Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 27 اکتوبر، 2015

    قلب خورشید سے روشنی کا سفر

    قلب خورشید سے روشنی کا سفر 
    How The Universe Works - Season 3, Episode 1

    آفتاب  نیوکلیائی توانائی کا  منبع ہے۔ چراغ آفتاب نے کرہ ارض پر حیات کا دیا روشن کیا ہوا ہے۔ سورج ہمارا سب سے قریبی ستارہ ہے یہ  اور اس کی روشنی مل کر ہمیں اور  ہماری دنیا کو   توانائی فراہم کر رہے ہیں۔ روشنی کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے ہیں۔

    ہم اس مضمون  میں روشنی کے ایک ننھے ذرّے "ضیائیے " (فوٹون) کی اس بے رحم یاترا کا ماجرا بیان کرنے کی کوشش کریں گے جو وہ  سورج کی گہرائی میں موجود اس کی  کوکھ سے جنم لے کر شروع کرے گا ۔ قلب خورشید  سے شروع ہونے والے  روشنی کے اس ننھے ذرّے کے حیرت انگیز سفر کا اختتام اکثر اس وقت ہوتا ہے  جب ہم نگاہ  اٹھا کر اوپر آسمان کی جانب دیکھتے ہیں اور وہ  روشنی کا ذرّہ ہماری آنکھوں سے  ٹکراتا ہے۔ ہم اس  باب   میں  قلب خورشید میں فوٹون کے قدیمی جنم سے لے کر اس وقت تک کی سیاحت بیان کرنے کی کوشش کریں گے جب وہ سورج کی سطح پر پہنچ کر لاکھوں سال کی قید سے  راہ فرار حاصل کرتا ہے۔
    روشنی کے ذرّے کو سورج سے نکلنے کے لئے لاکھوں برسوں جدوجہد میں گزارنے ہوتے ہیں۔


     اس وقت جو یہ  روشنی ہم تک پہنچ رہی ہے وہ اس ساعت  کی پیداوار ہے جب انسانی تہذیب کا جنم بھی نہیں ہوا تھا۔ روشنی کا ہر وہ ذرّہ جو ہم تک پہنچتا ہے،  وہ ذرّہ ہوتا ہے جس  نے دسیوں لاکھ سال کا  سفر ہمارے نظام شمسی کے  سب سے تند و تیز ماحول  میں سے کرتے ہوئے زمین پر روشنی اور زندگی کو رواں دواں کیا۔

    کائنات ، ارب ہا کہکشاؤں کی دنیا ہے۔۔۔  اور ہر ایک کہکشاں ارب ہا  ستاروں کا گھر ہے۔۔۔۔ ہماری کہکشاں – ملکی وے کے  ایک عام سے کونے میں ہمارا سورج واقع ہے۔۔۔۔ یہ ہمارا  سب سے قریبی تارہ ہے  جو  ایک خیرہ  کناں  کرۂ ہے  اور یہ اتنا زیادہ  روشن ہے کہ ہم اس کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتے۔ اس چکا چوند کر دینے والی روشنی کے پردے  ہٹائیں تو ہمیں یہ ایک دیوہیکل زبردست گرم گیس کی گیند میں تبدیل ہوتا دکھائی دے گا جس نے ہماری دنیا اور اس نظام پر اپنا  تسلط قائم کر رکھا ہے۔

    سورج ہماری دنیا کا سب سے اہم کردار ہے۔ سورج ہمارے نظام شمسی کا مائی باپ ہے۔ اس نے اپنی رعایا کو  ہر چیز فراہم کی  ہے۔ توانائی ، روشنی اور حرارت حاصل کرنے کا ہمارا انحصار سورج پرہی تو  ہے۔ سورج کے بغیر ہمارا وجود قائم  ہی نہیں رہ سکتا۔ زمین پر موجود تمام حیات کے لئے حرارت اور روشنی سورج ہی پیدا کرتا ہے۔ انسانوں کے جسم میں موجود توانائی   سورج سے ہی کی عطا کردہ ہے  یہ  وہی توانائی ہے جس کا استعمال کرتے ہوئے میں یہ باب  تحریر کر رہا ہوں اور آپ اس توانائی کا استعمال کرتے ہوئے اس کو پڑھ رہے ہیں۔ سورج ہی ہمارے ارد گرد موجود تمام حیات  کی نمو کرنے  والا ہے۔

    سورج میں  ہمہ وقت نیوکلیائی تعامل جاری رہتا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہ لیں کہ اس کے قلب میں  مستقل نیوکلیائی بم پھٹ رہے ہوتے ہیں۔  نظام شمسی میں موجود ہر چیز کی طاقت و قوّت  کا سرچشمہ  سورج  سے نکلنے والی  نیوکلیائی توانائی ہی ہے۔ ہمارا زمین پر وجود اسی سورج کی روشنی کی رہینِ  منّت  ہے۔ ہماری بقاء انہی نیوکلیائی تعاملوں کی دین  ہے  یہ  اگر نہ ہوتے تو ہمارے وجود کے ہونے کی کوئی وجہ نہ ہوتی۔

     روشنی کائنات کو  تعمیر  کرنے والی  بنیادی اکائیوں میں سے ایک ہے۔ کائنات کی سب سے حیرت انگیز چیزوں  میں سے ایک چیز یہ روشنی بھی ہے۔ روشنی ہی سب کچھ ہے اور یہ پورے کائنات میں ہر جگہ موجود ہے۔ یہ ان تمام چیزوں کی بنیاد ہے جو اس کائنات میں موجود ہیں۔ یہ بنیادی چیز انتہائی سریع  رفتار بھی ہے  بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ کائنات میں موجود تمام  چیزوں  سب سے زیادہ تیز بھی   اسی کی رفتار  ہے۔۔۔۔ روشنی لگ بھگ ایک لاکھ چھیاسی  ہزار میل فی سیکنڈ کی زبردست رفتار سے سفر کرتی ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ لگ بھگ نو  کروڑ تیس  لاکھ میل کے قریب ہے  لہٰذا اپنی اس زبردست رفتار کے باوجود بھی اس کی روشنی ہم تک پہنچنے میں کچھ آٹھ  منٹ تک لے لیتی ہے۔
    سورج کی روشنی زمین تک پہنچے میں لگ بھگ 8 منٹ لے لیتی ہے۔

     لیکن  یہ آٹھ منٹ تو اس روشنی کے سفر کے آخری حصّے کا انتہائی مختصر حصّہ ہوتا ہے۔ روشنی کو سورج کے غضبناک اندرون سے نکلنے میں دس لاکھ سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے  ۔ اس کا مطلب ہے کہ روشنی جو ہم تک اس وقت پہنچ رہی ہے وہ دس لاکھ سال پہلے اس وقت پیدا ہوئی ہوگی جب ہمارے آباؤ اجداد نے افریقہ کے میدانوں  سے ہجرت کی ہوگی۔ یہ بات اس قدر تعجب خیز ہے کہ کئی سائنس دانوں کو بھی جب فوٹون کی قدامت  کا  معلوم ہوتا ہے تو وہ حیرت سے گنگ ہو جاتے ہیں۔ اس وقت بھی ہم تک پہنچنے والی روشنی اس قدیمی دور کی پیداوار ہے جب انسانی تہذیب کا وجود بھی نہیں تھا۔ اس طویل عمر کے باوجود جیسے ہی یہ سورج کی سطح تک پہنچتی ہے اس کو ہماری زمین تک آنے میں صرف آٹھ منٹ ہی  لگتے ہیں۔
    سورج ہائیڈروجن کی مختلف پرتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

     روشنی کے ذرّے کا سفر سورج کے  قلب سے لے کر ہمارے پاس پہنچنے  تک انتہائی چونکا دینے والا ہے۔ اس سفر کی شروعات ہمارے ستارے کی پیٹ کی گہرائی سے ہوتی ہے۔ اگر ہم سورج کا سینہ چاک کرکے  دیکھنے کے قابل ہو تے   تو ہمیں  وہاں  ہائیڈروجن کی لاکھوں میل گہری تہ نظر آتی ۔ سورج اپنے قلب میں روشنی کو  کائنات کے سب سے خطرناک اور شدید عمل یعنی نیوکلیائی گداخت(Nuclear Fusion) کے ذریعہ  پیدا کرتا ہے۔ گداخت کا نیوکلیائی عمل ہی  سورج کو طاقت فراہم کرتا ہے۔ سورج اس عمل میں ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں گداخت کرتا ہے۔ اس عمل میں ہائیڈروجن کے دو ایٹم مل کر ہیلیئم کا ایک ایٹم بناتے ہیں۔

    گداخت کا  یہ عمل سننے میں بہت ہی سادہ لگتا ہے مگر درحقیقت یہ اتنا  سادہ بھی نہیں ہے۔ دو ایٹموں  کے ملاپ سے  ایک نیا بھاری ایٹم بنانا  جوئے شیر لانے  کے جیسا ہے۔ ضم ہونے والے دونوں ایٹموں کے پروٹونوں پر  ایک جیسا مثبت  بار ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔ پروٹون آپس کی قربت کو پسند نہیں کرتے۔ انھیں آپس میں قریب کرنے کے لئے زبردست قسم کی توانائی یا سمتی رفتار (Velocity)کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ آپس میں مدغم ہو سکیں  اور ایسا ہونا بہت ہی شاذ و نادر ہوتا ہے۔
    عمل گداخت میں ہائیڈروجن کے جوہر مل کر ہیلیئم کا ایک جوہر بناتے ہیں اور اس عمل کے دوران وہ توانائی بھی پیدا کرتے ہیں جو روشنی و حرارت  کی صورت میں ہمیں ملتی ہے 

     پروٹونوں کو آپس میں قریب کرنے کے لئے زبردست حرارت اور دباؤ کی ضرورت ہوتی ہے  یہ کام  قوّت ثقل کی مستور (مخفی )توانائی  ہی کر سکتی ہے۔ نظام شمسی میں موجود تمام مادّے کی کمیت کا ننانوے اعشاریہ آٹھ  فیصد سورج میں موجود ہے جو واقعی بہت زیادہ کمیت ہے۔ یہ تمام کمیت سورج کو ناقابل تصوّر ثقلی طاقت سے کھینچتی ہے۔ قوّت ثقل گیسوں کو زبردست طاقت سے دباتی اور بھینچتی  ہے جس سے ایٹم ایک دوسرے کے اس قدر قریب آ جاتے ہیں کہ گداخت کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔

     سورج کے قلب میں موجود اس انتہائی کسے ہوئے نیوکلیائی ری ایکٹر میں ہائیڈروجن کے  دس کروڑ ہزار کھرب ہزار کھرب ایٹم ایک دوسرے سے  ایک سیکنڈ میں ٹکراتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹکراؤ اس قدر طاقت ور ہوتے ہیں جس سے ایٹم آپس میں مدغم ہو کر توانائی خارج کرتے ہیں۔ جب پروٹون آپس میں جڑنے کے لئے قریب آتے ہیں تو ان کی کمیت میں تھوڑی سی کمی ہو جاتی ہے  اور کمیت کی یہ ہی کمی توانائی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ ہر دن کے ہر سیکنڈ میں سورج ساٹھ کروڑ ٹن ہائیڈروجن پھونک دیتا ہے۔١ ہر ٹکراؤ ایک توانائی کی چھوٹی سی بوچھاڑ پیدا کرتا ہے ، جو روشنی کا ایک انتہائی چھوٹا اور نہایت طاقتور  بنڈل ہوتا ہے۔ کسی طرح سے یہ فوٹون زمین پر اپنی توانائی پہنچا دیتا ہے جس سے یہاں پر موجود حیات فائدہ اٹھاتی ہے اور زندگی کو ممکن بناتی ہے۔ لیکن  سورج کے قلب میں بنتے ہوئے فوٹون کا یہ ذرّہ ویسا نہیں ہوتا جیسا کہ ہمیں روشنی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اس وقت اس میں زبردست توانائی بھری ہوئی ہوتی ہے اور یہ انتہائی ہلاکت خیز  ہوتا ہے۔

     ہمارے ستارے کی وہ روشنی جو ہم تک پہنچ رہی ہے  وہ بہت ہی قدیم ہوتی ہے اس کی عمر  ان آٹھ منٹوں  سے کہیں زیاد ہوتی ہے جو وہ سورج سے سطح سے زمین پر پہنچنے کے لئے لیتے ہیں۔ خلاء میں اس کا  یہ مختصر سا سفر تو بس اس بڑے اور مشکل سفر کا اختتام ہی ہوتا ہے جو اس نے سورج کے گہرے قلب میں شروع کیا ہوتا ہے۔

    سورج کو دیکھ ہمیں لگتا ہے کہ کتنا خوبصورت، کتنا نفیس اور کتنا سادہ ہے۔ روشنی سورج میں بنتی ہے  جو اس میں سے نکل کر  ہماری دنیا کو اپنی ضو سے منور  کرتی  ہے۔ مگر یقین جانیے یہ سب کچھ اتنا سیدھا سادہ سا نہیں ہے درحقیقت یہ بہت ہی پیچیدہ عمل کا حصّہ ہے۔ فوٹون کا یہ سفر سورج کی زبردست  تپتے ہوئے قلب سے شروع ہوتا  ہے۔ سورج کی زبردست ثقلی طاقت سے دبتے ہوئے ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے سے مدغم ہوتے ہیں  اور بہت ہی چھوٹے سے توانائی کے بنڈل  روشنی کے فوٹون کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ فوٹون کے یہ ذرّات  ایٹم سے کہیں زیادہ چھوٹے ہوتے ہیں  جن کی کمیت صفر ہوتی ہے۔ فوٹون کی رفتار کائنات میں موجود ہر چیز کی رفتار سے انتہائی تیز ہوتی ہے اور یہ مستقل حرکت میں رہتے ہیں۔
    ہم انسان بھی غیر مرئی زیریں سرخ اشعاع پیدا کررہے ہوتے ہیں۔

     اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا   ہے کہ جب یہ  ستارے کے قلب سے ایک دم سے نہیں نکلتے تو ہمارے پاس روشنی کہاں سے آتی ہے؟ اس کا مختصر جواب یہ  ہے کہ مادّہ روشنی پیدا کرتا ہے  اور اس پیدا ہوئی روشنی کا انحصار اس مادّے کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔ کائنات میں موجود ہم انسانوں سمیت  مادّے کا ہر ذرّہ جس کا درجہ حرارت مطلق صفر سے زیادہ ہوتا ہے وہ روشنی پیدا کرتا ہے۔ ہم انسان بھی اس وقت تک روشنی پیدا کرتے ہیں جب تک ہم زندہ ہوتے ہیں اور حرارت خارج کرتے ہیں۔ زندہ انسان کا درجہ حرارت مطلق صفر سے زیادہ ہوتا ہے۔ درحقیقت ہم زیریں سرخ  اشعاع جس کو اکثر حرارتی اشعاع(Heat Radiation) بھی کہا جاتا ہے  خارج کرتے ہیں۔ چاہے کوئی بھی نام دیں اصل بات یہ ہے کہ ہم بھی روشنی خارج کرتے ہیں۔ ہر زندہ انسان یہ حرارت خارج کرتا ہے۔

    روشنی مختلف رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کو ہم قوس و قزح میں دیکھ سکتے ہیں۔ روشنی کا ہر رنگ فوٹون پر مشتمل ہوتا ہے مگر ہر رنگ کی توانائی دوسرے رنگ سے تھوڑی سی الگ اور مختلف  ہوتی ہے۔ ہمیں جو روشنی دکھائی دیتی ہے وہ  اصل روشنی کے طیف کا  بہت ہی معمولی سا حصّہ ہوتا ہے۔ ہماری آنکھیں  صرف  روشنی کے طیف کے مخصوص حصّے کو ہی  کو دیکھ سکتی  ہیں۔ ہم صرف بصری روشنی کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں کیونکہ ہماری آنکھیں روشنی کے اس حصّے ہی کو دیکھ پاتی ہیں  مگر روشنی کا یہ حصّہ بہت ہی کم توانائی رکھتا ہے۔ روشنی  کے دوسرے حصّے کم اور زیادہ دونوں طرح کی توانائی رکھتے ہیں جو اس حصّے سے الگ ہوتی ہے جس کو ہم بصری روشنی کہتے ہیں۔ سادے الفاظ میں ہم روشنی کے طیف کا بہت ہی کم حصّہ دیکھتے ہیں۔ مخصوص اور خاص کیمروں کے ذریعہ ہم انسانوں کی چھوڑی ہوئی زیریں سرخ  اشعاع  دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اشعاع  بصری روشنی سے کم توانائی کی حامل ہوتی ہیں۔ کچھ روشنی اتنی زیادہ طاقتور ہوتی ہے کہ ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے جیسا کہ  بالائے بنفشی اشعاع، ایکس ریز  اور گیما شعاعیں۔
    روشنی مختلف رنگوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہم کل روشنی کا بہت ہی تھوڑا طیف دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

     وسیع  اور گرم سورج ہر قسم کو روشنی پیدا کرتا ہے مگر سورج کے قلب میں روشنی صرف گیما شعاعوں کی صورت میں ہی پیدا ہوتی ہے۔ گیما شعاعیں کائنات میں موجود روشنی کی سب سے زیادہ توانائی رکھنے والی شعاعیں ہوتی ہیں۔ سورج کے قلب میں جب  نیوکلیائی تعامل ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں زبردست قسم کی توانائی خارج ہوتی ہے جو بصری توانائی سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور اسی روشنی کو گیما شعاعیں کہا جاتا ہے۔ ان اشعاع کی  توانائی بصری روشنی کی توانائی سے کم از کم دس ہزار گنا زیادہ ہوتی ہے۔ گیما شعاعیں  انتہائی مہلک ہوتی ہیں۔ان گیما شعاعوں نے  ہی فلم "ہلک " (Hulk)میں بروس بینر (Bruce Banner) کو عظیم الجثہ انسان بنا دیا تھا۔  اس تغیر  کے پیچھے واقعی ایک وجہ تھی۔ گیما شعاعیں روشنی کی سب سے خطرناک شکل ہیں۔ یہ ہمارے جسم میں سرایت کر جاتی ہیں اور جب یہ مادّے سے ٹکراتی ہیں تو یہ اس کے ایٹموں کو توڑنے پر قادر ہوتی ہیں۔ خوش قسمتی سے سورج کے قلب میں بننے والی گیما اشعاع بننے کے ساتھ فوراً ہی ہمارے پاس نہیں پہنچتیں۔

     اگر سورج گرم گیس کا گولا نہیں ہوتا  تو یہ گیما شعاعیں بنتے ہی اس کے قلب سے فرار حاصل کرتیں  اور فوٹون صرف  گیما شعاع  پر ہی مشتمل ہوتا۔ یہ بات ایک دفعہ پھر یاد دلاتے چلیں کہ گیما شعاع پر مشتمل فوٹون  توانائی کی زبردست مقدار اپنے اندر رکھتا ہے   اور یہ زمین پر بقائے زیست  کے لئے تو بالکل بھی مناسب نہیں ہوتا۔

     گیما شعاع کا یہ فوٹون اپنی پیدائش کے ساتھ ہی روشنی کی رفتار سے سورج کے قلب سے بھاگنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ مگر اس کا واسطہ زبردست قسم کی رکاوٹوں سے پڑتا ہے۔ وہ سفر جس کو ختم                ہونے کے لئے صرف  کچھ  ہی سیکنڈز درکار ہوتے ہیں  وہ کائناتی پیمانے پر رینگنے لگتا ہے۔ اوسطاً ایک فوٹون کو  سورج کے مرکز سے جہاں وہ پیدا ہوا ہوتا ہے وہاں سے لے کر سورج کی سطح پر جہاں سے اسے خلاء میں فرار ہونا ہوتا ہے پہنچنے کے لئے ایک لاکھ سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اگر وہ بغیر کسی رکاوٹ کے سیدھا مرکز سے سورج کی سطح تک پہنچے تو اس کو صرف دو سیکنڈ ز لگیں گے۔ کوئی تو ایسی چیز ہے جو اس دو سیکنڈ کے سفر کو اتنا طویل بنا دیتی ہے۔ وہ چیز اتنی طاقتور و توانا ہوتی  ہے کہ  نا صرف روشنی کے سفر کو اتنا آہستہ بنا دیتی ہے بلکہ اس کو ماہیت کو بھی تبدیل کر دیتی ہے۔ سورج اس قدر کثیف ہوتا ہے کہ اس کی مختلف تہوں سے نکلتے ہوئے اس غریب روشنی کے ذرّے کو سطح پر آنے میں کچھ لاکھ سال ضرور لگ جاتے ہیں۔
    تابکار حصّہ سورج کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوتا ہے۔

     ہم تک پہنچنے والی روشنی اس عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جو کئی لاکھوں سال پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔ نوزائیدہ روشنی کا ذرّہ سورج کے قلب سے روشنی کی رفتار سے فرار ہونے کو کوشش کرتا ہے  مگر راستے میں اسے ہائیڈروجن کے کثیف ملغوبے   میں سے بھی گزرنا ہوتا ہے  کل ملا کے اس روشنی کے ذرّے کو چار  لاکھ میل کا  ڈراؤنا سفر طے کرنا ہوتا ہے۔ سورج کے قلب میں پیدا ہوئی روشنی کے لئے سورج کے سطح پر آنا درحقیقت نہایت ہی مشکل کام ہے کیونکہ اس کے راستے میں بہت ساری اور کثیف چیزیں سد راہ بن جاتی ہیں۔" تابکار حصّہ" (Radiation Zone)سورج کے قلب کو چاروں طرف سے گھیرے  ہوئے ہوتا ہے۔ یہ علاقہ ہائیڈروجن گیس سے بنا ہوتا ہے مگر یہ گیس اس ہائیڈروجن گیس سے مختلف ہوتی ہے جس کو عموماً ہم جانتے ہیں۔ اس دبے ہوئے تابکار علاقہ کے اوپر موجود مادّے کا وزن اس قدر ہوتا ہے کہ اس کی کثافت "سیسے"(Lead) جتنی ہو جاتی ہے جس میں سے گزرنا تقریباً  ناممکن ہی ہوتا ہے۔
    فوٹون کو تابکار حصّے سے راہ فرار حاصل کرنے میں لاکھوں برس درکار ہوتے ہیں۔


     سورج کے قلب میں  پیدا  ہوئے روشنی کے ذرّے کو پتا ہوتا  ہے کہ اس کی منزل  کہاں ہے۔ اس کی منزل  سورج کے کنارے پر پہنچنا ہے جہاں  حرارت دوسری جگہوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور وہیں سے اسے  خلاء میں فرار ہونے کا موقع ملتا ہے۔ مگر اس کے لئے اسے ان چار  لاکھ میل پر پھیلی ہوئی دھندلی گیسوں کی تہوں  میں سے گزرنا ہوگا۔ یہ گیسیں صرف کثیف ہی  نہیں ہوتی  ہیں بلکہ یہ انتہائی گرم بھی ہوتی ہیں ان کا درجہ حرارت  ایک کروڑ پچیس لاکھ فارن ہائیٹ  سے بھی  زیادہ ہوتا ہے۔ تابکار حصّے میں گیس" پلازما" (Plasma)کی صورت میں موجود ہوتی ہے۔ پلازما مادّے کی چوتھی صورت ہے۔ ایک عام ایٹم میں اس کے مرکزے کے گرد الیکٹران چکر لگاتے ہیں۔ پلازما میں ایٹموں  میں سے الیکٹران علیحدہ  ہو جاتے ہیں۔
    پلازما مادّے کی ایک چوتھی قسم ہے۔

     ہمیں اسکول میں پڑھایا گیا ہے کہ مادّے کی تین حالتیں ہوتی ہیں (کم از کم میں نے تو اسکول میں یہ ہی پڑھا تھا) ٹھوس،  مائع  اور گیس  اور زمین پر ہم عام حالت میں مادّے کو انہی تین حالتوں میں پاتے ہیں۔ مثلاً   آ ب و ہوا  گیس پر مشتمل ہوتی ہے، سمندر  مائع  پانی پر  جبکہ جس فرش پر ہم چلتے ہیں وہ ٹھوس مادّے سے بنتا ہے۔ مگر کائنات میں زیادہ تر چیزیں  جن میں ستارے بھی شامل ہیں وہ پلازما  پر مشتمل ہوتے ہیں۔ کائنات میں موجود دوسری جگہوں کے مقابلے میں زمین ایک پرسکون مقام ہے۔ عام طور پر  زمین پر وہ حالات  نہیں ہوتے جس سے مادّہ پلازما کی صورت اختیار کر سکے۔  زمین پر موجود سب سے اچھی جگہ جہاں ہم پلازما کی طاقت کو دیکھ سکتے ہیں وہ آسمانی  بجلی ہے۔

     آسمانی بجلی کی گرج چمک سے درجہ حرارت ٥٣ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ تک جا پہنچتا ہے۔ یہ  اتنا زیادہ درجہ حرارت ہوتا ہے جو پل پھر میں  ایٹم کے حصّوں کو الگ کر سکتا ہے۔ پلازما کی یہ حالت بہت کم عرصہ کے لئے قائم رہ پاتی  ہے  اور الیکٹران پھر ایٹم کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ مگر ہمارے ضخیم سورج میں پلازما ارب ہا سال تک اسی حالت میں رہ سکتا ہے  اور اسی پلازما نے سورج کا مکمل تابکار علاقہ جو ٢ لاکھ میل پر مشتمل ہے بنایا ہوا ہے۔ مزید براں یہ کہ پلازما پر برقی بار بھی موجود ہوتا ہے جو روشنی کے ذرّے کے لئے ایک کائناتی  جال کا کام دیتا ہے۔ یہ پلازما غیر شفاف ہوتا ہے  کیونکہ روشنی  تعدیلہ ذرّات کی  با نسبت غیر تعدیلہ ذرّات سے  زیادہ  تعامل کرتی ہے۔ روشنی تعدیلہ ایٹم میں سے آسانی سے گزر جاتی ہے۔ مگر جب "بار" کو ہم منفی اور مثبت بار میں توڑ دیتے ہیں جو فوٹون کے راستے میں جگہ جگہ موجود ہوتے ہیں  تو اس میں سے روشنی نہیں گزر سکتی۔

     قلب خورشید میں پیدا ہونے والا روشنی کا ذرّہ جو گیما شعاع  سے بنا تھا اب تابکار علاقہ میں جا کر پلازما سے ٹکراتا ہے۔ ایک سیکنڈ کے کچھ ہی حصّہ میں پلازما روشنی کے ذرّے کو جذب  کرکے دوبارہ اگل دیتا ہے  اور روشنی کا ذرّہ پھر کسی دوسرے ذرّے سے جا ٹکراتا ہے۔ ہر دفعہ وہ کچھ نا کچھ فاصلہ طے کر ہی لیتا ہے۔ اصل میں وہ کسی ایٹم پر مار دیا جاتا ہے  اور وہ ایٹم اس کو جذب  کرکے دوبارہ کسی بھی سمت اگل دیتا ہے۔ لہٰذا اس عمل میں بجائے وہ سیدھا سورج کی باہری سطح پر پہنچے   ان گنت مرتبہ آگے پیچھے ٹھپے کھاتا ہے  اور آخرکار سورج کی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔

    اس سارے عمل کو ہم باسکٹ بال کے کھیل کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ سارا عمل  ایک ایٹمی باسکٹ بال کا کھیل ہے جس میں تابکار علاقے کو  باسکٹ بال کا کورٹ سمجھ لیں۔ جبکہ ایٹمی ذرّات اور پلازما کو دو مختلف ٹیمیں سمجھ لیں  جن کے درمیان مقابلہ ہوگا   جبکہ روشنی کا ذرّہ اس کھیل میں ان کی بال کا کردار ادا کرے گا۔ باسکٹ بال کی گیند کی  طرح سے روشنی کا ذرّہ  کسی بھی سمت میں پھینک دیا جاتا  ہے۔ اگرچہ  بال زیادہ تیزی سے آگے نہیں بڑھ پاتی مگر پھر بھی تھوڑی تھوڑی آگے بڑھتی رہتی ہے۔ روشنی کا ذرّہ  بتدریج قلب کے گرم حصّے کی طرف  سے سورج کی سطح کے کم گرم حصّے کی جانب بڑھتا رہتا ہے اور یہ ہی وہ جگہ ہے جہاں وہ جانا چاہتا ہے۔ اگرچہ یہ سارا عمل  بغیر کسی منصوبہ بندی  کے لگتا ہے مگر اس کی  سمت باہر ہی کی جانب رہتی ہے۔ روشنی کا ذرّہ تو سیدھا  باہر نکلنے کی کرتا ہے جو اس کا مختصر ترین راستہ ہوتا ہے  مگر وہ بار بار تابکار علاقہ کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے  جو اس کی رفتار کو  رینگنے پر مجبور کر دیتا ہے۔

     دھکم پیل کا یہ عمل فوٹون کی ماہیت کو تبدیل کر  دیتا ہے۔ فوٹون روشنی کا ایک انتہائی چھوٹا سا بنڈل ہوتا ہے  جب وہ سورج کے قلب میں پیدا ہوتا ہے تو اس کی ہئیت گیما  شعاع کی ہوتی  ہے۔ گیما شعاع زبردست توانائی سے بھرپور روشنی کا ذرّہ ہوتی ہے۔ یہ فوٹون پیدا ہوتے ہی بہت ساری رکاوٹوں کی وجہ سے راہ فرار حاصل نہیں کر سکتا۔ ہر دفعہ جب بھی کوئی رکاوٹ اس کے بیچ میں آتی ہے تو وہ  اس کی توانائی کو کم کر دیتی  ہے۔ لاکھوں سال کے عرصے میں   یا کبھی دسیوں لاکھ سال تک  فوٹون سورج کے قلب میں تابکار علاقے میں مارا مارا پھرتا ہے ، ہر ٹکر اس کی کچھ توانائی چوس لیتی ہے جس سے یہ زبردست توانائی والی گیما شعاعوں  سے تبدیل ہو کر کم توانائی والی ایکس ریز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

     تقریباً دس لاکھ سال کے قریب فوٹون تابکار علاقہ سے نکل آتا ہے مگر اس کا سفر ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ ابھی اسے اپنے اس سفر میں سورج کے غضبناک اندرونی حصّوں میں بھی دھکے کھانے ہیں۔ یہ ہی وہ جگہ ہے جو اس قدر خطرناک ہے کہ سورج کی دھاڑ یہیں سے نکلتی ہے۔ فوٹون جو قدرت کا بنایا ہوا توانائی منتقل کرنے والا قاصد ہے ، وہ زمین کے سفر میں ابھی تک دس لاکھ سال سورج کے قلب کی بھول بھلیوں  میں گزار چکا ہے۔ ابھی تک فوٹون سورج کے قطر کا ٧٥ فیصد اپنی اس لڑائی میں پار کر چکا ہے۔ کافی  دھکے کھانے اور اپنی اچھی خاصی توانائی سے محروم ہونے کے بعد  فوٹون  مہلک گیما شعاعوں سے ایکس ریز  میں بدل چکا  ہوتا ہے۔ اب یہ سورج کی پراسرار تہ تک پہنچ چکا ہے جس کا نام "ایصال حرارت کا علاقہ "(Convection Zone) ہے۔
    سورج کے تابکار علاقے میں فوٹون کا سفر لگ بھگ دس لاکھ سال کا ہوتا ہے۔

     ایصال حرارت کا علاقہ  سورج کی سطح اور تابکار علاقہ کے بیچ میں ١٢٥ ہزار میل گہرائی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہم ایصال حرارت کے اس علاقے کو براہ راست نہیں دیکھ سکتے۔ یہ علاقہ ہماری دوربینوں کے لئے کافی غیر شفاف ہے مگر یہاں پیدا ہونے والی آوازوں کو ہم سن ضرور سکتے ہیں۔ ناسا کی "متحرک شمسی رصدگاہ  (Solar Dynamics Observatory)"سورج کو سن سکتی ہے۔ اس کی آواز کا" تعدد" ( فریکوئنسی)اتنا کم  ہوتا  ہے کہ انسان اس کو نہیں سن سکتا   لیکن ہم  چالیس دن کی ریکارڈنگ کو کچھ سیکنڈ ز میں تبدیل کرکے تیزی سے چلائیں  تو اس کو سننے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ یہ آواز افراتفری کی آواز ہے۔ کیونکہ سائنس دان سورج کے اندر نہیں جھانک سکتے لہٰذا ان کے لئے یہ آواز بہت ہی اہم ہے۔
    ناسا کی "متحرک شمسی رصدگاہ" سورج کی صوتی آواز کو سن سکتی ہے۔

    جب بندوق سے گولی داغی جاتی ہے تو بلٹ تیزی سے  نکلتی ہے اور ہوا سے ٹکرا کر اضطرابی موجیں پیدا کرتی ہے۔ جب ہم بندوق سے نکلنے والی گولی کی آواز سنتے ہیں  تو یہ موجیں ہمارے کان کے پردے سے ٹکراتی ہیں  اور ہم اس کی آواز سن سکتے ہیں۔ سورج بھی بعینہ  ایسے لیکن بہت زیادہ بڑے پیمانے پر کام کرتا ہے۔ جب  ہم موجوں کو حرکت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اصل میں ہم گیسوں کو سورج کے اندر سے باہر نکلتا ہوا دیکھتے ہیں۔ باہر نکلتی ہوئی گیسیں ایسے لگتی ہیں کہ  جیسے وہ سطح کی جانب دوڑ لگا رہی ہوں  یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ  لیں کہ وہ کسی دیوار سے ٹکرا کر آواز کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔  اور یہ آوازیں پورے سورج میں گشت کرتی  رہتی ہیں۔
    صوتی موجوں کی مدد سے سائنس دان ستارے کے اندر کے نادیدہ حصّے کو دیکھ سکتے ہیں۔

     صوتی موجیں پلازما سے ٹکرا کر سورج کی سطح پر لہریں سی بنا دیتی ہیں۔ اور ہم یہ لہریں ہی دیکھ سکتے ہیں۔ یہ لہریں سورج کے چاروں طرف دکھائی دیتی ہیں یہ سورج کے اندر کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہیں اور پھر واپس سطح پر آتی دکھائی بھی دیتی ہیں۔ ان آوازوں کے ذریعہ سائنس دان سورج کے اندر  کے نادیدہ  حصّے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ وہ  سورج کی سطح سے ٹکراتی ان صوتی موجیں کو پکڑ کر  سورج کے اندرونی حصّے کو  ان کی گونج کی مدد  سے  دیکھ سکتے ہیں۔ اس اندرونی حصّے کو جو بہت ہی خطرناک اور شدید قسم کا ابلتا ہوا ایصال حرارت کا علاقہ ہے سورج گونج پیدا کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہاں گرم ہوتی ہوئی گیس اوپر آتی ہے اور قدرے ٹھنڈی ہو کر نیچے واپس  جاتی ہے  جس سے ایک انتشار کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں اس قدر ہلڑ ہنگامہ ہوتا ہے جو سورج کو بجنے پر مجبور کرد یتا ہے۔

     گیسوں کے ستون اوپر اٹھتے ہیں پھر واپس نیچے چلے جاتے ہیں اس دوران نیچے سے حرارت ان ستونوں کو زبردست  طرح سے گھما رہی ہوتی ہے۔ اس بات کو ہم یوں ذرا بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں  جس طرح سے  ابلتے ہوئی پانی میں بلبلے اس لئے اوپر اٹھتے ہیں کہ وہ گرم ہوتے ہیں پھر اچانک پھٹ کر واپس نیچے کی جانب روانہ ہوتے  ہیں کیونکہ اوپر کی سطح نیچے کی سطح کے مقابلے میں  تھوڑی سی ٹھنڈی ہوتی ہے۔ سورج میں بھی پانی کے ابلتے برتن کی طرح سے بلبلے پیدا ہوتے ہیں مگر وہاں پانی کے بجائے پلازما موجود ہوتا ہے۔

     ایصال حرارت کے علاقے کی تہ میں فوٹون ایٹم سے جا ٹکراتے ہیں  مگر اس دفعہ فوٹون کو ایٹم جذب کر لیتے ہیں۔ گرم ایٹم ابلتے ہوئے  بہاؤ کے ساتھ فوٹونوں کو اپنے ساتھ کھینچ کر لے آتے ہیں۔  یہ ایٹم ایک کن ویر پٹی (Conveyor Belt)کی طرح سے کام کرتے ہیں۔ فوٹون  ایٹموں پر سوار ہو کر اس حرارتی  منتقلی کے ذریعہ اپنا سفر اوپر کی جانب مکمل  کرتے ہیں۔ ان کا یہ سفر تابکار علاقے کی با  نسبت  ایصال حرارت کی تہہ میں کافی آسان ہوتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ جس طرح باسکٹ بال میں گیند ایک اچھے کھلاڑی کے ہاتھ میں آ جاتی ہے  اور وہ تیزی سے گیند کو لے کر سیدھا باسکٹ میں پھینکنے کے لئے دوڑ پڑتا ہے بالکل اسی طرح ایصال حرارت پرت میں فوٹون کو سیدھا بغیر کسی رکاوٹ کے اوپر جانے کا راستہ مل جاتا ہے۔ ایک اچھے کھلاڑی کی طرح  وہ ایٹم فوٹون کو اپنے اندر جذب کرکے کافی دور تک سیدھا  راستہ طے کروا دیتے ہیں۔ ایصال حرارت  کی پرت میں ان کو ایٹم کی سواری سیدھے راستے سے اوپر پہنچا دیتی ہے۔ جس طرح سے  باسکٹ بال میں ایک کھلاڑی بغیر کسی رکاوٹ کے گیند کو پکڑ کر سیدھے لمبے راستہ تک جاتا ہے یہ پروٹون بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ راستے میں دوسرے کھلاڑیوں کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے  جس طرح سے گیند کو آسانی کے ساتھ کورٹ میں پھینکا جا سکتا  ہے  بالکل اسی طرح سے ایٹم ان فوٹون کو لے کر اوپر کی سطح پر چھوڑ آتا ہے۔ فوٹون کا سفر ایصال حرارت کے اس علاقے میں صرف ایک ہفتے میں پورا ہو جاتا ہے۔ اس پورے عرصے میں فوٹون کی ماہیت تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایصال حرارت کے اس علاقے کے نچلے حصّے میں درجہ حرارت ٢٦٠ ہزار ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے جبکہ بالائی  حصّے کا درجہ حرارت صرف ١٠ ہزار ڈگری ہوتا ہے۔ لہٰذا جیسے جیسے فوٹون ایصال حرارت کے نچلے درجے سے بالائی حصّے کی جانب آتا ہے ویسے ویسے وہ  توانائی سے بھرپور ایکس ریز سے تبدیل ہوتا ہوا بصری روشنی میں بدل جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کے ایصال حرارت کے علاقے سے فوٹون زبردست توانائی والی   ایکس ریز کی صورت میں اپنا سفر شروع کرتا ہے مگر جیسے وہ اوپر جانا شروع کرتا ہے اپنی توانائی کو کھوتا ہوا  اس علاقے کو چھوڑتا ہے اور جب اس علاقے کی آخری سرحد کو چھوڑتا ہے  تو اس کی ماہیت تقریباً روشنی کے اس ذرّے جیسی ہو جاتی ہے  جس کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں کرتے ہیں۔
    فوٹون پلازما سے ٹکرا کر اپنی توانائی کو کم کردیتا ہے۔

     ایصال حرارت کے اوپری حصّے میں ایٹم فوٹون کو لا کر چھوڑ دیتا ہے جو اب بصری روشنی کی شکل میں نکلتا ہے۔ اس  سارے عمل میں ایٹم کا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے اور وہ واپس نیچے چلا جاتا ہے جہاں پھر سے وہ فوٹون کو جذب کر کے اپنے درجہ حرارت میں اضافہ کرتا ہے اور پھر اوپر آتا ہے اور پھر فوٹون کو آزاد کر دیتا ہے اور یہ چکر یوں ہی رواں دواں رہتا ہے۔ اب فوٹون سورج کی سطح کے اوپری حصّے سے تھوڑا ہی نیچے ہوتا ہے۔ ایصال حرارت کا متلاطم علاقہ ایک اور زبردست قوّت کو  چھوڑتا ہے اس قوّت کو جونا صرف  کسی بم کی طرح پھٹتی ہوئے  عظیم طوفان کو طاقت عطا کرتی ہے  بلکہ  روشنی کو سورج سے فرار ہونے سے  بھی روکتی ہے۔

     قلب خورشید میں نیوکلیائی عمل میں  پیدا ہوا فوٹون - روشنی کا ذرّہ  - تابکار علاقے کی صعوبتیں برداشت کرتا ہوا  ایصال حرارت کے علاقے میں پلازما کے ستونوں پر گھسٹتا  ہوا خلاء میں فرار  ہونے کی آخری رکاوٹ کو عبور کرنے کے  مرحلے تک جا پہنچا ہے۔ اپنے اس لاکھوں سال کے سفر میں اس نے اپنی ماہیت میں زبردست تبدیلی بھی کر لی ہے وہ ہلاکت خیز گیما شعاعوں  سے تبدیل ہوتا ہوا   بصری روشنی کی اس صورت میں ڈھل جاتا   ہے جو حیات دوست ہے اور جس کا مشاہدہ ہم زمین پر کرتے  ہیں۔

     آخرکار فوٹون  سورج کی  اس اوپری سطح پر پہنچ ہی جاتا ہے جو ہم دیکھ سکتے ہیں  جس کو ہم "ضیائی کرۂ"(Photosphere) بھی کہتے ہیں۔  جب ہم سر اٹھا کر سورج کو دیکھتے ہیں تو جو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ وہی ضیائی کرۂ یا سورج کی سطح  ہوتی ہے۔ ہم روشنی کو  ضیائی کرۂ سے ہی آتا ہوا دیکھتے ہیں۔ یہ آنکھیں چندیا  دینے والی روشنی کی گیند اپنے پیچھے نہایت ہی شاندار اور بے رحم دنیا چھپا کر رکھے  ہوئے ہے۔ دور سے سورج انتہائی خاموش اور پرسکون نظر آتا ہے مگر جب ہم اس کو قریب سے دیکھتے ہیں تو ہم اس کی سطح پر متلاطم  سرگرمیاں دیکھنے کو ملتی  ہیں۔ مادّے  کے زبردست ابلتے ہوئے بلبلے جو دیکھنے میں انتہائی  خوبصورت مگر نہایت  ہی ہیبت ناک ہوتے ہیں ۔ یہ کسی چڑیل کی ابلتی ہوئی ہانڈی کا منظر پیش کرتے ہیں بس فرق صرف اتنا سا ہے کہ اس میں سے نکلنے والے بلبلے زمین کے حجم کے ہوتے ہیں۔ سورج کی سطح ایک انتہائی سرکش رکاوٹ ہوتی ہے جو ہمارے روشنی کے ذرّے یا فوٹون کو ایک بار پھر قید کر لیتی ہے۔
    سورج میں سے نکلنے والے بلبلے زمین کے حجم کے ہوتے ہیں۔


     "کٹ پیک نیشنل رصدگاہ  (Kitt Peak Observatory)"امریکی ریاست ایری زونا میں موجود ہے جہاں فلکیات دان"  میٹ پین " (Matt Penn)سورج کی سطح کا مشاہدہ کرتے ہیں تاکہ اس بات کا پتا لگا سکیں کے روشنی کا ذرّہ وہاں کیسے قید ہو جاتا ہے۔ "مک میتھ  پیئرس دوربین" (McMath Pierce Telescope)کا استعمال کرتے ہوئے  وہ سورج کے ضیائی کرۂ پر سورج کی روشنی کا تفصیلی  معائنہ کرتے ہیں ۔ وہاں سورج کی قرص پر انھیں چند گہرے  نشان (Sun Spots)نظر آئے۔ ان میں سے دو جگہیں کافی بڑی تھیں۔ یہ نشان سورج سے نکلتے ہوئے اس کی سطح کے کنارے تک جا رہے تھے۔ ہر بڑے نشان کے ساتھ کچھ چھوٹے نشان بھی تھے بلکہ چھوٹے نشانوں کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی۔ سورج کی سطح پر موجود ان جگہوں میں ہی روشنی کے ذرّے قید تھے۔ یہ ایصال کے اس عمل میں رکاوٹ ڈال رہے تھے جو حرارت اور روشنی کو سورج کے اندر سے نکل کر خلاء میں چھوڑتا ہے۔ لہٰذا سورج کی سطح پر موجود قدرے  کم گرم علاقے ہمیں تاریک دھبوں کی صورت میں  نظر آتے ہیں۔ زبردست طاقت روشنی کے ذرّے یا فوٹون کو  اپنے خطرناک پھندے میں پھانس لیتی ہے جس سے روشنی اور اس میں موجود توانائی سورج کی سطح سے مفر نہیں ہو  پاتی۔ یہ زبردست طاقت کوئی اور نہیں بلکہ سورج کی مقناطیسی طاقت ہے۔

    سورج کے یہ تاریک نشان تب بنتے ہیں جب زبردست قوّت کی  مقناطیسیت سورج کی گہرائی سے نکلتی ہوئی ضیائی کرۂ میں سے ہوتی ہوئی زبردست   دھماکے سے باہر  نکلتی ہے۔ یہ مقناطیسی میدان اس قدر طاقتور ہوتے ہیں  کہ سورج کے گرم اندرونی مادّے کی ایصال حرارت  کی حرکت کو  اس کی سطح پر آنے سے روک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں سورج کی سطح پر نسبتاً کم درجہ حرارت کا علاقہ بن جاتا ہے جو ہمیں سورج کے تاریک نشانوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہ نشان بہت ہی بڑے ہوتے ہیں سب سے بڑا نشان تو  زمین کے حجم سے بھی دس گنا زیادہ بڑا ہے۔ان نشانوں کو بنانے والی مقناطیسیت سورج کی سطح کو ڈھکتے ہوئے خطوط  بنا دیتی ہے۔
    سورج کا استوائی خطہ قطبین کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے اپنے محور کے گرد گھومتا ہے۔

     ہماری ٹھوس زمین اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے محور پر گھومتی ہے اور اس کے ساتھ مقناطیسی میدان بھی گھومتے ہیں۔ مگر سورج اتنا بڑا ہے کہ یہ اصول اس پر لاگو نہیں ہوتا۔ سورج میں کوئی ٹھوس چیز نہیں ہے۔ وہ گیس کی ایک بڑی گیند سی ہے۔ وہ اپنے محور پر چکر لگاتا ہے مگر  وہ خط استواء پر اپنے قطبین کی مقابلے میں زیادہ تیزی سے گھومتا ہے۔ سورج خود سے  بل  کھاتا ہے اور ساتھ میں مقناطیسی میدانوں کو بھی مروڑ دیتا ہے۔ با  نسبت قطبین کے سورج  خط استواء پر تیزی سے چکر کھاتے ہوئے  وہ مقناطیسی میدانوں کو بل دیتا ہے  جس سے وہ ہر چکر میں آپس میں الجھ پڑتے ہیں جس کا نتیجہ"مقناطیسی ضربیں" (Magnetic Mayhem)نکلتی ہیں۔ لہٰذا جب یہ میدان سورج کی سطح سے نمودار ہوتے ہیں تو ان میں زبردست قسم کی توانائی بھری ہوتی ہے۔ وہ توانائی سے بھرپور ربڑ بینڈ کی طرح سے بل کھائے ہوئے اور الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب آپ ربڑ بینڈ کو بل دیے چلے جائیں  اور اس کو سیدھ میں کھینچے تو وہاں بننے والا  دباؤ آپ محسوس کر سکتے ہیں۔ جہاں مقناطیسی خطوط   بل کھاتے  ہیں وہاں  روشنی کے ذرّے کو لئے ہوئے پلازما کے لئے سطح پر پہنچنا ممکن نہیں  ہوتا ہے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر روشنی کے ان بنڈلوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے  جو سورج کی سطح پر تو پہنچ کر ٹھنڈے تو  ہو گئے مگر  وہاں آ کر وہ مقناطیسی میدان میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ سورج کی سطح پر موجود وہ جگہ جہاں سے روشنی  راہ فرار حاصل نہیں کر پاتی وہ تاریک نظر آتی ہے  اور سورج کی سطح پرکالے دھبوں کی صورت میں  نشان بنا تی ہے۔ لیکن  ان الجھی ہوئی مقناطیسی لکیروں میں کسی کو تو دخل در معقولات کرنا ہی ہوتا  ہے۔ مقناطیسی میدان اپنی موجودہ  حیثیت سے بالکل بھی مطمئن نہیں ہوتے۔  ان کو اپنی موجودہ الجھی ہوئی پوزیشن بالکل بھی پسند نہیں ہوتی اور وہ اس کو  سلجھنا چاہتے ہیں۔ بہت بڑے مقناطیسی حلقے  سورج کے ان نشانوں کے اوپر محراب  سی بناتے ہیں۔ بل کھائے ہوئے اور انتہائی  غیر متوازن  یہ بے لگام مقناطیسی میدان اپنی توانائی کو اگلنے کے لئے بے چین ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ ایک ایسے مقناطیسی بم میں بدل جاتے ہیں جو پھٹنے کے لئے بالکل تیار ہوتا ہے۔

     توانائی سے بھرپور  دو مقناطیسی میدان جب ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں  تو یوں لگتا ہے کہ جیسے ایک دوسرے سے  کہہ رہے ہوں کہ اگر ہم آپس میں مل جائیں تو زبردست توانائی پیدا کر سکتے ہیں۔ اور پھر ایسا  ہی ہوتا ہے وہ آپس میں مل جاتے ہیں۔ جس سے ایک زبردست دھماکا ہوتا ہے جس کو ہم مقناطیسی طوفان  یا "شمسی طوفان" (Solar Flare)کہتے ہیں۔ اس کی طاقت اتنی ہوتی ہے جتنی لاکھوں جوہری بم مل کر ایک ساتھ پیدا کرتے ہیں۔ شمسی شعلے  خلاء میں ٤٥ لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے نکلتے ہوئے زبردست توانائی خارج کرتے ہیں۔ مقناطیسی میدان پلازما کو سورج کی سطح سے پھینکتے ہیں۔ اچانک وہاں زبردست روشنی کا بھنڈار نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔

     لاکھوں سال کے سفر کے بعد روشنی کے بنڈل آخر کار خلاء میں راہ فرار حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ اب وہ ان کھرب ہا دوسرے فوٹونوں کے ساتھ آزاد ہوتے ہیں مگر ان کا سفر ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔ ان میں سے تو زیادہ تر کائنات کے دور دراز کے علاقوں میں موجود نئی اور اجنبی دنیاؤں میں جانے کے لئے رخت سفر باندھ لیتے ہیں۔ قریب قریب دس لاکھ سال نظام شمسی میں موجود  سب سے زیادہ پر تشدد ماحول میں سفر کرنے  کے بعد  روشنی کے چھوٹے ذرّے  - فوٹون – آخر کار سورج کی سطح سے بھاگ جانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اب وہ آزاد ہیں۔ بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ  سورج  کے اس سخت اور مشکل سفر سے انہوں نے آزادی حاصل کر لی ہے۔ اب وہ روشنی کی رفتار سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سورج سے نکلے ہوئے یہ غریب فوٹون بالکل ایسے بھاگتے ہیں جیسی جیل توڑ کر قیدی بھاگتے ہیں۔ ان کی رفتار خلاء میں ١٨٦ ہزار میل فی سیکنڈ کی ہوتی ہے اور صرف آٹھ عشاریہ تین  منٹ میں سورج سے زمین تک کا سفر طے کر لیتے ہیں۔

    اگلی دفعہ جب آپ کسی ستارے کو آسمان میں دیکھیں تو روشنی کے ذرّے کے اس مشکل سفر کو ضرور یاد رکھیں جو اس نے ہماری آنکھوں تک پہنچنے کے لئے طے کیا ہے۔ ان کی پیدائش نیوکلیائی تعامل کے ذریعہ سورج کی گہرائی  میں موجود قلب میں ہوئی اور پھر مسلسل ٹپے کھاتے ہوئے انہوں نے اپنی توانائی کو صرف کرتے ہوئی کم توانائی والے فوٹون کی شکل اختیار کر لی۔ ایصال حرارت کے علاقے میں انھوں نے گیس کی حرکت پر سواری کی اور سورج کے  باہری کنارے تک پہنچے جہاں سے انھیں خلاء میں فرار کا موقع ملا۔ وہاں  سے وہ بلا روک ٹوک کے ہماری آنکھوں تک پہنچے۔ فوٹون کا  ذرّہ زمین پر پہنچ کر درخت اور پودوں کی پتیوں سے ٹکرایا اور اپنی توانائی ان میں منتقل کردی۔ جس نے ضیائی تالیف کے اس عمل کو سرانجام دیا جو ہماری غذائی چکر کی ایک انتہائی اہم کڑی ہے۔ آخر کار سورج کے قلب میں موجود توانائی کو لئے ہوئے روشنی کے ذرّے نے اپنے جیسے ارب ہا روشنی کے ذرّوں  کے ساتھ مل کر ہمارے سیارے پر حیات کی چنگاری سلگا  دی۔

     سورج کی روشنی ہمارا ایندھن پیدا کرتی ہے، یہ ہی ہمارے موسموں کی رت  کو جگاتی ہے اور ہمارے سمندروں میں تلاطم پیدا کرتی ہے۔ ہر روز زمین سے اتنے  فوٹون ٹکراتے ہیں جن میں اس قدر توانائی موجود ہوتی ہے جو انسانی تہذیب  کی ٢٧ سالہ توانائی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ سورج کی روشنی  صرف حرارت ہی نہیں ہے۔ یہ ہر وہ چیز جو ہمیں زندہ رہنے میں مدد کرتی ہے مہیا کرتی ہے۔ روشنی کے بنا  ہم کچھ نہیں ہیں۔ تمام وہ توانائی جو ہماری حیاتیات  کو ملتی ہے ، جو ہمارے پودوں کو حرارت دیتی ہے  اور جو زندگی کو ممکن بناتی ہے یہ سب سورج سے ہی ملتی ہے۔ کھرب ہا  روشنی کے ذرّات زمین سے ٹکراتے ہیں جو حیات بخش توانائی منتقل کرتے ہیں۔ لیکن  ہمارے خیال سے بھی زیادہ تعداد میں  روشنی کے ذرّے ہم کو پار کرتے ہوئے  دور دراز کے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ سورج سے ٨٠ منٹ کے فاصلے پر وہ زحل کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ چار گھنٹوں میں نیپچون کو بھی پار کر لیتے ہیں۔

     ایک دفعہ روشنی کے یہ ذرّے سورج کی قید سے آزاد ہو جائیں پھر یہ جہاں تک چاہیں اپنے سفر کو جاری رکھنے میں  خود مختار ہوتے ہیں۔ وہ ارب ہا  نوری سال کا سفر طے کرکے کائنات کو بھی پار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ سورج کے بیرونی مدار کو صرف ١٨ گھنٹوں میں ہی پار کر لیتے ہیں۔ جہاں سے سورج دیکھنے میں روشنی کا ایک نقطہ سا لگتا ہے۔ مگر فوٹون یہاں سے بھی آگے خلاء کی بے کراں گہرائیوں  میں  اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔ کچھ ١٢٠٠ سال گزرنے کے بعد کچھ فوٹون سرخ بونے نظام جس کا نام کیپلر ٦٢ ہے تک جا پہنچیں گے۔ یہاں زمین کی طرح کا ممکنہ سیارہ موجود ہے۔ ہماری کہکشاں میں زمین کے جیسے ارب ہا سیارے موجود ہو سکتے ہیں۔ اگر وہاں پر کوئی زندگی موجود ہوگی تو کیا  وہ ہمارے سورج کی روشنی کو دیکھ سکے گی؟

     اگر ماوراء ارض زندگانی وہاں موجود ہوگی تو وہ آسانی کے ساتھ ہمارے سورج کی روشنی کو دیکھ سکنے کے قابل ہوں گے۔ اگر وہ ہم سے زیادہ قریب ہوں گے تو اپنی خالی آنکھوں کے ذریعہ ہمارے سورج کی روشنی کو دیکھ سکیں گے اور دوربین کے ذریعہ تو وہ اس قابل ہوں گے کے کافی دور سے بھی سورج کو دیکھ سکیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ ماوراء ارض مخلوق اس وقت ہمارے سورج کا مشاہدہ اس بات سے بے خبر رہ کر  کر رہی ہو کہ ہم  بھی یہاں سے بیٹھ کر کائنات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

     برق رفتاری سے فاصلہ طے کرتے ہوئے فوٹونوں نے١٥٠٠ برس دور گھوڑے کے سر والا سحابیہ اور ٧٠٠٠ برس دور تخلیق کے ستونوں کو  بھی پار کر لیا ہوگا۔ اتنے لمبے فاصلے سے ہماری سورج کی روشنی بہت ہی زیادہ مدھم نظر آئے گی صرف طاقتور دوربینوں کے سہارے ہی اس کا مشاہدہ ہو سکتا ہے۔ ان بڑی اور عظیم دوربینوں کے ذریعہ چاہے جو ہم  نے زمین پر بنائی ہیں یا خلاء میں بھیجی ہیں  ہم کائنات میں موجود ١٠ ارب سال کی دوری  پربھی  ستاروں کی روشنی کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے سورج کی روشنی کائنات میں سفر کر رہی ہے۔ ہمارے سورج کی روشنی زمین سے ہوتی ہوئی خلاء میں  ہمیشہ سفر کر سکتی ہے۔

     اگلی مرتبہ جب آپ آسمان کو دیکھیں تو ستاروں کو دیکھ کر ہاتھ ضرور  ہلا دیجئے گا ہو سکتا ہے وہاں دور دراز میں موجود کوئی مخلوق آپ کو بھی ہاتھ ہلا رہی ہو۔ ہمارا چھوٹا سا ستارا کائنات میں کسی کو بھی نظر آ سکتا ہے بشرطیکہ اس کو کوئی دیکھنے والا وہاں موجود ہو۔ کائنات میں کوئی ایک جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں سے ہمارے سورج کو دیکھا نہ  جا سکے  اور یہ ہی ایک ایسی بات ہی جس نے ہمیں حوصلہ دیا ہوا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہماری موجودگی کا کوئی ثبوت کائنات کے دوسری جانب موجود ہو۔ ہم ارب ہا سال گزرنے کے بعد بھی شاید وہاں نہ پہنچ سکیں مگر پھر بھی ایک امید ہے کہ ہم گمنامی کے اندھیروں میں نہیں ڈوبیں گے۔

    روشنی کے ایک ذرّے نے قلب خورشید کی گہرائی  میں اپنا سفر  شروع کیا تھا اور اپنے اس سفر میں  اس نے لاکھوں سال سورج کی سطح پر آنے کی جدوجہد میں گزار دیے تھے  آخر کار سورج کے اثر سے باہر  نکل آیا تھا۔ اور آزاد ہوتے ہوئے اس فوٹون نے توانائی، گرمی اور زندگی کو ہماری دنیا سے روشناس کرایا تھا۔

    ہمارے سورج کی روشنی نے کائنات میں موجود کھرب ہا ستاروں کی روشنی  کی ہم سفری اختیار کرتے ہوئے  کائنات کا سفر جاری رکھا ہوا ہے اور اس طرح وہ  توانائی کو عالم موجودات میں پھیلا رہا ہے۔



    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: قلب خورشید سے روشنی کا سفر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top