یا تو ہم کائنات میں اکیلے ہیں یا پھر ایسا نہیں ہیں۔
دونوں
خیالات ہی ڈرا دینے والے ہیں۔
-
آرتھر سی کلارک
ایک میلوں
پر محیط جسیم خلائی جہاز پورے آسمان کو ڈھکتا
ہوا لاس اینجیلس کی فضاء میں
ابھرتا ہے۔ نتیجتاً پورا شہر اندھیرے میں ڈوب جاتا ہے۔ پوری دنیا
میں اہم شہروں کے گرد طشتری نما حصار بنا لئے جاتے ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوش
باش تماشائی دوسرے سیارے سے آنے والے
مہمانوں کو لاس اینجیلس میں خوش آمدید
کہنے کو تیار رہتے ہیں اور اس مقصد کے
لئے وہ اپنی اونچی عمارتوں کی چھتوں پر جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ اپنے فلکی مہمانوں کے قریب جا سکیں۔
خاموشی
سے لاس اینجیلس پر معلق رہنے کے کئی دن
بعد خلائی جہاز کے درمیانی حصّہ کھلتا ہے
جس میں سے ایک لیزر شعاعوں کے بوچھاڑ کو
داغا جاتا ہے جو چشم زدن میں اونچی عمارتوں کو بھسم کر دیتی ہے جس
کے نتیجے میں تباہی کی وہ لہر پورے شہر
میں پھیل جاتی ہے۔ اور چند ہی سیکنڈوں میں شہر کو جلے ہوئے پتھروں کے روڑوں میں تبدیل کر دیتی ہے۔
فلم
انڈیپنڈنس ڈے (یوم آزادی ) میں دکھائی جانے والی خلائی مخلوق ہمارے اندر
کے خوف کی نمائندگی کرتی ہے۔ فلم ای ٹی میں ہم اپنے خواب اور حسرتیں خلائی مخلوق میں
ڈالتے ہیں۔ پوری تاریخ میں لوگ خلائی
مخلوق کے خیالوں سے سحر انگیز رہے ہیں جو
دوسری دنیا کے باسی ہوتے ہیں۔ ١٦١١ء سومنیم
رسالے میں ، ماہر فلکیات جوہانس کیپلر نے اپنے وقت کی بہترین سائنسی علم کو استعمال کرتے ہوئے چاند تک کے سفر کے بارے میں پیش گوئی کی۔ اس کے
خیال میں اس سفر کے دوران ہمارا واسطہ
عجیب خلائی مخلوق ، پودوں اور جانوروں سے پڑ سکتا ہے۔ لیکن اکثر سائنس اور مذہب
خلاء میں زندگی کے موجود ہونے کے تصوّر پر متصادم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے نہایت ہی بھیانک نکلتے ہیں۔
چند
برسوں پہلے ، ١٦٠٠ء میں ڈومنیکی راہب اور
فلسفی "جرڈانو برونو"(Giordano
Bruno) کو روم کی سڑکوں پر زندہ جلا دیا تھا۔ اس کی
تذلیل کرنے کے لئے گرجا نے اس کو الٹا لٹکا دیا تھا اور جلانے سے پہلے اس کو برہنہ
کر دیا تھا۔ برونو کس چیز پر یقین رکھتا تھا جس کی پاداش میں اس کو نشانہ
عبرت بنا دیا تھا ؟ اس نے تو بس ایک سادہ
سا سوال کر لیا تھا : کیا خلاء میں حیات کسی شکل میں موجود ہے؟ کوپرنیکس کی
طرح وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ
زمین سورج کے گرد گردش کرتی ہے لیکن کوپرنیکس کے برعکس وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا
تھا کہ ہمارے جیسی انگنت مخلوق خلاء میں
رہتی ہیں۔(بجائے اس بات کو سمجھا جاتا کہ
ممکنہ طور پر ارب ہا صوفی، راہب ، گرجا اور
یسوع مسیح خلاء میں موجود ہو سکتے ہیں ، گرجا والوں کے لئے یہ زیادہ آسان راستہ تھا
کہ ایسی بات کرنے والے کسی بھی آدمی کو زندہ جلا کر جان چھڑا لی جائے۔)
کچھ چار
صدیوں سے زائد عرصے سے برونو سائنسی مورخین
کا سائے کی طرح سے پیچھا کر رہا ہے۔ آج برونو ہر ہفتے اپنا انتقام لے رہا ہے۔ ہر
دوسرے مہینے ایک نیا ماورائے شمس
سیارہ کسی دوسرے ستارے کے گرد چکر لگاتا
ہوا دریافت ہو رہا ہے۔ ابھی تک خلاء میں ڈھائی سو سے زیادہ سیارے دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے
دریافت ہو چکے ہیں۔ برونو کی ماورائے شمس سیاروں کی پیش گوئی درست ثابت ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی ایک سوال کا جاننا باقی ہے۔ ہرچند ملکی وے کہکشاں میں ماورائے شمس سیارے موجود ہیں
مگر ان میں سے کتنے ایسے ہیں جہاں زندگی موجود ہے ؟ اور اگر شعور کی حامل حیات
خلاء میں موجود ہے تو سائنس اس کے بارے
میں کیا کہتی ہے ؟
کسی خلائی مخلوق سے فرضی ٹاکرا
معاشرے ، ہنگامے کے شوقین قاریوں اور فلم بینوں کو نسلوں سے متحیر کیے ہوئے ہے۔ سب سے مشہور واقع ٣٠ اکتوبر ١٩٣٨ء میں ہوا جب اورسن ویلز (Orson
Welles)نے ہیلووین کی تفریح امریکی عوام سے کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے ایچ جی
ویلز کی وار آف دی ورلڈ سے بنیادی خیال لیا اور مختصر خبروں کو سی بی
ایس قومی ریڈیو پر نشر کرنا شروع کر دیا۔ اس کھیل کو رقص و موسیقی کے پروگراموں کے درمیان میں نشر کیا گیا ، وقفے وقفے سے مریخیوں کا زمین پر حملہ اور اس کے بعد تہذیب کی تباہی کی کہانی
بیان کی جاتی رہی۔ اس خبر کو سن کر
کہ مریخ کی مشینیں گروور مل ، نیو جرسی میں اتر چکی ہیں اور وہاں
پر انہوں نے موت کی شعاعوں کو شہروں کو
تباہ کرنے اور دنیا کو فتح کرنے کے لئے داغنا شروع کر دیا ہے، لاکھوں امریکیوں میں کھلبلی مچ گئی۔( بعد میں اخباروں
کے ذریعہ
یہ بھی پتا چلا کہ شہر سے یکدم شہریوں کا انخلاء بھی ہونا شروع ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ کچھ چشم دید
گواہوں کے زہریلی گیس کو سونگھنے اور دور دراز میں روشنی کے جھماکے دیکھنے کے
دعوے تھے ۔)
مریخ کی
سحر انگیزی کے جادو نے اس وقت بھی سر چڑھ کر بولنا شروع کر دیا تھا جب ماہرین فلکیات نے مریخ پر ایک عجیب سا نشان
دیکھا جو ایک جسیم "M" کی طرح دکھائی دیتا تھا اور میلوں دور تک پھیلا
ہوا تھا۔ تبصرہ کاروں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ہو سکتا ہے کہ "M" کا مطلب
"مریخ " ہی ہو۔ اور مریخی ، زمینی لوگوں کو اپنے وجود کی آگاہی سے امن پسندی کے ساتھ اس طرح سے روشناس کر وا رہے ہوں ، جس طرح سے
چئیر لیڈر اپنی فٹ بال کی ٹیم کا نام
میدان میں ہجے کرتی ہیں۔(دوسروں نے اس کا تاریک پہلو ایسے دیکھا کہ ان کے خیال میں "M" اصل میں
"W" تھا اور "W" کا مطلب "وار "(جنگ ) تھا ۔ دوسرے
الفاظوں میں مریخیوں نے زمین کے خلاف
اعلان جنگ کر دیا تھا ۔ یہ ہلچل اس وقت
ختم ہو گئی جب وہ "M" ایسے غائب ہو گیا جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ وہ نشان
گرد کے طوفانوں کی وجہ سے پیدا ہوا تھا۔
جس نے پورے سیارے کو گھیر لیا تھا۔
صرف بڑے چار آتش فشاں اس سے ڈھکنے سے بچے رہ گئے تھے۔ ان چاروں آتش فشانوں
کے دھانے کچھ "M" یا "W" جیسے دکھائی دیتے تھے۔
حیات کی کھوج کی
سائنسی تحقیقات
ماورائے
ارض حیات کی ممکنہ کھوج کرنے والے سنجیدہ طبع سائنس دان کہتے ہیں کہ حیات جیسی کسی بھی چیز کے
وجود کے بارے قطعیت کے ساتھ کہنا ناممکن
ہے۔ اس بات سے قطع نظر ہم خلائی حیات کے بارے میں عمومی خیالات کا اظہار طبیعیات،
کیمیا اور حیاتیات کو مد نظر رکھتے ہوئے کر
سکتے ہیں۔
سب سے
پہلے سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں
کہ مائع پانی کی موجودگی کائنات میں حیات کی تخلیق کے لئے سب سے اہم چیز ہے۔"
پانی کے پیچھے چلو " کا نعرہ اکثر
فلکیات دان اس وقت لگاتے ہیں جب وہ حیات کے ثبوت خلاء میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔۔
مائع پانی ، دوسرے مائعوں کے برعکس
کائناتی حل پذیر ہے اس میں حیران کر دینے والی مختلف کیمیائی چیزوں کو حل کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔
اس کی مثال ،مثالی ڈونگے کی سی ہے جس میں پیچیدہ
تر سالمات بن سکتے ہیں۔ اس کے
علاوہ پانی بھی ایک سادہ سالمہ ہے جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے ، جبکہ دوسرے
مائع کافی نایاب ہیں۔
دوسرے ہم یہ بات بھی جانتے ہیں کہ کاربن ایک ایسا عنصر ہے جو حیات کی تخلیق میں
استعمال ہوتا ہے کیونکہ اس میں چار بند
ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس میں چار دوسرے ایٹموں کو باندھنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ناقابل یقین پیچیدہ ترین سالمات بن سکتے ہیں۔ مختصراً کاربن کی لمبی زنجیریں بنانا آسان ہے جو ہائیڈرو کاربن
اور نامیاتی کیمیا کی بنیادی اساس ہوتی ہیں۔ دوسرے چار بندوں کی صلاحیت کے
حامل عنصر اس قابل نہیں ہوتے کہ اتنی زرخیز قسم کی کیمیائی چیزوں کو بنا سکیں۔
سب سے
زیادہ کاربن کی اہمیت اس مشہور زمانہ
تجربے میں حاصل کی گئی جو "اسٹینلے
ملر" (Stanley
Miller)اور "ہیرالڈ یوری" (Herold Urey) نے ١٩٥٣ء میں کیا جس میں معلوم ہوا کہ ہو سکتا ہے کہ خود کار حیات قدرتی طور پر
کاربن کی کیمیا کا ضمنی حاصل ہو۔ انہوں
نے امونیا ، میتھین اور دوسرے زہریلے کیمیائی اجزاء کا محلول لیا جو ان کے مطابق نوزائیدہ زمین
پر موجود تھے۔ اس کو انہوں نے ایک جار میں رکھا
اور اس میں تھوڑی سی برقی رو گزاری
اور اس کے بعد انتظار کرنے لگے۔ ایک ہفتے کے دوران ہی انہوں نے خود بخود امینو
ایسڈ کے بننے کے ثبوت دیکھے۔ برقی رو نے امونیا
اور کاربن میں موجود بندوں کو توڑ کر جوہروں کو از سر نو ترتیب دے کر پروٹین کے پیش
رو امینو ایسڈ کو بنا دیا۔ اس سے یہ بات
ظاہر ہوتی ہے کہ حیات شاید خود سے پیدا ہو گئی ہو۔ امینو ایسڈ شہابیوں کے اندر اور
خلائے بسیط میں گیس کے بادلوں میں بھی پائے گئے ہیں۔
تیسرے،
حیات کی بنیادی اساس وہ سالمہ ہے جو خود
کی نقل بنا لیتا ہے جس کو ڈی این اے کہتے
ہیں۔ کیمیا میں خود کی نقل کرنے والے سالمات انتہائی نایاب ہیں۔ زمین پر پہلے ڈی این اے نے
بننے میں شاید سمندروں کے اندر کروڑوں سال
کا عرصہ لگایا ہوگا۔ غالباً اگر کسی نے ملر –یوری والا تجربہ دس لاکھ سال پہلے
سمندر میں دہرایا ہو تو ڈی این اے کے
سالمات خود سے بن سکتے تھے ۔زمین پر ان جگہوں کی ممکنہ امیدوار جہاں اوّلین ڈی این اے جیسے سالمات بنے ہوں گے وہ سمندر کی تہ میں آتش فشانی ریخیں ہو سکتی ہیں ، پودوں اور ضیائی
تالیف کے عمل کو شروع ہونے سے پہلے ان
ریخوں میں ہونے والی ہلچل توانائی کی معقول مقدار ابتدائی ڈی این اے
کے سالموں اور خلیوں کو مہیا کر سکتی تھی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ڈی این
اے کے ساتھ ساتھ کاربنی سالمات بھی خود کی نقل کر سکتے ہیں یا نہیں۔ لیکن کائنات میں
ڈی این اے کی شباہت کے دوسرے خود
کار نقلچی سالمات کی موجودگی کی امید کی جا سکتی ہے۔
لہٰذا ہم
یہ کہ سکتے ہیں کہ حیات کو مائع پانی ، ہائیڈرو کاربن کیمیائی اجزاء اور کچھ طرح کے خود کار نقلچی سالمات مثلاً ڈی این اے کی ضرورت ہوگی۔ ان جامع اصولوں کی
کسوٹی کا استعمال کرتے ہوئے ہم اس طرح ایک اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کائنات میں ذہین
مخلوق کی تعداد کیا ہوگی۔ ١٩٦١ء میں کارنیل یونیورسٹی کے ماہر فلکیات "فرینک ڈریک"(Frank Drake) وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ایک خام تخمینہ لگایا
تھا۔ اگر ہم ملکی وے کے ایک کھرب ستاروں سے شروع کریں تو ہم دیکھیں گے کہ اس کی
معمولی تعداد ہمارے سورج جیسے ستاروں کی ہو گی۔ اس کے بعد ہم ان ستاروں
کے گرد ماورائے نظام ہائے شمس تلاش کریں۔ با الخصوص ڈریک کی مساوات اس بات کا تخمینہ لگاتی ہے کہ
کہکشاں میں کتنی تہذیبیں موجود ہونی چاہیں ۔ اس مقصد کے لئے وہ کوئی اعداد کو ضرب
دیتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل عوامل شامل
ہیں :
·
کس شرح سے ستارے کہکشاں میں پیدا ہو رہے ہیں ،
·
کتنے ستاروں کے گرد سیارے موجود ہوں گے ،
·
ہر ستارے کے گرد کتنے سیارے ایسے ہوں گے جہاں حیات کی جملہ شرائط موجود ہوں گی ،
·
ان میں سے کتنے سیارے
ایسے ہوں گے جہاں حیات نے جنم لیا ہوگا ،
·
ان میں سی کتنی حیات ایسی ہوں گی جنہوں نے ذہانت حاصل کی
ہوگی،
·
اس میں سے کتنی ایسی حیات ہوں گی جو اس بات کی خواہش اور
قابلیت رکھتی ہوں کہ وہ رابطہ کر سکیں، اور
·
ایک تہذیب کی اندازاً کیا عمر ہوگی۔
معقول تخمینا
جات لے کر اور متواتر احتمال کو ضرب دے کر ہم یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کر سکتے
ہیں کہ ١٠٠ سے لے کر ١٠ ہزار ایسے سیارے
صرف ملکی وے کہکشاں میں موجود ہو سکتے ہیں
جہاں حیات اپنا مسکن بنا سکتی ہے۔ اگر حیات کی ذہین قسم کی شکل ملکی وے میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی
ہو تو پھر ہم اس بات کی امید کر سکتے ہیں
کہ ایسا کوئی سیارہ زمین سے صرف چند نوری برس کے فاصلے پر موجود ہوگا۔ ١٩٧٤ء میں
کارل ساگاں نے صرف ملکی وے کہکشاں میں ہی ١٠ لاکھ تہذیبوں کے موجود ہونے کا اندازہ
لگایا تھا۔
یہ قیاس ہی ان لوگوں کی مزید تائید کرتا ہے جو ماورائے
ارض تہذیبوں کے ثبوتوں کے متلاشی ہیں۔
ذہین حیات کو پروان چڑھانے والے موافق سیاروں کے تخمینا جات کی بنیاد پر سائنس
دان سنجیدگی کے ساتھ ایسے ریڈیائی اشاروں کی تلاش کر رہے ہیں جو کسی سیارے
سے نشر ہو رہے ہوں ، یہ اشارے ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے اشاروں جیسی ہی ہوں گے جو ہماری زمین نے آج سے پچاس سال قبل نشر کرنے شروع کیے تھے۔
ماوراء ارض حیات
کی سن گن
سرچ فار ایکسٹرا ٹیررسٹریل انٹیلی جنس (ایس ای ٹی آئی - سیٹی ) کا منصوبہ ماضی کے اس اثر انگیز مقالے
کا نتیجہ ہے جو ١٩٥٩ء میں طبیعیات دان " گسپے کوکونی"(Giuseppe
Cocconi) اور" فلپس موریسن" (Philips Morrison)نے لکھا تھا جس میں انہوں نے اس بات کی تجویز پیش کی تھی کہ
خرد موجی شعاعیں جن کا تعدد ارتعاش ایک سے لے کر ١٠ گیگا ہرٹز
کے درمیان ہو وہ ماورائے ارض اطلاعات کو ڈھونڈنے کے لئے سب سے زیادہ مناسب ہوں گی۔(ایک گیگا ہرٹز سے
نیچے والے تعدد ارتعاش تیز رفتار
الیکٹران کی حرکت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی شعاعوں سے ختم ہو چکے ہوں گے ؛ ١٠
گیگا ہرٹز سے اوپر کی تعدد ارتعاش کے
اشاروں میں ہماری فضا میں موجود آکسیجن
اور پانی کے سالمات کا شور درمیان میں مداخلت کرے گا۔)
انہوں نے ١٤٢٠ گیگا ہرٹز کوخلائے بسیط سے آنے
والے اشاروں کو سب سے امید افزا سمجھ کر
چنا۔ کیونکہ یہ ہی وہ اخراجی تعدد ہے جو عام ہائیڈروجن گیس خارج کرتی ہے جو کائنات میں پایا جانے والا سب سے ارزاں عنصر
ہے۔(اس درجے میں پائی جانے والے تعدد کی
عرفیت "پانی کا سوراخ " ہے جو ماورائے
ارض رابطوں میں آسانی
کو مد نظر رکھتے ہوئے دی ہے۔)
ذہین
مخلوق کے اشاروں کی تلاش ان پانی کے سوراخوں کے پاس انتہائی مایوس کن رہی ہے۔١٩٦٠ء میں
فرینک ڈریک نے ایک منصوبہ شروع کیا
جس کا نام "عظمیٰ "(او زے ایم اے ) تھا (جس کو اوز کی ملکہ کے
نام پر رکھا تھا )۔ اس کا مقصد گرین بینک،
مغربی ورجینیا میں موجود ایک ٢٥ میٹر کی
ریڈیائی دوربین کی مدد سے اشاروں کی تلاش تھی۔ ابھی تک کوئی بھی اشارہ نہ تو عظمیٰ کے منصوبے میں مل سکا ہے نہ ہی کسی دوسرے اسی مقصد کے لئے شروع کیے جانے
والے منصوبے میں ملا ہے۔
ان میں سے اکثر منصوبوں کو رات کے آسمان کا برسوں تک معائنہ کرنے کے بعد ختم کر
دیا گیا ہے۔
١٩٧١ء
میں ایک انتہائی پر عزم تجویز ناسا کی طرف سے سیٹی کی مالی معاونت کی پیش کش کی صورت میں کی گئی۔ سائیکلوپس نامی
اس منصوبے میں پندرہ سو ریڈیائی دوربینوں
سے کام شروع کرنے کا عزم کیا گیا تھا جن کی قیمت ١٠ ارب ڈالر کے لگ
بھگ تھی۔ توقع کے عین مطابق یہ تحقیق کہیں پر بھی شروع نہیں ہوئی۔ مالی وسائل ایک دوسرے سادے منصوبے کے
لئے دستیاب کر دیئے گئے جس میں ایک احتیاط سے رمز کیا ہوا پیغام خلائی مخلوق کو خلائے بسیط میں بھیجا گیا۔ ١٩٧٤ء
میں ایک رمز کیا ہوا پیغام جو ١٦٧٩ بٹس پر
مشتمل تھا اس کو پورٹو ریکو میں نصب دیو ہیکل آ ریسیبو ریڈیائی دوربین کے ذریعہ سے عالمگیر جھرمٹ
ایم - ٣١ میں زمین سے لگ بھگ پچیس ہزار ایک سو نوری برس کے فاصلے پر بھیجا۔ اس
مختصر سے پیغام میں سائنس دانوں نے ایک ٢٣
X ٧٣ کی جہت کے ایک جالی کے جیسے نمونے میں ہمارے نظام شمسی کا محل وقوع
بیان کیا ہے اور ایک انسانوں کا
خاکہ اور مختلف کیمیائی فارمولے بھی اس
میں شامل ہیں۔ ( کیونکہ وہاں تک کا فاصلہ کافی لمبا ہے لہٰذا پہلے پہل جواب موصول ہونے کا عرصہ آج سے کل ملا کر باون ہزار ایک سو چوہتر سال ہوگا۔)
کانگریس
ان منصوبوں کی اہمیت سے متاثر نہیں ہوئی
یہاں تک کہ ایک پر اسرار ریڈیائی اشارہ
١٩٧٧ء میں ملا جس کا نام "واہ " اشارہ رکھا گیا۔ یہ اشارہ ایک
ایسے سلسلے پر مشتمل تھا جس میں کچھ بے ترتیب حروف اور اعداد شامل تھے اور ایسا
لگتا تھا کہ کوئی ذہین مخلوق اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہے۔(کچھ لوگ ایسے بھی
تھے جنہوں نے اس اشارے کو دیکھا لیکن وہ
اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔)
١٩٩٥ء
میں وفاقی حکومت کی مالی تعاون کی عدم توجہی کی بنا پر کچھ ماہرین فلکیات نے نجی
طور پر غیر منافعی تنظیم کی حیثیت سے سیٹی
انسٹیٹیوٹ کو شروع کیا جو ماؤنٹ
ویو ، کیلی فورنیا میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد سیٹی کی تحقیقات کا ایک مرکز بنانا
تھا۔ یہاں پر ایک منصوبہ شروع کیا گیا جس کا نام فینکس تھا۔ اس کا مقصد
سورج جیسے ایک ہزار کے قریب ستاروں
کا جائزہ ١٢٠٠ سے ١٣٠٠ میگا ہرٹز کے درجوں کے درمیان لینا تھا۔ ڈاکٹر "جل
ٹارٹر" ([Jill Tarter]فلم کنٹیکٹ میں جوڈی فوسٹر نے ان
کا کردار ادا کیا تھا ) کو اس کا ڈائریکٹر بنا دیا گیا۔(اس منصوبے میں استعمال
ہونے والے آلات اس قدر حساس ہیں کہ وہ دوسو نوری برس کے فاصلے پر موجود ایئرپورٹ کے ریڈار
کے نظام سے نکلے ہوئے اشاروں کو بھی پکڑ سکتے ہیں۔)
١٩٩٥ کے
بعد سے سیٹی انسٹیٹیوٹ نے ایک ہزار سے زائد
ستاروں کو چھانا جس پر سالانہ پچاس
لاکھ ڈالر کی لاگت آ رہی ہے۔ لیکن سردست ابھی تک کوئی بھی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں ہو
سکے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر ، "سیتھ شوسٹاک"(Seth
Shostak) جو
سیٹی کے ایک سینیئر ماہر فلکیات ہیں، وہ رجائیت پسندی کے ساتھ اس بات کی امید رکھتے
ہیں کہ ساڑھے تین سو انٹینے پر مشتمل ایلن
ٹیلی اسکوپ ایرے جو سان فرانسسکو سے ڈھائی
سو میل شمال مشرق میں بنائی جا رہی ہے ٢٠٢٥ء تک کام کرنا شروع کر دے گی۔
ایک اور
جدید طریقہ سیٹی ایٹ ہوم منصوبہ ہے جو
برکلے میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین فلکیات نے ١٩٩٩ء
میں شروع کیا تھا۔ اس منصوبے میں ان لاکھوں کمپیوٹر کے مالکوں کو ہدف بنایا
گیا جن کے کمپیوٹر گھر پر زیادہ تر فالتو پڑے رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو اس میں حصّہ
لینا چاہتے ہیں وہ ایک سافٹویئر کو ڈاؤنلوڈ
کرکے کچھ ریڈیائی اشاروں کو غیر مرموز
کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ یہ ریڈیائی اشارے ایک ریڈیائی دوربین سے اس وقت
حاصل کیے جاتے ہیں جب حصّے دار کے کمپیوٹر
پر اسکرین سیور چل رہا ہوتا ہے اس طرح سے
ذاتی کمپیوٹر کو استعمال کرنے والے حصّے دار کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ابھی تک اس منصوبے
میں ددو سو ملکوں کے پچاس لاکھ استعمال کنندہ نے اپنے آپ کو رجسٹر کروایا ہے۔
اس کے نتیجے میں انہوں نے ایک ارب ڈالر سے
زائد مالیت کی بجلی انتہائی کم قیمت پر
استعمال کی ہے۔ یہ انسانی تاریخ کا اب تک کا سب سے رجائیت پسند منصوبہ ہے۔ یہ ایک
طرح سے دوسرے وسیع کمپیوٹر کے ذرائع کو
استعمال کرکے حساب کتاب کرنے والے منصوبوں
کے لئے ایک نمونہ عمل ہو سکتا ہے۔ ابھی تک
کوئی بھی اشارہ ذہین مخلوق کی طرف سے سیٹی ایٹ ہوم کو نہیں ملا ہے۔
عشروں کی
سخت محنت کے بعد ، ماورائے ارض حیات کی
طرف سے اشارے ملنے کے سلسلے میں کوئی واضح پیش رفت نہ ہونے کے سبب اس
تحقیق کو اپنے مخالفوں کے سخت سوالوں کا
سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی ایک ظاہری خامی تو صرف ریڈیائی اشاروں کو ایک مخصوص تعدد ارتعاش میں تلاش کرنا ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ہو سکتا
ہے کہ خلائی مخلوق ریڈیائی اشاروں کے بجائے لیزر کی شعاعیں استعمال کرتی ہوں۔ لیزر
کے استعمال کو ریڈیائی لہروں پر کافی طرح
سے برتری حاصل ہے۔ لیزر کی مختصر لہروں کی
وجہ سے ایک لہر میں ریڈیو کی لہروں کی با
نسبت زیادہ اشاروں کو سما یا جا سکتا ہے۔
لیکن کیونکہ لیزر کی شعاع بلند درجے کی سمٹی اور صرف ایک ہی تعدد ارتعاش پر مشتمل
ہوتی ہیں لہٰذا یہ ان کو بالکل صحیح
تعدد میں پکڑنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے۔
دوسرا ممکنہ
ظاہری نقص سیٹی کے محققین کا صرف مخصوص ریڈیائی تعدد کے دائرہ اثر میں انحصار کیے ہوئے ہونا ہے۔ اگر
کوئی خلائی حیات موجود ہو تو ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی دابی تیکنیک کا
استعمال کرتے ہوں یا ممکنہ طور پر پیغام کو چھوٹے
بنڈلوں میں پھیلا دیتے ہوں اس طرح
کی تیکنیک آج کل انٹرنیٹ پر استعمال ہوتی ہے۔ مختلف تعدد میں پھیلے ہوئے دابی پیغامات
کو سننے سے ہمیں صرف بے ترتیب آوازیں ہی سنائی دیں گی۔
ان تمام
خوفناک مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے جن سے سیٹی نبرد آزما ہے ، یہ بات معقول لگتی ہے
کہ اس صدی میں ہی ہم ماورائے ارض تہذیبوں
کے کچھ اشاروں کا سراغ لگانے کے
قابل ہو جائیں گے بشرطیکہ وہ تہذیبیں
موجود ہوں اور اگر کبھی ایسا ہوا تو وہ انسانیت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت
رکھے گا۔
وہ کہاں ہیں ؟
اس بات
کی حقیقت کے پیش نظر کہ ابھی تک سیٹی نے کائنات میں موجود کسی بھی ذہین مخلوق کی
طرف سے آتے ہوئے کسی اشارے کا سراغ نہیں لگایا ، سائنس دان مجبور ہو گئے ہیں وہ
فرینک ڈریک کی ذہین مخلوق کے دوسرے سیاروں پر موجود ہونے سے متعلق مساوات
کو سرد مہری کے ساتھ اہمیت دینا ختم کر دیں۔ حالیہ فلکی دریافتوں نے ہمیں اس
بات کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ١٩٦٠ء
کی دہائی میں فرینک ڈریک کے ذہین خلائی مخلوق کو کھوجنے کے اندازے حقیقت میں کہیں زیادہ مختلف ہیں۔ ذہین خلائی
مخلوق کے کائنات میں موجود ہونے کے نصیب دونوں رجائیت اور قنوطیت پسندوں کے پچھلے اندازوں سے کہیں
زیادہ ہیں۔
سب سے
پہلے تو نئی دریافتوں نے ہمیں اس بات کو سمجھنے کا موقع دیا کہ حیات اس طرح سے بھی
نشو نما پا سکتی ہے جس کو ڈریک کی مساوات
نے نظر انداز کر دیا تھا۔ پہلے سائنس دان
اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مائع پانی صرف سورج کے گرد گولڈی لاکس زون میں ہی
پایا جا سکتا ہے۔(زمین کا سورج سے فاصلہ بالکل مناسب ہے۔ یہ
نہ تو اتنا زیادہ سورج سے قریب ہے کہ سمندر ابل پڑیں نہ اتنا زیادہ دو ر ہے کہ سمندر جم جائیں ، بلکہ حیات کے
زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لئے بالکل مناسب ہے۔)
لہٰذا مشتری
کے منجمد چاند یوروپا کی سطح پر موجود جمی
ہوئی برف کے نیچے پائے جانے والے پانی کے ثبوتوں نے سائنس دانوں کو مبہوت کر دیا
ہے۔ یوروپا گولڈی لاکس زون کے کافی باہر کی جگہ ہے۔ لہٰذا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈریک کی مساوات
میں کہیں نہیں سماتا۔ اس کے باوجود مدو جزر کی قوّتیں یوروپا کی سطح پر پھیلی ہوئی
برف کو پگھلا کر ایک مستقل سمندر بنا سکتی ہے۔ یوروپا جب مشتری
کے گرد اپنے مدار میں چکر لگاتا ہے تو
سیارے کے عظیم جاذبی میدان کسی ربڑ کی
گیند کی طرح سے اس کو نچوڑتے ہیں ، جس کے نتیجے میں اس کی قلب کی گہرائی میں رگڑ
کی قوّت پیدا ہوتی ہے جو برف کو پگھلا
دیتی ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں سو سے زائد چاند موجود ہیں۔ لہٰذا گولڈی لاکس زون کے باہر صرف ہمارے نظام
شمسی میں ہی ایسے کئی چاند ہو سکتے ہیں
جہاں حیات موجود ہو۔ سردست ڈھائی سو سے
زائد دیو ہیکل ماورائے شمس سیارے
خلاء میں دریافت ہو چکے ہیں غالب
امکان یہ ہے کہ ان کے بھی منجمد چاند ہو
سکتے ہیں جو حیات کی کفالت کر نے کے قابل ہوں۔
مزید
براں سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ کائنات میں کئی ایسے آوارہ گرد (یتیم)سیارے بھی موجود ہیں جو کسی بھی ستارے کے
گرد چکر نہیں لگا رہے ہیں۔ مدوجزر کی قوّتوں کی بدولت کوئی بھی چاند جو ان آوارہ
گرد سیاروں کے گرد چکر لگا رہا ہوگا اس میں بھی برف کی سطح کے نیچے مائع سمندر موجود ہو سکتے ہیں لہٰذا امکان ہے کہ وہاں حیات بھی پائی جا سکتی ہے، لیکن
ایسا کوئی بھی چاند ہم اپنی دوربینوں کی مدد سے دیکھ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے آلات میزبان تارے یا مورث ستارے سے آتی ہوئی روشنی کی مدد سے ہی
دوسرے اجسام کی کھوج کر سکتے ہیں۔
کائنات
میں چاندوں کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے جو ہو سکتا ہے کہ نظام ہائے شمسی میں
موجود سیاروں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہوں
اور ان آوارہ گرد سیاروں کی تعداد کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے جو ایک اندازے کے
مطابق ایک کہکشاں میں ہی کروڑوں کی تعداد میں ہوں گے ، کائنات میں زندگی کی کفالت کرنے والے فلکیاتی اجسام ہمارے پچھلے لگائے گئے
اندازوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔
دوسری
طرف ماہرین فلکیات نے یہ نتیجہ بھی اخذ
کیا ہے کہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر ،
کسی ایسے سیارے پر زندگی کے آثار جو گولڈی لاکس زون میں موجود ہو ڈریک کے لگائے گئے اندازے سے کہیں زیادہ کم ہیں۔
سب سے
پہلے تو کمپیوٹر کے پروگرام اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ مشتری کے حجم کے سیارے
کا کسی بھی نظام شمسی میں موجود ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ خلاء سے آتے ہوئے
شہابیوں اور سیارچوں کو وہ دور دھکیل سکے۔ اس طرح سے وہ مسلسل نظام شمسی کی صفائی
کرکے اس کو حیات کے لئے ایک موزوں جگہ بناتا
ہے۔ اگر ہمارے نظام شمسی میں مشتری موجود نہیں ہوتا ، تو زمین شہابیوں اور دم دار
تاروں سے چھلنی ہو چکی ہوتی جس کے نتیجے
میں یہاں زندگی کا پروان چڑھنا انتہائی مشکل ہو جاتا۔ ڈاکٹر" جارج ویتھریل"(George Wetherill) جو کارنیگی انسٹیٹیوشن ان واشنگٹن، ڈی سی میں ایک فلکیات دان ہیں اندازہ لگا کر بتاتے
ہیں کہ مشتری اور زحل جیسے سیاروں کی
ہمارے نظام شمسی میں غیر موجودگی کی صورت میں
زمین ایک ہزار گنا زیادہ سیارچوں کے تصادموں کا نشانہ بنتی۔ ان تصادموں میں کافی سارے ایسے تصادم ہوتے جو حیات کے لئے خطرہ بن سکتے تھے (جیسا کہ ایک وہ تصادم تھا جس نے ڈائنو سارس کو
آج سے چھ کروڑ پچاس سال پہلے ختم کر دیا تھا)۔ ایسے تصادم ہر دس ہزار سال کے بعد وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ وہ
کہتے ہیں "یہ بات تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ حیات کس طرح سے انتہائی یورش میں
بھی باقی رہ سکتی ہے۔"
ہم اس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ہمارے چاند کا حجم زمین کی نسبت دوسرے مہتابوں کے اپنے سیارے کے مقابلے میں زیادہ ہے |
دوسرے
ہمارے سیارے کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارے پاس ایک بڑا چاند ہے جس نے زمین کو اپنے محور پر گھومنے میں سہارا دیا ہوا ہے۔ نیوٹن کے کشش ثقل کے
قانون کو کروڑوں سال پر کھینچ کر سائنس
دان اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ
شاید ایک بڑے چاند کے بغیر ہمارے زمین کا محور غیر پائیدار ہو سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں
زمین لڑ کھڑا سکتی ہے اور حیات
کی پرورش ناممکن ہو سکتی ہے۔ فرانسیسی فلکیات دان ڈاکٹر" جاک لاسکر"(Jacques Lasker)
اندازہ لگاتے ہیں کہ ہمارے چاند کے بغیر زمین اپنے محور پر صفر درجے سے لے کر چون درجے تک جھولتی رہتی جس کے نتیجے میں انتہاء کے موسم جنم لیں
گے جو حیات سے بالکل بھی مطابقت نہیں
رکھتے ہوں گے۔ لہٰذا ایک بڑے چاند کی موجودگی کی شرط کو بھی ڈریک کی مساوات میں شامل ہونا چاہئے تھا۔(مریخ
کے صرف دو ننھے چاند ہیں ، جو اتنے چھوٹے ہیں کہ اس کے چکر کو پائیداری فراہم نہیں
کر سکتے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ مریخ ماضی بعید میں لڑکھڑایا ہوگا اور ہو سکتا ہے
کہ مستقبل میں بھی دوبارہ سے لڑکھڑا جائے۔)
تیسرے،
حالیہ حاصل ہوئے ارضیاتی ثبوت اس حقیقت کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ مستقبل میں
کئی مرتبہ حیات زمین سے تقریباً معدوم ہو گئی تھی۔ دو ارب سال پہلے زمین مکمل طور پر برف میں ڈھکی
ہوئی تھی ، اس وقت زمین برف کی ایک گیند جیسی تھی
جو بمشکل حیات کو سہارا دے سکتی تھی۔ دوسری طرف آتش فشانوں اور شہابیوں کے
تصادموں نے بھی زمین پر سے حیات کے خاتمے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لہٰذا حیات
کی تخلیق اور اس کا ارتقاء عمل ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ نازک ہے۔
چوتھے،
ذہین حیات ماضی میں تقریباً معدومیت تک جا پہنچی تھی۔ تازہ ترین ڈی این اے سے حاصل
کردہ ثبوتوں کی روشنی میں آج سے لگ بھگ ایک لاکھ سال پہلے شاید صرف چند ہزار انسان ہی موجود تھے۔ دوسرے
جانوروں کی انواع کے برعکس جو خلقی طور پر
آپس میں کافی زیادہ ایک دوسرے سے الگ
ہیں تمام انسان خلقی طور پر ایک جیسے ہی
ہیں۔ اگر ہم عالم حیوانات سے موازنہ کریں
تو حضرت انسان تقریباً ایک دوسرے کے کلون جیسا ہی ہے۔ اس مظہر کو صرف ایک بات سے ہی بیان کیا جا سکتا ہے کہ ہماری تاریخ میں کبھی ایسی
بند گلی بھی آئی ہوگی جس میں زیادہ
تر نوع انسانی کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ مثال کے طور ایک بڑے آتش فشاں کے پھٹنے
سے موسم اس طرح سے تبدیل ہو کر سرد ہو گیا
ہوگا کہ لگ بھگ ساری نوع انسانی ختم ہو گئی ہوگی۔
حیات کے
زمین پر پھلنے پھولنے کے لئے ان تمام باتوں کے علاوہ مزید کچھ حسن اتفاقات کا وقوع پذیر ہونا ضروری تھا جیسے :
·
ایک مضبوط مقناطیسی میدان۔ یہ
کائناتی شعاعوں کو خم دینے کے لئے انتہائی ضروری ہے ورنہ وہ زمین پر موجود حیات کو
ختم کر سکتی ہیں۔
مقناطیسی میدان حیات کے لئے نہایت ضروری ہے |
·
میانہ محوری
سیاروی گھماؤ۔ اگر زمین بہت آہستہ اپنے محور کے گرد چکر لگائے تو سورج کی جانب رخ کرنے والا حصّہ جھلسا
دینے والا حد تک گرم جب کہ دوسری طرف والا حصّہ لمبے عرصے کے لئے منجمد کر دینے والا سرد ہو
جائے گا۔ دوسری طرف اگر زمین بہت تیزی سے گھومے گی تو انتہائی خطرناک موسمی حالت جیسا کہ عفریت نما ہوائیں اور طوفان پیدا ہوں
گے۔
·
محل وقوع کا کہکشاں کے قلب سے مناسب اور موزوں فاصلہ۔ اگر
زمین ملکی وے کہکشاں کے قلب سے بہت نزدیک ہوتی تو اس کو خطرناک شعاعوں کے ٹکراؤ کا سامنا رہتا
، اگر یہ کہکشانی مرکز سے بہت زیادہ دور ہوتی تو ہمارے سیارے کے پاس وہ بھاری
عناصر نہیں ہوتے جو ڈی این اے کے
سالموں اور پروٹین کو بنانے کے لئے درکار
ہیں۔
سورج کا م کہکشانی محل وقوع بھی حیات کی نمو کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہے |
ان تمام
وجوہات کی بنا پر ماہرین فلکیات اب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حیات گولڈی لاکس
زون کے باہر کسی چاند پر یا کسی آوارہ گرد سیارے پر بھی موجود ہو سکتی ہے۔ لیکن زمین جیسے کسی سیارے کی گولڈی لاکس زون میں موجودگی کا امکان جو حیات کو سہارا دے سکے ان اندازوں سے انتہائی کم ہے جتنا کہ ہم نے پہلے
لگائے تھے۔ مجموعی طور پر ڈریک کی مساوات سے کہکشاں میں تہذیب کی تلاش کے حاصل کردہ تخمینہ جات اس کے اصل میں لگائے گئے اندازوں سے انتہائی کم ہیں۔
جیسا کہ
پروفیسر "پیٹر وارڈ"(Peter
Ward) اور" ڈونلڈ براؤن لی"(Donald Brwonlee) نے لکھا ہے "ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ
حیات خرد بینی جرثوموں یا ان جیسی دوسری شکل
میں کائنات میں انتہائی عام ہے ، یہ شاید اس سے بھی زیادہ عام ہو جتنا کہ
ڈریک اور کارل ساگاں نے تصوّر کیا تھا۔
بہرحال پیچیدہ حیات جیسے کہ جانور اور اعظم پودے
کائنات میں اس سے کہیں زیادہ نایاب ہیں جتنا کہ ہم نے شروع میں اندازہ
لگایا تھا۔" حقیقت میں وارڈ اور
براؤن لی نے اس بات کے امکان کو کھلا چھوڑ
دیا ہے کہ شاید زمین کہکشاں میں ایک منفرد جگہ ہو جو جانداروں کی حیات کا مسکن بنی ہے۔(اگرچہ یہ
نظریہ ہماری کہکشاں میں ذہین مخلوق کی
تلاش کی حوصلہ شکنی کرتا ہے ، اس کے باوجود بھی یہ دوسری دور دراز کی کہکشاؤں میں
حیات کی موجودگی کے امکان کو کھلا رکھتا
ہے۔)
زمین جیسے سیارے کی تلاش
ڈریک کی
مساوات یقینی طور پر خالص قیاس پر مبنی ہے۔ خلائے بیکراں میں حیات کی تلاش نے ماورائے ارض سیاروں کے پانے کے بعد تیزی پکڑ لی ہے۔ ماورائے
ارض سیاروں کی تلاش میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا ماری دوربینوں کے ذریعہ نظر نہ آنا ہے کیونکہ ان کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ عام
طور سے وہ اپنے میزبان تارے کے مقابلے میں کروڑوں سے لے کر اربوں گنا تک دھندلے ہوتے ہیں۔
ایک مصّور کی نگاہ میں زمین جیسا سیارہ |
ان کو
ڈھونڈنے کے لئے ماہرین فلکیات کو میزبان تارے کی ننھی ڈگمگاہٹوں کا تجزیہ کرنا پڑتا ہے جو ایک بڑے مشتری کے حجم کے جتنے سیارے سے پیدا
ہوتی ہے۔ یہ ڈگمگاہٹ اپنے مورث ستارے کی
روشنی میں ہلکی سی تبدیلی لانے کا اہل
ہوتا ہے۔(ذرا تصوّر کریں کہ جیسا ایک کتا اپنی دم کو پکڑ رہا ہو۔ بالکل اسی طرح
میزبان تارہ اور اس کا مشتری کے حجم کا
سیارہ ایک دوسرے کو، ایک دوسرے کے گرد گھوم کر پکڑ رہے ہوتے ہیں۔
ایک دوربین مشتری کے حجم کے سیارے کو اس لئے نہیں دیکھ سکتی کہ اس کی اپنی روشنی
نہیں ہوتی۔ جبکہ میزبان تارہ واضح طور پر
قابل دید ہوتا ہے اور جب سیارہ ، ستارے کے
سامنے سے گزرتا ہے یا اس کو عبور کرتا ہے تو مورث ستارہ ڈگمگاتا ہوا نظر آتا ہے۔)
پہلا
اصلی ماوراء شمس سیارہ ١٩٩٤ء میں
پنسلوانیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر "الیگزینڈر وولزک چن"(Alexander Wolszczan) نے
دریافت کیا۔ انہوں نے ایک گھومتے ہوئے
مردہ ستارے – نابض (پلزار) کے گرد چکر کاٹتے ہوئے سیاروں کو دیکھا۔ کیونکہ
میزبان تارہ شاید ایک سپر نووا دھماکے میں
پھٹ پڑا تھا لہٰذا وہ سوختہ مردہ
سیارے لگتے تھے۔ اس کے اگلے سال جنیوا کے
رہائشی دو سوئس ماہرین فلکیات، " مچل میئر"(Michel
Mayor) اور"
دیدیار کوئیلوز"(Didier
Queloz) نے اعلان کیا
کہ انھیں ایک اور امید افزا سیارہ ملا ہے جس کا حجم مشتری جتنا ہے اور وہ ایک
ستارے پیگاسی ٥١ کے گرد چکر لگا رہا
ہے اور اس کے بات تو جیسے سیاروں کی
دریافت کا نلکا ہی کھل گیا۔
پچھلے دس
برسوں کے درمیان ماورائے ارض سیاروں کی
کھوج میں شاندار تیزی رہی ہے۔ بولڈر میں واقع
یونیورسٹی آف کولوراڈو کے ماہر
ارضیات" بروس جیکوسکی"(Bruce
Jakosky) کہتے ہیں "یہ دور انسانیت کی تاریخ کا
خصوصی عہد ہے۔ ہم وہ پہلی نسل ہیں جن کے پاس حقیقی موقع ہے کہ وہ دوسرے سیارے پر
حیات کو تلاش کر سکیں۔"
ابھی تک
کوئی بھی ماورائے شمس نظام ہائے شمسی میں کوئی
بھی نظام ہمارے نظام شمسی جیسے نہیں ملا
ہے۔ حقیقت میں سب کے سب ہمارے نظام شمسی سے انتہائی مختلف ہیں۔ پہلے ماہرین فلکیات
یہ سمجھتے تھے کہ ہمارا نظام شمسی کائنات میں پائے جانے والے دوسرے نظام ہائے شمسی
کی طرح ہی کا ہوگا جس میں سیاروں کے
دائروی مدار اور تین حصّوں میں اجسام میزبان تارے کے گرد چکر لگا رہے ہوں گے : پہلے
حصّے میں سیاروں کی چٹانی پٹی ستارے سے
قریب ہوگی ، اس کے بعد دیو ہیکل سیاروں کی پٹی ہوگی اور اس کے بعد دم دار ستاروں پر مشتمل منجمد برفیلے تودے ہوں گے۔
ماہرین
فلکیات کی توقعات کے برعکس دوسرے نظام
ہائے شمسی میں موجود سیاروں میں سے کوئی بھی اس سیدھے سادے اصول پر عمل پیرا نہیں
تھا۔ خاص طور پر ، مشتری کے حجم کے سیاروں کے بارے میں یہ امید کی جاتی ہے کہ
وہ میزبان تارے سے کافی دور واقع ہوں گے ، لیکن ان میں سے زیادہ تر اپنے میزبان تارے سے انتہائی
نزدیک (عطارد کے سورج کے فاصلے سے بھی زیادہ قریب ) یا انتہائی بیضوی مداروں میں
موجود ہیں۔ دونوں طرح سے
چھوٹے زمین جیسے سیارے کی
موجودگی جو گولڈی لاکس زون کے اندر مدار
میں موجود ہو ممکن نہیں ہے۔ اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے اپنے میزبان
تارے سے انتہائی نزدیک ہوں گے تو اس کا مطلب ہوگا
کہ وہ عظیم فاصلہ طے کرتے ہوئے
بتدریج اپنے نظام شمسی کے مرکز کی طرف گھومتے ہوئے آرہے ہیں (شاید دھول کی
رگڑ کی وجہ سے )۔ اس طرح سے مشتری کے حجم
جتنے سیاروں نے چھوٹے زمین جیسے سیاروں کو خلاء کی بے کراں گہرائیوں میں
دھکیل دیا ہوگا۔ اور اگر مشتری کے حجم جتنے سیارے بلند بیضوی مداروں میں
گردش کر رہے ہوں گے تو اس کا مطلب ہوگا کہ
وہ اکثر گولڈی لاکس زون میں سے بھی گزریں گے نتیجتاً وہ پھرسے زمین جیسے کسی سیارے کو خلائے بسیط میں پھینک دیں گے۔
ان
دریافتوں نے سیارہ کھوجی اور ماہرین فلکیات
کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جس میں وہ زمین جیسے سیاروں کی تلاش میں
تھے مگر پس بین ان دریافتوں کی تو امید کی
جا رہی تھی۔ ہمارے آلات اتنے خام ہیں کہ وہ صرف بڑے مشتری جتنے حجم کے تیز رفتار
اجسام کو ہی تلاش کر سکتے ہیں جو اپنے میزبان تارے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ آج کی دوربینیں صرف وہ دیوہیکل
سیارے دریافت کر سکتی ہیں جو انتہائی تیزی کے ساتھ خلاء میں حرکت کرتے ہیں۔ اگر
ہمارے نظام شمسی کے جیسا کوئی دوسرا نظام موجود ہوگا تو ہمارے آلات اس قدر بنیادی سے ہیں کہ وہ ان
کو نہیں تلاش کر پائیں گے۔
یہ
صورتحال کوروٹ، کیپلر اور ٹیررسٹریل
پلانیٹ فائنڈر کے خلاء میں چھوڑے
جانے کے بعد سے تبدیل ہو سکتی ہے ، یہ تینوں مصنوعی سیارچے خاص طور پر زمین جیسے
سینکڑوں سیاروں کو خلاء میں تلاش کرنے لئے بنائے گئے ہیں۔ مثال کے طور پرکوروٹ اور
کیپلر سیارچے زمین جیسے سیارے کے اپنے
مورث ستارے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اس پر بننے
والے سائے کا تجزیہ کریں گے کیونکہ ستارے کو عبور کرتے ہوئے سیارہ اپنے
مورث ستارے کی روشنی کو معمولی سی کم کر دے گا۔ ہرچند زمین جیسا سیارہ نظر نہیں آئے گا لیکن اس کے باوجود ستارے کی روشنی میں ہونے والی کمی کو
مصنوعی سیارچہ پکڑ لے گا۔
فرانسیسی
سیارچہ کوروٹ (جو فرانسیسی میں کنویکشن اسٹیلر روٹیشن اینڈ پلانیٹیری ٹرانزٹ کا مخفف ہے ) دسمبر ٢٠٠٦ء میں کامیابی
کے ساتھ خلاء میں چھوڑ دیا گیا۔ اس نے
ماورائے شمس پہلے سیاروی خلائی کھوجی ہونے کا سنگ میل عبور کیا ہے۔ سائنس دان امید
کرتے ہیں کہ دس سے لے کر چالیس تک زمین
جیسے سیارے انھیں مل جائیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ سیارے گیسی نہیں چٹانی ہوں
گے اور صرف زمین سے تھوڑے سے ہی بڑے ہوں گے۔ اس بات کی بھی امید ہے کہ کوروٹ
مشتری کے حجم جتنے مزید سیارے بھی ڈھونڈ کر پہلے سے خلاء میں تلاش کئے ہوئے اس قسم کے سیاروں میں مزید اضافہ کرے گا۔ "ہم زمین پر رہتے ہوئے جو
کچھ کر سکتے تھے اس کے برعکس کوروٹ اس قابل ہوگی کہ وہ ہر قسم اور نسل کے ماوراء شمس سیارے تلاش کر
سکے۔" کلاڈ کتالا(Claude
Catala) فلکیات دان نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
سائنس دانوں کو امید ہے کہ کل ملا کر سیارچہ ایک لاکھ بیس ہزار کے قریب ستاروں کی جانچ کرے گا۔
کسی بھی
دن کوروٹ زمین جیسے کسی بھی سیارے کے ثبوت کو پا سکتا ہے ۔ وہ دن یقینی طور پر نہ
صرف فلکیات کی دنیا بلکہ انسانیت کی تاریخ میں ایک نیا موڑ ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ
مستقبل میں لوگوں کو رات کو آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اس بات کا جھٹکا لگے کہ وہاں پر ایسے سیارے موجود ہیں جو ذہین زی شعور حیات کا مسکن بن سکتے ہیں۔ مستقبل میں
جب ہم آسمان فلک کی طرف نگاہ کریں تو ہمیں اس بات پر حیرت ہوگی کہ ممکنہ طور پر کوئی
ہمیں بھی وہاں سے دیکھ رہا ہوگا۔
کیپلر خلائی دوربین نے کافی سارے ماورائے شمس سیاروں کو ڈھونڈ نکالا ہے |
کیپلر
سیارچہ ٢٠٠٨ء میں ناسا کی طرف سے خلاء میں
چھوڑے جانے کے لئے تیار ہے۔ یہ اس قدر حساس ہے کہ یہ زمین جیسے سینکڑوں سیارے
خلائے بسیط میں ڈھونڈ سکتا ہے۔ یہ ایک
لاکھ ستاروں کی روشنی کو ناپے گا تاکہ کسی بھی سیارے کی اس حرکت کو دیکھ سکے جب وہ
اس ستارے کے سامنے سے گزرتا ہے۔ اگلے چار سالوں میں وہ کام شروع کر دے گا۔ کیپلر زمین
سے ١٩٥٠ نوری برسوں تک کے فاصلے پر موجود دور
دراز کے ستاروں کو جانچے اور ان پر نظر رکھے
گا۔ اپنے مدار میں چھوڑے جانے کے پہلے سال
سائنس دان اس بات کی امید کر رہے ہیں کہ وہ
مندرجہ ذیل چیزیں تلاش کر لے گا :
·
٥٠ زمین کے حجم جتنے سیارے ،
·
١٨٥
سیارے جو زمین سے ٣٠ فیصد زیادہ بڑے ہوں
گے ، اور
·
٦٤٠
سیارے جو زمین سے ٢۔٢ گنا زیادہ بڑے ہوں گے۔
ٹیررسٹریل
پلانیٹ فائنڈر کے پاس زمین جیسے سیارے کو
ڈھونڈنے کا سب سے زیادہ اچھا موقع ہے۔ کافی تاخیر کے بعد اب اس کو ٢٠١٤ میں چھوڑنے
کا منصوبہ ہے ، یہ ١٠٠ سیاروں کو ٤٥ نوری برس کے فاصلوں تک نہایت درستگی کے ساتھ
تلاش کر سکے گی۔ اس میں دو قسم کے آلات دور دراز کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے لگے
ہوں گے۔ پہلا کورنو گراف (ستارے کے حلقہ
شعاعیہ کا مطالعہ کرنے کا آلہ )، ایک
خصوصی دوربین جو میزبان ستارے کی روشنی کو ایک اربویں حصّہ تک روک کر کم کر سکے گی۔ یہ دوربین ہبل خلائی
دوربین سے تین سے چار گنا زیادہ تک بڑی اور اس سے ١٠ گنا زیادہ درست نتائج دے گی۔ کھوجی میں دوسرا آلہ ایک" تداخل پیما"(Interferometer)
ہوگا جو روشنی کی لہروں کی مداخلت
کو استعمال کرتے ہوئے میزبان تارے سے آتی
ہوئی روشنی کو دس لاکھویں حصّے تک کم کرے
گا۔
اسی
دوران یورپین اسپیس ایجنسی اپنا خود کا سیارہ کھوجی ڈارون
خلاء میں ٢٠١٥ء یا اس کے بعد بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ اس میں تین
دوربینیں لگانے کا منصوبہ ہے جس میں سے ہر
ایک ٣ میٹر قطر کی ہوں گی۔ یہ خلاء میں اڑتا ہوا سب سے بڑا تداخل پیما ہوگا جو سیٹی کی کوششوں کو بار آ ور بنانے کی کوشش
کرے گا۔ اس کا مقصد بھی زمین جیسے سیاروں کی تلاش کا ہی ہوگا۔
وہ دیکھنے میں کیسے ہوں گے؟
دوسرے
سائنس دان طبیعیات ، حیاتیات اور کیمیا کو استعمال کرتے ہوئے اس بات کا قیاس کر رہے ہیں کہ خلائی مخلوق دیکھنے میں
کیسی ہوگی۔ مثال کے طور پر آئزک نیوٹن اس
بات پر حیران ہوتا تھا کہ ان تمام جانوروں کو جنہیں وہ دیکھ سکتا تھا کیوں دو رویہ تشاکلی دو آنکھیں ، دو بازو اور دو پیر متشاکل طور پر موجود ہوتے ہیں۔ کیا یہ خوش
قسمتی ہے یا خدا نے ایسا جان کر بنا یا ہے۔
آج
ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
کیمبیری انفجار کے دوران جو آج سے ٥٠ کروڑ سال پہلے ہوا تھا قدرت نے وسیع ننھی شکل و صورت کے جتھوں ساتھ تجربات کیے جس کے
نتیجے میں کثیر خلوی مخلوق نمودار ہوئی۔
کچھ کی ریڑھ کی ہڈیاں "X"، "Y" یا "Z" کی شکل کی
تھیں۔ کچھ ستارہ مچھلی کی طرح متشاکل نصف قطر
کی تھیں۔ اتفاقی طور پر ایک کی ریڑھ کی ہڈی "I" کی دو رویہ متشاکل شکل کی بن گئی۔ یہی وہ نوع تھی جو زمین پر
موجود زیادہ تر فقاری جانوروں کے پیش رو بنی۔
لہٰذا نظری طور پر انسان نما دو رویہ متشاکل صورت ، ویسی ہی شکل جو ہالی ووڈ والے اپنی فلموں میں دکھاتے
ہیں ، ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام ذہین مخلوق پر لاگو ہو۔
کچھ
ماہرین حیاتیات اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ
مختلف انواع کی حیات کیمبیری انفجار کے بعد اس لئے پھلی پھولی کہ "بازوؤں کی ایک دوڑ " شکار اور
شکاری میں شروع ہو گئی تھی۔ پہلے کثیر خلوی جانداروں کے ظہور نے
جو دوسرے جانداروں کو نگل رہے تھے ، دونوں(شکار اور شکاری) کے ارتقائی عمل کو تیز کیا۔ جس میں دونوں (شکار اور شکاری) ایک دوسرے کو
نیچا دکھانے کی کوششوں میں جت گئے۔ بعینہ ایسے ہی جس طرح سے سرد جنگ کے دوران سابقہ
سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ
میں زور بازو کی جنگ چلی تھی۔ جس میں دونوں اطراف ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر
میں لگے رہتے تھے۔ حیات کے ارتقاء کو اس سیارے پر جانچ کر ہم اس بات کا اندازہ لگا
سکتے ہیں کہ کس طرح سے ذہین زی شعور مخلوق
زمین پر ارتقاء پذیر ہوئی ہوگی۔ سائنس دان
کی تحقیق سے حاصل کردہ نتائج سے
انہوں نے یہ اخذ کیا کہ ذہین مخلوق کو درج
ذیل چیزیں درکار ہوں گی :
1.
کسی قسم کی بصارت یا
حساس نظام جو ماحول کو کھوجنے میں مدد دے ؛
2.
کسی قسم کے انگوٹھے
جو چیزوں کو پکڑنے میں استعمال ہو سکیں
یہ سونڈ یا پنچوں کی شکل میں بھی ہو
سکتے ہیں ؛
3.
کوئی گفتگو کرنے کا
نظام جیسا کہ بولنا۔
یہ
تین صفتیں ارد گرد کے ماحول کا احساس کرنے کے لئے انتہائی
ضروری ہیں اور اس کے ذریعہ ہی ماحول کے
ساتھ ساز باز کی جا سکتی ہے جو ذہین مخلوق کا خاصہ ہے۔ لیکن ان تین بنیادی صفتوں کے علاوہ
دوسری کوئی بھی چیز چل سکتی ہے۔
ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والی خلائی مخلوق کے برعکس ، ماورائے ارض حیات کو زمین پر موجود حیات کا ہمشکل ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ بچوں جیسی ، حشرات الارض کی آنکھیں
رکھنے والی خلائی مخلوق جو ہم ٹیلی ویژن اور فلموں میں دیکھتے ہیں درحقیقت
١٩٥٠ء کی دہائی کی دوسرے درجے کی
فلموں میں دکھائی جانے والی مخلوق ہے جو لاشعوری طور پر ہمارے دماغ میں جا کر دفن
ہو گئی ہے۔
(کچھ
ماہر بشریات ذہین مخلوق کے لئے ایک چوتھی
خاصیت بھی ڈال دیتے ہیں جو پر تجسس حقیقت
کو بیان کرنے کی ہے : انسانی ذہانت جنگل
میں زندہ رہنے کے لئے درکار ذہانت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارا دماغ خلائی سفر، کوانٹم نظرئیے اور اعلی درجے کی ریاضی کا عادی ہو سکتا ہے جو جنگل میں شکار اور مردہ خوری کے لئے انتہائی غیر ضروری چیزیں ہیں۔ یہ غیر
ضروری دماغی قوّت موجود کیوں ہے ؟ قدرت میں جب ہم کچھ جانوروں میں مثلاً چیتے
اور غزال میں وہ غیر معمولی
صلاحیتیں دیکھتے ہیں جو ان کے زندہ رہنے
سے کہیں زیادہ ہیں تو ہمیں یہ بات معلوم
چلتی ہے کہ ان کے درمیان مسابقتی تسلط
حاصل کرنے کی دوڑ چل رہی ہوتی ہے۔ اس طرح
سے کچھ سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک چوتھی خاصیت
حیاتیاتی مسابقتی تسلط نے انسانی ذہانت کو آگے بڑھایا۔ شاید یہ مسابقتی
تسلط کی دوڑ ہمارے انواع کے دوسرے ارکان کے درمیان تھی۔)
ہشت پا نے چٹانوں کے نیچے کے ماحول سے اپنے آپ کو اچھی طرح سے ہم آہنگ کر لیا لہٰذا انہوں نے کروڑوں برس پہلے ہی ارتقائی عمل کو چھوڑ دیا |
ذرا کرۂ
ارض پر موجود تمام غیر معمولی حیات کو تصوّر میں لیں۔ مثال کے طور پر اگر ہم ہشت
پا کی کوئی چنی ہوئی نسل کو لے کر کئی کروڑوں سال تک پالیں تو اس بات کا قیاس کیا جا
سکتا ہے کہ وہ بھی ذہانت حاصل کر لے۔(ہم بندروں سے ٦٠ لاکھ سال پہلے علیحدہ ہوئے
تھے شاید اس لئے کہ ہم نے افریقہ کے ماحول کو صحیح طرح سے قبول نہیں کیا تھا۔ اس
کے برعکس ہشت پا نے چٹانوں کے نیچے کے ماحول سے اپنے آپ کو اچھی طرح سے ہم آہنگ کر
لیا لہٰذا انہوں نے کروڑوں برس پہلے ہی ارتقائی عمل کو چھوڑ دیا۔) حیاتی
کیمیا دان" کلف فورڈ پک اوور"(Clifford Pick over)
کہتے ہیں کہ جب وہ" ان تمام پاگل کر
دینے والے خول دار جانداروں ، مسلی ہوئی گیرہ دار جیلی فش ، بے ڈھنگے متناقص الا وصف کیڑوں(دو جنس والے ) اور فطر لعاب ( کھمبی کی طرح کا نامیہ جو دلدلی
جگہوں میں گلتی سڑتی لکڑی میں پیدا ہو جاتا ہے ) کو دیکھتے ہیں، تو
کہتے ہیں کہ خدا میں مزاح کرنے کی
کافی حس ہے اور ہم ان تمام چیزوں کا عکس
کائنات میں دوسری اشکال میں بھی دیکھیں گے
"۔
بہرحال ہالی ووڈ والے ذی شعور مخلوق کو گوشت خور دکھانے میں بالکل بجا ہیں۔ گوشت خور
خلائی مخلوق نہ صرف ان کی فلم کی بِکْری زیادہ کرتی بلکہ یہ حقیقت سے زیادہ قریب تر بھی ہے۔ عام
طور سے شکاری اپنے شکار سے زیادہ چالاک ہوتے ہیں۔ شکاریوں کو مہارت کے ساتھ منصوبہ بندی ، شکار کا پیچھا
کرنا، ان سے چھپنا اور ان پر حملہ کرنا ہوتا ہے۔ لومڑیوں ، کتوں ، چیتوں
اور شیروں کی آنکھیں ان کے چہرے کے
سامنے کے حصّے میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے شکار پر جھپٹتے ہوئے فاصلے کا
اندازہ کر سکیں۔ اپنی دو آنکھوں کی مدد سے وہ سہ جہتی نظروں کی بدولت شکار پر
نظریں جما سکتے ہیں۔ دوسری طرف شکار جیسے کہ ہرن اور خرگوش کے لئے اتنا کافی ہے کہ شکاری سے دور کیسے بھاگا جائے۔ ان کی آنکھیں چہرے کے اطراف
میں ہوتی ہیں تاکہ وہ اپنے گرد موجود شکاری کا ٣٦٠ درجے زاویے میں ہر وقت جائزہ لے سکیں۔
دوسرے
الفاظ میں ، باہری خلاء میں موجود ذہین مخلوق ممکنہ
طور پر اپنے شکاریوں سے بچنے کے لئے ایسی آنکھوں یا دوسرے حساس اعضاء کے ساتھ
قدرتی طور پر پروان چڑھی ہوگی جو اس کے چہرے کے سامنے ہوں۔ ان میں سے چند ایک کا رویہ گوشت خور ، جارح اور
علاقائی ہوگا جیسا کہ زمین پر ہمیں
، بھیڑیوں ، شیروں اور انسانوں میں ملتا ہے۔(لیکن کیونکہ ایسی حیات ممکنہ طور پر بالکل
الگ ڈی این اے اور پروٹین کے سالمات سے
بنی ہوگی لہٰذا ان کی دلچسپی ہمیں کھانے یا ہم سے جسمانی تعلقات رکھنے میں بالکل
بھی نہیں ہوگی۔)
ہم
طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ان کی جسامت کا قیاس کر سکتے ہیں۔ فرض کرتے ہیں کہ
وہ زمین جیسی ہی حجم کے سیارے پر رہتے ہیں اور وہاں پانی کی کثافت بھی کرہ ارض
جتنی ہے ، تو زمین پر موجود حیات ہی کی
طرح ، بہت بڑی اور جسیم مخلوق کا وہاں پر
موجود ہونا میزان قانون کی رو سے ممکن
نہیں ہے، یہ قانون ہمیں بتاتا ہے کہ قوانین طبیعیات کسی بھی شئے کے حجم کو
بڑھانے سے شدت کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔
عفریت اور میزان
قانون
مثال
کے طور پر اگر کنگ کانگ حقیقت میں
وجود رکھتا تو وہ نیویارک شہر میں دہشت نہیں پھیلا سکتا تھا۔ شہر میں تباہی
پھیلانے کے برعکس، وہ جیسے ہی پہلا قدم اٹھاتا
اس کی ٹانگ ٹوٹ جاتی۔ اس کی وجہ ہے اگر آپ
ایک بن مانس لیں اور اس کا حجم ١٠ گنا
بڑھا دیں تو اس کا وزن مقداری تناسب سے یا ١٠ x١٠ x ١٠ =١٠٠٠ گنا بڑھ
جائے گا۔ لہٰذا وہ ایک ہزار گنا زیادہ بھاری تو ہو جائے گا لیکن اس کی قوّت ہڈیوں کی موٹائی اور
پٹھوں کے تناسب سے بڑھے گی۔ ہالی ووڈ میں دکھائے گئے بن مانس کی ہڈیاں اور پٹھے اس
وقت صحیح بیٹھیں گے جب یہ ذہین خلائی مخلوق گوشت خور ہو۔ صرف گوشت خور خلائی مخلوق
اپنے حجم کو بڑھانے کی بات کی ضمانت دیتی ہے۔
اس تصویر کشی کو سچائی میں بدلنے
کے لئے ایک اور عنصر کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں کنگ کانگ اگر دس ١٠ گنا
زیادہ بڑا ہوگا تو اس کوسو گنا زیادہ
مضبوط ہونا ہوگا جبکہ اس کا وزن ہزار گنا
زیادہ ہوگا۔ لہٰذا جب ہم بن مانس کا حجم بڑھائیں گے تو اس کا وزن اس کی قوّت کے
مقابلے میں کافی تیزی سے بڑھے گا۔ وہ ایک عام بن مانس کی نسبت دس گنا زیادہ کمزور
ہوگا اور اس ہی وجہ کی بدولت وہ اپنی ٹانگیں تڑوا بیٹھے گا۔
ابتدائی
اسکول میں مجھے یاد ہے کہ میرے استاد چیونٹی کی قوّت کو بیان کرتے ہوئے کافی متحیر
ہوتے تھے جو اپنے سے زیادہ وزن کی پتی کو اٹھا سکتی تھی۔ میرے استاد نے اس کی طاقت کا اندازہ لگاتے ہوئے
یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر چیونٹی گھر کے حجم کی ہو تو وہ پورے گھر کو اٹھا سکتی ہے۔
مگر ان کا یہ اندازہ اس وجہ سے غلط تھا جو ہم نے کنگ کانگ کے ضمن میں دیکھا تھا۔
اگر چیونٹی گھر کے حجم جتنی ہوگی تو اس کی
ٹانگیں بھی اسی قانون کے تحت کمزور ہو کر ٹوٹ جائیں گی۔ اگر آپ ایک چیونٹی کو ایک ہزار
گنا بڑا کر دیں تو وہ ایک عام چیونٹی کی بنسبت
ایک ہزار گنا زیادہ کمزور ہو جائے گی
لہٰذا وہ اپنے وزن تلے ہی ڈھیر ہو جائے گی۔(اس
کا دم بھی گھٹ جائے گا۔ ایک چیونٹی اپنے جسم کے اطراف میں موجود سوراخوں کی مدد سے
سانس لیتی ہے۔ ان سوراخوں کا رقبہ فی مربع
نصف قطر کے بڑھ جائے گا ، مگر چیونٹی
کی ضخامت پر مکعب نصف قطر کے بڑھے
گی۔ لہٰذا اس ایک ہزار گنا بڑی چیونٹی کو ایک عام چیونٹی کے مقابلے میں سانس کے لئے
درکار ایک ہزار گنا کم ہوا ملے گی۔ یہ ہوا اس کے پٹھوں اور جسمانی خلیوں کے لئے درکار آکسیجن مہیا کرتی ہے۔ یہ ہی وجہ
ہے کہ اسکیٹر اور جمناسٹک کے چیمپئن
اوسطاً انسانوں سے چھوٹے قد کے ہوتے
ہیں اگرچہ ان میں دوسرے انسانوں کی طرح کا ہی اعضا ئی تناسب ہوتا ہے۔ پاؤنڈ برائے پاؤنڈ ان میں
زیادہ متناسب پٹھوں کی قوّت لمبے لوگوں کی
بنسبت ہوتی ہے۔)
میزان قانون کو استعمال کرتے ہوئے ہم قریب قریب
زمین پر موجود کسی بھی جاندار اور شاید خلائی مخلوق کی بھی جسامت کا اندازہ لگا
سکتے ہیں ۔ کسی بھی جانور سے حرارت کا اخراج
اس کے سطحی رقبے میں اضافے کے ساتھ
بڑھتا جاتا ہے۔ لہٰذا اس کے حجم میں ١٠ گنا اضافے کا مطلب ہے کہ وہ اپنی حرارت کو
١٠ x ١٠ = ١٠٠ گنا سے خارج کرے گا۔ لیکن جسم کے اندر حرارت کا نصاب اس کی ضخامت کے تناسب سے ہوتا ہے یا ١٠ x ١٠ x ١٠ =١٠٠٠۔ لہٰذا بڑے جانور حرارت
کو چھوٹے جانوروں کی نسبت آہستگی سے خرچ کرتے ہیں۔(یہ ہی وجہ ہے کہ سردیوں میں
ہمارے کان اور انگلیاں پہلے جمتے ہیں ، کیونکہ ان کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ چھوٹے لوگ
بڑے لوگوں کی نسبت جلدی ٹھنڈے ہوتے ہیں۔ یہ بات اس وجہ کو بیان کرتی ہے کہ اخباری
کاغذ کیوں جلدی آگ پکڑ لیتا ہے کیونکہ اس
کا سطحی رقبہ زیادہ ہوتا ہے جبکہ
شہتیر نہایت آہستگی سے جلتا ہے کیونکہ اس کا تناسبی سطحی رقبہ کم ہوتا ہے۔) یہ اس بات کو بھی بیان کرتا ہے کہ آرکٹک میں
موجود وہیل کیوں گول جسامت کی ہوتی ہیں
کیونکہ ایک کرۂ میں سطحی رقبہ فی اکائی کمیت کے حساب سے سب سے کم ہوتا ہے۔ اور گرم علاقوں میں موجود
کیڑے کیوں چرخ کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں
فی اکائی کمیت سطحی رقبے کے حساب سے زیادہ ہوتی ہے۔
ڈزنی کی
فلم "ہنی آئی شرنک مائی کڈز" میں ایک گھرانا سکڑ کر چیونٹی کے حجم کا ہو
جاتا ہے۔ بارش کے طوفان میں ہم جہان خرد میں دیکھتے ہیں کہ بارش کے ننھے قطرے تالاب میں گرتے ہیں۔ حقیقت میں چیونٹی کو بارش کا قطرہ ایک ننھے قطرے کے بجائے پانی کے
ایک بڑے تودے یا نیم
کرۂ کی طرح دکھائی دے گا۔ ہماری دنیا میں نیم کرۂ کی شکل کا پانی کا تودہ غیر
پائیدار اور قوّت ثقل کی بدولت اپنے ہی وزن سے منہدم ہو جائے گا۔ لیکن جہان خرد میں
سطحی تناؤ تناسبی لحاظ سے زیادہ
ہونے کی وجہ سے نیم کرۂ کی شکل کا پانی کا تودہ مکمل طور پر پائیدار ہوگا۔
اسی طرح قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے ہم دور
دراز خلاء میں موجود سیاروں پر پائے جانے والے جانداروں اس بات کا اندازہ لگا سکتے
ہیں کہ ان کا ضخامت کی نسبت سطحی تناؤ
کیسا ہوگا۔ ان قوانین کا استعمال کرتے ہوئے ہم نظری طور پر دیکھ سکتے ہیں
کہ باہر ی خلاء میں موجود خلائی مخلوق کی جسامت سائنسی افسانوں میں دکھائے جانے والے عفریت نما
جانداروں کے بجائے ہم سے کافی مشابہ ہوگی۔(سمندری
پانی میں اچھال کی وجہ سے وہیل بہرحال حجم
میں کافی بڑی ہو سکتی ہیں ۔ اس سے ہمیں وہیل کے ساحل سمندر کے پاس مرنے کی
وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے کیونکہ
وہ اپنے وزن سے ہی دب جاتی ہیں۔)
میزان
قانون ہمیں یہ بتاتا ہے کہ طبیعیات کے قوانین جہان خرد کی گہرائی میں جانے کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں۔ یہ بات ہمیں کوانٹم نظرئیے کی
عجیب و غریب نظر آنے کی وجہ کو بیان کرتی ہے۔ کوانٹم کے قوانین اتنے عجیب و غریب ہیں کہ
وہ کائنات سے متعلق ہماری سادی سمجھ بوجھ
یا عقل کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔
لہٰذا قانون میزان اس شناسا خیال کو رد کر
دیتا ہے جس میں جہاں در جہاں کو سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔ یعنی
کہ وہ خیال کہ ایٹم کے اندر ایک پوری
کائنات موجود ہو سکتی ہے یا ہماری پوری
کہکشاں ایک بڑی کائنات کا ایک ایٹم ہو
سکتی ہے۔ یہ خیال ایک فلم "مین ان بلیک" میں دکھایا گیا
تھا۔ فلم کے آخری حصّے میں کیمرہ زمین سے دور ہوتا جاتا ہے ، وہ سیاروں ، ستاروں اور کہکشاؤں سے بھی دور چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ہماری کہکشاں ایک چھوٹی سی گیند کی
طرح نظر آنے لگتی ہے جو انتہائی عظیم بین النجم اس کھیل کا حصّہ ہوتی ہے جو دیوہیکل
خلائی مخلوق کھیل رہی ہوتی ہے۔
حقیقت
میں ستاروں بھری کہکشاں ایٹم سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ، ایٹم کے اندر الیکٹران
اپنے خولوں میں ، سیاروں سے بالکل ہی مختلف ہوتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ تمام سیارے
ایک دوسرے سے انتہائی الگ اور منفرد ہیں
اور اپنے میزبان تارے سے کسی بھی دوری پر اس کے گرد مدار میں چکر لگا سکتے
ہیں۔ مگر ایک ایٹم میں تمام ذیلی ذرّات ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے
مرکزے سے دور کسی بھی مدار میں چکر لگانے کے بجائے مخصوص مداروں میں ہی چکر لگا سکتے ہیں۔(مزید
براں یہ کہ سیاروں کے برعکس الیکٹران
انتہائی عجیب برتاؤ کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو ہماری عقل سلیم سے باہر ہوتا ہے جیسا کہ ایک ہی وقت میں دو جگہ موجود ہو سکتے
ہیں اور ان میں موجوں کی خصوصیات بھی پائی
جاتی ہیں۔)
اعلی یا جدید تہذیب کی طبیعیات
یہ بھی
ممکن ہے ہم طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے خلاء میں موجود تہذیب کا ایک بنیادی خاکہ
بنا سکیں۔ اگر ہم اپنی تہذیب کی ترقی کو
پچھلے ایک لاکھ برسوں میں دیکھیں تو ہم اس
کہانی کو توانائی کی ضرورت میں اضافے سے بیان کر سکتے ہیں کیونکہ جدید انسان
افریقہ سے نمودار ہوئے ہیں۔ روسی فلکی
طبیعیات دان "نیکولائی کاردیشوف"(Nikolai Kardeshev) کے خیال میں کائنات میں ماورائے ارض
تہذیبوں کے مدارج میں پیش رفت کو
ان کی توانائی کی ضرورت کے لحاظ سے درجہ
بند کیا جا سکتا ہے۔ قوانین طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے اس نے ممکنہ تہذیبوں کو تین گروہوں میں درجہ بند کیا ہے :
قسم I تہذیب - مصّور کا خیال |
1.قسم I تہذیب : اس میں وہ تہذیبیں شامل ہیں
جنہوں نے سیارے پر موجود تمام توانائی
بشمول مورث ستارے سیارے پر پہنچنے والی تمام روشنی کو استعمال کرنے کا طریقہ نکال
لیا ہے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے آتش فشانوں
کی توانائی کو بھی اپنے قابو میں کر لیا ہو ، موسموں کو اپنے حساب سے انضباط کر
لیا ہو ، زلزلوں کو بھی اپنے تابع کر لیا ہو
اور سمندر میں شہر بسا لئے ہوں۔ سیارے پر موجود تمام توانائی ان کے زیر
تصرف ہو۔
اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی قسم II کی تہذیب |
2.قسم II
تہذیب : یہ تہذیب اپنے پورے ستارے کی توانائی کا استعمال کر سکتی ہے ، نتیجتاً یہ تہذیب I
کے مقابلے میں دس ارب گنا زیادہ طاقتور ہوگی۔
اسٹار ٹریک میں دکھائی جانے والی "سیاروں کا وفاق" تہذیب II سے تعلق رکھتی تھی۔ تہذیب II ایک طرح
سے ابدی ہے۔ معلوم سائنس کی کوئی بھی آفت مثلاً برفانی دور ، سیارچوں کے تصادم
یہاں تک کہ سپرنووا بھی ان کو ختم نہیں کر
سکتے۔(اس حالت میں جب ان کا میزبان تارہ
پھٹنے کے قریب ہوگا تو یہ ہستیاں دوسرے
نظام ہائے شمسی کی طرف ہجرت کر سکتی ہیں
یا شاید اپنے دوسرے کسی علاقائی سیارے کی جانب روانہ ہو سکتی ہیں۔)
مصور کی نگاہ میں ایک قسم III کی تہذیب |
3.قسم III تہذیب: یہ وہ تہذیب ہے جو اپنی پوری کہکشاں کی قوّت کو استعمال کر سکتی ہے۔
یہ قسم II سے دس ارب گنا زیادہ طاقتور
تہذیب ہوگی۔ اسٹار ٹریک میں موجود بورگ ،اسٹار وارز
میں موجود امپائر، اورایسی موف فاؤنڈیشن
سلسلے میں بین النجم تہذیب اس قسم III کی تہذیب سے تعلق رکھتی ہے۔ انہوں نے ارب ہا
نظام ہائے شمس کو آباد کر دیا تھا وہ اس بات پر بھی قدر تھے کہ کہکشاں کے قلب میں
موجود بلیک ہول کی قوّت کو بھی استعمال میں لا سکیں۔ وہ آزادی کے ساتھ کہکشاؤں کے
درمیان گھوم سکتے تھے۔
کاردیشوف
نے اندازہ لگایا کہ کوئی بھی تہذیب
جو اعتدال پسندی کی شرح کے لحاظ سے
ہر سال اپنی توانائی کے استعمال
میں چند فیصد اضافہ کرے گی انتہائی تیز
رفتاری کے ساتھ ایک قسم سے دوسری قسم میں تبدیل صرف چند ہزار برسوں سے لے دسیوں ہزار برسوں تک کے قلیل عرصے میں ہو جائے گی۔
جیسا کہ میں اپنی پچھلی کتابوں میں اس بات پر
بحث کر چکا ہوں کہ ہماری اپنی تہذیب قسم0 میں آتی ہے۔(یعنی کہ ہم مردہ پودوں ، تیل
اور کوئلے کو جلا کر اپنی مشینوں کو چلاتے
ہیں )۔ ہم تو اپنے سیارے پر پڑنے والی سورج کی روشنی کا انتہائی معمولی سا حصّہ ہی
استعمال کر پاتے ہیں۔ مگر ہم اس سے پہلے ہی زمین پر قسم I کو نمودار ہوتے ہوئے
دیکھ چکے ہیں۔ انٹرنیٹ قسم I کے ٹیلی فون نظام کی شروعات ہے جس نے پورے سیارے کو
ایک دوسرے سے جوڑ دیا ہے۔ قسم I کی معیشت
کو یوروپی یونین کی صورت میں شروع ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے جس کو نافٹا (نارتھ امریکن فری ٹریڈ اگریمنٹ )سے مقابلہ کرنے کے لئے بنایا تھا۔
مادری زبان کے بعد پوری دنیا کے لئے انگریزی پہلے ہی اول درجے کی زبان بن گئی ہے۔ مزید براں یہ سائنس، مالیات اور تجارت کی زبان بھی بن چکی ہے۔ میں اس بات کا تصوّر کر سکتا ہوں کہ یہ قسم
I کی زبان بن جائے گی جو مجازی طور پر ہر کوئی بول سکے گا۔ زمین پر ہزاروں کی
تعداد میں مقامی ثقافت اور رسم و رواج کے
پانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ مگر اس رنگ
برنگے لوگوں کی ثقافت کے اوپر منطبق سیاروی ثقافت ہوگی جو شاید نوجوانوں کی ثقافت یا تجارتی
ثقافت کے زیر اثر ہوگی۔
ایک
تہذیبی قسم سے دوسرے تہذیبی قسم میں جانے کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ مثال کے طور
پر سب سے خطرناک منتقلی قسم 0 سے قسم I میں ہوگی۔ قسم 0 کی
تہذیب میں ابھی بھی فرقہ واریت ، بنیاد
پرستی اور نسلی تعصب کی بو رچی بسی ہے اور ان خرابیوں کے بڑھنے کی علامت اب بھی بدرجہ
اتم موجود ہیں۔ فی الوقت ہم اس بارے میں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ
قبائل اور مذاہب کے جوش و جذبے اس تبدیلی
کے عمل میں مغلوب ہوں گے یا نہیں۔(ہو سکتا
ہے کہ ہمیں کہکشاں میں قسم I اس لئے نظر نہیں آتی ہے کہ یہ منتقلی کبھی وقوع پذیر ہی نہیں ہوئی یعنی کہ انہوں نے اپنے آپ کو خود ہی تباہ کر
لیا۔ ایک دن جب ہم دوسرے ستاروں کے نظام میں جائیں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں ان تہذیبوں کی باقیات
وہاں مل سکیں جنہوں نے اپنے آپ کو مختلف طریقوں سے ختم کر لیا ہوگا مثال کے طور پر ان کی فضا ریڈیائی طور پر
انتہائی عامل یا اس قدر گرم ہو گئی ہوگی کہ زندگی وہاں قائم نہیں رہ سکی ہوگی۔)
اس وقت
تک جب کوئی تہذیب قسم III تک پہنچے گی اس کے پاس وہ توانائی اور سفر کرنے کا علم
موجود ہوگا جس کی بدولت وہ آزادی کے ساتھ
تمام کہکشاں میں کہیں بھی گھوم پھر سکے گی
اور ہو سکتا ہے کہ وہ زمین پر بھی پہنچ
جائے۔ جیسا کہ فلم ٢٠٠١ء میں
ایسی تہذیب نے اپنی خود کی نقل کے
کھوجی روبوٹ پوری کہکشاں میں بھیجے تا کہ
وہ ذہین مخلوق کی تلاش کر سکیں۔
لیکن قسم
III کی تہذیب ہم کو دیکھنے یا فتح کرنے کے لئے نہیں آئیں گے جیسا
کہ فلم" انڈیپنڈنس ڈے "میں دکھایا گیا تھا جہاں ایسی کوئی تہذیب لوکاٹس کے طاعون کی طرح سے جتھوں کی شکل میں کرۂ ارض پر
پھیل گئی تھی تا کہ وہ ہمارے توانائی کے ذرائع کو خالی کر سکے۔ حقیقت میں انگنت
مردہ سیارے خلاء میں موجود ہیں جن میں وسیع مقدار میں معدنیات کی
دولت دفن ہے جس کو وہ بغیر کسی
مقامی آبادی کی مزاحمت کے نکال سکتے ہیں۔
ان کا ہم سے برتاؤ ویسا ہی ہوگا جیسا کہ ہمارا برتاؤ کسی چیونٹیوں کی بستی کے ساتھ ہوگا۔ ہماری کوشش یہ
نہیں ہوگی کہ چیونٹیاں ہمارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گمان یہ ہے کہ ہم ان کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ معمولی دانہ
دنکا ہی دیں گے۔
چیونٹیوں
کو اصل خطرہ اس سے نہیں ہوتا کہ انسان ان کو فتح کرنا چاہتے ہیں یا ان کو ختم کرنا
چاہتے ہیں بلکہ ہم ان کو اپنے راستے میں
آنے کی وجہ سے روند ڈالتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہماری قسم 0 کی تہذیب اور
قسم III کی تہذیب میں توانائی کے استعمال میں اس سے کہیں وسیع فاصلہ موجود ہے جتنا کہ ہم میں اور چیونٹیوں میں
موجود ہے۔
یو ایف او (ان
آئیڈ ینٹی فائیڈفلائنگ آبجیکٹ ) - نا
شناختہ طائر ی اشیاء یا اڑن طشتریاں
کچھ لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ ماورائے ارض مخلوق نا شناختہ طائری اشیاء ( جن کو ہم عرف عام میں اڑن
طشتریوں کے نام سے جانتے ہیں ) کی صورت میں پہلے ہی زمین کا چکر لگا چکی ہیں۔
سائنس دان اڑن طشتریوں کا ذکر سنتے ہی پہلے ہی اپنی آنکھیں چڑھا لیتے ہیں اور اس بات کے ممکنہ ہونے کو رد کر
دیتے ہیں کیونکہ ستاروں کے درمیان فاصلے نہایت وسیع ہیں۔ مگر سائنس دانوں کے رد
عمل کے باوجود مستقل ایسی رپورٹیں آتی رہی
ہیں جس کی وجہ سے اڑن طشتریوں کا ذکر ختم
نہیں ہوا ہے۔
اڑن
طشتریوں کو دیکھنے کا ریکارڈ اس وقت سے ملتا ہے جب سے تاریخ لکھنی شروع ہوئی ہے۔
بائبل میں حضرت حزقیؑل رمزی طور پر ذکر کرتے ہیں " آسمانوں میں
پہیوں کے اندر پہیے" ان کا ایسا کہنا کچھ لوگوں کے نزدیک یو ایف او کی نشاندہی ہے۔ ١٤٥٠ قبل مسیح میں مصر میں
فرعون" طوط موس سوم"(Thutmose
III) کے دور میں مصری کاتب نے ایک ایسا واقع لکھا جس میں سورج سے بھی
زیادہ روشن "آگ کے دائروں " کا ذکر ہے جو حجم میں ٥ میٹر کے تھے اور کافی دنوں تک نظر آتے رہے بہرحال یہ آخر میں آسمان میں
غائب ہو گئے تھے۔ ٩١ قبل مسیح میں رومی مصنف جولیس آبسی کونز "(Julius Obsequens)نے" ایک گول جسم
جیسی دنیا کے بارے میں لکھا کہ ایک گول یا دائروی ڈھال نے اپنا راستہ آسمان
میں بنایا۔" ١٢٣٥ میں جنرل” یوریتسوم
(Youritsume) اور اس کی فوج
نے عجیب سی روشنی کی رقص کرتی ہوئی گیندوں
جیسی چیزیں آسمان پر جاپان کے علاقے کیوٹو کے قریب دیکھیں۔ ١٥٦١ میں کافی تعداد میں چیزوں کو
نوریمبرگ جرمنی میں آسمان پر اس طرح سے
دیکھا گیا جیسے کہ وہ ہوائی لڑائی میں مصروف ہوں۔
حالیہ دور میں یو ایس کی فضائی فوج نے ایک بڑے پیمانے
پر اڑن طشتریوں کی تحقیقات سر انجام دی۔ ١٩٥٢ء میں فضائی افواج نے ایک منصوبہ
"بلیو بک " کے نام سے شروع کیا جس میں کل ملا کر ١٢،٦١٨ واقعات کی جانچ کی۔
رپورٹ سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ زیادہ تر واقعات قدرتی مظاہر ، روایتی
ہوائی جہازوں یا افواہوں کی وجہ سے نمودار ہوئے تھے اس کے باوجود اس میں سے ٦ فیصد
ایسے واقعات تھے جس کی کوئی وجہ نہیں مل سکی تھی۔ کونڈون رپورٹ کا نتیجہ بھی ایسا
ہی نکلا تھا جس نے یہ بات اخذ کی تھی کہ ایسی کسی بھی تحقیق کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
پروجیکٹ بلیو بک کو ١٩٦٩ء میں بند کر دیا گیا۔ یو ایس فضائی فوج کا یہ بڑا معلوم
آخری منصوبہ تھا۔
٢٠٠٧ء
میں فرانسیسی حکومت نے یو ایف او پر مشتمل ضخیم ترین فائل عام عوام کے لئے مہیا کی۔
اس رپورٹ کا اجرا انٹرنیٹ پر فرنچ نیشنل
سینٹر فار اسپیس نے کیا تھا
جس میں ١٦٠٠ یو ایف او واقعات کا ذکر تھا
جو پچھلے٥٠ برسوں میں رونما ہوئے تھے۔ جس میں ایک لاکھ چشم دید گواہوں کے
کھاتے ، فلمیں اور آڈیو ٹیپ شامل تھیں۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا تھا کہ اس میں سے ٩
فیصد واقعات مکمل طور پر بیان کیے جا سکتے ہیں جبکہ ٣٣ فیصد کی بھی کوئی توجیح ہو سکتی ہے مگر اس کے بعد بچے ہوئے واقعات کی وجوہات بیان
کرنے سے وہ قاصر تھے۔
خود
مختار طور پر ان واقعات کی تصدیق کرنا کافی مشکل کام ہے۔ حقیقت میں زیادہ تر اڑن
طشتریوں کی رپورٹوں انتہائی محتاط جائزے کے بعد
درج ذیل وجوہات کی بنیاد پر درکیا جا سکتا
ہے:
١۔سیارہ
زہرہ چاند کے بعد سب سے زیادہ روشن جسم ہے۔ زمین سے اس کی زبردست دوری کی وجہ سے جب آپ کار میں بیٹھ کر جا رہے ہوتے ہیں تو ایسا
لگتا ہے کہ یہ سیارہ آپ کا پیچھا کر رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر یہ دھوکا ہوتا ہے کہ اس کو کوئی چلا رہا ہے بالکل اسی طرح سے جس طرح سے چاند ہمارا پیچھا
کرتا ہے۔ ہم فاصلوں کا اندازہ آس پاس کی چیزوں کو دیکھ کر لگاتے ہیں۔ چاند اور
زہرہ سیارہ وہ ہمارے گرد موجود چیزوں کے مقابلے میں حرکت
کرتے ہوئے نہیں نظر آتے جس کی وجہ سے ہمیں
بصری دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔
٢۔ دلدلی
گیسیں۔ دلدلی علاقوں میں درجہ حرارت کی تقلیب کی وجہ سے گیس زمین سے بلند ہوتی
ہے جس کی وجہ سے وہ تھوڑی سی روشن ہو جاتی ہے۔ اس سارے قضیے میں ہو سکتا ہے کہ چھوٹے گیس کے
حصّے بڑے حصّوں سے الگ ہو جاتے ہوں۔ نتیجتاً ایسا گمان ہونے لگتا ہے کہ ایک بڑے
خلائی جہاز سے چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہیں۔
٣۔شہابیے۔
روشنی کی لمبی سی پٹی رات کے آسمان میں چند سیکنڈوں کے لئے سفر کرتی
ہوئی نظر آسکتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ ایسا سراب پیدا کرتی ہے جیسے کوئی جہاز کو
اڑا رہا ہو۔ یہ بھی الگ ہو سکتی ہیں جس سے وہی تاثر ملتا ہے کہ جیسے ایک بڑے خلائی
جہاز سے کئی چھوٹے خلائی جہاز نکل رہے ہوں۔
٤۔ ماحولیاتی
بے ضابطگیاں۔ ہر طرح کے برق و باراں کے طوفان اور غیر معمولی ماحولیاتی واقعات
آسمان کو عجیب طریقے سے روشن کر دیتے ہیں
جس کے نتیجے میں اڑن طشتریوں کو دیکھنے کا دھوکہ ہوتا ہے۔
بیسویں اور اکیسویں صدی میں درج ذیل مظہر بھی اڑن
طشتریوں کو دیکھنے کے واقعات کا سبب بن
سکتے ہیں :
1.
ریڈار کی گونج۔ ریڈار
کی موجیں بھی پہاڑ سے ٹکرا کر واپس آکر
گونج پیدا کرتی ہیں۔ جس کو ریڈار کے مانیٹر پکڑ سکتے ہیں۔ ایسی موجیں صرف گونج ہونے کی وجہ سے ایک ٹیڑھے سیدھے نمونہ کی شکل میں زبردست سمتی رفتار سے اڑتی ہوئی نظر آسکتی ہیں۔
2.
موسمی اور تحقیقاتی غبارے۔ ایک متنازع رپورٹ میں حربی فوج نے اس بات کا دعویٰ کیا
ہے کہ ١٩٤٧ء میں روز ویل ، نیو
میکسیکو میں ہونے والا مشہور زمانہ خلائی
حادثہ ایک پروجیکٹ موگل کے گشتی غبارے
کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ ایک انتہائی خفیہ منصوبہ تھا جس کا مقصد فضا میں
تابکاری کی سطح کو خدا نخواستہ نیوکلیائی جنگ چھیڑ جانے کی صورت میں جانچنا تھا۔
3.
ہوائی جہاز۔
تجارتی اور حربی خلائی جہاز بھی یو ایف او کی رپورٹوں کا سبب بنے ہیں۔ زیادہ تر یہ
اس وقت ہوتا ہے جب کوئی جدید جہاز جیسے کہ اسٹیلتھ بمبار اپنی آزمائشی پرواز کر رہا ہوتا ہے۔(یو ایس افواج اصل میں
اڑن طشتریوں کی افواہوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے تا کہ لوگوں کی توجہ انتہائی خفیہ
منصوبوں سے ہٹی رہے۔)
4.
جان بوجھ کر پھیلائی جانے والی افواہیں۔ کچھ مشہور زمانہ تصاویر جو اڑن طشتریوں کی لی گئی ہیں وہ اصل میں فریب ہیں۔ ایک مشہور زمانہ اڑن طشتری جس میں کھڑکی اور اس کے اترنے کی جگہ بھی
دکھائی ہے اصل میں ایک تبدیل کیا ہوا مرغی
کے دانے کا برتن تھا۔
اصل میں
٩٥ فیصد ایسے واقعات کو درج بالا وجوہات
کی بنا پر رد کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود کچھ فیصد باقی بچنے والے واقعات کو ناقابل تشریح قرار دینے کی وجہ سے کچھ سوالات کو جنم لیتے ہیں۔ سب سے زیادہ بھروسے مند یو ایف او کے
واقعات میں درج ذیل شامل ہیں :
(الف)
کثیر واقعات جو مختلف خود مختار بھروسے مند چشم دید گواہوں نے دیکھے ہیں اور
(ب) کثیر
ذرائع سے حاصل کردہ ثبوت جیسا کہ آنکھوں
اور ریڈار دونوں سے حاصل کیے گئے ثبوت۔
ایسی
رپورٹوں کی نظر انداز کرنا تھوڑا مشکل کام ہے
کیونکہ انہیں کافی چھان بین کے بعد رپورٹ کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ١٩٨٦ء میں ایک اڑن طشتری دیکھے جانے کا واقع جے اے ایل فلائٹ ١٦٢٨ میں ا لاسکا پر سے گزرتے
ہوئے رپورٹ ہوا جس کی تفتیش ایف اے اے نے
کی۔ اڑن طشتری کو جہاز کے مسافروں نے بھی دیکھا اور اس کی تصدیق ریڈار سے بھی کی
گئی تھی ۔ اسی طرح سے بہت زیادہ تعداد میں ریڈار میں کالے تکون ١٩٨٩ء اور ١٩٩٠ء میں بیلجیئم میں دیکھے
گئے جس کو ناٹو اور جیٹ انٹرسیپٹر نے بھی دیکھا۔ ١٩٧٦ء میں ایک واقعہ تہران ،
ایران میں بھی دیکھا گیا جہاں F – ٤ جیٹ انٹرسیپٹر کے نظام میں کافی گڑبڑی کی رپورٹیں
سی آئی اے کی دستاویزات میں موجود ہیں۔
سائنس
دانوں کے لئے جو سب سے بڑی مایوسی ان ہزار
ہا مندرج واقعات میں ہوتی ہے وہ ان میں سے کسی کا طبعی ثبوت موجود نہ ہونے کا ہے۔ طبعی
ثبوت کی مدد سے سائنس دانوں کے لئے اس کو
تجربہ گاہ میں دہرانا ممکن ہو سکتا ہے۔ کسی خلائی مخلوق کا ڈی این اے ، ان کے کمپیوٹر کی چپ یا کوئی ایسا جسمانی ثبوت جس میں ان کے اترنے کی کوئی جگہ ہو کبھی نہیں ملی۔ تھوڑی
دیر کے لئے فرض کرتے ہیں کہ ایسی اڑن طشتریاں اصل میں سراب کے بجائے کوئی جہاز
ہیں تو ہم اپنے آپ سے یہ سوال کرنے میں حق
بجانب ہوں گے کہ وہ خلائی جہاز دیکھنے میں
کیسے ہوں گے ؟ یہاں پر ان کی کچھ ایسے خصائص بیان کئے جا رہے ہیں جو دیکھنے والوں نے بتائی
ہیں :
الف۔ وہ
ہوا کے درمیان آ ڑھے ترچھے دکھائی دیتے
ہیں۔
ب۔ وہ
کار کے قریب سے گزرنے پر کار کی اگنیشن پر اثر انداز ہوتے ہوئے اس کی برقی قوّت
میں خلل ڈال دیتے ہیں۔
ج ۔ وہ
خاموشی سے ہوا میں معلق رہتے ہیں۔
درج بالا
بیان کی گئی کسی بھی بات میں ایسی کوئی
بھی خصوصیت ایسی نہیں ہے جو کسی راکٹ پر پوری اترتی ہو جو ہم نے زمین پر بنائے ہیں۔
مثال کے طور پر تمام بنائے گئے راکٹ نیوٹن کے حرکت کے تیسرے قانون پر انحصار کرتے ہیں (ہر عمل کا ایک برابر اور
مخالف رد عمل ہوتا ہے )؛ اس کے باوجود دیکھے جانے والے یو ایف او میں کوئی بھی چیز
باہر نکلتی ہوئی نہیں دیکھی گئی۔ اور جو
جی فورس ان آڑھے ترچھے اجسام نے پیدا کی
تھی وہ زمین کی کشش ثقل کے مقابلے میں ایک سو گنا زیادہ ہے۔ یہ جی فورس کسی بھی
زمینی مخلوق کو زمین پر چپٹا کر دینے کے لئے کافی ہے۔
کیا اڑن
طشتری کی ایسی کوئی بھی خاصیت جدید سائنس
کے نقطہ نگاہ سے بیان کی جا سکتی ہے ؟ فلموں میں مثلاً "ارتھ ورسس
فلائنگ سوسر" میں ہمیشہ خلائی ہستیوں کو ان جہازوں کو خود چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ زیادہ امید یہ ہے کہ اگر کوئی ایسے جہاز
موجود ہوں گے تو وہ خلائی مخلوق کے بغیر
ہوں گے (یا پھر اس کو آدھی نامیاتی اور آدھی میکانکی طرح کی ہستیاں چلا رہی ہوں
گی)۔ خلائی مخلوق کے بغیر خلائی جہاز یا
نامیاتی اور میکانکی ملغوبے کی مخلوق ہی
ایسے خلائی جہازوں کو اڑا سکتی ہے جو اڑتے ہوئے ایسے آڑے ترچھے نمونے بنائیں جس کے
نتیجے میں ایک عام جاندار کی جان لیوا پیمانے کی جی فورس پیدا ہوتی ہے۔
کار کے
اگنیشن کو جام کر دینے اور خاموشی سے ہوا میں اڑنے والا جہاز اس بات کی نشاندہی
کرتا ہے کہ وہ مقناطیسی قوّت کے ذریعہ چل
رہا ہے۔ مقناطیسی قوّت کے زور پر چلنے والے جہازوں کا مسئلہ یہ ہے
کہ مقناطیس میں ہمیشہ دو قطب ہوتے ہیں ایک شمالی قطب اور ایک جنوبی قطب۔ اگر آپ کسی
مقناطیس کو ہوا میں معلق کریں گے تو زمین
کے مقناطیسی میدان اس کو ہوا میں یو ایف
او کی طرح اٹھانے کے بجائے گھما دیں گے (جس طرح سے قطب نما کی سوئی گھومتی ہے)
کیونکہ جنوبی قطب ایک طرف حرکت کر رہا ہوگا اور شمالی قطب دوسری طرف لہٰذا مقناطیس
گھومتے ہوئے کہیں کا بھی نہیں رہے گا۔
اس مسئلہ
کا ایک ممکنہ حل یہ ہے کہ صرف یک قطبی مقناطیس استعمال کیا جائے یعنی کہ صرف ایک قطب والا مقناطیس جس میں چاہے
شمالی قطب ہو یا جنوبی۔ عام طور سے جب آپ کسی مقناطیس کو دو حصّوں میں توڑتے ہیں
تو آپ کو دو علیحدہ قطب والے مقناطیسی نہیں ملتے
اس کے برعکس آدھے ٹوٹے ہوئے
مقناطیس خود سے مکمل مقناطیس بن جاتے ہیں جن میں ہر ایک کا شمالی اور جنوبی قطب موجود ہوتا ہے۔ یعنی وہ پھر سے دو قطب والے مقناطیس بن جاتے
ہیں۔ لہٰذا اگر آپ مقناطیس کو توڑنے کا عمل جاری رکھیں گے تو آپ کو ہمیشہ جنوبی اور شمالی قطب کے جوڑے ملتے رہیں گے۔(دو قطبی مقناطیس کو
توڑنے کا عمل ایٹمی پیمانے تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ جس میں آپ کو ہر مرتبہ دو قطبی مقناطیس ہی حاصل ہوں گے۔ ایٹم بھی اپنے
آپ میں دو قطبی ہوتے ہیں۔)
سائنس
دانوں کے لئے مسئلہ یہ ہے کہ یک قطبی مقناطیس انہوں نے کبھی بھی تجربہ گاہ میں
نہیں ملا۔ طبیعیات دانوں نے کئی مرتبہ کوشش کی کہ اپنے آلات میں حرکت کرتے ہوئے یک
قطبی کا سراغ لگا کر اس کی تصویر لے سکیں
مگر ہر مرتبہ وہ ناکامی سے دوچار ہوئے۔(سوائے ایک فرد واحد واقع میں، جہاں ایک
انتہائی متنازع تصویر جو ١٩٨٢ء میں
اسٹینفرڈ یونیورسٹی میں لی گئی تھی۔)
اگرچہ یک
قطبی کبھی بھی حتمی طور پر تجربات میں نہیں دیکھے گئے ، ماہرین طبیعیات اس بات پر
کافی یقین رکھتے ہیں کہ بگ بینگ کے موقع
پر کائنات میں کسی وقت وافر مقدار میں یک
قطبی موجود تھے۔ یہ نظریہ بگ بینگ کے تازہ ترین کائناتی نظرئیے کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔ لیکن کیونکہ کائنات بگ بینگ کے بعد انتہائی تیزی سے
پھیلی لہٰذا یک قطبیوں کی کثافت یکدم پوری
کائنات میں کم ہوتی چلی گئی، یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ان کو اب تجربہ گاہوں میں نہیں
دیکھ سکتے۔(درحقیقت یک قطبیوں کی کمی ہی وہ اہم مشاہدہ تھا جس نے طبیعیات دانوں
کو کائنات کے افراطی دور کی طرف نشاندہی
کرنے کی تجویز فراہم کی۔) لہٰذا یک قطبیوں
کی باقیات کا موجود ہونا طبیعیات کی دنیا
میں مسلم بات ہے۔
اس بات کا قیاس کیا جا سکتا ہے کہ خلاء میں دور دراز کی مخلوق اس قابل ہو کہ وہ
قدیمی یک قطبی حاصل کر لے جو بگ بینگ کے بعد باقی بچے ہوں اور جن
کو بڑے مقناطیسوں نے باہر ی خلاء میں پھینک دیا ہو۔ ایک مرتبہ وہ کافی سارے یک قطبی حاصل کر لیں تو پھر وہ خلاء میں سفر کرتے ہوئے ان مقناطیسی خطوں کا استعمال کرتے ہوئے پوری کہکشاں یا کسی بھی سیارے پر بغیر اخراج کے جہاز لئے گھوم سکتے ہیں۔ کیونکہ بہت سارے ماہرین کونیات کی زبردست دلچسپی ان یک قطبیوں میں موجود
ہے لہٰذا ایسے کسی جہاز کا وجود ہمارے
مروجہ علم طبیعیات کی سوچ سے موافقت رکھتا ہے۔
آخر میں کوئی
بھی خلائی تہذیب جو اتنی جدید ہو کہ وہ اپنے بین الستارہ جہاز پوری کائنات میں بھیج سکے یقینی طور پر
نینو ٹیکنالوجی میں بھی انتہاء درجے کی
ماہر ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے بین الستارہ خلائی جہازوں کو دیوہیکل ہونے
کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لاکھوں کی تعداد میں قابل رہائش سیاروں کی تلاش میں روانہ
کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسی بات ہے تو ہو
سکتا ہے کہ ہمارے چاند پر بھی ایسی کوئی تہذیب جس کو ہم نے قسم III کے درجے پر فائز کیا ہے ماضی میں ہمارے نظام شمسی کا چکر لگا چکی ہو
جیسا کہ ایک فلم ٢٠٠١ء میں دکھایا گیا ہے ۔ اس میں خلائی مخلوق سے ملنے والا منظر شاید
حقیقت سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ ہماری
توقعات کے برخلاف ایسا کوئی بھی جہاز
خلائی مخلوق کے بغیر ،کسی روبوٹ کے قابو
میں ہوگا۔ اور اس جہاز کو چاند پر رکھا گیا ہوگا۔(ہماری ٹیکنالوجی کو اس قابل ہونے میں مزید ایک صدی لگے گی جب ان کی مدد سے ہم پورے
چاند کی شعاعوں میں موجود بے ضابطگیوں کی
چھان بین کرکے اس قابل ہو سکیں کہ کسی
نینو جہاز کے وہاں پر چکر لگا کے جانے کا کوئی قدیمی ثبوت حاصل کر سکیں۔)
اگر کبھی
حقیقت میں ماضی میں ہمارے چاند پر کسی نے چکر لگایا ہو یا وہاں پر کوئی نینو ٹیکنالوجی
کی کوئی جگہ موجود ہو تو اس اڑن طشتری کے بڑے نہ ہونے کی وجہ کو بیان
کر سکتی ہے۔ کچھ سائنس دان تو یو ایف او کا تمسخر اڑاتے ہیں کیونکہ ان کو کوئی بھی
ایسا جسیم دھکیلنے والے انجن کا خاکہ نہیں
ملتا جو آج کے انجینیروں کے دماغ میں ہے ، جیسا کہ دو شاخہ گداختی انجن ، جسیم
لیزر کی طاقت استعمال کرنے والے بادبان ، اور نیوکلیائی ضربی انجن جو صرف چند میل پر محیط ہوں۔ یو ایف او کسی بھی
جیٹ انجن کے جتنے چھوٹے ہو سکتے ہیں۔ اگر چاند پر کوئی مستقل اڈہ کسی پچھلی چکر
لگانے والی خلائی مخلوق کا چھوڑا ہوا ہوگا،
تو پھر یو ایف او کو بڑا ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہوگی۔ وہ چاند کے قریب اڈے سے اپنے جہازوں میں ایندھن
بھر سکتے ہیں۔ لہٰذا چاند پر موجود اڈے سے
آنے والے بغیر کسی ہستی کے جہاز ایسے کسی
واقع کا سبب بن سکتے ہیں ۔
سیٹی اور
ماورائے شمس سیاروں کی انتہائی تیز رفتار دریافتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ، ماورائے
ارض حیات سے رابطہ ، اس بات کا قیاس کرتے ہوئے کہ وہ ہمارے آس پاس موجود ہیں ، ہو
سکتا ہے کہ اسی صدی میں ہو جائے جس کے
نتیجے میں اس کو میں جماعت "I" کی ممکنات میں رکھ رہا ہوں۔ اگر خلائی تہذیب
خلائے بسیط میں وجود نہیں رکھتی تو پھر
اگلا سوال ہوگا کہ کیا ہمارے پاس ان تک
پہنچنے کے ذرائع کبھی دستیاب ہوں گے ؟ اور مستقبل بعید میں ہمارا اپنا کیا مستقبل ہوگا ، جب سورج پھیلنا شروع کرتے ہوئے زمین کو نگل لے گا ؟ کیا ہمارا مقدر واقعی
ستاروں سے وابستہ ہے ؟
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں