یہ بات ہر شک اور شبے سے بالا تر ہے کہ ہمارا "نظام شمسی"(Solar System) ایک نہایت پرآشوب جگہ ہے۔ زحل کے چاند "انسیلیڈس"(Enceladus) کے" برفیلے آتش فشاں"(Ice Volcanoes) ہوں یا مشتری کے چاند "آئی او(Io)" کے وسیع لاوے کے میدان یا پھر ہماری اپنی زمین کے آتش فشاں، آتش فشانوں کا کام صرف تباہی و بربادی پھیلانا نہیں ہے بلکہ یہ زندگی کو پروان چڑھانے اور اس کو رواں دواں رکھنے کی ایک انتہائی اہم کڑی ہیں. سچی بات یہ ہے کہ اگر آتش فشاں موجود نہ ہوتے توہمارا وجود بھی نہ ہوتا۔
آتش فشاں آب و ہوا کی ہئیت اور اس کے تغیر کے ذمے دار ہوتے ہیں. آتش فشاں صرف حیات کو معدوم ہی نہیں کرتے بلکہ حیات کو پروان بھی چڑھاتے ہیں۔ دورحاضر کے خلائی جہازوں اور دوربینوں نے ان جہانوں کے آتش فشاؤں کو دیکھا ہےجن کو ہم کبھی مردہ گردانتے تھے۔ ہمارے چندا ماما سے بھی چھوٹے اجرام فلکی میں موجود زندہ آتش فشانوں نے سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سائنس دان محو حیرت ہیں کہ کرۂ ارض کے علاوہ نظام شمسی میں اگرآتش فشاں موجود ہیں تو کیا وہ وہاں زندگی ملنے کے بھی کوئی آثار ہوں گے۔
آتش فشاں آب و ہوا کی ہئیت اور اس کے تغیر کے ذمے دار ہوتے ہیں. آتش فشاں صرف حیات کو معدوم ہی نہیں کرتے بلکہ حیات کو پروان بھی چڑھاتے ہیں۔ دورحاضر کے خلائی جہازوں اور دوربینوں نے ان جہانوں کے آتش فشاؤں کو دیکھا ہےجن کو ہم کبھی مردہ گردانتے تھے۔ ہمارے چندا ماما سے بھی چھوٹے اجرام فلکی میں موجود زندہ آتش فشانوں نے سائنس دانوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سائنس دان محو حیرت ہیں کہ کرۂ ارض کے علاوہ نظام شمسی میں اگرآتش فشاں موجود ہیں تو کیا وہ وہاں زندگی ملنے کے بھی کوئی آثار ہوں گے۔
کرۂ ارض بحر ظلمات میں ایک چمکتا ہوا نگینہ ہے. ہمارا غیر مختتم دیس خوبصورت اور ناقابل یقین حد تک خطرناک جگہ ہے. آتش فشاں کرۂ ارض کے طاقتور ترین مظاہر قدرت میں سے ایک ہیں. وہ صرف پرانی زمین کو برباد نہیں کرتے بلکہ نئی زمین کوبھی آباد کرتے ہیں. وہ فضاؤں میں ان گیسوں کو بکھیرتے ہیں جو ہوا کی ماہیت کو اس قابل بناتی ہیں کہ ہم اس میں سانس لے سکیں.
سمندر کی اتھاہ گھیرا یوں میں آتش فشانی حرارت غیر مانوس زندگی کو پروا ن چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے. آتش فشاں زمین پر زندگی کے وجود کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں. اب ہم غیر اراضی دنیاؤں میں حیات کی موجودگی کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں. ہم جانتے ہیں کہ حیات کے لئے سب سے زیادہ ضروری پانی ہے.اگر ہم یہ کہیں کہ زندگی کا دوسرا نام ہی توانائی ہےتو شاید غلط نہ ہوگا لہٰذا زندگی کے لئےتوانائی کا موجود ہونا بھی لازمی ہے اور بس یہیں سے آتش فشانوں کا کام شروع ہوجاتا ہے. وہ توانائی کی بے گراں مقدارگہرایوں سے نکال کر فضا میں بکھیردیتے ہیں.
شاید دوسرے جہانوں میں آتش فشانوں کو تلاش کرتے ہوئے ہم وہاں پر موجود حیات کو بھی کھوج لیں.ہماری تلاش ہمارےقریبی پڑوسی اور زمین کے جیسے نظر آنے والے سیّارے زہرہ سے شروع ہوگی.
زہرہ اور زمین کی کمیت قریب قریب ایک جتنی ہی ہے. دونوں کے مداروں کا فاصلہ بھی سورج سے لگ بھگ برابر ہی ہے. ہم ان دونوں سیّاروں کو ایک طرح سے جڑواں سیّارےکہہ سکتے ہیں.٣ ارب سال پہلے زمین اور زہرہ بالکل ایک ہی جیسے تھے. دونوں کے تازہ تازہ اراضی خطّے ، سمندر اور ماحول بنےتھے. دونوں سیّارے حیات کے لئے نہایت ہی موزوں تھے. مگر پھر زہرہ پر کچھ ایسا ہوا جس سے اس کی اور زمین کی راہیں بالکل جدا ہوگئیں.
زہرہ نے بہت پہلے ہی اندھیرے کی طرف رخت سفر باندھ لیا تھا. زمین کا شیطانی ہمزاد اب دوزخ کے ایک گہرے کنواں کی طرح ہے اور اس کی سطح آگ اگلتی بھٹی جیسی ہی ہے. زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت تقریبا"٩٠٠ ڈگری ہوتا ہے. یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ کچھ دھاتیں تو اس درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں. اس کی سطح پر توکوئی کھڑے ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا. زہرہ تو "گرین ہاؤس اثر"(Green House Effect) کی دنیا ہے. اس کی فضا گاڑھے کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے جو سورج کی حرارت کو کسی کمبل کی طرح ذخیرہ کرلیتی ہے. اس کی سطح گرم ترین، بنجر اور بانجھ ہے. زہرہ کی گاڑھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی فضا نے اس کو مردہ بنا دیا ہے. یہ کاربن ڈائی آکسائڈ زہرہ کے آتش فشانوں سے نکل رہی ہے.اس بات کا سب سے پہلے عندیہ زہرہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے خلائی جہازوں نے دیا تھا. خلائی جہاز پر موجود ریڈار نے اس کی گاڑھی فضا میں سے گھس کر اس کی سطح پر پھیلے ہوئے آتش فشانوں کی بناوٹ کا پتا لگا لیا تھا. ان کی بناوٹ زمین پر موجود ڈھالی آتش فشانوں جیسی ہی تھی جیسے کہ" ہوائی کا ڈھالی آتش فشاں" (Shield Volcanoes of Hawaii). ان کا نام ڈھال کے نام پر اس لئے پڑا کہ یہ اوپر سے بالکل گول دیکھتے ہیں اور نیچے ڈھلوان اترنے کے بعد چپٹے سےنظر آتے ہیں. یہ آتش فشاں آہستہ آہستہ رس رہے ہیں اور یہ آج سے نہیں بلکہ ہزاروں سال سے ایسے ہی رس رہے ہیں.
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ ہم بادلوں کو چیر کر اس میں گھسنے والے ریڈار سے زہرہ کی سطح کا نقشہ حاصل کرلیں تو پھر ہم اس کی سطح کا صحیح طریقے سے جائزہ لے سکتے ہیں. ہم نے زہرہ کی سطح کا نقشہ حاصل کرنے کے بعد بہت سی جانی پہچانی چیزیں دیکھیں. خاص طور سے جناتی ڈھالی آتش فشاں جو کافی حد تک ہوائی میں موجود ڈھالی آتش فشاں کے ہی جیسا ہے ریڈار سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زہرہ کے ڈھالی آتش فشاں بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہوائی میں موجود ڈھالی آتش فشاں ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کے زہرہ کے ڈھالی آتش فشاں معدوم اور مردہ ہیں.(تصویر نمبر ١ اور ٢)
سمندر کی اتھاہ گھیرا یوں میں آتش فشانی حرارت غیر مانوس زندگی کو پروا ن چڑھانے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے. آتش فشاں زمین پر زندگی کے وجود کو قائم رکھنے میں مدد دیتے ہیں. اب ہم غیر اراضی دنیاؤں میں حیات کی موجودگی کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں. ہم جانتے ہیں کہ حیات کے لئے سب سے زیادہ ضروری پانی ہے.اگر ہم یہ کہیں کہ زندگی کا دوسرا نام ہی توانائی ہےتو شاید غلط نہ ہوگا لہٰذا زندگی کے لئےتوانائی کا موجود ہونا بھی لازمی ہے اور بس یہیں سے آتش فشانوں کا کام شروع ہوجاتا ہے. وہ توانائی کی بے گراں مقدارگہرایوں سے نکال کر فضا میں بکھیردیتے ہیں.
شاید دوسرے جہانوں میں آتش فشانوں کو تلاش کرتے ہوئے ہم وہاں پر موجود حیات کو بھی کھوج لیں.ہماری تلاش ہمارےقریبی پڑوسی اور زمین کے جیسے نظر آنے والے سیّارے زہرہ سے شروع ہوگی.
زہرہ اور زمین کی کمیت قریب قریب ایک جتنی ہی ہے. دونوں کے مداروں کا فاصلہ بھی سورج سے لگ بھگ برابر ہی ہے. ہم ان دونوں سیّاروں کو ایک طرح سے جڑواں سیّارےکہہ سکتے ہیں.٣ ارب سال پہلے زمین اور زہرہ بالکل ایک ہی جیسے تھے. دونوں کے تازہ تازہ اراضی خطّے ، سمندر اور ماحول بنےتھے. دونوں سیّارے حیات کے لئے نہایت ہی موزوں تھے. مگر پھر زہرہ پر کچھ ایسا ہوا جس سے اس کی اور زمین کی راہیں بالکل جدا ہوگئیں.
زہرہ نے بہت پہلے ہی اندھیرے کی طرف رخت سفر باندھ لیا تھا. زمین کا شیطانی ہمزاد اب دوزخ کے ایک گہرے کنواں کی طرح ہے اور اس کی سطح آگ اگلتی بھٹی جیسی ہی ہے. زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت تقریبا"٩٠٠ ڈگری ہوتا ہے. یہ اتنا گرم ہوتا ہے کہ کچھ دھاتیں تو اس درجہ حرارت پر پگھل جاتی ہیں. اس کی سطح پر توکوئی کھڑے ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا. زہرہ تو "گرین ہاؤس اثر"(Green House Effect) کی دنیا ہے. اس کی فضا گاڑھے کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے جو سورج کی حرارت کو کسی کمبل کی طرح ذخیرہ کرلیتی ہے. اس کی سطح گرم ترین، بنجر اور بانجھ ہے. زہرہ کی گاڑھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی فضا نے اس کو مردہ بنا دیا ہے. یہ کاربن ڈائی آکسائڈ زہرہ کے آتش فشانوں سے نکل رہی ہے.اس بات کا سب سے پہلے عندیہ زہرہ کے گرد چکر لگاتے ہوئے خلائی جہازوں نے دیا تھا. خلائی جہاز پر موجود ریڈار نے اس کی گاڑھی فضا میں سے گھس کر اس کی سطح پر پھیلے ہوئے آتش فشانوں کی بناوٹ کا پتا لگا لیا تھا. ان کی بناوٹ زمین پر موجود ڈھالی آتش فشانوں جیسی ہی تھی جیسے کہ" ہوائی کا ڈھالی آتش فشاں" (Shield Volcanoes of Hawaii). ان کا نام ڈھال کے نام پر اس لئے پڑا کہ یہ اوپر سے بالکل گول دیکھتے ہیں اور نیچے ڈھلوان اترنے کے بعد چپٹے سےنظر آتے ہیں. یہ آتش فشاں آہستہ آہستہ رس رہے ہیں اور یہ آج سے نہیں بلکہ ہزاروں سال سے ایسے ہی رس رہے ہیں.
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر ایک دفعہ ہم بادلوں کو چیر کر اس میں گھسنے والے ریڈار سے زہرہ کی سطح کا نقشہ حاصل کرلیں تو پھر ہم اس کی سطح کا صحیح طریقے سے جائزہ لے سکتے ہیں. ہم نے زہرہ کی سطح کا نقشہ حاصل کرنے کے بعد بہت سی جانی پہچانی چیزیں دیکھیں. خاص طور سے جناتی ڈھالی آتش فشاں جو کافی حد تک ہوائی میں موجود ڈھالی آتش فشاں کے ہی جیسا ہے ریڈار سے حاصل کردہ معلومات کی بنا پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زہرہ کے ڈھالی آتش فشاں بالکل ایسے ہی ہیں جیسے کہ ہوائی میں موجود ڈھالی آتش فشاں ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کے زہرہ کے ڈھالی آتش فشاں معدوم اور مردہ ہیں.(تصویر نمبر ١ اور ٢)
1. امریکی ریاست ہوائی میں موجود ڈھالی آتش فشاں |
ماضی کے کسی حصّے میں زہرہ کے اوپر بھی زندہ آتش فشاں موجود تھے. زہرہ پر موجود آتش فشاں کی پہلی تصویر دیکھ کر سائنس دان انگشت بدہاں رہ گئے. انہوں نے وہاں ایک آتش فشان کی داغ دار سطح دیکھی. وہاں ایک ہزار کے قریب بہت بڑے جبکہ لاکھوں کے قریب چھوٹے آتش فشاں موجود تھے. زہرہ کی تین چوتھائی سطح لاوے سے ڈھکی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں کبھی قیامت صغرا برپا ہوئی ہوگی. وہ زندگی کو پروان چڑھانے کا مسکن بھی بن سکتا تھا مگر اس نے ایک دوسری راہ چن لی اور وہ آگ سے گھر گیا. آتش فشاؤں نے دسیوں کھرب ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ زہرہ کی فضا میں اگل دی. جس کی وجہ سے درجہ حرارت چڑھ گیا. سمندر ابل کر سوکھ گئے. بے قابو گرین ہاؤس کے اثر کا عمل شروع ہوگیا.
کرۂ ارض پر کاربن ڈائی آکسائڈنہ صرف چٹانوں میں بلکہ یہ تو سمندروں میں بھی جذب ہوجاتی ہے. زہرہ پر پانی نہیں تھا اور درجہ حرارت بھی نہایت بلند ہوگیا تھا لہٰذا کاربن ڈائی آکسائڈ اب چٹانوں میں بھی جذب نہیں ہوسکتی تھی. ماضی کے کسی وقت میں آتش فشانوں نے کاربن ڈائی آکسائڈکو زہرہ کی فضا میں چھوڑنا شروع کردیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائڈ کو واپس چٹانوں میں جذب ہونے کے مواقع کم ہوتے گئے. اگر زہرہ پر کبھی زندگی موجود ہوتی تو آتش فشاں اس کو ختم کرچکے ہوتے.
ابھی تک صرف ہم سیّارہ زمین کے علاوہ کسی اور جگہ کو نہیں جانتے جہاں حیات کسی شکل میں موجود ہوالبتہ شاید مستقبل میں ہم کچھ اور جگہیں بھی ڈھونڈ نکالیں جہاں زندگی موجود ہو.دیوہیکل سیّارہ مشتری کے چاند وں کوکبھی ہم مردہ اور منجمد سمجھتے تھے. لیکن جب ہم نے ان کا قریب سے جائزہ لیا تو نہایت حیرت انگیز انکشاف ہواوہاں اس سرد دنیا میں ایک بادل ٹنگا ہوا نظر آرہا تھا. آتش فشانوں نے زہرہ کو جو زمین سے بہت مماثلت رکھتی تھی ایک گرم ترین دوزخ کا دروازہ بنا دیا تھا.
زمین جیسے کسی چٹانی سیّارہ میں آتش فشاں کا ملنا کوئی زیادہ حیرت کی بات نہیں ہے. مگر کسی چاند پر اس کا ملنا کسی جھٹکے سے کم نہیں ہے۔ مارچ ۱۹۷۹ء میں وائیجر-١ خلائی جہاز نے نہایت قریب سے مشتری کے چھوٹے چاند آئی او کی اولین تصاویرلے کر زمین پر ارسال کیں. ان تصاویر میں ایک ایسی دنیا جس کو ہم سرد اور مردہ سمجھتے تھے،کچھ نہایت ہی حیرت انگیز چیزدکھا رہی تھی . ان تصاویر میں آئی او چاند سے آگے ایک" قوس" (Arc) سی چیز بنی نظر آر ہی تھی . بالکل ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کہ اس کے پیچھے بھی کوئی چاند موجود ہے. اس تصویر کو دیکھ کر سائنس دان سر کھجانے لگے. وہ سوچ میں پڑھ گئے کہ یہ کیا چیز ہوسکتی ہے. اس وقت تک ہر کسی کو پتا تھا کہ آئی او ایک مردہ، غیر دلچسپ اور بیزار کن جگہ ہے. مگر پھر اچانک سائنس دانوں کو احساس ہوا کہ یہ تو جوالا مکھی پھٹنے کا منظر ہے. انہوں نے آئی او کی سطح پر موجود آتش فشاں کو کھوج لیا تھا. (تصویر نمبر ٣)
3. اوپر باہنی طرف - مشتری کے چاند آئی او(IO) کے جوالا مکھی پھٹنے کا منظر |
ماہرین نے اندازہ لگایا کہ یہ چاند تو خطرناک حد تک ارضیاتی طور پر متحرک ہے. وہاں تو ہر وقت جوالا مکھی پھٹتے رہتے ہیں. وہاں پر موجود آتش فشاں نہایت گرم سلفر اگلتے رہتے ہیں. جب سلفر کا درجہ حرارت تبدیل ہوتا ہے تو اس کی رنگت بھی بدل جاتی ہے. وہ کبھی لال ہوتی ہے تو کبھی نارنجی تو کبھی پیلی تو کبھی کالی. لہٰذا آئی او تصویروں میں کسی "پیزا" (Pizza)کی طرح نظر آتا ہے جس کی سطح مختلف قسم کے پنیر اور کھمبیوں سے بھری ہوتی ہے اور اس میں موجود کالے سوراخ زیتون جیسے لگتے ہیں.
4. مشتری کے چاند آئی او (Io)پر موجود پیلے (Pele)کا آتش فشاں جس کے چاروں طرف ایک سرخ رنگ کا حلقہ سا بنا ہوا ہے۔ |
آئی او مردہ نہیں تھا. وہاں ٤٠٠ سے بھی زیادہ زندہ آتش فشاں موجود تھے. سب سے بڑا آتش فشاں" پیلے" (Pele)لاوے کی عظیم الجثہ جھیل سے پھٹ کر نکل رہا تھا(تصویر نمبر ٤). یہ فضا میں لگ بھگ ٢٥٠ میل اوپر تک جا پہنچتا ہے. پیلے (Pele)کے یہ آتش فشاں خلاء میں اس قدر دور تک اس لئے جاتے ہیں کہ آئی او بہت چھوٹا ہے اور اس پر کوئی ایسی چیز موجود نہیں ہے جو ان کو خلاء میں اتنی دور جانے سے روک سکے اس کی فضا نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ قوّت ثقل بھی بہت معمولی سی ہے. ان عظیم الشان آتش فشانوں کے آگے زمین کے آتش فشاں تو معمولی سے پٹاخے ہیں.
اتنے چھوٹے سے چاند کا اس قدر آتش فشانی ہونے کا سبب مشتری ہے. جس طرح زمین کے سمندروں میں ہمارا مہتاب" مدو جزر" (Tides)پیدا کرتا ہے بالکل اسی طرح مشتری آئی او پر مدو جزر پیدا کرتا ہے مگر یہ مدو جزر سمندر کے بجائے ٹھوس چٹانوں پر اثر انداز ہوتا ہے. آئی او کا مدار مشتری کے گرد گول نہیں بلکہ بیضوی ہے. کبھی یہ مشتری کے نزدیک ہوتا ہے کبھی اس سے دور جس سے مشتری کی قوّت ثقل اس کے قلب کو آگے پیچھے حرکت میں رکھتی ہے. قوّت ثقل کبھی بہت زیادہ قوّت کے ساتھ اثر انداز ہوتی ہے تو کبھی کم قوّت کے ساتھ جس کی وجہ سے آئی او چاند کا قلب کھینچتا اور دبتا ہے اس کو" مدو جزر کی قوّت"(Tidal Force) کہتے ہیں. اگرچہ یہ بہت زیادہ تو قلب کو اتھل پتھل نہیں کرتی مگر یہ" رگڑ" (Friction) اتنی ہوتی ہے کہ اس کا قلب گرما جاتا ہے. جس طرح ہم ہاتھوں کو آپس میں رگڑکرحرارت حاصل کرتے ہیں یہ رگڑ بالکل اسی اصول پر گرمی پیدا کرتی ہے.
مشتری کی قوّت ثقل آئی او کو کھینچتی اور دباتی ہے. مدار میں چکر پورا کرنے کے دو دنوں میں آئی او چاند کی سطح ٣٠٠ فٹ تک اوپر اٹھتی ہے اور پھر اتنا ہی نیچے جاتی ہے. مشتری کی قوّت ثقل کے یہ لگا تار مکّے آئی او پر زبردست حرارت اور دباؤ پیدا کرتے ہیں. آئی او کی سطح جہاں کہیں کمزور ہوتی ہے وہیں سے لاوا باہر نکل آتا ہے. اس کا مطلب ہے کہ آتش فشاں پورے کے پورے چاند پر موجود ہیں زمین کی طرح نہیں جہاں کچھ جگہیں پلیٹ کی جانب متحرک ہوتی ہیں یا کچھ کمزور حصّوں کی طرف مگر آئی او تو پورا کا پورا ہی متحرک اور زندہ آتش فشاں ہے. مشتری کی زبردست قوّت ثقل نے آئی او کو پورے نظام شمسی کا سب سے زیادہ عامل اور زندہ آتش فشاں بنا دیا ہے.
آئی او پر موجود آتش فشانوں نے ہمیں کافی نئی چیزیں بتائی ہیں .اس سے ہمیں پتا چلا کہ وہاں پر موجود آتش فشانوں کی اندرونی توانائی حاصل کرنے کا طریقہ زمین پر موجود آتش فشانوں کی توانائی حاصل کرنے سے بالکل ہی مختلف ہے. بیرونی خلاء میں مدو جزر کی قوّت "گیسی دیوہیکل"(Gas Giants) سیّارے کے چاند کے قلب کو توڑ مروڑ کر بھی آتش فشانی سرگرمی شروع کر سکتی ہے.
آئی او لاوے کی اتنہائی گرم اورخطرناک دنیا ہے. اس بات کا امکان بہت مشکل ہے کے وہاں حیات کا کوئی نام و نشان مل سکے. آئی او پر اور زمین پر دونوں جگہ آتش فشانوں کے کام کرنے کا اصول ایک ہی ہے. دباؤ کے ذریعہ انتہائی گرم" میگما" (Magma)سطح کے نیچے سے" قشر ارض"(Crust) میں شگاف ڈالتا ہوا باہر نکلتا ہے. مگر سارے آتش فشانوں کو میگما کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ کچھ تو گرم بھی نہیں ہوتے.
مشتری سے آگے بیرونی خلاء میں در حقیقت نہایت ہی ٹھنڈ ہے. انتہائی دور خلاء میں موجود" ٹرائٹن" (Triton)اس قدر ٹھنڈا ہے کہ اس کا نہایت لطیف کرۂ ہوائی جم کر ٹھوس شکل اختیار کرلیتا ہے. اتنی ٹھنڈ کے باوجود بھی وہاں آتش فشاں موجود ہیں. یہ آتش فشاں" ماوراء ارض کی حیات"(Alien Life) سے متعلق راز کے امین ہوسکتے ہیں. ہم سمجھتے تھے کہ آتش فشاں پتھر کی ٹھوس چٹانوں میں ہی موجود ہو سکتے ہیں. زمین کی اتھاہ گہرایوں میں چٹانیں اس قدر گرم اور دباؤ میں ہوتی ہیں کہ وہ دھماکے کے ساتھ لاوے کی شکل میں پھٹ پڑتی ہیں. مگر نظام شمسی میں موجود سارے آتش فشاں اس طرح کام نہیں کرتے. کچھ جہانوں میں تو آتش فشاں پگھلی ہوئی چٹانوں کا تو بالکل بھی استعمال نہیں کرتے.
سورج کے سیّاروں کی سرحد کے عین سامنے ٹرائٹن "برفیلے دیو"(Ice Giant) نیپچون کے گرد چکر لگاتا ہے. سورج سے ٢.٥ ارب میل کی دوری پر درجہ حرارت جما دینے والا ٣٦٠ ڈگری صفر درجہ حرارت سے بھی نیچے ہوتاہے. جب ناسا کا کھوجی وائیجر یہاں سے گزرا تو اس نے ہم پر ایک ایسی دنیا کو آشکار کیا جو تقریبا"مکمل طور پر نائٹروجن گیس کی برف سے ڈھکی ہوئی تھی. مگراس کھوجی جہاز نے کچھ اور بھی حیرت انگیز چیزوں کا بھی وہاں مشاہدہ کیا. اس نے وہاں "کالی سی دھندلاہٹ"(Black Smudges) کو دیکھا جو ایک ہی سمت کی طرف جا رہی تھی یوں لگ رہا تھا جیسے ہوا کسی کالی چیز کو ایک طرف بہا رہی ہے. (تصویر نمبر ٥)
5. نیپچون کے چاند ٹرائٹن پر موجود برفیلا آتش فشاں ایک مصّور کی نظر میں |
ایک ایسی دنیا جو نائٹروجن گیس تک کو منجمد کر دے وہاں اس قسم کی سرگرمی کا نشان ملنا بہت ہی عجیب بات تھی. صفر درجہ حرارت سے ٤٠٠ ڈگری نیچے آتش فشاں موجود تھے. پگھلی ہوئی چٹانوں کو بھول جائیں ٹرائٹن نائٹروجن اور اپنی خاک کو فضا میں اگل رہا تھا. اس پر موجود چشمے میں نا صرف مائع نائٹروجن ایک رقیق سیال کی شکل میں موجود تھی بلکہ وہاں پر کچھ ہلکی گرد و غبار بھی تھی جو کمزور ہواؤں کے باوجود فضاء میں اور دور تک جارہی تھی.اس طرح ان دو چیزوں کے غبار نے مل کر برفیلا علاقہ اور قدرے تاریک دھندلا علاقہ تشکیل دے دیا تھا اور یہ دھندلا حصّہ چاند کی خاک سے بنا تھا.
ٹرائٹن کی سطح پر نائٹروجن برف کی شکل میں ہے جبکہ اس کے نیچے نائٹروجن کے تالاب موجود ہیں. سائنس دانوں کے خیال میں ایک برفیلی نائٹروجن کی ایک شفاف پرت وہاں موجود ہے جو روشنی و حرارت کو اندر آنے تو دیتی ہے مگر باہر نکلنے نہیں دیتی جس کی وجہ سے ایک طرح کا گرین ہاؤس اثر ٹرائٹن پر چل رہا ہے. یہ بالکل اسی طرح کام کررہا ہے جیسے کہ زمین پر موجود نبات خانہ کام کرتا ہے وہ روشنی کو تو اندر آنے دیتا ہے مگر حرارت کو باہر نکلنے نہیں دیتا. سورج کی روشنی سطح سے گزرتی ہوئی نیچے موجود نائٹروجن کو گرم کردیتی ہے. نائٹروجن کو مائع میں تبدیل ہونے کے لئے صرف چند ڈگری ہی حرارت کی ضرورت ہوتی ہے. درجہ حرارت کا اتنا اتار چڑھاؤ ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ وہ ٹرائٹن کی سطح کے نیچے موجود نائٹروجن کو پگھلا کر چشموں کے ذریعہ فضاء میں پھینک سکے. ٹرائٹن پر موجود"برفیلے آتش فشاں"(Cryovolcano) اس قدر سرد ہیں کہ وہ جو کچھ بھی فضاء میں اگلتے ہیں وہ اتنا ٹھنڈا ہوتا ہے کہ پانی کو پتھر کی طرح جما سکتا ہے.(تصویر نمبر ٦)
6. نیپچون کے چاند ٹرائٹن پر موجود چشمے (Geysers) ایک مصّور کی نظر میں |
نظام شمسی اس سے کہیں زیادہ متحرک ہے جتنا ہم پہلے سمجھتے تھے. ہم اب تک کئی سیّاروں کے چاندوں پر عجیب سے انفجار وں کو دریافت کر چکے ہیں. مگر ابھی تک آتش فشاں اور حیات کی آپس میں کڑی صرف زمین پر ہی مل پائی ہے.
"یوروپا" (Europa)مشتری کا چاند اس کے گرد سورج سے ٥٠ کروڑ میل دوری پر چکر لگا رہا ہے. یہ ٢٠٠٠ میل پر پھیلی ہوئی چٹان کی طرح سخت برف کی گیند کی مانند ہے. دور سے اس کی سطح ہموار لگتی ہے مگر جب ہم اس کو قریب سے دیکھتے ہیں تو وہ ایک الگ ہی کہانی سناتی ہے. مشتری کی عظیم قوّت ثقل اس پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتی ہے جس طرح اس کے پڑوسی آئی او پر ہوتی ہے. اس کی سطح بھی ویسی ہی پھیلتی اور سکڑتی ہے جو سطح میں دراڑ اور گہرے شگاف ڈال دیتی ہے. یوروپا کی قریب سے لی جانے والی تصاویر کے جائزہ لینے سے اس کی سطح کچھ جانی پہچانی سی لگتی ہے.
جب ہم قطب شمالی کے اوپر سے پرواز کرتے ہوئے گزریں تو برف کے تودے سمندر کے اوپر تیرتے ہوئے نظر آتے ہیں یوروپاکی سطح بھی بالکل ایسی ہی لگتی ہے. یوروپا پر برف کی سطح کئی میل گہری ہے جس کے نیچے ایک عظیم الشان بہتا ہوا سمندر ہے. مقناطیسی اعداد و شمار اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ یوروپا کے سمندر کی گہرائی دماغ کی چولیں ہلا دینے والی ہے اس کی گہرائی لگ بھگ ٦٠ میل ہے.(نوٹ: کرۂ ارض پر موجود سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی تقریبا"٧ میل ہے). مشتری کی قوّت ثقل اس کےچٹانی قلب کو گرماتی ہے نتیجتا" وہ برف کو پگھلا دیتی ہے. یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ قوّت ثقل کے اثر سے کھینچتی ہوئی گرم اور پگھلی ہوئی قلب اور مائع پانی کے درمیان کسی قسم کی کوئی رکاوٹ ایک سرحد کا کام دے رہی ہوگی.
کرۂ ارض پر زیر زمین پانی کے سوتے حیات سے لبریز ہیں ہوسکتا ہے کہ یوروپا پر بھی ایسا ہی ہو. مگر یوروپا کے سمندر میں مکمل تاریکی ہے اور اس کا شدید دباؤ زمینی دباؤ سے ٢٠٠٠ گنا زیادہ ہے. ہوسکتا ہے کہ یہ وحشی دنیا حیات کی کسی سادہ شکل کے لئے سازگار ہو. اگر زندگی زمین پر قدم جما سکتی ہے تو یوروپا پر کیوں نہیں پھل پھول سکتی. حیات کوشروع کرنے والے سارے اجزاء ترکیبی وہاں پر موجود ہیں. توانائی کے وسیع منبع آتش فشانوں کی صورت میں وافر مقدار میں موجود ہیں. کائناتی حل پذیر یعنی مائع پانی پورے کرۂ پر سطح کے نیچے موجود ہے اور زرخیز نامیاتی مرکبات سب کچھ تو ہے . ساڑھے تین ارب سال پہلے یہی اجزاء تراکیبی کرۂ ارض پر موجود تھے اور زمین کاماحول بھی یوروپا کے جیسا ہی تھا. تو جب حیات زمین پر شروع ہوسکتی ہے تو وہاں یوروپا پر کیوں نہیں؟
یوروپا پر حیات کا ہونا اور پنپنا مشکل ضرور ہے پر نا ممکن نہیں ہے. زمین پر گرم ترین مقام ہو، یا شدید دباؤ جھیلتی ہوئی کوئی جگہ یا پھر مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا کوئی مقام زندگی تو ہر جگہ موجود ہے. یوروپا پر موجود ماوراء ارض حیات حیرت انگیز طور پر زمینی حیات کے مماثل ہوسکتی ہے. اگر یوروپا کی برفیلی سطح کے نیچے زندگی موجود ہوئی تو وہ آبی حیات ہی ہوگی مگر وہ آنکھوں سے محروم ہوگی کیونکہ وہاں سطح کے اندر تو روشنی نہیں پہنچ سکتی اور اس کا سمندر ہمیشہ اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوگا. وہاں پر موجود جاندار روشنی کے بجائے صوتی حس کو اپنے ارد گرد کی چیزوں کو پہچانے اور ان سے رابطے کے لئے استعمال کررہے ہوں گے. آتش فشانوں سے حاصل توانائی سے جاندار نشونماء پا رہے ہوں گے. یوروپا پر آتش فشاں نئی زندگی کو پروان چڑھانے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں. یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یوروپا پر متوقع زندگی کائنات میں موجود دوسرے جہانوں میں احتمالی طور پر ملنے والی زندگی ہی کی طرح ہو جبکہ زمین پر ملنے والی زندگی خلاف معمول ہو.
ذرا سوچئے کہ یوروپا میں ملنے والی زندگی کائنات میں موجود ارب ہا ارب چاندوں کے بہتے ہوئے پانی کےسمندروں میں بھی موجود ہو سکتی ہےحیات کو تلاش کرنے کا ہمارا دائرۂ نظر مشتری کے مہتابوں کو دیکھ کر اچانک ارب ہا گنا بڑھ گیا. کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ صرف ہمارے نظام شمسی میں موجود سیّاروں کے ہی تقریبا" ١٧٠ کے قریب مہتاب ہیں. اس تعداد کو کائنات میں موجود ستاروں سے ضرب دیں اور اس سے حاصل ہونے والی دماغ کو ہلا دینے والی تعداد کے جتنی جگہیں کائنات میں موجود ہیں جہاں زندگی ہونے کا احتمال ہے.ماہرین کے مطابق حیات کی موجودگی کے لئے صرف مائع پانی اور توانائی کے سوتے موجود ہونے چاہیئں. اب تک کا تجربہ اور ارضیاتی علم تو یہ ہی بتا تا ہے کہ آتش فشاں یہ دونوں چیزیں بہم پہنچاتے ہیں اور آتش فشاں ہر جگہ ہی موجود ہیں.
زحل سورج کے گرد مشتری سے تقریبا"دگنے فاصلے پر مدار میں چکر کاٹ رہا ہے. اس کے قمروں پر بھی آتش فشاں موجود ہیں جو یوروپا چاند کی طرح زندگی کا مسکن ہوسکتے ہیں. نظام شمسی میں موجود اب تک کی دریافت کردہ سب سے عجیب دنیا زحل کی ہے.٦ لاکھ میل پر پھیلا ہوا چھلوں کا نظام، ٦٢ چاند جس میں سے ایک راز میں ڈوبا ہوا چاند ہے. انسیلیڈس زحل کے چھوٹے اور دور کےچاندوں میں سے ایک ہے. کافی عرصہ سے یہ بات مسلمہ تھی کہ وہ پورا برف سے ڈھکا ہوا ہے اسی لئے وہ کافی چمکدار روشنی کو منعکس کرنے والا ہے. جب کیسینی خلائی جہاز وہاں پہنچا تو اس نے کافی حیرت انگیز چیز دیکھی. اس کھوجی نے ناقابل یقین حقیقت کو ہم پر آشکار کیا.اس کھوجی نے دیکھا کہ عقبی طرف سے سورج سے روشن ہوتا ہوا جناتی دھویں کا بادل خلاء میں اڑا جا رہا تھا. یہ آتش فشانی کاروائی کا ایک واضح نشان تھا. یہ ایک زبردست دریافت تھی جس نے سائنس دانوںکو عشروں سے موجود زحل کے چھلے "E" سے متعلق پہیلی کو سلجھانے میں مدد دی.(تصویر نمبر ٧)
7. زحل کے حلقے "E" میں چھوٹا سا کالا دھبہ اس کا چاند انسیلیڈس ہے .
زحل کے انتہائی بیرونی حصّے میں موجود چھلے بہت وسیع رقبے تقریبا" ٢ لاکھ میل پر پھیلے ہوئے ہیں. سائنس دانوں کے تخمینے کے مطابق ان کو یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا. برف کے ذرّے جو ان چھلوں کا زیادہ تر حصّہ ہیں زحل سے اتنی دوری پر اس کے مدار میں ٹک نہیں سکتے تھے. وہ خلاء میں مستقل فرار ہورہے تھے مگر کوئی چیز ایسی تھی جو ان کی تعداد کو پھر سے اتنا ہی کردیتی تھی اور وہ چیز تھی انسلیڈس کے برفانی آتش فشاں. انسلیڈس کے جنوبی قطب سے اٹھتے ہوئے دھویں کے بادل خلاء میں جا کر کہیں غائب نہیں ہورہےہیں بلکہ زحل کے چھلے "E" کو تشکیل دے رہے ہیں. اس طرح سے یہ ننھا سا چاند اپنے سیّارے کو کچھ واپس دے رہا ہے.انسیلیڈس کے آتش فشانوں سے پانی خلاء میں جاتے ہی فورا"جم کر برف کے ذروں میں تبدیل ہوکر زحل کے وسیع چھلے "E" بنا رہا ہے.
ماہرین اپنی ایک پہیلی کو سلجھا کر ابھی اس کا جشن بھی نہیں منا سکے تھے کہ ایک اور پہلی آکھڑی ہوئی کہ آخرکار آتش فشانی دھواں وہاں کون سی چیز پیدا کررہی ہےکیسینی کھوجی کے کیمروں نے انسیلیڈس کے جنوبی قطبین کا نہایت قریب سے جائزہ لیا اس نے وہاںسطح پر موجود نہایت بڑی کھائیں دیکھیں . انسیلیڈس کے جنوبی قطبین پر بہت بڑے بڑے شگاف موجود تھے انسیلیڈس زحل کے گرد جیسے جیسے مدار میں چکر کاٹتا ہے ویسے ویسے یہ شگاف اس کی مدو جزر کی قوّت سے کھلتے اور بند ہوتے رہتے ہیں. یہ دراڑیں نہایت ہی عظیم الشان ہیں اور سیکڑوں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں اور جب یہ دراڑیں کھلنا شروع ہوتی ہیں تو ان کے کھلنے کی رفتار ١٠٠ میل فی گھنٹہ ہوتی ہے. یہ نظارہ واقعی قابل دید ہوتا ہے.طاقتور قوّت ثقل ان دراڑوں کو بہت ہی تیزی کے ساتھ کھولتی اور بند کرتی ہے(تصویر نمبر ٨). جیسے کہ یوروپا اور آئی او کا مشتری کے گرد مدار بیضوی ہے بالکل اسی طرح زحل کے گرد انسیلیڈس کا مدار بھی بیضوی ہی ہے. اس بیضوی مدار کی وجہ سے ہی حرارت پیدا ہوکر برف کو پگھلاتی ہے جس سے اس کی سطح کے نیچے سمندر بنتا ہے.
8. انسیلیڈس کی سطح پر موجود دراڑیں |
انسیلیڈس کی سطح کے نیچے موجود پانی کی حالت حیات کے لئے انتہائی موزوں ہے. اس کا درجہ حرارت بھی نہایت ہی مناسب ہے جبکہ دباؤ بھی حیات کے لئے بالکل ٹھیک ہے.امکان یہ ہی ہے کہ مائع پانی بھی بالکل زمین میں موجود سمندروں کے پانی جیسا ہوگا. ان چھیدوں سے نکلتے ہوئے پانی کی کیمیائی ترکیب ہمارے سمندری پانی جیسی ہی ہے. نا صرف اس میں نمک موجود ہے بلکہ اس میں نامیاتی مرکبات بھی موجود ہیں. آخرکار ہم نے نظام شمسی میں ایسی جگہ کھوج نکالی جہاں ہوسکتا ہے کہ حیات اس وقت بھی موجود ہو. کیسینی نے ان برفیلے دھویں کے بادلوں میں پیچیدہ کاربنی سالمات بھی دیکھے ہیں جو مائع پانی کے ساتھ مل کراس پرسرار چاند پر زندگی کے پنپنے کا عندیہ دے رہے ہیں.
اکیلا انسیلیڈس ہی زندگی کے موجود ہونے کی نوید نہیں سنا رہا زحل کا چاند ٹائٹن جو نظام شمسی کا سب سے بڑا چاند ہے وہ بھی زندگی کا مسکن ہوسکتا ہے. یہ نظام شمسی کا واحد چاند ہے جہاں کثیف فضاء موجود ہے. ایک منجمد دنیا جہاں برف پتھر کی طرح سخت ہے اور مائع میتھین کی جھیلیں ہیں. ان سب کے باوجود ہم یہاں آتش فشانوں کے موجود ہونے کے ثبوت اور ترسانے دینے والی ماوراء ارض زندگی پا سکتے ہیں. آئی او کی غضبناک دوزخی سطح اور برف اور نائٹروجن اگلتے ہوئے ٹائٹن کے آتش فشاں کائنات میں موجود تباہی مچانے والی قوّتوں میں سے ایک ہیں. مگر ان فنا کرنے والی قوتوں کے قلب سے ہی زندگی کے بیچ پھوٹنے کا امکان ہوتا ہے. زحل کے پرا سرا ر چاند پر بھی ایسا ہی ممکن ہے. یہ ٣٠٠٠ میل رقبے پر پھیلا ہوا چاند ، سیّارہ عطارد سے بھی بڑا ہے. یہ ہمارے نظام شمسی کا واحد چاند ہے جس کی کثیف کرۂ فضائی ہے. یہاں موسم ، طوفان، ہوا، بارش یہاں تک کے جھیلیں بھی موجود ہیں یہاں اس قدر ٹھنڈ ہے کہ مائع میتھین نے پانی کی جگہ لے لی ہے. یہ ان کیمیائی عناصر سے بھرا ہوا ہے جو زندگی کو رواں رکھنے کے لئے ضروری ہیں.
ٹائٹن نظام شمسی میں موجود ایک سب سے زیادہ دلچسپ جگہ بن کر ابھرا ہے. یہ بہت ہی متحرک دنیا ہے جس کا کرۂ فضائی زمین کی طرح زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے. اس کی فضا نامیاتی سالموں سے بھرپور ہے. ٹائٹن کی فضاء میں موجود نائٹروجن سورج کی روشنی کے ساتھ تعامل کر کے وہ کیمیائی عناصر تشکیل دیتی ہے جن پر زندگی کا انحصار ہوتا ہے. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب سورج کی روشنی مسلسل میتھین کے ساتھ تعامل کرکے اس کے نامیاتی سالموں میں توڑ رہی ہے تو پھر اس کی فضا میں موجود میتھین کو تو ختم ہو جانا چاہئے. مگر پھر کیوں اس کی فضاء میتھین گیس سے لبریز ہے .جبکہ ہمیں یہ بات بھی معلوم ہے کہ میتھین تو سورج کی روشنی کے ساتھ تعامل کرکے بہت ہی کم عرصہ میں تبدیل ہوجاتی ہے لہٰذا اس کو تو فضاء میں موجود ہونا ہی نہیں ہونے چاہئے تھا.ان تمام باتوں کے باوجود وہ اس کی فضاء میں موجود ہےلہٰذا وہاں پر ضرور کوئی میتھین کا منبع ہونا چاہئے تھا. کوئی تو ایسی چیز تھی جو فضاء کو مسلسل میتھین مہیا کررہی تھی.
کیسینی نے وہاں ایک گھاٹی کا دہانہ دیکھا. اس گھاٹی کا اندرونی حصّہ اتنا گہرا تھا جتنا کہ "گرینڈ کینیون"(Grand Canyon) کا ہے. انفرا ریڈ کیمروں کی مدد سے وہاں گھاٹی کے آ س پاس مختلف قسم کی مٹی نظر آئی. سائنس دانوں کے مطابق وہاں پر موجود سبز حصّے کسی آتش فشاں کا حصّہ ہیں اور امکانی طور پر وہ لاوے کے میدان ہیں جو ٹائٹن کے اندروں سے نکل کر سطح پر پھیل گئے ہیں(تصویر نمبر ٩). اگر سائنس دانوں کا خیال درست ہوا تو لاوا کے یہ میدان زبردست ٹھنڈے برف کے چورے"(Super Chilled Icy Slush) پر مشتمل ہوں گے. لیکن اگر اس برفیلے چورے کو ٹائٹن پر موجود دوسری جگہوں کے درجہ حرارت سے تقابل کریں تو یہ ان کے مقابلے میں اس قدر ٹھنڈے نہیں ہوں گے جتناٹھنڈا اس کے دوسرے حصّے ہوں گے.
9. ٹائٹن کی سطح پر موجود سبز حصّے امکانی طور پر لاوے کے میدان ہیں.
ٹائٹن پر آتش فشانوں سے اگلتا ہوا لاوا امونیا یا پانی پر مشتمل ہوگا . عام طور سے یہ اس کی سطح پر منجمد ٹھوس شکل میں پائے جاتے ہیں اگر ان کو سطح کے نیچے کسی طرح سے گرم کیا جائے تو وہ باہر نکل سکتے ہیں.ٹائٹن میں آتش فشانوں سے جو چیز نکل رہی ہے وہ میتھین اور ایتھین ہے جو اس کی فضاء کو مستقل نائٹروجن مہیا کررہی ہے اور اس وجہ سے ہمیں نارنجی رنگ کے گہرے کثیف بدل اس کی فضاؤں میں منڈلاتے نظر آتے ہیں. اس کہر کی وجہ ٹائٹن کے آتش فشانوں سے نکلتی گیسیں ہی ہیں. ٹائٹن جیسی سرد جگہ میں بھی آتش فشانی سرگرمیوں کے لئے حرارت کی ضرورت ہوتی ہے. اور یہ ہی حرارت برف کو مائع میں تبدیل کرتی ہے. ٹائٹن میں موجود حرارت کے دو سوت ہیں ایک تو تابکار مادّہ جو اس کے اندرونی حصّے کو گرما رہا ہے جبکہ دوسری زحل کی طاقتور ترین قوّت ثقل جو اس کے قلب کو بالکل اسی طرح گرما رہی ہے جیسے کہ مشتری کے چاند انسیلیڈس کو گرماتی ہے. ان دونوں قوّتوں کے باہم میلاپ سے اس قدر حرارت پیدا ہوجاتی ہے جو برف کو پانی اور مائع میتھین کو گیس میں تبدیل کرسکے.
ہم آتش فشانوں کو گرم ترین اور برف کو سرد ترین چیزیں سمجھتے ہیں. آپ اگر ٹائٹن پر موجود ہوں جو سورج سے ارب ہا میل دور واقع نہایت سرد ترین مقام ہے تو وہاں پر موجود نقطہ انجماد سے تھوڑی نیچے جمی ہوئی امونیا، وہاں پر موجوددوسری چیزوں سے کم سرد ہوگی. گرم اور سرد چیزوں کا پیمانہ نظام شمسی میں اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ آپ کہاں موجود ہیں. سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ٹائٹن پر موجود آتش فشاں حیات کو پنپنے کا موقع فراہم کریں گے. جتنا ہم زندگی کو جانتے ہیں اس کے لحاظ سے ہمیں پتا ہے کہ اس کو پنپنے کے لئے کرۂ فضائی، توانائی کے سوتوں، مائع پانی اور ٹھوس سطح کی ضرورت ہوتی ہے. ٹائٹن میں آتش فشاں یہ سب چیزیں مہیا کرتے ہیں.اگر ٹائٹن پر آتش فشاں موجود ہیں تو توانائی موجود ہے اور اس کے ساتھ ہی نامیاتی مرکبات مائع پانی کے گرد موجود ہوں گے مختصرا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی کو شروع کرنے کی ہر چیزیہاں موجود ہے.
اگر وہاں کسی بھی قسم کی حیات موجود ہوئی تو وہ زمین پر موجود حیات سے بالکل ہی مختلف ہوگی. وہ آکسیجن کے بجائے ہائیڈروجن میں سانس لے رہی ہوگی اور ہوسکتا ہے کہ ہائیڈروجن کی جھیلوں میں منفی ٣٠٠ ڈگری درجہ حرارت میں تیر رہی ہو. یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں ایتھین کے سمندر موجود ہوں جہاں آبی حیات کی طرح کی مخلوق موجود ہے. یہ بات بھی بعید ازقیاس نہیں ہے کہ وہاں آتش فشانی اور گرم پانی کی سرگرمیاں موجود ہوں. یہ بھی امکان اپنی جگہ موجود ہے کہ آتش فشانی سرگرمیاں اتنی حرارت پیدا کر رہی ہوں جو سطح پر زندگی کو شروع کرنے کے لئے کافی ہو. بہرحال یہ سب قیاس آرائیں ہی ہیں مگر ان کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا.
زندگی کی کھوج کے لئے ہمیں نظام شمسی میں اتنا دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے حیات کو ہم اپنے پڑوس میں سرخ سیّارے یعنی مریخ میں موجود آتش فشاں میں بھی ڈھونڈ سکتے ہیں. آتش فشاں نظام شمسی میں لگ بھگ ہر جگہ موجود ہیں. آئی او، ٹرائٹن اور ٹائٹن جیسے جہاں تو کافی پیچیدہ، متحرک اور سخت ہیں. ہم یہ سمجھتے تھے کہ صرف کرۂ ارض ہی آتش فشانوں اور زندگی سے لبریز ہے مگر اب ہم جان گئے ہیں کہ آتش فشاں تو ہر جگہ پرموجود ہیں پھر بھی ہمیں ابھی ماوراء ارض زندگانی تو ڈھونڈنی ہی ہے. آتش فشاں ہی اصلی طور پر وجود و فنا کو مجسم کرتے ہیں. درحقیت یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر آتش فشاں نہ ہوتے تو ہم بھی نہ ہوتے.
آتش فشانی دیگیں ہی زندگی کا نقطہ آغاز ہیں. آتش فشاں نئی زمین کو جنم دیتے ہیں، فضاء کو نئے پیچیدہ کیمیائی سالمات مہیا کرتے ہیں پرانی چیزوں کو ختم کرتے ہیں. اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آتش فشاں زندگی کے ساتھ اس قدر جڑے ہوئے ہوتے ہیں تو پھر دوسرے جگہوں پر زندگی کہاں ہے. شاید اس کا جواب ہمارے جیسے کسی نوزائیدہ سیّارے کے ماضی کے ان جھروکوں میں چھپا ہوا ہے جب نظام شمسی نیا نیا پیدا ہوا تھا.
٣ ارب سال پہلے مریخ کے آتش فشاں زندہ تھے. ان میں سے ایک ابھی بھی نظام شمسی کا سب سے بڑا آتش فشاں موجود ہے. اس کی چوٹی ٦ میل سے بھی زیادہ اونچی ہے. ماؤنٹ ایورسٹ اس کے سائے میں با آسانی چھپ سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے سامنے ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے. مریخ کے آتش فشاں" اولمپس مونس"(Olympus Mons) کا رقبہ اریزوناجتنا ہے(تصویر نمبر ١٠). اس کا دہانہ ہی ٥٣ میل چوڑا ہے اتنا بڑا پیالہ نما شکل حاصل کرنے کے لئے دسیوں لاکھ سال درکار ہوتے ہیں اتنا وقت تو زمین پر موجود کسی آتش فشاں کو کبھی نہیں ملا . زمین پر قشر ارض مستقل حرکت میں رہتی ہے جہاں کافی گہرائی میں میگما" ہاٹ سپاٹ"(Hot Spot) کے ذریعہ کمزور سطح کو دھکہ دے کر نیا آتش فشانی جزیرہ تشکیل دیتا ہے. زمین پر ہاٹ سپاٹ تو ایک جگہ ساکت رہتا ہے مگر اس کی سطح حرکت میں رہتی ہے جس کی وجہ سے نیا جزیرہ اس ہاٹ سپاٹ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے جبکہ اس کی جگہ کوئی دوسرانیا بننے والا جزیرہ لے لیتا ہے.
10. اولمپس مونس (Olympus Mos) مریخ کی سطح پر موجود مردہ آتش فشاں
مریخ بہت مختلف ہے اس کی قشر ارض ٹھوس اور مقفل ہے. مریخ میں کوئی ارضیاتی تبدیلی نہیں ہوتی اس کا قشر ارض ایک بڑی ٹھوس پلیٹ جیسا ہے لہٰذا اگر وہاں کوئی ہاٹ سپاٹ تھا تو وہ ایک جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہورہاتھا اور اتنے بڑے آتش فشانی سلسلے کو بنائے چلے جا رہاتھا یہی وجہ ہے کہ اولمپس مونس اتنا بڑا ہے. اولمپس مونس اب تو ماضی کے لاوا اگلتے آتش فشاں کی منجمد یادگار ہے. مریخ کی فضاء نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے اولمپس مونس خلاء تک جا پہنچا ہے یہ ایک مرتی ہوئی دنیا کا زبردست بجھا ہوا آتش فشاں ہے. مگر مریخ کا یہ قدیمی آتش فشانی خطہ دوبارہ سے زندگی کا مسکن بن سکتا ہے. اس بات کا ثبوت بالکل ہمارے سامنے کرۂ ارض پر موجود ہے.
امریکی ریاست ہوائی میں موجود آتش فشاں نے پرسرار سرنگیں بنائیں ہیں جن کو" لاوے کی سرنگیں"(Lava Tubes) کہتے ہیں. یہ وہ ندیاں ہوتی ہیں جو پگھلی ہوئی چٹانیں سمندر میں ابھرتے وقت اپنے پیچھے چھوڑ دیتی ہیں(تصویر نمبر ١١). مگر ان میں سے کچھ اب خالی ہیں جو ہمیں موقع فراہم کرتی ہیں. لاوا سرنگیں اس وقت بنتی ہیں جب سطح کے نیچے گرم لاوے کا دریا جو ٢٠٠٠ ڈگری گرم پگھلی ہوئی چٹانوں کا میگما ہوتا ہے بہتا ہے. یوں سمجھ لیں جیسے کہ پانی کا منجمد دریا جس کی سطح پر برف کی تہہ اوپر جمی ہوئی ہو. یہ بھی بالکل اسی طرح سے ہوتا ہے قشر ارض ٹھوس چٹان کی ہوتی ہے جس کے نیچے لاوا بہتا ہے جس سے یہ غار نما لاوے کی سرنگیں بنتی ہیں.
11. امریکی ریاست ہوائی میں موجود لاوے کی سرنگیں (Lava Tubes)
حیرت انگیز طور پر حالیہ حاصل ہونے والی تصاویروں سے مریخ میں لاوے کی سرنگوں کا پتا چلا ہے(تصویر نمبر ١٢).کوئی بھی چٹانی سیّارہ "سیاہ مرمریں آتش فشاں" (Basaltic Volcanism)کے ساتھ لاوے کی سرنگیں بنا سکتا ہے. ہمیں کافی ساری لاوے کی سرنگیں مریخ پر مل گئیں ہیں. ان جگہوں پر جہاں کی سطح اوپر سے ٹوٹ گئی ہے وہاں سورج کی روشنی میں مریخ کے مدارسے ان کو دیکھا جاسکتا ہے. اگر کچھ سرنگیں ٹوٹ گئیں ہیں توغالب احتمال ہے کہ کچھ قدیمی آثار مریخ کے ماضی کے آتش فشانوں کی باقی بھی رہی ہوں گی. دسیوں لاکھ سال گرز جانے کے بعد یہ سوئی ہوئی سرنگیں سرخ سیّارے پر زندگی کو واپس لوٹا سکتی ہیں.
12. مریخ پر موجود لاوے کی سرنگیں
مستقبل کے انسانوں کے لئے سیّارہ مریخ پر رہنے کے لئے سب سے بڑا چیلنج تابکاری کا ہوگا. خاص طور پر جب شمسی طوفان آئیں گے تو وہ انسانوں کے لئے انتہائی مہلک ہوں گے. اور اس تابکاری سے بچنے کے لئے بڑی چٹانیں ایک اچھی جائے پناہ ثابت ہو سکتی ہیں . مریخ کےمعدوم آتش فشانوں کے غار اور سرنگیں ہوا کو لئے ہوئے تابکاری سے بچاتے ہوئے زندگی کے لئے انتہائی موزوں ہوں گی. ایک لمبے عرصے پہلے مرا ہوا آتش فشاں اس سیّارے کو نئی زندگی سے بھرنے میں مدد کرسکتا ہے.
آتش فشاں تخلیق و تباہی کے ہرکارے ہیں.یوروپا کے ٦٠ میل گہرے سمندر سے چھیدتا ہوا گرما گرم پانی ہو یا ٹائٹن کے پانی کے آتش فشاں ہوں یا پھر کرۂ ارض کے چٹانی آتش فشاں وسیع ارضیاتی سرگرمیاں ہمارے جہاں کو، ہمارے تخیلات کو اور شاید زندگی کو بھی بناتی ہیں.
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں