روحی حرکی قوّت (حرکت بذریعہ دماغ ) |
کسی بھی نئے سائنسی نظرئیے کی جیت مخالف کو قائل کرنے اور اس کو سیدھا راستہ دکھانے کے بجائے اس میں ہے کہ اس کا مخالف گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے اور نئی نسل نئے نظرئیے کے ساتھ جوان ہو۔
- میکس پلانک
ایک کم عقل شخص وہ سچ بولنا اپنا حق سمجھتا ہے جسے عقلمند کبھی نہیں بولے گا۔
- شیکسپیئر
ایک دن آسمان فلک میں دیوتاؤں کا اجلاس ہوا جس میں انسانیت کی حالت اور مفلسی زیر بحث آئی۔ وہ انسانیت کی لاحاصل ، عاقبت نااندیش اور غیر معقول حماقتوں سے نالاں تھے۔ اجلاس میں موجود ایک دیوتا کو انسانوں پر رحم آ جاتا ہے اور وہ انسانوں پر ایک تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں وہ ایک عام آدمی کو لامحدود طاقت عطا کر دیتا ہے۔ وہ یہ دیکھنے چاہتے تھے کہ انسان دیوتا بن کر کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟
جارج فنگے (یا فودرینگے[Fotheringay]) بزاز (پارچہ فروش) ایک عام سا کند ذہن شخص تھا۔ ایک صبح اس نے اپنے آپ میں اچانک دیوتائی قوّتوں کو پا یا۔ وہ شمعوں کو پانی میں تیرا سکتا تھا ، پانی کا رنگ بدل سکتا تھا ، شاندار من و سلوا بنا سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ ہیروں کو بھی بنا سکتا تھا۔ شروع میں تو اس نے اپنی طاقت کو تفریح اور اچھے کاموں کے لئے استعمال کی۔ لیکن آخر کار خود نمائی اور ہوس نے اس پر غلبہ پاتے ہوئے اس کو طاقت کا بھوکا جابر انسان بنا دیا جس کے پاس محل اور ناقابل تصوّر کی حد تک دولت تھی۔ اپنی لامحدود طاقت کے نشے میں چور وہ ایک ناقابل تلافی غلطی کر بیٹھا۔ اس نے زمین کو گھومنے سے منع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کے ساتھ ہی زمین پر ایسی آفتیں ٹوٹیں کہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ زمین کی گردش رکتے ہی ہر چیز ہزاروں میل فی گھنٹہ کی رفتار سے خلاء میں اڑنے لگی۔ ساری انسانیت خلاء میں پہنچ گئی۔ بے بسی کی حالت میں اس نے اپنی آخری خواہش بیان کی : ہر چیز واپس اسی طرح سے اپنی پرانی شکل میں آ جائے جیسا کہ وہ پہلے سے تھی۔
دی مین ہو کڈ ورک میریکلس ١٩٣٦ء کی فلم کا ایک منظر |
یہ کہانی اس فلم کا خلاصہ ہے جس کا نام تھا " انسان جو معجزے دکھا سکتا ہے "(دی مین ہو کڈ ورک میریکلس ١٩٣٦ء ) جو ١٩١١ء کی ایچ جی ویلز کی مختصر کہانی پر مبنی تھی۔ (بعد میں یہ جم کیری کی فلم "قادر مطلق بروس " (بروس آل مائٹی ) کے نام سے دوبارہ بنائی گئی جس میں انتہائی طاقتور اور ربّانی قوّتیں مثلاً چھٹی حس، روحی حرکت یا حرکت بعید ( دماغ کے ذریعہ چیزیں کو حرکت میں لانا[Psychokinesis]) ، یا صرف چیزوں کو اپنی سوچ سے حرکت دینے جیسی تمام قوّتیں اس کو تفویض کردی گئی تھیں۔ ویلز اس کہانی سے جو سبق دینا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ دیوتاؤں جیسی طاقت و اختیار کے لئے ان جیسی بصیرت اور ادرک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
شیکسپیئر کے ناول "طوفانی "(دی ٹیمپسٹ) کا ایک منظر ایک مصور کی نگاہ میں |
روحی حرکت یا حرکت بذریعہ دماغ ادب میں کافی نمایاں مقام رکھتی ہے خاص طور پر شیکسپیئر کے ناول "طوفانی "(دی ٹیمپسٹ) میں جہاں ایک جادوگر" پروسپیرو(Prospero)" اپنی بیٹی "مرانڈا"(Miranda) اور جادوئی موکل "ایریل"(Areil) کے ساتھ برسوں سے ایک سنسان جزیرے پر اپنے شیطانی بھائی کی غداری کی وجہ سے مبتلائے مصیبت تھے۔ پروسپیرو کو جب اس بات کا پتا چلتا ہے کہ اس کا شیطانی بھائی اس کے علاقے میں سے ایک کشتی پر سوار ہو کر گزر رہا ہے تو وہ اپنے بھائی سے انتقام لینے کے لئے اپنی روحی حرکت کی قوّت سے ایک عفریت نما طوفان کا طلسم جگاتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے شیطانی بھائی کا پانی کا جہاز جزیرے کے پاس ڈوب جاتا ہے۔ اس کے بعد پروسپیرو اپنی حرکی قوّت زندہ بچ جانے والوں کے اوپر آزماتا ہے جس میں ایک وہ لڑکا بھی شامل ہوتا ہے جس کا نام "فرڈینانڈ" (Ferdinand)ہوتا ہے جو بعد میں پروسپیرو کی بیٹی کا محبوب بن جاتا ہے۔
فلم "ممنوع سیارہ " کا ایک منظر |
(روسی مصنف "ولادیمیر نوبوکوف"(Vladimir Nabokov) کے مطابق "طوفانی " کی کہانی سائنس فکشن سے بہت زیادہ ملتی ہے۔ حقیقت میں اس کے لکھے جانے کے ٣٥٠ برس کے بعد یہ کہانی ایک١٩٥٦ء میں بننے والی سائنس فکشن کلاسک فلم "ممنوع سیارہ " میں دوہرائی گئی جس میں پروسپیرو سوچوں میں غلطاں سائنس دان "موربئوس " (Morbius)بن گیا، موکل روبوٹ "روبی"(Robi) بن گیا ، مرانڈا موربئوس کی خوبصورت بیٹی "الٹائر ا"(Altaira) کے روپ میں پیش ہوئی ، اور جزیرے کا نام سیارہ "الٹائر -٤ "(Altair – 4) رکھ دیا گیا۔ جین روڈن بیری جو اسٹار ٹریک ٹیلی ویژن سلسلے کے خالق ہیں انہوں نے اس بات کو برملا تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹیلی ویژن سلسلے کو بنانے کی تحریک دینے والی فلم "ممنوع سیارہ "ہی تھی۔)
حالیہ دور کا ایک اور ناول جس کا نام" کیری" (Carrie)(١٩٧٤ء) تھا اور یہ ا سٹیفن کنگ نے لکھا تھا۔ اس میں روحی حرکت کہانی کا مرکزی حصّہ تھی۔ اس کہانی نے غربت کے مارے مصنف کو دنیا کی خوفناک کہانیوں کا صف اوّل کا مصنف بنا دیا تھا۔ ناول میں کیری ایک حد درجے کی شرمیلی ، جذباتی، معاشرتی طور پر ٹھکرائی ہوئی نا پسندیدہ کالج کی لڑکی تھی جو دماغی طور پر پریشان ماں کے چنگل میں پھنس گئی تھی۔ اس کی تشفی کرنے کے لئے صرف اس کی روحی حرکت کی قوّت ہی تھی جو بظاہر اس کے گھرانہ میں ڈیرہ ڈالے ہوئی تھی۔ناول کے آخر ی حصّے میں اذیت رسان نے دھوکے سے اس کو یہ بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ ایک ملکہ ہے اور پھر اس کے نئے لباس کو مکمل طور پر سور کا خون گرا کر آلودہ کر دیا۔ آخری حصّے میں کیری کے انتقام کا انجام دکھایا ہے۔ وہ اپنی دماغی طاقت سے تمام دروازے بند کر دیتی ہے۔ اپنے اذیت رسان کو بجلی سے مار ڈالتی ہے ، اسکول میں آگ لگا دیتی ہے اور خودکشی کا ایسا طوفان چھوڑتی ہے جس کے نتیجے میں قصبے کے زیادہ تر لوگ اپنی زندگیاں ہار جاتے ہیں۔
اسٹار ٹریک کا ایک کردار چارلی ایکس |
ذہنی طور پر ایک کھسکے ہوئے شخص کے ہاتھ میں روحی حرکت کی قوّت اسٹار ٹریک سلسلے کی یادگار قسط " چارلی ایکس " (Charlie – X)کا مرکزی خیال تھا ۔ یہ قسط ایک ایسے نوجوان کے بارے ،میں تھی جو خلاء کے ایک دور دراز کے سیارے سے تعلق رکھتا تھا اور مجرمی نوعیت کا تھا۔ اپنی روحی حرکت کی قوّت کو بھلائی کے کاموں میں استعمال کرنے کے بجائے اس نے اس کا استعمال لوگوں کو قابو کرنے کے لئے شروع کر دیا اور ان کو اپنی خود غرض خواہشات کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا۔ اگر وہ "انٹرپرائز" پر قابو پا لیتا تو زمین پر پہنچ کر وہاں سیاروی افراتفری اور تباہی کا سبب بن سکتا تھا۔
فلم اسٹار وارز میں جیڈآئی اکثر روحی حرکی قوّت کا مظاہرہ کرتے ہیں |
روحی حرکی قوّت بھی "فورس" کی قوّت تھی جس کو جنگجوؤں کی ایک اساطیری سوسائٹی نے بنایا تھا اس سوسائٹی کا نام" اسٹار وار" کی داستان میں "جیڈآئی" (Jedi)سردار تھا۔
روحی حرکی قوّت اور حقیقی دنیا
شاید روحی حرکی قوّت کی مشہور روبرو لڑائی اصل دنیا میں "جونی کار سن"(Johnny Carson) کے شو میں ١٩٧٣ء میں ہوئی۔ یہ تاریخی لڑائی دو لوگوں کے درمیان تھی جس میں سے ایک اسرائیلی نفسیاتی " یوری گیلر"(Uri Geller) تھا جس کا دعویٰ تھا کہ وہ اپنی دماغی طاقت کے بل بوتے پر چمچے کو موڑ سکتا ہے اور دوسرا "امیزنگ رینڈی" (Amazing Randi) - ایک پیشہ ور جادوگر تھا۔ اس نے اپنے دوسرے پیشے کا آغاز ان دھوکے بازوں کے بھانڈے پھوڑنے سے کیا جو روحی حرکی قوّت رکھنے کا دعویٰ کرتے تھے۔(حیرت کی بات یہ ہے کہ ان تینوں کی میراث مشترکہ تھی: سب نے بطور جادوگر اپنا روزگار شروع کیا تھا۔ ہاتھ کی صفائی کی شعبدہ بازی میں کمال حاصل کرکے وہ تماشائیوں کو حیران کر دیتے تھے۔)
شعبدے باز یوری گیلر |
گیلر کے شعبدہ بازی دکھانے سے پہلے ، کار سن نے رینڈی سے مشورہ مانگا ۔ رینڈی نے جونی کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے چمچے گیلر کو دے اور شو ٹائم سے پہلے اس نے ان چمچوں کا معائنہ بھی کیا۔ شعبدہ شروع کرتے ہوئے جب کار سن نے گیلر سے کہا کو وہ اپنے چمچوں کے بجائے اس کے دیئے ہوئے چمچوں کو موڑے تو وہ سناٹے میں آگیا۔ ہر دفعہ جب وہ چمچے کو موڑنا شروع کرتا تو ناکام ہو کر شرمندہ ہو جاتا۔( بعد میں رینڈی، جونی کار سن کے شو میں آیا جہاں اس نے کامیابی کے ساتھ چمچوں کو موڑنے کا شعبدہ دکھایا لیکن اس نے اپنے اس جادو کو روحی حرکت کی قوّت کے بجائے شعبدہ بازی کا کمال بتایا۔ دی امیزنگ رینڈی نے ١٠ لاکھ ڈالر کا انعام اس شخص کے لئے رکھا ہوا ہے جو کامیابی کے ساتھ روحی حرکی قوت کا مظاہرہ کرکے دکھائے گا ۔سردست تو کوئی بھی نفسیاتی اس دس لاکھ ڈالر کے انعام کو جیت نہیں سکا ہے۔)
"امیزنگ رینڈی" (Amazing Randi) - پیشہ ور جادوگر |
روحی حرکی قوّت اور سائنس
روحی حرکی قوّت کا سائنسی تجزیہ کرتے وقت سائنس دان جس مسئلے کا سامنا کرتے ہیں وہ آسانی کے ساتھ نفسیاتی قوّت کے دعویداروں کے ہاتھوں بے وقوف بن جانا ہوتا ہے۔ سائنس دانوں کی تربیت ہی اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ تجربہ گاہ میں دیکھی ہوئی چیز پر یقین رکھتے ہیں۔ جبکہ ذہنی طاقت رکھنے کے دعوے دار جادوگروں کی تربیت لوگوں کی نظر بندی کرکے ان کو بیوقوف بنانے کی ہوتی ہے۔ نتیجتاً سائنس دان ان دماغی قوّتوں کے مظاہرہ کرنے والوں کا صحیح طور سے مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٢ء میں" ماہر ارواحیت"( Parapsychologist) کو ان دو لڑکوں کا تجزیہ کرنے کے لئے بلایا جن کے پاس غیر معمولی صلاحیتیں تھیں۔ ان لڑکوں کے نام" مائیکل ایڈورڈس"(Michael Edwards) اور "اسٹیو شا(Steve Shaw)" تھے۔ یہ لڑکے دھاتوں کو موڑنے، اپنے خیال کے زور پر فوٹو گرافک پلیٹ پر تصاویر بنانے ، روحی حرکی قوّت سے چیزوں کو ہلانے اور دماغ کو پڑھنے کے دعوے دار تھے۔ ماہر ارواحیت " مائیکل تھال بورن"(Michael Thalbourne) ان سے اس قدر مرعوب ہوئے کہ انہوں نے ان لڑکوں کو بلانے کی اصطلاح "سائیکو کنیٹ " گھڑ لی۔ سینٹ لوئیس ، مسوری میں واقع مکڈونل لیبارٹری برائے طبیعیاتی تحقیق میں موجود ماہرین ارواحیت ان لڑکوں کی صلاحیتوں انگشت بدہاں رہ گئے۔ ماہرین ارواحیت کو یقین آگیا تھا کہ انہوں نے لڑکوں کی روحی حرکی صلاحیتوں کا ثبوت حاصل کر لیا تھا اور وہ ان پر ایک سائنسی مقالہ بھی لکھنے والے تھے۔ اگلے برس ہی لڑکوں نے اعلان کر دیا کہ وہ جعلساز تھے اور ان کی کرشماتی طاقتیں کوئی ماورائے عقل نہیں بلکہ عام جادوئی شعبدے بازیاں تھیں۔(ان دونوں نوجوانوں میں سے ایک نوجوان جس کا نام اسٹیو شا تھا ،بعد میں تو ایک مشہور جادوگر بن گیا تھا، جو اکثر قومی ٹیلی ویژن پر آ کر کئی کئی دن زندہ دفن ہونے کا کمال دکھاتا تھا۔)
اسٹیو شا پیشہ ور جادوگر |
ڈیوک یونیورسٹی میں واقع رائن انسٹیٹیوٹ میں سخت نگرانی میں روحی حرکی قوّت پر جامع تجربات کئے گئے۔ ان تجربات کے مختلف نتائج حاصل ہوئے۔ اس مضمون کی ایک بڑی عالمہ جن کا نام پروفیسر" گر ٹروڈ شومائیڈ لر"(Gertrude Schmeidler) تھا وہ یونیورسٹی آف نیویارک میں میرے رفقاء میں سے ایک تھیں ۔ وہ ماورائے نفسیات کے ایک رسالے کی سابقہ مدیر اور انجمن ماورائے نفسیات کی سابقہ صدر بھی رہ چکی تھیں۔ وہ چھٹی حس کی قوّت سے اس قدر متاثر تھیں کہ انہوں نے اپنے کالج کے طالبعلموں پر اس کی تحقیق کی۔ وہ تقریبات میں مشہور نفسی ماہرین کو کھانے پر آئے مہمانوں کے سامنے اپنے کمالات دکھانے کو کہتیں تا کہ ان کو اپنے کام کے لئے زیادہ سے زیادہ رضا کر مل سکیں۔ سینکڑوں طالبعلموں، کئی نفسی اور دماغی ماہرین کا تجزیہ کرنے کے بعد ایک دن انہوں نے مجھ سے اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں کوئی ایک بھی ایسا نہیں مل سکا جو روحی حرکی قوّت کا مظاہرہ ان کے کہنے پر ان کی پسند کی ہوئی جگہ پر کر سکے۔
پروفیسر" گر ٹروڈ شومائیڈ لر"(Gertrude Schmeidler) |
ایک دفعہ وہ کمرے میں ایک چھوٹا سا "برقی مقاومت" (ایک نیم موصل آلہ جس کی مزاحمت درجہ حرارت کے لیے انتہائی حساس ہوتی ہے[Thermistor])لے کر پھیل گئیں تا کہ وہ کمرے کے درجہ حرارت میں ہونے والے فرق کو ناپ سکیں۔ ایک ماہر نفسی کافی تگ و دود کے بعد ایک درجہ حرارت کے دسویں حصّے تک کمرے کا درجہ حرارت بڑھانے میں کامیاب ہو گیا۔ شومائیڈ لر کو اس بات کا انتہائی زعم تھا کہ انہوں نے اس تجربے کو زبردست نگرانی میں سر انجام دیا تھا۔ مگر یہ کسی بھی بڑی چیز کو اپنی مرضی سے دماغ کی قوّت سے ہلانے سے کوسوں دور کی چیز تھی۔
ایک اور انتہائی سخت ماحول میں کی جانے والی لیکن انتہائی متنازع روحی حرکی قوّت پر کی جانے والی تحقیق جو پرنسٹن یونیورسٹی کے شعبے پرنسٹن انجینئرنگ انومالیز ریسرچ میں ہوئی تھی۔ اس شعبے کو "رابرٹ جی جان" (Robert G John) نے ١٩٧٩ء میں قائم کیا تھا جب وہ اسکول آف انجینئرنگ اور اپلائیڈ سائنس کے ڈین تھے ۔ شعبے کے انجنیئر ز اس بات کی کھوج میں لگے ہوئے تھے کہ انسانی دماغ صرف خیالات کے بل بوتے پر کسی اٹکل پچو ہونے والے واقعے کو قابو کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم سکّہ اچھالتے ہیں تو چٹ یا پٹ آنے کا احتمال ٥٠ فیصد ہوتا ہے۔ مگر یہاں پر موجود سائنس دانوں کا دعویٰ تھا کہ انسانی دماغ اس قابل ہے کہ ایسے کسی واقع کے نتیجے کو اپنے خیال کے ذریعہ حاصل ہونے والی نتیجے پر اثر انداز ہو سکے۔ ٢٠٠٧ء میں اپنے بند ہونے کے ٢٨ سال کے دوران اس شعبے میں موجود انجینیروں نے ہزار ہا تجربات کئے جس میں ١٧ لاکھ آزمائشیں اور ٣٤ کروڑ سکّوں کو اچھالنا شامل تھا۔ حاصل کردہ نتیجے اس بات کا عندیہ دے رہے تھے کہ روحی حرکی قوّت کا اثر موجود ہے لیکن اس کے اثرات نہایت ہی خفیف سے ہیں جن کا تناسب اوسطاً ١٠ ہزار میں سے صرف کچھ حصّے ہی ہے۔ مزید براں یہ نہ ہونے کے برابر نتیجے بھی دوسرے سائنس دانوں کی نظر میں متنازع ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ محققین نے ڈیٹا کے اندر لطیف تعصبی نتیجے ڈالے ہیں۔
(١٩٨٨ء میں یو ایس کی فوج نے نیشنل ریسرچ کونسل کو ماورائے عقل کی تحقیق سے حاصل ہونے والے دعووں کی چھان بین کرنے کو کہا۔ امریکی فوج اس تحقیق سے ممکنہ حاصل ہونے والے فوائد کو اپنی فوج میں استعمال کرنے کے لئے شدید بیتاب تھی۔ اس تحقیق میں روحی حرکی قوّت بھی شامل تھی۔ دی نیشنل ریسرچ کونسل نے تحقیق پر اپنی رپورٹ بنائی۔ اس رپورٹ میں ایک فرضی " زمین کی پہلی پلٹن " جو ان "جنگجو درویشوں " پر مشتمل ہونی تھی جو کمیٹی کے زیر نظر تمام فنیات کے ماہر ہوں ، ان فنیات میں چھٹی حس کا استعمال، اپنے جسم سے ضرورت کے وقت روح الگ کر لینا ، ہوا میں معلق ہونا، نفسی طور پر زخموں کو مندمل کر لینا ، اور دیواروں میں سے گرز جانا وغیرہ شامل تھیں۔ پئیر (پی ای اے آر ) کے دعوے کا تجزیہ کرتے ہوئے نیشنل کونسل نے یہ پتا لگایا کہ ان تمام کامیاب آزمائشوں کے نصف حصّے کے پیچھے میں صرف ایک ہی شخص تھا۔ کچھ ناقدین کا یہ خیال ہے کہ یہ وہ ہی شخص ہے جس نے تجربات کرنے کا انتظام کروایا تھا یا اس نے پئیر کے کمپیوٹر پروگرام کو لکھا تھا۔ "مجھے تو یہ بات ٹھیک نہیں لگتی کہ تجربہ گاہ کو چلانے والا ہی کامیاب نتائج دے رہا ہو۔" یونیورسٹی آف ا وریگن کے ڈاکٹر رے نے اپنے خیال کا اظہار ان الفاظوں میں کیا۔ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ "١٣٠ برسوں پر محیط ماورائے نفسیات کے مظہر پر کی گئی اس تحقیق کی کوئی بھی سائنسی توجیح نہیں مل سکی۔")
سائنس فکشن کردارسائکلوپس اپنی آنکھوں سے لیزر کی شعاعیں نکال سکتا ہے |
روحی حرکی قوّت کے مطالعہ میں سب سے بڑا مسئلہ جس کو اس کے حمایتی بھی مانتے ہیں وہ اس کا آسانی کے ساتھ طبیعیات کے قوانین کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونا ہے۔ قوّت ثقل ، کائنات کی کمزور ترین قوّت صرف چیزوں کو کھینچتی ہے اور چیزوں کو اٹھانے یا دفع کرنے کے لئے استعمال نہیں کی جا سکتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت میکسویل کی مساوات کے تابع ہے جو برق کے زور پر کسی بھی معتدل چیز کو کمرے میں دھکیلنے سے انکاری ہے۔ نیوکلیائی قوّت صرف چھوٹے پیمانے پر کام کرتی ہے۔ وہ نیوکلیائی ذرّوں کے درمیان موجود فاصلوں پر ہی کام کر سکتی ہے۔ روحی حرکی قوّت کے ساتھ دوسرا مسئلہ توانائی کی فراہمی کا ہے۔ انسانی جسم صرف٢٠ فیصد ہارس پاور کی توانائی پیدا کر سکتا ہے، مگر اسٹار وارز میں "یوڈا"(Yoda) پورے خلائی جہاز کو اپنی دماغی قوّت سے اٹھا لیتا ہے۔ یا پھر جب سائکلوپس اپنی آنکھوں سے لیزر کی شعاعیں نکالتا ہے۔ یہ تمام کام" قانون بقائے توانائی" کے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہیں ، یوڈا جیسی کوئی چھوٹی سی چیز اپنے اندر اتنی زیادہ توانائی نہیں رکھ سکتی کہ وہ پورے جہاز کو اٹھا لے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کتنی بھی توانائی اس میں مرتکز کر دیں بہرصورت وہ اتنی نہیں ہوگی کہ اس قسم کے کارنامے اور معجزے دکھا سکے جیسا کہ روحی حرکی قوّت والے دکھاتے ہیں۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے کس طرح سے روحی حرکی قوّت قوانین طبیعیات سے ہم آہنگ ہو سکتی ہے؟ آئیے اس بات کا جائزہ لیں۔
روحی حرکی قوّت اور دماغ
اگر روحی حرکی قوّت کائنات کی مسلّمہ قوّتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے تو پھر مستقبل میں اس کو کس طرح سے حاصل کیا جا سکتا ہے؟ اس چیز کا ایک سراغ تو ہمیں اسٹار ٹریک کی قسط "ہو مارنس فار اڈونائس " میں ملتا ہے جس میں انٹرپرائز کے عملے کا سامنا ایک ایسی نسل سے ہوتا ہے جو یونانی دیوتاؤں سے ملتی جلتی تھی۔ یہ نوع اس قابل تھی کہ دماغ بھک سے کر دینے والے کرتب اور تماشے صرف دماغی سوچ کے بل بوتے پر ہی کر سکتے تھے۔ شروع میں تو ایسا لگتا ہے کہ عملے کا سامنا "اولمپس" کے دیوتاؤں سے ہو گیا ہو۔ لیکن آخر کار عملے کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی دیوتا وغیرہ نہیں ہیں بلکہ عام سے انسان ہی ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ دماغ سے ایک مرکزی توانائی کے منبع ( پاورا سٹیشن) کو قابو میں رکھتے ہیں جو ان کی خواہشات اور معجزات دکھنے والے کرتبوں کو رونما کرتا ہے۔ ان کے مرکزی توانائی کے منبع کو تباہ کرنے کے بعد انٹرپرائز کے عملے نے ان کو اس قوّت سے محروم کر دیا تھا۔
اسٹار ٹریک کی قسط "ہو مارنس فار اڈونائس" کا ایک منظر |
مستقبل میں اس شخص کے لئے جو اپنے دماغ سے کام لیتے ہوئے برقی حساس آلات کو اپنی مرضی سے استعمال کرنے کا تربیت یافتہ ہو۔ وہ اس تربیت کے نتیجے میں ماورائے انسان جیسی قوّت کو حاصل کر لے گا اور یہ بات قوانین طبیعیات کے دائرہ کے عین اندر آتی ہے۔ ریڈیائی –افزوں یا کمپیوٹر – افزوں روحی حرکی قوّت درحقیقت حاصل کرنا ممکن ہے۔ مثال کے طور پر ، ای ای جی کو روحی حرکی قوّت کے اوّلین آلے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دماغی نمونے ای ای جی کی اسکرین پر دیکھ کر لوگ اپنے دماغی نمونوں کو قابو میں رکھنا کافی حد تک سیکھ سکتے ہیں۔ اس عمل کا نام "بائیو فیڈ بیک" ہے۔
دماغی نمونے ای ای جی کی اسکرین پر دیکھ کر لوگ اپنے دماغی نمونوں کو قابو میں رکھنا کافی حد تک سیکھ سکتے ہیں |
"بائیو فیڈ بیک" کے ذریعے فالج زدہ شخص اپنی وہیل چیئر کو اپنے دماغ کی طاقت سے قابو کر سکتا ہے |
اس طرح سے کوئی مکمل طور پر فالج زدہ شخص اپنی وہیل چیئر کو اپنے دماغ کی طاقت سے قابو کر سکتا ہے۔ یا اگر کوئی شخص چھبیس قسم کے قابل شناخت نمونے بنا لے تو یہ دماغی سوچ کے ذریعہ لکھنے کے قابل ہو سکتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ اب بھی کسی کے خیالات کو منتقل کرنے کا انتہائی بنیادی طریقہ ہوگا۔ لوگوں کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ اپنی دماغی لہروں کو منظم کر نے کی تربیت کے لئے کافی عرصہ درکار ہوگا۔
"سوچ کے ذریعہ لکھنے کا عمل" جرمنی میں واقع یونیورسٹی آف ٹبنگن کے" نیلز بربو مر"(Neils Birbaumer) کے کام کی وجہ سے حقیقت کے قریب آ چکا ہے۔ اس نے بائیو فیڈ بیک کے عمل کا استعمال ان لوگوں کی بھلائی کے لئے شروع کیا جو جزوی طور پر عصبی نقصان کی وجہ سے فالج زدہ ہو گئے تھے۔ لوگوں کو اپنی دماغی لہروں کے متعلق تربیت دے کر وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ لوگوں کو کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک سادہ جملہ لکھنا سیکھا سکیں۔
بندروں کے دماغ میں برقیرے نصب کرکے ان کو بائیو فیڈ بیک کے ذریعہ یہ بات سکھائی گئی کہ کس طرح سے وہ اپنے خیالات کو انضباط کریں۔ بعد میں یہ بندر ایک روبوٹ کے بازو کو انٹرنیٹ کے ذریعہ صرف اپنے خیالات سے قابو کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔
ایک اور واضح تجربہ اٹلانٹا کی ایموری یونیورسٹی میں کیا گیا جس میں شیشے کے دانے ایک فالج زدہ مفلوج شخص کے دماغ میں نصب کئے گئے۔ ان شیشوں کے دانوں کو ایک تار کے ذریعہ جوڑا گیا اور تار کے دوسرے حصّے کو کمپیوٹر سے ملا دیا گیا۔ کچھ مخصوص خیالات کو سوچ کر فالج زدہ شخص اپنے خیالات کو تاروں کے ذریعہ اسکرین پر بھیج کر کرسر کو حرکت دینے کے قابل ہو گیا تھا۔ بائیو فیڈ بیک کو استعمال کرتے ہوئے فالج زدہ شخص نے مشق کرتے ہوئے شعوری طور پر کرسر کی حرکت کو قابو کرنا سیکھ لیا تھا۔ نظریاتی طور پر اسکرین پر موجود کرسر خیالات کے لکھنے میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ، اس کے ذریعہ مشین بھی چلائی جا سکتی ہے ، مجازی کار بھی چلائی جا سکتی ہے ، ویڈیو گیم بھی کھیلے جا سکتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے بہت سے دوسرے کام بھی کیے جا سکتے ہیں۔
علم الاعصاب کے ماہر "جان ڈونیو"(John Donghue) |
براؤن یونیورسٹی کے علم الاعصاب کے ماہر "جان ڈونیو"(John Donghue) نے شاید"بین السطو ح دماغی مشین"(Mind Machine Interface) میں اب تک کی سب سے اہم ایجاد کر لی ہے۔ انہوں نے ایک ایسا آلہ بنایا ہے جس کا نام برین گیٹ ہے جو مفلوج شدہ شخص کو غیر معمولی جسمانی حرکات کے سلسلے کو صرف اپنے دماغ کی طاقت سے سرانجام دینے کے قابل بنا دیتا ہے۔ ڈونیو نے اس کو اب تک اپنے چار مریضوں کے اوپر استعمال کیا ہے۔ جس میں سے دو مریض ریڑھ کی ہڈی کے زخم کے مارے تھے ، تیسرا فالج کا شکار تھا جبکہ چوتھا شخص ایک مرض اے ایل ایس (ایک ایس بیماری جس میں بغلی نس خشکی عضلات کی وجہ سے سخت ہو جاتی ہے) کا شکار تھا۔ یہ وہی مرض ہے جو ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ کو ہے۔
ڈونیو کا ایک٢٥ سالہ مریض جس کا نام" متھیو ناگلی"(Mathew Nagle) تھا وہ دونوں ہاتھوں اور پیروں سے اپاہج تھا اس نے صرف ایک دن میں ہی مکمل طور پر کمپیوٹر کی نئی چیزیں سیکھ لیں۔اب وہ اپنے ٹیلی ویژن کے چنیل تبدیل کر سکتا ہے ، آواز کو کم زیادہ کر سکتا ہے ، مصنوعی ہاتھ کو کھول بند کر سکتا ہے ، گول دائرے جیسی چیز بھی بنا لیتا ہے ، کمپیوٹر کے کرسر کو حرکت بھی دے دیتا ہے، کمپیوٹر پر گیم بھی کھیل سکتا ہے یہاں تک کہ برقی خط بھی پڑھ سکتا ہے۔ اس نے سائنس کی دنیا میں اس وقت کافی سنسنی پھیلائی جب وہ نیچر میگزین کے ٢٠٠٦ء کے موسم سرما کے سرورق پر ابھرا۔
ڈونیو کے برین گیٹ کا اصل قلب ایک چھوٹی سی سلیکان چپ ہے جو صرف ٤ ملی میٹر چوڑی ہے جس میں ایک سو ننھے برقیرے لگے ہوئے ہیں۔ یہ چپ سیدھی دماغ کے اس حصّے کے اوپر لگا دی جاتی ہے جہاں پر موٹر کی حرکیات کو مربوط کیا جاتا ہے۔ چپ کو دماغ کے" قشر الحرکت "(Cortex)میں ٢ ملی میٹر تک دھنسا دیا جاتا ہے۔ سونے کی تاریں اشاروں کو سلیکان چپ سے ایک افزوں گر کی جانب بھیجتی ہیں جس کا حجم صرف ایک سگار کے ڈبے جتنا ہوتا ہے۔ یہ اشارے اس کے بعد ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنے کمپیوٹر میں بھیجے جاتے ہیں۔ جہاں ان اشاروں یا اطلاعات کولے کر ایک خصوصی کمپیوٹر سافٹ ویئر ان پر کام کرتا ہے ۔ یہ سافٹ ویئر دماغ سے بنے کچھ نمونوں کو پہچان سکتا ہے اور اس کے بعد ان کو میکانکی حرکت میں بدل دیتا ہے۔
پچھلے تجربے کے برعکس جس میں مریض اپنے ای ای جی کی لہروں کو پڑھتے ہیں ، بائیو فیڈ بیک کا عمل کافی سست رفتار اور تھکا دینے والا ہے۔ لیکن ایک کمپیوٹر کے ذریعہ جو مریض کو اس کے مخصوص خیالات کے نمونوں کو پہچانے میں مدد دیتا ہے ، تربیت کے عمل میں درکار وقت کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔ اپنی تربیت کے پہلے دور میں ناگلی کو کہا گیا کہ وہ اپنے بازوں کو سیدھی اور الٹی طرف حرکت دینے کا تصوّر کرے۔ اپنی کلائی کو لچک دار بنائے اور اس کے بعد اپنی ہتھیلی کو کھولے اور بند کرے۔ ناگلی کے بازوں اور انگلیوں کی حرکت دینے کے تصوّرات سے نکلتے ہوئے مختلف عصبانیوں کو دیکھ کر ڈونیو انتہائی مسرور تھا۔ "میرے لئے یہ ناقابل یقین بات تھی کیونکہ آپ دماغی خلیوں کی بدلتی حرکتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ تب مجھے اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ کام آگے بڑھ سکتا ہے، یہ ٹیکنالوجی حقیقت میں کام کرے گی۔" وہ اس لمحے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
(ڈونیو کی اس پراسرار بین السطو ح دماغی مشین کو بنانے کی آرزو کی ایک شخصی وجہ ہے۔ عہد طفلی میں ایک تکلف دہ ابتذالی مرض میں مبتلا ہوکر ایک وہیل چیئر تک محدود ہو گیا تھا۔ لہٰذا اس کو بذات خود نقل و حرکت کی صلاحیت کھو کر بے بسی کی زندگی گزارنے کا تجربہ تھا۔)
ڈونیو کے پاس ایک پر عزم منصوبہ ہے جس میں وہ برین گیٹ کو طبی پیشے کا ایک لازمی آلہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے ساتھ ان کا آلہ جو ابھی ایک برتن دھونے کی مشین کے جتنا ہے، چھوٹا ہو کر ایک ایسے سبک آلے کی شکل میں آ جائے جو مریض اپنے کپڑوں کے ساتھ ہی پہن سکے گا۔ اور بغیر تاروں کی چپ کو استعمال کرکے بھدے تاروں سے جان چھٹ سکتی۔ اس کے نتیجے میں لگا ہوا آلہ بیرونی دنیا سے آسانی سے اپنی بات کہہ سکے گا۔
اب یہ کچھ دیر ہی کی بات ہے جب دماغ کے دوسرے حصّے بھی اسی طرح سے متحرک کر دیئے جائیں گے۔ سائنس دان پہلے ہی دماغ کے اوپری حصّے کی نقشہ سازی کر چکے ہیں۔ (اگر کوئی ترسیمی طور پر ہمارے ہاتھوں ، پیروں ، سر اور کمر کے خاکے ہمارے دماغ کے اوپری حصّے میں بنا دے جو اس بات کی نمائندگی کریں ، جہاں یہ عصبانیے عام طور پر ملتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی چیز مل جائے گی جس کو ہم "ٹھگنا" یا چھوٹا آدمی کہ سکتے ہیں۔ ہمارے دماغ میں جسم کی لکھی گئی تصویریں ایک مسخ شدہ آدمی جیسی ہوں گی جس کی انگلیاں ، چہرہ اور زبان لمبی ، جبکہ کب اور پچھلا حصّہ سکڑا ہوا ہوگا۔)
یہ بھی ممکن ہے کہ سلیکان کی مختلف چپس کو دماغ کی سطح کے مختلف حصّوں میں لگا دیا جائے تا کہ مختلف اعضاء کو صرف خیالات کی طاقت سے متحرک کیا جا سکے۔ اس طرح سے کسی بھی انسانی جسمانی حرکت کی اس طریقے کے ذریعہ سے نقل کی جا سکتی ہے۔ مستقل میں اس بات کا تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مفلوج شخص ایک خصوصی روحی حرکی قوّت کی مدد سے بنے گھر میں رہ رہا ہو ، جہاں وہ ایئر کنڈیشن ، ٹیلی ویژن اور تمام برقی آلات صرف اپنے خیالات کے ذریعہ اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا ہوگا۔
آنے والے دور میں اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی مفلوج شخص کا جسم کسی خصوصی " برکالبد"(یا ظاہری ڈھانچے (Exoskeleton – میں موجود ہو جو اس مفلوج شخص کو مکمل جسمانی حرکت کرنے کی آزادی فراہم کر دے۔ نظری طور پر ایسا کوئی بھی برکالبد اس شخص کو وہ صلاحیتیں عطا کر سکتا ہے جو ایک عام آدمی کی بساط سے کہیں زیادہ ہوں گی۔ اس طرح سے وہ آدمی مصنوعی اعضاء کی مدد سے مافوق الفطرت بن سکتا ہے جو صرف خیالات کے بل بوتے پر زبردست میکانکی قوّت کو اپنے قابو میں کر کے اپنے کام میں لا سکے گا۔
لہٰذا کمپیوٹر کو دماغ کی مدد سے چلانا اب کوئی ناممکن بات نہیں ہوگی۔ لیکن کیا اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک دن صرف خالص خیالات کی بدولت چیزوں کو ہلانے ، اٹھانے ،اور آگے پیچھے کرنے کے قابل بھی ہو سکیں گے؟
" مئسیر کے اثر"(Meissner Effect) کی مدد سے چیزوں کو معلق کیا جاسکتا ہے |
ایک ممکنہ حل تو یہ ہے کہ ہم اپنے کمروں کی دیواروں پر عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کا لیپ کر دیں بشرطیکہ ہم فوقی موصل جیسی کوئی چیز مستقبل میں بنا سکیں۔ پھر ہمیں اپنی گھریلو استعمال کی چیزوں میں چھوٹے برقی مقناطیس لگانے پڑیں گے تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہو سکیں گے کہ چیزوں کو فرش پر سے" مئسیر کے اثر"(Meissner Effect) کی بدولت اٹھا سکیں جیسا کہ ہم نے باب اوّل میں دیکھا تھا۔ اگر ان برقی مقناطیسیوں کو ہمارے دماغ سے جڑے کمپیوٹر کے ذریعہ قابو کر لیا گیا تب کہیں جا کر ہم اپنی مرضی سے ان اشیاء کو فرش پر سے اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ مخصوص خیالات کو سوچتے ہوئے کمپیوٹر کو پیغام دیا جا سکتا ہے جو مختلف برقی مقناطیسیوں کو چالو کرکے چیزوں کو ہوا میں بلند کر سکتے ہیں۔ ایک دور سے مشاہدہ کنندہ کو یہ کوئی جادوئی اثر لگے گا جس کے ذریعہ اپنی مرضی سے چیزوں کو حرکت دی جا سکے گی اور اٹھایا بھی جا سکے گا۔
نینو بوٹس
اس قوّت کے بارے میں کیا خیال ہے جس کے ذریعہ ناصر ف اشیاء کو ہلایا جلایا جا سکے بلکہ وہ جادوئی اثر سے ایک شئے سے دوسری شئے میں بھی تبدیل ہو کر اپنی شکل بدل سکیں ؟ اکثر جادوگر چالاکی کے ساتھ ہاتھ کی صفائی سے ایسے کمالات دکھاتے ہیں۔ لیکن کیا ایسی کوئی طاقت قوانین طبیعیات سے رو گردانی تو نہیں کرتی ؟
جیسا کہ ہم نے پہلے بھی واضح کیا ہے کہ نینو ٹیکنالوجی کا ایک اہم مقصد ایسی مشینوں کو بنانا ہے جو بیرم ، گراری ، بال بیرنگ اور چرخی کی طرح سے کام کر سکیں۔ ان نینو مشینوں کو حقیقت کا روپ دینے کے ساتھ ہی کئی ماہرین طبیعیات کا وہ خواب سچا ہو جائے گا جس میں وہ کسی جسم میں موجود سالموں کو جوہر در جوہر از سر نو ترتیب دیں گے یہاں تک کہ ایک چیز اپنی ہئیت بدل کر دوسری چیز میں تبدیل ہو جائے۔ یہ اس نقلچی کی بنیاد ہے جو اکثر سائنسی قصّوں میں پایا جاتا ہے۔ جو کسی بھی چیز کو حکم ملتے ہی بنا ڈالتا ہے۔ نظریاتی نقطۂ نظر سے ایک نقلچی شاید غربت کا خاتمہ کر سکے گا۔ اس کی ایجاد سے سائنس کی نوعیت بدل جائے گی۔ اگر کوئی چیز کسی کے خالی کہنے پر بن جائے تو قلّت کا پورا تصوّر ، چیزوں کی اہمیت اور معاشرے کا پورا نظام تلپٹ ہو جائے گا۔
اسٹار ٹریک میں دکھایا جانے والا نقلچی |
("اسٹار ٹریک : دی نیکسٹ جنریشن" کی ایک قسط میری سب سے زیادہ پسندیدہ رہی ہے جس میں ایک نقلچی دکھایا گیا تھا۔ بیسویں صدی کا ایک قدیمی کیپسول خلاء میں تیرتا ہوا ملتا ہے جس میں لوگوں کے منجمد اجسام موجود ہوتے ہیں جو کسی مہلک مرض میں مبتلا تھے۔ ان اجسام کو جلدی سے پگھلا کر جدید ادویات کی مدد سے تندرست کیا جاتا ہے۔ غنودگی سے اٹھنے اور بیماری سے شفا یاب ہونے کے بعد ان میں سے ایک تاجر کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس کا سرمایہ کئی صدیاں گزر جانے کے بعد تو بہت زیادہ بڑھ گیا ہوگا۔ وہ فوراً انٹرپرائز کے عملے سے اپنے سرمائے اور پیسوں کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ عملے کے افراد پیسوں اور سرمائے کا نام سن کر حیران ہوتے ہیں ۔" مستقبل میں پیسا نام کی کوئی چیز نہیں ہے"۔ وہ اس تاجر کو بتاتے ہیں۔" آپ کو اگر درکار ہے تو جناب بس آپ اس کی خواہش کریں وہ حاضر ہو جائے گی۔)
نقلچی جتنی ہی حیرت انگیز ایک چیز قدرت پہلے ہی بنا چکی ہے۔ "اثبات مفہوم "(Proof of Principal) کا اصول پہلے سے ہی موجود ہے۔ قدرت گوشت اور سبزیوں جیسے خام مال کو لے کر نو ماہ میں انسان کا بچا تخلیق کر دیتی ہے۔ حیات کا معجزہ صرف نینو کارخانے کے سوا کچھ اور نہیں ہیں۔ نینو کارخانے اس بات کی صلاحیت کے متحمل ہوتے ہیں کہ جوہری پیمانے پر مادّے کی ایک شکل(مثلاً کھانے) کو دوسری زندہ شکل (مثلاً بچے )میں بدل سکیں۔
ریبوسومز(اینڈوپلازمک ایٹمی کولم جیسے چھوٹے اور دانے دار خلوی اجزاء[Ribosomes]) |
ایسے نینو کارخانے بنانے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے :بنیادی اجزاء ، آلات جو ان اجزاء کو کاٹ اور جوڑ سکیں اور ایک نقشہ جو ان آلات اور اجزاء کے استعمال کی رہنمائی کر سکے۔ قدرت کے کارخانے میں ہزاروں امینو ایسڈ اور لحمیات ہوتے ہیں جو انسان کا گوشت اور خون بناتے ہیں۔ ان اجزاء کو کاٹنے اور جوڑنے کے اوزار مثلاً ہتھوڑا اور آری جو ان لحمیات کو ساخت میں ڈھالنے کے لئے ضروری ہیں تاکہ حیات کی نئی شکل بن سکے وہ ریبوسومز(اینڈوپلازمک ایٹمی کولم جیسے چھوٹے اور دانے دار خلوی اجزاء[Ribosomes]) ہیں ۔ ان کو بنایا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ لحمیات کو مخصوص جگہ سے کاٹ کر دوبارہ سے جوڑ سکیں تا کہ نئے لحمیات کو بنایا جا سکے۔ ڈی این اے ان کو وہ نقشہ مہیا کرتے ہیں جو حیات کا راز انتہائی درستگی کے ساتھ نیو کلک ایسڈ کے سلسلوں میں رمز کر دیتے ہیں۔ یہ تینوں اجزاء ایک خلیہ میں جمع ہو جاتے ہیں جس میں خود کی نقل بنانے کی غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ کارنامہ اس لئے سر انجام دیا جاتا ہے کہ ، ڈی این اے کا سالمہ دہرا لچھے دار مرغولہ نما ہوتا ہے۔ جب تخلیق کا وقت آتا ہے ، تو ڈی این اے سالمہ اپنے آپ کو کھول کر دو لچھوں میں بٹ جاتا ہے۔ اس میں سے پھر ہر لڑی نامیاتی سالموں کی مدد سے اپنی نقل بناتی ہے تاکہ اس کا کھویا ہوا دوسرا لچھا دوبارہ بن سکے۔
ڈی این اے سالمہ اپنے آپ کو کھول کر دو لچھوں میں بٹ جاتا ہے |
ابھی تک تو ماہرین طبیعیات کو قدرتی طور پر پائی جانے والی ان خصوصیات کو حاصل کرنے میں ابتدائی کامیابی ہی حاصل ہوئی ہے۔ سائنس دانوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اس کام میں کامیابی کی کنجی خود کو بنانے والے نینو بوٹس کے غول کو بنا نا ہی ہوگا جو قابل پروگرام ایسی جوہری پیمانے کی مشینیں ہوں گی جو کسی بھی شئے کے ایٹموں کو از سر نو ترتیب دے سکیں گی۔
نینو بوٹس کا استعمال طب میں کافی ہورہا ہے |
نظری طور پر اگر ہمارے پاس کھرب ہا کی تعداد میں نینو بوٹس موجود ہوں تو وہ خود کو کاٹ پیٹ کر از سرنو ترتیب دیتے رہیں گے جب تک وہ کسی دوسری مطلوبہ شئے میں بدل نہیں جاتے۔ کیونکہ وہ خود سے اپنے آپ کو بنانے پر قادر ہوں گے لہٰذا ان کی تھوڑی سے تعداد بھی کافی ہوگی۔ ان کو قابل پروگرام بھی ہونا ہوگا تاکہ وہ نقشے یا خاکے میں موجود منصوبے کے مطابق کام کر سکیں۔ اس قسم کے نینو بوٹس کے غول کو بنانے کے لئے کافی مشکلات پر قابو پانا ہوگا۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ خود ساختہ روبوٹ اصغری پیمانے پر بنانا نہایت ہی مشکل کام ہے بلکہ ان کو تو اکبری پیمانے پر بنانا بھی آسان نہیں ہے۔(یہاں تک کہ سادے سے اوزار جیسے کہ بال بیرنگ اور گراریاں بھی جوہری پیمانے پر بنانا آج کی موجودہ ٹیکنالوجی کے بس سے باہر ہے۔) کمپیوٹر اور برقی پرزوں کی بدولت بھی ایک ایسی مشین بنانا انتہائی مشکل ہے جو اپنی نقل کرکے دوسری مشین خود سے بعد میں بنا سکے ۔ لہٰذا یہ بات تو طے ہے کہ اگر کوئی خود ساختہ مشین بڑے پیمانے پر بنانا مشکل ہے تو نینو پیمانے پر ایسی مشین بنانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہوگا۔
اپنی نقل بنانے والے نینو بوٹس جلد ہی حقیقت کا روپ دھار لیں گے |
دوسرے یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ باہر سے بیٹھ کر ان نینو بوٹس کی فوج کو کس طرح سے پروگرام کیا جائے گا۔ کچھ نے ریڈیائی اشاروں کے ذریعہ ان کو متحرک کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔ شاید احکامات لئے ہوئے لیزر کی شعاعیں ان پر ڈالی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہر نینو روبوٹ کو ایک علیحدہ احکامات کا سلسلہ بھیجا جائے یاد رہے کہ نینو بوٹس کی تعداد دسیوں کھرب میں ہو سکتی ہے۔
تیسرے یہ بات بھی ابھی تک واضح نہیں ہے کہ نینو روبوٹس کس طرح سے جوہروں کی کاٹ پیٹ کرکے ان کو از سر نو ترتیب دیں گے جس کے نتیجے میں وہ کسی خاص قرینے سے لگ کر مطلوبہ شئے کو بنا سکیں۔ یہ بات یاد رکھیں کہ قدرت نے اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ٣۔٥ ارب سال لئے ہیں لہٰذا ان تمام مسائل کو کچھ دہائیوں میں حل کرنا کافی ناممکن سی بات ہے۔
طبیعیات دان "نیل گر شن فیلڈ"(Neil Gershenfeld) |
ایک طبیعیات دان جنہوں نے نقلچی یا شخصی اختراع کے خیال کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا ہے ان کا نام "نیل گر شن فیلڈ"(Neil Gershenfeld) ہے جو ایم آئی ٹی میں کام کرتے ہیں۔ وہ ایم آئی ٹی میں ایک جماعت کو پڑھاتے ہیں جس کا نام ہے "کس طرح سے (تقریباً )ہر شئے بنائی جائے " یہ یونیورسٹی کی سب سے مشہور جماعت ہے۔ گر شن فیلڈ ایم آئی ٹی سینٹر فار بٹس اینڈ ایٹمس کو چلاتے ہیں اور انہوں نے شخصی اختراع کے نظرئیے کے پیچھے موجود طبیعیات کو نہایت ہی سنجیدگی سے لیا ہے جو ان کے مطابق اگلے دور کی ایک توپ چیز ہوگی۔ انہوں نے تو ایک کتاب تک لکھ ڈالی ہے جس کا نام "ایف اے بی : دی کمنگ ریوو لوشن ان یور ڈیسک ٹاپ –فرام پرسنل کمپیوٹر تو پرسنل فیبریکیشن " ہے جس میں انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار شخصی اختراع پر کیا ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد "ایک ایسی مشین بنانا ہے جو خود سے کوئی بھی مشین بنا سکے۔" اس خیال کے پرچار کے لئے انہوں نے پہلے سے ہی پوری دنیا میں تجربہ گاہوں کا جال بچھا دیا ہے خاص طور پر تیسری دنیا میں جہاں شخصی اختراع کا زبردست اثر ہوگا۔
شروع میں انہوں نے ہر فن مولا قسم کی اختراع کا خیال پیش کیا۔ یہ چیز جو اس قدر چھوٹا ہوگی کہ آسانی سے میز پر بھی سما جائے گی۔ اس کام کے لئے لیزر کی دنیا میں ہونے والی جدید پیش رفت سے بھرپور استفادہ اٹھایا جائے گا تاکہ کمپیوٹر پر دکھائی دینے والے کسی بھی چیز کو بنانے کے لئے وہ کاٹ پیٹ کرکے ویلڈ کرکے اس کو مخصوص ساخت میں ڈھال سکے۔ مثال کے طور پر تیسری دنیا کے غرباء اس سے کھیتوں میں استعمال ہونے والے اوزار اور مشینیں بنانے کا کہہ سکتے ہیں۔ تمام تر معلومات ایک کمپیوٹر میں موجود ہوگی جو بذریعہ انٹرنیٹ ایک وسیع قسم کی نقشوں اور تیکنیکی اطلاعات پر مشتمل ایک لائبریری سے استفادہ کر سکے گا۔ ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کسی بھی فرد کی خواہش کے اوزار کے نقشے کو اس لائبریری میں موجود نقشے سے ملا کر دیکھے گا ، پھر ان اوزار کو بنانے کا طریقہ کمپیوٹر کو بذریعہ برقی خط کے بھیج دے گا۔ اس کے بعد ان کا شخصی اختراع، لیزر اور دوسرے آلات کا استعمال کرتے ہوئے اس شئے کو میز کے اوپر ہی بنا دے گا۔
یہ ہر فن مولا قسم کا کارخانہ تو عظیم منزل کی طرف پہلا قدم ہوگا۔ گر شن فیلڈ کی نظریں تو اس کو سالماتی پیمانے پر کام کرنے کے قابل بنانے پر لگی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں انسان اپنے تخیلات کو حقیقت کا روپ دینے پر قادر ہو جائے گا۔ بہرحال اس میدان میں ترقی کی رفتار انتہائی سست ہے کیونکہ انفرادی جوہروں میں جوڑ توڑ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
"اریسٹائیڈز ریقوچا"(Aristides Requicha) |
یونیورسٹی آف ساؤتھرن کیلی فورنیا کے "اریسٹائیڈز ریقوچا"(Aristides Requicha) ان پہل کاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس سمت میں کام شروع کیا ہوا ہے۔ ان کی امتیازیت سالماتی روبوٹس ہیں اور ان کا مقصد نینو روبوٹس کے غولوں سے کم کی کوئی چیز بنانا نہیں ہے جو ایٹموں کی جوڑ توڑ اپنی مرضی سے کر سکیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو" منظم طریقہ "(Top-down Approach)ہے جس میں انجنیئر نیم موصل صنعتوں میں استعمال ہونے والی نقش کارٹیکنالوجی سے استفادہ اٹھاتے ہوئے ننھے سرکٹ بنائیں گے جو نینو بوٹس کے دماغ کے طور پر کام کریں گے۔ اس ٹیکنالوجی میں نہایت تیزی سے ترقی کرتے ہوئے فن " ننھی سنگی طباعت"(Nanolithography) سے استفادہ اٹھا کرا اتنے چھوٹے روبوٹ بنائے جا سکتے ہیں جن کا حجم ٣٠ نینو میٹر کا ہو۔
تقطیعی سرنگی خردبین کی مدد سے انفرادی جوہروں کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاسکتی ہے |
لیکن ایک دوسرا "اوندھا یا الٹا طریقہ"(Bottom-up Approach) بھی ہے جس میں انجنیئر ایک جوہر پر مشتمل روبوٹ بنانے کی کوشش کریں گے۔ اس کام میں ان کا اہم اوزار "تقطیعی کھوجی خردبین" (ا سکیننگ پروب مائکرو اسکوپ) ہی ہوگی جو اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرے گی جو تقطیعی سرنگی خردبین (ا سکیننگ ٹنلنگ مائکرو اسکوپ) میں انفرادی ایٹموں کی شناخت کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سائنس دانوں نے زینون کے جوہروں کو پلاٹینم یا نکل کی سطح پر حرکت دینے میں کافی مہارت حاصل کر لی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ " اب بھی دنیا میں موجود بہترین دماغوں پر مشتمل گروہ کو صرف ایک پچاس جوہروں پر مشتمل ساخت کو بنانے کے لئے ١٠ گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ ایک ایٹم کو ہاتھ سے حرکت دینے کا عمل ایک انتہائی سست رفتار اور تھکا دینے والا کام ہے۔" انہوں نے یہ بات نہایت وثوق سے کہی کہ "ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک ایسی نئی قسم کی مشین بنائی جائے جو اونچے درجے کا کام بجا لا سکے یعنی جو ایک ہی وقت میں سینکڑوں جوہروں کو اپنی مرضی کی جگہوں پر رکھ سکے۔ بدقسمتی سے ایسی کوئی بھی مشین ابھی تک نہیں بن سکی ہے۔ اس بات سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ اوندھا طریقہ ابھی اپنے عہد طفلانہ میں ہی موجود ہے۔
لہٰذا مفصلہ بالا گفتگو کی مد نظر رکھتے ہوئے ہم یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ روحی حرکی قوّت اگرچہ آج کے مروجہ معیار کے مطابق نا ممکن ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ ای ای جی، ایم آر آئی اور دوسرے طریقوں سے دماغی خیالات کے بارے میں ہماری بڑھتی ہوئی معلومات مستقبل کے آنے والے دنوں میں اس کو ممکن بنا دے۔
ہو سکتا ہے کہ رواں صدی میں ہی خیالات کے بل بوتے پر کسی قسم کے آلے کو استعمال کرکے ہم عام درجہ حرارت پر کام کرنے والے فوقی موصل کے ذریعہ اس طرح کے کام سر انجام دے پائیں جس کو جادو گری سے علیحدہ کرنا مشکل ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اگلی صدی تک سالموں کو بڑے اجسام میں از سر نو ترتیب دیا جا سکے۔ اس وجہ سے میں روحی حرکی قوّت کو جماعت "I" کی ناممکنات میں رکھ رہا ہوں۔ کچھ سائنس دانوں کے دعوے کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی کنجی مصنوعی ذہانت کے حامل نینو روبوٹ ہیں ، لیکن یہ اپنے آپ میں ایک بنیادی سوال چھوڑ دیتا ہے : کیا روبوٹ وجود بھی رکھتے ہیں ؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں