Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 4 جون، 2015

    عظیم شعلے - کونیاتی آگ کے طوفان

    اس بات کی حقانیت میں کوئی شک نہیں کہ ہماری کائنات ایک ہلاکت خیز اور انتہائی خطرناک جگہ ہے۔ یہاں ہر جگہ کونیاتی بم(Cosmic Bomb) پھٹنے کے لئے موجود ہیں۔ مخبوط الحواس کردینے والے انتہائی درجے کے ہیبتناک دھماکے ہم سے نہایت ہی قریب ہورہے ہیں۔ سورج کروڑں میل دور تک آگ کے شعلے اگل رہا ہے۔ مقناطیسی عفریت جہانوں کو چیر پھاڑ کرنے کے درپے ہیں۔ کائناتی آگ اگلتے شعلے گیما شعاؤں کی صورت میں کائنات میں جگہ جگہ موجود ہیں یوں سمجھ لیں کہ یہ تو کائناتی قندیلیں ہیں جو بس آگ لگانے کے درپے ہیں۔ ان کی توانائی کا اندازہ لگانا ہمارےخواب و خیال میں بھی نہیں ہے۔ آگ اگلتے عظیم طوفانوں نے کائنات کو روشن کیا ہوا ہے اگرچہ یہ انسانیت کی بقاء کے لئے خطرہ ہیں مگراس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کائنات کے چھپے ہوئے رازوں پر سے بھی پردہ اٹھانے میں مدد کی ہے۔ہمارا سیارہ ان قوی القوّت کائناتی آگ کے طوفانوں کے حملوں کی زد میں رہتا ہے۔ سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ کیا یہ تباہ کن آگ کے عظیم طوفان زمین پر موجود زندگی کے لئے خطرہ ہیں یا نہیں ؟ اس مضمون میں ہم یہ ہی بات جاننے کی کوشش کریں گے۔

    1.   یو وی سیٹی (UV Ceti)ایک آرٹسٹ  کا تخیل .
    زمین سے ٨۔٧ نوری سال دور ایک جگہ دیکھنے میں ایک عام سا خلاء کا حصّہ لگتی ہے مگر یہ ہماری کہکشاں میں موجود غیر معمولی جگہوں میں سے ایک سب سے غیرمعمولی ستاروں کا گھر ہے۔ یہاں یو وی سیٹی (UV Ceti)نام کا ایک تارا موجود ہے(تصویر نمبر ١)۔ یہ پراسرار جگہ ایک منٹ سے بھی کم عرصے میں پانچ گنا زیادہ تک روشن ہو جاتی ہے۔ اس کے گرد موجود کوئی بھی سیارہ اس شدید گرمی کے ساتھ اپنی ٹھوس سطح پگھلاتے ہوئے دھماکے کے ساتھ پھٹ پڑے گا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کچھ سیکنڈز کے بعد ہی یہ ستارہ انتہائی دھیما پڑ جاتا ہے۔ اس کے دھیمے ہونےکے ساتھ ہی وہاں پر موجود سیارے واپس ٹھنڈی تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں۔ مگر یو وی سیٹی تو ہم پر حیرتوں کے پہاڑ توڑنے پر کمر بستہ نظر آرہا ہے۔ایک دفہ یہ ستارہ دمکنا شروع ہوا تو بغیر رکے صرف ٢٠ سیکنڈ میں اپنی عام روشنی سے ٧٥ گنا زیادہ روشن ہوگیا۔ یو وی سیٹی نے آگ کے عظیم طوفان(Megaflare) برپا کرنے شروع کردیے۔ اس ستارے کی سطح سے بے پایاں توانائی کے بھنڈار نکلنے شروع ہوگئے ہیں۔ خدانخوستہ اگر ہمارا سورج ایسے شمسی طوفان اگلتا تو ہم تو جل بھن چکے ہوتے۔ سورج سطح زمین پر اپنی موجودہ جسامت سے ٧٥ گنا زیادہ بڑا نظر آتا ۔ اس کے بعد انسانیت صرف ایک یا دو منٹ تک زندہ رہتی اور بس۔ زمین پر درجہ حرارت بلند ہوجاتا۔ جگہ جگہ زبردست آگ لگی ہوتی جو ہر چیز کو پکا دیتی۔ زمین یو وی سیٹی سے کافی دور ہے لہٰذا ہم تو اس ستارے کی اس گل افشانی سے محفوظ ہیں۔

    ہمارا علم ستاروں کے متعلق جتنا بڑھ رہا ہے اتنا ہی ہم ان ستاروں کے شمسی طوفانوں کے بارے میں جان رہے ہیں۔ ماوراء شمس ستاروں کے یہ طوفان ہر جگہ پر موجود ہیں۔ کچھ شمسی طوفان تو سیدھے ہماری طرف ہی چلے آرہے ہیں۔ ہم سے جتنے ستارے قریب ہوں گے ان کےشمسی طوفانوں کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

    ایک ستارہ یعنی کہ سورج ہم سے دوسرے تاروں کی بنسبت بہت ہی زیادہ قریب ہے۔ ہمارا سورج بہت مستحکم اور حالت سکون میں لگتا ہےمگریہ ہماری غلط فہمی ہے ایسابالکل بھی نہیں ہے ہمارا سورج بھی ایک عفریت ہے ۔ سورج کا مطالعہ بتا تا ہے کہ آگ کے شعلے اس کی تمام سطح پر موجود ہیں۔ دیو ہیکل دھماکے اس پیمانے پر ہورہے ہیں جس کا ہم تصّور بھی نہیں کرسکتے۔ سورج کی سطح پر موجود آگ کی ایک لپیٹ ٢٠ کروڑ ہائیڈروجن کے جوہری بموں کی طاقت رکھتی ہے۔ اس توانائی کا اندازہ صرف اس بات سے لگا جا سکتا ہے کہ انسانیت کی توانائی کی موجودہ ضرورت کو اگر ہم مد نظر رکھیں تو یہ ٢٠ لاکھ سال تک ہماری توانائی کی ضرورت کو پوری کرسکتی ہے۔ ہر آگ کی لپیٹ سے اتنی روشنی پیدا ہوتی ہے جتنے کہ ٤٠ کھرب کھرب بلبوں سے ہوگی۔

    لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ۔ بصری روشنی تو اس تمام توانائی کا ایک بہت ہی معمولی سا حصّہ ہے۔ریڈیائی موجیں، انفراریڈ حرارت،بالائے بنفشی روشنی ، ایکس ریز وغیرہ یہ سب شعاعیں بھی ان آگ کی لپیٹوں سے زبردست قوّت کے ساتھ نکلتی ہیں۔ یہ نظام شمسی کے سب سے بڑے دھماکے ہیں جن کے پیچھے ایک سادہ سی مقناطیسی قوّت موجود ہے۔
    سورج کے زبردست مقناطیسی میدان ہیں۔ ان میدانوں میں محفوظ زبردست توانائی ان شمسی شعلوں(Solar Flare) کو طاقت فراہم کرتی ہے۔مقناطیسی طاقت سے بھرپور حلقے سورج کی سطح پر دھکیل دیے جاتے ہیں۔ عظیم الجثہ مقناطیسی محرابیں خلاء میں دور تک بلند ہوجاتی ہیں۔ جب دو حلقے آپس میں ٹکراتے ہیں تو وہ شمسی طوفان پیدا کرتے ہیں۔ وہ تمام توانائی جوان مقناطیسی میدانوں میں قید ہوتی ہے وہ دھماکے سے باہر نکلتی ہے اور درجہ حرارت کو ١٠ کروڑ ڈگری تک پہنچا دیتی ہے۔ یہ گرم گیسوں کو خلاء میں ارب ہا میل دور تک پھینک سکتی ہے۔ ہر دھماکا زمین پر موجود کسی بھی آتش فشانی دھماکے سے ایک کروڑ گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔(تصویر نمبر ٢)مقناطیسی قوّت جوزمین پر ایک قطب نما کو کام کرنے کے قابل بناتی ہے نظام شمسی کے سب سے بڑے دھماکوں کا سبب بنتی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود اگر ہم کائناتی پیمانے پر دیکھیں تو ہمارا سورج تو ایک نہایت ننھا سا تا رہ ہے ۔
    2.   شمسی شعلے  (Solar Flare)
    جب ہم خلاء بسیط میں جھانکتے ہیں تو ہمیں زیادہ متحرک اور زیادہ بڑے ستارے نظر آتے ہیں۔ ان ستاروں کی مقناطیسی قوّت بھی نہایت زیادہ ہوتی ہے اور یہیں سے ہماری حیرتوں کے طوفان شروع ہوجاتے ہیں۔ ہماری اور دوسری کہکشاؤں میں ستارے اور دوسرے کئی ایسی چیزیں موجود ہیں جواتنی کثیر قوّت کے مقناطیسی طوفانوں کو جنم دیتی ہیں کہ اگر وہ ہماری زمین کے آ س پاس ہوتے تو اس کو اجاڑ کر رکھ دیتے۔ ہمارے نظام شمسی سے باہر جناتی دھماکے کائنات میں اس پیمانے پر ہو رہے ہیں کہ اس کا تصّور کرنا بھی محال ہے۔ سورج سے کافی دور ان عظیم آگ کے طوفانوں کی حکمرانی شروع ہوتی ہے۔ ہمارا سورج ارب ہا جوہری بموں کی طاقت کے برابر آگ کی لپیٹیں اگل رہا ہے۔ مگر جیسے ہی ہم کائنات میں نظام شمسی سے دور نکلتے ہیں تو وہاں یہ شمسی دھماکے اور بڑے ہوتے جاتے ہیں۔دوسرے ستاروں کے شمسی طوفان اس قدر خطرناک ہوتے ہیں کہ وہ پورے کے پورے سیارے کو ختم کردیتے ہیں۔
    3.   ای وی لاسرتے(EV Lacertae) کے آگ کے طوفان  ایک آرٹسٹ کی نگاہ میں .
    ای وی لاسرتے(EV Lacertae) زمین سے ١٦۔٥ نوری سال کی دوری پر واقع ہے(تصویر نمبر ٣)۔ ہر روز اس کی سطح سے طوفان بلند ہوتے ہیں۔ مگر ایک دن اس پر سے اٹھے ہوئے ایک طوفان نے سارے طوفانوں کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔ اس ستارے نے سورج کے طاقتور ترین طوفانوں کے مقابلے میں ١٠ ہزار گنا زیادہ طاقتور ایکس ریز اس طوفان کی صوررت میں میں خلاء میں پھینکیں۔اس کی بالائے بنفشی شعاعیں اس قدر طاقتور تھیں کہ انہوں نے ستارے کا رنگ نیلا کردیا تھا۔ یہ کہکشانی آگ کا طوفان جو زمین سے ایک ہزار کھرب میل دوری پر تھا خالی آنکھ سے زمین پر سے دیکھا جا سکتا تھا۔ اگر ہمارا سورج ایسا کوئی شمسی طوفان برپا کرسکتا تو ہم تو جل کر خاک ہوچکے ہوتے۔ اصل حیرانی کی بات یہ ہے کہ ای وی لاسرتے سورج کے مقابلے میں ایک بہت ہی چھوٹا سا تارہ ہے ۔ یہ ایک سرخ بونا(Red Dawrf) ہے ۔
    سرخ بونے وہ ستارے ہوتے ہیں جن کی کمیت سورج کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے۔ ان کی کمیت سورج کی کمیت کا دسویں حصّے سے لے کر چوتھائی حصّے تک ہوسکتی ہے۔ یہ نہ صرف چھوٹے ہوتے ہیں بلکہ نسبتاً گرم بھی کم ہوتے ہیں۔ یہ معمولی سے ستارے ہوتے ہیں۔یہ اس قدر کفایت شعار ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ تو ہمارے سورج کے مقابلے جو صرف ١٠ ارب سال میں ہی اپنا پورا ایندھن پھونک دے گا ، ١٠٠ کھرب سال میں جاکر اپنا ایندھن ختم کریں گے۔ یہ دوسرے ستاروں کی بنسبت کافی سرد ہوتے ہیں ۔ ان کی سطح کا درجہ حرارت ٥ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے یعنی سورج سے تقریبا نصف اور یہ ١٠ ہزار گنا زیادہ مدھم ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ اس قسم کے طوفانوں کے پیدا کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ سرخ بونے مقناطیسی طور پر نہایت قوی ہوتے ہیں ۔ ان کے اندر کے مقناطیسی میدان(Magnetic Field) نہایت طاقتور ہوتے ہیں۔ اپنی مدھم روشنی کے باوجود یہ سورج کے مقابلے میں ہزار ہا گنا زیادہ توانائی سے بھرپور شمسی طوفان برپا کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے کسی کی بھی یہ خواہش نہیں ہوگی کہ ہم کسی ایسے ستارے کے پاس اس وقت موجود ہوں جب وہ ایسے طوفان برپا کر رہا ہو۔
    سارے سرخ بونے خطرناک شمسی طوفان پیدا کرتے ہیں مگر جو بات ای وی لاسرتے کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ابھی بہت ہی زیادہ نوجوان ستارہ ہی جس کی عمر صرف ٣٠ کروڑ سال ہی ہے۔ عمر میں یہ ہمارے سورج سے ١٥ گنا زیادہ چھوٹا ہے۔ ایک طرح سے ستارے بھی ہم انسانوں ہی کی طرح ہوتے ہیں جو نوجوانی میں جوش و جذبے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ جب سرخ بونوں کی طرح کے ستارے پیدا ہوتے ہیں تو یہ کافی تیزی سے گردش کرتے ہیں ان کی یہ محوری گردش ا ن کو مقناطیسی میدان پیدا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کا نتیجہ سورج سے ١٠٠ گنا زیادہ مقناطیسی میدان والا تارہ نکلتا ہے۔ جب ان کے مقناطیسی میدان آپس میں ٹکراتے ہیں تو زبردست طوفان بنتے ہیں جو ٨ گھنٹے تک شعاؤں کو خلاء میں بکھیرسکتے ہیں ۔ہمارے سورج کا شمسی طوفان ارب ہا جوہری بموں جتنا طاقتور ہوتا ہے۔مگر ای وی لاسرتے کے جناتی شعلے سورج سے ١٠ ہزار گنا زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔
    اپنی تمام تر ہولناکی اور تباہی کے باوجود یہ کائناتی پیمانے پر پائے جانے والے آگ کے طوفانوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ کائنات میں ایسے آگ کے طوفان بھی پائے جاتے ہیں جو کروڑوں گنا زیادہ روشن ہوتے ہیں ان کے دھماکےسے نکلنے والی روشنی پوری کی پوری کہکشاں کو اپنی ضو سے منور کردیتی ہے۔ چھوٹے سے ستارے مگر عقل دنگ کر دینے والی قوّت !!!!
    آسٹریلیا میں واقع ایک دوربین پانچ ریڈیائی طشتریوں پر مشتمل ہے جو مستقل کائنات کو جھانکتی رہتی ہے۔٢٠٠٤ء میں اس نے ایک بڑے پیمانے پر توانائی کے دھماکے ہوتے دیکھے جو عظیم آگ کے طوفان کی شہادت تھی۔ یہ دھماکے اس قدر زبردست تھے کہ اس سے زیادہ طاقتوردھماکے اس وقت تک ہماری اپنی کہکشاں میں کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔ ان آگ کے طوفانوں کے پیچھے جو چیز موجود تھی وہ ایک قدرے عجیب الخلقت ستارا تھا ۔ یہ اس قدر نرالہ ستارہ تھاکہ سائنس دانوں کواس دھماکے سے پہلے یہ پتا ہی نہیں تھا کہ کوئی ایسا ستارا بھی ہوسکتا ہے۔ سائنس دانوں نے بلیک ہولز کا بھی مطالعہ کیا ہوا تھااور ان کو معلوم تھا کہ ستارے پھٹتے بھی ہیں اس کے علاوہ وہ آوارہ گرد سیاروں کو کہکشاں میں گھومتا ہوا بھی دیکھ چکے تھے۔ مگر اب ان کاواسطہ کہکشاں میں موجود سب سے ڈراؤنے ستارے سے پڑنے والا تھا اور وہ تھا مقناطیسی تارا(Magnetar) ۔
    یہ ستارا کائنات کی مقناطیسی چیزوں میں سے ایک سب سے زیادہ طاقتور مقناطیسی چیز ہے۔ اس کے مقناطیسی میدان سورج کے مقناطیسی میدانوں سے ١٠ ہزار کھرب گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ اگر یہ ہمارے نظام شمسی کے آ س پاس پھٹک پڑے تو اس کا انجام نہایت ہی ہولناک ہوگا۔ اس کی مقناطیسی طاقت اس قدر زبردست ہوگی کہ سب سے پہلے تو یہ ہماری جیبوں میں موجود کریڈٹ کارڈ کی مقناطیسی پٹی کو اڑائے گی اس کے بعد تھوڑاسا اور قریب آنے پر ہماری ہر دھاتی چیزکو کھینچ لے گی ۔کچھ کروڑں میل کی دوری سے اس کی مقناطیسی قوّت اس قدر انتہاء کی ہو جائی گی کہ یہ ہمارے دماغی عصبی اشاروں کو درہم برہم کردے گی جس سے ہمارا دل دھڑکنا بند کردے گا۔ تھوڑا سا اور قریب ہونے پر اس کی مقناطیسی طاقت ہمارے جسموں میں موجود جوہروں کو الگ الگ کر دے گی۔
    اصل حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس قدر طاقتور مقناطیسی قوّت جس ستارے سے نکلتی ہے اس کا حجم کسی سیارچہ سے زیادہ نہیں ہوتا۔ ہمارا سورج کی لاکھ میل رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔جبکہ یہ مقناطیسی تارا صرف ١٠ میل پر محیط ہوتا ہے۔اس کی کثافت نا قابل بیان حد تک کی بلند ہوتی ہے۔ اس کی کمیت سورج سے زیادہ ہوتی ہے۔ سورج کوزمین جتنا بھی نہیں بلکہ صرف ایک شہر جتنا چھوٹاکردیں تو اس کی کثافت اتنی ہوگی جتنی کسی مقناطیسی ستارے کی ہوتی ہے۔ اگر ہم اس ستارے پر چلنے کے قابل ہوں تو ایک ہی دن میں پورا ستارہ گھوم سکتے ہیں۔ اس مقناطیسی تارے کی کثافت اس قدر بلند ہوتی ہے کہ اس کا ایک چائے کا چمچ کئی ہزار ارب ٹن کا ہوگا۔اس لئے اس ستارے پر قدم رکھتے ہی ہمارا وجودزبردست دباؤ کے ساتھ دب اور پچک کر فنا ہو جائے گا۔
    کثیف اورکسا ہوا لوہے پر مشتمل اس کا قشر(Crust) زبردست مقناطیسی دباؤ جھیل رہا ہو گا۔اتنے زبردست دباؤ پر کچھ نہ کچھ توانائی کو باہر تو نکلنا ہی ہوتا ہے ۔ اس زبردست دباؤ کی وجہ سے پورے ستارے کی سطح پرشگاف نمودار ہوجاتے ہیں۔ قشر کھل جاتی ہے اور ستارے پر زلزلہ(Star Quake) آجاتا ہے۔ یہ زمین پر آنے والے زلزلے کے جیسا ہی ہوتا ہے بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ یہاں پر قشر صرف ایک آدھا انچ ہی کھسکتی ہے۔ یہ بہت ہی چھوٹی سی تبدیلی ہوتی ہے مگرانتہاء کی ثقلی قوّت کی وجہ سے اس عمل میں زبردست توانائی کے بھنڈار چھپے ہوتے ہیں۔ اس زلزلے کی طاقت زمینی زلزلے کی قدر کے حساب سے ٣٠ درجہ کی ہوتی ہے۔ ستارے کی سطح پر موجود دراز سے ایک شعلہ نکلتا ہےجو ایک دسیوں کھرب ٹن کا زبردست کثافت والا غبار کا بادل فضاء میں پھینکتا ہے۔ یہ سارا عمل ایک سیکنڈ کے دسویں حصّے میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں یہ اتنی توانائی پیدا کرتا ہے جو ہمارا سورج ٢٥٠ لاکھ سال میں پیدا کرتا ہے ۔ یہ توانائی اس وقت نکلتی ہے جب مقناطیسی تارا کوئی شعلہ فضاء میں بلند کرتا ہے۔ کچھ مقناطیسی ستارے کبھی کبھار سورج کی توانائی سے کھرب ہا گنا زیادہ توانائی خارج کرتے ہیں۔
    4.   مقناطیسی ستارا  -  SGR 1806-20
    آگ کے شعلے بھی ٹائم مشین کی طرح ہوتے ہیں جو ہمیں ماضی کی چیزیں حال میں دکھلاتے ہیں۔ یہ مقناطیسی ستارا جس کا نام SGR 1806-20ہم سے ٥٠ ہزار نوری برس کے فاصلے پر ہے(تصویر نمبر ٤)۔ہم نے جو طوفانی شعلہ ٢٠٠٤ءمیں مشاہدہ کیا تھا وہ ٥٠ ہزار سال پہلے کا تھا۔ اس کی روشنی نے اتنا لمبا سفر کرکےآدھا کہکشانی فاصلہ طے کیا اور ہم تک پہنچی۔ اگر اس قسم کا کوئی شمسی طوفان ہمارے پڑوس میں وقوع پذیر ہوتا تو ہم اس کو دیکھنے کے لئے موجودہی نہ ہوتے۔ اگر کبھی مستقبل میں خدانخواستہ کوئی ایسا عظیم شمسی طوفان ہمارے آ س پاس بپا ہواتو اس سے پہلے کہ ہمیں اس کامعلوم ہو یہ ہمیں آ لےگا ۔ یہ بہت تیز طوفانی رفتار سے بہت زیادہ توانائی پیدا کرکرتا ہوا روشنی کی رفتار سے سفر کرتا ہوا ہم تک پہنچےگا ۔ کسی بھی قسم کی کوئی سی بھی حیات جو اس کے ١٠ نوری برس کے قطر میں ہوگی وہ فورا طور پر فنا ہوجائے گی۔ ہمیں خدا کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرنا چاہئے کہ سب سے نزدیک مقناطیسی ستارا بھی ہم سے اس قدر دور ہے کہ زمین کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ہم طاقتور سے طاقتور ترین دوربین سے بھی ان کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم صرف ان کا سراغ صرف ان عظیم لپکوں سے ہی لگا سکتے ہیں۔
    کائنات میں موجود دوسرے طاقتور ترین شمسی طوفانوں کے آگے ان مقناطیسی تاروں کے طوفان بھی بونے لگتے ہیں۔ ٧۔٥ ارب سال پہلے کئی کہکشاؤں سے دور ایک عظیم جناتی ستارہ بہت مشکل میں آگیا ہے۔ اس کے قلب میں نیوکلیائی ایندھن ختم ہوچکاتھا اور یہ بس پھٹنے کے ہی قریب تھا ۔کچھ سیکنڈز کے لئے جناتی دھماکے اس قدر روشن تھے کہ ان کی روشنی ہماری پوری کہکشاں سے کئی لاکھ گنا زیادہ تھی ۔ یہ کائنات کے بگ بینگ کے بعد سب سے عظیم دھماکے ہوتے ہیں جن کو گیما شعاؤں کا انفجار (Gamma Rays Burst)کہتے ہیں اس دھماکے کا نام سائنس دانوں نے GRB 080319B رکھا ہے(تصویر نمبر ٥)۔
    5.   گیما شعاؤں کے  اس انفجار (Gamma Rays Burst)کو  سائنس دانوں نے GRB 080319B کا نام دیا ہے.
    گیما شعاؤں کے انفجار اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ اپنی پیدائش کے اوّلین چند سیکنڈز میں کائنات کے کسی بھی حصّہ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ انتہائی طاقتور توانائی کے دو فوارے پھٹتے ہوئے نکلتے ہیں۔ گیما شعاؤں کی یہ دو کرنیں اپنی آخری انتہاء کی عظیم چمک ہوتیں ہیں۔ ان میں موجود توانائی کا ادراک کرنا بھی عقل انسانی کے بس کی بات نہیں ہے۔یوں سمجھ لیں کہ سورج اپنی پوری ١٠ ارب سالہ زندگی میں جو توانائی پیداکرے گا اتنی توانائی یہ صرف چند سیکنڈ میں پیدا کردیتی ہیں۔ یہ کائناتی آگ لگانے والی شمعیں ہوتی ہیں جو گیما شعاؤں اور مادّے کو کائنات میں پھیلا دیتی ہیں۔
    سب سے زیادہ توانائی سے پھرپور روشنی گیما شعاؤں کے طیف میں مقید ہوتی ہے۔ قدرتی طور پر گیما شعاعیں صرف ان چیزیں سے پیدا ہوتی ہیں جو ارب ہا ڈگری درجہ حرارت گرم ہوتی ہیں۔ان سے زیادہ گرم چمک کوئی نہیں ہوسکتی۔مارچ ٢٠٠٨ءمیں ہم نے اپنے آسمان میں اس ٧۔٥ ارب سال پہلے وقوع پزیر ہونے والے گیما شعاؤں کے انفجار کو دیکھا۔ قابل مشاہدہ کائنات کے نصف حصّے دور سے آتی ہوئی اس چمک کی روشنی کسی بھی قریبی ستارے کی روشنی سے زیادہ تھی۔یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ کوئی ایسی چیز جو آج سے ٧۔٥ ارب سال پہلے پھٹی ہو اور ہم اس کو تاریک رات میں بغیر کسی آلے کے صرف اپنی خالی آنکھ سے دیکھ سکیں ۔ یہ اب تک مشاہدہ میں آنے والا سب سے بڑا گیما شعاؤں کا انفجار ہے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ گیما شعاؤں کا انفجار اصل میں بلیک ہول کی پیدا ہونے کی نشانی ہے۔ جب کوئی بلیک ہول کسی منہدم ہوتے ستارے کے قلب میں پیدا ہوتا ہے تو وہ ستارہ کا بچا کچا مادّہ اندر سے کھاتا ہوا باہر والا مادّہ بھی اندر کھینچتا ہے اور جب سپرنووا کی شکل میں دھماکے سے پھٹتا ہے تو ستارے کی باقیات بلیک ہول کی صورت میں باقی رہ جاتی ہیں۔
    عام طور سے ہم جب خلاء میں جھانکتے ہیں تو ہمیں قدیمی بلیک ہولز ملتے ہیں جو لاکھوں سال پہلے پیدا ہوئے تھے۔ مگر کسی نوزائیدہ بلیک ہول کو پیدا ہوتے ہوئے دیکھنا ایک ناقابل یقین نظارہ تھا اور گیما شعاؤں کے انفجار کا سبب بھی ننھے بلیک ہول کے پیدا ہونے کی وجہ ہی ہے۔ حیرت انگیز طور پر یہ جناتی دھماکے کائنات میں بہت ہی عام ہیں۔ ہم سال میں لگ بھگ ٣٥٠ ایسے دھماکے دیکھ لیتے ہیں۔ ہم ان کو لگ بھگ روز ہی دیکھتے ہیں۔ہمارے مصنوعی سیارچے ان دھماکوں کو ملکی وے کہکشاں کے باہر ہر روز ہی دیکھتے ہیں۔ ان کی تعداد کو ناپتے ہوئے ہی سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ تقریبا ہر روز ایک بلیک ہول کا جنم ہورہا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دھماکے ماضی بعید میں کرۂ ارض سے کافی دور ہوتے ہیں۔مگر اس میں سے کوئی ایک دھماکے بھی ہماری اپنی کہکشاں میں ہو جائے تو وہ ہمارے لئے زبردست مصیبت کا پیام بر بن جائے گا۔ اس کی طاقت و تباہی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر یہ ہماری زمین سے ١٠٠ نوری سال دور بھی واقع ہوتا تو یہ زمین پر ایسی تباہی پھیلاتا جیسے کہ زمین کے ہر مربع میل پر ایک میگا ٹن کا جوہری بم مارا جائے۔ یہ زمین کا وہ حال کرتا جیسے کہ اس پر کروڑں جوہری بم پھاڑ دیے ہوں۔ یہ زمین پر روز قیامت پربا کردے گا۔ انسانیت تو کیا زمین پر ہر قسم کی حیات کے لئے وہ آخری دن ہوگا اور سب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹ جائیں گے۔ گیما شعاؤں کا انفجاراپنی پیدائش کے وقت سب سے طاقتور اور عظیم آگ کے شعلے تو ہوتے ہیں مگر ان میں سے زیادہ تر سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے۔
    زمین کو جو سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ہمارے اپنے نظام شمسی کے دل میں بیٹھے ہوئے ایک عفریت سے ہے۔ ماضی میں ہم خوش باش اور اس بات سے بے خبر تھے کہ ہمیں نظام شمسی میں موجود اپنے سورج سے کسی قسم کا خطرہ بھی لاحق ہوسکتا ہے۔ مگر اب ہم پر یہ بات آشکار ہو چکی ہے کہ ہم تو کائناتی آگ اگلتے شعلوں کی زد میں ہیں۔ آگ اگلتے جناتی قسم کے طوفان کائنات میں جہاں بھی نگاہ دوڑائیں نظر آتے ہیں۔ مگر سب سے مہلک کائناتی ہتھیار تو بالکل ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ سورج لوری سن کر سو رہا ہے اور نہایت پرسکون اور ساکت ہے۔ ہم سورج کو اپنے لئے نہایت مہربان اور اور دوست گردانتے تھے۔ مگر حقیقت میں سورج نہایت ہی متحرک ہے اور زندہ ہے۔ اس کے شمسی طوفان جس پیمانے پر برپا ہوتے ہیں ان پیمانوں کو ہم نے ابھی سمجھنا ہی شروع کیا ہے۔ سورج کے سب سے تباہ کن ہتھیار کا نام کورونل ماس اجیکشن (Coronal Mass Ejection)ہے (تصویر نمبر ٦)۔ یہ ایک زبردست شمسی دھماکا ہوتا ہے جو سورج کا کچھ حصّہ کھرونچ کر اس کو خلاء میں پھینک دیتا ہے۔اگرچہ کورونل ماس اجیکشن ان شمسی لپٹوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں مگر یہ کافی بڑے ہوتے ہیں۔ ہم شمسی لپیٹوں کو ہوا کے بگولے سے تشبیہ دے سکتے ہیں جو بہت طاقتوراور انتہاء درجہ کے تو ہوتے ہیں مگر یہ بہت تھوڑے عرصے کے لئے ہوتے ہیں جبکہ کورونل ماس اجیکشن اس کے مقابلے میں ایک انتہائی منہ زور آندھی کی مانند ہے۔ یہ توانائی سے بھرپور ، بہت ہی زیادہ بڑے ہوتے ہیں اور کئی کئی دن تک رہتے ہیں۔
    6.   سورج کا سب سے تباہ کن ہتھیارجس  کا نام کورونل ماس اجیکشن (Coronal Mass Ejection) ہے.
    کورونل ماس اجیکشن مقناطیسی حلقوں کے آپس میں ٹکرانے سے ہی پیدا ہوتا ہے۔مقناطیسی محرابیں سورج کی سطح پر نمودار ہوتی ہیں جو ان میں پھنسے ہوئے سورج کے مادّے سے چمک رہی ہوتی ہیں، جیسے ہی یہ حلقے آپس میں ٹکراتے ہیں ویسے ہی زبردست توانائی سے بھرپور آگ کے طوفان اٹھنے لگتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے سورج پھٹ پڑا ہو۔ سورج کا مادّہ خلاء میں زبردست حرارت سے بھرپور گیس کے بادل اور برقی ذرّات (Charged Particles)کی شکل میں خارج ہوجاتا ہے ۔ جب ان زبردست آگ کی لپٹوں کا اخراج سورج سے ہوتا ہے تو لگ بھگ سورج کی روشنی کے ١٠ %کے قریب توانائی کا رخ ایک سیکنڈ کے لئے زمین کی طرف ہوتا ہے ۔یہ ١٠ ارب ٹن سے زیادہ مادّہ خلاء میں دس لاکھ میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار سے خارج کرتا ہے۔
    کورونل ماس اجیکشن کی قوّت دماغ کو سن کردینے والی ہے۔ہمارے کسی بھی کھوجی کو سورج کے آ س پاس پہنچنے کے لئے لگ بھگ ایک سال کا عرصہ درکار ہوتا ہےجبکہ یہ کورونل ماس اجیکشن سورج سے زمین کا فاصلہ چند دنوں میں ہی طے کرلیتا ہے ، کبھی کبھار تو کچھ گھنٹوں میں ہی زمین تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بہت طاقتور اور شاندار تو ہوتے ہی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ انتہائی مہلک بھی ہوتے ہیں۔کبھی کبھار سورج سیدھا ان کو زمین کی سیدھ میں چھوڑ دیتا ہے۔چٹختے ہوئے بار دار بادل ہمارے برقی آلات کو تباہ و برباد کرکے اجاڑ سکتے ہیں۔ یہ پاور گرڈ کو پگھلانے کی طاقت رکھتے ہیں ، فیوز کو اڑاسکتے ہیں اور مواصلات کے نظام کو درہم برہم کرسکتے ہیں۔
    مگر ان نقصانات کا مقابلہ ہم بڑے کورونل ماس اجیکشن سے نہیں کرسکتے وہ تو ہمارےسارے مصنوعی سیارچوں ، گلوبل پوزیشننگ سسٹم اور انٹرنیٹ کا صفایا کر دے گا۔صرف سیارچوں کا ہونے والا نقصان ہی ١٠٠ ارب ڈالر کے ہوگا۔ یہ صرف کسی ایک شہر کو متاثر نہیں کرے گا بلکہ زمین پر موجود سینکڑوں شہر اس سے متاثر ہوں گے۔اگر اس قسم کے کسی زبردست کورونل ماس اجیکشن کا سامنا زمین کو کرنا پڑا تو ہر قسم کی تباہی و بربادی زمین کا مقدر ٹھرے گی۔ صرف املاک ہی کا ٢٠ کھرب ڈالر کا نقصان ہوجائے گا۔ شاید انسانی جدید تہذیب دم توڑ جائے گی۔ شاید انسانیت ٥٠ یا ١٠٠ سال پہلے پیچھے اس دور میں دھکیل دی جائے جب بجلی موجود نہیں تھی۔
    بڑے شمسی طوفان بہت ہی کمیاب ہیں ۔ اوسطاً بڑے کورونل ماس اجیکشن زمین سے ہر ٥٠٠ سال میں ایک دفہ ٹکراتے ہیں۔ لیکن یہ ماضی میں زمین سے بغلگیربھی ہوتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی زمین کی گردن میں باہیںڈالنے کو تیار ہیں ۔٢٠٠٣ء میں ہم نے ایک بہت ہی بڑا کورونل ماس اجیکشن ریکارڈ کیا ہے مگر خوش قسمتی سے اس نے زمین کا رخ نہیں کیا۔ مستقبل میں یہ کبھی زمین پر حملہ آ ور ہو سکتا ہے۔ ہمارا سیارہ نہ صرف خلاء بسیط میں موجود آگ کے طوفانوں سے بلکہ خود ہمارے اپنے سورج کے شمسی طوفانوں سے حملوں کی زد میں رہتا ہے۔ سورج ہر روز خلاء میں ارب ہا ٹن گیس اور برقی بار دار ذرّات چھوڑتا ہے ۔ یہ مہلک شمسی ہتھیار کبھی ہماری زمین کی بالکل سیدھ میں ہوتے ہیں۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ زمین ان شمسی طوفانوں کے بالکل نشانے پر ہیں۔اس کے باوجود ہم اس ذبح کردینے والی قوّت سے بچے ہوئے ہیں۔کوئی چیز ہماری حفاظت پر مامور ہے۔زمین کے بھی اپنے مقناطیسی میدان ہیں۔ یہ سورج کے مقابلہ میں کافی ضعیف ہیں مگر پھر بھی یہ اس قابل ہیں کہ ہم کو ان طوفانوں کی ہلاکت خیزی سے بچا سکیں۔ ہمارے ریفریجریٹر میں استعمال ہونے والا ایک عام مقناطیس بھی زمین کے مقناطیسی میدان سے زیادہ مقناطیسیت رکھتا ہے۔زمینی مقناطیسی حفاظتی ڈھال کے بغیر ہر شمسی طوفان زمین کی فضاء کو تار تار کرنے کی قابلیت رکھتا ہے اس ڈھال کے بغیر ہم ان شمسی تابکاری کےطوفانوں رحم و کرم پر ہوں گے جو ہمیں بھون کر رکھ دیں گی۔
    اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہم یہ سب باتیں کیسے جانتے ہیں۔ اس کا جواب ہے کہ ایسا ہمارے ایک پڑوسی کے ساتھ ہوچکا ہے۔ ذرا مریخ کو دیکھیں جو اس بات کی زندہ مثال ہے کہ بغیر مقناطیسی میدانوں کے اس کا کیا حال ہوا ہے۔ مریخ ایک منجمد صحرا ہےاس کی فضاء زمین کی فضاء کے صرف ١%کے برابر ہے۔ اس کے سب سے بڑی وجہ اس کے مقناطیسی میدانوں کا نہ ہونا ہے۔ارب ہا سال گزرنے کے ساتھ ان ذرّات نے مریخ کے ہوائی کرۂ کو کھرونچ کر رکھ دیا اس وجہ سے اس کی فضاء اس قدر لطیف ہے۔ یہاں زمین پر ہمارے پاس زمینی مقناطیسی میدان موجود ہیں اور ہمارے پاس ہوا موجود ہے۔ یہ صرف اتفاق نہیں ہے۔ہم جو سانس لے سکتے ہیں وہ انہیں مقناطیسی میدانوں کی بدولت ہے۔
    زمین کی سطح سے مقناطیسی چھتری کے نیچے محفوظ رہتے ہوئی ہم سورج کے ان شمسی طوفانوں کی قوّت و انتہاء کو قطبی روشنیوں کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ دسیوں کھرب ہا برقی ذرّات زمین کی سطح سے ٹکراتے ہیں جن کو مقناطیسی میدان قطبین کی جانب موڑ دیتے ہیں جہاں پر یہ ہمارے ماحول میں موجود گیس کے سالموں کو توانا کردیتے ہیں جس سے یہ چمکنے لگتے ہیں اور بدلتے رنگوں کے کیمیائی تماشا شروع کردیتے ہیں۔ آکسیجن چمکتے ہوئے ہرے رنگ کی نظر آتی ہے جبکہ نائٹروجن کبھی نیلی تو کبھی لال دیکھتی ہے۔ یہ قطبی روشنیاں ان مقناطیسی طاقتوں کی جنگ کا ثبوت ہیں۔ 
    سورج کے مقناطیسی میدان شمسی طوفان بپا کرتے ہیں جبکہ زمین کے مقناطیسی میدان ہمیں ان کے خلاف ڈھال بن کر حفاظت کرتے ہیں۔ مقناطیسیت بھی قدرت کی ایک سب سے زیادہ پرسرار طاقت ہے۔ ہم نے تو ابھی اسے سمجھنے شروع کیا ہے کہ اس نے ہماری کائنات کو اس کی موجودہ شکل میں ڈھالنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ عظیم آگ کے طوفانوں کی لپٹوں نے مقناطیسیت کی کارستانیوں کو ہم پر افشاء کیا ہے اس نے مقناطیسی میدانوں کی اس طاقت پر روشنی ڈالی ہے جنہوں نےکائنات میں انتہائی بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے افراتفری سے نظم و ضبط کو قائم کیا ۔ انہوں نے کہکشانی مقناطیسی میدان ان مرغولہ نما کہکشاں کے درمیان سے بنایا جو لاکھوں نوری برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں اس کے باوجود ان قوّت زمین کے مقناطیسی میدانوں کے مقابلے میں ایک لاکھ گنا کم ہے۔چھوٹے مقناطیسی میدان بھی کہکشاؤں کے درمیان موجود ہوتے ہیں جو مادّے کو سالموں کے بادلوں میں جو شاندار سحابیہ کی شکل میں نظر آتے ہیں ؛ منظم کرتے ہیں۔ستاروں کی پیدائش کی یہ جگہیں ہی ستاروں کا گھر ہوتی ہیں۔
    ہم نے اب یہ بھی دریافت کرلیا ہے کہ خالی خلاء میں بھی یہ مقناطیسی میدان موجود ہیں جو بگ بینگ کے دوران بنے تھے اگرچہ یہ زمین کے مقناطیسی قوّت سے ایک ہزار کھرب کمزور ہیں۔ ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم ایک مقناطیسی کائنات میں رہتے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ ہمیں سورج کی تابکاری سے بچانے سے لے کر ، سرخ بونے ستاروں تک، اور مقناطیسی ستاروں سے لے کر کائنات کی سب سے تباہ کن اور توانا قوّت یعنی گیما شعاؤں کے انفجار تک،یہ نظر نہ آنے والے یہ مقناطیسی میدان کائنات کے ہر پہلو پر ایک اہم کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔مقناطیسیت کائنات میں ہر پیمانے پر ایک اہم کردار ادا کررہی ہے جس سے بدلتی ہوئی متحرک چیزیں کائنات کو نہایت شاندار اور دلچسپ جگہ بنا دیتی ہیں۔ آگ کے عظیم طوفانوں کی یہ لپٹیں کائنات کو روشن کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کائنات کے وہ پہلو ہم پر روشن کئے جو ہم کسی اور طرح سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔مرتے ہوئے ستارے نے بلیک ہول کو جنم دیا دور دراز کے اس واقعہ نے یکدم کائنات کے راز کوآشکار کیا اور ہم نے اس چھپی ہوئی پہیلی کو اس مقناطیسی قوّت کے بل بوتے پر بوجھ لیا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: عظیم شعلے - کونیاتی آگ کے طوفان Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top