چاند پر
کسی چیز کو پھینکنا ایک مہمل اور بیوقوفانہ مثال ہے اس بد طینت
مہارت کے پیچھے سائنس دان چلیں گے ۔۔۔۔
یہ دعویٰ بنیادی طور پر نا ممکن لگ رہا ہے۔
-
اے
ڈبلیو بائیکرٹن(A.W.Bickerton)
بگمان
غالب انسانیت کے ٹھاٹ باٹ کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے۔ انسان ایک سے دوسرے سورج کی طرف ہجرت کریں گے جب وہ ختم ہو جائے گا۔
اور حیات
، ذہانت اور انسانیت کی معراج کا خاتمہ کبھی نہیں ہوگا وہ ہمیشہ ترقی کرے گی۔
-
کونسٹنٹین ای ٹیولکوفسکی(Konstantin
E. Tsiolkovsky) -
بابائے راکٹ
مستقبل بعید
میں ایک دن ضرور ایسا آئے گا جب وہ ہمارا زمین پر آخری دن ہوگا۔ آج سے ارب ہا
سال گزرنے کے بعد آخر کار آسمان پر آگ برسنے لگے گی۔ سورج پھول کر زمین سے سوا
نیزے کی دوری پر رہ کر اس کو جہنم بنا دے گا ۔ پورے آسمان پر صرف سورج ہی دکھائی
دے گے اور آسمان میں موجود دوسری تمام چیزیں اس کے آگے ہیچ لگیں گی۔ زمین پر درجہ
حرارت کے بڑھنے کے ساتھ ہی سمندر ابل کر بخارات بن کر اڑ جائیں گے اور اپنے پیچھے سوختہ اور تپتی ہوئی خشک زمین چھوڑ دیں گے۔ پہاڑ پگھل
کر سیال میں بدل جائیں گے نتیجتاً جہاں کبھی شہر بسا کرتے ہوں گے ان جگہوں پر لاوا بہنے لگے گا۔
قوانین
طبیعیات کی رو سے یہ ڈراؤنی وحشت ناک قیامت آنا ناگزیر ہے۔ آخر کار سورج زمین کو آگ
کے شعلوں میں لپیٹ کر ختم کر دے گا۔
قوانین طبیعیات میں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔
یہ آفت و
بربادی کا عمل اگلے ٥ ارب برسوں میں ہوگا۔ کائناتی وقت کے اس پیمانے پر انسانی
تہذیب میں اتار چڑھاؤ کی لہریں انتہائی
خفیف سی ہوں گی۔ ایک دن یا تو ہمیں زمین
کو چھوڑنا ہوگا یا پھر موت کو گلے لگانا ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر انسانیت یا
ہماری آنے والی نسلیں اس وقت زمین پر موجود نا قابل برداشت حالات سے کیسے نمٹیں
گی؟
ریاضی
دان اور فلاسفر "برٹرانڈرسل"(Bertrand Russell) نے ایک دفعہ ایسے نوحہ کیا " نہ تو کوئی
آگ، نہ ہی کوئی جوانمردی ، نہ ہی تخیل کی
پرواز و احساس ، حیات کو اس کی قبر دفن ہونے سے بچا سکتی ہے ، نسلوں کی محنت ،
ریاضت ، کشف ، انسانیت کی تمام تر روشن و غیر معمولی اختراعی قوّت ان سب کا مقدر نظام شمسی کی وسیع موت کے نتیجے میں ہونے والی معدومیت میں دفن ہے ،
اور انسانیت کی تمام کاوشوں کے مینار کو لازمی طور پر کائنات کی دھول میں کھنڈر بن
کر دفن ہونا ہے۔۔۔۔"
میرے لئے
انگریزی ادب میں موجود یہ ٹکڑا سب سے زیادہ رلا دینے والا ہے۔ مگر رسل نے یہ ٹکڑا
اس وقت لکھا تھا جب خلائی جہازوں کا بننا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ آج کے دور میں
کسی دن زمین کو چھوڑ کر جانے کا خیال کوئی بہت زیادہ دور کی کوڑی نہیں ہے۔ کارل
ساگاں نے ایک دفعہ کہا تھا ہمیں دو سیاروں
کی انواع بننا چاہئے۔ زمین پر موجود حیات بہت زیادہ قیمتی ہے۔ اس نے کہا کہ کسی
بھی بڑی تباہی آنے سے پہلے ہمیں کم از کم ایک اور سیارے پر پھیل کر اس کو آباد
کرنا جانا چاہئے۔ زمین کائناتی نشانہ بازوں یعنی کہ سیارچوں، دم دار ستاروں اور
زمین کے مدار کے قریب تیرتے ہوئے گرد و غبار کے ملبے کے عین نشانے پر ہے اور اس میں سے کسی سے بھی ہونے والا تصادم ہمیں مرحوم کر سکتا ہے۔
آنے والی عظیم تباہیاں
شاعر "رابرٹ
فراسٹ" (Robert Frost)پوچھتا ہے کہ زمین کا انجام آگ سے ہوگا یا پھر برف سے۔ طبیعیات کے قوانین کا
استعمال کرتے ہوئے ہم اس بات کی
معقولیت کے ساتھ پیش بینی کر سکتے ہیں کہ کسی بھی قدرتی
آفت کی صورت میں زمین کا کیا انجام
ہوگا۔
ہزار برس
کے پیمانے پر ، انسانی تہذیب کے لئے ایک خطرہ نئے برفانی دور کا ہے۔ آخری برفانی
دور ١٠ ہزار سال پہلے ختم ہوا ہے ۔ آج سے ١٠ سے ٢٠ ہزار سال کے درمیان جب نیا
برفانی دور آئے گا اس وقت زیادہ تر شمالی امریکہ آدھ میل برف سے ڈھک جائے گا۔ انسانی تہذیب اس چھوٹے سے "بین
ثلجین"(Interglacial) زمانے میں حال میں ہی پروان چڑھی ہے۔ جب زمین غیر معمولی گرم
تھی مگر یہ چکر ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا۔
لاکھوں
سال گزرنے کے بعد بڑے شہابیے یا دم دار ستارے زمین سے ٹکرا کر بڑی تباہی پھیلا
سکتے ہیں۔ آخری بڑے اجرام فلکی سے زمین کا تصادم آج سے ٦۔٥ کروڑ سال پہلے ہوا تھا
جب ایک جسم جو ٦ میل چوڑا تھا آ کر
میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاتان سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں ایک ١٨٠ میل قطر کا گڑھا
بن گیا۔ اس تصادم سے پیدا ہونے والی تباہی نے وقت کے زمین پر حکمران ڈائنو سارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا۔ مزید
ایک تصادم کی امید اسی وقت کے پیمانے کو مد نظر رکھتے
ہوئے کی جا رہی ہے۔
آج سے
ارب ہا سال کے بعد سورج بتدریج پھیل کر زمین کو نگل جائے گا۔ حقیقت میں ہم نے اس
بات کا اندازہ لگایا ہے کہ سورج اگلے ایک ارب سال میں ١٠ فیصد زیادہ گرم ہو جائے
گا جس کے نتیجے میں زمین شدید گرم ہو جائے گی۔ یہ زمین کو مکمل طور پر اگلے ٥ ارب برسوں میں
اس وقت ختم کر دے گا جب یہ ایک دیوہیکل سرخ دیو میں بدل جائے
گا۔
آج سے
دسیوں ارب سال بعد سورج اور ملکی وے کہکشاں دونوں ختم ہو جائیں گی۔ ہمارا سورج
اپنا ایندھن جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم کی
شکل میں ہے پھونک دے گا اور پھر ایک سفید
بونے کی صورت میں سکڑ کر بتدریج ٹھنڈا ہوتے ہوئے ایک کالا نیوکلیائی کچرے کا ڈھیر بن کر خلاء میں تیرتا رہے گا۔ آخر کار ملکی وے
کہکشاں اپنی پڑوسی کہکشاں اینڈرومیڈا (مراة المسلسلہ )سے جا ٹکرائے گی۔ یہ کہکشاں ہماری کہکشاں سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ ملکی وے کے
مرغولی بازوں کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں
گے نتیجتاً ہمارا سورج خلاء کی بے کراں
گہرائیوں میں دھکیل دیا جائے گا۔ دونوں کہکشاؤں کے مرکز میں موجود بلیک ہول ایک دوسرے سے ٹکرا کر ضم ہونے سے پہلے موت کا رقص شروع کر دیں گے۔
اس بات
کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ انسانیت ایک دن نظام شمسی کی قید سے نکل کر کسی قریبی سیارے پر اپنی جان بچا کر بھاگ
سکتی ہے تاکہ اپنے آپ کو ختم ہونے سے روکا جا سکے تو سوال یہ اٹھتا ہے :ہم وہاں کیسے جائیں گے ؟
سب سے قریبی ستارہ الف قنطورس ٤ نوری برس سے بھی زیادہ دور ہے۔ روایتی
کیمیائی راکٹ جو موجودہ خلائی پروگراموں
میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں مشکل
سے ٤٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار کو چھو سکتے ہیں۔ اس رفتار سے صرف سب سے قریبی
ستارے تک پہنچنے کے لئے ہی ٧٠ ہزار برس
درکار ہوں گے۔
آج کے
خلائی منصوبوں کی جانچ کریں تو یہ بات عیاں ہوگی کہ ہماری موجودہ قابلیت اور ایسے نجمی
سفر کرنے والے خلائی جہازوں کو بنانے
کی درکار قابلیت جو ہمیں کائنات میں سفر کا آغاز کرنے کے قابل بنا سکیں زمین آسمان کا فرق ہے۔
١٩٧٠ء کی
دہائی میں چاند پر قد م رکھنے کے بعد سے
ہم نے انسان بردار خلائی جہاز کو صرف
ایک ایسے مدار میں بھیجا ہے جہاں موجود خلائی شٹل اور انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن زمین سے
صرف ٣٠٠ میل دور پر تھے۔ ٢٠١٠ء سے ناسا نے
شٹل پروگرام کو اس طرح ترتیب دیا ہوا ہے کہ اورائن خلائی جہاز کو بنانے کا آغاز
کیا جائے گا۔ یہ جہاز خلاء نوردوں کو ٢٠٢٠ء تک ٥٠ سال کے
وقفے کے بعد چاند پر لے جائے گا۔ اس منصوبے کا ایک مقصد چاند پر مستقل انسانی اڈہ بنانا ہے۔ اس کے بعد انسان بردار جہاز مریخ
کی جانب روانہ کیا جائے گا۔
ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے |
ظاہر سی
بات ہے کہ اگر ہم ستاروں پر کمند ڈالنا چاہتے ہیں تو راکٹ کی ایک نئی قسم کو کھوجنا ہوگا۔ یا تو ہمیں
بنیادی طور پر اپنے راکٹوں کی دھکیل کی
قوّت کو بڑھانا ہوگا یا پھر راکٹوں کے کام کرنے کے وقت کو بڑھانا ہوگا۔ مثال کے
طور پر ایک بڑے کیمیائی راکٹ میں کئی لاکھ پونڈ دھکیل پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے
لیکن وہ صرف چند منٹ تک ہی ایندھن کو جلا
پاتا ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے راکٹ جیسا کہ
برق پارے والا انجن ([Ion
Engine]اس کے بارے میں ہم آگے بات کریں گے ) میں دھکیل
کی کمزور قوّت پیدا ہوتی ہے خاص باٹ یہ ہے
کہ وہ برسوں تک خلاء میں کام کر سکتا ہے۔
اور جب بات راکٹ کی ہو تو اس میں کچھوا ہمیشہ خرگوش سے جیت جاتا ہے۔
برق پارے اور پلازما کے انجن
کیمیائی
راکٹوں کے برخلاف ، برق پارے والے انجن اچانک ، ڈرامائی دھماکے سے انتہائی گرم
گیسوں کو پیدا نہیں کرتے جو روایتی راکٹوں کو چلانے میں استعمال ہوتی ہیں۔ اصل میں
ان کی قوّت دھکیل کو اکثر اونس میں ناپا جاتا ہے۔ زمین کی سطح پر رہتے ہوئے یہ راکٹ بہت ہی کمزور حرکت کرتے ہیں۔ لیکن ان کی قوّت دھکیل کی یہ خامی ان کے چلنے کے لمبے دورانیے کی خوبی سے پوری ہو جاتی ہے ۔یہ خالی خلاء میں برسوں تک کام کر سکتے ہیں۔
ایک عام
برق پارے کا انجن کسی ٹیلی ویژن کے اندر موجود نلکی کے جیسا ہوتا ہے۔ ایک گرم
فلامنٹ کو برقی رو کے ذریعہ تپایا جاتا
ہے جس کے نتیجے میں ایک برقی پاروں کے ایٹموں، جیسا کہ زینون، کی کرن جنم لیتی ہے جس کو راکٹ کے آخری کنارے میں سے باہر نکالا جاتا ہے۔ گرم ، دھماکے دار
گیسوں پر سواری کرنے کے بجائے برق پارے کا
انجن ایک پتلی اور متلون مزاج برق پاروں کی رو پر سواری کرتی ہے۔
ناسا کا این اسٹار برق پارے کا انجن خلاء میں
ڈیپ ا سپیس١ خلائی کھوجی میں کامیابی کے ساتھ ١٩٩٨ء میں استعمال ہو چکا ہے۔
برق پارے والا انجن کل ملا کر ٦٧٨ دنوں تک چلتا رہا جس کے نتیجے میں اس نے برق
پاروں کے انجن کی ایک نئی تاریخ رقم کردی۔
یورپین اسپیس ایجنسی نے بھی ایک برق پارے کا انجن اپنے ا سمارٹ - ١ کھوجی میں استعمال کیا ہے۔ جاپان کا ہا یا
بوسا خلائی کھوجی جو ایک سیارچے کے پاس سے
گزرا ہے وہ بھی زینون کے چار برق پارے کے انجنوں کی مدد سے چل رہا تھا۔ ہرچند برق پارے کا معمولی انجن
سیاروں کے درمیان لمبی سفر ی مہموں (جو بہت زیادہ فوری نہ ہوں ) میں استعمال
ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن درحقیقت ایک دن یہ بین النجم ذرائع نقل و حمل کی ریڑھ کی ہڈی بن جائے گا۔
برق پارے
انجن کی ایک اور طاقتور قسم پلازما انجن
ہے مثال کے طور پر وی اے ایس آئی ایم آر
(ویرییبل اسپسیفک امپلس میگنیٹو پلازما راکٹ ) جو راکٹ کو خلاء میں دھکیلنے کے لئے
طاقتور پلازما کی دھاریں استعمال کرتا ہے۔ اس کو خلا نورد اور انجنیئر "فرینکلن چانگ ڈیاز"(Franklin Chang Diaz) نے بنایا ہے
یہ ریڈیائی لہریں اور مقناطیسی میدانوں کے استعمال سے ہائیڈروجن گیس کو کئی
لاکھ ڈگری درجہ حرارت تک گرم کر دیتا ہے۔ اس کے بعد انتہائی گرم پلازما راکٹ کے
ایک سرے سے باہر نکلتا ہے جس کے نتیجے میں
اسے کافی دھکیل کی قوّت ملتی ہے۔ ہرچند اس میں سے ابھی تک کسی کو بھی خلاء میں نہیں
بھیجا لیکن زمین پر اس قسم کے ابتدائی تجرباتی نمونے بنائے جا چکے ہیں۔ کچھ انجنیئر اس بات کے
لئے پرامید ہیں کہ پلازما انجن مریخ کی کسی مہم پر کام آ سکتے ہیں جس کے نتیجے میں مریخ تک پہنچنے کا وقت کافی کم
ہو کر صرف کچھ مہینوں تک ہی رہ جائے گا۔ کچھ
نمونوں میں شمسی طاقت کا استعمال پلازما
کو طاقت رساں بنانے کے لئے انجن میں کیا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسرے نمونے نیوکلیائی
گداخت کا استعمال کر رہے ہیں۔ (ایسے انجن حفاظتی خدشات کا باعث ہیں کیونکہ کسی ایسے انجن والے خلائی جہاز کو خلاء میں روانہ کرتے ہوئے اس میں کافی سارا
نیوکلیائی مواد موجود ہوگا۔ خلائی جہاز میں حادثہ ہونے کا خطرہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود
ہوتا ہے اور نیوکلیائی مواد کسی بھی حادثے کی ہولناکی کو اور بڑھا دے گا۔)
نہ
تو برق پارے اور نہ
ہی پلازما / وی اے ایس آئی ایم آر
انجن اس قدر طاقتور ہیں کہ ہمیں ستاروں پر لے جا سکیں۔ اس کام کے لئے ہمیں
ایک بالکل ہی نئے دھکیل والے راکٹوں کو بنانے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی نجمی سفر کرنے والے
خلائی جہاز کو بنانے میں ایک سب سے بڑی
رکاوٹ ایندھن کی مقدار ہے جو قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ دوسری
بڑی رکاوٹ خلائی جہاز کو اس سفر کے دوران اپنی
منزل تک پہنچنے تک ایک لمبا عرصہ گزرنا ہوگا۔
شمسی بادبان
ایک
تجویز جو ان مسائل سے چھٹکارا دے سکتی ہے وہ ہے شمسی بادبان۔ یہ سورج کی
معمولی لیکن متلون روشنی کے دباؤ سے
استفادہ حاصل کرتے ہیں جو اتنا ہوتا ہے کہ ایک بڑے بادبان کو خلاء میں چلا سکے۔
شمسی بادبان کا خیال کافی پرانا ہے جس کا
تذکرہ جوہانس کیپلر نے اپنی کتاب سومینیم
میں ١٦١١ء میں کیا ہے۔
ہرچند شمسی
بادبان کے پیچھے سادہ سی طبیعیات موجود ہے ، لیکن ایک ایسے شمسی بادبان کو بنانے
میں پیش رفت کافی ناہموار رہی ہے جس کو
خلاء میں بھیجا جا سکے۔ ٢٠٠٤ء میں ایک جاپانی راکٹ نے کامیابی کے ساتھ دو چھوٹے
شمسی بادبانوں کے تجرباتی نمونے خلاء میں بھیجے۔ ٢٠٠٥ء میں پلانیٹری سوسائٹی ،
کوسموس ا سٹوڈیو اور رشین اکیڈمی آف
سائنس نے کوسموس ١ کو
سب میرین برنٹس سی سے خلاء میں چھوڑا۔ لیکن افسوس کہ اس کو لے کر جانے والا
وولنا راکٹ ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے اس کو مدار میں نہیں پہنچا یا جا سکا۔(اس سے
پہلے بھی ایک اور کوشش ٢٠٠١ء میں اس وقت ناکام ہو گئی تھی جب بادبان کو خلاء میں
بیرون مدار چھوڑا جا رہا تھا۔) فروری
٢٠٠٦ء میں ایک ١٥ میٹر کا شمسی بادبان کامیابی کے ساتھ مدار میں جاپانی ایم وی
راکٹ کے ذریعہ چھوڑا گیا۔ اگرچہ اس میں بھی بادبان مکمل طور پر نہیں کھل پایا تھا۔
اگرچہ
شمسی بادبانوں کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی
پیش رفت تکلیف دہ حد تک سست ہے لیکن اس کے
حامیوں کے پاس ایک اور خیال ہے جس کے
نتیجے میں یہ ہمیں ستاروں تک پہنچا سکتے ہیں : ایک عظیم الشان لیزروں کا پشتہ چاند
پر بنایا جائے تو وہاں سے انتہائی طاقتور
لیزر کی شعاعیں شمسی بادبان پر پھینکی جا
سکتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ قریبی ستارے
تک جا سکتا ہے۔ بین السیارہ شمسی بادبانوں کی طبیعیات بہت ہی زیادہ ڈھاما ڈول ہے۔ بادبان کو خود
سیکڑوں میل پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے۔ اس عظیم حجم کا مطلب یہ ہوا کہ اس کو مکمل
طور پر خلاء میں ہی بنانا ہوگا۔ اس کے بعد ہزار ہا طاقتور لیزر کرنوں کو چاند پرنانا ہوگا جس میں سے ہر ایک لیزر اتنی طاقتور ہونی چاہئے جو مسلسل کچھ برسوں سے لے کر کچھ عشروں تک شعاعوں کو پھینک سکے۔(ایک تخمینے کے مطابق جن لیزر شعاعوں کو پھینکنے کی ضرورت ہوگی ان کو
زمین کی دور حاضر کی توانائی کو پیدا کرنے
سے لگ بھگ ایک ہزار گنا زیادہ قوّت درکار
ہوگی۔)
کاغذوں
کے مطابق ایک بھاری بھرکم روشنی کا بادبان،
روشنی کی آدھی رفتار تک سفر کرنے کی
صلاحیت رکھتا ہے۔ اس قسم کے شمسی بادبان کو صرف قریبی سیارے تک پہنچنے کے لئے ٨
سال یا اس سے کچھ زیادہ کا عرصہ درکار
ہوگا۔ اس قسم کے دھکیلنے والے نظام کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ فوری طور پر دستیاب ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ایسے کسی بھی شمسی بادبان کو بنانے کے لئے طبیعیات کے
کسی نئے قانون کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مگر اصل مسئلہ مالی اور فنی ہے۔ کسی
بھی سینکڑوں میل لمبے شمسی بادبان اور
طاقتور لیزر کی کرنوں کو چاند پر بنانے کے
لئے انجینئرنگ کے ہیبت ناک مسائل سے نمٹنا
ہوگا۔ جس کے لئے درکار ٹیکنالوجی شاید اگلے صدی میں ہی حاصل ہو سکے گی۔( ایسے کسی
بھی شمسی بادبان کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کی واپسی کیسے ہوگی ؟ ایک لیزر کی شعاعوں کا دوسرا پشتہ کسی دور دراز چاند پر بنانا ہوگا
تاکہ بادبان کو واپس زمین پرلا یا جا سکے۔ یا ہو سکتا ہے کہ جہاز ستارے کے گرد
تیزی سے جھولا کھاتے ہوئے ، اس کو غلیل کی طرح استعمال کرتے ہوئے اتنی رفتار حاصل کر
لے کہ وہ اس کو واپس زمین تک لے جا سکے۔ اس کے بعد چاند پر موجود لیزر کی شعاعوں
کو واپسی پر اس کو آہستہ کرنے کے لئے
استعمال کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ زمین پر اتر سکے۔)
دو شاخہ گداختی انجن (Ramjet Fusion )
ستاروں
تک سفر کرنے کا میرا اپنا پسندیدہ امیدوار دو شاخہ گداختی انجن ہے۔ کائنات میں
ہائیڈروجن کی بہتات ہے لہٰذا دو شاخہ انجن
آسانی کے ساتھ ہائیڈروجن کو سفر کے دوران
حاصل کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں اس کے
پاس نہ ختم ہونے والا ایندھن موجود ہوگا۔ ہائیڈروجن کو حاصل کرنے کے بعد اس کو
دسیوں لاکھوں ڈگری درجہ حرارت تک گرم کیا جائے گا تا کہ وہ اتنی گرم ہو جائے اس
میں گداختی عمل شروع ہو کر اس کے دو جوہروں کو ایک بھاری عنصر میں ضم کرکے حر مرکزی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی کا اخراج کرے۔
دو شاخہ
گداختی انجن کی تجویز طبیعیات دان"
رابرٹ ڈبلیو بزارڈ"(Robert W. Busard) نے ١٩٦٠ء میں دی تھی اور بعد میں کارل ساگاں نے اس کو کافی مشہور
کیا تھا۔ بزارڈ کے اندازے کے مطابق ایک ہزار ٹن وزنی دو شاخہ انجن نظری طور پر ایک
جی فورس کی دھکیل کی قوّت کو پائیداری اور تسلسل کے ساتھ پیدا کر سکتا ہے۔ اس جی
فورس کا مقابلہ زمین کی سطح پر کھڑے ہونے
کی درکار طاقت کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔
اگر دو شاخہ انجن ایک جی فورس کے اسراع کو
ایک سال تک برقرار رکھنے میں کامیاب رہے تو وہ
روشنی کی سمتی رفتار کے ٧٧ فیصد تک پہنچ جائے گا جو نجمی سفر کرنے کے لئے ایک انتہائی سنجیدہ امکان کو پیدا کرتا ہے۔ دو
شاخہ انجن کے قابل عمل سفر کی شرائط کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے۔
سب سے
پہلے تو ہمیں ہائیڈروجن گیس کی اوسطاً
کثافت پوری کائنات میں جاننی ہوگی۔ موٹا موٹا حساب لگا کر ہم ایک جی فورس اسراع حاصل کرنے کے لئے درکار ہائیڈروجن گیس کو بھی معلوم کر سکتے ہیں ۔ یہ
حساب ہمیں بتائے گا کہ ہمیں ہائیڈروجن گیس حاصل کرنے کے لئے کتنا بڑا "ڈونگا"(Scoop)
چاہئے ہوگا۔ چند معقول مفروضوں کے ساتھ ہمیں یہ بات آسانی سے معلوم ہو سکتی ہے کہ
ہمیں ایک ١٦٠ کلو میٹر قطر کا ہائیڈروجن حاصل کرنے کا ڈونگا چاہئے ہوگا۔ اگرچہ
اتنا بڑا ڈونگا زمین پر نہیں بنایا جا سکتا ، لیکن بے وزنی کی حالت میں خلاء میں اس کو بنانے
میں زمین پر درکار مسائل سے کم کا سامنا ہو
گا۔
اصولی
طور پر دو شاخہ انجن اپنے آپ کو لامحدود طور پر دھکیل سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ کہکشاں کے دور دراز تاروں
تک بھی جا پہنچ سکتا ہے۔ آئن سٹائن کے مطابق
راکٹ کے اندر وقت آہستہ گزرے گا لہٰذا یہ بھی ممکن ہو سکتا ہے کہ عملے کو"
غنودگی کے عمل"(Suspended
Animation) میں ڈالے بغیر
ہی فلکیاتی فاصلوں کو طے کر لیا جائے۔ ایک
جی فورس لگا کر گیارہ سال بعد حاصل ہونے
والے اسراع کی مدد سے ، خلائی جہاز میں
موجود گھڑیوں کے مطابق ، خلائی جہاز ہم سے ٤٠٠ نوری برس کی مسافت پر موجود
"پلئیڈیز"(Pleiades)
ستاروں کے جھرمٹ میں پہنچ جائے گا جبکہ صرف ٢٣ برسوں میں وہ ہم
سے ٢٥ لاکھ نوری برس کے فاصلے پر موجود اینڈرومیڈا کہکشاں پر پہنچ سکتا
ہے۔ مفروضے کی بنیاد پر خلائی جہاز قابل مشاہدہ کائنات کی سرحدوں پر عملے کی زندگی
میں ہی پہنچ سکتا ہے (اگرچہ زمین پر ارب ہا سال گزر چکے ہوں گے )۔
اس میں
سب سے کلیدی بے یقینی گداختی عمل ہے۔ آئی ٹی ای آر گداختی ری ایکٹر جنوبی فرانس
میں بننے کے لئے طے ہوا ہے جس میں ہائیڈروجن
کے دو کمیاب ہم جا (ڈیوٹیریئم اور ٹریٹم) کو توانائی حاصل کرنے کے لئے استعمال
کیا جائے گا۔ خلاء میں سب سے زیادہ بہتات ہائیڈروجن کے اس عنصر کی ہے جس میں ایک
پروٹون اور ایک الیکٹران ہوتا ہے۔ لہٰذا
اس دو شاخہ انجن کو پروٹون پروٹون گداختی عمل سے استفادہ اٹھانا ہوگا۔ہرچند ڈیوٹیریئم
/ ٹریٹم گداختی عمل کئی دہائیوں سے
طبیعیات دانوں کے زیر تحقیق ہے ، لیکن پروٹون پروٹون گداختی عمل کو بہت ہی کم
سمجھا گیا ہے ، اس کو نہ صرف سمجھنا ایک مشکل امر ہے بلکہ اس
سے حاصل کردہ توانائی بھی بہت کم
مقدار کی ہوگی ۔ لہٰذا اس زیادہ مشکل
پروٹون پروٹون کے گداختی عمل میں ماہر ہونے کے لئے آنے والی دہائیوں میں کئی فنی مشکلات کو عبور
کرنا ہوگا۔(کچھ انجینیروں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ کیا دو شاخہ انجن گھسٹنے کے اثر کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچنے پر کم کر سکے گا۔)
جب تک پروٹون
پروٹون گداختی عمل کی طبیعیات اور معاشیات کا حل نہیں نکالا جاتا اس وقت تک دو
شاخہ انجن کی عمل پذیری کا صحیح اندازہ لگانا امر محال ہے۔ لیکن ان تمام
باتوں کے باوجود اس کا نقشہ ستاروں پر
کمند ڈالنے والے کسی بھی مہم کے ممکنہ امید واروں کی فہرست میں شامل ہے۔
نیوکلیائی برقی راکٹ
١٩٥٦ء
میں یو ایس اٹامک انرجی کمیشن (اے ای سی ) نے نیوکلیائی راکٹوں کو بنانے کے لئے سنجیدگی سے غور فکر شروع کیا
جس کے نتیجے میں ایک "پروجیکٹ روور"
(Project Rover)بنا۔ نظریاتی طور پر نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر
ہائیڈروجن جیسی گیسوں کو انتہائی درجہ حرارت تک گرم کرنے کے
لئے استعمال ہوگا اور اس کے بعد گرم گیسیں
راکٹ کے ایک سرے سے باہر نکالی جائیں گی جس کے نتیجے میں دھکیل کی قوّت پیدا ہوگی۔
زمین کی فضا میں زہریلے نیوکلیائی ایندھن کے
دھماکے کے خطرے کے پیش نظر ، ابتدائی نیوکلیائی راکٹ کے تجرباتی نمونے ریل کی پٹریوں پر افقی رکھے گئے جس کے بعد ان کی کارکردگی کا انتہائی
باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔ پہلا نیوکلیائی راکٹ انجن جو پروجیکٹ روور کے تحت
جانچا گیا وہ ١٩٥٩ء میں کیوی ١ تھا ( جس
کو آسٹریلیا کے لا پرواز پرندے کے نام پر رکھا گیا تھا )۔ ١٩٦٠ء میں ناسا نے "اے
ای سی" کے ساتھ مل کر ایک نیوکلیئر
انجن فار راکٹ وہیکل ایپلیکیشنز (این ای
آر وی اے ) بنایا جو پہلا نیوکلیائی راکٹ تھا جس کو افقی چلانے کے بجائے عمودی طرح سے چلا کر جانچا گیا تھا۔ ١٩٦٨ء میں
یہ نیوکلیائی راکٹ آزمائشی طور پر نشیب کی
طرف چلایا گیا۔
اس تحقیق
سے حاصل کردہ نتائج ملے جلے تھے۔ راکٹ بہت زیادہ پیچیدہ تھا اور اکثر غلط داغ دیا
جاتا تھا۔ نیوکلیائی انجن کی زبردست تھرتھراہٹ اکثر ایندھن کے بنڈلوں کو چٹخا دیتی
تھی جس کے نتیجے میں جہاز ٹوٹ جاتا تھا۔
اونچے درجہ حرارت پر ہائیڈروجن کو جلانے کی وجہ سے خوردگی(Corrosion) ایک
مستقل مسئلہ تھی۔ نیوکلیائی راکٹ کو آخر کار ١٩٧٢ء میں بند کر دیا گیا۔
(ان
ایٹمی راکٹوں میں ایک اور مسئلہ بے قابو نیوکلیائی عمل کا بھی
تھا جیسا کہ ایک چھوٹے سے ایٹم بم میں
ہوتا ہے۔ اگرچہ تجارتی نیوکلیائی بجلی گھر آج کل رقیق نیوکلیائی ایندھن پر چل رہے
ہیں اور ہیروشیما پر گرائے گئے بم کی طرح
سے نہیں پھٹ سکتے ، یہ ایٹمی راکٹ ، زیادہ دھکیل کی قوّت پیدا کرنے کے چکر میں ،
بلند درجے کی افزودہ یورینیم کا استعمال کرتے ہیں
لہٰذا یہ ایک زنجیری عمل کی صورت میں پھٹ کر ننھے نیوکلیائی دھماکوں کا باعث بن سکتے ہیں۔ جب نیوکلیائی راکٹ کا منصوبہ ختم ہونے
کے قریب تھا تو سائنس دانوں نے ایک آخری
ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ راکٹ کو ایک چھوٹے نیوکلیائی بم کی
طرح پھاڑا جائے ۔ اس کے لئے انہوں نے قابو میں رکھنے والی سلاخوں کو ہٹا دیا [جن کا کام نیوکلیائی عمل پر نظر رکھنا تھا ]۔ ری ایکٹر بے قابو ہو کر ایک آگ کے شعلوں کی گیند بن کر پھٹ گیا۔ اس شاندار
نیوکلیائی راکٹ منصوبے کی موت کو فلمایا بھی گیا تھا۔ روسی اس بات سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے اس کرتب کو لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی کی خلاف ورزی جانا جس میں زمین کے اوپر نیوکلیائی بم کو پھاڑنے پر
پابندی تھی۔)
ماضی میں
مختلف ادوار میں فوج وقتاً فوقتاً نیوکلیائی راکٹ کو بنانے کا جائزہ لیتی رہی ہے۔
ایک خفیہ منصوبہ" ٹمبر ونڈ نیوکلیائی راکٹ "کا تھا جو کہ ١٩٨٠ء میں فوجی اسٹار وار منصوبے کا حصّہ
تھا۔ (فیڈریشن آف امریکن سائنٹسٹ کے اس کو ظاہر کرنے کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا۔)
سب سے
بڑا مسئلہ نیوکلیائی راکٹ میں حفاظت کا ہے۔ ٥٠ سال سے زیادہ عرصے تک خلاء میں اپنی
موجودگی کے باوجود کیمیائی راکٹ بوسٹر میں
ایک فیصدی خطرہ ناکام ہو کر تباہی مچانے کا اپنی جگہ موجود ہے۔(چیلنجر اور کولمبیا
خلائی جہازوں کے دو انتہائی افسوس ناک واقعات نے ناکامی کی اس شرح کو مزید تقویت بخشی ہے اس حادثے میں چودہ خلا نوردوں نے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو لئے
تھے۔)
ان تمام
باتوں سے قطع نظر ، ماضی میں چند برسوں کے
دوران ناسا نے نیوکلیائی راکٹ میں اپنی
تحقیق کو پہلی مرتبہ١٩٦٠ء کے این ای آر وی
اے منصوبے کو ختم کرنے کے بعد سے دوبارہ
شروع کیا ہے۔ ٢٠٠٣ء ایک نیا منصوبہ جس کا نام یونانی دیوتا "پرومیتھیئس" (Prometheus)کے نام پر رکھا گیا تھا جس نے انسانوں کو آگ کا
تحفہ دیا تھا۔ ٢٠٠٥ء میں پرومیتھیئس کو ٤٣ کروڑ ڈالر کا فنڈ دیا گیا تھا۔ بہرحال
٢٠٠٦ء میں اس فنڈ میں زبردست کٹوتی کرکے
اس کو صرف ١٠ کروڑ ڈالر تک محدود کر دیا
تھا۔ منصوبے کا مستقبل تاحال واضح نہیں ہے۔
نیوکلیائی ضربی راکٹ
ایک اور
دور کی کوڑی یہ ہے کہ راکٹ کو دھکیلنے کے
لئے چھوٹے نیوکلیائی بموں کے سلسلہ کو استعمال کیا جائے۔ پروجیکٹ اورائن میں چھوٹے
ایٹم بموں کو راکٹ میں ایک ترتیب میں
چھوڑا جانا تھا تاکہ خلائی جہاز ان چھوٹے
ہائیڈروجن بموں کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی صدماتی موجوں پر سفر کر سکے۔ ایسا کوئی
بھی خلائی جہاز کم از کم نظری طور پر روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ سکتا ہے۔ ١٩٤٧ء
میں "اسٹینس لاء اولم"(Stanislaw Ulam) نے اس طرز کے راکٹ کو بنانے کا خیال پیش کیا جو اس وقت پہلے ہائیڈروجن بم کو بنانے میں مدد کر
رہا تھا ، اس خیال پر مزید کام ٹیڈ ٹیلر ([Ted
Taylor]جو یو ایس فوج میں نیوکلیائی بموں کا چیف ڈیزائنروں میں سے ایک
تھا ) اورپرنسٹن میں واقع انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ
اسٹڈی کے طبیعیات دان "فری
مین ڈیسن"(Freeman Dyson) نے
کیا۔
١٩٥٠ء کے
اواخر میں اور ١٩٦٠ء کی دہائی میں ایسے کسی نجمی راکٹ کے لئے مفصل تخمینے لگائے گئے۔ اندازہ لگایا گیا کہ ایسا کوئی بھی
خلائی جہاز سب سے زیادہ بلند سمتی رفتار
جو روشنی کی رفتار کے ١٠ فیصد تک ہو سکتی ہے حاصل کرکے پلوٹو جا کر ایک سال میں
واپس بھی آ سکتا ہے۔ مگر اس شاندار رفتار کے باوجود بھی قریبی ستارے تک پہنچنے کے
لئے ٤٤ سال کا عرصہ درکار ہوگا۔ سائنس دانوں نے اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ اس
قسم کے راکٹوں کے ذریعہ چلانے والی کوئی
بھی خلائی کشتی صدیوں تک چلائی جا سکتی ہے ، جس
میں خلا نوردوں کی کئی نسلیں پیدا ہو کر اپنی تمام زندگی اسی خلائی کشتی پر گزار
سکتی ہیں اس طرح سے ان کی اگلی نسل قریبی ستارے تک پہنچ سکتی ہیں۔
١٩٥٩ء
میں جنرل اٹامکس نے ایک رپورٹ کا اجراء کیا جس میں ایک اورائن خلائی جہاز کے حجم
کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس کے مطابق سب سے بڑا نمونے سپر اورائن کا وزن ٨ لاکھ ٹن جبکہ
اس کا قطر ٤٠٠ میٹر کا ہوگا۔ اور اس کو
ایک ہزار ہائیڈروجن کے بموں کی قوّت سے
چلانا ہوگا۔
ایسے کسی
بھی خلائی جہاز میں ایک سب سے بڑا مسئلہ اس ممکنہ آلودگی کا ہے جو اس کے خلاء میں چھوڑے جانے کے وقت پیدا
ہوگی ۔ ڈیسن نے اندازہ لگایا کہ ہر چھوڑے جانے والے خلائی جہاز سے نکلنے والا نیوکلیائی
فضلہ١٠ لوگوں میں مہلک قسم کا کینسر پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے کسی بھی
خلائی جہاز کو چھوڑتے وقت نکلنے والی برقی
مقناطیسی ضربیں (ای ایم پی ) اس قدر زور آ ور ہوں گی کہ آس پاس کے پڑوس میں موجود
برقی نظام میں شارٹ سرکٹ پیدا کر دیں گی۔
١٩٦٣ء
میں لمیٹڈ ٹیسٹ بین ٹریٹی پر دستخط کرنے کی وجہ سے اس منصوبے کی موت ہو گئی۔ آخر
میں اس منصوبے کے روح رواں ، نیوکلیائی بم کے ڈیزائنر ٹیڈ ٹیلر نے ہار مان لی۔(ایک
دفعہ انہوں نے اپنے دل کی بات مجھ سے کہی
کہ ان پر اس پروجیکٹ کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب انھیں اس بات کا اندازہ ہوا کہ چھوٹے
ہائیڈروجن بموں کے پیچھے کی طبیعیات کو دہشت گرد ان بموں میں استعمال کر سکتے ہیں
جن کی ترسیل انتہائی آسان ہوگی۔ اگرچہ اس منصوبے کو خطرناک سمجھتے ہوئے اس پر تالا
ڈال دیا گیا تھا۔ لیکن اس کا نام اورائن
خلائی جہاز کے نام سے باقی رکھا گیا ۔ اس خلائی جہاز کو ناسا نے ٢٠١٠ء میں "خلائی شٹل "سے
تبدیل کرنے کے لئے چنا ہے۔)
نیوکلیائی
توانائی سے چلنے والے راکٹ کا تصوّر برطانیہ کی بین السیارہ سوسائٹی نے ١٩٧٣ء سے
لے ١٩٧٨ء تک دوبارہ "ڈائڈالس منصوبے"(Project
Daedalus) کے نام سے زندہ کیا۔ یہ
ایک ابتدائی تحقیق تھی جس کا مقصد بغیر انسان کے نجمی خلائی جہاز کی معقولیت کو جانچنا تھا۔ اس خلائی جہاز کو برنارڈ ستارے تک پہنچنا تھا جو زمین سے ٥.٩نوری برس کے فاصلے پر تھا۔(برنارڈ
ستارہ اس لئے چنا گیا تھا کہ امکان غالب تھا کہ یہاں ایک سیارہ موجود ہو سکتا ہے۔ اس
وقت سے فلکیات دان "جل ٹارٹر"(Jill Tarter) اور مارگریٹ ٹرنبل(Margaret Turnbull) نے ایک ١٧،٢١٩ قریبی ستاروں کی فہرست بنائی ہے جن
کے سیارے حیات کا مسکن ہو سکتے ہیں۔ حیات کے مسکن
کے سب سے بہترین امیدوار اپسیلون
انڈی الف ہے جس کا زمین سے فاصلہ جو ١١۔٨ نوری برس کا ہے۔)
ڈائڈالس
منصوبے کا خلائی جہاز اس قدر بڑا تھا کہ اس کو خلاء میں ہی بنایا جا سکتا تھا۔ اس
کا کل وزن ٥٤ ہزار ٹن ہوتا جس میں کام کے حصّے کا وزن صرف ٤٥٠ ٹن جبکہ باقی زیادہ تر وزن ایندھن کا ہوتا اور وہ روشنی کی رفتار کا صرف ٧۔١ فیصد ہی حاصل
کر پاتا۔ ننھے ہائیڈروجن بموں کو استعمال کرنے
والے اورائن منصوبے کے برعکس ، ڈائڈالس کا منصوبہ ڈیوٹیریئم / ہیلیئم - ٣ کے
ملغوبہ والے چھوٹے ہائیڈروجن بم استعمال کرتا اور ان کو الیکٹران کی شعاعوں سے جلایا جاتا۔ زبردست
فنی مسائل اور نیوکلیائی دھکیل کے نظام پر خدشات کی بنیاد پر ڈائڈالس کا منصوبہ غیر معینہ مدّت کے لئے سر
بمہر کر دیا گیا۔
ڈائڈالس خلائی جہاز کی ایک تصویر |
مخصوص ضرب اور انجن کی کارکردگی
انجنیئر
اکثر مخصوص ضرب کی بات کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم کارکردگی کے لحاظ سے مختلف
انجن کے ڈیزائن کو درجوں میں بانٹ سکتے ہیں۔ مخصوص ضرب کو ہم راکٹ کی فی کمیتی
اکائی کی بنسبت معیار حرکت میں تبدیلی سے
بیان کر سکتے ہیں کہ لہٰذا انجن کی کارکردگی جتنی بہتر ہوگی خلاء میں اضافی حرکت کے لئے درکار اتنے
ہی کم ایندھن کی ضرورت ہوگی۔ معیار حرکت اس قوّت
کا حاصل ہے جو کچھ وقت کے بعد حاصل کی
جائے۔ کیمیائی راکٹوں میں اگرچہ بڑے دھکیل
موجود ہوتے ہیں لیکن یہ صرف چند
منٹوں تک ہی چلتے ہیں جس کے نتیجے میں ان
کی مخصوص ضرب بہت ہی کم درجہ کی ہوتی ہے۔ کیونکہ
برق پارے کے انجن برسوں تک چل سکتے ہیں لہٰذا ان میں بلند مخصوص ضرب ہو سکتی ہے لیکن دوسری طرف ان میں دھکیل کی قوّت انتہائی پست ہوتی ہے۔
مخصوص
ضرب کو سیکنڈوں میں ناپا جاتا ہے۔ ایک مخصوص کیمیائی راکٹ میں ٤٠٠-٥٠٠ سیکنڈوں کی مخصوص ضرب ہو سکتی ہے۔
خلائی شٹل کے انجن کی مخصوص ضرب ٤٥٣ سیکنڈ
ہے۔(سب سے بلند مخصوص ضرب صرف ٥٤٢ سیکنڈوں کی
ہے جو کسی کیمیائی راکٹ نے حاصل کی ہے۔ اس کو ہائیڈروجن ، لیتھیم اور فلورین کے ملغوبہ کو راکٹ میں استعمال کرکے حاصل کیا
گیا تھا۔) ا سمارٹ - ١ کے راکٹ کی مخصوص
ضرب کی قوّت ١٦٤٠ سیکنڈ ہے۔ بلند ترین
ممکنہ مخصوص ضرب جو کوئی بھی راکٹ حاصل کر
سکتا ہے وہ روشنی کی رفتار ہے۔ اس کی مخصوص ضرب
لگ بھگ ٣ کروڑ ہوگی۔ درج ذیل ایک چارٹ دیا گیا ہے جو مختلف قسم کے راکٹ انجن کی مختلف مخصوص ضربوں کو بیان کرتا ہے۔
راکٹ کی قسم
|
مخصوص ضرب
|
ٹھوس
ایندھنی راکٹ
|
٢٥٠
|
مائع
ایندھنی راکٹ
|
٤٥٠
|
برق
پارہ انجن
|
٣،٠٠٠
|
وی اے
ایس آئی ایم آر پلازما انجن
|
١،٠٠٠
- ٣٠،٠٠٠
|
نیوکلیائی
انشقاقی راکٹ
|
٨٠٠
– ١،٠٠٠
|
نیوکلیائی
گداختی راکٹ
|
٢،٥٠٠
– ٢٠٠،٠٠٠
|
نیوکلیائی
ضربی راکٹ
|
١٠،٠٠٠ - ١٠
لاکھ
|
ضد
مادّہ راکٹ
|
دس
لاکھ - ایک کروڑ
|
(نظریاتی طور پر ، لیزر بادبان اور دو شاخہ
انجن کے مسائل کو اگر چھوڑ دیں تو ان کو لامتناہی مخصوص ضرب حاصل ہو سکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس راکٹ ہوتا ہی نہیں
ہے۔)
خلائی بالا بر (Space Elevators)
ایک سب
سے خطرناک اعتراض ان تمام راکٹوں کے نقشوں پر حجم کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ بلحاظ حجم یہ اس
قدر قوی الجثہ ہوتے ہیں کہ ان کو زمین پر
کبھی بھی نہیں بنائے جا سکے گا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ سائنس دان اس بات کی تجویز
دیتے ہیں کہ ان کو خلاء میں بنایا جائے جہاں وزن کے بغیر کا ماحول خلا نوردوں کو بھاری چیزیں حرکت دینے میں انتہائی سازگار
ہوگا۔ مگر ناقدین خلاء میں جہاز کو بنانے کی لاگت کی وجہ سے اس
کو قابل عمل قرار دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بین الاقوامی خلائی ا سٹیشن کو مکمل بنانے کے لئے ١٠٠ خلائی جہازوں کو خلاء
میں بھیجنا پڑا اور اس کی لاگت ایک کھرب
ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ انسانی تاریخ کا سب سے مہنگا منصوبہ ہے۔ نجمی خلائی بادبان
یا دو شاخہ ڈونگا خلاء میں بنانا اس سے کہیں زیادہ مہنگا پڑے گا۔
مگر جیسے
کہ ایک سائنس فکشن مصنف " رابرٹ ہینلین"(Robert
Heinlein) یہ بات نہایت شوق سے اکثر و بیشتر دہراتے ہیں کہ اگر آپ زمین سے ١٦٠ کلو میٹر اوپر چلے جائیں
تو آپ نظام شمسی کے کسی بھی حصّے تک پہنچنے کے لئے آدھا راستہ طے کر چکے ہیں۔ ان
کے قول کی ایک وجہ سے کہ کسی بھی خلائی جہاز کو
شروع کے ١٦٠ کلو میٹر میں زمین کی
کشش ثقل سے آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں
جو لاگت آتی ہے وہ اس لاگت سے کہیں زیادہ
ہے جو راکٹ کو پلوٹو یا اس سے آگے وہاں سے کہیں اور جانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔
مستقبل
میں لاگت میں ڈرامائی کمی کرنے کا ایک
طریقہ یہ ہے کہ ایک خلائی بالا بر بنایا جائے۔ رسی پر چڑھ کر فلک پر پہنچنے کا
خیال بہت پرانا ہے۔ مثال کے طور پر بچوں
کی کہانی "جیک اینڈ دی بین سٹالک " میں یہ تصوّر موجود ہے۔ یہ بات حقیقت کا روپ تب دھار سکتی ہے
جب رسی کو کافی دور تک خلاء میں بھیجا جا سکے۔ اس وقت زمین کی محوری گردش سے پیدا ہوئی مرکز گریز قوّت اتنی ہوگی کہ وہ اس کی جاذبی قوّت کو زائل کر
سکے۔ اس طرح سے وہ رسی کبھی نیچے نہیں گرے گی۔ رسی جادوئی طور پر خلاء میں جاتی
ہوئی بادلوں میں غائب ہو جائے گی۔(ایک رسی میں بندھی ہوئی گیند کا تصوّر کریں۔
ایسے لگے گا جیسے کہ بال پر کشش ثقل اثر انداز نہیں ہو رہی ہے کیونکہ مرکز گریز قوّت اس کو
محوری مرکز سے دور کر رہی ہوگی۔ بالکل ایسی طرح سے ایک لمبی رسی بھی ہوا
میں زمینی گھماؤ کی وجہ سے معلق رہی گی۔) زمین سے ہوا معلق رکھنے کے لئے
زمین کی محوری گردش کے علاوہ اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوگی۔ نظری طور پر
کوئی بھی شخص اس رسی پر چڑھ اور اتر سکتا ہے۔ ہم اکثر سٹی یونیورسٹی آف نیویارک
میں طبیعیات کا مضمون پڑھنے والے طلبہ کو ایسی
کسی رسی کے تناؤ کا حساب لگانے کا ایک مسئلہ دیتے ہیں۔ یہ بات ثابت کرنا انتہائی آسان ہے کہ رسی پر
موجود تناؤ اتنا ہوگا کہ کسی اسٹیل کے تار کو بھی
وہ آسانی کے ساتھ چٹخا سکتا ہے یہ
ہی وجہ ہے کہ اگرچہ بالائی بروں کو بنانے کے لئے کافی عرصے سے سوچا تو جا رہا ہے
لیکن ان کو بنانا ناممکن سمجھا جاتا ہے۔ خلائی
بر پر سب سے پہلی سنجیدہ تحقیق ایک صاحب
کشف روسی سائنس دان کونسٹنٹین ٹیولکوفسکی نے کی۔ ١٨٩٥ء میں ایفل ٹاور سے متاثر
ہو کر انہوں نے ایک ایسے مینار کا خواب دیکھا جو خلاء تک جاتا ہو اور زمین کو خلاء میں فلکی اجسام سے ملاتا ہو۔
خلائی بالا بر کو زمین سے اٹھاتے ہوئے
انجنیئر آہستگی کے ساتھ اسے آسمانوں تک لے جائیں۔
١٩٥٧ میں
روسی سائنس دان "یوری آرٹ سٹا نوف"(Yuri
Artsutanov) نے ایک نیا حل
تجویز کیا کہ خلائی بالا بر کو الٹے طریقہ
سے بنایا جائے یعنی اوپر سے نیچے کی
جانب جس کی شروعات خلاء سے کی جائے۔ اس نے
ایک ایسے مصنوعی سیارچے کا تصوّر پیش کیا
جو ساکن زمینی مدار میں خلاء میں ٣٦ ہزار
میل کی اونچائی پر رہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں زمین سے دیکھنے پر وہ ساکن ہی
نظر آئے گا اور تار کو نیچے زمین پر اتارا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد تار کو
زمین سے جڑے آنکڑے میں پھنسا دیا جائے گا۔ مگر اس خلائی بالا پر کی رسی کو ٦٠ سے ١٠٠ گیگا پاسکل (جی پی اے ) تناؤ کو
برداشت کرنا ہوگا۔ اسٹیل تو صرف ٢ جی پی اے
پر ہی ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ
خیال قابل عمل نہیں لگتا۔
آرتھر سی
کلارک کے ١٩٧٩ء میں شائع ہونے والے ناول "دی فاؤنٹین آف پیرا
ڈائز اور رابرٹ ہینلین کا ١٩٨٢ء کے ناول "فرائیڈے " نے خلائی بالا بر کے تصوّر
کو کافی مقبولیت بخشی۔ مگر اس خیال
میں مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
کیمیا
دانوں کی کاربن نینو ٹیوبز کی ایجاد کے
بعد سے صورتحال کچھ بدلی ہے۔ ١٩٩١ء میں نیپون الیکٹرک کے "سومیو ایجیما
" (Somio Iijima) کے کام کی وجہ سے اس میں لوگوں کی دلچسپی ایک
دم سے بڑھ گئی ہے۔(اگرچہ کاربن نینو ٹیوبز
کے ثبوت ١٩٥٠ء کی دہائی سے ملتے ہیں
جس کو اس وقت نظر انداز کر دیا گیا تھا )۔ حیرت انگیز طور پر نینو ٹیوبز ا سٹیل کی تاروں سے کہیں
زیادہ مضبوط ہونے کا باوجود کہیں زیادہ ہلکی ہوتی ہیں۔ حقیقت میں ان کی طاقت اس سے
کہیں زیادہ ہے جو خلائی بالا بر کے لئے درکار ہوتی ہے۔ سائنس دان اس بات پر یقین
رکھتے ہیں کہ کاربن نینو ٹیوبز فائبر ١٢٠ جی پی اے کا تناؤ برداشت کر سکتی
ہیں جو اس ٹوٹنے والے نقطہ سے کہیں زیادہ
ہے۔ اس دریافت نے خلائی بالا بر کو بنانے میں دوبارہ سے ایک نئی روح پھونک دی ہے۔
١٩٩٩ء
میں ناسا کی ایک تحقیق میں خلائی بالا بر
پر کافی سنجیدگی سے غور کیا گیا ، جس میں ایک ایسے فیتے کا خیال پیش کیا گیا جو ایک میٹر چوڑا اور
٤٧ ہزار کلو میٹر لمبا ہوگا اور وہ ١٥ ٹن وزن کو زمین کے مدار میں پہنچا سکے گا۔ ہو
سکتا ہے کہ خلائی بالا بر خلائی معیشت کو راتوں رات بدل دے۔ یہ لاگت میں دس ہزار
گنا کمی کرکے خلائی سفر کے میدان میں ایک زبردست انقلابی تبدیلی برپا کر سکتے ہیں۔
دور حاضر
میں ایک پونڈ وزن کو زمین کے مدار میں بھیجنے کے لئے ١٠ ہزار ڈالر یا اس سے زیادہ
کی لاگت آتی ہے۔ مثال کے طور پر ہر خلائی
شٹل مہم میں آنے والی لاگت ٧٠ کروڑ ڈالر ہوتی ہے۔ خلائی بالا بر لاگت کو ایک ڈالر
فی پونڈ تک کم کر سکتا ہے۔ خلائی مہمات کی
بنیادی لاگت میں کمی خلائی سفر میں ایک انقلاب رونما کر سکتا ہے۔ ایک سادے سے بٹن
کو دبا کر کوئی بھی شخص ایک ہوائی جہاز کے ٹکٹ کی قیمت میں خلائی سفر کے مزے لے سکتا ہے۔
مگر اس
کام میں فلک کے لئے اٹھان بھر نے میں سخت
عملی رکاوٹیں موجود ہیں ۔ فی الوقت تجربہ گاہوں میں بنائی گئی کاربن نینو ٹیوبز ١٥
ملی میٹر سے زیادہ لمبی نہیں ہیں۔ خلائی بالا بر کو بنانے کے لئے ہمیں ہزاروں میل لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی
ضرورت ہوگی۔ سائنس دانوں کے نقطہ نظر سے یہ صرف ایک فنی مشکل ہے ،لیکن یہ ایک ضدی اور مشکل مسئلہ ہے اگر ہم خلائی بالا بر کو بنانا چاہتے ہیں تو اس کا حل نکالنا ضروری ہے۔ سائنس دانوں کی اکثریت کو اس بات پر یقین ہے کہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے کچھ
عشروں میں ہم لمبی کاربن نینو ٹیوبوں کی
تاروں کو بنانے میں مہارت حاصل کر لیں۔
دوسرے کاربن نینو ٹیوبز میں موجود خرد بینی کثافت لمبے تاروں کے حصول کو دشوار بنا دیتی ہیں۔
اٹلی میں واقع پولی ٹیکنیک آف ٹیورن کے"
نیکولا پنگو"(Nicola
Pungo) کے اندازے کے
مطابق اگر کاربن نینو ٹیوب میں سے ایک
ایٹم بھی اپنی جگہ سے ہٹا ہوا ہو تو اس کی
مضبوطی ٣٠ فیصد کم ہو جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ایٹمی پیمانے کے نقص نینو ٹیوبوں کی
تاروں کی مضبوطی کو ٧٠ فیصد تک کم کر سکتے ہیں
جس سے خلائی بالا بر کو سہارا دینے کے لئے ضروری درکار کم از کم گیگا پاسکل
مضبوطی کہیں کم ہو جاتی ہے۔
خلائی
بالا بر میں مہم کارانہ دلچسپی کو برقرار رکھنے کے لئے ناسا نے دو انعامات کے اجراء
کرنے کا اعلان کیا ہے۔( انعامات کو ایک کروڑ ڈالر کے" انصاری ایکس انعام"
کی طرز پر رکھا گیا ہے جس نے مہم کار
موجدوں میں ایک ایسے تجارتی خلائی جہاز بنانے کے لئے جذبہ پیدا کرنے میں کامیابی حاصل
کر لی ہے جو مسافروں کو خلاء کی آخری حد تک لے جا سکے۔ ایکس انعام ا سپیس شپ و
ن نے ٢٠٠٤ء میں جیت لیا تھا۔) ناسا جس
انعام کو پیش کر رہا ہے وہ بیم پاور چیلنج کہلائے گا۔ اس میں حصّہ لینے والی ٹیموں کو ایک ایسا آلہ بنانا
ہوگا ( جو کرین کی مدد سے ہوا میں معلق ہوگا۔) جو کم از کم ٢٥ کلو وزن کو ایک رسی کی مدد سے ایک میٹر فی سیکنڈ کی
رفتار سے ٥٠ میٹر کی دوری تک بھیج سکے۔ سننے میں یہ کافی آسان لگتا ہے ، مگر اصل
بات یہ ہے کہ اس آلے کو نہ تو کوئی ایندھن استعمال کرنا ہوگا نہ ہی کسی قسم کی
بیٹری یا برقی تار۔ اس کے برعکس روبوٹک
آلے کو درکار توانائی شمسی پینل ، شمسی
عاکس، لیزر یا خرد موجوں کے ذریعہ
حاصل کرنی ہوگی جو خلاء میں توانائی حاصل کرنے کے زیادہ مناسب طریقے ہیں۔
اس رسی کو بنانے کے چیلنج میں ٹیم کو ایک ٢ میٹر
لمبی رسی بھی بنانی ہوگی جس کا وزن ٢ گرام سے زیادہ نہ ہو اور جو پچھلے سال کی سب سے بہترین رسی کے مقابلے میں
٥٠ فیصد زیادہ وزن اٹھا سکتی ہوں۔ اس چیلنج کا مقصد ہلکی مادّے سے بنی ہوئے چیزوں کی
میں تحقیق میں تیزی پیدا کرنا ہے۔ یہ
مادّے اتنے مضبوط ہونے چاہئے کہ خلاء میں ایک لاکھ کلو میٹر تک لٹک سکیں۔ اس میں
١٥٠ لاکھ ڈالر ، ٤٠ ہزار ڈالر اور
١٠ ہزار ڈالر کے انعامات دیے جائیں
گے۔ (اس چیلنج کے مشکل ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ٢٠٠٥ء میں اس
چیلنج کو دیئے ہوئے ایک سال کے گزرنے کے بعد
بھی کسی نے کوئی بھی انعام نہیں جیتا۔)
اگرچہ
ایک کامیاب خلائی بالا بر خلائی مہمات میں انقلاب برپا کر سکتا ہے لیکن ایسی کسی بھی مشین کے اپنے مسائل بھی اپنی جگہ
موجود ہیں۔ مثال کے طور پر زمین سے قریب
مصنوعی سیارچوں کی خط حرکت زمین کے مدار
میں چکر لگانے کے ساتھ ساتھ ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہے۔(اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین
ان کے نیچے چکر لگاتی ہے )۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مصنوعی سیارچے کبھی نا کبھی خلائی بالا بر سے١٨ ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار
سے جا ٹکرائیں گے۔ اس رفتار سے ٹکر رسی کو توڑنے کے لئے کافی ہوگی۔ اس قسم کے حادثے
سے بچنے کے لئے مستقبل کے سیارچوں کو اس
طرح سے بنانا ہوگا کہ ان میں چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ خلائی بالا بر کے پاس سے آسانی کے ساتھ آگے پیچھے ہو کر گزر
سکیں یا پھر خلائی بالا بر کی رسی میں
چھوٹے راکٹ موجود ہوں تاکہ وہ ان
کی مدد سے سامنے آتے ہوئی سیارچوں سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔
کیونکہ
خلائی بالا بر زمین کی فضا سے کافی اونچائی پر ہوں گے۔ لہٰذا خرد شہابیوں کے تصادم
بھی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہوگا۔ عام طور سے ہمارا کرۂ فضائی ہمیں ان شہابیوں سے
بچاتا ہے۔ کیونکہ اس بات کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ کب خرد
شہابیے
آ کر ٹکرا جائیں اس لئے خلائی بالا
بر کو اس طرح سے بنانا ہوگا کہ وہ ان تصادموں سے اپنی حفاظت خود کر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایسے نظاموں میں فالتو پرزے بھی رکھے جائیں تاکہ ممکنہ ضرورت پڑنے پر ان کا استعمال کیا جا
سکے۔ زمین پر طوفانی موسموں کے رونما ہونے
کے اثرات جیسا کہ آندھیاں ، مدو جزر کی
موجیں اور طوفان بھی مشکلات کا باعث بن سکتے ہیں۔
غلیل کا اثر یا ثقلی مدد (The Slingshot Effect)
کسی بھی
جسم کو روشنی کی قریب ترین رفتار سے پھینکنے کا ایک اور نیا اور اچھوتا طریقہ "غلیلی
اثر" بھی ہے۔ جب خلائی کھوجیوں کو باہر ی سیاروں کی جانب روانہ کیا جاتا
ہے تو ناسا اکثر ان کو پڑوسی سیاروں کی
طرف غوطہ لگواتے ہیں تاکہ وہ غلیلی اثر کو
خلائی جہاز کی سمتی رفتار بڑھانے میں استعمال کر سکیں۔ ناسا اس طرح سے قیمتی ایندھن کی بچت کر لیتا ہے۔ یہ
ہی وہ طریقہ ہے جس کی مدد سے وائیجر خلائی
جہاز نظام شمسی کے دور دراز کنارے کے پاس
واقع نیپچون سیارے تک پہنچنے کے قابل ہوا تھا ۔
پرنسٹن
کے طبیعیات دان فری مین ڈیسن تجویز کرتے ہیں کہ مستقبل بعید میں ہمیں دو ایسے
نیوٹرون تلاش کرنے چاہیں جو ایک دوسرے کے گرد زبردست رفتار سے چکر لگا رہے ہوں۔ ان
میں سے کسی ایک کے انتہائی نزدیک سفر کرتے ہوئے ہم ان کے گرد ایک جھولا لے کر خلاء میں روشنی کی رفتار کے ایک تہائی سے
سفر کر سکتے ہیں۔ حقیقت میں ہم قوّت ثقل
کو اپنی رفتار کو مزید بڑھانے کے لئے
استعمال کر رہے ہوں گے۔ کاغذوں میں تو یہ طریقہ بالکل صحیح طرح سے کام کرتا ہوا
نظر آتا ہے۔
دوسرے ماہرین یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنے
سورج کے گرد اچھل کر روشنی کی رفتار کے
قریب تک کا اسراع حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ طریقہ درحقیقت فلم اسٹار ٹریک IV:دی
وائییج ہوم میں استعمال ہوا ہے جب
انٹرپرائز کا عملہ ایک کلنگون جہاز کو
اغواء کر لیتا ہے اور پھر سورج کے نزدیک جاتا ہے تاکہ روشنی کی رفتار کی حد کو توڑ
کر پچھلے وقت میں پہنچ جائے۔ فلم "وین ورلڈ ز کولائیڈ"
میں جب زمین پر ایک سیارچے سے تصادم کا خطرہ ہوتا ہے تو اس وقت سائنس دان زمین کو ایک دیو ہیکل رولر
کوسٹر بنا کر اس سے بچاتے ہیں۔ ایک خلائی جہاز رولر کوسٹر کی طرف بھیجا جاتا ہے ،
جو زبردست سمتی رفتار حاصل کرتے ہوئے رولر کوسٹر کے نیچے جھکائی
لیتا ہے اور خلاء میں انتہائی تیزی سے چھوڑ دیتا ہے۔
کشش ثقل
کے استعمال سے اضافی رفتار حاصل کرنے والا کوئی بھی ایسا طریقہ درحقیقت
خلاء میں کام نہیں کر سکے گا۔( اس کی وجہ" قانون بقائے
توانائی" ہے ، رولر کوسٹر میں نیچے جانے اور پھر واپس آنے میں ہم اسی سمتی رفتار پر اپنا خاتمہ کریں گے جس
رفتار سے ہم نے شروع کیا تھا لہٰذا اس
میں ہمیں کوئی اضافی توانائی حاصل نہیں
ہوگی۔ اس طرح سے ساکن سورج کے گرد اچھلنے سے ہمیں آخر میں وہی سمتی رفتار حاصل ہوگی جس سے ہم
نے شروعات کی تھی۔)دو نیوٹرون ستاروں کے استعمال سے ڈیسن کا طریقہ شاید اس لئے کام کر سکے گا کہ نیوٹرون ستارے بہت تیزی سے گھومتے ہیں۔ کوئی
بھی خلائی جہاز جو غلیلی اثر کا استعمال
کرتے ہوئی کسی سیارے یا ستارے کی حرکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی صرف شدہ توانائی
سے زیادہ توانائی حاصل کر لیتا ہے۔ اگر سیارہ یا ستارہ ساکن ہو تو کوئی ثقلی مدد
حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگرچہ ڈیسن کی تجویز قابل عمل ہے مگر یہ آج کی دنیا میں زمین پر رہنے والے سائنس
دانوں کے کسی کام نہیں آسکتی کیونکہ ہمیں
کسی بھی گھومتے ہوئے نیوٹرون ستارے تک پہنچنے کے لئے بھی ایک نجمی خلائی جہاز درکار ہوگا۔
فلکی ریلی بندوق
ایک اور
دوسرا شاندار طریقہ کسی بھی جسم کو خلاء میں زبردست سمتی رفتار سے داغنے کا"
ریل گن" کا ہے جس کو آرتھر سی کلارک اور دوسرے مصنفین نے اپنی سائنس فکشن کہانیوں میں استعمال کیا ہے ۔ اس طریقے کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اسٹار وار میزائل ڈھال کے لئے
بھی جانچا گیا تھا۔
کسی جسم
کو اضافی رفتار دینے کے لئے راکٹ ایندھن یا بندوق کے بارود کا استعمال کرنے کے
بجائے ریلی بندوق ، برقی مقناطیسی قوّت کا استعمال کرتی ہے۔ اپنی سادہ ترین شکل
میں ریلی بندوق دو متوازی تاروں یا
جنگلے پر مشتمل ہوتی ہے جس میں ایک گولا دونوں تاروں پر رکھے ہوئے ایک U کی شکل بناتا ہے۔ مائیکل فیراڈے بھی یہ بات جانتا تھا کہ برقی
رو کو جب مقناطیسی میدان میں رکھا جاتا ہے تو اس پر بھی قوّت اثر انداز ہوتی ہے۔( یہ
بات تمام برقی موٹروں کی اساس ہوتی ہے۔)ان تاروں اور گولے میں سے دسیوں لاکھوں ایمپئر کی برقی قوّت کو
گزار کر ایک زبردست مقناطیسی میدان ریل کے
چاروں طرف بنا دیا جاتا ہے۔ یہ مقناطیسی میدان اس کے بعد اس گولے کو ریل پر زبردست
رفتار سے نہایت ہی کم فاصلہ تک دھکیلتا ہے۔
قابل ذکر طریقے سے نظری طور پر ایک سادی سی ریلی بندوق دھات کے گولے کو ١٨ ہزار
میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکنے کے قابل ہوتی ہے۔ نظری طور پر ناسا کے تمام
راکٹوں کے بیڑے کو ریلی بندوق سے تبدیل کیا جا سکتا ہے جو کسی بھی جسم کو زمین کے
مدار میں بھیجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ریلی
بندوق کیمیائی راکٹوں اور بندوق کے اوپر
معنی خیز برتری رکھتی ہے۔ ایک بندوق میں سمتی رفتار کی وہ آخری حد صدماتی
موجوں کی رفتار سے محدود ہو جاتی ہے جس میں پھیلتی ہوئی گیسیں گولی کو دھکیلتی ہیں۔
ہرچند کہ جولیس ورنی نے خلا نورد کو چاند پر بھیجنے کے لئے بندوق کا بارود اپنی
کلاسک کہانی "فرام دا ارتھ ٹو دا مون " میں استعمال کیا
تھا۔ لیکن اس بات کا اندازہ لگانا بہت ہی آسان ہے کہ بندوق کے بارود کی سمتی رفتار
اس رفتار سے کہیں زیادہ کم ہوتی ہے جو کسی کو چاند پر بھیجنے کے لئے ضروری ہوتی ہے۔
ریلی بندوق کو بہرحال صدماتی موجوں کی رفتار تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔
مصیبت یہ
ہے کہ ریلی بندوق کے ساتھ بھی کچھ مسائل
جڑے ہوئے ہیں۔ یہ چیزوں میں اس قدر تیز اسراع پیدا کر دیتی ہے کہ وہ ہوا سے ٹکرا کر
چپٹے ہو جاتے ہیں۔ ریلی بندوق کی نالی سے نکلنے والی چیزیں اس عمل میں بری طرح سے مسخ ہو جاتی ہیں کیونکہ جب پھینکی گئی اشیاء ہوا سے ٹکراتی ہیں وہ
ایسا اثر محسوس کرتی ہیں جیسے انھیں اینٹوں کی دیوار پر مارا جا رہا ہو۔ مزید براں
یہ کہ بھیجی جانے والی چیزوں کا زبردست اسراع ریل کے ساتھ اتنا ہوتا ہے کہ وہ ریل کو بھی مسخ کر دیتا ہے۔ ریل کی پٹری کو بھی باقاعدگی
کے ساتھ بدلنا ہوگا کیونکہ اس کو گولے کی وجہ سے نقصان پہنچے گا۔
مزید براں یہ کہ خلا نوردوں پر لگنے والی
جی فورس ان کو جہان فانی سے کوچ کرانے کے لئے کافی ہوگی اور ان کے جسم میں موجود تمام ہڈیوں کا بآسانی
چورا بنا ڈالے گی۔
ایک
تجویز تو یہ ہے کہ ریلی بندوق کو چاند پر لگایا جائے۔ زمین کی فضا سے باہر ریلی بندوق کا گولا باہر ی خلاء کی خالی جگہ
میں سے بغیر کسی پریشانی کے کسی بھی چیز کو بآسانی پھینک سکے گا۔ لیکن اس کے باوجود ریلی
بندوق سے پیدا شدہ زبردست اسراع مسافروں
کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ریلی بندوق ، لیزر بادبان کے برعکس کام کرتا ہے جو اپنی آخری رفتار کو ایک لمبے عرصے میں جا کر
حاصل کرتا ہے۔ ریلی بندوق محدود ہوتی ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ توانائی بہت ہی کم
جگہ میں جمع کیے ہوتی ہیں۔
ایسی
کوئی بھی ریلی بندوق جو کسی بھی شئے کو
قریبی ستارے کی طرف پھینک سکے کافی مہنگی ہوگی۔ ایک تجویز یہ ہے کہ سورج سے دو
تہائی دوری پر ریلی بندوق کو خلاء میں ہی بنا
لیا جائے۔ یہ شمسی توانائی کا ذخیرہ کرکے اس حاصل کردہ توانائی کو ریلی بندوق میں اچانک سے خارج کرے
گی جس سے ١٠ ٹن وزنی کسی بھی جسم کو روشنی کی ایک تہائی رفتار
سے ٥٠٠٠ جی فورس کے اسراع کے ساتھ پھینک
سکتی ہے۔ اس بات میں شاید کوئی حیرانی
نہیں ہونی چاہئے کہ کوئی سخت جان روبوٹ ہی اس زبردست اسراع میں باقی بچ سکتا ہے۔
خلائی سفر کے خطرات
ظاہر سی
بات ہے کہ خلاء میں سفر کوئی چھٹی والے دن کی سیر و تفریح نہیں ہے۔ خطرناک قسم کے
خطرات انسان بردار خلائی جہاز کو مریخ اور اس سے آگے لے جانے کے درمیان راستہ میں منہ
کھولے کھڑے ہیں۔ کرۂ ارض پر حیات کروڑوں برسوں سے محفوظ ہے :سیارے کی اوزون کی تہ زمین کو
بالائے بنفشی شعاعوں سے بچاتی ہے ، اس کے مقناطیسی میدان شمسی طوفانوں اور کائناتی
شعاعوں سے بچاتے ہیں ، اس کا کثیف کرۂ
فضائی ان شہابیوں سے بچاتا ہے جس کو یہ داخل ہوتے ہی بھسم کر دیتی ہے۔ ہم زمین پر
پائے جانے والے معتدل درجہ حرارت اور دباؤ
کو بہت ہی ہلکا لیتے ہیں۔ مگر خلائے بسیط میں
ہمیں حقیقت حال کا سامنا کرنا ہوگا
جو ہمیں بتاتی ہے کہ کائنات میں طوفان بدتمیزی مچا ہوا ہے جہاں مہلک شعاعی پٹیاں اور ہلاکت خیز شہابیوں کے جتھے کے جتھے موجود ہیں۔
سب سے پہلے
خلائی سفر کے دوران بے وزنی کی حالت کا مسئلہ
حل کرنا ہوگا۔ بے وزنی کی کیفیت پر کی جانے والی روسی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ جسم کے
بہت سارے قیمتی معدنیات اور
نامیاتی کیمیائی اجزاء خلاء میں امیدوں کے بر خلاف تیزی سے ختم ہوتے ہیں۔ سخت قسم
کی جسمانی مشقوں کے باوجود خلائی ا سٹیشن
پر ایک سال گزارنے کے بعد روسی خلا نوردوں کے پٹھے اور ہڈیاں اس قدر لاغر ہو گئے تھے کہ وہ جب پہلی مرتبہ
زمین پر واپس آئے تو بچوں کی طرح گھٹنوں کے بل بھی مشکل سے چل پا رہے تھے۔ پٹھوں
کا لاغر ہونا ، ہڈیوں کے پنجر میں بگاڑ ،
خون میں سرخ خلیوں کی پیداوار میں کمی، حفاظتی اور قلبی نظام کی پستی
خلاء میں زیادہ لمبا عرصہ گزارنے کے نتیجے میں ہونے والے کچھ لازمی اثرات ہیں۔
مریخ کی مہم جو کئی مہینوں سے لے کر ایک سال پر
محیط ہو سکتی ہے وہ ہمارے خلاء نوردوں کی
برداشت کا آخری امتحان ہوگی۔ لمبے عرصے کے قریبی ستاروں کے سفر میں یہ مسئلہ تو ہلاکت خیز ہوگا۔ مستقبل کے خلائی
جہازوں میں کسی قسم کے گھماؤ کی ضرورت ہوگی جو قوّت ثقل کو مرکز گریز کی قوّت کے
ذریعہ پیدا کر سکے تاکہ انسان اس میں آسانی
کے ساتھ زندہ رہ سکے۔ انسانی ماحول سے مطابقت پذیری، پیچیدگی اور لاگت کو بے تحاشا بڑھا دے گی۔
دوسرے دسیوں ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری رہنے
والے خلائی سفر کے راستے میں خرد شہابیوں کی موجودگی کی وجہ سے اس بات کی ضرورت
ہوگی کہ خلائی جہاز کو اضافی طور پر ان سے محفوظ بنایا جائے۔ خلائی جہازوں کا قریبی جائزہ لینے سے بہت سے چھوٹے مگر ممکنہ طور
پر مہلک ننھے شہابیوں کے تصادموں کے ثبوتوں کا سراغ ملا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں
خلائی جہاز میں عملے کے لئے دوہرے مضبوط خانے موجود ہوں۔ خلائے بسیط میں شعاعی سطح
ہماری سوچ سے بھی کہیں زیادہ پائی گئی ہے۔ مثال کے طور پر سورج کے داغ آفتابی کے
گیارہ سالہ چکر میں شمسی طوفان بہت زیادہ
مقدار میں مہلک پلازما کو زمین کی طرف
پھینکتے ہیں۔ ماضی میں اس مظاہر کے نتیجے
میں خلائی ا سٹیشن پر موجود خلا نورد خصوصی
حفاظتی اقدامات کے ذریعہ ان مہلک ذیلی ایٹمی ذرّات سے پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
اس قسم
کے شمسی طوفانوں کے دوران خلائی چہل قدمی انتہائی مہلک ہو سکتی ہے۔(مثال کے طور پر
لاس اینجیلس سے نیو یارک کے سفر کے دوران ہی
ہم شعاعوں کے نشانے پر ہوتے ہیں۔ اس سفر کے دوران ہم اتنی شعاعوں کا سامنا کرتے ہیں جتنی کہ دانت
کا ایکس رے کرنے کے دوران کرنا پڑتا ہے۔) خلائے بسیط میں جہاں کرۂ فضائی اور زمینی
مقناطیسی میدان موجود نہیں ہیں ہمیں ان سے
بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ شعاعوں کا سامنا کرنا ایک سنجیدہ مسئلہ بن سکتا ہے۔
سکتہ یا غنودگی
ابھی تک
جن راکٹوں کو میں نے بیان کیا ہے ان کے
ضمن میں ایک مستقل تنقید کی جاتی ہے کہ
اگر ہم ایسے کوئی خلائی جہاز بنا بھی لیں تو بھی ہمیں عشروں سے لے کر صدیاں تک کا
وقت قریبی ستاروں تک پہنچنے کے لئے درکار
ہو گا ۔ اس قسم کی مہمات میں کئی نسلوں پر مشتمل عملے کی ضرورت ہوگی جن کی نسل اپنی آخری منزل پر پہنچ سکے گی۔
اس مسئلہ
کا ایک حل فلم "خلائی مخلوق" اور" پلانیٹ آف
دی ایپس" میں تجویز کیا ہے جس میں خلائی مسافروں کو سکتے یا
غنودگی کی حالت میں لے جایا جاتا ہے۔ یعنی ان کا جسمانی درجہ حرارت
انتہائی محتاط طریقے سے پست کیا جاتا ہے یہاں تک کہ جسم تقریباً کام کرنا بند کر
دیتا ہے ،کچھ جانور ہر موسم سرما میں اس غنودگی میں جاتے ہیں۔ کچھ مخصوص مچھلیاں
اور مینڈک ٹھوس برف کے بلاک میں منجمد ہو جاتے ہیں اور اس کے باوجود جب درجہ حرارت بڑھتا ہے تو
واپس اٹھ جاتے ہیں۔
اس
پراسرار مظاہر پر تحقیق کرنے والے حیات دانوں کو یقین ہے کہ ان جانوروں میں قدرتی طور پر مانع
منجمد ہونے کی صلاحیت موجود ہے جو پانی کی
نقطہ انجماد کو کم کر دیتی ہے۔ مچھلی کے اس مانع منجمد میں کچھ مخصوص پروٹین ہوتے
ہیں جبکہ مینڈکوں میں یہ گلوکوز پر مشتمل
ہوتے ہیں۔ اپنی خون میں ان پروٹین کی مقدار
کو بڑھا کر مچھلی آرکٹک میں منفی ٢ سیلسیس تک زندہ رہ سکتی ہے۔ مینڈکوں نے
یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ وہ اپنے گلوکوز کی سطح کو بلند کر لیں جس کی وجہ سے برف کی قلموں میں تبدیل ہو جانے
سے بچ جاتے ہیں۔ اگرچہ ان کے جسم باہر سے دیکھنے میں ٹھوس منجمد لگتے ہیں لیکن وہ
اندرونی طور پر منجمد نہیں ہوتے لہٰذا ان کے اندرونی اعضاء اپنا کام عمل انجام دیتے رہتے ہیں اگرچہ ان کے کام کرنے کی شرح بہت ہی کم ہوتی ہے۔
بہرحال
فقاریوں میں اس قسم کی صلاحیت کو حاصل کرنے میں کافی مسائل کا سامنا ہے۔ جب انسانی
خلیات جمتے ہیں تو برف کی قلمیں خلیوں کے
اندر بننے لگتی ہیں۔ یہ قلمیں بڑھنے کے ساتھ خلیات میں سرایت کرتی ہوئی ان کو تباہ کر دیتی ہیں (وہ مشہور شخصیات جو اپنے
سروں اور جسموں کو مرنے کے بعد مائع نائٹروجن
میں منجمد کا کروانے کا سوچ رہے
ہیں وہ ذرا ایک دفعہ پھر سے سوچ لیں۔)
ان تمام
باتوں سے ہٹ کر ، اس میدان میں کچھ
محدود پیش رفت چوہوں اور کتوں کے جیسے
فقاریوں میں ہوئی ہے جو قدرتی طور پر غنودگی
کے عمل کو سرانجام نہیں دے سکتے۔ ٢٠٠٥ء میں یونیورسٹی آف پٹس برگ کے سائنس دانوں نے کتوں کو دوبارہ زندگی کی طرف اس وقت لوٹایا جب ان کا
تمام خون نکال کران کو ایک خصوصی برف کے ٹھنڈے محلول سے بدل دی گیا تھا ۔
تشخیصی طور پر تین گھنٹے مردہ رہنے کے بعد
کتوں کو زندگی کی طرف دل کو دوبارہ دھڑکا کر لایا گیا۔(اگرچہ زیادہ تر کتے
اس عمل کے بعد بھی صحت مند رہے مگر کچھ کو
دماغی چوٹ آئی۔)
اس برس
سائنس دانوں نے ایک چوہے کو ایک ایسے خانے میں رکھا جس میں ہائیڈروجن سلفائڈ موجود تھا۔ اس کے نتیجے میں انہوں نے
کامیابی کے ساتھ ان کے جسم کا درجہ حرارت
١٣ سیلسیس تک ٦ گھنٹوں کے لئے گرا دیا تھا۔ ان کے عمل استحالہ کی شرح ١٠ گنا سے گر گئی تھی۔ ٢٠٠٦ء میں بوسٹن میں
واقع میسا چوسٹس جنرل ا ہسپتال میں
ڈاکٹروں نے خنزیر اور چوہے کو غنودگی کی
حالت میں ہائیڈروجن سلفائڈ کا استعمال
کرتے ہوئے رکھا۔
مستقبل
میں ایسے عمل کو ان لوگوں کی جان بچانے میں استعمال کیا جا سکتا ہے جو انتہائی خطرناک قسم کے حادثے سے دو
چار ہوئے ہوں یا جن کو دل کا دورہ پڑا ہوا جس میں ہر لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے۔
غنودگی سے ڈاکٹروں کو مریض کو اس وقت تک منجمد کرنے میں مدد ملے گی جب تک ان کا علاج شروع نہ ہو
جائے۔ لیکن اس عمل کو حاصل کرنے میں ابھی کچھ عشرے یا شاید اس سے بھی زیادہ وقت درکار
ہوگا۔ اس کے بعد ہی ہم اس مہارت کو انسانی خلا نوردوں پر استعمال کر سکیں جن کو صدیوں تک حالت غنودگی میں رکھنے کی ضرورت
ہوگی۔
نینو خلائی جہاز
ہمارے
پاس ستاروں پر کمند ڈالنے کے اور دوسرے کافی خیالات موجود ہیں۔ یہ خیالات جدید طریقہ تو استعمال کرتے ہیں لیکن ابھی تک ان کی ٹیکنالوجی کو عملی طور پر ثابت نہیں کیا جا سکا ہے جس کی
وجہ سے ان طریقوں کی حیثیت سائنس فکشن میں
دکھائے جانے والے طریقوں سے زیادہ کی نہیں ہے ۔ ایک امید افزا تجویز نینو ٹیکنالوجی
کا استعمال کرتے ہوئے غیر انسان بردار کھوجی کی ہے۔ اس تمام بحث میں
ابھی تک میں نے اپنی گفتگو کا دائرہ کار جہازی قسم کے خلائی جہازوں تک رکھا تھا جو کثیر مقدار میں توانائی کو صرف کرتے ہیں اور انسانی عملے کو ستاروں تک لے جا نے کے قابل
ہوں گے جیسا کہ اسٹار ٹریک فلم کا خلائی جہاز انٹرپرائز تھا۔
مگر ابتدائی
کھوجیوں کو ستاروں کے سفر پر بھیجنے کے سب سے اہل اور موزوں امیدوار چھوٹے غیر
انسان بردار جہاز ہیں جو روشنی کی رفتار سے سفر کر سکیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی
بتایا تھا کہ مستقبل میں نینو ٹیکنالوجی کو
استعمال کرتے ہوئے یہ بات ممکن ہے کہ ایسے ننھے خلائی جہاز بنائے جا سکیں جو ایٹمی اور سالماتی جسامت کی مشینوں کو
قوّت فراہم کریں۔ مثال کے طور پر ہلکے برق پاروں کو روشنی کی رفتار کے قریب آسانی کے ساتھ ہماری تجربہ گاہوں میں پائے جانے
والے عام سے وولٹیج کا استعمال کرتے ہوئے
اسراع دیا جا سکتا ہے۔ ان راکٹوں کے برعکس جن کو دیوہیکل بوسٹر کی ضرورت ہوتی ہے ننھے
خلائی جہاز خلاء میں برقی مقناطیسی لہروں
کا استعمال کرکے روشنی کی رفتار کے انتہائی قریبی رفتار سے بھیجے جا سکتے ہیں۔ اس
کا مطلب ہے کہ اگر نینو بوٹ کو آئنائزڈ کرکے برقی میدان میں رکھا جائے تو وہ آسانی کے ساتھ روشنی کی رفتار کے قریبی رفتار
کے ذریعہ خلاء میں روانہ کیے جا سکیں گے۔ اس کے بعد نینو بوٹ ستاروں پر کمند ڈالنے
کے لئے تیار ہوں گے کیونکہ خلاء میں رگڑ
کی قوّت موجود نہیں ہوتی۔ اس طرح سے وہ تمام مسائل جو بڑے جہازی خلائی جہازوں کے
ساتھ چمٹے ہوئے ہیں ان سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا اور وہ فوری طور پر حل ہو جائیں
گے۔ غیر انسان بردار ذہین نینو بوٹ خلائی جہاز ممکنہ طور پر کسی قریبی ستارے کے نظام تک پہنچ سکیں۔ ان کو
بنانے کی لاگت بھی بڑے انسانی عملہ بردار جہازوں
کے مقابلے میں انتہائی کم آئے گی۔
ایسے
نینو خلائی جہاز قریبی ستاروں تک پہنچے
کے لئے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ایک
ریٹائر فضائی فوج کے خلائیاتی انجنیئر "جیرالڈ
نورڈلے"(Gerald
Nordley) تجویز کرتے ہیں کہ شمسی بادبان کو خلاء میں
دھکیلا جائے۔ نورڈلے کہتے ہیں کہ " سوئی کی نوک جتنے خلائی جہازوں کے جتھے
بنانے کے ساتھ جو خود کی نقل بنا سکیں اور آپس میں خود سے رابطہ بھی کر سکیں ہم ان کو عملی طور پر روشنی کی رفتار کے قریب
سے خلاء میں چھوڑ سکتے ہیں۔"
مگر نینو
نجمی خلائی جہازوں کو بنانے کے لئے بھی ہمیں مختلف چیلنجوں سے نمٹنا ہوگا۔ خلائے
بسیط میں ان کے راستہ میں پڑنے والے برقی اور مقناطیسی میدان ان کو مقررہ راستے سے منحرف کر سکتے ہیں۔ ان قوّتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں ان نینو خلائی
جہازوں کو زمین پر ہی بہت ہی بلند وولٹیج
پر اسراع دینا ہوگا تاکہ ان کو آسانی سے
مقررہ راستے سے گمراہ نہ کیا جا سکے۔ دوسرے ہمیں شاید لاکھوں نینو شپس کے جھنڈ
خلاء میں بھیجنے ہوں گے تاکہ ہمیں اس بات کی ضمانت حاصل ہو کہ ان میں سے اچھی خاصی
تعداد اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے گی۔
ایسے
نینو خلائی جہاز کیسے دکھائی دیں گے؟ "ڈین گولڈن"(Dan
Golden) ناسا کے سابق سربراہ ایک مشروب کے کین کے جتنے خلائی جہاز کا تصوّر کرتے ہیں۔ جبکہ دوسرے لوگ سوئی جتنے جہازوں کی بھی بات کر رہے ہیں۔ پینٹاگون اسمارٹ دھول کو بنانے کے امکانات کا جائزہ لے
رہی ہے۔ حساسئے لگے دھول جتنے ذرّات کی پھوار کو جنگ کے میدان میں پھینک کر
جنگی سالار کو فوری اطلاعات دی جا سکیں گی۔ یہ بات قابل ادرک ہے کہ مستقبل
میں ایسی کوئی خاک قریبی ستاروں تک بھیجی جا سکتی ہے۔
خاک کے
ذرّے جتنے نینو بوٹ اسی نقش نگاری والی
فنی مہارت کا استعمال کرتے ہوئے بنائے جائیں گے جس کو نیم موصل صنعت میں استعمال
کیا جاتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال
کرتے ہوئے ٣٠ نینو میٹر جتنے یا ١٥٠
ایٹموں پر پھیلے ہوئے حصّے بنائے جا سکتے
ہیں ۔ ان نینو بوٹوں کو چاند سے کسی ریلی بندوق سے یا کسی ذرّاتی اسراع گر کی مدد
سے روانہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ آلات انتہائی کم لاگت سے تیار کیے جا سکیں گے جس کے نتیجے میں دسیوں لاکھوں کی تعداد میں ان
کو خلاء میں روانہ کیا جا سکے گا۔
ایک دفعہ
وہ کسی قریبی ستارے کے نظام کے پاس پہنچ جائیں
تو پھر یہ کسی دور دراز کے چاند پر اتر سکتے ہیں۔ چاند کی کم قوّت ثقل کی
وجہ سے نینو بوٹ وہاں پر آسانی سے اتر بھی سکتے ہیں اور وہاں سے بغیر کسی مشکل کے خلاء میں بھی جا
سکتے ہیں۔ ایک مستقل اڈہ بنانے کے لئے چاند
پر جگہ بھی مل سکتی ہے جہاں سے وہ اپنا
کام آسانی سے جاری رکھ سکتا ہے۔ نینو بوٹ چاند پر پائے جانے والی معدنیات کا
استعمال کرتے ہوئے نینو کارخانے بھی بنا
سکتے ہیں۔ زمین پر اطلاعات کو بھیجنے کے لئے وہ وہاں پر ایک طاقتور ریڈیو ا سٹیشن
بھی قائم کر سکتے ہیں ۔ نینو کارخانے میں
اپنے جیسے دسیوں لاکھوں نینو بوٹس کی نقلیں تیار کرکے ماورائے شمس نظام کی چھان بین کرنے کے
لئے بھیج سکتے ہیں تاکہ مزید دوسرے ستاروں کی طرف روانہ ہو کر اس عمل کو دہرا
سکیں۔ روبوٹک ہونے کی وجہ سے ایک دفعہ جب یہ اطلاعات کو زمین پر بھیجیں گے تو اس کے بعد ان کو واپس آنے کی ضرورت نہیں
ہوگی۔
جو نینو
روبوٹ میں نے ابھی بیان کیے ہیں اکثر ان کو وان نیومین کھوجی بھی کہتے ہیں جن کا
نام مشہور ریاضی دان "جان وان نیومین"(John
Von Neumann) کے نام پر رکھا
گیا ہے جنہوں نے خود نقلچی ٹیورنگ مشینوں کی ریاضی پر کام کیا ہوا ہے۔ نظریاتی
طور پر ایسے نینو روبوٹ صرف قریبی ستاروں کی ہی نہیں بلکہ پوری کہکشاں کی خاک
چھاننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ آخر کار ایسے
کھرب ہا روبوٹوں کے بھنڈار حاصل ہو جائیں گے جو
شرحاً انتہائی تیزی سے اپنی تعداد کو بڑھاتے ہوئے روشنی کی رفتار سے پھیل
رہے ہوں گے۔ اس پھیلتے ہوئے کرۂ میں موجود
نینو بوٹ پوری کہکشاں کو چند ہزار سال میں ہی آباد کر سکتے ہیں۔
یونیورسٹی
آف مشی گن کے برائن گلکرسٹ جو ایک
الیکٹریکل انجنیئر ہیں انہوں نے نینو جہازوں کے خیال کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔
ابھی حال میں ہی انھیں ایک ٥ لاکھ ڈالر کا مالی تعاون ناسا کے انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ کانسپٹس سے حاصل
ہوا ہے تاکہ وہ کسی جرثومے کے حجم جتنے نینو خلائی جہازوں کو بنانے کے خیال کی چھان بین کر سکیں۔ انہوں نے اسی
نقشی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنے کا سوچا
ہے جو نیم موصل صنعت میں استعمال ہو رہی
ہے تاکہ کئی دسیوں لاکھ پر مشتمل نینو خلائی جہازوں کا بیڑا بنایا جائے۔ ان نینو
جہازوں میں ننھے١٠ نینو میٹر کے ذرّات کو خارج کرکے دھکیل کی قوّت حاصل ہو سکے گی۔ یہ نینو ذرّات برقی میدان سے گزرتے ہوئے قوّت برداری کو اس سے حاصل کریں گے بعینہ ایسے جیسا کہ کسی برق پارے
انجن میں ہوتا ہے۔ کیونکہ ایک نینو ذرّات کا وزن ایک برق پارے کے مقابلے میں ہزار
گنا زیادہ ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی برق پارے
کے انجن کے مقابلے میں اس انجن میں دھکیل کی قوّت کو زیادہ اچھی طرح سے دبا کر ڈالا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا ان نینو خلائی
جہازوں کے انجن کا وہی فائدہ ہوگا جو کسی برق پارے کے انجن کا ہوتا ہے بس صرف فرق اتنا ہوگا کہ ان میں دھکیل کی قوّت
زیادہ ہوگی۔ گلکرسٹ نے ان نینو خلائی
جہازوں کے کچھ حصّوں کو تو نقش کر لیا ہے
ابھی تک انہوں نے ١٠ ہزار انفرادی دھکیلوں
کو ایک سلیکان کی چپ پر لگا دیا ہے جو ایک سینٹی میٹر لمبی ہے شروع میں انہوں نے اپنے ان نینو جہازوں کے بیڑے
کو نظام شمسی میں بھیجنے کا سوچا ہے لیکن حتمی طور پر انھیں بھی اس بیڑے کا حصّہ بننا ہوگا جس کو ستاروں کی
طرف بھیجا جائے گا۔
گلکرسٹ
کی تجویز مستقبل کی ان کئی تجویزوں میں سے
ایک ہے جو ناسا کے زیر غور ہیں۔ کئی دہائیوں کی غیر فعالیت کے بعد ناسا نے ابھی کچھ انتہائی سنجیدہ توجہ نجمی خلائی سفروں کے ممکنہ
انتخاب پر دینی شروع کی ہے۔ ان تجا ویزوں میں کچھ تو
قابل یقین ہیں جبکہ کچھ انتہائی
طلسماتی ہیں۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اوائل سے ہی ناسا نے ایک سالانہ ایڈوانسڈ اسپیس
پروپلشن ریسرچ ورکشاپ شروع کی ہے جس کے دوران ان ٹیکنالوجی کو سنجیدگی کے ساتھ انجنیئر ز اور طبیعیات دانوں
کی ٹیموں نے منتخب کیا ہے۔ ایک اور اولوالعزم منصوبہ ایک انقلابی پروپلشن فزکس پروگرام ہے جو کوانٹم کی پراسرار دنیا کی چھان بین، نجمی خلائی
سفر کے لئے کرے گا۔ اگرچہ ابھی تک کوئی اتفاق رائے تو قائم نہیں ہو سکا لیکن زیادہ تر توجہ
سب سے آگے رہنے والے پروگراموں مثلاً لیزر بادبان اور دوسرے کئی قسم کے گداختی
راکٹ وغیرہ پر ہی مرکوز رکھی ہے۔
خلائی
جہازوں کو بنانے کے میدان میں دھیمی لیکن مستقل پیشرفت کے مد نظر اس بات
کو معقولیت کے ساتھ فرض کیا جا سکتا ہے کہ شاید اس صدی کے خاتمے پر یا پھر
نئی صدی کے آغاز میں کسی بھی قسم کا پہلا غیر انسانی بردار کھوجی کسی قریبی ستارے کی طرف روانہ کیا جا سکے گا۔ اس وجہ سے میں اس کو جماعت "I" کی ممکنات
میں درجہ بند کر رہا ہوں۔
ہو سکتا
ہے کہ سب سے زیادہ طاقتور خلائی جہاز کا وہ نمونہ ہو جس میں ضد مادّے کا استعمال ہو۔ ہرچند یہ بات سننے میں کسی سائنسی قصّے کا حصّہ لگتی
ہے ، لیکن ضد مادّہ زمین پر پہلے ہی بنایا
جا چکا ہے اور گمان غالب ہے کہ قابل عمل انسان بردار خلائی جہاز کے لئے ایک
دن ہمیں سب سے پر امید نمونہ اسی سے حاصل
ہو۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں