١٥۔ پیش بینی
تناقض
ایک سچائی ہے جو توجہ حاصل کرنے کے لئے سر کے بل کھڑی ہے۔
-
نیکولس فلیٹا (Nicholas Falletta)
کیا پیش
بینی یا وقوف ماقبل کا وجود ہو سکتا ہے؟ یہ قدیمی تصوّر ہر مذہب میں موجود ہے جس کی
تاریخ رومیوں اور یونانیوں کے ہاتف سے لے کر پرانے عہد نامے کے انبیاؤں تک جاتی ہے۔
مگر ان قصّوں میں پیش بینی کا تحفہ ایک طرح سے سزا بھی ہوتی تھی۔ یونانی دیو
مالائی قصّوں میں ایک ٹرائے کے بادشاہ کی بیٹی کیسنڈرا (Cassandra) ہوتی ہے۔ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے وہ سورج دیوتا اپالو کی توجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس
کا دل جیتنے کے لئے اپالو اس کو مستقبل کو دیکھنے کی صلاحیت عطا کرتا ہے۔ تاہم کیسنڈرا
اپالو کو حقارت سے ٹھکرا دیتی ہے۔ غیض و غضب سے بھرا ہوا اپالو
اپنے دیئے ہوئے تحفہ کو اس طرح سے بدل دیتا ہے کہ کسینڈرا مستقبل کو تو دیکھ سکتی ہے لیکن اس کی
پیش بینی پر کوئی یقین نہیں کرتا ہے۔ جب
کسینڈرا اپنے لوگوں کو آنے والی قریبی تباہی سے آگاہ کرتی ہے تو اس کی کوئی نہیں
سنتا ۔ اس نے کاٹھ کے گھوڑے کی فریب کے بارے میں ، ایگا میمنون (Agamemnon) اور یہاں تک کہ اپنی موت کے بارے میں بھی پہلے
ہی سے بتا دیا تھا۔ تاہم اس کو سنجیدہ
لینے کے بجائے ٹرائے کے لوگ اس کو پاگل سمجھ کر قید کر دیتے ہیں۔
نوسٹراڈیمس
کی سولویں صدی کی پیش گوئیاں ہوں یا حال
میں ہی ایڈگر کائیسے(Edgar
Cayce) کے دعوے کہ وہ
وقت کے پردے کو اٹھا سکتا ہے ہر کوئی پیش بینی کرنے میں لگا ہوا ہے ۔ اگرچہ بہت
سارے دعوے دار ایسے موجود ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ان کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوں
گی (مثال کے طور پر جنگ عظیم دوم کی پیشن گوئی ، جان ایف کینیڈی کا قتل ، اور
اشتراکیت کا زوال )، غیر واضح ، تمثیلی
انداز میں ان غیب دانوں نے اپنے شعرکچھ اس
طرح سے لکھے ہیں کہ اس سے مختلف قسم کی متناقض توجہات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ مثال
کے طور پر نوسٹراڈیمس کی رباعیاں عمومی طور کی ہیں کہ اس سے کوئی بھی اپنا من چاہا مطلب نکال سکتا ہے (اور لوگوں نے یہی کیا ۔)۔
ایک رباعی ملاحظہ کیجئے :
زمین کو
ہلا دینے والی آگ دنیا کے قلب سے نکل کر دھاڑے گی :
نئے شہر
کے قریب زمین لرزے گی
دو عالی
منش ایک لاحاصل جنگ میں الجھ جائیں گے
بہار کی
حسینہ چھوٹا نیا سرخ دریا بہائے گی۔
کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ رباعی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ
نوسٹراڈیمس نے پہلے سے ہی نیویارک شہر کے
جڑواں ٹاوروں کو ١١ ستمبر ٢٠٠١ء
میں جلتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ اس کے باوجود
صدیوں سے دوسرے واقعات کو بھی اسی رباعی
سے منسوب کیا جاتا رہا ہے۔ بیان کردہ
چیزیں اتنی مبہم ہیں کہ ان کی کئی تشریحات
کی جا سکتی ہیں۔
پیش بینی
تمثیل نگاروں کا پسندیدہ کھیل کا میدان بنا رہا ہے جنہوں نے آنے والے وقتوں میں سلطنتوں کے زوال
کے بارے میں اس کے ذریعہ لکھنے کی کوشش کی ہے۔ شیکسپیئر کی میک بیتھ
میں پیش بینی کھیل کا مرکزی خیال تھا
اور میک بیتھ کی آرزو بھی تھی ، اس کھیل میں اس کا سامنا تین چڑیلوں سے ہوتا ہے جو اس کا عروج
اسکاٹ لینڈ کے حکمران کی حیثیت سے دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ چڑیلوں کی پیش گوئی کے ساتھ
ہی اس کی لوگوں کے قتال کی خواہش اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔اور یہ پیش بینی اس کو ایک خونی اور مہیب مہم اپنے دشمنوں کو ختم کرنے
کے لئے شروع کرنے کی تحریک دیتی ہے ۔ اس
تحریک کے نتیجے میں وہ اپنے دشمن میکڈوف (Macduff)کی
معصوم بیوی اور بچے کو بھی قتل کر
دیتا ہے۔
تخت و
تاج پر قبضہ کرنے کے لئے گھناؤنی حرکتیں کرنے کے بعد میک بیتھ کو چڑیلوں کے ذریعہ
پتا لگتا کہ اس کو کسی جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اس پر کوئی فاتح غالب آ سکتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ہی شکست کھا سکتا ہے جب عظیم برنام جنگل کے لوگ اس کے خلاف بلندی
(ڈنسیننی پہاڑی )پر آئیں گے۔ اور کوئی بھی
عورت ایسے بچے کو جنم دے گیجو میک بیتھ کو نقصان پہنچا سکے ۔ تاہم قدرت کو تو
کچھ اور ہی منظور تھا عظیم برنام کے جنگل میں میکڈوف کے فوجی اپنے آپ کو پودوں کی ٹہنیوں
میں چھپائے ہوئے تھے ، اور خفیہ طور پر میک بیتھ کی طرف پیش قدمی کر رہے ہوتے ہیں ۔اور
میکڈوف خود رحم مادر کو چیر کر پیدا ہوا تھا۔
اگرچہ
ماضی کی پیش گوئیوں سے کئی الگ طرح کے معنی لئے جا سکتے ہیں ، لہٰذا ان کو جانچنا
ممکن نہیں ہوتا ہے ، پیش گوئیوں کی ایک قسم ایسی ہے جس کا
آسانی سے تجزیہ کیا جا سکتا ہے مثلاً زمین کی تباہی کے بارے میں درست تاریخ کا اندازہ
لگانا ۔ جب سے انجیل کے آخری باب "الہام "نے یوم قیامت کی تفصیلات بیان
کی ہیں ، جس میں افراتفری اور تباہی ، دجال کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہو جائے گی اور دوسری اور آخری بار یسوع مسیح تشریف لائیں
گے ، تب سے بنیاد پرستوں نے کافی کوشش کی
ہے کہ یوم حشر کی درست تاریخ کی پیش گوئی کر سکیں۔
ایک اور
شہرہ آفاق قیامت کی پیشن گوئی نجومیوں نے کی تھی ، اس پیش گوئی میں انہوں نے کہا کہ ایک عظیم سیلاب دنیا کا خاتمہ ٢٠ فروری ١٥٢٤
کو کر دے گا۔ ان کی اس پیشن گوئی میں تمام سیاروں کا فلک میں جمع ہونا تھا یعنی کہ عطارد
، زہرہ ، مریخ ، مشتری اور زحل۔ اس پیش گوئی نے پورے یورپ میں بڑے پیمانے پر
افراتفری پھیلا دی ۔ انگلستان میں ٢٠ ہزار
لوگوں نے اپنے گھروں کو کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا تھا۔ ایک قلعہ جس میں خوراک اور پانی کا دو مہینے کا ذخیرہ جمع
کیا گیا تھا وہ سینٹ بارتھولومیو گرجا گھر(Saint Bartholomew Church) کے قریب بنایا گیا۔ پورے جرمنی اور فرانس
میں لوگوں نے تندہی سے بڑی کشتیاں بنانی شروع کر دیں تاکہ سیلاب کے آنے پر اس میں
بیٹھ جائیں۔ کاؤنٹ وون اگلہیم (Count
Von Iggleheim) نے تو یہاں تک
کیا کہ اس یادگار لمحے کے لئے ایک تین منزلہ کشتی تیار کر لی تھی۔ لیکن آخر
کار جب وہ تاریخ آئی تو صرف معمولی سی
بارش ہی برسی۔ ہجوم کا مزاج خوف سے یکدم غصّے میں بدل گیا۔ ان لوگوں نے جنہوں نے
اپنی تمام جمع پونجی بیچ ڈالی تھی اور اپنی زندگانیوں کو الٹ پلٹ کر دیا تھا انتہائی ناامید ہو گئے تھے۔ غصّے سے بپھرا ہوا
ہجوم دیوانہ ہو گیا۔ کاؤنٹ کو سنگسار کرکے موت سے ہمکنار کر دیا گیا اور سینکڑوں
لوگ اس بھگدڑ میں مارے گئے۔
صرف
عیسائی ہی نہیں ہیں جو پیش گوئیوں کے جھانسے میں آتے ہیں۔ ١٦٤٨ میں سباتائی زیوی
،سمیرنا کے امیر یہودی کا بیٹا تھا جس نے مسیحیت کا دعویٰ کر دیا تھا اور یہ پیش گوئی کی تھی کہ دنیا ١٦٦٦
میں ختم ہو جائے گی۔ خوش باش ، کرشماتی شخصیت ، اور دیو مالائی کہانیوں کبالہ پر
زبردست عبور کے ساتھ اس نے تیزی سے اپنی
گرد خوفناک جانباز وفادار مریدوں کا ٹولہ جمع کر لیا تھا جنہوں
نے پورے یورپ میں خبر کو عوام الناس میں پھیلا دیا تھا۔ ١٦٦٦ کی بہار میں دور دراز
میں رہنے والے یہودی جس میں فرانس، ہالینڈ
، جرمنی اور ہنگری کے رہائشی شامل تھے
انہوں نے اپنا بستر بوریا سمیٹ کر اپنے
مسیحا کی پکار کے منتظر ہوئے۔ مگر اس سال کے آخر میں زیوی کو قسطنطنیہ کے وزیر اعظم نے پابند سلاسل کر دیا تھا۔ ممکنہ
پھانسی کو دیکھتے ہوئے اس نے ڈرامائی طور پر اپنے یہودی کپڑے اتار کر ترک عمامہ
باندھ لیا اور اسلام قبول کر لیا۔ نتیجتاً دسیوں ہزاروں مریدوں نے اس کے طلسم کو توڑ کر اس دھرم سے علیحدگی اختیار کر لی۔
غائب
دانوں کی پیش گوئیوں کی گونج آج بھی سنائی
دیتی ہے اور دسیوں لاکھ دنیا کے باسیوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ ولیم ملر
نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اس بات کا اعلان کیا کہ ٣ اپریل ، ١٨٤٣ کو روز
قیامت برپا ہونے والا ہے۔ جیسے ہی پیش گوئی ریاست ہائے متحدہ امریکا میں پہنچی ، اتفاق
سے رات کو آسمان پر ١٨٣٣ میں ایک شاندار شہابیوں کی بارش شروع ہو گئی ، جو اس قسم
کی بارش میں سب سے بڑی تھی ۔ اس واقعے نے ملر کی پیشن گوئی کو مزید تقویت دی۔
دسیوں ہزار جوشیلے مرید جو ملی رائٹس کہلاتے تھے روز قیامت کا انتظار کرنے لگے ۔ جب ١٨٤٣ آیا
اور بغیر کسی قیامت برپا کیے گزر گیا ، تو ملی رائٹس کی تحریک کئی بڑے حصّوں میں
بٹ گئی ۔ملی رائٹس کے زبردست جمگھٹے کی وجہ سے اس میں سے بنا ہوا ہر جتھے کا مذہب
پر کافی گہرا اثر ہوا اور آج بھی ہے۔ ملی رائٹس کے ایک بڑے جتھے کی تحریک نے ١٨٦٣
میں جمع ہو کر اپنا نام سیون ڈے ایڈونٹسٹ چرچ رکھا جس کے آج لگ بھگ ایک کروڑ چالیس
لاکھ مسیحی ارکان ہیں۔ ان کے مذہب کا مرکزی خیال مسیح کا فوری طور پر دوبارہ ظاہر
ہونا ہے۔
ملی رائٹس سے ایک اور الگ
ہوئی جماعت بعد میں چارلس ٹیزرسل
(Charles Teze Russell) کی طرف راغب ہوگئی ، جس کے مطابق روز قیامت ١٨٧٤
تک ٹل گئی تھی۔ جب یہ تاریخ بھی گزر گئی ، تو اس نے اپنی پیشن گوئی پر نظر ثانی
کی جو مصر کے عظیم اہراموں پر انحصار کرتے
ہوئے اب ١٩١٤ میں ہونا تھی۔ یہ جماعت بعد میں شاہدان یہوا کہلائی جس کے ارکان کی تعداد ٦٠ لاکھ سے زیادہ ہے۔
ملی
رائٹس کے دوسرے گروہوں نے پیش گوئیوں کو جاری رکھا جس کے نتیجے میں ہر پیشن گوئی کی ناکامی کے بعد
مزید حصّوں بخروں میں بٹتے چلے گئے۔ ملی رائٹس کی ایک چھوٹی جماعت داؤدی جماعت
کہلائی ، جو سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ سے الگ ہو کر ١٩٣٠میں بنی تھی۔ ان کی ایک چھوٹی سی
تحصیل واکو ٹیکساس میں ہے ، جو ایک کرشماتی تبلیغی نوجوان جس کا نام ڈیوڈ کو ریش(David
Koresh) ہے ، کے زیر اثر ہے ، جو دنیا کے خاتمے پر
تنویمی انداز پر بولتا ہے۔ یہ جماعت اپنی افسوسناک انجام کو ١٩٩٣ میں ایف بی آئی
کے مقابلے میں اس وقت پہنچی جب برامدے میں
موجود ایک دہکتے ہوئے الاؤ میں ٧٦ارکان
،٢٧ بچے اور کریش بھی جھلس گئے۔
کیا ہم مستقبل میں جھانک سکتے ہیں ؟
کیا سخت
گیر سائنسی تجربات یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ہم مستقبل کی پیش بینی کر سکتے ہیں ؟باب
١٢ میں ہم نے دیکھا تھا کہ وقت میں سفر کرنا طبیعیات کے قوانین کی رو سے ممکن ہو
سکتا ہے لیکن یہ ایک جدید تہذیب III کی
قسم کے لئے ہی ممکن ہوگا۔ مگر کیا پیش بینی کرنا آج کے دور میں موجود ٹیکنالوجی
اور سائنس کی بدولت زمین پر ممکن ہے ؟
رائن
سینٹر میں کیے گئے مفصل تجربات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ کچھ لوگ مستقبل میں
دیکھ سکتے ہیں ؛ یعنی کہ وہ پتوں کو ان پر
ظاہر ہونے سے پہلے ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم بار بار کے تجربوں نے یہ ثابت کیا کہ اس کا اثر
بہت ہی معمولی ہے اور جب دوسرے لوگ اس کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں تو اکثر یہ ویسا نہیں کر پاتے ۔
در حقیقت
پیش بینی کا جدید طبیعیات سے میل کھانا بہت ہی مشکل ہے۔ کیونکہ یہ سببیت یعنی علت و معلول کے قانون کی خلاف ورزی کرتی
ہے۔ اثر اس وقت ہوتا ہے جب اس کا سبب ہو ، سبب اثر سے پہلے نہیں ہو سکتا۔ ابھی تک
پائے جانے والے تمام طبیعیات کے قوانین کے اندر موجبیّت لامحالہ موجود ہوتی ہے۔ علت
و معلول سے ذرا سا بھی انحراف طبیعیات کی بنیادوں کو ڈھانے کا بڑا سبب بن جائے گا۔
نیوٹنی طبیعیات سختی سے علت و معلول پر کاربند ہے۔ نیوٹنی میکانیات ایک دوسرے پر اتنی زیادہ انحصار کرتی
ہیں کہ اگر آپ کو تمام سالموں کا محل و وقوع پہلے سے معلوم ہو تو آپ ان کے مستقبل
کی حرکت کا حساب لگا سکتے ہیں۔ اس طرح سے مستقبل کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔ نظری
طور پر نیوٹنی میکانیات بتاتی ہے کہ اگر آپ کے پاس کافی بڑا کمپیوٹر موجود ہو تو
آپ مستقبل کے تمام واقعات کو بیان کر سکتے ہیں۔ نیوٹن کے مطابق کائنات ایک دیو
قامت گھڑی کی مانند ہے ، جس میں اس کی ابتداء کے وقت خدا نے چابی بھر دی ہے اور یہ
اس وقت سے اس کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق چل رہی ہے۔ نیوٹن کے نظریہ میں کسی
پیش بینی کا ذکر نہیں ہے۔
وقت میں رجعت
جب ہم
میکسویل کا نظریہ زیر بحث کریں گے تو صورتحال اور زیادہ گھمبیر ہو جائے گی۔ جب
روشنی کے لئے ہم میکسویل کی مساوات کو حل کرتے ہیں ، تو ہمیں ایک نہیں دو حل ملتے
ہیں : ایک "پس ماندہ "موج جو
معیاری روشنی کی حرکت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ بیان کرتی ہے ، تاہم اس کے ساتھ ایک بلند موج بھی ہوتی ہے جس میں روشنی کی کرن وقت میں واپس جاتی ہے۔ یہ
بلند حل مستقبل سے آتا ہوا ماضی میں جاتا ہے !
سو سال
سے بھی زائد عرصے میں انجینیروں کو اس بلند حل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو واپس
دوبارہ وقت میں چلا جاتا ہے اور وہ اس کو صرف اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ یہ تو بس ایک ریاضیاتی جستجو ہے۔ کیونکہ کہ پس ماندہ موجیں
اتنی درستگی کے ساتھ ریڈیائی ، خرد موجوں ، ٹیلی ویژن ، ریڈار اور ایکس ریز کو
بیان کرتی ہیں کہ اس بلند حل کو کھڑکی سے اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ پس ماندہ
موجیں اتنی شاندار اور خوبصورت طریقے سے کام کرتی ہیں کہ انجینیروں نے بدصورت
ہمزاد کو نظرانداز ہی کر دیا۔ آخر کو کامیابی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کیوں کری جائے ؟
مگر طبیعیات دانوں کے لئے ، بلند موجیں پچھلی
ایک صدی سے پریشان کر دینے والی ہیں۔ کیونکہ میکسویل کی مساوات جدید دور کے اہم
ستونوں میں سے ایک ہے ، لہٰذا اس کے کسی بھی حل کو نہایت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ چاہئے وہ مستقبل سے آتی ہوئی موجوں کو ہی کیوں
نہ بیان کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ مستقبل سے آتی
ہوئی بلند موجوں کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوگا۔ قدرت نے اس بنیادی سطح پر ہمیں
کیوں اتنا عجیب و غریب حل فراہم کیا ہے ؟ کیا یہ کوئی ظالمانہ مذاق ہے یا اس کے
گہرائی میں کچھ اور مطلب موجود ہے ؟
سالکوں
نے اس بلند موج میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس بات کا اندازہ لگانا شروع کر دیا
کہ وہ مستقبل سے آتے ہوئے پیغام ہیں۔ شاید اگر ہم کسی طرح سے ان موجوں کو قابو کر
لیں تو ہم کسی طرح سے ماضی میں پیغام کو بھیج سکتے ہیں جس کے نتیجے میں پچھلی نسل کو آنے والے واقعات
سے ہوشیار کیا جا سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر ہم اپنے دادا کو ١٩٢٩ میں پیغام بھیج
سکتے ہیں جس میں انھیں خبردار کرتے ہوئے بتایا جائے کہ وہ اپنے تمام حصص کو عظیم
کساد بازاری کے آنے سے پہلے ہی فروخت کر دیں ۔ یہ بلند موجیں ہمیں ذاتی طور پر
ماضی میں نہیں لے جا سکتی ، جیسا کہ وقت کے سفر میں ہوتا ہے تاہم اس کے ذریعہ ہم اس قابل ہو جائیں گے کہ ماضی میں
خطوط و پیغامات کو بھیج سکیں اور لوگوں کو
ان واقعات سے خبردار کر دیں جو اس وقت تک
واقع نہیں ہوئے تھے۔
یہ بلند موجیں اس وقت تک ایک معمہ بنی رہیں جب
تک رچرڈ فائن مین نے ان کا مطالعہ نہیں کیا ، وہ ماضی میں جانے کے خیال سے کافی متاثر تھا۔ مین
ہٹن منصوبے پر کام کرنے کے بعد ، جہاں پہلا جوہری بم بنایا گیا تھا، فائن
مین نے لاس الموس کو چھوڑ دیا اور
پرنسٹن یونیورسٹی میں جان وہیلر کے ماتحت
کام شروع کیا۔ الیکٹران پر ڈیراک کے اصل کام کا تجزیہ کرتے ہوئے فائن مین نے بہت
ہی عجیب چیز دریافت کی۔ اگر وہ صرف ڈایرک کی مساوات میں وقت کو الٹا کر کرکے الیکٹران
پر بار کو بھی الٹ دیتا تو مساوات ویسی ہی رہتی۔ بالفاظ دیگر الیکٹران کو واپس ماضی میں بھیجنا ، ضد الیکٹران
کو مستقبل میں بھیجنے کے برابر ہے !عام طور پر ایک کہنہ مشق طبیعیات دان اس توجیہ
کو رد کر دیتا ہے کہ یہ صرف مساوات کا ہیر
پھیر ہے ، صرف ریاضی کی شعبدہ بازی ہے جس کو کوئی مطلب نہیں ہے۔ وقت میں پیچھے
جانا کوئی معانی نہیں رکھتا ، اس کے باوجود ڈیراک کی مساوات اس بارے میں بالکل
واضح تھی۔ دوسرے الفاظ میں فائن مین نے یہ بات کھوج لی تھی کہ قدرت گزرے وقت میں
جانے کی اجازت دیتی ہے :ماضی میں جانا ضد مادّہ کی حرکت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر وہ کوئی
ضعیف طبیعیات دان ہوتا تو وہ اس حل کو اٹھا کر کھڑکی کے باہر پھینک دیتا۔ مگر ایک
سند یافتہ طالبعلم کی حیثیت سے اس نے اپنے تجسس کی تسکین جاری رکھی۔
اس نے اس معمے میں الجھنا جاری رکھا جس میں اسے
مزید عجیب چیزیں ملیں۔ عام طور پر اگر ایک الیکٹران اور ضد الیکٹران آپس میں
ٹکراتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو فنا کر
دیتے ہیں جس کے نتیجے میں گیما اشعاع پیدا ہوتی ہیں۔اس کو اس نے ایک کاغذ پر بنایا
:دو جسم ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں توانائی پھوٹ رہی تھی۔
تاہم اگر آپ ضد الیکٹران کا بار تبدیل کر دیں تو وہ ایک عام الیکٹران بن کر وقت میں واپس چلا
جاتا ہے۔ آپ پھر دوبارہ سے وہی خاکہ بنا سکتے ہیں جس میں وقت الٹا بہ رہا ہوگا۔ اب
وہ ایسے لگے گا جیسا کہ الیکٹران واپس وقت میں جا رہا ہے اور اچانک ہی اس نے اپنی سمت بدلنے کا فیصلہ
کیا ہے۔ الیکٹران نے وقت میں ایک یو ٹرن (الٹا موڑ )لے لیا تھا اور اب وہ واپس وقت میں الٹا جا رہا تھا ، اور اس عمل کے دوران توانائی کو چھوڑ رہا
تھا۔ بالفاظ دیگر یہ وہی الیکٹران تھا۔ الیکٹران اور ضد الیکٹران کے فنا کا عمل
وہی عمل تھا جس میں الیکٹران نے وقت میں واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا !
لہٰذا فائن
مین نے ضد مادّہ کے اصل راز کا پردہ فاش کر دیا تھا :وہ ایک عام مادّہ تھا جو وقت
میں واپس جا رہا تھا۔ اس سادے سے مشاہدے نے فوری طور پر ان تمام معموں کو حل کر
دیا کہ تمام ذرّات کے ساتھی ضد ذرّات بھی ہوتے ہیں: یہ اس لئے ہے کہ تمام ذرّات
وقت میں پیچھے سفر کر سکتے ہیں وہ صرف ضد
مادّہ کا روپ بھرتے ہیں۔(یہ توجیہ ڈیراک کے سمندر جس کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے
جیسی ہی ہے ، مگر یہ نسبتاً زیادہ سادہ ہے ، اور یہ وہ توجیہ ہے جو آج کل مقبول
عام ہے۔)
چلیں اب
فرض کرتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک ضد مادّہ کا ایک ٹکڑا موجود ہے جو عام مادّے سے ٹکرا رہا ہے جس کے نتیجے میں
ایک زبردست دھماکا پیدا ہوتا ہے۔ اب یہاں دسیوں کھرب الیکٹران اور ضد الیکٹران فنا ہو رہے ہیں۔ لیکن
اگر ہم ضد الیکٹران کے سمت کے تیر کو بدل دیں ، تو وہ ایک الیکٹران بن کر ماضی میں
سفر کر رہا ہوگا ، اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہی الیکٹران آ ڑ ھا ترچھا دسیوں کھرب مرتبہ
وقت میں آ رہا اور جا رہا ہوگا۔
یہاں پر
مزید پر تجسس نتیجے موجود ہیں :مادّے کے ٹکڑے میں صرف ایک ہی الیکٹران کو ہونا
چاہئے۔ وہ ہی الیکٹران وقت میں آتا جاتا رہے گا۔ ہر مرتبہ جب وہ وقت میں یو ٹرن لے
گا تو وہ ضد مادّہ بن جائے گا۔ لیکن اگر اس نے ایک اور مزید یو ٹرن وقت میں لیا تو وہ ایک اور الیکٹران بن
جائے گا۔
(اپنے
مقالے کے مشیر ، جان وہیلر کی مدد سے ، فائن مین نے خیال ظاہر کیا کہ شاید مکمل
کائنات صرف ایک ہی الیکٹران سے بنی ہے ، جو وقت میں آگے پیچھے گھوم رہا ہے۔ ذرا تصوّر
کریں کہ بگ بینگ کی افراتفری میں صرف ایک ہی الیکٹران پیدا ہوا تھا دسیوں کھرب سال
بعد ، اس اکیلے الیکٹران کا سامنا روز قیامت کے دن سے ہوگیا جہاں اس نے ایک یو ٹرن لے لیا اور واپس وقت میں
چلا گیا اور اس عمل کے دوران گیما شعاعوں کو پیدا کیا۔ پھر وہ اصلی بگ بینگ کے
لمحے میں لوٹ گیا اور پھر وہاں دوسرا یو
ٹرن لیا۔ تو الیکٹران اس سفر کوبگ بینگ سے کائنات کے خاتمے تک آگے پیچھے کرکے متواتر دوہراتا رہے گا۔ اکیسویں صدی میں ہماری کائنات اس الیکٹران کے
سفر کی صرف ایک وقت کی قاش ہے جس میں ہم کھرب ہا الیکٹران اور ضد الیکٹران دیکھ
رہے ہیں یعنی کہ قابل مشاہدہ کائنات دیکھ
رہے ہیں۔ یہ نظریہ جتنا بھی عجیب نظر آئے یہ اس کوانٹم کی پر تجسس حقیقت کو بیان
کرتی ہے کہ کیوں تمام الیکٹران بالکل ایک جیسے ہی ہیں۔ طبیعیات میں آپ الیکٹران کو
لیبل نہیں کر سکتے۔ الیکٹران ہرے یا جونی الیکٹران نہیں ہوتے۔ الیکٹران کی کوئی
انفرادیت نہیں ہوتی۔ آپ الیکٹران کو اس طرح سے ٹیگ نہیں لگا سکتے جیسے سائنس دان
جنگلی جانوروں میں ان پر تحقیق کی غرض سے
ٹیگ لگاتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات ہی اس ایک الیکٹران پر
مشتمل ہے جو صرف وقت میں آگے پیچھے چکر لگا رہا ہے۔)
لیکن اگر
ضد مادّہ ایک عام مادّہ ہے جو وقت میں پیچھے جا رہا ہے ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ
ماضی میں کوئی پیغام بھیجا جا سکے ؟کیا یہ
بات ممکن ہے کہ آج کا وال اسٹریٹ جرنل ، اپنے آپ کو ماضی میں بھیجا جا سکے تاکہ
حصص مارکٹ میں کمایا جا سکے ؟
اس کا
جواب ہے نہیں۔
اگر ہم
ضد مادّے کو ایک عجیب طرح کا مادّہ سمجھیں ، اور اس ضد مادّہ کے ساتھ ایک تجربہ
کریں تو حاصل کردہ نتائج علت و معلول کے خلاف نہیں حاصل ہوں گے۔ اگر ضد الیکٹران کے لئے اب ہم وقت کے بہاؤ کو واپس الٹ دیں تو اس میں ہم صرف ایک ریاضی کا فعل ہی انجام دیں گے۔ طبیعیات میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔ طبعی طور پر
کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہوگا۔ تمام تجربہ ویسے ہی رہے گا۔ لہٰذا اگرچہ یہ بات
بالکل صحیح ہے کہ الیکٹران کو وقت میں آگے پیچھے دیکھا جا سکتا ہے تاہم ہر مرتبہ جب الیکٹران وقت میں پیچھے جائے گا ، تو وہ صرف
ماضی کو تکمیل دے گا۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے جیسے کہ مستقبل کے جدید حل حقیقت میں نہایت ضروری ہیں تا کہ ایک پائیدار
کوانٹم کے نظریہ کو حاصل کیا جا سکے۔ تاہم یہ بات علت و معلول سے انحراف نہیں ہے۔ (حقیقت میں ان
عجیب بلند موجوں کے بغیر علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی کوانٹم نظرئیے میں
ہوتی ہے۔ فائن مین نے اس بات کو ثابت کیا کہ اگر ہم بلند اور پسماندہ موجوں
کو شامل کر لیتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم
ہوگا کہ علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی
اس سے واپس صحیح ہو جاتی ہے۔ لہٰذا ضد
مادّہ علت و معلول کی بقاء کے لئے لازمی ہے۔ ضد مادّہ کے بغیر علت و معلول کا اثر
ڈھیر ہو جائے گا۔)
فائن مین
نے اس پاگل پنے کے خیال کے جراثیم کو اس
وقت بڑھایا جب تک وہ ایک مکمل الیکٹران کے کوانٹم
نظرئیے کی کلی بن کر نہیں پھوٹ پڑا۔ اس کی دریافت کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس کو
تجرباتی طور پر دس ارب میں ایک حصّے کے بقدر جانچا گیا ہے اوریہ اب تک پیش کیا جانے والا سب سے زیادہ درست نظریہ ہے۔ اس دریافت نے اس کو اور ان
کے رفقائے کاروں جولین شیوینگر(Julian
Schwinger) اور سن –اتیرو
ٹوموناگا(Sin-Itiro
Tomonaga) کو ١٩٦٥ء میں
نوبل انعام جتوایا۔
(فائن
مین نے نوبل انعام کو قبول کرتے ہوئے جو تقریر کی تھی اس میں اس نے کہا تھا کہ
بطور نوجوان وہ اضطراری طور پر مستقبل سے آتی ہوئی ان بلند موجوں کے عشق میں
گرفتار ہو گیا تھا۔ آج وہ خوبصورت لڑکی ،
پوری ایک سنجیدہ خاتون میں بدل گئی ہے اور اب تو اس کے کافی بچے بھی ہو گئے ہیں۔
ان بچوں میں سے ایک اس کا پیش کردہ کوانٹم الیکٹرو ڈائنامکس ہے۔)
مستقبل سے آتا ہوا ٹیکیون
مستقبل
سے آتی ہوئی بلند موجوں کے علاوہ (جنہوں نے اپنے کار آمد ہونے کو کوانٹم نظریہ میں بارہا ثابت کیا ہے ) ابھی کوانٹم نظریہ میں ایک اور
عجیب خیال ہے جو اتنا ہی پاگل کر دینے والا تو ہے تاہم ممکنہ طور پر اتنا کارآمد نہیں ہے۔ یہ خیال ٹیکیونس (tachyons)کا ہے جو اسٹار ٹریک فلم میں مستقل نمودار ہوتے رہتے ہیں۔
جب بھی اسٹار ٹریک کے مصنف کو کوئی نئی قسم کی توانائی کسی جادوئی کمال کو دکھانے کے لئے چاہئے ہوتی ہے تو وہ اس کا ہی سہارا لیتا
ہے۔
ٹیکیونس
ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہر چیز روشنی کی رفتار سے بھی تیز محو سفر ہوتی
ہے۔ ٹیکیونس توانائی کا اخراج کرتے ہوئے اور تیز رفتار سفر کرتے ہیں جو خلاف عقل ہے۔
حقیقت میں اگر وہ تمام توانائی کو ختم کر دیں تو وہ لامحدود رفتار سے سفر کر سکتے ہیں۔ ٹیکیونس
توانائی کو حاصل کرتے ہوئے آہستہ ہوتے
رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ روشنی کی رفتار کو پہنچ جاتے ہیں ۔
ٹیکیونس
کو جو چیز سب سے زیادہ عجیب بناتی ہے وہ اس کی تصوّراتی کمیت ہے۔(تصوّراتی کا مطلب کہ ان کی کمیت حاصل ضرب جزر المربع منفی
ایک یا "i" کے برابر ہوتی ہے۔
اگر ہم آئن سٹائن کی شہرہ آفاق مساوات کو لے کر "m" کو "im" سے
بدل دیں تو کچھ معجزانہ چیزیں وقوع پذیر ہو جائیں گی۔ اچانک سے ذرّات روشنی کی
رفتار سے بھی تیزی سے سفر کرنے لگیں گے۔
یہ نتیجہ
کچھ عجیب و غریب قسم کی صورتحال کو جنم دے
گا۔ اگر ٹیکیونس مادّے میں سے ہو کر سفر
کریں تو کیونکہ وہ مادّے کے جوہروں سے ٹکرائیں
گے لہٰذا ان میں سے توانائی کم ہو جاتی ہے ۔ یہ تصادم اس سے مزید توانائی کو خارج کروانے کا باعث بنتے ہیں۔
مگر جیسی ہی اس کی توانائی کم ہوتی ہے اس
کی رفتار اور بڑھ جاتی ہے جو اس کے مادّے کے ساتھ ہونے والے تصادموں کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
ان تصادموں میں مزید توانائی خارج ہو کر کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں وہ مزید اسراع
پذیر ہو کر اور تیز ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ شیطانی چکر بار بار گھوم کر چلتا ہی رہتا ہے لہٰذا قدرتی طور پر
ٹیکیونس لامحدود تیز رفتاری خود ہی سے ہی حاصل کر لیتے ہیں !
(ٹیکیونس
ضد مادّہ اور منفی توانائی سے مختلف ہوتے
ہیں۔ ضد مادّہ پر مثبت بار ہوتا ہے جو
روشنی کی رفتار سے آہستہ سفر کرتے ہیں اور
ان کو اسراع گروں میں بنایا جا سکتا ہے۔ نظریہ کے مطابق وہ قوّت ثقل کے زیر اثر
آتے ہیں۔ ضد مادّہ عام مادّے کی ہی طرح ہوتے ہیں جو وقت میں رجعت کرتے ہیں۔ منفی
مادّے کی منفی توانائی ہوتی ہے اور یہ بھی
روشنی کی رفتار سے آہستہ ہی سفر کرتے ہیں
مگر یہ قوّت ثقل کے تحت جذب نہیں ہوتے بلکہ دھکیل دیئے جاتے ہیں۔ منفی
مادّے کو کبھی بھی تجربہ گاہ میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔ نظرئیے کے مطابق اس کو بڑی
مقدار میں ٹائم مشین میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹیکیونس روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتے ہیں اور ان
کی تصوّراتی کمیت ہوتی ہے ؛ یہ بات واضح نہیں ہے کہ قوّت ثقل اس کو کھینچتی ہے یا
دھکیلتی ہے۔ ان کو بھی تجربہ گاہوں میں نہیں بنایا جا سکا ہے۔
اپنی
عجیب و غریب خصائص کے باوجود ٹیکیونس کو
کچھ طبیعیات دانوں نے سنجیدگی سے لیا ہے جس میں ایککولمبیا یونیورسٹی کے آنجہانی جیرالڈ فینبرگ(Gerald
Feinberg) اورآسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس کے جارج سدارشن(George
Sudarshan) بھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی نے بھی ٹیکیونس کو
تجربہ گاہ میں نہیں دیکھا ہے۔ ٹیکیونس کے تجرباتی ثبوتوں کو حاصل کرنے میں سب سے
بڑی رکاوٹ علت و معلول کی ہوگی۔
فینبرگ
نے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ طبیعیات دان لیزر کی کرن کو اس کے چالو ہونے سے پہلے
ہی دیکھ کر اس کا تجزیہ کر سکتے ہیں۔ اگر ٹیکیونس وجود رکھتے ہیں تو شاید لیزر کی
کرن آلے کو کھولنے سے پہلی ہی دیکھی جا سکتی ہے۔ سائنسی قصص میں ٹیکیونس کو ماضی
میں پیغام بھیجنے کے لئے مستقل استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اگر ہم طبیعیات کا صحیح
طرح سے تجزیہ کریں تو ہمیں یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ مثال کے
طور پر فینبرگ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ وقت میں آگے جاتا ہوا ٹیکیونس اس
ٹیکیونس کے برابر ہے جس نے منفی توانائی کو جذب کر لیا ہو اور وہ وقت پیچھے کی طرف
جا رہا ہو۔(جیسا کہ ضد مادّہ کے ساتھ ہوتا ہے ) لہٰذا موجبیّت سے انحراف نہیں ہوتا۔
سائنسی
قصص کو چھوڑ دیں ، آج بھی ٹیکیونس کا جدید
نظریہ یہ ہے کہ ممکن ہے کہ بگ بینگ کے
لمحے میں یہ وجود رکھتے ہوں جس کے نتیجے میں سببیت کا انحراف تو ہوگا تاہم اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔۔ درحقیقت شروع میں ہو
سکتا ہے کہ شاید انہوں نے کائنات کے دھماکے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہو۔ اس طرح
سے ٹیکیونس بگ بینگ کے کچھ نظریوں کا لازمی حصّہ ہوتے ہیں۔
ٹیکیونس کے کچھ مخصوص خواص ہوتے ہیں۔ جب بھی آپ
اس کو کسی بھی نظریہ میں ڈالتے ہیں تو وہ خالی جگہ کو غیر متوازن کر دیتے ہیں یعنی وہ نظام کی سب سے کم توانائی حالت کو غیر
پائیدار کر دیتے ہیں ۔ اگر نظام میں ٹیکیونس موجود ہوں گے ، تو وہ خالی جگہ میں
موجود ہوں گے لہٰذا نظام پائیدار نہیں ہوگا
اور انحطاط یا تنزل پذیر ہوتا ہوا بالکل خالی ہو جائے گا۔
ایک ڈیم
کا تصوّر کریں جس نے جھیل کے پانی کو روکا ہوا ہو۔ یہ اس جھوٹی خلاء کی طرح ہوگا۔
اگرچہ ڈیم دیکھنے میں بالکل پائیدار لگ رہا ہوگا ، مگر اس میں توانائی کی ایک حالت
موجود ہوگی جو ڈیم کی توانائی سے کم ہوگی۔ اگر ڈیم میں کوئی دراڑ پڑ جائے اور پانی
اس دراڑ میں سے نکلنا شروع کر دے تو نظام
ایک ٹھیک خلاء حاصل کر لے گا کیونکہ پانی
سمندر کی سطح پر آ جائے گا۔
بالکل
اسی طرح سے اس بات پر یقین کیا جاتا ہے کہ بگ بینگ سے پہلے کائنات ، جھوٹی خلاء سے
شروع ہوئی جس میں ٹیکیونس موجود تھے۔ مگر
ٹیکیونس کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ توانائی کی
نچلی حالت میں نہیں تھی جس کی وجہ سے نظام
غیر پائیدار تھا۔ ایک چھوٹی سی "دراڑ
"مکان و زمان کی ساخت میں پیدا ہو گئی ، جو مکمل خلاء کو ظاہر کرتی تھی۔ دراڑ
جیسی بڑی ہوتی گئی ایک بلبلہ نمودار ہوتا
رہا۔ بلبلے کے باہر ٹیکیونس اس وقت بھی
موجود تھے ، مگر بلبلے کے اندر وہ سب غائب ہو گئے تھے ، بلبلے کے پھیلنے کے بعد ہم
نے کائنات کو اس کی موجودہ شکل میں بغیر ٹیکیونس کے پایا۔ اور یہ ہی بگ بینگ تھا۔
جھوٹا اور سچا جوف |
ایک اور
نظریہ جو ماہرین کونیات بہت ہی سنجیدگی سے لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک ٹیکیون جو افراط کہلایا اس نے
ہی اصل افراط پذیر کائنات کو شروع کیا تھا۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ
افراط پذیر کائنات کا نظریہ ہمیں بتاتا ہے کہ کائنات ایک مکان و زمان کے ایک ننھے
بلبلے کی شکل میں شروع ہوئی تھی جو ایک بہت ہی زیادہ توانائی سے بھرپور افراط پذیر
دور سے گزری۔ طبیعیات دان اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ کائنات شروع میں ایک جھوٹی
خلاء سے شروع ہوئی تھی ، جس میں افراط کا میدان ایک ٹیکیونس تھا۔ مگر ٹیکیونس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر دیا تھا
اور چھوٹے سے بلبلے پیدا ہو گئے۔ کسی بھی ایک بلبلے کے اندر افراطی میدان کو سچی
خلاء کی حالت میسر آ گئی تھی ۔ پھر یہ بلبلہ فطری طور پر نہایت ہی تیزی سے پھیلا
یہاں تک کہ ہماری کائنات کی صورت میں نمودار ہوا۔ ہماری کائنات کے اندر افراطی دور
ختم ہو گیا لہٰذا یہ اب ہماری کائنات میں
نظر نہیں آتا۔
لہٰذا
ٹیکیون ایک کوانٹم کی عجیب و غریب حالت کو پیش کرتے ہیں جس میں اجسام روشنی کی
رفتار سے بھی تیز سفر کر سکتے ہیں اور شاید علت و معلول کے اثر کی خلاف ورزی بھی
کر سکتے ہوں۔ تاہم وہ بہت عرصہ پہلے غائب ہو
چکے ہیں اور شاید انہوں نے ہی کائنات کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
یہ تمام
باتیں فالتو کی قیاس آرائیاں لگتی ہیں کیونکہ ان کو جانچا نہیں جا سکتا۔ مگر جھوٹی
خلاء کا نظریہ پہلی مرتبہ ٢٠٠٨ء میں جانچا
جائے گا جب دی لارج ہیڈرون کولائیڈر سوئٹزر لینڈ میں جنیوا کے باہر چلنا شروع ہوگا۔
اس اسراع گر کا ایک اہم مقصد "ہگس بوسون "کی تلاش ہے ، جو معیاری نمونے
کا آخری ذرّہ ہے ، ایک ایسا ذرّہ جس کو
ابھی ڈھونڈا جانا ہے۔ یہ اس آڑے کٹے معمے
کا آخری ٹکڑا ہے۔(ہگس کا ذرّہ اس قدر اہم
مگر مشکل ہے کہ نوبل انعام یافتہ لیون لیڈرمین اس کو "خدائی ذرّہ
"کہتے ہیں۔)
طبیعیات
دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہگس بوسون شروع میں ایک ٹیکیونس ہی تھا۔ جھوٹی خلاء میں ، کسی بھی ذیلی جوہر ی
ذرّہ پر کوئی کمیت موجود نہیں تھی۔ مگر اس کی موجودگی نے خلاء کو غیر پائیدار کر
دیا تھا اور کائنات ایک ایسے نئے
خلاء سے گزری تھی جس میں ہگس بوسون عام ذرّے
میں بدل گئے تھے۔ ٹیکیونس سے ایک عام ذرّہ کے بننے کے دوران ، ذیلی جوہری ذرّات نے
کمیت حاصل کرنی شروع کردی جس کو ہم آج تجربہ گاہ میں ناپ سکتے ہیں۔ لہٰذا ہگس
بوسون کی دریافت نہ صرف معیاری نمونے کے
آخری ٹکڑے کو مکمل کر دے گی بلکہ یہ اس
بات کو بھی جانچ سکے گی کہ آیا ٹیکیونس کی حالت کبھی وجود رکھتی تھی جو اب عام ذرّے میں بدل گئی ہے۔
خلاصے کے
طور پر ، پیش بنی نیوٹنی طبیعیات میں تو نہیں کی جا سکتی۔ علت و معلول کے آہنی اصول کی خلاف ورزی کبھی بھی نہیں کی جا
سکتی۔ کوانٹم کے نظریہ میں ، مادّے کی نئی حالتیں ممکن ہیں جیسا کہ ضد مادّہ جو مادّے کو وقت کے مخالف میں
سفر کرنے کے برابر ہے تاہم یہ موجبیّت سے
انحراف نہیں ہے۔حقیقت میں ، کوانٹم نظریہ میں ضد مادّہ موجبیّت کو لانے کے لئے
لازمی ہے۔ٹیکیونس پہلی نظر میں تو علت و
معلول کے اثر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر طبیعیات دان اس بات پر یقین
رکھتے ہیں کہ اس کا اصلی مقصد بگ بینگ کو پیدا کرنا تھا لہٰذا اب ان کا مشاہدہ
نہیں کیا جا سکتا۔
لہٰذا
پیش بینی کو فی الوقت کم از کم آنے والے وقت تک تو خارج از امکان قرار دیا جاتا ہے ۔نتیجتاً میں اس کو جماعت III کی ناممکنات میں زمرہ بند
کرتا ہوں۔ اگر کبھی بھی کسی قابل افزائش نو تجربے میں پیش بینی ثابت ہو گئی تو وہ
طبیعیات کی انتہائی بنیادوں کی ہلا کر رکھ دے گی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں