Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 21 جون، 2015

    5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy)

    اگر پورے دن آپ کا سامنا کسی نئی چیز سے نہ ہو تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کا دن بیکار گیا۔

    - جان وہیلر (John Wheeler)


    خلاف قیاس عمل کرنے والے ہی ناممکنات کو حاصل کریں گے۔

    - ایم سی ایسچر(M.C Escher)


    "اے ای وین ووگٹ " (E.A Van Vogt) کے ناول "سلان" (Slan) نے ہمارے خیال خوانی سے جڑے ڈر کو بہت ہی زبردست طریقے سے اپنا موضوع بنایا ہے۔

    اے ای وین ووگٹ " (E.A Van Vogt) کا  ناول "سلان" (Slan)

    " جامی کراس"(Jommy Cross) اس ناول کا ہیرو ایک" سلان" ہوتا ہے جس کا تعلق ایک معدوم ہوتی ہوئی انتہائی ذہانت والی خیال خواں نسل سے ہوتا ہے۔


    ناول میں اس کے والدین کو بے رحمی کے ساتھ غیض و غضب سے بھرے انسانوں کا وہ مجمع قتل کر دیتا ہے جو تمام خیال رسانوں سے اس لئے خوف کھاتا اور نفرت کرتا تھا کہ سلانوں کی یہ شاندار طاقت انسانوں کی ذاتی زندگی میں ان کے بے تکلف خیالات میں دخل در معقولات کر سکتی تھی۔ ناول میں انسان بے رحمی کے ساتھ سلان کا جانوروں کی طرح سے شکار کر تے ہیں ۔ سر میں سے نکلتی ہوئی بیل سوت کی وجہ سے سلان کو پہچانا بہت ہی آسان تھا۔ ناول کی کہانی کے دوران ، جامی دوسرے سلانوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتا ہے جو ممکنہ طور پر انسانوں کے اس بےرحم شکار سے تنگ آ کر خلاء میں فرار ہو گئے تھے۔
    خیال خوانی میں خیال خواں لوگوں کے خیالات پڑھ سکتا ہے.

    تاریخی طور پر دماغ شناسی اس قدر اہم رہی ہے کہ اکثر اس کا تعلق دیوتاؤں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ کسی بھی دیوتا کی بنیادی طاقتوں میں سے ایک دماغ کو پڑھنا تھا تاکہ وہ ہماری دعاؤں کو سن کر قبول کر سکیں۔ دماغوں کو اپنی مرضی کے مطابق پڑھنے والا ایک خیال خواں آسانی کے ساتھ کرۂ ارض کا طاقتور ترین شخص بن سکتا ہے۔ ایک ایسا شخص کسی بھی وال اسٹریٹ بینکر کے دماغ میں داخل ہو کر یا اس کو حریف سے جبراً بلیک میل کرکے صاحب ثروت بھی بن سکتا ہے۔ اس کا وجود قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ وہ بغیر کوشش کیے کسی بھی قوم کے حساس قومی راز چرا سکتا ہے۔ سلان کی طرح اس سے بھی ڈرا جائے گا اور ہو سکتا ہے کہ اس کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جائے۔
    آئزک ایسی موف کے مشہور زمانہ فاؤنڈیشن سلسلے میں خیال خوانی ایک اہم موضوع رہا ہے.

    ایک سچے خیال رساں کی زبردست طاقت مشہور زمانہ سلسلے "فاؤنڈیشن" از" آئزک ایسی موف"(Issac Asimov) میں دکھائی گئی ہے۔ اس کی اکثر تشہیر سائنس فکشن کی طلسماتی دنیا کی سب سے عظیم کہانی کے طور پر کی جاتی ہے۔ کہانی میں ایک کہکشانی سلطنت جو کئی ہزار سال سے حکومت کر رہی تھی اب اپنے زوال و بربادی کے قریب تھی۔ خفیہ سائنس دانوں کی ایک جماعت جس کا نام سیکنڈ فاؤنڈیشن تھا اس نے پیچیدہ مساوات کا استعمال کرتے ہوئے اندازہ لگایا کہ سلطنت کی تہذیب زوال پذیر ہو کر آخر کار ٣٠ ہزار سال کے گمنامی کے اندھیرے میں ڈوب جائے گی۔ سائنس دانوں نے مساوات کی بنیاد پر ایک مفصل منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کا مقصد تہذیب کے زوال کو چند ہزار سال تک محدود رکھنا تھا۔ لیکن پھر ایک ناگہانی مصیبت نازل ہو گئی۔ ان کی مفصل مساوات بھی ایک اندازہ لگانے سے چوک گئی تھی۔ اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں ایک "تقلیبی"(Mutant) جو "خچر(Mule)" کہلایا پیدا ہو گیا۔ یہ تقلیبی خچر دور دراز سے بیٹھ کر بھی دماغوں کو اپنے قبضے میں کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا ۔نتیجتاً اس کے پاس وہ طاقت و صلاحیت آ گئی تھی جس سے وہ کہکشانی سلطنت پر بھی قبضہ کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اگر اس خیال خواں کو نہیں روکا جاتا تو کہکشاں کے مقدر میں ٣٠ ہزار سال کا انتشارو خلفشار لکھ دیا گیا تھا۔

    اگرچہ سائنس فکشن خیال رسانی کی زبردست کہانیوں سے بھری ہوئی ہیں مگر حقیقت کچھ زیادہ ہی تلخ ہے۔ خیالات ذاتی اور غیر مرئی ہوتے ہیں ، لہٰذا اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے صدیوں سے بہروپئے اور ٹھگ ہم میں موجود سادہ لوح افراد کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ ایک سب سے آزمودہ ترکیب جو جادوگر اور دماغ پڑھنے ولے استعمال کرتے ہیں اس میں وہ اپنا ایک شریک کار سامعین میں گھسا دیتے ہیں۔ پھر اپنے اس شریک کار کا دماغ پڑھ کر وہ مجمع کو متاثر کرتے ہیں۔

    کئی جادوگر اور دماغ پڑھنے والوں نے اپنا پیشہ مشہور زمانہ کرتب" ہیٹ ٹرک" سے شروع کیا۔ جس میں لوگ ذاتی پیغام ایک کاغذ کے ٹکڑے پر لکھ کر اس کو ٹوپی کے اندر ڈال دیتے تھے۔ اس کے بعد جادوگر سامعین کے پاس جا کر ان کو بتا تا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا تھا جس سے ہر کوئی حیرت زدہ رہ جاتا تھا۔ اس میں مغالطے کی حد تک سادہ مگر فطین ترکیب استعمال کی جاتی تھی۔
     "چالاک ہنز "(Clever Hans)

    ایک اور مشہور خیال خوانی واقعے میں انسان کے بجائے ایک جانور کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس ترکیب میں ایک حیرت انگیز گھوڑا جس کا نام "چالاک ہنز "(Clever Hans) تھا اس کو استعمال کیا گیا تھا۔ اس گھوڑے نے یورپین تماش بینوں کو ١٨٩٠ء میں حیرت کے سمندر میں غرق کر دیا تھا۔چالاک ہنز تماشائیوں کو حیرت و استعجاب میں ڈالنے کے لئے پیچیدہ ریاضی کے حسابات حل کرنے کے کارنامے سرانجام دے سکتا تھا۔ مثال کے طور پر اگر آپ چالاک ہنز سے ٤٨ کو ٦ سے تقسیم کرنے کا کہتے ، تو گھوڑا اپنے کھر کو آٹھ دفعہ زمین پر مارتا۔ چالاک ہنز حقیقت میں تقسیم، ضرب کسری جمع ، اور الفاظ کے ہجے بھی کر سکتا تھا بلکہ یہاں تک کہ وہ تو موسیقی کی طرزوں کو بھی پہچان سکتا تھا۔ چالاک ہنز کے مداحوں نے اس بات کا اعلان کر دیا تھا کہ یا تو وہ انسانوں سے بھی زیادہ ذہین تھا یا پھر وہ خیال رسانی کے ذریعہ لوگوں کے دماغ سے نتیجے نکال لیتا تھا۔

    ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف"
    مگر چالاک ہنز کسی فطین ترکیب کا نتیجہ نہیں تھا۔ اس کی حساب لگانے کی شاندار صلاحیت نے اس کے تربیت کار کو بھی بے وقوف بنا دیا تھا۔ ١٩٠٤ء میں ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر "سی اسٹرف" (C. Strumpf) اس گھوڑے کی جانچ کرنے کے لئے اپنے پاس لے کر آئے لیکن انہوں کسی بھی قسم کی چالاکی یا گھوڑے کو ہوتے ہوئے مخفی اشارے نہیں دیکھے۔ ان کے اس تجزیے سے عوام میں چالاک ہنز کی سحر انگیزی اور بڑھ گئی۔ تین سال کے بعد ، اسٹرف کے ایک شاگرد ماہر نفسیات "آسکر فاسٹ"(Oskar Pfungst) نے ایک اور با مشقت تجزیہ کیا اور آخر کار چالاک ہنز کے راز سے پردہ اٹھانے میں کامیاب ہو گیا۔ گھوڑا صرف اپنے تربیت کار کے چہرے کے انتہائی لطیف تاثرات کا مشاہدہ کرتا تھا۔ گھوڑا اس وقت تک اپنا کھر زمین پر مارتا رہتا تھا جب تک اس کا تربیت کار اپنے چہرے کے تاثرات کو ہلکا سا بدل نہیں دیتا تھا۔ تاثرات کے بدلتے ہی وہ اپنا کھر زمین پر مارنا روک دیتا تھا۔ چالاک گھوڑا نہ تو حساب کتاب کر سکتا تھا نہ ہی لوگوں کے دماغ کو پڑھ سکتا تھا۔ وہ تو صرف ایک انتہائی چالاک لوگوں کے چہرے کے تاثرات کا مشاہدہ کرنے والا تھا۔ 

    تاریخ میں دوسرے خیال خواں جانوروں کا تذکرہ بھی ملتا ہے۔ تاریخ میں سب سے پہلے ١٥٩١ء میں انگلستان میں ایک گھوڑا جس کا نام موروکو تھا اس کا ذکر ملتا ہے۔ اس دور میں وہ گھوڑا بہت مشہور ہو گیا تھا اور اس نے اپنے مالک کی قسمت کھول دی تھی وہ تماشائیوں میں سے کسی بھی شخص کو پسند کرتا ، حرف تہجی کی طرف اشارہ ، اور پانسے پر موجود اعداد کو جمع بھی کر سکتا تھا۔ اس نے انگلینڈ میں ایک ایسی سنسنی پھیلا دی تھی کہ شیکسپیئر نے اس کو اپنے ڈرامے "لووز لیبرس لوسٹ " میں بطور "رقاص گھوڑے" کا کردار لکھ کر امر کر دیا۔

    جواری بھی اکثر لوگوں کے دماغ کو کافی حد تک پڑھ لیا کرتے تھے۔ عام طور پر انسان جب بھی کوئی خوش ہونے والی چیز دیکھتا ہے تو اس کی آنکھ کی پتلی پھیل جاتی ہے۔ جبکہ اس کی آنکھ کی پتلیاں اس وقت سکڑ جاتی ہیں جب وہ کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو (آنکھ کی پتلیاں اس وقت بھی سکڑ جاتی ہیں جب وہ ریاضی کے پیچیدہ مسائل حل کر رہا ہوتا ہے )۔ جواری اپنے سامنے بیٹھے مخالفوں کے چہروں پر ان کی آنکھوں میں جھانک کر اس کے سکڑنے اور پھیلنے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اکثر جواری رنگین نقاب لگاتے ہیں تاکہ وہ اپنی آنکھوں کے تاثرات کو چھپا سکیں۔ آنکھوں پر لیزر کی شعاع کو مار کر بھی اس کے منعکس ہونے کی جگہ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس طرح سے کافی صحت کے ساتھ یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جس شخص پر لیزر کی شعاع ماری گئی ہے وہ کہاں دیکھ رہا ہے۔ منعکس ہوئے لیزر کے نقطہ کا تجزیہ کرکے اس بات کا معلوم کیا جا سکتا ہے کہ فاعل کس طرح سے تصویر کا معائنہ کر رہا ہے۔ ان دونوں ٹیکنالوجی کو ملا کر کسی چیز کا معائنہ کرتے ہوئے شخص کے جذباتی تاثرات اس کی بے خبری کی حالت میں معلوم کیے جا سکتے۔


    طبعی تحقیق 

    خیال رسانی اور بھوت پریت جیسے مظاہر کا پہلا باقاعدہ سائنسی طرز فکر سے مطالعہ سوسائٹی فار فزیکل ریسرچ نے کیا تھا جس کی بنیاد ١٨٨٢ء میں ڈالی گئی تھی۔(اسی سال "دماغی خیال خوانی" کا نام "ایف ڈبلیو میئرس(F.W Mayers)" نے رکھا جو اس سوسائٹی کے کارکن تھے۔ اس سوسائٹی کے ماضی کے صدور انیسویں صدی کی کچھ ممتاز شخصیات تھیں۔ اس سوسائٹی نے، جو آج بھی اپنا وجود رکھتی ہے ، کئی دھوکے بازوں کے ڈھکوسلوں کا پردہ فاش کیا تھا لیکن پھر بھی اکثر اوقات یہ سوسائٹی بھی اکثر دو حصّوں میں بٹ جاتی تھی جس میں سے ایک حصّہ روحانیت جیسے مظاہر پر کامل یقین رکھتا تھا جبکہ دوسرا سائنس دانوں پر مشتمل تھا جو ایسی چیزوں کا زیادہ سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہتے تھے۔ 
    ڈاکٹر "جوزف بینکس رائن"(Joseph Banks Rhine) اپنی بیوی " لوئسا"(Louisa) کے ساتھ 
    سوسائٹی کے ایک محقق جن کا نام ڈاکٹر "جوزف بینکس رائن"(Joseph Banks Rhine) تھا انہوں نے منظم اور با مشقت روحی مظاہر کا مطالعہ ١٩٢٧ء میں امریکہ کی ریاست شمالی کیرولینا میں واقع ڈیوک یونیورسٹی میں موجود رائن انسٹیٹیوٹ (جو اب رائن ریسرچ سینٹر کہلاتا ہے ) سے شروع کیا۔ کئی دہائیوں تک وہ اور ان کی بیوی ،" لوئسا"(Louisa) نے اپنی طرز کے کچھ اولین سائنسی طرز فکر کے تجربات امریکہ میں موجود مختلف قسم کے ماورائے نفسیاتی مظاہر پر کیے اور اپنے طریقے اور اس سے حاصل کردہ نتائج کو ہم رتبہ جائزے کے لئے مختلف رسائل میں شایع کروایا۔ یہ رائن ہی تھے جنہوں نے "خارج از حواس شعور "(Extrasensory Perception) کی اصطلاح اپنی پہلی کتاب میں وضع کی تھی۔ 
    ڈاکٹر "کارل زنیر"(Karl Zener) کا "پنج نشانی گتے" کا نظام 

    اصل میں یہ رائن کی ہی تجربہ گاہ تھی جس نے نفسیات کی تحقیق کے معیار مقرر کیے تھے۔ ان کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھ جن کا نام ڈاکٹر "کارل زنیر"(Karl Zener) تھا انہوں نے خیال خوانی کی طاقت جانچنے کے لئے ایک "پنج نشانی گتے" کا نظام وضع کیا جس کو اب ہم" زنیر کے گتے " کے نام سے جانتے ہیں۔ نتیجوں کی اکثریت میں تو کسی بھی قسم کی خیال خوانی کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ لیکن بہت ہی چھوٹی اور مختصر سی تعداد ان تجربوں کی بھی تھی جس میں انتہائی معمولی مگر قابل توجہ ہم ربطی مواد موجود تھا جس کو صرف اتفاق کہہ کر بیان نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ان تجربات کو اکثر دوسرے محققین دہرا نہیں سکتے تھے۔
    لیڈی ونڈر

    اگرچہ رائن کی کوشش تھی کہ اس کی شہرت ایک سخت گیر محقق کے طور پر رہے ، مگر اس کی شہرت پر اس وقت بٹا لگا جب اس کی ملاقات ایک گھوڑے سے ہوئی جس کا نام "لیڈی ونڈر "تھا۔ یہ گھوڑا خیرہ کناں قسم کے خیال خوانی کے کرتب دکھا سکتا تھا جیسا کہ حروف تہجی والے کسی کھلونا بلاک کو ہلانا، اور تماشائیوں کے ذہن میں موجود کسی الفاظ کے ہجے کرنا۔ بظاہر رائن کو چالاک ہنز کے ہنر کی معلومات نہیں تھیں۔ ١٩٢٧ء میں رائن نے لیڈی ونڈر کا کچھ تفصیلی تجزیہ کرنے کے بعد نتیجہ اخذ کیا " ایک انجانے عمل میں دماغی اثر سے منتقلی کو بیان کرنے کی صرف ایک خیال خوانی کی ہی وجہ باقی بچی ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز نہیں مل سکی جو اس نتیجے سے ہم آہنگ ہونے میں ناکام ہو اور کوئی دوسرا مفروضہ بھی موجود نہیں ہے جو حاصل کردہ نتیجے کی روشنی میں اس کو بیان کر سکے۔” بعد میں "میلبرن کرسٹوفر"(Melbourne Christopher) نے لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کا بھانڈا پھوڑا: انتہائی ہلکے چابک کے اثر لیڈی ونڈر کے کھر کو روکنے کے لئے اس کا مالک استعمال کرتا تھا۔(لیڈی ونڈر کی خیال خوانی کی اصلیت جاننے کے باوجود بھی، رائن اس بات پر مصر رہا کہ گھوڑے میں حقیقت میں خیال رسانی کی طاقت موجود تھی لیکن بعد میں اس نے کسی طرح سے اپنی اس کو کھو دیا ہے۔ وہ اس کے مالک کو مجبور کرتا رہا کہ کسی طرح سے اس گھوڑے کی خیال رسانی کی قوّت کو دوبارہ لے آئے۔)
    میلبرن کرسٹوفر"(Melbourne Christopher

    رائن کی شہرت کو زبردست حتمی جھٹکا لگا تھا ، بہرحال جب وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے ایک ایسے جانشین کی تلاش شروع کی جس کا نام بے داغ ہو اور وہ انسٹیٹیوٹ کے کام کو لے کر آگے چلے۔ ایک متوقع امیدوار ڈاکٹر "والٹر لیوی"(Walter Levy) تھے جن کو اس نے ١٩٧٣ء میں ملازم رکھا تھا۔ ڈاکٹر لیوی اس میدان میں ایک ابھرتا ہوا ستارا تھے جنہوں نے ایک ایسے سنسنی خیز تجربے کے نتیجوں کو بیان کیا تھا جس میں ایک چوہا خیال خوانی کے ذریعہ کمپیوٹر سے پیدا ہوئے بے ربط اعداد کو تبدیل کر سکتا تھا۔ بہرحال ایک تجربہ گاہ کے ایک شکی مزدور نے ڈاکٹر لیوی کو چوری چھپے رات کو تجربہ گاہ میں جاتا ہوا دیکھا جو رات کے اندھیرے میں نتیجوں کو تبدیل کر رہے تھے۔ ان کو نتیجوں کو تبدیل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا گیا۔ مزید جانچ سے پتا چلا کہ چوہے کے پاس کسی بھی قسم کی خیال خوانی کی کوئی طاقت نہیں تھی اور اس کے نتیجے میں ڈاکٹر لیوی کی بے عزتی کی گئی اور ان کو مجبور کیا گیا کہ وہ استعفیٰ دے دیں۔ 


    خیال خوانی اور اسٹار گیٹ 

    مافوق الفطرت چیزوں میں دلچسپی نے سرد جنگ کے دوران زبردست زور پکڑا تھا جس کے دوران کافی خفیہ تجربات خیال خوانی، ذہن کو قابو کرنے پر اور دور سے بیٹھ کر دیکھنے کے میدان میں ہوتے رہے۔ (دور سے دیکھنے کے عمل کا مطلب ہے کے فاصلے پر رہتے ہوئے صرف دماغ کی طاقت سے دوسروں کے دماغ کو پڑھ کر دور دراز کی چیزوں کو دیکھا جائے۔) اسٹار گیٹ اس مخفی پروگرام کا خفیہ نام تھا جس میں سی آئی اے نے کافی تحقیقاتی منصوبوں (جیسا کہ سن اسٹریک، گرل فلیم، اور سینٹر لین )کی مالی معاونت کی تھی۔ یہ کام ١٩٧٠ء کے آس پاس اس وقت شروع ہوا تھا جب سی آئی اے کو یہ پتا چلا کہ سوویت یونین ٦ کروڑ روبل سال میں سائیکوٹرونکس تحقیق پر خرچ کر رہا ہے۔ امریکہ کو اس بات کی پریشانی تھی کہ سوویت یونین ای ایس پی(خارج از حواس شعور ) کا استعمال آبدوزوں اور فوجی تنصیبات کو ڈھونڈھنے ، جاسوسوں کو پہچانے اور خفیہ دستاویزات کو پڑھنے کے لئے استعمال کرے گا۔

    اسٹار گیٹ سی آئی اے کا مخفی سائیکوٹرونکس تحقیقاتی پروگرام تھا.

    ١٩٧٢ء میں سی آئی اے نے اس تحقیق میں پیسا ڈالنا شروع کیا ، مینلو پارک میں واقع اسٹینفرڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ (ایس آر آئی ) کے "رسل ٹارگ "(Russell Targ) اور "ہیرالڈ پٹ آف"(Herald Puthoff) اس کے سربراہ تھے۔ شروع میں انہوں نے نفسیاتی ماہرین کی جماعت کو تربیت دینے کا سوچا جو نفسیاتی جنگ کو لڑ سکیں۔ دو دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے میں امریکہ نے ٢ کروڑ ڈالر اسٹار گیٹ پر خرچ کر دیئے ۔ اس تحقیقی کام میں ٤٠ سے زائد ملازمین،٢٣ دور دراز بیٹھ کر دیکھنے والے اور تین ماہر نفسیات ملازمت پر رکھے ہوئے تھے۔ 

    "رسل ٹارگ "(Russell Targ)
    ١٩٩٥ء تک ٥ لاکھ ڈالر سالانہ کے بجٹ کے ساتھ ، سی آئی اے نے سینکڑوں اطلاعات سمیٹنے والے منصوبوں کا انتظام کیا جس میں ہزاروں دور دراز سے دیکھنے والی نشستیں بھی شامل تھیں۔ دور دراز سے دیکھنے والے ناظر سے خاص طور پر یہ کہا جاتا تھا۔

    •  ١٩٨٦ء کے بم دھماکوں سے پہلے کرنل قزافی کو ڈھونڈو۔
    •  ١٩٩٤ء میں شمالی کوریا کے پلوٹونیم کے ذخائر کا پتا لگاؤ۔
    •  ١٩٨١ء میں اٹلی میں ریڈ بریگیڈ کے اغواء کئے ہوئے یرغمالیوں کا پتا لگاؤ۔
    •  افریقہ میں تباہ ہوئے سوویت ٹی یو -٩٥ بمبار کا معلوم کرو۔
    دور دراز سے دیکھنے والے ناظر اسٹار گیٹ کا خصوصی حصّہ تھے.

    ١٩٩٥ء میں سی آئی اے نے امریکن انسٹیٹیوٹ فور ریسرچ (اے آئی آر )سے اس تحقیقاتی پروگرام کو جانچنے کا کہا۔ اے آئی آر نے ان پروگراموں کو ختم کرنے کی تجویز دی۔ "کوئی بھی ایسا دستاویزی ثبوت نہیں ملا جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ ان تجربات کی خفیہ اداروں کے لئے کوئی قدرو قیمت ہے۔" اے آئی آر کے" ڈیوڈ گوسلن" (David Goslin)نے لکھا۔

    اسٹار گیٹ کے حامیوں نے گزرے برسوں میں دعوے کئے کہ انہوں نے آٹھ مارٹینی نتائج حاصل کئے (اس کا مطلب یہ ہے کہ ان تجربات سے حاصل شدہ شاندار نتائج کی شدت کو ہضم کرنے کے لئے آٹھ دفعہ مارٹینی کے جام پینے پڑتے۔) ناقدین بہرحال اس بات پر مصر رہے کہ دور دراز سے دیکھنے کی تجربات کی اکثریت کے نتیجے بے تکے اور غیر متعلق تھے اور اس عمل میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ڈالر ز کو ضائع کیا گیا تھا۔ مزید براں چند "دعوے " جو کیے گئے تھے وہ بھی اس قدر مبہم اور عام سے تھے کہ ان کو کافی عمومی مواقع پر استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اے آئی آر کی رپورٹ نے یہ بھی لکھا کہ اسٹار گیٹ کے سب سے زیادہ کامیاب وہ تجربے تھے جس میں دور بیٹھے ہوئے ناظر کو پہلے ہی اس تجرباتی کاروائی سے متعلق کچھ معلومات حاصل تھیں۔ لہٰذا قرین قیاس ہے کہ انہوں نے بہتر اندازہ لگائے اور یہ بات سمجھ میں آنے والی بھی ہے۔ آخر میں سی آئی اے نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسٹار گیٹ نے ایک بھی ایسی اطلاع نہیں دی جو اس ادارے کو کسی بھی قسم کی خفیہ کروائی میں مدد کر سکے لہٰذا اس نے اس پروجیکٹ کو ختم کر دیا۔( سی آئی اے کی صدام حسین کو خلیج کی جنگ میں ڈھونڈنے کے لئے دور دراز ناظر کے استعمال کی افواہیں سرگرم رہی تھیں اگرچہ ان تمام کوششوں میں ناکامی ہی ہاتھ لگی تھی۔)


    دماغی تبزیہ 

    اسی دوران سائنس دانوں نے دماغ کے کام کرنے کے طریقے کو تھوڑا بہت سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ انیسویں صدی میں سائنس دانوں کو شائبہ ہوا کہ برقی اشارے دماغ کے اندر نشر ہوتے ہیں۔١٨٧٥ء میں "رچرڈ کیٹن"(Richard Caton) نے سر کی سطح پر برقیرے لگا کر یہ بات دریافت کی کہ دماغ سے نکلنے والے ننھے برقی اشاروں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی کام نے آخر کار دماغی "برق نگار "( ای ای جی – (Electroencephalograph کی ایجاد کی داغ بیل ڈالی۔
    "رچرڈ کیٹن"(Richard Caton)
    نظری طور پر ہمارا ذہن ایک ایسا مرسل ہے جس کے ذریعہ ہمارے خیالات ننھے برقی اشاروں اور برقی مقناطیسی موجوں کی شکل میں نشر ہوتے ہیں۔ لیکن ان اشاروں کا استعمال کرتے ہوئے کسی کا دماغ پڑھنے میں کافی مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ اشارہ بہت ہی کمزور ملی واٹ درجہ میں ہوتے ہیں۔ دوسرے ، اشارے بڑی حد تک مہمل، ناقابل شناخت بے ربط شور پر مشتمل ہوتے ہیں۔ صرف خام اطلاعات ہی اس کچرے سے اکٹھی کی جا سکتی ہیں۔ تیسرے ہمارا دماغ اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسرے دماغ سے ان اشاروں کے ذریعہ قابل فہم پیغامات وصول کر سکے۔ یعنی با الفاظ دیگر ہمارے پاس ان اشاروں کو حاصل کرنے والے انٹینا کی کمی ہے۔ آخری مشکل یہ ہے کہ اگر ہم ان مدھم اشاروں کو حاصل بھی کر لیں تو بھی ہم ان کی بے ربطی کو درست نہیں کر سکیں گے۔ نیوٹنی اور میکسویلنی طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خیال خوانی بذریعہ ریڈیائی لہروں کے بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ 

    کچھ لوگ یقین رکھتے ہیں کہ خیال رسانی پانچویں قوّت کے ذریعہ ہوتی ہے جس کو "پی ایس آئی " قوّت کہا جاتا ہے۔ مگر خیال رسانی کا دفاع کرنے والے بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ ان کو پاس کوئی ٹھوس قابل تخلیق ثبوت اس "پی ایس آئی" قوّت کے حق میں نہیں ہے۔ 

    پھر بھی یہ اپنے آگے اس اہم سوال کو چھوڑ دیتا ہے: کوانٹم نظرئیے کو استعمال کرکے خیال خوانی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ 
    ایم آر آئی ( مقناطیسی اصدا ئی تصویرہ ) دماغی تبزیہ کار

    پچھلی دہائی میں نئے کوانٹم آلات تاریخ میں پہلی دفعہ پیش کئے گئے ہیں جو سوچتے ہوئے دماغ کے اندر جھانک سکنے کے قابل ہیں۔ اس کوانٹم انقلاب کی نمایاں چیز "پیٹ (پی ای ٹی)" (پوزیٹرو ن ایمیشن ٹوموگرافی ) اور ایم آر آئی ( مقناطیسی اصدا ئی تصویر ہ ) دماغی تبزیہ کار ہیں۔ ایک پیٹ تبزیہ ریڈیائی تابکار شکر کو خون میں شامل کر کے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ شکر دماغ کے حصّوں میں مرتکز ہو جاتی ہے جو سوچنے کے عمل کو سرگرم کر دیتے ہیں اور اس کام کے لئے توانائی درکار ہوتی ہے۔ ریڈیائی تابکار شکر پوزیٹرو ن(ضد الیکٹران ) کو خارج کرتے ہیں جن کا آلے کے ذریعہ آسانی کے ساتھ سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا ضد مادّہ کے زندہ دماغ میں بنائے گئے ان نمونوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خیالات کے نمونوں کو حاصل کیا جا سکتا ہے، اس کاروائی میں دماغ کے اس حصّے کو ایک دم صحیح طور پر الگ کر دیا جاتا ہے جو اس قسم کی حرکت کا باعث بنتے ہیں۔

    ایم آر آئی مشین بھی بالکل اسی طرح سے کام کرتی ہے بس صرف فرق اتنا ہے کہ وہ اور زیادہ من و عن طرح سے کام کرتی ہے۔ مریض کے سر ایک بڑے ڈونَٹ کی شکل کے مقناطیسی میدان میں رکھ دیا جاتا ہے۔ مقناطیسی میدان ایٹموں کے مرکزوں کو میدانی خطوط کے متوازی صف بستہ کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایک ریڈیائی ضرب مریض کی طرف بھیجی جاتی ہے جس کے نتیجے میں مرکزے ڈگمگاتے ہیں۔ جب مرکزے اپنا رخ بدلتے ہیں تو وہ ننھے ریڈیائی اشارے "ایکو" خارج کرتے ہیں جن کا سراغ لگایا جا سکتا ہے جو کسی مخصوص مادّے کے ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر دماغی حرکت آکسیجن کے استعمال سے جڑی ہوتی ہے ، لہٰذا ایم آر آئی مشین سوچنے کے عمل کو آکسیجن کے حامل خون کی موجودگی میں بھیج کر الگ کر دیتی ہے۔ جتنا زیادہ آکسیجن سے بھرپور خون ہوگا اتنا زیادہ ہی دماغ اس حصّے میں متحرک ہوگا۔(دور حاضر کی تفاعلی ایم آر آئی مشینیں دماغ کے ایک ملی میٹر جتنے چھوٹے سے حصّے میں بھی اشارے بھیج سکتی ہیں جس سے یہ مشینیں زندہ دماغ کے خیالات کے نمونے حاصل کرنے کے لئے مثالی ہو سکتی ہیں۔) 


    دروغ کشا ایم آر آئی 

    اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایک دن سائنس دان ایم آر آئی مشینوں کے ذریعہ زندہ دماغ کے خیالات کی نقشہ سازی کرکے اس کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ دماغ پڑھنے کا سب سے سادہ امتحان کسی کے سچ یا جھوٹ بولنے کا سراغ لگانا ہوگا۔

    ایک قصّے کے مطابق دنیا کا سب سے پہلا دروغ گوئی کا سراغ لگانے کا آلہ ایک ہندوستانی پنڈت نے صدیوں پہلے بنا لیا تھا۔ وہ مشتبہ شخص کو ایک جادوئی گدھے کے ساتھ ایک بند کمرے میں رکھتا تھا اور مشتبہ شخص کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ جادوئی گدھے کی دم کو کھینچے۔ اگر گدھا بولنے لگتا تو اس کا مطلب تھا کہ مشتبہ شخص جھوٹا ہے۔ اگر گدھا چپ رہتا تو اس کا مطلب ہے کہ مشتبہ شخص سچ بول رہا ہے۔(خفیہ طور پر گدھے کی دم پر کالک مل دی جاتی تھی۔)

    جب مشتبہ شخص کمرے سے باہر نکلتا تھا ، تو وہ اپنی بے گناہی کا دعویٰ کرتا تھا کیونکہ دم کھینچتے وقت گدھا کوئی آواز نہیں نکالتا تھا۔ لیکن اس کے بعد وہ پنڈت مشتبہ شخص کے ہاتھوں کا معائنہ کرتا تھا۔ اگر ہاتھ صاف ہوتے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ جھوٹا ہے۔(کبھی کبھی جھوٹ پکڑنے کے آلے کے استعمال کی دھمکی اس آلے سے زیادہ کارگر ہوتی ہے۔
    ماہر نفسیات "ولیم مارسٹن"(William Marston)
    پہلا "جادوئی گدھا "عہد رفتہ میں ١٩١٣ء میں بنایا گیا۔ جب ماہر نفسیات "ولیم مارسٹن"(William Marston) نے ایک کتاب انسان کے خون کے دباؤ پر لکھی۔ اس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ انسانی خون میں دباؤ جھوٹ بولتے وقت بڑھ جاتا ہے۔(خون کے اس دباؤ کا مشاہدہ قدیم دور تک جاتا ہے جس میں مشتبہ شخص سے جب کسی سوال کا جواب مانگا جاتا تھا تو چھان بین کرنے والا اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے خون کے دباؤ کا تجزیہ کرتا تھا۔ )اس مفروضے نے جلد ہی شہرت حاصل کر لی اور وزارت دفاع نے اپنا پولی گراف انسٹیٹیوٹ قائم کر لیا۔

    مگر گزرتے وقت کے ساتھ یہ بات صاف ظاہر ہو گئی کہ جھوٹ پکڑنے کے آلے کو بے ضمیر سماج دشمن عناصر آسانی کے ساتھ اس کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ مشہور واقعہ سی آئی اے کے دوہرے ایجنٹ "ایلڈ رچ ایمس"(Aldrich Ames) کا ہے جس نے سابقہ سوویت یونین کو امریکی ایجنٹوں کے بارے میں معلومات اور امریکی نیوی کے خفیہ نیوکلیائی رازوں کو آشکار کر کے زبردست مال کمایا تھا۔ دہائیوں تک ایمس نے سی آئی اے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے ہونے والے جانچ میں اس کو بیوقوف بنایا۔ ایسا ہی کام سلسلے وار قاتل" گیری رج وے"(Gary Ridgway)نے کیا ، جو بدنام زمانہ گرین ریور کلر کے نام سے مشہور تھا اور جس نے ١٥ کے قریب خواتین کو قتل کیا تھا۔

    ٢٠٠٣ء میں یو ایس نیشنل آف اکیڈمی سائنسز نے د ہلا دینے والی رپورٹ دروغ کشا آلات کی کارکردگی پر دی ، جس میں انہوں نے ان تمام طریقوں کا ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ چالاک لوگ ان آلات کو بیوقوف بنا تے ہیں اور معصوم لوگ جھوٹے ثابت ہو جاتے ہیں۔
    نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے "پیٹر روزنفیلڈ"(Peter Rosenfeld)
    دروغ کشائی کے یہ آلات اگر صرف پریشانی کی سطح کو ناپتے ہیں تو دماغ کو ناپنے کے بارے میں کیا کرتے ہیں ؟ یہ بیس سالہ پرانا خیال ہے کہ دماغ میں ہونے والی حرکیات کو دیکھا جائے۔ اس خیال کو نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے "پیٹر روزنفیلڈ"(Peter Rosenfeld) کے کام نے پروان چڑھایا۔ جنہوں نے جھوٹ بولنے کے دوران میں لوگوں پر ای ای جی تبزیہ کرکے پی ٣٠٠ موجوں کا ایک نمونہ اس نمونے سے مختلف پایا جو انہوں نے لوگوں کے سچ بولنے کے دوران حاصل کیا تھا ۔ (پی ٣٠٠ موجیں اکثر اس وقت متحرک ہوتی ہیں جب دماغ کسی نئی چیز یا معمول سے ہٹ کر کسی کو محسوس کرتا ہے۔) 
    یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے" ڈینیل لنگلبن"(Daniel Langleben)

    جھوٹ کا سراغ لگانے کے لئے ایم آر آئی مشین کو استعمال کرنے کا خیال یونیورسٹی آف پینسلوانیا کے" ڈینیل لنگلبن"(Daniel Langleben) کی کاوش تھی۔١٩٩٩ء میں اس نے ایک مقالہ میں بتایا کہ وہ بچے جو توجہ کی کمی سے ہونے والی بیماری کا شکار ہوتے ہیں ان کو جھوٹ بولنے میں مشکل ہوتی ہے مگر تجربے سے حاصل کردہ نتائج نے اس کو غلط ثابت کر دیا تھا ؛ کیونکہ ایسے بچوں کو جھوٹ بولتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ایسا بچوں کا اصل مسئلہ سچ بولنے میں رکاوٹ کا تھا۔" وہ بغیر سوچے سمجھے بول دیتے تھے "لنگلبن نے یاد کرتے ہوئے بتایا۔ اس نے قیاس کیا جھوٹ بولتے ہوئے دماغ سچ بولنے سے پہلے رکتا ہے اور اس کے بعد دھوکہ دہی کا سوچتا ہے۔ "جب آپ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہیں تو اس وقت آپ اپنے دماغ میں سچ کو چھپا کر رکھتے ہیں۔ لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ زیادہ متحرک ہوتا ہے۔" اس نے بتایا۔ با الفاظ دیگرے جھوٹ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ 
    "قص جبہی"(Frontal Lobe)
    کالج کے طالبعلموں کے ساتھ تجربہ کرتے ہوئے اور ان سے جھوٹ بولنے کا کہتے ہوئے لنگلبن کو جلد ہی یہ بات پتا چل گئی کہ جھوٹ بولتے ہوئے دماغ کے کچھ حصّوں میں معمول سے زیادہ حرکت جنم لیتی ہے ، جس میں دماغ کا وہ حصّہ جس کو "قص جبہی"(Frontal Lobe) کہتے ہیں(جہاں بلند خیالات مرتکز ہوتے ہیں )،" فص صدغی"(Temporal Lobe) اور دماغ کے بالائی پیچیدہ نظام والے حصّے(- Limbic Systemجہاں جذبات کو ابھارا جاتا ہے ) شامل ہیں۔ خصوصی طور پر اس نے اگلے نطاقی تلفیف دماغی حصّے(Interior Cingulated Gyrus) میں (جس کا تعلق تصادموں کو حل کرنے اور رد عمل کو روکنے سے ہے) غیر معمولی تحریک کو درج کیا۔

    " فص صدغی"(Temporal Lobe)
    دماغ کا بالائی پیچیدہ نظام (Limbic System)

    اس کے دعوے کی جانچ کے لئے ایک منضبط تجربے میں جب کسی شخص کے جھوٹ یا سچ بولنے کا تجزیہ کیا گیا (جیسا کہ اس نے کالج کے طالبعلموں سے کھیلنے والے کارڈ کو پہچاننے میں جھوٹ بولنے کا کہا )تو اس کی کامیابی کی مسلسل شرح ٩٩ فیصد تک تھی۔ 

    اس ٹیکنالوجی میں لوگوں نے اس قدر دلچسپی لی کہ دو تجارتی جوکھم اٹھانے والوں نے اس پر کام شروع کرکے اپنی خدمات عام عوام کے لئے پیش کر دیں۔ ٢٠٠٧ء میں ایک کمپنی نے "نو لائی ایم آر آئی "( ایم آر آئی کے آگے جھوٹ نہیں چلے گا) نے پہلا کیس لیا ، ایک آدمی جس نے انشورنس کمپنی پر مقدمہ دائر کر دیا تھا کیونکہ کمپنی کا دعویٰ تھا کہ اس نے خود سے جان بوجھ کر طعام گاہ میں آگ لگائی تھی۔(ایف ایم آر آئی تبزیہ نے اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ آگ لگانے والا نہیں تھا۔)

    لنگلبن کی تیکنیک کے حامیوں کا یہ دعویٰ تھا کہ یہ پرانے زمانے کے جھوٹ پکڑنے کے آلات سے کہیں زیادہ بہتر اور قابل بھروسہ ہے کیونکہ دماغی نمونوں کو بدلنا کسی کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ اگرچہ لوگوں کو دل کی دھڑکن اور پسینے کو روکنے کی تربیت دی جا سکتی ہے لیکن ان دماغی نمونوں کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی تربیت دینا ناممکن ہی ہے۔ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کے حامیوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف بڑھتی ہوئی آگاہی کے اس دور میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کا سراغ لگا کر انگنت زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔
    ماہر اعصابی حیاتیات "اسٹیون ہیمن"(Steven Hyman)

    ہرچند اس ٹیکنالوجی کے استعمال سے جھوٹ پکڑنے میں بظاہر کامیابی کی شرح نے اس کی حیثیت کو تسلیم کرلیا ، لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اصل میں ایف ایم آر آئی جھوٹ کو نہیں پکڑتا ، بلکہ یہ صرف جھوٹ بولتے وقت بڑھتی ہوئی دماغی حرکت کا بتاتا ہے۔ مثال کے طور پر مشین سے حاصل کردہ نتائج اس وقت غلط ثابت ہو سکتے ہیں جب کوئی شخص بہت ہی زیادہ پریشانی کی حالت میں سچ کو بتانے کی کوشش کرے۔ ایف ایم آر آئی صرف اس وقت محسوس ہونے والی پریشانی کو پکڑ پائے گی اور اس طرح سے غلط نتیجہ اخذ کرے گی کہ وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔ "اس بات کی بہت زیادہ ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ ایسے علیحدہ امتحان بنائے جائیں جو سچ کو دھوکے سے الگ کریں ، ورنہ سائنس کی برائی آ جائے گی۔" یہ بات ہارورڈ یونیورسٹی کے "اسٹیون ہیمن"(Steven Hyman) ، ماہر اعصابی حیاتیات ، نے خبردار کرتے ہوئے کہی۔

    کچھ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک صحیح جھوٹ پکڑنے والا آلہ ، ایک سچے خیال رساں کی طرح سے عام معاشرتی تعلقوں کو پریشان کن بنا دے گا ، کیونکہ جھوٹ کا کچھ حصّہ معاشرتی زیبائی کا حصّہ ہے جو معاشرے کا پہیہ چلنے میں مدد دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہو سکتا ہے کہ اس وقت ہماری عزت کا جنازہ نکل جائے جب وہ تمام خوشامدیں سب کی سب جھوٹ کی شکل میں سامنے آ جائیں جو ہم اپنے باس ، بڑوں ، بیویوں ، محبوباؤں اور رفقائے کاروں کی کرتے ہیں۔ ایک اصلی جھوٹ پکڑنے والا آلہ درحقیقت ہمارے خاندان اور گھرانے کے سارے راز ، چھپے ہوئے جذبات، دبی ہوئی خواہشات اور خفیہ ارادے سب کچھ اگل وا دے گے۔ جیسا کہ سائنس کالم نگار" ڈیوڈ جونز"(David Jones) نے کہا تھا "ایک سچا جھوٹ پکڑنے والا آلہ اصل میں تو ایک ایٹمی بم کی طرح ہے جس کو آخری ہتھیار کے طور پر سنبھال کر رکھنا ہی بہتر ہے۔ اگر اس کا استعمال کمرہ عدالت کے باہر بڑے پیمانے پر کیا تو وہ معاشرتی زندگی کو انتہائی درجہ کا مشکل بنا دے گا۔" 


    کائناتی مترجم 

    کچھ لوگ دماغی تبزیہ کرنے پر بالکل صحیح تنقید کرتے ہیں کیونکہ سوچتا ہوا دماغ اور منفرد خیالات اپنی تمام شاندار تصاویر کے ساتھ بہت ہی خام مواد مہیا کرتے ہیں جن کو یکتا طور پر ناپنا انتہائی مشکل ہے۔ شاید دسیوں لاکھوں عصبانیے ایک ساتھ اس وقت نکلتے ہیں جب ہم کوئی سادہ سا دماغی کام سرانجام دیتے ہیں اور ایف ایم آر آئی ان کا سراغ اسکرین پر ابھرتے ہوئے بلبلوں جیسے گومڑ سے لگاتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات دماغی تبزیہ کو ایک تیز رفتار طوفانی فٹ بال گیم سے ملاتے ہیں جس میں آپ اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص کی آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں جو ان ہزاروں تماشائیوں کی آواز میں دب جاتی ہے۔ مثال کے طور پر دماغ کے سب سے چھوٹے قابل بھروسہ حصّے یعنی "واکسل" کو پکڑا کر اس کا تجزیہ ایف ایم آر آئی سے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے ہر واکسل دسیوں لاکھوں عصبانیوں پر مشتمل ہوتے ہیں لہٰذا ایف ایم آر آئی کی حساسیت انفرادی خیالات کو علیحدہ کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔ 
    سائنس فکشن میں دکھایا جانے والا کائناتی مترجم 
    سائنسی قصّوں میں اکثر ایک "کائناتی مترجم " استعمال بتایا جاتا ہے۔ جو ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو کسی بھی شخص کے خیالات کو پڑھ کر اس کو شعاعوں کی صورت میں کسی دوسرے کے دماغ میں بھیج دیتا ہے۔ کچھ سائنسی افسانوی ناولوں میں تو خلائی خیال رساں ہماری زبان کو جانے بغیر ہی اپنے خیالات ہمارے دماغ میں گھساتے ہوئے بیان کئے جاتے ہیں۔ ١٩٧٦ء میں ایک سائنس فکشن فلم "مستقبل کی دنیا"(فیوچر ورلڈ) میں ایک عورت کا خواب ایک ٹیلی ویژن کی اسکرین پر براہ راست دکھایا جاتا ہے۔٢٠٠٤ء کی "جم کیری"(Jim Carrey) کی فلم "ایٹرنل سن شائن آف دی اسپوٹ لیس مائنڈ "، میں ڈاکٹر تکلیف دہ خیالات کو پہچان کر ان کو مٹا دیتے ہیں۔

    "اس قسم کی تصوّراتی دنیا ہر ایک نے اپنے میدان میں سجائی ہوئی ہے "لئپزیگ میں واقع میکس پلانک انسٹیٹیوٹ میں کام کرنے والے "جان ہینز" (John Haynes)کہتے ہیں۔" مجھے پورا یقین ہے کہ جو آلہ آپ بنانا چاہتے ہیں اس کو ہر ایک عصبانیہ کو ریکارڈ کرنا پڑے گا۔"

    ابھی تو ہر انفرادی عصبانیہ کو ریکارڈ کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، لہٰذا کچھ ماہرین نفسیات نے حال فی الحال موجود سب سے بہتر چیز کی یعنی کہ انہوں نے شور کو کم کیا اور مفعول سے حاصل کئے گئے ہر ایک انفرادی ایف ایم آر آئی کے نمونے کو علیحدہ کر لیا۔ مثال کے طور پر ہر انفرادی لفظ سے بنے ہوئے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کرکے "خیالات کا قاموس" بنا لینا ممکن ہے۔ 

    مثال کے طور پر کارنیجی –میلن یونیورسٹی کے "مارسل اے"(Marcel A) چھوٹے چنے ہوئے گروہ کی چیزوں(جیسا کہ بڑھئی کے اوزار) کے ایف ایم آر آئی نمونوں کو شناخت کرنے کے قابل ہیں۔" ہمارے پا س بارہ زمرے ہیں ، ہم مفعول سے ٨٠ سے ٩٠ فیصد درستگی کے ساتھ یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ ان بارہ زمروں میں سے کس کے بارے میں سوچ رہا ہے۔" ان کا دعویٰ ہے۔

    ان کے رفیق کار ٹام مچل ، جو ایک کمپیوٹر کے میدان کے سائنس دان ہیں ، وہ کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں وہ عصبی جالوں کی مدد سے، ایف ایم آر آئی سے حاصل کردہ پیچیدہ دماغی نمونوں کو کچھ تجربات کے ساتھ ہم ربط کرکے ان کی شناخت حاصل کر لیتے ہیں۔" جس ایک تجربہ کو کرنے میں مجھے بہت ہی لطف آتا ہے وہ ان الفاظ کی تلاش ہے جو سب سے مختلف دماغی نمونے پیدا کرتے ہیں۔" انہوں نے بتایا۔ 

    اس کے باوجود اگر ہم خیالات کا قاموس بھی بنا پائے تو یہ کائناتی مترجم کے بنانے سے بہت ہی دور ہوگا۔ کائناتی مترجم کے برخلاف جو شعاعوں کے ذریعہ کسی دوسرے دماغ سے ہمارے دماغ میں براہ راست خیال پھینکتا ہے ایک ایف ایم آر آئی دماغی مترجم کئی قسم کے تھکا دینے والے اقدام اٹھاتا ہے :پہلے کچھ ایف ایم آر آئی نمونوں کا تجزیہ کرتا ہے ، پھر اس کو الفاظ میں بدلتا ہے اور پھر وہ الفاظ مفعول کو سناتا ہے۔ اس طرح کے منظر نامے میں ایسا کوئی بھی آلہ اسٹار ٹریک میں پائے جانے والے آلے "مائنڈ میلڈ " کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔(اس کے باوجود یہ فالج زدہ لوگوں کے لئے انتہائی کارآمد ہے۔)


    ہاتھ سے چلانے والے ایم آر آئی تبزیہ کار

    بطور خیال رساں عملی میدان میں ایف ایم آر آئی کے استعمال میں ایک سب سے بڑی رکاوٹ اس کا بڑا حجم ہے۔ یہ ایک دیوہیکل آلہ ہے ، جس کی قیمت کئی لاکھ ڈالر کی ہوتی ہے اور یہ پورے کمرے کی جگہ گھیرتی ہے۔ ایم آر آئی مشین کا قلب ایک ڈونَٹ کی شکل کا مقناطیس ہوتا ہے ، جو کئی فٹ قطر پر پھیلا ہوتا ہے، اور کئی ٹیسلا س کی زبردست قوّت والے مقناطیسی میدان بناتا ہے۔( اس کی مقناطیسی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کچھ مواقع پر مشین کو غلطی سے بے خیالی میں کسی نے چلا دیا تو مشین کے آس پاس موجود ہتھوڑیاں اور دوسرے اوزار ہوا میں اڑتے ہوئے وہاں پر کام کرنے والے لوگوں سے ٹکرائے اور ان کو کافی زخمی کر دیا۔) 

    حالیہ دور میں پرنسٹن یونیورسٹی کے ماہر طبیعات "ایگور سو وکوف" (Igor Savukov)اور "مائیکل رومیلس"(Michael Romalis) نے ایک بالکل نئی طرح کی ٹیکنالوجی پیش کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی ترقی یافتہ شکل آخر میں ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشین کو حقیقت کا روپ دھار لے۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو نتیجے میں ایف ایم آر آئی مشین کی قیمت یقینی طور پر ١٠٠ گنا کم ہو جائے گی۔ ان کے دعوے کا مطابق بڑے مقناطیسوں کو زبردست حساس ایٹمی مقناطیسی پیماؤں کے ساتھ بدلا جا سکتا ہے جو ننھے مقناطیسی میدانوں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔

    پہلے سوو کوف اور رومیلس نے مقناطیسی حساسئے گرم پوٹا شیم کے بخارات کو ہیلیئم گیس میں معلق کر کے بنائے۔ اس کے بعد انہوں نے لیزر کی شعاعوں کو پوٹا شیم کے الیکٹران کے گھماؤ کے ساتھ باہم مربوط کر دیا۔اس کے بعد انہوں نے کمزور مقناطیسی میدان پانی کے ایک نمونے پر استعمال کیا (تا کہ انسانی جسم کی نقل کر سکیں )۔ پھر انہوں نے ایک ریڈیائی ضرب پانی کے نمونے کی طرف بھیجی جس نے پانی کے سالموں کو ڈگمگا دیا۔ پانی کے سالموں سے ہوتی ہوئی گونج نے پوٹا شیم کے الیکٹران میں بھی گونج گ پیدا کردی ، اور اس گونج کو دوسری لیزر کا استعمال کرتے ہوئے پکڑ جا سکتا ہے۔ ان کے نتیجے نہایت ہی شاندار تھے : کمزور مقناطیسی میدان بھی ایک گونج پیدا ہو سکتی تھی جس کو حساسئے پکڑ سکتے تھے۔ نا صرف یہ ایم آر آئی میں استعمال ہونے والے معیاری دیوہیکل مقناطیسوں کو کمزور مقناطیسی میدان سے بدل سکتے ہیں؛ بلکہ یہ تصاویر کو بھی فی الفور حاصل کر سکتے ہیں (جبکہ ایم آر آئی مشین ٢٠ منٹ تک تصاویر کو بنانے میں لے لیتی ہے)۔ آخر کار نظری طور پر ایم آر آئی سے تصویر لینا اتنا آسان ہو سکتا ہے جتنا ایک عام ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر لینا۔(اس راہ میں ابھی کافی رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ مفعول اور مشین دونوں کو باہری مقناطیسی میدانوں سے بچانا ہوگا۔)

    اگر ہینڈ ہیلڈ ایم آر آئی مشینیں حقیقت کا روپ دھار گئیں تو ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ ننھے کمپیوٹر بمعہ ایسے سافٹ ویئر موجود ہوں جو کچھ اہم جملوں ، الفاظ اور فقروں کی رمز کشائی کرنے کے قابل ہوں۔ یہ آلات ان سائنس فکشن فلموں میں دکھانے والے آلات کی طرح نفیس تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی ان سے ملتے جلتے ضرور ہوں گے۔ 


    دماغ بطور عصبی جال 

    سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل کی ایم آر آئی مشین اس قابل ہوں گی کہ کسی آنے والے دن میں خیالات کو بالکل اسی طرح درست طور پر حرف بہ حرف ، تصویر بہ تصویر پڑھ سکیں جیسا کہ ایک سچا خیال رساں پڑھ سکتا ہے ؟ یہ بات ابھی واضح نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایم آر آئی مشین صرف ہمارے خیالات کی مبہم سی تصویر کشی اور رمزہ کشائی کرنے کے قابل ہے کیونکہ دماغ کوئی کمپیوٹر نہیں ہے۔ ڈیجیٹل کمپیوٹر میں حسابی عمل مقامی ہوتا ہے اور انتہائی بے لچک اصول و قواعد کی اطاعت کرتا ہے۔ ایک ڈیجیٹل کمپیوٹر "ٹیورنگ مشین " کے قوانین کی اطاعت کرتا ہے ، ایک مشین جو ا یک سینٹرل پروسیسنگ یونٹ ، ان پٹ اور آوٹ پٹ پر مشتمل ہوتی ہے۔ ایک سینٹرل پراسیسر (جیسا کہ پینٹیم چپ ) ایک معین کیے ہوئے قوانین کی مدد سے ان پٹ کو پراسیس کرکے آوٹ پٹ میں بدلتا ہے اور یہ سوچنے کے جیسا مقامی عمل" سی پی یو" میں سرانجام پا تا ہے۔
    عصبی جال
    ہمارا دماغ کوئی ڈیجیٹل کمپیوٹر نہیں ہے۔ ہمارے دماغ میں کوئی پینٹیم چپ نہیں ہے ، نہ کوئی سی پی یو ہے ، نہ ہی اس میں ونڈوز آپریٹنگ سسٹم ہے اور نہ ہی کسی قسم کے سب روٹین پائے جاتے ہیں۔ اگر آپ اپنے کمپیوٹر سے ایک ٹرانسسٹر بھی نکال دیں تو وہ بیکار ہو جائے گا۔ مگر اس قسم کے کیسز ریکارڈ پر موجود ہیں جس میں آدھا دماغ غائب ہونے کے باوجود باقی آدھے دماغ نے اس کا م سنبھال لیا تھا۔

    انسانی دماغ ایک سیکھنے والی مشین کی طرح سے ہے ، ایک "عصبی جال" جو مسلسل نئی چیزیں سیکھنے کے بعد اپنے آپ کو تازہ کرتا رہتا ہے۔ ایم آر آئی تجزیہ نے اس بات پر مہر ثبت کردی ہے کہ انسانی دماغ کسی بھی ایک مقام پر صرف ٹیورنگ مشین کی طرح مقامی بن کر نہیں سوچتا ہے۔ بلکہ یہ دماغ میں کافی پھیلا ہوا ہوتا ہے جو ایک عصبی جال کا مخصوص انداز ہے۔ ایم ار آئی تبزیہ سے معلوم چلا ہے کہ سوچنے کا عمل ایک طرح سے پنگ پونگ گیند کے کھیل جیسا ہے ، جس میں دماغ کے مختلف حصّے ایک کے بعد ایک جلتے ہیں ، برقی حرکت دماغ کے اندر ادھر ادھر ہوتی رہتی ہے۔ 


    خیالات دماغ کے مختلف حصّوں میں کافی منتشر اور پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا سائنس دان جو سب سے بہتر کام کر سکتے ہیں وہ خیالات کی فرہنگ بنانا ہے یعنی خیالات اور مخصوص ای ای جی یا ایم آر آئی کے نمونوں میں ایک پر ایک تعلق قائم کریں۔ مثال کے طور پر آسٹرین بائیو میڈیکل انجنیئر "یرٹ فرٹس سیلر"(Gert Pfurtscheller) نے ایک کمپیوٹر کو اس طرح سے تربیت دی ہے کہ وہ مخصوص دماغی نمونوں اور خیالات کو ای ای جی میں پائے جانے والے یو موجوں پر اپنی کوششوں کو مرتکز کرکے پہچان سکے۔ بظاہر یو موجیں کچھ پٹھوں کو حرکت دینے کے قصد سے جڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے مریض کو انگلی اٹھانے، ہنسنے، تیوریاں چڑھانے کا کہتے ہیں اور پھر کمپیوٹر ان یو موجوں کو ریکارڈ کر لیتا ہے جو اس کے نتیجے میں حرکت کرتی ہیں۔ ہر دفعہ جب بھی مریض کوئی دماغی حرکت کرتا ہے کمپیوٹر انتہائی احتیاط کے ساتھ یو موجوں کو لاگ میں درج کر لیتا ہے۔ یہ عمل مشکل اور تھکا دینے والا ہے کیونکہ اس میں انتہائی احتیاط کے ساتھ بناوٹی موجوں کو پراسیس کرنا ہوتا ہے۔ آخر کار فرٹس سیلر سادہ حرکتوں اور مخصوص دماغی نمونوں میں نمایاں مماثلت ڈھونڈ پانے کے قابل ہو گیا۔


    ممکن ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج اس کی یہ جدوجہد ایم آر آئی نتیجوں کے ساتھ مل کر خیالات کی جامع فرہنگ بنا سکے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ای ای جی یا ایم آر آئی کے مختلف نمونوں کے تجزیہ کرکے کمپیوٹر اس بات کے قابل ہو جائے کہ وہ ان نمونوں کو پہچان کر کم از کم یہ بتا سکے کہ مریض کیا سوچ رہا ہے۔ اس طرح سے دماغ کو پڑھنے سے شاید خصوصی "یو مو جوں"(U Waves) اور ایم آر آئی تبزیہ کار اور مخصوص خیال میں کوئی مماثلت پیدا ہو جائے۔ لیکن یہ بات اب بھی بعید از قیاس ہے کہ وہ فرہنگ اس قابل ہو سکے گی کہ خیالات میں موجود مخصوص الفاظ کو سمجھ سکے۔ 


    خیالات کو داخل کرنا 

    مستقبل میں کبھی ہم اس قابل ہو گئے کہ کسی کے خیالات کی بھنک پا سکیں تو کیا اس یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے خیالات کو دوسروں کے دماغ میں گھسا سکیں۔ اس کا جواب ایک طرح سے ہاں میں لگتا ہے۔ ریڈیائی موجیں کسی بھی انسان کے دماغ میں بھیجی جا سکتی ہیں جو دماغ کے ان حصّوں کو بھڑکا سکتی ہیں جن کا کام کچھ افعال کو قابو کرنا ہوتا ہے۔ اس نہج پر تحقیق کی شروعات ١٩٥٠ء میں ہوئی جب کینیڈا کے شہری جن کا نام "وائلڈر پین فیلڈ"(Wilder Penfield)ہے اور جو ایک "عصبی جراح"(Neuro Surgeon)ہیں وہ ایک مرگی کے مریض کے دماغ کی جرح کر رہے تھے۔ اس وقت انھیں پتا لگا کہ فص صدغی کے کچھ حصّوں برقی پاشوں کے ذریعہ تحریک پیدا کی جائے تو لوگوں کو بھوتوں کی شکل اور آواز آنے کا وہم ہوتا ہے۔ ماہر نفسیات یہ بات جانتے تھے کہ مرگی کے صدمے سے مریض کے دماغ میں اس طرح کا احساس پیدا ہوتا ہے جیسا کہ مافوق الفطرت قوّتیں یعنی کہ شیطان اور فرشتے ان کے ارد گرد ہونے والی حرکتوں کو کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔(کچھ ماہرین نفسیات نے تو یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ ان حصّوں کو تحریک دینے سے عارفانہ آزمائش ہوتی ہے جو کہ کئی مذاہب کی بنیاد ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اس بات کا امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ "جون آف آرک "(Joan of Arc) جس نے ایک ہاتھ کے ساتھ فرانسی افواج کو برطانیہ کے خلاف جنگ میں فتح کی راہ پر گامزن کیا تھا وہ بھی شاید اسی قسم کے مرگی کے صدمے کا شکار ہوگیا تھا جو اس کے سر میں کسی دھماکے کی وجہ سے لگنے والی چوٹ سے ہوا تھا۔)
    "وائلڈر پین فیلڈ"(Wilder Penfield)

    احتمال کی بنیاد پرسدبری اونٹاریو کے عصبی سائنس دان" مائیکل پرسنگر"(Micheal Persinger) نے ایک خصوصی تاروں والا ہیلمٹ بنایا ہے جو ریڈیائی موجوں کو دماغ میں بھیجتا ہے جہاں وہ مخصوص سوچ اور جذبات (مثلاً مذہبی جذبات) کو مشتعل کر دیتا ہے۔ عصبی سائنس دان جانتے ہیں کہ الٹے فص صدغی دماغ کے حصّے کو نقصان پہنچنے کی صورت میں دماغ کا الٹا حصّہ چکرایا ہوا سا ہو جاتا ہے اور دماغ سیدھے حصّے میں ہونے والی حرکتوں کو پرایا سمجھ سکتا ہے۔ اس قسم کی چوٹ ایسا تاثر پیدا کر سکتی ہے جیسے کہ کوئی بدروح کمرے میں موجود ہے، کیونکہ دماغ کو یہ نہیں پتا چلتا کہ جس کو وہ کوئی اور سمجھ رہا ہے وہ اس کے دماغ کا دوسرا حصّہ ہی ہے۔ مریض کے عقیدے کے مطابق ، وہ اپنے دماغ کے دوسرے حصّے کو شیطان ، فرشتہ ، خلائی مخلوق یہاں تک کہ خدا کی بھی تعبیر سمجھ لیتا ہے۔ مستقبل میں یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ برقی مقناطیسی اشاروں کی شعاعیں بالکل درست طور پر دماغ کے اس حصّے پر مار ی جائیں جو مخصوص عمل کو انضباط کرتے ہیں۔ اس قسم کے اشاروں کو" لوزہ مغز "(Amygdala)کی طرف پھینک کر کچھ خاص جذبات کو ابھارا جا سکتا ہے۔ دماغ کے حصّوں کو تحریک دے کہ مختلف تصوروں اور خاکوں کو دیکھنے کا احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف اس سمت میں ہونے والی تحقیق ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔
    عصبی سائنس دان" مائیکل پرسنگر"(Micheal Persinger


    دماغی نقشہ سازی 

    کچھ سائنس دان " عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے "کی حمایت کرتے ہیں اسی طرح کا منصوبہ جیسے کہ "انسانی لونیت کا منصوبہ"(Human Genome Project) ہے جس میں انسانی لونیت میں موجود تمام مورثہ (Genes) کی نقشہ سازی شامل ہے۔ عصبانیہ کی نقشے سازی کے منصوبے میں انسانی دماغ میں موجود ہر الگ عصبانیہ کو ڈھونڈھ کر اس کی سہ جہتی نقشہ سازی کی جائی گی جس میں اس کے تمام رابطے دکھائے جائیں گے۔ یہ واقعی میں ایک یادگار منصوبہ ہوگا ، کیونکہ دماغ میں ایک کھرب عصبانیہ ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک عصبانیہ دوسرے ہزاروں عصبانیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اس بات کو فرض کرتے ہوئے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہوگا اس منصوبہ کے مکمل ہونے پر ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ معلوم کر سکیں کہ کس طرح سے کچھ مخصوص خیالات کچھ خاص عصبی راستوں کو مشتعل کرتے ہیں۔ خیالات کی اس فرہنگ کے استعمال سے جو ایم آر آئی اور ای ای جی سے حاصل کی جائے گی وہ ہمیں مختلف خیالات کی عصبی ساختوں کی رمز کشائی کرنے کے قابل بنا دے گی۔ اس طرح ہم جان سکیں گے کہ کونسا لفظ یا دماغی خاکہ کس مخصوص عصبانیہ کو متحرک کرتا ہے۔ اس طریقے سے ہم ہر مخصوص خیال کو، اس کے ایم آر تاثر اور ان خاص عصبانیوں میں جو اس خیال کو پیدا کرنے کے لئے نکلتے ہیں مماثلت اور تعلق کو تعین کر سکیں گے۔ 
    "عصبانیوں کی نقشہ سازی کا منصوبہ"

    اس سمت میں ایک چھوٹا سا قدم ایلن انسٹیٹیوٹ فار برین سائنس (جو مائیکرو سافٹ کے بانیان میں سے ایک "پال ایلن"[Paul Allen] نے بنائی ہے) کا ٢٠٠٦ءکا وہ اعلان ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ چوہے کے دماغ میں موجود مورثہ تاثر کا سہ جہتی نقشہ بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس میں انہوں نے ٢١ ہزارمورثہ کے تاثرات خلوی پیمانے پر مفصل حاصل کر لئے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی امید ظاہر کی ہے کہ اس نقش قدم پر چلتے ہوئے وہ انسانی دماغ کے نقشے بھی حاصل کر سکیں گے۔"ایلن دماغی نقشہ سازی کی تکمیل طبی سائنس کے عصبانی میدان میں ایک بہت بڑی چھلانگ ہوگی۔" یہ بات انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین مارک ٹیسسئر لَوِین(Marc Tessier Lavigne) نے کہی۔ یہ نقشے کسی بھی اس شخص کے لئے ناگزیر ہوں گے جو انسانی دماغ میں موجود عصبی تعلق کا تجزیہ کرنا چاہئے گا ، اگرچہ دماغی نقشے کا منصوبہ ایک مکمل صحیح عصبانیوں کی نقشہ سازی کے منصوبے سے کی مکمل ضروریات کو پورا نہیں کرتا۔ 
    "پال ایلن"[Paul Allen]

    مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سائنس فکشن اور طلسماتی دنیا میں دکھائی جانے والی قدرتی خیال خوانی آج تو ناممکن ہے۔ ایم آر آئی تبزیہ اور ای ای جی موجیں صرف سادہ خیالات کو پڑھنے میں ہی استعمال ہو سکتی ہیں کیوں خیالات پورے دماغ میں انتہائی پیچیدگی کے ساتھ پھیلے ہوتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس طرح سے یہ ٹیکنالوجی آنے والے دہائیوں یا صدیوں میں ترقی یافتہ شکل اختیار کرے گی؟ سائنس کی قابلیت انسانی سوچ کے عمل کی کھوج کرنے میں بہت ہی تیزی سے بہتری لانے کی جانب گامزن ہونا ناگزیر ہے۔ جس طرح سے ہمارے ایم آر آئی آلات کی حساسیت بہتر ہو رہی ہے جلد ہی سائنس اس قابل ہو جائے گی کہ دماغ کی طرح خیالات اور جذبات کے سوچنے کے مرحلہ وار عمل کو انتہائی درستگی کے ساتھ سمجھ سکے۔ کمپیوٹر کی عظیم طاقت کے ساتھ ہم معلومات کے اس بھنڈار کا تجزیہ انتہائی درستگی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ خیالات کی ایک فرہنگ کافی سارے خیالات کے نمونوں کو زمرہ جات کی شکل دے سکتی ہے جہاں ایم آر آئی کی اسکرین پر خیالات کے مختلف نمونے مختلف خیالات اور احساسات کے ساتھ مطابقت رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ مکمل خیال در خیال کی مماثلت ایم آئی آر نمونوں اور خیالات میں کبھی بھی ممکن نہیں ہے، لیکن ایک فرہنگ درستگی کے ساتھ مخصوص چیزوں سے متعلق کچھ عمومی خیالات کو بیان کر سکتی ہے۔ اسی طرح سے ایم آر آئی نمونوں کو عصبی نقشوں سے جوڑا جا سکتا ہے اس طرح درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتا ہے کہ کون سا عصبانیہ دماغ میں کسی مخصوص خیال کو بنانے کا لئے چھوڑا جاتا ہے۔

    کیونکہ دماغ کمپیوٹر نہیں بلکہ ایک عصبی جال ہے جہاں خیالات پورے دماغ میں پھیلے ہوئے ہوتے ہیں لہٰذا ہمارے لئے سب سے بڑی رکاوٹ خود دماغ ہی ہے۔ اگرچہ سائنس "سوچتے ہوئے دماغ" کی کھوج کی گہرائی میں اترتی جا رہی ہے جس سے یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ خیالات کے بننے کے عمل کی رمز کشائی کی جا سکے لیکن ان تمام تر باتوں کے باوجود یہ بات اب بھی ناممکن ہے کہ کوئی آپ کے خیالات کو اس طرح درستگی کے ساتھ پڑھ سکے جیسا کہ سائنس فکشن میں دکھایا جاتا ہے۔ ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں عمومی خیالات اور جذبات کے نمونوں کو پڑھنے اور سمجھنے کی قابلیت کو جماعت "I" میں رکھ رہا ہوں۔ دماغ کے اندرونی حصّے کے کام کرنے کے انداز کو مزید درستگی کے سمجھنے کو میں نے جماعت "II" کی ناممکنات میں رکھا ہے۔ 

    مگر شاید ایک اور طریقہ ایسا ہے جس میں دماغ کی زبردست طاقت کو براہ راست کام میں لیا جا سکتا ہے۔ کمزور اور آسانی سے منتشر ہونے والی ریڈیائی لہروں کے بجائے کیا کوئی دماغ کے عصبانیوں کو براہ راست قابو کر سکتا ہے۔ اگر ایسا ہونا ممکن ہوا تو ہم خیال خوانی کی طاقت سے بھی بڑی چیز سے پردہ اٹھا سکیں گے جس کا نام ہے : روحی حرکی قوّت یا حرکت بعید۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: 5۔ خیال رسانی یا خیال خوانی (Telepathy) Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top