Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 9 اکتوبر، 2015

    دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری

    پیش لفظ


      خاکہP-1 انسانوں کی بستی بسانے کی اگلی معقول جگہ مریخ ہے۔ لیکن کیا دوسری جگہیں بھی کسی قسم کی امید دلا رہی ہیں؟

    بیرونی نظام شمسی مستقبل میں انسانی سفر کے لئے کوئی قابل ذکر جگہ نہیں لگتی چہ جائیکہ کہ وہاں انسانوں کے لئے رہنے کی کوئی بستی بسائی جائے۔ سرد دور اور دور دراز کے گیسی، پتھر اور برف کے جہاں ہمیں مائل کرنے کے بجائے جان چھڑاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بنی نوع انسان چاند پر جاچکی ہے اور اب اگلے پڑاؤ کے لئے اپنی نظریں مریخ اور سیارچوں کی پٹی پر جمائے ہوئے ہے۔ لیکن کیا انسانیت کے مستقبل کے منظر نامے میں بیرونی نظام شمسی کوئی کردار ادا کرتا نظر آ رہا ہے؟ 

    اگر انسانیت کو نظام شمسی کی آخری سرحدوں کو کھوجنا اور وہاں جا کر بالآخر رہنا ہے تو ہم ہر چیز تو اپنے ساتھ وہاں نہیں لے جا سکتے۔ فاصلے نہایت عظیم الشان ہیں۔ ایک طرح سے ہمیں اپنی زمین سے دور رہنا ہوگا۔ ایک اور جگہ ایسی ہے جو وہاں سے ہماری نسبت کافی قریب ہے اور اس کے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں یعنی کہ سرخ سیارہ، مریخ۔

    مریخ کے بارے میں کافی کچھ جانا جا چکا ہے، ہرچند مریخ زمین سے زہرہ جتنا قریب تو نہیں ہے، لیکن اس کا کرۂ فضائی اتنا شفاف ہے کہ اس کی سطح کو ہم دوربین سے دیکھ سکتے ہیں۔ مریخ نے سب سے پہلے ہمیں اپنے زمینی موسمی جھکاؤ ، دن و رات کی گردش ، قطبین اور اپنے پراسرار گہرے ہچکولے لیتے تاریک علاقوں سے متحیر کیا۔ چوب پرچم اٹھائے ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے مریخی نہروں کو جنون کی حد کر مشہور کر دیا تھا، اس نے مریخی نہروں کے جال اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے اور قیاس کی بنیاد پر مریخ پر موجود حیات کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ مصنفین جیسے کہ ویلز ، بروز اور بریڈ بری نے ان فلکیات دانوں مثلاً لوئل [1] کے کام سے ہی مواد لے کر انیسویں اور بیسویں صدی میں سرخ سیارے سے پیار کی ثقافت کو فروغ دیا۔
    ماہر فلکیات پرسیول لوئل(Percival Lowell) نے قیاس کی بنیاد پر  مریخی نہروں کے  جال  اور نخلستانوں کے مفصل نقشے بنائے
    ہمیں ان سائنس دانوں اور لکھاریوں کے ورثے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کے کاموں میں مریخ کو اس وقت کے دور میں بیان کیا گیا ہے جب تک وہاں پر خلائی کھوجی نہیں بھیجے گئے تھے، لیکن مریخی حیات کو کھوجنے کی ہماری خواہش چاہئے وہ خرد بینی شکل میں ہی کیوں نہ موجود ہو اب بھی جاری ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق مریخی حیات کی اس کھوج نے خلائی تحقیقات میں ہماری ترجیحات کو آلودہ کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں ہونے والی امریکن آسٹرونومیکل سوسائٹی ڈیویژن فار پلانٹری سائنسز کی ایک میٹنگ میں ایک محقق نے طنزاً کہا ، "اگر ہم مریخ کو جاننے کا موازنہ گینی میڈ کو جاننے سے کریں ، تو وہ قابل شرم بات ہوگی۔"

    اب بھی اگر انسان چاند سے آگے جانے کا جوکھم اٹھانا چاہتا ہے تو سب سے بہتر جگہ وہ ہوگی جہاں ہم زمین کے بغیر بھی رہ سکیں۔ مریخ کے پاس ایسا کرنے کے لئے ذرائع موجود ہیں۔ یہاں پر پانی کے کافی ذخائر موجود ہیں اور اس کی لطیف فضا ٩٥ فیصد کاربن ڈائی آکسائڈ پر مشتمل ہے، ایک ایسا سالمہ جو کاربن اور آکسیجن پر مشتمل ہے۔ پانی کو برق پاشیدگی کے ذریعہ ہائیڈروجن اور کاربن میں توڑا جا سکتا ہے۔ ہائیڈروجن مریخی فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائڈ سے تعامل کر سکتی ہے تاکہ میتھین بنائی جا سکے جو ایک موثر خلائی راکٹ کا ایندھن ہو سکتا ہے اور ساتھ میں مزید پانی بھی بنے گا جس کو دوبارہ برق پاشیدگی کے عمل سے گزرا جا سکے گا۔ اس طرح سے حتمی پیداوار میں میتھین اور آکسیجن حاصل ہوں گی۔
    مریخ کی ارض سازی ہمارا ایک خواب ہے 

    آکسیجن ایک ایسی گیس ہے جس میں سانس لینا ہر کھوجی کی کوشش ہوگی اور یہ خلائی جہاز کے ایندھن کا بھی اہم حصّہ ہوتی ہے۔ مریخی پانی پینے کے استعمال میں بھی لیا جا سکے گا جو مریخی کاربن ڈائی آکسائڈ کا استعمال کرکے خود سے آکسیجن پیدا کرے گا۔

    اہم خلائی کمپنیوں سے لے کر نجی صنعت کے گروپ مختلف قسموں کے انجینئرنگ کی تحقیقات میں مصروف عمل ہیں تاکہ انسان بردار مریخی مہمات اور مریخ میں انسانی بستیوں کو بسانے کے بارے میں منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان کی پیش بینی کے مطابق خلائی گاڑیوں سے لے کر زیر زمین گھروں تک ہر چیز مریخی مٹی کی اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی جائے گی۔ ان کے جادوئی آئینے میں مریخ پر قائم مستقبل کے گرین ہاؤسز بانسوں کے درختوں سے لبریز نظر آرہے ہیں جو تیزی سے بڑھتے ہوئے مضبوط عمارتی سامان بنانے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔ کچھ تو جینیاتی طور پر تقلیب کی گئی بکریوں، ٹلاپیا (دریائے نیل میں پائی جانے والی سخت جان مچھلی)، اسٹرابیریز اور پوئی (ہوائی کا ایک کھانا جسے لوف/تارو کی جڑ سے بنایا جاتا ہے) سے زمین سے آنے والے مسافروں کی تواضع کرنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔
    سائنس دان مریخ کو مستقبل میں درختوں سے لبریز ہونے کا خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں 
    منطقی طور پر مریخ ہمارا اگلا ٹھکانہ لگتا ہے۔ تاہم مریخ نے سیاروی کھوج کا ایک بڑا حصّہ ہضم کیا ہوا ہے اور کافی لوگ اب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی توجہ اور ذرائع مزید آگے لگانے چاہیں۔ "زہرہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟" کچھ سوال کرتے ہیں۔ بہرحال کچھ بھی ہو یہ دوزخی سیارہ زمین کا جڑواں ،فاصلے کے لحاظ سے ہم سے قریب ترین، اور ارضیاتی اور ماحولیاتی دونوں اطوار میں پیچیدہ بھی ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں زہرہ ہماری موجودہ ٹیکنالوجی کے سہارے انسانوں کے بسنے کی جگہ نہیں بن سکتا۔ جو کوئی بھی اس کی سطح پر اترنے کی کوشش کرے گا وہ اس کی سطح کے ٩٠٠ ڈگری فارن ہائیٹ درجہ حرارت میں صرف ایک ہی گھنٹے میں دب جائے گا بلکہ ہماری حالیہ دور کی جدید انجینئرنگ کے شہکار بھی یہاں پر ایک یا زیادہ سے زیادہ دو دن تک ٹھر پائیں گے۔ وحشی دباؤ الیکٹرانکس کو بھنبھوڑ دیں گے اور تیزاب حاجز کو کھا جائیں گے جبکہ سخت ترین گرمی سے بچنے کے لئے توانائی کی ضرورت انتہا کی ہوگی جس کو کہیں اور بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ سفر کرنے کے لئے کوئی اچھی جگہ نہیں ہے۔
    مریخ کی خلائی مخلوق  - کہانی نگاروں کی نظر میں 
    بہرحال اگر ہم دوسری سمت میں مریخ سے پرے دیکھیں تو حیرت انگیز طور پر ہمیں امید افزا اور تنوع سے بھرے ذرائع دکھائی دیں گے۔ یہ بات سچ ہے کہ بیرونی نظام شمسی تاریک اور حد درجے سرد ہے۔ فاصلے، سفر اور ابلاغ کو حد درجہ مشکل بنا دیتے ہیں ۔ لیکن خارجی جہاں ، گیس اور برف کے جسیم اجسام، برفیلے اور چٹانی مہتابوں کی صورت میں مصاحبین رکھتے ہیں جن میں پانی، معدنیات، اور ہائیڈرو کاربن موجود ہیں اور یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم نیا مستقبل تلاش کر سکتے ہیں۔

    آرتھر سی کلارک اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ خارجی سیاروں کی سلطنت انسانیت کی قدرتی منزل ہے۔ اس نے کہا تھا، "ہمیں یہاں سوکھی زمین پر جہاں ہم پیدا ہوئے زمینی سمندروں اور خلاء کے سمندر جہاں تاریخ اپنے گل کھلا رہی ہے، کے درمیان جلا وطن کر دیا گیا ہے۔"

    مریخ پر بستی بسانے کے حامی رابرٹ زبرین (Robert Zubrin)تو ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ضرور جانا چاہئے۔ "ہوائی جزیرہ جب سمندر سے نمودار ہو گیا تو اس کے اوپر سے اڑنے والے پرندوں نے بیج پھینک کر اس زمین پر حیات کو شروع کیا۔ ہوا میں آکسیجن موجود ہے کیونکہ حیات وہاں پر ہے۔ فرش پر مٹی ہے کیونکہ حیات نے اسے وہاں رکھا ہے۔ ہم بھی یہی کام کرتے ہیں۔ یہ بات غیر قدرتی ہوگی کہ اگر انسان بطور پرندہ جس کو قدرت نے خلاء میں حیات کو پھیلانے کے لئے بنایا ہے، حیات کے بیج کو کائنات کی بے کراں گہرائیوں میں موجود صحرائی جزیروں میں نہ ڈالیں۔"

    اگر کلارک اور زبرین جیسے لوگ درست ہوئے، تو مریخ وہ پہلا قدم ہوگا جو ہمیں دور دراز جگہوں پر جانے کے لئے اٹھانا ہوگا۔ اس سے پرے موجود جہاں ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ جما دینے والی ٹھنڈی تاریکی ، وافر مقدار میں قدرتی ذرائع کو سمیٹے اور وہ گہرے راز جو بالآخر ہمیں ہمارے سیاروی نظام کی بنیاد کو سمجھانے کے لئے موجود ہیں۔ کیرولن پورکو (Carolyn Porco)جو کیسینی سیٹرن او ربٹر امیجنگ ٹیم کی محقق اعلیٰ ہیں اس بات کو یوں کہتی ہیں :" آپ اس کو کسی بھی طرح سے ناپ لیں، چاہئے آپ اجسام کی تعداد کو گن لیں، چاہئے آپ کمیت کو جمع کر لیں، اور چاہئے آپ اس مقدار کو لے لیں جو ان اجسام کے مداروں نے لی ہوئی ہیں، ہمارے نظام شمسی کی زیادہ تر تعداد سیارچوں کے مدار سے پرے کے علاقے میں موجود ہے۔ اندرونی حصّے میں تو بس غرق شدہ تھوڑی سی چیز ہی ہے۔ ساری چیزیں تو بیرونی نظام شمسی میں موجود ہیں۔"
    نظام شمسی کا بڑا حصّہ بیرونی طرف موجود ہے 
    مزید براں برف اور گیس کے دیوہیکل سیاروں کی سلطنت کی جانب جاتے ہوئے مستقبل کے مسافروں کا سامنا ایسے جلیل القدر اور شاندار نظروں سے ہوگا جن کا تجربہ انہوں نے اس سے پہلے نہیں کیا ہوگا۔ عملی سائنسی اور ٹیکنالوجی کے فائدے کو حاصل کرنے کے علاوہ ، برفیلی چوٹیوں ، گرجتے فواروں ، دہکتے آتش فشاؤں اور چکر کھاتے طوفانوں کا سفر تحریک بھی پیدا کرے گا۔ جیسا کہ مصور/ کھوجی فریڈریک چرچ(Frederick Church) نے ایک مرتبہ کہا تھا، "کھوج روح کی تسکین کے لئے اچھی چیز ہے۔" ہینری ڈیوڈ تھوریو(Henry David Thoreau) نے نصیحت کی تھی : "ہمیں خود سری کے معجون کی ضرورت ہے۔۔۔ بیک وقت ہم کھوجنے کے لئے کوشاں اور تمام چیزوں کو سیکھنے کے لئے سرگرداں ہیں، ہمیں تمام چیزیں پراسرار اور چھپی ہوئی درکار ہیں، یعنی کہ زمین اور سمندر غیر محدود طور پر خود سر ، بغیر سروے کے اور ہمارے فہم و ادراک سے ماوراء ہوں۔۔۔۔۔" ہرچند کے ہم نے زمین کے نقشے مصنوعی سیارچوں اور زمینی سروے سے حاصل کردہ معلومات کی بنیاد پر بنا لئے ہیں ، لیکن ہمارے جہانوں کے نقشے سے پرے کافی ایسے علاقے موجود ہیں جن کے اوپر خطرناک اور غیر دریافت شدہ کا لیبل لگا ہوا ہے۔ کائنات ہمیں مجبور کر رہی ہے کہ ہم ان کو کھوجیں۔ ہم وہاں اپنے روبوٹوں کے ساتھ گئے ہیں ، ہماری خلائی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جہاں بھی ہمارے روبوٹ گئے ہیں ان کے پیچھے انسانوں کے قدم بھی پہنچ گئے ہیں۔


    مائیکل کیرول 
    لٹل ٹن ، کو ، یو ایس اے 


    مصنف کے بارے میں 

    اسپرنگر مصنف/ مصّور مائیکل کیرول (Michael Carroll) نے2012ء میں سیاروی سائنس کے فیچر مضمون پر اے اے ایس ڈویژن آف پلانیٹری سائنس کا جوناتھن ایبر ہارٹ ایوارڈ حاصل کیا ۔ یہ وہ مضمون ہے جس کا ماخذ ان کی اپنی اسپرنگر کتاب "اجنبی ہواؤں میں اڑان" (Drifting on Alien Winds)تھی۔ وہ اپنی مختلف کتب سے متعلق کافی جامع لیکچر ز دیتے ہیں۔ ان کو اکثر سائنسی عجائب گھروں میں، ہوائی کمپنیوں کے کارخانوں میں اور ناسا کے مرکز میں مدعو کیا جاتا ہے ۔ ان کا دو عشروں پر محیط بطور سائنسی صحافی کے تجربے نے ان کو سائنسی صحافت کی دنیا میں کافی جانی پہچانی شخصیت بنا دیا ہے ۔ وہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار دی آسٹرونومیکل آرٹس کے سینئر رکن ہیں اور انہوں نے خلاء سے لے کرآثار قدیمہ کے موضوعات پر کتابیں اور مضامین لکھے ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے مضامین پاپولر سائنس، آسٹرونومی، اسکائی اینڈ ٹیلیسکوپ ، آسٹرونومی ناؤ (یو کے) اور مختلف بچوں کے رسالوں میں چھپتے رہے ہیں۔ انہوں نے "ساتواں نزول" (اسپرنگر 2009ء)، "اجنبی ہواؤں میں اڑان" (اسپرنگر 2011ء) بھی لکھی ہے۔ ان کی حالیہ کتاب کا نام جو انھوں نے اشتراک میں لکھی ہے، اسپرنگر کی اجنبی سمندر: خلائی سمندر (2013ء) ہے۔

    کیرول نے ناسا ، دی جیٹ پروپلشن لیبارٹری اور دنیا کے سینکڑوں رسالوں کی جانب سے سپرد کیا گیا مصوری کا کام بھی کیا ہے۔ ان رسالوں میں نیشنل جیوگرافک، ٹائم، سمتھ سونین ، آسٹرونومی اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی بنائی ہوئی ایک تصویر مریخ کی سطح پر - ڈیجیٹل شکل میں - فینکس لینڈر کے پہلو میں بھی موجود ہے۔ کیرول کو2006ء میں لو سییان روڈ اکس ایوارڈ اور فلکیاتی فن میں تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا ہے۔





    [1] ۔ لوئل  نے بونے سیارے پلوٹو کو بھی دریافت کرنے میں مدد کی تھی۔ یورینس اور نیپچون  کے مشاہدات کا استعمال کرتے ہوئے ، اس نے اندازہ لگایا کہ نیا سیارہ کہاں ہونا چاہئے اور اس نے اس کی تلاش بھی جاری رکھی جو ناکامی سے دوچار ہوئی۔ بہرحال یہ بعد میں دریافت ہوا کہ لویل رصدگاہ  نے سیارے کی تصاویر کو ١٩١٥ء میں اتار لیا تھا، لویل کی موت سے ایک برس پہلے۔ پلوٹو کو ١٩٣٠ء میں کلائیڈ  ٹام بو  (Clyde Tombaugh)نے دریافت کیا۔ لوئل  کی تحقیقاتی کاوشوں کے اقبال میں سیارے کے نشان میں پرسیول   لوئل کے دستخط کے ابتدائی حروف پی ایل شامل کر لئے گئے۔   
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: دیوہیکل سیاروں کے دیس میں - بیرونی نظام شمسی کی کھوج اور آباد کاری Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top