طرح سے نظام شمسی کے سب سے عجیب و غریب مدار وجود میں آتے ہیں(تصویر نمبر ٣)۔یہ مدار اس قدر طویل ہوسکتے ہیں کہ ایک طرح سے سیدھی لکیر بنا لیتے ہیں۔
دم دار ستاروں کے لمبوترے مدار |
دم دار ستارے دس لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار تک سفر کرسکتے ہیں۔یہ ایسے میزائل ہوتے ہیں جن کی رہنمائی ثقلی قوّت کررہی ہوتی ہے جبکہ رفتار ان کو منزل تک پہنچانےکی ساتھی ہوتی ہے۔ یہ ہمیں بتا تے ہیں کہ مدار کتنے تباہ کن بھی ہوسکتے ہیں۔دم دار تاروں میں سے کئی تو سورج میں گرجاتے ہیں جبکہ کئی سیاروں سے جا ٹکراتے ہیں۔
خدانخوستہ اگر کوئی ٥ یا ٦ میل رقبے کا دم دار تارا زمین سے ٹکرا جائے تو یہ سیارے کے لئے موت کا فرشتہ ہی ثابت ہوگا۔یہ زمین پر سے تمام جانداروں کا صفایا کردے گا۔ اکثردم دارتارے خلائے بسیط سے نکل کر سورج کے اندرونی حصّے کی طرف نکل آتے ہیں اور بغیر کسی سے ٹکرائے واپس لمبے عرصے کے لئے اپنے مدار میں چلے جاتے ہیں۔
جیسے ہی ہم اپنے نظام شمسی سے دور نکلتے ہیں تو ہم اور زیادہ خطرناک اور انتہاء کے مدار مشاہدہ کرتے ہیں۔ ہلاکت انگیز مرغولے پورے کے پورے سیارے کو ریزہ ریزہ کررہے ہیں ، ستاروں کو چھیل رہے ہیں یہاں تک کہ خلاء میں سوراخ کر ڈال رہے ہیں۔
ناقابل تصّور وسیع کائنات اس قدر بڑی ہے کہ اس میں ہمارے جیسے انگنت جہاں موجود ہوسکتے ہیں۔ سائنس دان ہماری جیسی دنیاؤں کی تلاش میں ہیں جہاں زندگی پنپ سکےوہ ان دنیاؤں کی تلاش مداروں کو کھوجتےہوئےکر رہے ہیں وہ سمجھ رہے تھے کہ وہزمین جیسی کئی دنیائیں پا لیں گے مگر ابھی تک وہ ناکام رہے ہیں۔
سیارہ HD 154088 دیکھنے میں بہت اچھا لگتا ہے۔ ہم اب تک ایسے سینکڑوں سیارے تلاش کر چکے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی زمین کی طرح نہیں ہے۔ خلائی جہاں بہت ہی عجیب اور غیر شناسا مداروں کے حامل ہیں۔ہم نے ان سیاروں کےمشاہدے سے جو چیز دیکھی ہے اس نے ہم پر یہ بات آشکار کی ہے کہ ان کے مداروں کی ساخت اور حجم ایک دوسرے سے بہت ہی مختلف اور علیحدہ ہیں۔ ان میں سے کچھ مدار اپنے میزبان تارے سے اس قدر نزدیک ہیں کہ وہ سیارے اپنا چکر ان کے مدار میں کچھ گھنٹوں یا دنوں میں مکمل کرلیتے ہیں۔ لہٰذا ہم ان ماوراء شمس سیاروں کو ناقابل یقین حد تک متنوع فیہ مداروں کی شکل میں دیکھ رہے ہیں ایسے مدار ہم نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔
کا تنگ ترین مدار ایک مصّور کی نگاہ میںWASP-18b |
ہمارے اب تک کے دریافت کردہ جہانوں میں سے اکثر جہاں اس قدر نامہرباں ہیں کہ وہاں زندگی کی شروعات ناممکنات میں سے ہے۔ WASP-18bایک "تپتا ہوا مشتری"(Hot Jupiter) ہے اور اس جماعت سے تعلق رکھتا ہے جو اپنے ستارے سے بہت زیادہ قربت رکھتے ہیں(تصویر نمبر ٤)۔ WASP-18b اپنے میزبان تارے سےہماری بہ نسبت ٥٠ گنا زیادہ نزدیک ہے۔یہ اپنے ستارے سے اتنا قریب ہے کہ ایک دن میں اس کے گرد مدار میں اپنا ایک چکر مکمل کرلیتا ہے۔ اگر آپ یہ بات سوچ رہےہیں کہ اس سے زیادہ عجیب اور ناممکن مدار اور کیا ہوسکتا ہے توآپ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں مگر ذرارکیے اور تصور میں مشتری کو سورج سے صرف ٥٠ لاکھ میل دوری پر رکھیں اور پھر چشم تصّور سے دیکھیں کہ مشتری کے ساتھ کیا ہوتا ہے ۔
اس قسم کے سیارے کائنات میں ایک عام سی بات ہیں۔ بلکہ اب تک کے دریافت شدہ سیاروں میں سے اکثریت کے مدار ایسے ہی ملے ہیں۔ستارے کی ثقلی قوّت اور سیارے کی رفتار کی اس دھینگا مشتی کے زبردست اثرات رونماء ہوتے ہیں۔ WASP-18b پر درجہ حرارت ٤،٠٠٠ ہزار ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ زبردست حرارتی طوفان اس کی سطح سے جاٹکراتا ہے۔ ستارہ اور سیارہ دونوں اس وسیع ثقلی قوّت سے جو زمین پر مدوجزر کا سبب بنتی ہے ؛بگڑ جاتے ہیں ۔ زیادہ تر عوام الناس مدوجزر کے بارے میں تو جانتے ہیں۔ دن کے کچھ حصّہ میں سطح سمندر ان مدوجزر کی قوّت کے سبب بلند ہوتی ہے اور پھر نیچے آجاتی ہے جس کی وجہ سورج ، چاند اور وہ مدار ہیں جن میں یا تو ہم کسی چیز کے گرد چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں یا کوئی ہمارے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے۔ ان اجسام کے درمیان جس قدر کم فاصلہ ہوگا مدو جزر کی قوّت اسی قدر قوی ہو جائے گی۔ سیاروں کو تو یہ ان کی شکل تک تبدیل کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
WASP-18b اپنے نظام میں اس جگہ پیدا ہوا تھا جو اس کے میزبان تارے سے کافی دور اور سرد جگہ تھی۔ لاکھوں سال گزرجانے کے بعدیہ سیارہ ٹہلتا ہوا وہ اپنی اس موجودہ جگہ پر پہنچا ہے جہاں آکر یہ ثقلی قوّت کی جنگ میں ایک جگہ پھنس گیا ہے۔ کچھ ہی سال گزر جانے کے بعد ستارے کی آگ اس کو ہضم کرچکی ہوگی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جب ہم کائنات کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ کائنات ہمیشہ سے ایک جیسی رہنے والی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتہائی تغیر پزیر جگہ ہے۔ قوّت ثقل کی بدولت کائنات جیسے کہ آج نظر آتی ہے کل یا ایک ہفتے بعد، یا پھر ہزار سال بعد یا پھر ایک ارب سال بعد ایسی نہیں ہوگی۔
زمین جیسی دنیا کی تلاش نے ہم پر کائنات کی ہلاکت خیزی کوتباہ کن سیارچوں کے مدار سےلے کر تپتے ہوئے مشتری تک کو ہم پرہویدا کیاہے ۔ کائنات میں ایسے سیارے بھی موجود ہیں جو کسی چیز کے گرد چکر ہی نہیں کاٹ رہے۔ سائنس دانوں نے ابھی حال ہی میں دور ستاروں سے آتی روشنی میں ہلکی سی تبدیلی محسوس کی جس کی توضیح صرف ایک ہی ہو سکتی تھی کہ ستاروں کی روشنی اور ہمارے درمیاں کوئی بھاری سی چیز موجود ہے جو ان ستاروں سے آتی ہوئی روشنی میں خلل ڈال رہی ہے ۔ یہ آوارہ گرد سیارے کسی بھی ستارے کے گرد چکر نہیں کاٹ رہے ہیں۔ یہ یتیم سیارے خلاء میں اکیلےآوارہ گردی کر رہے ہیں۔ سیاروں کی بنیادی تعریف ہمیں بتاتی ہے کہ سیارے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہیں مگر سائنس دان ان آوارہ سیاروں کو دیکھ کر انگشت بدہا ں ہیں ۔ آوارہ گرد سیارے اپنی میزبان ستارے کے بغیر سیاروں کی تعریف میں تناقض پیدا کررہے ہیں۔
سائنس دانوں کے خیال کے مطابق ہر آوارہ گرد سیارہ کبھی اپنے میزبان تارے کے گرد چکر کا ٹ رہا تھا مگر پھر ثقلی قوّت کی کارستانیوں کی وجہ سے اس کو خلاء میں اکیلا نکال دیا گیا۔ نوزائیدہ نظام ہائے شمسی ایک افراتفری کا گڑھ ہوتے ہیں۔ سیارے ایک دوسرے کو کھینچنے کے لئے زور آزمائی کررہے ہوتے ہیں اور کچھ سیارے اپنی چال بدل لیتے ہیں جبکہ کچھ سیارے خلاء میں اکیلے بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ آوارہ گرد سیاروں کو دیکھ کی قوّت ثقل ہمیں بتاتی ہے کہ یہ صرف نظام ہائے شمسی کو باندھ کر ہی نہیں رکھتی بلکہ یہ پورے کے پورے سیارے کواس نظام سے نکال کر دور خلائے بسیط میں پھینک بھی دیتی ہے۔ ایک حالیہ سروے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کہکشاں میں ستاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ تعداد ان آوارہ گرد سیاروں کی ہے۔
ہم نے وہ مدار دریافت کرلئے ہیں جن کی دریافت سے پہلےہم سمجھتے تھے کہ ایسے مداروں کا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ حرکت اور ثقلی قوّت ہماری کائنات کو مستقل ایک شورش زدہ حالت میں رکھے ہوئے ہیں۔ ثنائی نظام میں موجود تارے ایک دوسرے کو ہڑپ کررہے ہیں ۔ تباہی سے پھرپور بھنور خلاءمیں ہلچل مچا رہے ہیں۔زبردست طاقتیں ستاروں کو لٹو کی طرح گھما رہی ہیں۔ قوّت ثقل عظیم الشان پیمانے پر افراتفری پھیلانے کا سبب بن رہی ہے۔ مدار اس قدر خطرناک ہیں کہ وہ ستاروں کے حصّوں کو کھرونچ رہے ہیں۔
ایچ ایم کینکری HM Cancri ایک ثنائی نظام شمسی ہے جہاں دو سفید بونے ستارے ایک دوسرے کےانتہائی قریب چکر لگا رہے ہیں |
"ایچ ایم کینکری" (HM Cancri)ایک ثنائی نظام شمسی ہے جس کا زمین سے فاصلہ ١٦ ہزار نوری برس ہے(تصویر نمبر ٥)۔ یہ سفید بونے ستارے ہیں جو چھوٹے مگر حد سے زیادہ کثیف ہوتے ہیں۔ چائے کے ایک چمچے جتنا سفید بونے ستارے کے مادّے کا وزن ٥ ٹن تک کا ہوتا ہے۔ دونوں ستاروں کا آپس کا فاصلہ صرف ٥٠ ہزار میل کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آپس میں زمین اور چاند کے فاصلے سے پانچ گنا زیادہ قریب ہیں۔ یہ مدار میں دس لاکھ میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار سے اپنے مدار میں چکر کاٹ رہے ہیں۔ دو بونے ستارے جو نہایت صغاری فاصلے سے انتہائی تیزی کے ساتھ صرف ٥١۔٥ منٹوں میں ایک دوسرے کے گرد چکرمکمل کر رہے ہیں۔ یہ اب تک کی دریافت شدہ کائناتی اجسام کی اپنے مدار میں رفتار کا سب سے تیز ترین ریکارڈ ہے۔
یہاں کائناتی قوّتیں اپنی انتہاء پر ہیں۔ قوّت ثقل گرم ترین گیسوں کو ایک ستارے سے نکال کر دوسرے ستارے میں ڈال رہی ہے۔سائنس دانوں کے خیال میں یہ مدار اتنے انتہاء کے ہیں کہ یہ خلاء میں بگاڑ پیدا کررہے ہیں۔اس سارے عمل میں ستارے اپنی توانائی کھو رہے ہیں اور ایک دوسرے کے قریب ہوتے جارہے ہیں اور آخر کار ایک دوسرے سے جاکر ٹکرا جائیں گے اور سپرنووا کی صورت میں دھماکے سے پھٹ پڑیں گے۔
ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ سپرنووا کائنات کی شدید ترین قوّتوں میں سے ایک ہے جس میں ستارہ دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔زمین پر اس کے مثل کوئی چیز نہیں ہے جو اتنی توانائی پیدا کرتی ہو۔
کچھ سپرنوا تو اس قدر طاقتور ہوتے ہیں کہ بگ بینگ کے بعد طاقت و توانائی میں ان کا نمبر آتا ہے۔ یہ اتنے زبردست ہوتے ہیں کہ ایک ٢ کھرب ستاروں بھری کہکشاں کی روشنی تک کو دبا دیتے ہیں۔
سپرنووا کائنات کی سب سے انوکھی چیز "پلزار"(Pulsar) بھی پیدا کرتے ہیں۔ پلزار بہت ہی اونچے درجے کے مقناطیسی ستارے ہوتے ہیں۔ یہ برقی مقناطیسی اشعاع کی کرنیں خلاء میں دور دور تک پھینکتے ہیں۔ کائنات میں پلزار جتنی ڈرامائی چیزیں بہت ہی کم ہیں۔ ذرا ایک ایسی گیند کا تصّور کریں جو دس میل رقبہ پر محیط ہو اورجس کی کثافت ناقابل تصّور بیان کی حد تک ہو اور وہ ایک سیکنڈ میں سینکڑوں دفہ گھوم رہی ہو ۔جس کے ایک کیوبک سینٹی میٹر کی کمیت ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ جتنی ہو۔ اس پر قوّت ثقل زمین پر موجود ثقلی قوّت کے مقابلے میں ایک کھرب گنا زیادہ ہوتی ہے۔ایک انسان تو وہاں جاکر پس کر کچھ ایٹموں کے ذرّے کے برابر ہی ہوجائے گا۔ جو کوئی بھی پلزار کے قریب ہوگا اس کے لئے ریزہ ریزہ ہونے کا خطرہ موجود ہوگا۔
بلیک وڈو پلزار(Black Widow Pulzar) اپنے بھورے بونے ساتھی ستارے کے ساتھ چکر کاٹتے ہوئے |
"بلیک وڈو پلزار"(Black Widow Pulzar) ہماری کہکشاں کو ٦ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چیر رہا ہے(تصویر نمبر ٦ )۔ صدماتی موجیں اس قدر وسیع ہیں کہ ہماری دوربینیں اس کا سراغ ٥ ہزار نوری برس کے فاصلےکے بعد نہیں لگا سکتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک "بھورا بونا ستارہ"(Brown Dawrf) جو کسی سیارے سے بڑا اور کسی بھی ستارے سے چھوٹا ہے وہ بھی محو سفر ہے۔ یہ جوڑا ایک ایسے مدار میں پھنس چکا ہے جو ان کے لئے موت کا ناچ ثابت ہوسکتا ہے۔ بلیک وڈو ایک طرح سے خون آشام چمگاڈر کی طرح بونے ستارہ کا خون چوس رہا ہے۔ رفتہ رفتہ اس کا ساتھی ستارہ اپنی ہائیڈروجن اور ہیلیم کا ایندھن کھو رہا ہے۔ کوئی بھی جسم جو اس پلزار کے ساتھ سفر کررہا ہوگا اس کی دھجیاں اڑنے کا خطرہ اپنی جگہ بہرحال موجودرہے گا۔
ثنائی پلزار جس کا نام PSR J0737-3039ہے یہاں دو پلزار ایک دوسرے کے گرد انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ چکر کاٹ رہے ہیں . اس نظام کی ایک خیالی تصویر |
تابکار دھماکے بھورے بونے ستارے کی گیسوں کو خلاء میں پھینک رہے ہیں۔ایک دس میل جتنا جسم ،مشتری جتنی جسامت کے سیارے کو تباہ کر رہا ہےآخر کار بھورا بونا ستارہ ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔ایک پلزار میں تباہی پھیلانے کی قابلیت ناقابل بیان حد تک کی ہوتی ہے مگر جب دو پلزارمل جائیں تو وہ کائنات کی شکل تک کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ہماری کہکشاں میں اب تک صرف ایک ہی ثنائی پلزار دریافت ہوا ہےجس کا نام PSR J0737-3039ہے(تصویر نمبر ٧)۔ ان پلزاروں کےایک دوسرے کے گرد مدار میں چکر لگانے کی زبردست رفتارجو ٧ لاکھ میل فی گھنٹہ ہے اور ان کی زبردست کمیت ان کو نہایت ابتری کی حالت میں گھما رہی ہے۔
اس قوّت کا اندازہ لگانے کے لئے جو یہ ایک دوسرے پر لگا رہے ہیں ہماری عقلیں جواب دے جاتی ہیں اس دھینگا مشتی کے نتیجے میں پوری جیومیٹری اور اس نظام کا ڈھانچہ بدل گیا ہے اور بلوے میں یہ ایسے گھوم رہے ہیں جیسے میز کا اوپری حصّہ لٹو کی طرح گھومے۔ بھاری کمیت والی پلزار کی قوّت ثقل دوسرے چھوٹے پلزار کو ڈگمگاتی ہے۔یہ اس کو ایسے کھینچتی ہے کہ پورا پلزار نشے کی حالت میں لڑکھڑاتے ہوئےنظر آتا ہے۔مگر یہ صورتحال زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہے گی۔ آج سے ٨ کروڑ ٥٠ لاکھ سال کے بعد یہ دونوں پلزار تارے آپس میں مدغم ہوکر ثقلی قوّت کی وسیع کھائی میں بدل چکے ہوں گے اور کائنات کے انتہائی خطرناک عفریت یعنی کہ بلاک ہول کو جنم دیں گے۔
ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ بلیک ہولز میں اور اس کے آ س پاس میں قوانین طبیعیات نہایت عجیب برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔ بلیک ہولز میں وقت ساکن ہوجاتا ہے۔ قوّت ثقل لامتناہی ہوتی ہے۔ بلیک ہول قوّت ثقل کی ایسی کھائی ہے جو ستارے کی موت سے بنتی ہے۔ کائنات کے سب سے پریشان کن مظاہر قدرت میں سے ایک بلیک ہول ہیں جن کے بارے میں ہم اب تک مکمل طور پر نہیں جانتے کہ وہ کیسے کام کرتے ہیں۔ اگر ہم انتہائی درجہ کی خطرناک چیزوں کے بارے میں بات کریں تو ان میں سب سے سر فہرست بلیک ہول ہی ہوں گے ۔ کائنات میں کسی بھی چیز کی ثقلی قوّت ان سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کی کمیت اتنی بلند ہوتی ہے جتنی کہ سورج کی بشرطیکہ ہم سورج کو دبا کر صرف چند میل جتنی چھوٹی سی گیند بنا دیں۔ آج سے ٥٠ سال پہلے بلیک ہول کے نظریہ کو سائنس فکشن قرار دے کر رد کردیا گیا تھا۔ مگر اب ہم انہیں کہکشاؤں کے مرکز میں مصروف عمل دیکھتے ہیں۔ بلیک ہول کائنات کے ارتقاء میں ایک اہم کردار ہیں۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ صرف اکیلے ہماری کہکشاں میں ہی ١٠ کروڑ بلیک ہولز موجود ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کا سامنا کرنے کا مطلب ہے کہ ہماری زمین گم نامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔
کائنات میں ایک ستارہ جو ہمارے سورج سے ٢٠ گنا زیادہ کمیت اور ١٠ گنا زیادہ حرارت رکھتا ہے موجودہے ۔ اس قسم کے ستارے زیادہ عرصہ تک زندہ نہیں رہتے ۔ یہ ستارہ ایک ایسے شیطانی پھندے میں پھنس گیا ہے جو بلیک ہول کی قوّت ثقل نے لگایا ہے۔ یہاں ثقلی قوّت اس قدر طاقتور ہے کہ یہ ستارہ ٥ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے مدار میں دوڑا جارہا ہے۔بلیک ہول ستارے کی باہری پرت کو چوس رہا ہے جس سے ایک وسیع گھومتی ہوئی قرص سی بن گئی ہے ، یہ قرص اتنی گرم ہے کہ ہمارے سورج کے مقابلہ میں دس لاکھ گنا زیادہ طاقتور ایکس ریز چھوڑ رہی ہے۔
ایک ایسی ہئیت جس میں ایک ستارہ بلیک ہول کے گرد گھوم رہا ہو کافی غیر پائیدار ہوتی ہے۔ سب سے پہلے تو بلیک ہول ستارے کی اوپری پرت کو نگلے گا جس کے ساتھ ساتھ ستارہ بھی غیر متوازن ہوجائے گا اور ایک دن ایسا بھی آئے گا جب یہ ستارہ بھی سپرنووا بن کر پھٹ پڑے گا اور شاید اپنے پیچھے ایک بلیک ہول چھوڑ دے گا تب دو بلیک ہول ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے یہ کائنات کا نادر نظاروں میں میں سے ایک شاندار نظارہ ہوگا ۔
آخر کار ان بلیک ہولز کے انضمام سے ایک بڑا بلیک ہول وجود میں آئے گا اور بربادی کا چکر یوں ہی جاری و ساری رہے گا۔ مگر پھر بھی یہ بلیک ہول کائنات میں موجود دوسرے بلیک ہولز کے مقابلے میں کافی چھوٹا ہوگا۔بڑے بلیک ہولز تو تباہی و بربادی کی اس ہنگامہ خیزی کو ایک نئے درجے تک پہنچا دیتےہیں ۔
٢٠١١ میں ماہرین فلکیات نے خلاء میں ایک بہت بڑا دھماکا دیکھا یہ جھماکاجو گیما شعاؤں کا انفجار تھا سورج کی روشنی سے ١ کھرب گنا زیادہ تھا۔ یہ نہات شاندار نظارہ تھا۔ یہ دھماکا دور دراز کی کہکشاں کے مرکز میں موجود ایک "بڑے عظیم ضخیم بلیک ہول" (Supermassive Black Hole)سے نکل رہا تھا۔یہ بلیک ہول خاموش تھا مگر کسی چیز نے اسے سوتے سے جگا دیا تھا۔
اگر ہم "افق وقیعہ" (Event Horizon)، جو ایک خیالی کرۂ ہےاور بلیک ہول کے قریب آخری سرحد کا کام کرتا ہے ؛ کے پاس سے گزریں تو پھر ہمارے لئے واپس پلٹ کر آنا ناممکن ہوگا۔
مصّور کی نگاہ میں بلیک ہول ایک ستارے کو زندہ نگلتے ہوئے |
کئی ستارے بلیک ہول کے نزدیک محفوظ مقام سے اس کے گرد مدار میں چکر کاٹ رہے ہوتے ہیں پھر اچانک ان میں سے کوئی ایک افق وقیعہ کو پار کرتے ہوئے بلیک ہول کے اور نزدیک آجاتا ہے اور سوئے ہوئے عفریت کو جگا دیتا ہے۔ بلیک ہول کی زبردست قوّت ستارے کو اس حد تک کھینچ دیتی ہے کہ اس کی دھجیاں بکھر جاتی ہیں۔ بلیک ہول کے ارد گرد گھومتا ہوا گرد و غبارمیں درجہ حرارت لاکھوں ڈگری تک جا پہنچتا ہے۔ گیما شعاؤں کے دو جناتی فوارے خلاء میں ایک دھماکے سے روشنی کی رفتار سے نکلتے ہیں (تصویر نمبر ٨)۔ بلیک ہول اس وقت تک ستارے کو کرچی کرچی کر کے اس کا آدھا مادّہ ہضم کر چکا ہوتا ہے جبکہ آدھا حصّہ اس دھماکے میں باہر پھینک دیتا ہے۔ یہ نظارہ قدرت فلکیات کی تاریخ میں ریکارڈ کئے جانے والے سب سے ہیبتناک واقعات میں سے ایک ہے۔ ہم اس سے ٣ ارب سال کی دوری پر ہونے کے باوجود اس کو زمین پر دیکھ سکے ہیں۔
بلیک ہول ستاروں کو نگل اور سیارہ کو ریزہ ریزہ کرسکتے ہیں۔ مگر قوّت ثقل ہمیشہ چیزوں کو کھینچتی ہی نہیں ہے۔ عوام الناس جانتے ہیں کہ قوّت ثقل چیزوں کو کھینچتی ہے اور کبھی چیزوں کو دھکیلتی نہیں ہے۔ مگرچیزوں کو کھینچنے میں اس کا رویہ اس قدر سادہ نہیں ہے۔اگرچہ یہ بات سچ ہے کہ یہ دو چیزوں کو کھینچتی ہے مگر جب چیزیں دو سے زیادہ ہوجائیں تو پھر اس کا رویہ عجیب و غریب ہوجاتا ہے اور پھر یہ چیزوں کو ایک دوسرے سے پرےبھی دھکیل دیتی ہے۔ کوئی بھی دو اجسام ایک دوسرے کے نہایت قریب آسکتے ہیں مگر کوئی شے ایک مخصوص رفتار اور مخصوص زاویہ سے کسی دوسری چیز کی طرف کھینچی چلی آئے تو بجائے وہ ایک دوسرے سے ٹکرانے کے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک چیز بالکل ایسے دور جاتی ہے جیسے اسے غلیل میں رکھ کر پھینکا جائے۔
حالیہ دنوں میں سائنس دانوں نے دیکھا ہے کہ ہماری کہکشاں کے ستارے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ دور ہنکائے جارہے ہیں۔ عام طور پر ستارے ایسا نہیں کرتے۔لہٰذا کوئی تو ایسی چیز ہے جو ستاروں کو یہ" سرعت رفتار" (Hypervelocity)عطا کرتی ہے۔سائنس دانوں نے جب اس کا جواب حاصل کیا تو ان کی حیرانی کی انتہاء نہ رہی۔کوئی بھی ستارہ صرف اس وقت ہی اس رفتار سے باہر دھکیلا جا سکتا ہے جب اس کی سمتی رفتار ٧٠٠، ٨٠٠،یا پھر ١،٠٠٠ میل فی سیکنڈ تک جا پہنچے۔ ایسی کوئی بھی چیزسپرماسسیو بلیک ہول ہی کے ذریعہ دھکیلی جا سکتی ہے۔ اپنی ابتداء میں یہ تیز رفتار ستارے اس ثنائی نظام کا حصّہ تھے جس میں ایک ستارہ بلیک ہول بن گیا تھا اور دوسرا اس کے گرد چکر کاٹ رہا تھا۔ جب وہ آپس میں کافی قریب آ گئے تو قوّت ثقل نے ان کو دور کردیا ۔ بلیک ہول نے منجنیق بن کر دوسرے ستارے کو کہکشاں سے باہر ٢ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے باہر پھینک دیا۔
اس سارے قصّے سےسب سے دلچسپ بات جو ہمیں پتا چلی ہے وہ یہ کہ کوئی بھی ستارہ جو کہکشاں کے قلب سے قریب پیدا ہوا ہو وہ اس طریقہ میں اچانک ہی مرکز سے دور خلاء میں پھینک دیا جاتا ہے اور اس طرح سے ستاروں کی نئی تقسیم وجود میں آتی ہے۔
دور خلائے بسیط میں مدار اپنی طاقت کی انتہاء پر موجود ہیں جو پوری کی پوری کہکشاں کو ایک دوسرے سے ٹکرا تے ہوئے کائنات کی شکل و صورت کو ڈھال رہے ہیں۔کائنات میں کہیں بھی دیکھ لیں قوّت ثقل تباہی و بربادی کی دوسری صورت بن کر ابھری ہے۔ ستاروں اور سیاروں کے مدار افراتفری ، ناقابل اعتبار اور شدید قسم کے نمونے ہو سکتے ہیں۔لیکن کونیاتی پیمانے پر قوّت ثقل تباہی و بربادی کی قوّت سے نکل کر تخلیق و تشکیل کی قوّت بن کر ابھرتی ہے جس کا کام نئے جہاں بنا نا ہوتا ہے۔ چکر کھاتی گھومتی ہوئے کہکشائیں ستاروں کے جھرمٹ ، گیس اور گرد و غبار کے بادلوں پر مشتمل لاکھوں نوری سال پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔کہکشائیں ایک دوسرے کے گرد ایسے ہی چکر لگاتی ہیں جیسے کہ سیارے ستاروں کے گرد مدار میں چکر کاٹتے ہیں۔ قوّت ثقل ان کو ایک ساتھ کھینچ کر رکھتی ہے۔ان اجسام کی رفتار ان کو ایک دوسرے سے دور کرسکتی ہے مگر جیت عام طور پر قوّت ثقل کی ہی ہوتی ہے۔ پوری کی پوری کہکشائیں ایک دوسرے سے ٹکرا جاتی ہیں۔
کہکشانی ٹکراؤ بھی کائنات کا شاندار نظاروں میں سے ایک ہے۔ہم یہاں بات کر رہے ہیں ان کہکشانی ٹکراؤ کی جہاں ہر ایک کہکشاں میں سینکڑوں ارب ستارے لگ بھگ ایک لاکھ نوری برس پر پھیلے ہوئے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔
کہکشانی ٹکراؤ لاکھوں سال میں جاکر ہوتے ہیں۔قوّت ثقل چیزوں کو آہستہ آہستہ قریب کرتی ہے۔
کہکشانی انضمام بالکل ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے کہ دو مائع چیزوں کو آپس میں مدغم کردیا جائے۔ جیسے ہی دونوں کہکشائیں ایک دوسرے کے قریب سے گزرتی ہیں تو ان کی ایک لمبی سی دم بن جاتی ہے مگر آخر میں قوّت ثقل ان کو پھر قریب لے آتی ہے اور اس کو مکمل بڑی کہکشاں کی شکل میں ڈال دیتی ہے ۔ یہ کہکشاں پرانی والی کہکشاں سے بڑی ہوتی ہے۔
اس پیمانے پر قوّت ثقل اور حرکت کوئی تباہی مچانے والی قوّت نہیں بنتے بلکہ یہ مل کر حیات کی شروعات کی ابتداء کے لئے راہ استوار کرتے ہیں ۔
کہکشانی تصادم ایک طرح سے تباہی مچانے والے ہوتے ہیں تو دوسری طرف تخلیقی قوّت کے طور پر بھی ابھرتے ہیں۔
ٹکراتی ہوئی کہکشائیں گیس کے وسیع بادلوں کو آپس میں پیستی ہیں جس سے عظیم الجثہ صدماتی موجیں نکلتی ہیں اور اس کے بعد ان گنت ستاروں کا جنم شروع ہوجاتا ہے۔ کہکشانی انضمام میں تخلیق کی قوّت بذات خود پیدا ہوتی ہے کیونکہ پستے ہوئے گیسی بادل نئے نظام ہائے شمسی کی تخلیق کا سبب بنتے ہیں جہاں پر ہوسکتا ہے کہ حیات کسی شکل میں پروان چڑھ سکے۔کبھی کبھی ایسے تصادم ایک زنجیری عمل شروع کردیتے ہیں۔ دو مرغولہ نما کہکشائیں ابھی انضمام کے عمل کے درمیان جس میں نئے ستاروں اور سیاروں کی پیدائش ہورہی ہوتی ہے ،سے گزر رہی ہوتی ہیں کہ کچھ نوزائیدہ ستارے جو بہت زیادہ ضخیم ، غیر متوازن اور کم عمر پانے والے ہوتے ہیں پھٹ جاتے ہیں اور ہر نیا دھماکہ ایک نئی صدماتی موج کو جنم دیتا ہے جو مزید گیس کے بادلوں کو آپس میں قریب کر کے بھینچتی اور پیستی ہے جس سے مزید ستاروں کا جنم ہوتا ہے۔سائنس دان اس کو" ستاروں کا انفجار" (Star Burst)کہتے ہیں۔ یہ قوّت ثقل کی تخلیقی قوّت کی ایک زبردست مثال ہے۔
ایک ایسی کہکشاں میں جہاں ستاروں کا انفجار ہوتا ہے، ستاروں کے پیدا ہونے کی شرح دوسری عام کہکشاؤں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ بہت ہی مسحور کن خیال ہے کہ اتنی خطرناک اور تباہی پھیلانے والی قوّت سے تخلیق کے بھنڈار نکلتے ہیں۔
قوّت ثقل اور حرکت کی وہ قوّت جو نئے پیدا ہونے والے ستارے کے پیچھےکار فرما ہوتی ہیں یہ دونوں مل کر کائنات کی ساخت کو ترتیب دیتی ہیں۔ عالم موجودات یوں ہی بے تکا اور بے مقصد نہیں ہے۔ اس کی ایک سوچی سمجھی ساخت ہے۔کائنات ایک سہ جہتی غالیچہ ہے جس میں موجود ہر دھاگہ اور ریشہ ارب ہا کہکشاؤں کا گھر ہے یہ ایک ایسی مچان ہے جس نے ہر چیز کو اس کونیاتی جال میں بن دیا ہے۔ یہ کوئی ساکت بند نہیں ہے بلکہ اس قدر متحرک ہے کہ اس میں موجود ہر چیز انتہائی تیز رفتار اورنا صرف مسلسل حرکت میں ہے بلکہ ایک دوسرے سے متصادم بھی ہورہی ہیں۔ کہکشائیں، ستارے، بلیک ہولز اور سپرنووا سب کونیاتی رقص میں مصروف ہیں۔
کائناتی جال کی وسعت کا اندازہ لگانا انسان کے بس سے باہر ہے۔ اس ریشے کا ہر دھاگہ حرکت سے بھرپور ہے ۔ کہکشائیں بن رہی ہیں ، چکر لگا رہی ہیں اور ٹکرا رہی ہیں یہ سب ارب ہا دفہ بلکہ ان گنت دفہ ہورہا ہے۔ ہر ریشہ ایک کہکشانی ہائی وے ہے جہاں غیر مختتم ہجوم کا بہاؤ رواں دواں ہے جہاں ہفتے کے ساتوں دن اور سال کے ٣٦٥ دن ہجوم کے بہاؤ میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ ہر ارب ہا نوری برس کے فاصلے پر یہ ریشہ آپس میں مل کر ایک گانٹھ سی بناتے ہیں۔ پورے کے پورے کہکشانی جھرمٹ مل کراور بڑے کہکشانی جھرمٹ بناتے ہیں۔
ایک کہکشانی جھرمٹ جس کا نام آبیل -٢٧٧ ہے جہاں پانچ کہکشانی جھرمٹ مل کر ایک بڑا اور عظیم جھرمٹوں کے جھرمٹ بنائیں گے |
ان کہکشانی جھرمٹ میں سے ایک کا نام آبیل -٢٧٧ ہے(تصویر نمبر ٩ ) جہاں پانچ کہکشانی جھرمٹ ٹکرا کر ایک بہت ہی بڑا جھرمٹ بنا رہے ہیں۔ یہ اب تک دریافت ہونے والے کائناتی اجسام میں سب سے بڑی ساخت ہے۔ آہستہ آہستہ یہ پانچ جھرمٹ مل کر ایک جھرمٹوں کے جھرمٹ جو ٦٠ لاکھ نوری سالوں پر محیط ہوگا بنا لیں گے ۔ مداروں کی زبردست طاقت کائنات کو ایک گٹھان میں باندھ دیتی ہے۔ کائناتی ساختیں مداروں اور ثقلی قوّت کی سانجھی طاقت سے ارب ہا ارب برسوں کے گرزنے کے ساتھ ساتھ ارتقاء پذیر ہوتی ہوئی بڑے سے بڑی کائناتی ساختیں بناتی ہیں۔یہ سب ان دونوں قوّتوں کی مرہون منّت ہے جو اجسام کو قریب بھی کردیتی ہیں اور جدا بھی کرتی ہیں۔
یکے بعد دیگرے ہم ان مداروں کو دریافت کر رہے ہیں جو کائنات پر اپنا تسلط قائم کئے ہوئے ہیں۔ جس طرح ایٹم ایک کیمیا کا بنیادی عنصر ہےبالکل اسی طرح مدار کائنات کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر ہم تمام ممکنہ مداروں کو جان جائیں تو ہم کائنات کے کام کرنے کے طریقے کو جان جائیں گے۔ مداروں نے کائنات کو پیچیدگی اور تونگری سے لبریز کردیا ہے۔
مدار تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور بے ربط بھی ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں ہم جن چیزوں کو ناممکنات جانتے تھے اب وہ ممکنات میں شامل ہو گئیں۔ چھوٹے پیمانے سے لے کر بڑے پیمانے تک یہ قوّت ثقل اور تصادموں کی کارستانیاں ہیں جو ہماری کائنات کو اتنا خوبصورت اور دلفریب جگہ بناتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے پیچھے پر تجسس تناقضات بہرحال اپنی جگہ موجود ہیں۔ خطرناک مداروں کا مطلب ہے تغیر اور تصادم جو یہ دیکھنے میں بہت ہی تباہی پھیلانے والے نظر آتے ہیں۔ ان کاکام کہکشاؤں کا انضمام ، گرد و غبار کے بادلوں کو منہدم کرنا اور زندگی کی تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ تباہی مچانا بھی ہے۔تباہی اور بربادی کے اس نہ روکنے والے سلسلے کے پیچھے مداروں کی قوّت ہی کار فرما ہے۔یہ مدار ہی کارخانہ قدرت کے کام کرنےکی نفس روح ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں