اس بات میں تو کوئی رتی برابر بھی شک نہیں ہے کہ ہم ایک طوفانی کائنات میں رہتے ہیں جہاں سیاروں پر موجودطوفانی ہوائیں آواز کی رفتار سے چھ گنا زیادہ تیز دھاڑتی ہوئی چلتی ہیں اور "بجلی کڑ کڑ اتے طوفان" (Lightning Storms) ہزاروں میل دور تک پھیلے ہوتے ہیں۔ "گرد کے طوفان " (Dust Storms)پورےکے پورے جہاں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہاں ایسے سیاروی طوفان بھی پائے جاتے ہیں جو ہم نے کبھی بھی کرۂ ارض پر نہیں دیکھے ہوں گے۔ سب سے بڑے طوفان تو کہکشانی پیمانے پر بھی ملے ہیں۔ کبھی ضخیم ستارے پھٹ پڑتے ہیں۔ کائنات میں موجود ہر چیز درہم برہم لگتی ہے۔
زمین پر طوفان برپا ہوتے ہیں دوسرے جہانوں میں بہت ہی بڑے اور" عظیم طوفان"(Mega Storm) تباہی مچاتے ہیں۔ کائنات میں موجود دوسری جگہوں کے طوفان اتنے بڑے اور عظیم ہوتے ہیں کہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ مگر اس تباہی میں سے بھی امید کی کرن نکلتی ہے۔ ہمارا اپنا وجود ان کہکشانی طوفان ہی کی مرہون منّت ہے۔ تو کیا واقعی یہ عظیم طوفان بذات خود زندگی کے لئے ضروری ہیں؟ ہم اپنے اس مضمون میں یہ بات جاننے کی کوشش کریں گے کہ طوفانوں کی موجودگی کس طرح سے حیات کی شروعات اور اس کے رواں دواں رہنے کا سبب بنتی ہے۔
کچھ سیاروں پر طوفان کا آنا تو نا ممکن سی بات ہے جیسا کہ عطارد ۔یہ سیارہ اتنا چھوٹا اور سورج کے اتنا نزدیک ہے کہ اس کا کرۂ فضائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اور فضاء کےنہ ہونے کا مطلب طوفان کا نہ آنا ہے۔مگر ہم جیسے ہی سورج سے دور جاتے ہیں تو ہمیں شورش زدہ اور انتشار سے بھرپور جہان ملتے ہیں جن کی فضائیں نظام شمسی کے حیرت انگیز طوفان عظیم کو جنم دیتی ہیں۔
سیارہ زہرہ بادلوں سے مکمل طور پر ڈھکا ہوا ہے۔ جہاں ہوائیں اس کی اوپری فضاؤں کو ٣٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔ سطح سے ٣٥ میل اوپر، ہواؤں کے جھکڑ خونخوار انداز سے چلتے ہیں جو بادلوں کو چار دنوں میں پورے سیارے کا چکر لگوادیتے ہیں۔ زہرہ زمین کی بنسبت سورج سےزیادہ قریب ہے۔ سورج کی تپش ان خونخوار ہواؤں کو چلانے کا سبب بنتی ہے۔ زہرہ کی ہواؤں کی گردش کا انداز بہت ہی سادہ ہے۔ زہرہ کا ایک حصّہ گرم جبکہ دوسرا ٹھنڈا ہے۔ دن کے وقت وہاں پر موجود ہوا گرم ہو کر اوپر اٹھتی ہے اور رات کی طرف والی جگہ چلنا شروع ہوتی ہے جس سے ایک مسلسل ہوائی چکر بنتا ہے جو زمین کے پیچیدہ ہوائی چکر سے بہت ہی مختلف اور سادہ ہے۔
زہرہ کی ہوائیں زمین پر موجود تیز ترین طوفان سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتی ہیں۔البتہ دیکھنے میں یہ زمین کی ہواؤں کے جیسی ہی ہوتی ہیں۔ "وینس ایکسپریس کھوجی"(Venus Express Probe) نے زہرہ کے قطب جنوبی کی نادر تصاویر حاصل کی ہیں۔ زہرہ کی ایک سب سے بڑی اور کئی ماہرین فلکیات کا حیرت سے منہ کھول دینے والی پہیلی اس کے قطبین پر موجودطوفان ہیں خاص طور پراس کے جنوبی کرۂپر موجود دو آنکھوں والا طوفان تو بہت ہی دنگ کردینے والا ہے ۔ جی ہاں ایک نہیں بلکہ دو دو آنکھوں والا طوفان !!!(تصویر نمبر ١) اس سے پہلے ہم نےسیاروں کے پیمانے پر اتنے بڑے طوفان نہیں دیکھے تھے۔ زہرہ کا یہ دو آنکھوں والا گرداب ١٨٠٠ میل پر پھیلا ہوا ہے۔ دو طوفان ایک دوسرے کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
1. زہرہ کی سطح پر موجود دو آنکھوں والا طوفان
|
اگرکسی طرح سے یہ ممکن ہوجائے کہ ہم وہاں اس طوفانی بھنور میں جا سکیں یا کسی روبوٹک کھوجی کے ذریعہ وہاں اس طوفان میں دیکھ سکیں تو ہم وہاں بل کھاتی ہوئی انتہائی خطرناک رفتار سے گھومتی ہوئی ایک شاندار بادلوں کی دیوار کا مشاہدہ کریں گے۔ واقع یہ ایک بے حد شاندار نظارہ ہوگا۔
ابھی تک یہ ایک ان سلجھی پہیلی ہی ہے کہ یہ غضبناک گھومتا ہوا بھنور کتنا گہرا ہوگا ؟یہ بھی ممکن ہے کہ یہ طوفانی آنکھ سیارے کی سطح تک جارہی ہو۔ سائنس دانوں کا اندازہ ہے کہ طوفان کے نیچے مستقل دھند لکا آتش فشانی زمین کو نہلا رہا ہوگا اور ماحول کا زبردست وزن بے تحاشہ دباؤ پیدا کررہا ہوگا۔ زہرہ کا فضائی دباؤ زمین سے ١٠٠ گنا زیادہ ہے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ایک گاڑی کو لیکر اس کو اتنا دبائیں کہ وہ ایک انچ اسکوائر میں سما جائے اور پھر جسم کے ہر اسکوائر انچ پر اس کو رکھنے سے جو دباؤ پیدا ہوگا اتنا دباؤ زہرہ پرجانے والا محسوس کرے گا۔ یہ دباؤاسے فورا"سیکنڈ کے کچھ حصّے میں ہی چپٹا کردے گا۔
زہرہ کی کثیف فضاء میں ایک اور عجیب و غریب طوفان پیداہوتا ہے۔ اس طوفان کی رفتار ٤ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ زہرہ کی سطح پر موجود ہوائیں بہت ہی آہستہ چلتی ہیں کیونکہ زہرہ کی محوری گردش بہت ہی دھیمی ہے۔ سورج کے سامنے اس کو گھومنے میں پورے آٹھ مہینے لگتے ہیں۔ کچل دینے والا دباؤ گیسوں کے سالموں کو اس قدر قریب کردیتا ہے کہ وہ گیسوں کے بجائے مائع کہ جیسا برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔ ٤ میل دھیمی طوفانی ہوا زبردست قوّت کے ساتھ ہوتی ہے۔ یہ طوفان آہستہ رفتار میں چلتا ہوا نظر آتا ہے۔
زہرہ کی سطح پر چلتی ہوئی ہوائیں ہماری زمین پر موجود ہواؤں سے بالکل ہی جدا گانہ اندازکی ہیں۔ وہاں پر موجود کوئی بھی ایسا ہی محسوس کرے گا جیسے وہ شیرے جیسی کسی گاڑھی چیز میں چل رہا ہو۔ سادے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکن ہوگا کہ کوئی اس طوفانی ہوا میں سے چل کر گزر سکے ۔
زہرہ کی سطح حیات کی شروعات کے لئے نہایت ہی ناموزوں اور ناموافق ہے۔ مگر اس کی فضاء کا اوپری حصّہ جہاں تند و تیز ہوائیں رواں دواں ہیں اس بات کا غیر معمولی امکان رکھتی ہے کہ وہاں حیات کسی شکل میں پھل پھول سکے۔
سائنس دانوں کے مطابق یہ بات قرین قیاس ہے کہ زہرہ کے ان بادلوں میں کسی قسم کا جیون موجود ہو۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ وہاں توانائی کے سوتے موجود ہیں۔ وہاں سورج کی روشنی اور غیر نامیاتی مرکبات بھی لازمی طور پرموجود ہیں۔ اس کے علاوہ وہاں کاربن،ہائیڈروجن، اور آکسیجن سمیت وہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں جو سائنس دانوں کے خیال میں حیات کی موجودگی کے لئے ضروری ہوتی ہیں۔
زمین کی اوپری فضاء" خرد بینی حیات"(Microscopic Bacteria) سے لبریز ہے جو ہواؤں میں تیرتی پھرتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا زہرہ میں بھی ایسا ہونا ممکن ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں کبھی حضرت انسان وہاں کوئی کھوجی روبوٹ حیات کی تلاش کے لئے بھیج سکے تب ہی ہم جان سکیں گے کہ وہاں زندگی کی کوئی شکل موجود ہے کہ نہیں۔
زہرہ سے اگلا سیارہ ہمارا اپنا گھر زمین ہے۔یہاں پر بھی ہمارا سامنا اکثر و بیشتر طوفانی موسموں سے رہتا ہے۔ یہاں کبھی گردو غبار کے طوفان چلتے ہیں تو کبھی بادو باراں کے طوفان۔ ، کرۂ ارض پر گرد کے طوفان ایک علاقے تک ہی محدود رہتے ہیں ۔ مگر ہم سے اگلے سیارے پر یہ گرد کے طوفان تو پورے جہاں اپنی کو لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
لگ بھگ ١٠٠ سال پہلے، ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ انہوں نے مریخ پر زندگی کو پا لیا ہے۔ ایک گہری تاریک لہر مریخ کےقطب سے نکل کراس کے خط استوا تک پھیل جاتی تھی۔ وہ سمجھے کہ یہ بہار کے موسم میں" سبزہ روئیدگی" (Springtime Vegetation)کا عمل ہے جو پورے سیارے میں پھیل رہا ہے۔ ان کی سوچ مریخ کے موسموں کے بارے میں بالکل ٹھیک تھی ۔ مریخ بھی اپنی محوری گردش پر زمین کی طرح ٢٣ درجہ جھکا ہوا ہے ، لہٰذا وہاں گرمی، سردی،خزاں اور بہار جیسے موسم موجود ہو سکتے ہیں۔ موسم ہی آ ب و ہوا کی رت لاتے ہیں۔ مگر وہ گہرا سایہ جوماہرین فلکیات نے دیکھا تھا درحقیقت وہ ایک تباہی مچاتا ہوا تند و تیز طوفان تھا۔ اور اس طوفان کے برپا ہونےکی وجہ صرف اور صرف مریخ کا اپنے محور پر جھکاؤ ہی تھا۔
سورج کے گرد زمین ایک سال میں اپنا پورا چکر مکمل کرتی ہے ۔ جنوری کے مہینے میں شمالی کرۂ کا جھکاؤ سورج سے دور ہوجاتا ہے جس کہ وجہ سے سردیوں کا موسم شروع ہوتا ہے۔ جبکہ جون کے مہینے میں اس کا جھکاؤ سورج سے قریب ہوتا ہے جو گرمیوں کے موسم کے شروع ہونے کا سبب بنتا ہے۔
مریخ کے" بین السیارا عظیم الجثہ گرد کے طوفانوں" (Gigantic Planetary Dust Storm) کا مقابلہ زمین کےعلاقائی گرد کے طوفانوں سے کسی بھی صورت نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے کرۂ ارض پر کبھی بھی اتنے بڑے اور مہیب طوفان نہیں دیکھے۔ مریخ کا اپنے محور کے گرد جھکاؤ لگ بھگ اتنا ہی ہے جتنا کہ زمین کا ہے اور مریخ پر بہار کے موسم کی شروعات کا مطلب بین السیارا عظیم الجثہ طوفان کی آمد ہوتا ہے ۔ مریخ کی سطح گرد و غبار کے غضبناک ذرّات سے ڈھک جاتی ہے۔
امریکی ریاست اریزونا کے شہر فینکس میں آنے والا گرد کا طوفان جس میں گرد کی ایک عظیم الشان دیوار نظر آرہی ہے |
زمین پر بھی گرد کے طوفان آتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ نہایت المناک بھی ہوجاتے ہیں اور پورے کے پورے شہر کو ڈھانک لیتے ہیں۔ جولائی ٥، ٢٠١١ میں امریکی ریاست اریزونا میں ایک نہ رکنے والے طوفان کی ٥٠٠٠ فٹ اونچی گرد کی دیوار نے فینکس شہر کو تہس نہس کردیا تھا(تصویر نمبر ٢)۔ دن میں رات کا سماں ہوگیا تھا۔ ہزار ہا ٹن گرد نے شہر کو ڈھانپ لیا تھا۔ مگر یہ تباہی اور بربادی صرف ایک علاقے تک ہی محدود رہی تھی۔ مریخ کا طوفان پورےکے پورے سیارے کو ڈھانپ لیتا ہے(تصویر نمبر ٣)۔ مریخ پر ایک دفعہ گرد کا طوفان شروع ہوجائے تو پھر وہ آسانی سے نہیں رکتا ہے اس کی گرد بار بار ان طوفانوں میں استعمال ہوتی ہے۔جبکہ زمین پر جب طوفان اٹھتا ہے تو وہ آخر کار کہیں نہ کہیں پہنچ کر زور توڑ دیتا ہے ۔ زیادہ ترگرد کے طوفان سمندر میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں جو ماحولیاتی چکر کے لئے نہایت ہی سود مند ہوتے ہیں۔ مریخ پر شاید کوئی جگہ ایسی نہ ہوگی جہاں گرد و غبار کی وافر مقدار دستیاب نہ ہواور وہ طوفان کے بڑھاوے کا سبب نہ بنے ۔ لہٰذا طوفانوں کےان نظاموں کی ایک دفعہ شروع ہونے کی دیر ہے پھر یہ ہفتوں بلکہ مہینوں تک رکنے کا نام نہیں لیتے۔ مریخ کا زبردست خشک کرۂ فضائی بھی طوفان کے حجم اور اس کی طاقت میں اضافے کاباعث بنتا ہے۔
3. مریخ کی سطح پر آنے والا بین السیارہ گرد کا طوفان
|
زمین کے طوفانوں کی اٹھنے والی گرد فضاء میں جا کر جلد ہی بارش کے ذریعہ صاف ہوکر سمندر میں چلی جاتی ہے۔ مریخ میں اس طرح کی گرد کو فضاء سے صاف کرنے والی کسی بارش کا کوئی وجود نہیں ہے ۔ لہٰذا وہاں ایک دفعہ اگر گرد فضاء میں پہنچ گئی تو وہ وہاں جاکر لمبے عرصے کے لئے اس وقت تک موجود رہتی ہے جب تک گرد کے ذرّےبذات خودآہستہ ہو کر نہیں بیٹھ جاتے۔
مریخ کی سطح پر دیکھا جانے والا سب سے بڑا گرد کا بگولہ جس کی اونچائی ١٢ میل تک ریکارڈ کی گئی ہے |
مریخ پر بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہی طوفان پورے سیارے کولپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ گرد کے دوسرے چھوٹے طوفان بھی مریخ کی سطح پر سے دیکھنے میں نہایت ہی شاندار لگتے ہیں۔ مریخ پر گرد کے بگولے وہاں پر موجود آئرن آکسائڈ کے ذرّات کو کھینچتے ہیں۔ سب سے بڑا بگولہ١٢ میل تک فضاء میں دیکھا گیا ہے١(تصویر نمبر ٤) ۔ یہ بگولہ مریخ کی فضاء میں باریک ذرّات کو پہنچا دیتے ہیں جس سے گرد کی کہر سی بن جاتی ہے جو مریخ کے خشک ماحول کو کنٹرول کرتی ہے اور بین السیارا عظیم الشان طوفان کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ مگر مریخ پر بھی اتنے بڑے طوفان شازو نادر ہی اٹھتے ہیں ۔ ماہر فلکیات نے پچھلےسو سال میں گرد کے ایسے صرف دس طوفان ہی کھوجے ہیں۔ قدیم ماہر فلکیات نے مریخ پر جس چیز کو زندگی کا نشان سمجھا تھا وہ یہی عظیم الشان طوفان تھے۔
مگر ایک ایسا طوفان جو پورے سیارے کو ڈھانک لے وہ بھی ہمارے اگلے سیارے کے طوفانوں کے آگے نہایت ہی حقیر سا لگتا ہے۔سیارہ مشتری نظام شمسی کا سب سے دیوہیکل سیارہ ہے ۔ یہ عظیم الجثہ سیارہ نظام شمسی میں موجود تمام سیاروں کی مجموعی کمیت سے ڈھائی گنا زیادہ رکھتا ہے ۔یہ عظیم الشان طوفانوں کا گھر ہے ۔ اس کی تیز رفتار محوری گردش "بادلوں کے وسیع جتھے" (Vast Bands of Clouds)بناتی ہے جو اس کی محوری گردش کے مخالف گھومتے ہیں۔ ان بادلوں کے کناروں پر طوفان کلاں پیدا ہوتے ہیں۔یہاں پر موجود نظام شمسی کا سب سے بڑا اور سب سے قدیمی طوفان موجود ہے دور سے عظیم سرخ نظرآنے والا یہ دھبہ ١٥٠٠٠ میل پر محیط ٣٠٠ برس سے بھی زیادہ پرانا ہے(تصویر نمبر ٥)۔اس کے کناروں پر غضبناک ہوائیں ٣٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہوتی ہیں ۔ یہ عظیم سرخ دھبہ ایک دیوہیکل بھنور ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کے قلب میں زبردست دباؤ کے ساتھ ہوائیں گھومتے ہوئے باہر کی طرف جانب نکلتی ہیں۔ایک طرح سے یہ عظیم سرخ دھبہ ایک آندھی کی ہی طرح ہے۔اس طوفان کے کام کرنے کا طریقہ کار کرۂ ارض پر موجود طوفانوں جیسا ہی ہے۔
مشتری کی سطح پر موجود عظیم سرخ دھبہ اس کا قدیمی طوفان ہے |
کرۂ ارض کی طوفانی آندھی کی طرح مگر زمین کے طوفانوں سے تھوڑا سے مختلف اور ہٹ کر مشتری کا یہ عظیم طوفان ہے۔زمین پر طوفان سمندروں سے توانائی حرارت کی شکل میں حاصل کرتے ہیں لہٰذا جب وہ زمین سے ٹکراتے ہیں تو وہ ان کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک اوسط طوفان ایک ہفتے سے زیادہ عرصہ تک نہیں رہتا ۔ مشتری کیونکہ مکمل طور پرایک گیسی سیارہ ہے لہٰذا اس کی کوئی ٹھوس سطح موجودنہیں ہے اس وجہ سے وہاں رگڑ کی قوّت نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی بات ایک عظیم سرخ دھبے جیسے طوفان کے اتنا لمبا عرصہ تک اس پر موجود رہنے کا سبب بنتی ہے۔ وہاں کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں ہے جو اس طوفان کو دھیما کرے۔ اس کے باوجود اس سرخ دھبے والے طوفان کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے توانائی کی ضرورت تو بہرحال رہتی ہے۔ زمین پر تو طوفانوں کو حرارت گرمی کی صورت میں سورج سے ملتی ہے مگر مشتری زمین سے پانچ گنا زیادہ سورج سے دور ہے ۔ سورج سے حاصل کردہ حرارت اس قدر نہیں ہو سکتی کہ ایک ایسے عظیم طوفان کو جو مشتری پر موجود سرخ دھبے جیسا ہو قائم و دائم رکھ سکے۔ لہٰذا وہاں توانائی کا کوئی اور ذریعہ ہونا چاہئے ۔ مشتری پر موجود توانائی کا ایک ہی سوتا ہے اور وہ ہے اس کی زبردست قوّت ثقل۔
١٩٩٥ء میں ناسا کا ایک کھوجی روبوٹ اس قوی الہیکل سیارے کی جانب روانہ ہوا۔ اگرچہ یہ کھوجی روبوٹ وہاں پر موجود زبردست دباؤ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زبردست حرارت سے کچلا اور بھن گیاتھا۔مگر فرض کریں کہ یہ اس قابل تھا کہ مزید آگے جاسکتا تو یہ وہاں ایک چاندی جیسا وسیع سمندر پا تا ۔مشتری پر موجود زبردست دباؤاور ٤٠،٠٠٠ ہزار ڈگری سے بلند درجہ حرارت ہائیڈروجن کو بلوئی ہوئی مائع دھات میں تبدیل کردیتا ہے۔
مشتری کا قلب اس توانائی سے جو اس کی سطح سورج سے حاصل کرتی ہے دگنی توانائی اس کو فراہم کرتا ہے ۔ یہ مشتری کی توانائی کا سوتا ہے جس کی حرارت وہاں پر موجود زبردست طوفانوں کو جاری و ساری رکھنے کا سبب بنتی ہے ۔
یہ حرارت مشتری کے گرم اور کثیف قلب سے ہی نکلتی ہوئی طوفانوں تک پہنچتی ہے۔ لہٰذا اس طوفان کے اوپر نظر آنے والے بادلوں کے وہ جتھے جو مشتری کے مخالف گھومتے نظر آتے ہیں ان سب کو حرارت مشتری کے قلب سے ہی ملتی ہے اور اس کی یہ ہی اندرونی حرارت اتنے خطرناک طوفانوں کا سبب بنتی ہے۔
مگر اصل معمہ تو ابھی سلجھنا باقی ہےکہ کیا حیات مشتری سمیت دوسرے سیاروں پر موجود ہو سکتی ہے۔ناسا کا کھوجی کیسینی جب زحل کے طرف جارہا تھا تو راستے میں اس نے مشتری کا بھی جائزہ لیااور اس دوران اس نے ایک زبردست چیز دریافت کی۔اس نے سرخ عظیم طوفان کے شمالی حصّے میں عجیب سے سفید بادل دیکھے۔ یہ بادل بالکل زمینی بادلوں کے جیسے ہی تھے جو پانی کے قطروں سے بنے تھے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا مشتری پر زندگی کی شروعات کےلئے کافی اجزاء ترکیبی موجود ہیں۔ اس دیوہیکل سیارے پر حیات کی موجودگی کا سوال کافی دلچسپ ہے۔جیون کی شروعات کے لئے کافی سارے بنیادی عناصر ان بادلوں میں موجود ہیں۔وہاں سورج کی روشنی پہنچ رہی ہے ۔ مائع پانی چاہئے بادلوں میں قطروں کی صورت میں ہی کیوں نہیں موجود تو ہے۔دوسری طرف اگرزمین پر ایسے ماحول میں ان بادلوں میں حیات آسانی سے پنپ سکتی تو بیکٹیریا اور کائی آسانی سے بادلوں میں نشونماء پاتےاور بادلوں کا رنگ ہرا ہوتا۔ مگر زمین پر ہم ہرے رنگ کے بادل نہیں دیکھتے ۔ اگرچہ ہمیں خردبینی جراثیم زمین سے بلندی پر ہر جگہ ملتے ہیں مگر زیادہ تر یہ زمین کی سطح پر بھیج دیے جاتے ہیں۔
اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حیات ٹھوس سطح کے بغیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔ مشتری پر سطح نہ ہونے کا مطلب ہے کہ زندہ اجسام کو پانی کی مسلسل فراہمی میں نہایت ہی دشواری ہوگی۔ ذرا سوچئے کہ مشتری کے پانی سے بھرے بادلوں میں موجود چھوٹےان جراثیم کا اس وقت کیا ہوگا جب وہ پانی بخارات بن کر اڑ جائے گا۔ چاہےزندگی مشتری کے بادلوں میں اپنے پر پھیلائے یا نہیں مگر گیسی دیوہیکل سیارے جیسے کہ مشتری اور اس کا پڑوسی زحل ہیں وہاں پر جیون کی شروعات کرنے کے سارے اجزاء مثلا پانی،حرارت،اور ایک نہایت ہی ضروری عنصر یعنی چنگاری سب کچھ موجود ہے۔
ناسا کے کیسینی کھوجی کا مقصد نظام شمسی کے ایک سب سے حسین سیارے- زحل کا تجزیہ کرنا تھا۔اس کھوجی نے زحل کے گرد موجود چھلوں، اس کے قدرتی سیارچوں،اور خود اس سیارے کے بارے میں کافی باریک بینی سے کھوج کی۔اس نے منتشر بادلوں کے جتھے زحل کے گرد ١٠٠٠ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگتےہوئے دیکھے ہیں۔یہاں پر طوفانوں کا ہونا کوئی اچنبے کی بات نہیں ہے۔ یہ طوفانوں کا گھر ہے مگر یہاں آسمانی بجلی کی کوند کا ہونا نہایت تعجب خیز ہے(تصویر نمبر ٦)۔ کیسینی نے یہاں ایک زبردست اور دیوقامت گرج چمک کا طوفان دیکھاہے۔
تصویر میں ایک گول دائرے میں زحل کا چاند جبکہ دوسرے گول دائرے میں اس کی بالائی سطح پر موجود گرج چمک کے طوفان نظر آرہے ہیں |
زمین پر برق و باراں کے طوفان موسم کو قابل دید بناتے ہیں۔برقی دباؤ طوفانی بادلوں کے اوپری اور نچلے حصّے کے درمیان اس حصّے میں پیدا ہوتا ہے جو لگ بھگ ٥٥،٠٠٠ ہزار فٹ وسیع پانی کے بخارات، بارش اور برف پر مشتمل ایک گرداب ہوتا ہے۔ چھوٹے برف کے ذرّات برف کے گولے بن کر نیچے گرتے ہوئے ایک دوسرے سے رگڑ کھاتے ہیں جس سے وہ بار دار ہوجاتے ہیں اور جب یہ تعداد میں بہت زیادہ ہوجاتے ہیں تو ہمیں بجلی کی گرج و چمک دکھائی دیتی ہے۔
زمین پر ایک اوسط برق و باراں طوفان ١٥ میل تک پھیلا ہوسکتا ہے مگر زحل پر یہ پورے سیارے پر بھی پھیل سکتا ہے۔زحل اور مشتری پر ایسا کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ چھوٹے بادلوں نے بڑھتے بڑھتے ٢٠،٠٠٠ کلومیٹر طویل عظیم الجثہ بادلوں کا روپ دھار لیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہوں نے زمین جتنا علاقہ گھیر لیا۔ زمین کے بڑے سے بڑےبرق و باراں طوفان کے مقابلے میں زحل پر ١٠،٠٠٠ گنا زیادہ بڑے طوفان دیکھے گئے ہیں۔
کڑکتی بجلی سورج کی سطح سے بھی زیادہ گرم ہوتی ہے۔ یہ فضاء کو صحیح معنوں میں پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔اس کی کڑکتی ہوئی آواز زندگی کی آواز ہے۔آسمانی بجلی ڈراؤنی اور تباہ کن لگتی ہے مگر حقیقت میں یہ زمین پر موجود زندگی کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ یہ کرۂ فضائی پر زبردست کیمیائی اثر ڈالتی ہے۔ بجلی کی ہر کوند ہوا کو جلا دیتی ہے۔
جب بجلی چمکتی ہے تو یہ توانائی سے بھرپور پلازما پیدا کرتی ہے جو زبردست حرارت پیدا کرنے کا موجب بنتاہے اور یہ زبردست حرارت فضاء میں موجود نائٹروجن کے سالموں کو توڑ دیتی ہے جس سے ان نائٹروجن کے جوہروں کو دوسرے سالموں کے ساتھ ملنے میں مددملتی ہے۔ آسمانی بجلی کی مدد سے بننے والا شورے کا نمک نائٹروجن کو مٹی میں ملنے میں مدد دیتا ہے جو کھاد بن کر پودوں کی غذا بنتی ہے یہ آسمانی بجلی ہی ہے جو نائٹروجن کے جوہروں کو آزاد کرا کر اس طرح سے زندگی کو رواں دواں رکھنے میں مدد دیتی ہے۔
زمین پر روزانہ ٨٠ لاکھ دفعہ آسمانی بجلی کڑکتی ہے جو زمین پر زندگی کو پھلنے اور پھولنے کا مواقع دیتی ہے۔ مگر زحل پر صرف آسمانی بجلی حیات کی شروعات نہیں کر سکتی۔ وہاں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں زندگی پنپ سکے۔ مگر نظام شمسی میں موجود ایک جگہ پر شاید زندگی کی کوئی رمق پیدا ہوسکے اور وہ جگہ زحل کا چاند ٹائٹن ہو سکتی ہے۔ ٹائٹن میں فضاء موجود ہے یہاں میتھین کی جھیلیں بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے اپنے انوکھے عظیم الشان طوفان بھی ہیں۔
زحل کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٩٠ کروڑ میل ہے۔ سورج سے اتنا دور ہونے کی وجہ سے سورج کے گرد یہ اپنا ایک چکر کافی لمبے عرصے میں پورا کرتا ہے۔ اس کا ایک سال زمین کے لگ بھگ ٢٩ سال کے برابر ہوتے ہیں۔ اس وقت وہاں موسم بہار چل رہا ہے لہٰذا وہاں کا ماحول تھوڑا سے گرم ہونا شروع ہوا ہے ۔ کیونکہ یہ سورج سے نہایت فاصلے پر واقع ہے لہٰذا یہ سورج سے زیادہ توانائی حاصل نہیں کر پا تا۔ اتنی کم حرارت موصول ہونے کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں شاندار طوفان موجود ہیں۔
کئی سالوں کی ٹھنڈی خاموشی کے بعد زحل دوبارہ زندہ ہو رہا ہے۔ سائنس دانوں نے ١٥ برس اس بات کا انتظار کیا ہے کہ سورج زحل کے شمالی قطب کو گرم کرے تاکہ وہ غیر معمولی باریکی کے ساتھ وہاں پر موجوس نظام شمسی کے ایک انتہائی عجیب زحل کے منفردشش پہلو طوفان کو دیکھ سکیں۔(تصویر نمبر ٧)
زحل کے شمالی قطب میں موجود شش پہلو ساخت کا طوفان |
سائنس دان انگشت بدہاں ہیں کہ شش پہلو طوفان کیسے بن سکتا ہے۔قدرتی طور پر زیادہ تر طوفان تو ناہموار شکل کے ہوتے ہیں۔سیاروی پیمانے پر جیو میٹرک شکل کے طوفان ملنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ بہرحال اس طوفان کی شکل کا بھی ایک نظریہ ہے۔ اگر ہم ایک ایک بالٹی پانی لیں یا باتھ ٹب میں پانی کو ہلائیں تو اس سے سفر کرتی ہوئی موجیں بنتی ہیں۔ مگر موجوں کی ایک اور قسم ہوتی ہے جن کو" جامدموجیں"(Stationary Waves) کہتے ہیں۔ پانی کی بالٹی میں ہم کچھ طریقوں سے گمگ حاصل کرسکتے ہیں۔ پانی کی ایک موج ایک طرف چلتی ہے جبکہ دوسری موج اس کے مخالف چل کر اس پہلی والی موج سے گمگ پیدا کرتی ہے جس سے باقاعدہ ایک نمونہ سا بن جاتا ہے ۔ ان کو جامدموجیں کہا جاتا ہے۔ سائنس دان سمجھتے ہیں کہ یہ پرسرار شش پہلوی نمونے جوزحل پر پائے جاتے ہیں وہ شش پہلوی جامدموجیں ہی ہیں۔
زحل کے شمالی قطب کے عظیم الجثہ طوفان کی ہوائیں چھ کونے بناتی ہوئی سیارے پر آندھی کی رفتار سےسفر کرتی ہیں۔ یہ طوفان اس قدر دیوہیکل ہے کہ کرۂ ارض جتنے پورے چار سیارے اس میں سما سکتے ہیں۔ یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکاکہ طوفان کی سطح کے نیچے کیا ہے۔صرف زحل کا موسم بہار سے گرمی میں نہیں بدل رہا ہے بلکہ اس کےآ س پاس کی دوسری دنیاؤں کے موسم بھی تبدیل ہورہے ہیں۔زحل کا ایک چاند ٹائٹن بھی گرم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ اور اس کی سطح پر شروع ہوتی یہ گرمی طوفان کے آنے کا عندیہ دے رہی ہے۔
ہمارے نظام شمسی کا سب سے دلچسپ قدرتی سیارچہ ٹائٹن ہے۔یہ چاند سائنس فکشن کا سب سے پسندیدہ چاند ہے۔ اس کی سطح سے دیکھیں تو آسمان پیلا نظر آئے گا اور میتھین کے غیر معمولی بادل دکھائی دیں گے۔
تصویر کے بائیں جانب ایک سفید تیر کی شکل کے میتھین کے بادل زحل کے چاند ٹائٹن پر نظر آرہے ہیں |
ناسا کے کھوجی کیسینی نے اس کا جس باریک بینی سے جائزہ لیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس نے وہاں گاڑھی کثیف فضاء، وسیع پہاڑی سلسلے اور میتھین کی جھیلیں دیکھیں۔ وہاں اس نے تیر کی شکل کےمیتھین کے سفید بادلوں کے جتھوں کو اس کی سطح پر تیرتا ہوا دیکھا(تصویر نمبر ٨)۔ خلاء سے دور سے گہرے نظر آنے والے ٹکڑے وہ بادل ہیں جو وہاں دھول کے اوپر کھلے میدان میں تیرتے ہیں۔ جب بادلوں کے نیچے یہ گہرے ٹکڑے بڑے ہوتے ہیں تو مائع میتھین اس کی سطح پر برستی ہے(تصویر نمبر ٩)۔ٹائٹن کا مخصوص بادو باراں کا طوفان بہار میں آتا ہے۔ ٹائٹن پراگر بارش موجود ہوگی تو یہ زمین پر موجود بارش سے نہایت ہی الگ تھلگ اور مختلف ہوگی۔ الگ ہونے کی سب سے پہلی وجہ تو ٹائٹن کی سطح پر قوّت ثقل کا نہایت کمزور ہونا ہے جس سے بارش کے قطرے اس کی سطح پر بہت دھیمی رفتار سے گرتے ہوں گے۔ مزید براں یہ کہ ان قطروں کا حجم بھی کافی زیادہ ہوگاپھر ٹائٹن کی سطح پر ہونے والی بارش نہایت ہی سرد ہوگی۔
ٹائٹن کی سطح پر ہونے والی میتھین کی بارش اور اس کا منظر ایک مصّور کی نگاہ میں |
ٹائٹن میں میتھین کی بارش پورے چاند پر ہوتی ہے۔ کمزور قوّت ثقل کی وجہ سے "فندق"(Hazelnut) کے حجم جتنے زبردست بارش کے قطرے بنتے ہیں۔ ایک اجنبی دنیا اپنے اجنبی موسم کے ساتھ موجود ہے۔ ان گرتے ہوئے دھیمے قطروں نے ٹائٹن پرزمین کے جیسی وادیاں اور جھیلیں بنا دی ہیں۔ ٹائٹن کے طوفان تو دھیمے طوفان ہیں مگر نظام شمسی میں اور آگے ہمیں نہایت تند و تیز طوفان ملیں گے۔
سیارہ نیپچون انتہائی سرد ہے ۔یہاں درجہ حرارت کبھی بھی منفی ٣٠٠ ڈگری سے اوپر نہیں جاتا۔ نیپچون ان گیسی دیوہیکل سیاروں میں سے ایک ہے۔ یہ زمین سے کافی بڑا ہے اس کی فضاء بھی کافی کثیف ہے۔ اس کا سورج سے فاصلہ لگ بھگ ٢ ارب میل ہے۔ سورج سے اس قدر دوری اس کو انتہائی سرد بنا دیتی ہے لہٰذا یہاں پر موسمی تبدیلی یا موسموں کاموجود ہونا بعید از قیاس ہے۔ مگر اس کے برعکس حقیقت تو یہ ہے کہ نیپچون نہایت ہی متحرک ہے جو اس کے موسموں کو بہت ہولناک بنادیتے ہیں۔
تصویر میں نیپچون کی بالائی سطح پر نظر آنے والے سفید بادل |
زمین سے زبردست دوری کے باوجود ماہرین فلکیات نیپچون کے متلاطم فضاء کا جائزہ کیک رصدگاہ کی مدد سے لے سکتے ہیں۔ یہاں پر موجود دوربین اس قدر طاقتور ہے کہ یہ چاند پر موجود جلتی ہوئی موم بتی بھی دیکھ سکتی ہے۔ نیپچون کو دیکھ کر پہلا تاثر جو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ سیارہ انتہائی روکھا پھیکا اور سپاٹ ہے۔ مگر جوں ہی ہم اس کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں ہمیں اس کی اوپری فضاء میں موجود بلندی پر سفید بادل نظر آتے ہیں (تصویر نمبر ١٠)جو وہاں پر موجود ہواؤں کی رفتار ناپنے کا زبردست موقع فراہم کرتے ہیں۔سائنس دان ہوا کی رفتار اس طرح ناپتے ہیں کہ پہلے وہ دیکھتے ہیں کہ دو جگہوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے اورپھر وہ یہ دیکھتے ہیں کہ بادل اس فاصلے کو کتنے وقت میں طے کرتے ہیں۔
کیک دوربین نے اس کے ان سفید بادلوں کی تصاویر لی ہیں جو سیارے کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ ان تصاویر کا تجزیہ کر نے پر ان کو بادلوں کی بدلتی جگہوں کا پتا چلا۔ انہوں نے بادلوں کو پہلے ایک جگہ پر ناپا پھرکچھ گھنٹوں بعد انہی بادلوں کو دوسری جگہ پر دیکھا۔ زیادہ تر جگہ کی تبدیلی تو سیارے کی اپنی محوری گردش کی وجہ سے تھی۔ لیکن ہمیں اگر سیارے کی محوری گردش کی رفتار معلوم ہے تو ہم اس کو ناپی ہوئی رفتار سے منہا کر کے بادلوں کی اپنی رفتار معلوم کر سکتے ہیں۔ سیارے پر بادلوں کی رفتار ناپ کر ہی ہم وہاں پر موجود ہوا کی رفتار کو ناپ سکتے ہیں۔
جب سائنس دانوں نے وہاں پر موجود چلنے والی ہوا کو ناپا تو اس کی رفتار نے ان کے ہوش اڑا دیے۔انہوں نے وہاں پر ہوا کی رفتار کئی سو میلے فی گھنٹہ سے لے کر ١٢٠٠ میل بلکہ ١٢٦٠ میل فی گھنٹہ تک ناپی ہے۔ یہ واقعی ہوائیں چلنے کی غیر معمولی رفتار ہے۔
نظام شمسی میں سب سے زیادہ تیز رفتار ہوائیں نیپچون میں ہی چلتی ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخرکار وہ کیا چیز ہے جو ان کو اس قدر تیز رفتار سے حرکت کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ موسموں کے لئے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو نیپچون پر آخرکار یہ توانائی آتی کہاں سے ہے۔ بظاہر تو یہ توانائی نیپچون خود ہی پیدا کررہا ہے۔ نیپچون سورج کی روشنی حاصل کرتا ہے مگر اتنے فاصلہ پر یہ قابل قدر نہیں ہے۔تو پھر یہ توانائی آتی کہاں سے ہے۔ سائنس دانوں نے اس بات کی کھوج کرنے کے بعد یہ اندازہ لگایا ہے کہ نیپچون کے قلب میں کچھ تابکار عناصر موجود ہیں جن کی شعاعی حرارت اس کو توانائی پہنچاتی ہے اور یہ توانائی سورج سے حاصل کردہ توانائی سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کا قلب نہایت گرم ہے جو اس بات کا عندیہ دے رہا ہے کہ اس کے قلب میں ٤۔٥ ارب سال پہلے حاصل کیا گیا تابکار مادّہ موجود ہے جو آہستہ آہستہ توانائی کو اس کے اوپری حصّہ میں پہنچا رہا ہے جہاں وہ ہوا کو گرم کر کے اتنی تیز رفتار گردش کا سبب بن رہی ہے۔
نیپچون کے طوفان واقع بہت ہولناک ہیں۔تباہ کن طوفانوں کی تلاش ہم کو نظام شمسی سے باہر ایک نا معلوم مقام تک لے جاتی ہے۔ جس کے طوفانوں کے آگے نیپچون کے طوفان بھی بادصبا لگتے ہیں۔ کترینا طوفان تو "او سائرس" (Osiris)کے طوفانوں کے آگے ایک چھینک کی طرح لگتے ہیں۔ ہمارے تخیل کی بلندی بھی اس خلائی دنیا کے طوفانوں کی ہلاکت انگیزی کو نہیں پا سکتی۔ خلاء ان ستاروں اور سیاروں سے بھری ہوئی ہے جہاں بدنظمی کا دور دورہ ہے۔ ماہرین فلکیات نئے جہانوں کی تلاش کے لئے مستقل آسمانوں کی چھان بین کرتے رہتے ہیں۔ جیف مارسی ایک ماہر فلکیات ہیں اور ان کا کام نئے جہانوں کی تلاش کرنا ہے۔ وہ رات کو آسمان میں دور دراز ستاروں کے گرد نئے سیاروں کی تلاش کرتے ہیں۔
مارسی کی ٹیم کے آلات اس قدر حساس ہیں کہ وہ اس بات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان دور دراز سیاروں پر کیسا موسم ہوگا۔ او سائرس زمین سے ١٥٠ نوری سال دور ایک دوزخی سیارہ اپنے جہنمی موسموں کے ساتھ موجود ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ ٩ کروڑ ٣٠ لاکھ میل ہے جبکہ زمین سورج کے گرد اپنا ایک چکر پورے ایک سال میں مکمل کرتی ہے۔ مگر او سائرس کا اپنے ستارے سے فاصلہ صرف ٤٠ لاکھ میل ہے۔ اس کا اپنے ستارے کے گرد چکر صرف ٣۔٥ دن میں ہی مکمل ہوجاتا ہے۔ جب او سائرس اپنے ستارے اور ہمارے درمیان آتا ہے تو ستارے کی روشنی نہایت مختصر سے وقت کے لئے اس کی فضاء سے ہوتی ہوئی ہمارے پاس آتی ہے جس سے ہمیں اس خلائی دنیا میں جھانکنے کا موقع مل جاتا ہے۔ جب سیارہ اپنے میزبان ستارے اور ہمارے درمیان آتا ہے تو ان کی ٹیم اس مختصر سے عرصے میں اس کی فضاء کی کیمیائی ترکیب کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔
او سائرس پر اس کا ستارا آگ اگل رہا ہے جس سے وہاں کا درجہ حرارت ٢٠٠٠ ڈگری تک جا پہنچتا ہے اس کا سادہ سا مطلب ہے کہ وہاں ہماری جانی پہچانی زندگی تو موجود نہیں ہو سکتی۔ ستارے سے حاصل کردہ زبردست حرارت وہاں پر موجود گیسوں کو پھیلاتی ہے اور ان گیسوں کے پاس سیارے کے دوسری طرف جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس سیارہ کا ایک حصّہ ہمیشہ اپنے ستارے کی طرف ہی رخ کیے رکھتا ہے جبکہ دوسرا حصّے کا رخ خلاء کی طرف رہتا ہے۔ دونوں حصّوں کے درمیان درجہ حرارت کا تفاوت اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ کھولتے ہوئے حصّے کی طرف کی فضاء چنگھاڑ تی ہوئی سیارے کے تاریک حصّے کی طرف آواز کی رفتار سےبھی ٦ گنا زیادہ تیز دوڑتی ہے۔ کبھی کبھار تو ہواؤں کی رفتار ٢٠٠٠ یا ٣٠٠٠ میل فی گھنٹہ تک جا پہنچتی ہے۔ ہواؤں کی یہ زبردست رفتار زمین پر موجود ہیبت سے ہیبتناک طوفان کی رفتار سے بھی ١٠ سے ٢٠ گنا زیادہ ہوتی ہے۔ او سائرس ایک وحشی دنیا ہے بہت زیادہ گرم اور انتہا درجہ کی دنیا، جہاں ہم کسی بھی قسم کی زندگی پانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے(تصویر نمبر ١١)۔
او سائرس (Osiris) ایک آرٹسٹ کی
نظر میں
|
مگر کائنات میں تو اور بڑے بڑے عظیم طوفان موجود ہیں ایسے عظیم طوفان جو کہکشانی پیمانوں پر آتے ہیں اور یہ طوفان ہی شاید ہماری خلقت کا سبب ہیں۔ ہبل خلائی دوربین نے ایک شاندار تصویر لی ہے جو ایک کہکشاں NGC – 3079 کی ہے۔ اس تصویر میں اس کہکشاں کے قلب میں ایک زبردست قسم طوفان کا نظر آرہا ہے جو واقعی میں کونیاتی پیمانے کا طوفان ہے(تصویر نمبر ١٢)۔ اس کی شروعات کسی ستارے کی پیدائش کی وجہ سے ہوئی۔
NGC – 3079 کہکشاں میں آنے والا کہکشانی پیمانے کی
طوفان
|
یہ دھاڑھتا ہوا فلکی طوفان لگ بھگ ٣٠٠ نوری برس جتنا چوڑا ہے۔ اس کو شروع ہوئے دس لاکھ سال ہوچکے ہیں۔ گیس کی٢ کروڑ ڈگری تک گرم لپٹیں اس مرغولہ نما کہکشاں کے اوپر نظر آتی ہیں۔ یہ غیض و غضب سے بھرا ہوا کونیاتی طوفان اپنی مہمان کہکشاں میں سے تباہی پھیلا رہا ہے۔ ہم بلبلے اور فوارے گیس کی صورت میں کہکشاں میں گرتے ہوئے فلکی گرد و غبار کے ساتھ ٹکراتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ اس کونیاتی طوفان کی گیس کہکشاں کے قلب میں موجود گیس سے ٹکرا کر اس کو پیس ڈالتی ہے اور اس کو دبا کر گھومتے ہوئے مادّے میں بدل دیتی ہے۔ قوّت ثقل فوراً اپنی کارستانی شروع کرتی ہے اور اس دبی ہوئی گیس کے بادلوں کو اور زیادہ بھینچتی ہے جس سے کہکشاں کا قلب گرم سے گرم ہوجاتا ہے اور آخرکار ستارا وجود میں آجاتا ہے ۔ نئے ستارے سے پیدا ہوئی طاقتور ہوائیں خلاء میں پھیل جاتی ہیں اور ایک نیا عظیم فلکی طوفان پیدا ہوجاتا ہے اور یہ ایک نا ختم ہونے والے چکر کی طرح چلتا رہتا ہے۔
نوخیز ستاروں کے گرد دھول اور چٹانیں ایک ساتھ مل کر نئی چٹانی دنیاؤں کی تخلیق کرتی ہیں جن کی سطح پر زندگی کی شروعات ہو سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ زندگی کے شروع ہونے کا دارو مدار ان چکر کھاتی گیسوں اور عظیم کونیاتی طوفانوں پر ہی منحصر ہو۔ یہ گھومتی چکر کھاتی کونیاتی پیمانے کی ہوائیں ہی شاید ان ضروری عناصر کو کہکشاؤں میں پھیلاتی ہیں جوزندگی کی شروعات کی بنیادی اساس ہیں۔ لہٰذ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک طرح سے زندگی کی بنیاد فراہم کرنے میں یہ طوفان ایک کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
کونیاتی عظیم الجثہ طوفان دسیوں لاکھوں سالوں سے بھپرے ہوئے پھر رہے ہیں۔ ارب ہا سال پہلے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ہماری ملکی وے کہکشاں میں زندگی کو پروان چڑھانے کے لئے نئے جہاں بنائے ہوں۔ کسی بھی پیمانے سے ناپ لیں طوفان صرف تباہی و بربادی کی ہی قوّت نہیں ہیں بلکہ حیات کی تخلیق سے ان کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ دوسرے جہانوں میں زندگی کو تلاش کرنا ہے تو طوفانوں کو تلاش کیجئے۔ جمود کو توڑنے ہی سے مختلف نئے امکانات جنم لیتے ہیں۔ لہٰذا افراتفری اور بے ترتیبی حقیقت میں کسی بھی پیچیدہ نظام جیسے کے حیات کےشروع ہونے کے لئے ایک نہایت ہی اہم سبب ہیں۔
کسی بھی سیارے پر موسموں کی تبدیلی، آتش فشانوں کا پھٹنا، تباہ کن طوفانوں کا آنا اور کچھ ماحولیاتی اسباب کی وجہ سے زندگی کو وقتی طور پر نقصان تو پہنچ سکتا ہے مگر لمبے عرصے میں ان کا اثر حیات کے قائم و دائم رہنے کو مظبوط بناتا ہے۔ زمین پر طوفان آتے ہیں۔ دوسری دنیاؤں میں عظیم الجثہ طوفان آتے ہیں۔ چاہے یہ زحل کی کڑکڑاتی بجلی کے طوفان ہوں یا مشتری کی فضاء کے طوفان یا او سائرس کا جھلسا دینے والا درجہ حرارت ، وسیع ، بےقابو اور ہلاکت انگیز عظیم الجثہ طوفان زندگی کو شروع کرنے کے لئے "عمل انگیز" (Catalyst) کا کام سر انجام دیتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں