باب چہارم
عبور کا تعاقب
یہ کوئی پانچ بج
کر تیس منٹ ہوئے تھے اور میں تیزی کے ساتھ ایک خالی جگہ پہنچنے کی جلدی میں تھا ۔ مجھے چارلس ریور جو کیمبرج ،میسا چوسٹس میں واقع ہے
اس کے ساتھ موجود جگہ پر پہنچنا
تھا ۔ ہارورڈ اسکوائر کے پل کو پار کرتے ہوئے میں بے چینی سے مشرقی افق پر نظریں
گاڑھے ہوئے تھا جہاں پر ابھرتا ہوا سورج
آسمان کے ایک ٹکڑے پر بادلوں سے نبرد آزما تھا ۔ میری منزل - ہارورڈ سائنس سینٹر کے پاس تھی جو بالکل ہی ہارورڈ کے شمالی پچھواڑے میں واقع تھی،
ایک عجیب میلہ سا لگا ہوا تھا ۔ داخلے کے
ساتھ ہی ، ہارورڈ کا مارچنگ بینڈ ایک غیر معروف دھن بار بار بجا رہا تھا جبکہ سینکڑوں لوگ چھت پر پہنچنے کی کوشش کر رہے
تھے ۔ ہر کوئی یہاں پر وہ نظارہ کرنے کے لئے بیتاب تھا جو بنی نوع انسان نے پچھلے
١٢٢ برسوں سے نہیں دیکھا تھا ۔ وہ ٨ جون ٢٠٠٤ء کا دن تھا اور وینس سورج کو عبور کر
رہا تھا ۔
اس عبوری مرحلے جس میں زہرہ ایک
کالی قرص کی شکل میں سورج کی عظیم درخشانی
قرص کے سامنے سے گزر رہا تھا ، ان
شاندار نظاروں میں سے ایک تھی جس میں ہم
نظام شمسی کے اندرونی حصّہ کو ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔ زہرہ کا سورج کو عبور کرنے کا یہ واقعہ شاندار لیکن انتہائی نایاب بھی ہے ۔یہ نسل خوش
قسمت تھی : زہرہ کا یہ عبوری مرحلہ اس مرتبہ دو مرتبہ جوڑے کی صورت میں ہونا تھا ۔ دوسرا عبوری مرحلہ اب ٦ جون ٢٠١٢ء
کو ہونا تھا ۔
دور حاضر میں زہرہ کے اس عبوری مرحلے کی اہمیت فلکیاتی
محققین کے لئے کچھ زیادہ نہیں ہے ، لیکن اس جڑواں عبوری مرحلے کے مشاہدے کی سائنس
کی دنیا میں ١٧٦٩ء اور اس سے پہلے کے دور میں کافی اہمیت تھی ۔ ولیم شیہان(William Sheehan) اور جان ویسٹ
فال (John Westfall) کے مطابق سترویں صدی میں زہرہ کے عبوری مرحلے کا مقابلہ
بیسویں صدی میں چاند پر قدم رکھنے سے کیا جا سکتا ہے ۔ سورج کے سامنے سے زہرہ کے
گزرنے کے اس عبوری مرحلے سے سائنس دانوں
کو زمین سے سورج کے درست فاصلے کو ناپنے
کا ایک نایاب موقع ملتا ہے اور یوں وہ پورے نظام شمسی کا فاصلہ ناپنے کے قابل ہو
سکتے ہیں ۔ اس بات کی اہمیت صرف سائنس کی دنیا میں ہی نہیں ہے ، برٹش ٹرانزٹ کمیٹی
نے ایک رقعہ ١٧٦٧ء میں بادشاہ جارج سوم کے
نام لکھا جس میں اس کی اہمیت کو راستوں
کو سمجھنے کے لئے بیان کیا گیا تھا ۔ اس کی اہمیت اتنی تھی کہ بادشاہ نے اس
مہم کی تائید کی تھی ۔ ٢٥ مئی ١٧٦٨ء،
کپتان جیمز کک(James Cook) کو اس کام کی
ذمہ داری سونپی گئی جس سے اس کے جنوبی
بحرالکاہل کے شہرۂ آفاق سفر کا آغاز شروع ہوا ۔
اصل میں عبور کرنے کا
مرحلہ ایک طرح سے سورج گرہن ہوتا ہے ۔ اس گرہن کو عطارد یا زہرہ لگاتا ہے ،بہرصورت
یہ واقعہ اتنا ڈرامائی نہیں ہوتا جتنا کہ سورج گرہن چاند
کی وجہ سے ہوتا ہے ۔ سیاروی عبور سورج سے آتی ہوئی روشنی پر بہت معمولی انداز میں اثر انداز ہوتے ہیں ، یہ سورج کی روشنی کے ایک
فیصد کے بھی کچھ حصّے کو کم کر پاتے ہیں ، یہ اتنا کم ہوتا ہے کہ ہم اس کو زیادہ
اہمیت ہی نہیں دیتے ، اس کے باوجود یہ ہمارے اور ستارے کے درمیان
سے گزرتے ہوئے ایک کالا سا نقطہ بنا تے ہیں ۔ تاریخ میں عبور کی اصطلاح صرف
عطارد اور زہرہ کے لئے استعمال کی جاتی تھی ، مگر دور حاضر میں دوسرے ستاروں کے
گرد سیاروں کی کھوج میں اس اصطلاح کا
اطلاق کافی وسیع ہو گیا ہے ۔ جیسا کہ عطارد اور زہرہ سیارے صرف ایک فیصد سے بھی کم سورج کی روشنی کو
ہمارے پاس پہنچنے سے روک پاتے ہیں (ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر 4.1 )۔
جیسے ہی وہ اپنے مورث
ستارے کی قرص کے سامنے سے گزرتے ہیں ، سیارہ
اپنے ستارے کی روشنی کو مدھم کر دیتا ہے روشنی میں یہ کمی سیارے کے عکس ڈالنے والے حصّے
کے مقابلے میں سورج کے روشن حصّے کی کسر
کے برابر ہوتا ہے ۔ دائرے کا رقبہ اس کے نصف قطر پر انحصار کرتا ہے یعنی رقبہ اس کے نصف قطر کے مربع کے برابر ہوتا
ہے ۔ لہٰذا ستارے کی روشنی (rp/rs)² کلیہ کے
مطابق ہی مدھم ہوگی جس میں rp اور rs
سیارے اور ستارے کے بلترتیب نصف قطر ہیں ۔ کوئی سیارہ جو مشتری جتنا بڑا ہو
اور کوئی ستارہ جو سورج
کے حجم کا ہو، تو اس صورت میں سیارے کا
ستارے کی روشنی کو مدھم کرنے کا یہ اثر ایک فیصد ہوگا جس کو آسانی سے شوقیہ آلات
کی مدد سے بھی معلوم کیا جا سکتا ہے ۔ بہرحال زمین جو سورج سے ١٠٩ گنا چھوٹی ہے ،
وہ سورج کے سامنے اس کو عبور کرتے وقت اس
کی روشنی کو صرف 1/(109)² یعنی کہ صرف0.008فیصد تک ہی کم کر پائے گی۔ اس معمولی اثر کو دیکھنا
مشکل ضرور ہے تاہم ناممکن نہیں ہے ۔
سیاروں کی دریافت میں
عبوری طریقہ اس لئے کام کرتا ہے کیونکہ
سیارے کی وجہ سے ستارے کی روشنی میں ہونے والی کمی کو ستارے کی تابانی ناپ کر کی جا سکتی ہے جس
کو ضیا پیمائی ](ضیا ئیوں یعنی فو
ٹونوں کو ناپنا )[Photometryکہتے ہیں۔ ضیا پیمائی ، طیف بینی (Spectroscopy) سے مختلف ہوتی ہے۔ طیف
بینی میں روشنی کے رنگوں کی پیمائش کی جاتی ہے ۔ ضیا پیمائی کے لئے کیمرے کی ضرورت
ہوتی ہے جو اکثر چھوٹی دوربین کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے ۔ اس میں سب سے بڑی مصیبت
یہ ہے کہ سیاروں کے مدار کو ستارے کے مشاہدے کے وقت بالکل ابھار پر ہونا چاہئے ، جس کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے ۔
ہماری کہکشاں میں موجود نظام ہائے سیارگان اٹکل پچو تمام ممکنہ سمتوں میں بکھرے
ہوئے ہیں (خاکہ نمبر4.2)۔ لہٰذا ہماری فوقیت والی جگہ سے کسی سیارے کو ستارے کو عبور کرتا
ہوا دیکھنے کا امکان نجمی نصف قطر
کا سیارے کے مدار کے حجم کی نسبت
کے برابر ہوگا۔ یہ عام طور پر ایک فیصد سے
بھی کم ہوتا ہے ۔
اتنے کم امکان کے
ساتھ ، ہزار ہا ستاروں کی نگرانی انتہائی صبر کے ساتھ کرنی ہوگی تاکہ سیاروں کی
وجہ سے روشنی کی میعادی کمی کو عبوری وقت میں آسانی سے پکڑا جا سکے۔ عبوری مرحلے
کا مقابلہ صرف ثقلی عدسے کا طریقہ ہی کر
سکتا ہے ۔ عبوری مرحلے کو بے عیب بنانے کے لئے اور اس کے عملی استعمال کے لئے بہت زیادہ سعی
کرنی پڑتی ہے ، لیکن یہ تمام تر جدوجہد اس طریقے سے حاصل کردہ فوائد کے مقابلے میں
کافی نتیجہ خیز ہوتی ہے: جب ہم عبوری اور
ڈوپلر ڈگمگاہٹ دونوں طریقوں کے ذریعہ پیمائش کرتے ہیں تو ہم سیارے کا نصف قطر ، کمیت اور اس طرح سے اس
کی اوسط کثافت بھی اخذ کر سکتے ہیں ۔ لیکن یہ تو صرف ایک اضافی معلومات ہوتی ہے !
عبوری طریقہ عظیم ارض یا ارض جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کے لئے بہت ہی بہترین
طریقہ ثابت ہوا ہے ۔
١٩٩٩ء تک ٢٥ سے زیادہ
ماورائے شمس سیارے ڈوپلر تبدیلی کے طریقے سے دریافت کیے جا چکے تھے جن میں سے
زیادہ تر تپتے ہوئے مشتری تھے ۔ کیونکہ تپتے ہوئے مشتری اپنے مورث ستارے کے گرد
انتہائی نزدیک ہوتے ہیں لہٰذا ان کا ستارے کو عبور کرنے کا امکان بڑھ جاتا ہے ۔
خاکہ نمبر 4.2 اس بات کو ظاہر
کرتا ہے کہ کس طرح سے اندرونی حصّے میں موجود سیارہ ستارے کو دور دراز میں واقع
سیارے کی بہ نسبت زیادہ دفعہ عبور کر سکتا
ہے۔ کسی بھی ستارے کے نزدیک موجود
ایسے سیارے کو عبوری طریقے میں
پانے کا موقع پانچ سے دس فیصد ہوتا ہے۔ با الفاظ دیگر ڈوپلر تبدیلی کے
طریقے سے دریافت ہوئے ان بیس سے زیادہ تپتے ہوئے مشتری میں سے کم از کم ہم کسی ایک کو اپنے مورث ستارے کو عبور کرتا ہوا
دیکھ سکتے تھے ۔ عبوری سیارے کو کھوجنے کا نسبتاً زیادہ امکان ان کی کھوج کو زیادہ مسابقتی بنا دیتا ہے ۔ سیارہ شناس(Planet Hunter) ٹیمیں جو نئے
سیاروں کی کھوج میں لگی رہتی ہیں ، وہ اپنے دریافت شدہ سیاروں کو اس وقت تک راز
میں رکھتی ہیں جب تک ان کی تسلی نہیں ہو
جاتی کہ سیارہ ستارے کو عبور کر رہا ہے ۔
خوش قسمت تپتا ہوا
مشتری HD 209458b نکلا ، جو ایک
عام سے نظام ہائے سیارگان کا حصّہ تھا جو سورج جیسے ستارے کے گرد 3.5 دن میں زمین سے
١٥٠ نوری برس کے فاصلے پر چکر لگا رہا تھا ۔ یہ سیارہ ڈوپلر منتقلی کے طریقے سے ١٩٩٩ء کی موسم گرما میں جنیوا
رصدگاہ اور ہارورڈ – سمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے سیارہ شناسوں کے اشتراک سے
دریافت کیا گیا تھا ۔١٩٩٩ء تک انہوں نے اپنے اعداد و شمار ہارورڈ کے سند یافتہ
طالبعلم ، ڈیوڈ شر بونو (David Charbonneau) کے حوالے کیا
جو اس وقت بولڈر ، کولوراڈو میں اپنا وقت چھوٹی ضیا پیمائی دوربینوں کے ساتھ
گزار رہے تھے جس کو ان کے لئے نیشنل سینٹر
فار ایٹموسفیرک ریسرچ کے ٹم براؤن(Tim Brown) نے بنایا تھا ۔
ڈیوڈ اور ٹم نے عبور کا سراغ لگا لیا تھا
اور اسی طرح سے جیوف مارسی(Geoff Marcy) اور پال بٹلر (Paul Butler) کی ٹیم نے بھی اس کا پتا چلا لیا تھا یہ دونوں بھی اسی دوڑ میں شامل تھے ۔انہوں نے
اپنا ڈوپلر منتقلی کا مواد ٹینیسی اسٹیٹ
یونیورسٹی کے گریگوری ہینری (Gregory Henry) کے حوالے کیا جو ضیا پیمائی کو ایریزونا میں واقع
خودکار دوربینوں کے ذریعہ ناپ رہے تھے ۔
یہ کامیابی دو طرح سے ایک سنگ میل ثابت ہوئی تھی
: اس نے بغیر کسی شک کے ان ماورائے شمس سیاروں
کی موجودگی کی تصدیق کی تھی جن کو ڈوپلر منتقلی
کے طریقے سے ١٩٩٥ء سے بالواسطہ طور پر دریافت کیا گیا تھا ،
اور اس نے عبوری طریقے سے سیاروں کو دریافت کرنے کے لئے حوصلہ افزائی بھی کی تھی ۔
٢٠٠٠ء کی شروعات میں
، عبوری طریقے نے واضح طور پر سیاروں کی دریافت کے لئے ایک مقام بنا لیا تھا :(١)
اس طریقے کے استعمال سے دسیوں ہزار ستاروں
کی بیک وقت ضیا پیمائی ہو سکتی تھی اور (٢) اس وقت تک کا انتظار کرنا ہوتا تھا جب تک آپ کو کوئی ستارہ ایک مستقل صورت میں
جھلملاتا ہوا نظر نہیں آتا تھا ۔ اگر ستارے کی روشنی کئی گھنٹوں تک، کچھ دنوں کے بعد
لگاتار لگ بھگ ایک فیصد تک کم ہو جاتی، تو
آپ نے ایک عبوری تپتا ہوا مشتری مثلاً HD 209458b جیسا سیارہ ڈھونڈھ لیا ہے ۔ اس میں دو چیزیں بہت
زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں :کافی زیادہ تعداد میں ستاروں کو بیک پیمائش کرنا
اور اس پیمائش کو ایک فیصد سے بھی بہتر انداز میں انتہائی درستگی کے ساتھ ناپنا ۔ اول الذکر کا مطلب ہے کہ چھوٹی
دوربین کا استعمال کرنا جو آسمان کا زیادہ تر حصّہ دیکھ سکے یا پھر عام دوربین کا
استعمال کرتے ہوئے انتہائی مدھم ستاروں کی
پیمائش کرنا ۔ موخر الذکر کا مطلب یہ کہ سافٹ ویئر اور ضیا پیمائی کی جزئیات کو
بہتر بنانا ۔
کئی فلکیات دان عبوری
طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سیارے کی دریافت میں انتہائی جلد بازی کا مظاہرہ کرتے
ہیں ۔ ان کی امیدیں کافی زیادہ ، اور پیش گوئیاں کافی خوش گمان ہوتی ہیں ۔ روشنی
میں کمی کو ناپنا ہی سیارے کی دریافت کی تصدیق سمجھ لیا جاتا ہے ۔ نتیجتاً وہ
ٹیمیں جن کے ذرائع انتہائی محدود ہوتے ہیں
وہ جنیوا میں موجود مچل میئر(Michel Mayor) کی ٹیم اور کیلی فورنیا میں موجود جیوف مارسی کی ٹیم کا مقابلہ نئے سیاروں کی دریافت
میں کر سکتی ہیں ۔ نسخہ بہت ہی آسان ہے ؛
لیکن حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔ HD 209458b کی دریافت ہونے کے بعد تین سال کا عرصہ گزر گیا اور کوئی دوسرا
سیارے ستارے کو عبور کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا ۔
مسئلہ یہ تھا کہ چند
ستارے جھلملاتے تو تھے تاہم ان کی وجوہات دوسری ہوتی تھیں ۔ مثال کے طور پر دو
ستارے جو ایک دوسرے کے نزدیک مدار میں موجود ہوں وہ ایک دوسرے کو گرہن لگاتے
ہیں اور اسی وقت ایک تیسرا ستارہ اس اثر کو کم کر دیتا تھا جس کے نتیجے میں اس
گہرے گرہن کا اثر کم ہو جاتا تھا اور وہ
مہین ہو کر ایک سے دو فیصد رہ جاتا تھا بعینہ
جیسے کہ چھوٹے سیارے کے اپنے مورث ستارے کے عبوری وقت میں ہوتا ہے ۔ہم اپنی بہترین دوربینوں کا استعمال کرنے کے باوجود ان تینوں
ستاروں کو زمین سے روشنی کے ایک نقطہ کی
مانند دیکھتے ہیں ۔ یا ایک بہت ہی چھوٹا ستارہ ہمارے سورج سے
تھوڑے سے بڑے ستارے کے گرد چکر لگا سکتا ہے
جس کے نتیجے میں گرہن دو فیصد تک گہرا ہو سکتا ہے اور اس گرہن کو سیارے کے گرہن سے ممتاز کرنا
بہت ہی مشکل ہوتا ہے ۔ اسی طرح مختلف صورتحالوں
کی ایک لمبی فہرست موجود ہے ۔ یہ احساس بتدریج نمودار ہوا کہ ایسے غلط
اشارے کافی آسانی سے اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔ہارورڈ – سمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس کے ڈیوڈ لاتھم(David Latham) جو سیارے شناسی کے اختراع
اندازوں میں سے ایک ہیں ، وہ بہت ساری ان
ٹیموں کی مدد کر رہے ہیں جنہوں نے ممکنہ عبوری امیدواروں کی تصدیق کی ہے ۔ یہ ان کی مدد تیزی سے دیکھنے
والی چھوٹی دوربین کے ذریعہ ضیا پیمائی
سے کر رہے ہیں ۔ وہ سیاروں کے بجائے عبوری ضیا پیمائی میں سے غلط امیدواروں کی نشاندہی کر رہے ہیں ۔
مسئلہ ٢٠٠٢ء میں
سامنے آیا ۔ اوگلی ](او جی ایل ای )[OGLE ٹیم جس سے ہم پہلے ملے
تھے انہوں نے چلی میں واقع اپنی دوربین کو
نئے بڑے کیمرے سے ایک برس پہلے ہی لیس کیا تھا۔ کہکشاں میں نجمی ثقلی عدسے کی تلاش کرنے سے پہلے جو ان کا بنیادی مقصد تھا انہوں نے اپنی دوربین کا رخ
جنوبی آسمان کی جانب کیا جو ستاروں سے لبریز تھا اور سیاروں کے ستاروں کو عبور
کرنے کے سراغ کو حاصل کرنے کی امید میں
انہوں نے لگا تار چار ہفتے بغیر کسی
وقفے کے ہر رات اس کا مشاہدہ کرنا شروع کیا۔ چند مہینے تک اس دوران کچھ گیگا بائٹ مواد انہوں نے جمع کرلیا تھا۔ جب اس حاصل کردہ اعداد و شمار کی چھان بین
کی تو اس میں سے انہوں نے ساٹھ کے قریب جھلملاتے ستارے ملے ۔ جھلملاہٹ دیکھ کر
ایسا لگتا تھا جیسے کہ سیارے ستاروں کو عبور کر رہے ہوں ، کیونکہ ستاروں کی روشنی صرف ایک سے تین فیصد کے قریب کم ہو رہی تھی ،
اصل مرحلہ اس بات کا یقین کرنا تھا کہ اس میں سے کون سے اشارے غلط تھے ۔
اوگلی دوربین سے حاصل کردہ ضیا پیمائی کا مواد
بذات خود اس قابل نہیں تھا کہ وہ ان
ستاروں کی نشاندہی کر سکے جو باقاعدہ روشنی کو ہلکا کرتے ہیں ۔ مزید معلومات جیسا
کہ نجمی ضیا پیمائی کے اعداد و شمار یا زمین سے فاصلہ دستیاب نہیں تھا کیونکہ یہ تمام ستارے بہت ہی مدھم اور دور تھے اور ہم ان کو پہلے سے نہیں جانتے
تھے ۔ اوگلی کی ٹیم نے عبوری امیدواروں کی پوری فہرست انٹرنیٹ پر(کسی بھی جریدے
میں چھپنے سے پہلے ہی ) شایع کردی اور دنیا بھر کے فلکیات دانوں اور سیارہ شناسوں
کو دعوت دی کہ وہ ان میں سے سیاروں کو تلاش کریں ۔ مقابلہ شروع ہو گیا تھا ۔
جیسے ہی اوگل کی پہلی فہرست انٹرنیٹ پر نمودار
ہوئی ، میرے نوجوان رفیق کار کرس اسٹانیک (Kris Stanek)چلتے ہوئے میرے دفتر
تشریف لائے اور مجھے ستاروں کے گرد چکر
لگاتے ہوئے سیاروں کی دریافت کا چیلنج دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں یہ کام ہو
سکتا ہے کیونکہ ہارورڈ –ا سمتھ سونین سینٹر فارایسٹرو فزکس کے پاس شاید ذرائع بھی تھے بلکہ زیادہ اہم ان کا تجربہ تھا۔ تجربے کے معاملے میں تو میں نے ان
کی تائید کی تھی کیونکہ صرف دو سال قبل ہی پہلے عبوری سیارے HD 209458b کی دریافت ہماری مقامی کھوج ہی تھی ۔ ان تمام باتوں کے باوجود
اوگل کی فہرست میں موجود سیاروں کی تصدیق کے لئے ایک بالکل نئی طریقے کی ضرورت تھی
۔ درحقیقت عبوری طریقے سے سیارہ شناسی کو
مکمل طور سے از سر نو ترتیب دینا تھا ۔
١٩٩٠ء کے عشرے کے اس سادہ طریقہ جس میں
ضیا پیمائی کا استعمال کرتے ہوئی ستاروں کی جھلملاہٹ کو تلاش کیا جاتا تھا کوئی
قابل ذکر نتیجہ فراہم نہیں کر سکا تھا۔
سب سے پہلا کام جو
کرنے کا تھا وہ اس فہرست نے خود ہی بتا دیا تھا ۔ ان میں سے کچھ عبوری امید وار اپنی روشنی میں یکے بعد دیگر جھلملاہٹ میں تبدیلی دکھا رہے تھے ۔ میں اس جھلملاہٹ کو
اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکا تھا ، مگر ان کا سیاروں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ جب دو
ستارے جن کو ہم ثنائی ستارے بھی کہتے ہیں اور جن کا حجم اور مدار مکمل کرنے کا وقت
بھی تپتے ہوئے مشتری سیاروں جتنا ہی ہوتا ہے؛ ایک دوسرے کے گرد انتہائی نزدیک مدار
میں چکر لگاتے ہیں تو درحقیقت وہ ایک دوسرے کو کھینچتے ہوئے آڑو کی شکل کا کر دیتے
ہیں ۔ ان کی غیر متشاکل(Asymmetric) ساخت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک دور دراز شاہد کے لئے ان کی
سطح کی شکل مدار میں چکر لگاتے ہوئے مختلف
ہو سکتی ہے یوں ان سے آنے والی روشنی بھی
تبدیل ہوتی نظر آسکتی ہے ۔ مزید براں ستارے ایک دوسرے کو منور بھی کرتے ہیں جس کے نتیجے میں بھی ان سے آتی روشنی میں فرق آ
جاتا ہے ۔ اب اگر اتفاق سے مدار میں چکر
لگاتے ہوئے دو ستارے ایک دوسرے کی بالکل
صحیح ترتیب میں آ گئے ہوں تو ہمیں ستارے ایک دوسرے کو گرہن لگاتے ہوئے نظر آئیں گے
۔ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ ستارے بڑے ہوتے ہیں اور ان کے گرہن کافی گہرے ہوتے ہیں
(اتنے گہرے کہ پہلا ثنائی ستارہ چشم عریاں سے ١٧٨٢ء میں جان گڈریک[John Goodricke] نے دریافت کیا تھا )۔ اوگل گرہن اس سے دس گنا زیادہ چھوٹا ہوتا ہے
؛ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟
اس جگہ پر میرا نجمی طبیعیات کا پیش منظر بہت کام آ سکتا تھا ۔ یہ اوگل امیدوار یقینی
طور پر گرہن لگتے ہوئے ستارے تھے ، ممکنہ
طور پر یہ ثنائی ستاروں سے دو طرح سے مختلف ہو سکتے تھے ۔ یا تو ایک تیسرا ستارہ
ان کے درمیان موجود تھا ، یا پھر کوئی بہت ہی چھوٹا ستارہ کسی بہت بڑے ستارے کے
مدار کے ساتھ موجود تھا ۔ پہلی صورت میں تیسرا ستارہ گرہن کی گہرائی کو صاف کر
دیتا تھا جس کے نتیجے میں وہ دھندلا ہو
جاتا تھا ؛ دوسری صورت میں گرہن اتھلا ہو کر شروع ہوتا ہے ۔اوگل کی فہرست میں
موجود ایک یا دو ستارے ،ستاروں کے بے جوڑ
نشان کے غماز بھی تھے، کیونکہ چھوٹے ستارے کی وجہ سے اس میں مشکل سے ہی کوئی گرہن
تھا ۔ مسئلہ اس بات کی تلاش کا تھا کہ کیا اوگل کی فہرست میں موجود باقی ستارے بھی
گرہن لگے ہوئے ثنائی ہیں یا نہیں ۔
ہمارے بنیادی مسئلے کا حل یعنی غلط امیدواروں کو اصل عبوری سیاروں سے الگ
کرنا، ستاروں کے کام کرنے کے طریقے کی سمجھ کے پچاس سالہ تجربے میں موجود تھا جس کو نظریہ نجمی ارتقاء
کہتے ہیں ۔ مختلف کمیت کے ستاروں کا درجہ حرارت
اور ان کی تابانی کا اندازہ ان کے ارتقاء کے مختلف ادوار میں کافی درستگی کے ساتھ لگایا جا سکتا ہے اور ثنائی ستارے بھی اسی عمر کے ہوتے ہیں ۔ اس
یقین ہو جانے کے بعد کہ یہ نجمی ارتقاء کا بنیادی
علم ہی اس مسئلہ کا حل ہو سکتا ہے
، میں نے مرحلے وار اقدام اٹھانے کی
منصوبہ بندی کی جو جھلملاتے ستاروں کی
روشنی میں، عبوری سیاروں کی وجہ سے ہونے والی، کمی کی تصدیق کے لئے ضروری تھی ۔
میں ستاروں کا
نظریہ کار تھا اور اگرچہ مجھے
دوربین اور اس کے ذیلی آلات کے استعمال میں بہت سرور حاصل ہوتا تھا تاہم میں اوگل
چیلنج سے نمٹنے کے لئے خود سے انتظام نہیں کر پا رہا تھا ۔ مسئلہ کو حل
کرنے کے لئے ایک ٹیم کی ضرورت تھی ۔ گئیےمو ٹورس ](عرف عام میں ولی)[Guillermo Torres، جو ثنائی
ستاروں اور ضیا پیمائی کے مشاہدے کے ماہر تھے وہ اس کام کو کرنے کے لئے تیار ہو
گئے اور ہم اس بات پر بھی رضا مند ہوگئے تھے کہ اپنے کسی ایسے سند یافتہ طالبعلم
سے بات کریں گے جو دھندلے ستاروں کی ضیا پیمائی یا پھر ستاروں کے پھٹتے وقت ان سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ وہ طالبعلم سورابھ
جھا(Saurabh Jha) تھا ، جو اس وقت دور دراز
سپرنووا کی جاسوسی میں لگا ہوا تھا تاکہ
تاریک توانائی کو سمجھ سکے ۔ سورابھ ماورائے شمس سیاروں کے بارے میں پہلے
سے ہی کافی پرجوش تھا ؛ اس نے ہمارے سینیئر
سند یافتہ طالبعلم ڈیوڈ چر بونو کے ساتھ HD 209458b کے عبوری مشاہدے میں تعاون کیا تھا ۔ اسی دوران ڈیو نے کالٹک میں رہتے ہوئے عبوری سیاروں کو دیکھنے کے
لئے اپنی دوربین خود بنانی شروع کردی ۔
ولی ، سورابھ اور
مجھے تو فوراً کام شروع کرنا تھا ۔ ہمارے اس نئے طریقے میں کئی درجے تھے ۔ ممکنہ
عبور کی شناخت کی ضیا پیمائی کرنے کے
بعد ہم نے اکلوتے ہلکے یا درمیانی
ریزولوشن کے ستارے کا طیف لیا تاکہ اس بات
کا پتا لگا سکیں کہ آیا وہ کوئی ضخیم ستارہ تو نہیں ہے ۔ اگر وہ ضخیم ستارہ ہوتا
تو ہم اس کو چھوڑ دیتے ۔ اگر وہ ضخیم نہیں نکلتا تو ہم اس کا مزید طیف حاصل
کرتے تاکہ ایک بڑے ڈوپلر منتقلی کا اثر اس میں دیکھ سکیں ۔ ایک بڑی ڈگمگاہٹ اس
بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ "عبور " سیارے کے بجائے ستارے کی وجہ سے
وقوع پذیر ہوا ہے ۔ اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے دنیا کی سب سے بڑی دوربین کی ضرورت
تھی جس کے ذریعہ سب سے بہتر ضیا پیمائی ہو سکتی ہو۔ اگر
ہمیں چھوٹی ڈگمگاہٹ ملتی ، تو اگلے قدم کے طور پر ہم طیف کا تجزیہ کرتے تا کہ دیکھ
سکتے کہ آیا جذبی طیفی خطوط مسخ تو نہیں
ہو رہے تھے۔ اگر ایسا کوئی بگاڑ موجود نہ ہوتا اور نہ ہی کوئی دوسرے طیفی خطوط نظر آتے
تو ہم تمام مشاہدات کو ایک ساتھ جمع کرتے
اور پھر ان کا مقابلہ مختلف نجمی ارتقائی نمونوں سے اندازہ لگائے ممکنہ پیش
منظر اور پس منظر کے ستاروں سے پیدا ہوئے بگاڑ سے کرکے دیکھتے۔ سب کچھ کر لینے کے بعد اگر یہ غیر متزلزل طور پر
متحد نظر آتے تو نہ صرف سیارے کی تصدیق ہو
جاتی بلکہ اس کا حجم اور کمیت بھی کافی درستگی کے ساتھ معلوم ہو سکتی تھی ۔ ولی
اور مجھے ایک نجمی اور ثنائی ستارے کا نمونہ بنانا تھا تاکہ ہم نظام کا تجزیہ کرکے
اس بات کا تعین کریں کہ آیا وہ ستارے ہیں کہ سیارے۔
تاہم ہارورڈ میں
ہمارے پاس ایسی بڑی دوربین تک رسائی نہیں
تھی جس کا استعمال کرکے ہم انتہائی درستگی کے ساتھ
اوگل کے بہت ہی دھندلے ستاروں کی ضیا
پیمائی اور ڈوپلر منتقلی کے طریقے کو ناپنے سکتے۔ صرف سب سے بڑی دوربین
کیک ہی ایسا کر سکتی تھی مگر اس کے
استعمال کا زیادہ تر وقت معاون اداروں یعنی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور
کالٹک کے پاس تھا جنہوں نے اسے بنایا تھا ۔
خوش قسمتی سے میرا چلتا ہوا اشتراک کیک
کی دونوں دوربینوں کے رفقائے کاروں سے تھا
جو کالٹک میں موجود تھے اور وہ بصری فلکیات کے جادوگر تھے ۔ کالٹک میں
، ماچی کوناکی (Maciej Konacki)
– ایک نوجوان محقق جو میرے رفیق
کار شری کلکرنی (Shri Kulkarni)کے ساتھ کام کر رہے تھے اور پول (Pole)بھی (اوگل کی باقی ٹیم کی طرح ) - بہت زیادہ پرجوش تھے اور کیک کو اس مہم کے آخری
مرحلے میں شامل کرنے کے لئے تیار تھے۔ کیک
کا آلہ - پرانا قابل بھروسہ ہائرس (ایچ
آئی آر ای ایس )ضیا پیما اسٹیو ووگٹ(Steve Vogt) نے بنایا تھا اور اس کا استعمال کرتے ہوئے جیوف مارسی نے بہت سے ماورائے شمس سیارے ڈوپلر منتقلی کے طریقے کے ذریعہ سے دریافت کیے تھے ، یہ ہمارے
لئے استعمال کے لئے دستیاب تھا اور
ماچی نے اس بات کا پورا اطمینان کرلیا تھا کہ ہم سیاروں کی دریافت کے آخری اور اہم
مرحلے کو یقین کے ساتھ مکمل کر سکیں ۔
موسم گرما بہت مصروف
گزرا ، پہلے ہم نے چلی اور ہوائی میں مشاہدے کیے ، جہاں کیک رصدگاہ موانا کیا کے
بڑے جزیرے کی چوٹی پر نصب ہے ، اور اس کے
درمیان حاصل ہونے والے مواد کا تجزیہ جتنا جلدی ممکن ہو سکا کیا ۔ ہم صرف اس لئے
جلدی میں نہیں تھے کہ ہم جانتے تھے کہ یہاں پر ایک دوڑ لگی ہوئی ہے اور مقابلے کانٹے کا ہے ، بلکہ اس لئے تھے کہ
ہمارے کام کا مقصد صحیح طرح سے ان مرحلوں کو پورا کرنا تھا جس میں ہمیں غلط اشاروں کو شناخت کرکے ساتھ
ساتھ الگ کرنا اور کیک میں ملے قیمتی وقت
کا درستگی سے استعمال کرنے کا تھا ۔چلی میں ملنے والے شروع کے ابتدائی مرحلوں سے حاصل کردہ نتائج بہت
ہی زبردست تھے :اوگل کے امیدواروں میں سے اکثریت عبوری نہیں تھے یعنی کہ وہ سیارے
نہیں تھے جس کے نتیجے میں نوے فیصد اوگل کی
فہرست سے امیدوار خارج ہو گئے تھے ۔
خوش قسمتی سے ہمارے پاس پانچ امیدوار کیک میں
مشاہدے کے لئے باقی بچ گئے تھے ۔ ہم خوش گمان تھے ، لیکن یہ بات پہلے ہی واضح ہو
گئی تھی کہ شروع کی ہماری بلند
توقعات جس میں ہم سمجھ رہے تھے کہ آدھے سے زیادہ عبوری
سیارے ہو سکتے ہیں ، بری طرح سے مجروح ہو چکی تھیں۔ اب بھی مزید کم از کم دو
امتحان باقی تھے جس میں سے ان بچے ہوئے امیدواروں کو گزرنا تھا ۔ یہ بات ممکن نہیں
تھی کہ تمام ہی امیدواروں کو فہرست سے خارج کر دیا جائے ۔ یاد ماضی میں ہم اس بات
پر کافی خوش تھے کہ ہمارا عبوری طریقہ
ابھی تک کام کر رہا تھا اور پہلی مرتبہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہمیں
دوسرے لوگوں پر سبقت حاصل ہے اور ہم ان سب سے آگے ہیں ، دوسرے لوگ غلط
اشاروں کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اگر غلط اشارے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتے ، تو لازمی طور پر مقابلے کی دوڑ میں شامل دوسرے لوگ
فہرست میں موجود کسی سیارے کو قسمت سے پا لیتے اور ہمیں کم از کم ایک مہینے یا اس سے بھی کم میں مات
دیتے ہوئے سیارے کی دریافت کا اعلان کر
دیتے!
کیک سے کئے گئے
مشاہدے زبردست رہے ، اور ہمیں واضح طور پر ایسا لگ رہا تھا کہ جن چار
امید واروں کا ہم نے مشاہدہ کیا تھا ان
میں سے ایک صاف طور پر سیارہ ہی تھا: OGLE-TR-33۔ اس کو یہ عجیب نام اس لئے ملا تھا کہ فہرست میں موجود کوئی بھی
ستارہ اس سے پہلے نہیں دیکھا گیا تھا ، لہٰذا اس
کو فہرست میں ملی جگہ کی مناسبت سے نام دے دیا گیا۔ یہ فہرست اس ٹیم کی
تیار کی تھی جس نے اس کا سب سے پہلے مشاہدہ کیا تھا ۔ ستارہ ٣٣ میں واضح ڈگمگاہٹ
موجود تھی جس کا حیطہ یا فراز موج کافی
بڑے سیارے یا شاید ایک بھورے بونے سے مطابقت رکھتی تھی۔ بھورے بونے ناکام ستاروں کو کہتے ہیں ۔ عبوری بھورے بونے
کو تلاش کرنا بھی اتنا ہی جوش سے بھرا تھا جتنا کہ ایک بڑے سیارے کو ۔ لہٰذا ہم نے
OGLE- TR-33 کو جلدی سے جانچنا شروع کیا ، تاکہ یہ معلوم کر سکیں کہ
آیا یہ ہمارے آخری مرحلہ امتحان میں بھی کامیاب ہوگا یا نہیں ۔ ہمیں یقین نہیں
آیا - ہم نے تو نیچر جریدے کے لئے ایک
مقالہ بھی اپنی جانچ کے دوران لکھنا شروع
کر دیا تھا ۔ اب ہمیں اس کو چھوڑنا پڑا تھا ۔ اسی دوران ، ایک اور امید وار جو سر
فہرست تھا وہ بھی تمام امتحانات سے سرخ رو
ہو گیا تھا ۔ شروع میں ہم نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی کیونکہ OGLE- TR-33 میں ہمیں واضح طور پر ایک بڑی ڈگمگاہٹ نظر آئی تھی اور وہ ایک آسان ہدف لگ رہا تھا ۔ یہ دوسرا
ستارہ OGLE-TR-56 تھا اور یہ مشتری کی کمیت جتنا لگ رہا تھا ۔
نومبر ختم ہونے کو
تھا ، بالآخر ہم نے OGLE-TR-33 کی نوعیت جان
لی : یہ تین ستاروں پر مشتمل نظام تھا ، جس میں سے دو ایک دوسرے کے مدار میں
انتہائی نزدیک چکر لگاتے ہوئے ایک دوسرے کو گرہن لگا رہے تھے ، جبکہ ایک بڑا قریبی
ستارہ ، جو اس نظام میں جسیم اور زیادہ روشن تھا ، وہ ان گہرے گرہن کی شدت کو کم کر
رہا تھا ۔ تیسرے ستارے کی اپنی کوئی ڈگمگاہٹ نہیں تھی ، لیکن نظام میں موجود ایک
دوسرے ستارے کی بڑی ڈگمگاہٹ (جس کے طیفی
خطوط میں زیادہ ڈوپلر منتقلی کا اثر تھا )
تیسرے ستارے کے طیفی خطوط میں گڑبڑ کر رہی تھیں ۔ کیونکہ تیسرا ستارہ بہت تیزی سے
گھوم رہا تھا اور اس کے طیفی خط کافی چوڑے
تھے ، لہٰذا یہ تھوڑی سی گڑبڑ ہی اتنی تھی کہ ہمیں ایک ایسی چھوٹی ڈگمگاہٹ کا تاثر دیتی جو کوئی
سیارہ ہی دے سکتا تھا یہ اثر گرہن کو دھو کر اتھلا کرنے جیسے ہی تھا۔ OGLE-TR-33 ایک بہت ہی
چالباز قسم کا غلط اشارہ تھا !
اب ہم نے اپنی پوری
توجہ صرف OGLE-TR-56 پر مرتکز رکھی
ہوئی تھی ۔ یہ ہمارے لئے ہوئے تمام امتحانوں سے سرخ رو ہو کر نکل گیا تھا ، جس میں
طیفی خطوط کی جانچ بھی شامل تھی جو ہم نے OGLE-TR-33 کے غلط اشارے
سے حاصل کی تھی ۔ ہمیں اس بات پر پورا اعتماد تھا کہ OGLE-TR-56b ایک سیارہ ہی تھا کیونکہ ہمارا OGLE-TR-33 اور دوسرے غلط اشاروں سے حاصل
کردہ تجربہ چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا ۔ ہمارا طریقہ کام کر رہا تھا اور ہمارے لکھے ہوئے مقالے کو جلد ہی نیچر
جریدے نے قبول کرلیا تھا ۔ جنوری ٢٠٠٣ء کے
پہلے ہفتے میں ، سیٹل میں امریکن ایسٹرو
نومیکل سوسائٹی میں اپنی دریافت کو دکھانے کے لئے میں نے جہاز لیا ۔ ٢٣٥ برس پہلے
کپتان جیمز کک کی طرح جب ہم نے بحرالکاہل
کو پار کرتے ہوئے ، عبور میں جھانکا تھا
اور ہم کامیاب ہوئے تھے ۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ OGLE-TR-56b ایک اجنبی سیارے تھا - اس کے پاس کئی طرح کے امتیازات تھے : سب سے
کم مدار میں چکر لگانے کا وقت (صرف ٢٩ گھنٹوں کا )، سب سے گرم سیارہ (٢ ہزار کیلون
کے لگ بھگ درجہ حرارت )، جبکہ یہ سب سے دور کا ماورائے شمس سیارہ بھی تھا (زمین سے
پانچ ہزار نوری برس کے فاصلے پر )۔ اس کی اجنبی خصوصیات نے ذرائع ابلاغ کی توجہ
حاصل کر لی تھی ، جبکہ ہمارے اور سیارہ شناسوں کے لئے سب سے بڑی خوشی سیاروں کی
دریافت کے لئے عبوری طریقے کا آخر کار وضع ہونا تھا ۔ مختصراً غیر متوقع بڑے غلط اشارے سب سے بڑا مسئلہ تھے ،
اور ہمارے جانچنے کے مراحل اور نجمی نمونوں نے ان مسائل کو حل کر دیا تھا ۔ اگلے
تین برسوں میں ہمارے ساتھ دوسری کئی ٹیموں
نے ، ہماری وضع کیے ہوئے طریقے کو استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ ایک درجن سے
زائد عبوری نئے سیارے دریافت کیے تھے ۔ ایک اصلی کرۂ ارض جیسے سیارے کی تلاش کا
راستہ اب کھلا ہوا تھا ۔ کھوج کا ایک نیا دور کھل گیا تھا ۔
تلاش کا پہلا دور
پندرہویں صدی میں شروع ہوا تھا ۔ ١٤٨٤ء میں ایک آدمی جس کی کوششوں نے اس دور کو
ممتاز مقام دلوایا وہ جینووا کا کرسٹوفر
کولمبس(Christopher Columbus) تھا جس نے ولندیز یوں کے بادشاہ جوا دوم (João II)کو اس بات پر قائل کر لیا تھا کہ وہ اس کی بحر اوقیانوس کو پار کرنے کی
مہم میں مالی تعاون کرے۔ بادشاہ تذبذب کا شکار تھا ، اس وجہ سے
نہیں کہ وہ زمین کو چپٹا سمجھتا تھا ، بلکہ اس لئے کہ کولمبس اس بات پر مصر تھا کہ
زمین خط استواء پر صرف دس ہزار میل پر
پھیلی ہوئی ہے اور پچھم کی طرف ہندوستان
اور مصالحوں کے جزیرے کی طرف جانے والا
راستہ مختصر ہے ۔ ولندیزی ملاحوں (جن کو
شہزادہ ہنری کا شکر گزار ہونا چاہئے ، جواس صدی کے شروع کے
جہازراں تھے۔ انہوں نے افریقی ساحل
کے ساتھ اوپر اور نیچے کی جانب بحر اوقیانوس میں جہاز چلایا تھا ) نے قطب سے قطب تک
کرۂ ارض کے حجم کا بہت زیادہ اندازہ لگایا تھا۔ لیکن ان کا حاصل کردہ
حجم قریب قریب ٢٥ ہزار میل تھا جو
اصل کے آس پاس ہی تھا ۔(تین صدی قبل مسیح پہلےایراتوستینیز (Eratosthenes)، جو ایک یونانی ریاضی دان تھا ، اس نے بھی اسی حجم کا اندازہ پہلے
سے لگا لیا تھا ۔) اسی لئے جب کولمبس نے اسپین کو چھوڑا تو بادشاہ جوا
نے اس کو روپیہ نہیں دیا۔ اس کے
پاس غلط اعداد و شمار تھے مگر قسمت کی
دیوی اس پر مہربان تھی اور اس نے ایک نئی دنیا کھوج لی تھی ۔ اسی دوران پرتگالی
افریقہ سے گھومتے ہوئے ہندوستان پہنچ گئے۔
ایک نئے ارض جیسے
سیارے کی تلاش کی بھی اس سے کچھ زیادہ
مختلف نہیں تھی ۔ ١٩٩٠ء کی دہائی کے اواخر سے سیاروں کو کھوجنے کے لئے ہمارے پاس
علم اور فن دونوں ہی موجود تھے۔ اب ہم سفر پر روانہ ہو گئے تھے اور اس بات کا
انتظار کر رہے تھے کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم میں سے کوئی ایک نئی "ارض" کو
تلاش کر لے گا!
پرتگالی ملاحوں کی
طرح جنہوں نے شروع میں آس پاس کی جگہوں کو
کھنگالا تھا ، سیارہ شناسوں کو بھی ایسا ہی کرنا تھا ۔ ملاحوں نے بحر اوقیانوس کا
جوکھم اٹھا کر آزورس (Azores)جیسے جزیرے کو تلاش کیا تھا یا افریقہ کے ساحل سے دور ، یا
شاید ایک ابتدائی جھلک جنوبی امریکہ کی برازیل کے ساحل کی صورت میں دیکھ لی تھی۔ ہماری ٹیم نے بھی شروع میں
"سونے کی تلاش " کی طرح سیاروں کی دریافت کی جانب قدم اٹھایا ۔ سب سے زیادہ خاص ہماری
ہنگری کی بنی ہوئی خود کار دوربین ، جو
ہیٹ منصوبے کے نام سے یا نیٹ ورک (یا مختصراً ہیٹ نیٹ) سے جانی جاتی ہے ۔ ہیٹ نیٹ کو
میرے ایک نوجوان رفیق نےایک ساتھ جوڑ کر بنایا
جس کا نام گسپر باکوس (Gaspar Bakos)تھا ۔ گسپر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس میں بطور سند یافتہ طالبعلم کے طور پر آیا
تھا جس کی سفارش پرجوش طور پر میرے استاد محترم (جو گسپر کے بھی
استاد تھے ) یعنی پرنسٹن کے بو دان پیک
زنسکی(١٩٤٠-٢٠٠٦ء) نے کی تھی۔ اس کی سفارش
کے پیچھے جو وجہ یہ تھی کہ گسپر وہ شخص تھا
جو ڈیجیٹل انقلاب(جیسا کہ کسی بھی ڈیجیٹل کیمرے میں موجود سستی سی سی ڈی ) اور
تصویروں کو پراسیس کرنے کا فائدہ اٹھانا
جانتا تھا ۔ ان دونوں ٹیکنالوجیوں کے
استعمال کا مطلب ہے کہ ہم "ہر وقت
سارے آسمان "کو دیکھ سکتے تھے ۔ یا کم از کم کافی سارا آسمان تو اکثر دیکھ ہی سکتے تھے ۔ بودان کو یقین تھا کہ اس سے
فلکیات کی دنیا میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے ۔ پہلے کی طرح اس دفعہ بھی اس کا اندازہ ٹھیک ہی نکلا ۔
"تمام آسمان ہر وقت "
طریقے کو اختیار کرکے کافی کام کی چیزیں کی جا سکتی ہیں مگر عبوری طریقے سے
سیاروں کی ڈھونڈنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے ۔ میرا اور میرے رفیق کار رابرٹ نویز(Robert Noyes) کا تو یہی خیال تھا اور گسپر بھی کسی حد تک ہم سے متفق تھا ۔ لہٰذا
ہیٹ نیٹ کی پیدائش دو بر اعظموں میں انتہائی قلیل بجٹ سے شروع ہوئی ۔ اس میں دوربین کے لئے تصویر کشی کے
آلات اور شوقیہ درجے کی سی سی ڈیز مگر
پیشہ ور صورت گری اور مشین ہارڈویئر ( جو ہنگری
گسپر کے آبائی وطن میں بنی ہے ) اور سافٹ ویئر موجود ہے ۔
ہیٹ نیٹ چھ چھوٹی
دوربینوں پر مشتمل ہے (یہ دوربینیں ان بڑے کیمروں سے زیادہ الگ نہیں ہیں جس میں
پیشہ ور فوٹوگرافر زوم کرنے کے لئے عدسے
استعمال کرتے ہیں )، ان میں سے چار جنوبی ایریزونا میں ماؤنٹ ہوکینس میں نصب
ہیں اور دو موانا کیا میں ۔ یہ خود کار
ہیں ، جو ایک انتہائی ہوشیار لکھے ہوئے کمپیوٹر پروگرام کے احکامات کو مانتی ہیں ۔
کمپیوٹر پروگرام میں ان پٹ (جیسا کہ ،اس بات کو
اولیت دینا کہ کس چیز کا مشاہدہ کرنا چاہئے ) دن کے دوران فلکیات دانوں سے
حاصل کیا جاتا ہے ؛ پھر وہ پوری رات روبوٹ کی طرح کام کرتی ہیں ۔ ہیٹ نیٹ اس وقت کام کرنا بند کر دیتی ہے جب بہت زیادہ بادل یا درشت قسم کا موسم ہوتا ہے اور ایریزونا اہم
معلومات ہوائی کو دیتی رہتی ہے ۔ لہٰذا ہیٹ نیٹ کی دو دوسری دوربینیں جو ہوائی میں موجود ہیں وہ اپنا کام رات میں
شروع کرکے اس کے کام کو آگے بڑھاتی ہیں جو
ایریزونا کی دوربینیں اس وقت نہیں دیکھ سکتی ہیں ۔ ایریزونا اور ہوائی میں نظریں
جمائے ہوئے ، ہیٹ نیٹ موثر طور پر اپنا کام بارہ سے پندرہ گھنٹے تک کرتی ہیں جس کے نتیجے میں وہ زیادہ عبوری سیاروں کو دیکھ
اور پکڑ سکتی ہیں ۔ہیٹ نیٹ کو مشتری اور زحل کے حجم کے سیاروں کو ڈھونڈنے کے لئے
بنایا گیا ہے جو قریبی ستاروں کے گرد چکر لگا
رہے ہیں ۔ ابھی تک اس نے تیس کے قریب سیارے دریافت کئے ہیں ، جس میں سے کچھ (مثال کے طور پر HAT-P-11b) نیپچون کے حجم
کے ہیں؛ اس سے زیادہ اور کیا چاہئے ، ہیٹ نیٹ
اور اس جیسے دوسرے منصوبوں نے سیاروں کو عبوری طریقے سے ڈھونڈنے کا
"سونے کی تلاش " جیسا رجحان جنم
دے دیا ہے ۔
جس طرح کوئی بھی
کھرپی اور مٹی چھاننے کا برتن (جس سے مٹی میں سے سونا نکالا جاتا ہے) لے کر کیلی
فورنیا پہنچ جاتا ہے اسی طرح فلکیات دان
بننے کے شوقین مکمل کامیابی کے ساتھ اپنے
کریڈٹ کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے سیاروں کی کھوج کر لیتے ہیں (تفنن برطرف کوئی بھی ایسا نہیں کرتا)۔صرف قلیل بجٹ کی بات
نہیں تھی ، اگرچہ بڑے مرغے جیسا کہ ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی اس دوڑ میں شامل ہونے کے لئے زیادہ انتظار نہیں
کر سکتے تھے ۔ اگرچہ عبوری شکار کا طریقہ
محدود بجٹ میں رہ کر بھی بنایا جا سکتا ہے ، بڑے اداروں کو اصل فائدہ یہ ہے کہ وہ اپنے آلات کو خلاء میں لے جا سکتے ہیں ۔
ستارے زمین پر سے مشاہدہ کرتے ہوئے ٹمٹماتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ہوا مستقل
حرکت میں رہتی ہے ، اور وہ صرف ایک ہی سمت میں حرکت نہیں کرتی ، ہوا کی رو مختلف
بلندیوں پر مختلف ہوتی ہے ۔ ہوا کی رو ایک طرح سے کثیر عدسوں کی طرح سے کام کرتی
ہے جو نقطے نما ستاروں کی شکل کو بدل دیتی
ہے ، بعینہ ایسے جیسے کہ سورج کی روشنی سوئمنگ پول کی تلی میں کھیل کرتی ہے ۔
زیادہ تر جھلملاہٹ بلند تعدد ارتعاش (High Freuqncy)پر ہوتی ہے - ایک
سیکنڈ کے سینکڑویں حصّہ میں ایک دفعہ ۔
اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ کسی بھی زمین جیسے سیارے کا سورج جیسے ستارے
کو عبور کرتے وقت پتا چلانا عملی طور پر
بڑی دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی ناممکن ہے ۔ خلاء میں موجود دوربین کے اپنے
مسائل ہیں (اگرچہ ہبل خلائی دوربین نے
ہمیں یہ بتا دیا ہے کہ وہ مشکلات بھی ناقابل تسخیر نہیں ہیں )، مگر چھوٹے
سیاروں کو تلاش کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔
یوروپی پہلے سے ہی ایک منصوبہ بنائے ہوئے ہیں جو
با آسانی سیاروں کی تلاش میں کام آ سکتا
ہے ۔ایصال حرارت(Convection) اور ستارے کے
گھماؤ کو دیکھ کر (جس کو کوروٹ یعنی سی او
آر او ٹی بھی کہتے ہیں ، اور یہ شہرہ آفاق
تاثراتی مصوّر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے )، دوربین ستاروں کی ہزار ہا تصاویر حاصل
کر سکتی ہے ، جو تاثراتی تصاویر جیسے ہوں گی ، تاکہ ان کی سبک روشنی میں ہونے والی
تبدیلی کا مطالعہ کیا جا سکے۔ یہ ستاروں
کے بارے میں بنیادی باتیں سمجھنے میں ہماری مدد کریں گی جیسا کہ ان کا گھماؤ اور ان کے اندرونی ایصال
حرارت ۔ ظاہر سی بات ہے کہ کوروٹ اس عمل کے دوران عبوری سیاروں کا سراغ لگانے کے
لئے بہترین کام کر سکتی ہے اس کا نام اب
ایصال حرارت، گھماؤ اور عبور کے الفاظ کا مخفف
ہو گیا ہے جس کو انگریزی میں "سی او آر او ٹی"( یعنی کوروٹ ) کہتے ہیں۔
اسی دوران شروع میں
ہی ناسا
نے ایک خلائی دوربین کی مالی
معاونت کرنے کا موقع گنوا دیا تھا یہ
دوربین صرف عبوری سیاروں کو دریافت کرنے کے لئے مخصوص ہوتی ، ایک ایسی دوربین جس
کا مقصد زمین جیسے چھوٹے سیاروں کی دریافت کرنا ہوتا اور یہ اس بات کا تعین بھی کرتی کہ ہمارے جیسے
سیارے کائنات میں کتنے عام ہیں ۔ کیلی فورنیا میں واقع ناسا ایمز ریسرچ سینٹر کے
ولیم بوروکی (William
Borucki) نے ادارے کو کافی
قائل کرنے کی کوشش کی کہ اس کا تجربہ کامیاب ہوگا ۔ یہاں تک کہ اگر ہم کوئی زمین
جیسا سیارہ دریافت بھی نہ کر پائے تب بھی
اس مہم کا فائدہ ہی ہوتا ۔ یعنی زمین جیسے
عبوری سیارہ کی دریافت نہ ہونے کا مطلب اس بات کا ثابت ہونا ہوتا کہ ہمارے جیسے سیارے کائنات میں نایاب ہیں۔ ناسا کے
پینل نے اس کی تجویز کو رد کر دیا تھا، لیکن ١٩٩٩ء میں بل بوروکی نے دوبارہ سے
اپنے عملے کو جمع کرکے اس کی تجویز پیش کی ؛ اس نے مجھے اور دوسرے درجنوں رفقائے
کاروں کو اپنے ساتھ مل جانے کی دعوت دی ۔ڈوپلر منتقلی کے طریقے کو استعمال کرتے
ہوئے کئی ماورائے شمس سیاروں کی کامیاب دریافت
ایک زبردست تحریک تھی ۔
ہرچند کہ اس وقت میں نے اس مسئلہ پر کچھ زیادہ کام نہیں
کیا تھا ، میں نے سب سے پہلے ایسے سیاروں کی دریافت پر١٩٩٩ء میں اس وقت توجہ دی تھی ، جب ہمارے گروہ نے مل کر ناسا کو ایک اختراعی قسم کی خلائی
دوربین بنانے کی تجویز پیش کی تھی جس کا مقصد سیاروں کی کھوج تھا ،یہ گروہ زیادہ
تر ہارورڈ –اسمتھ سونین سینٹر فار ایسٹرو فزکس
پر مشتمل تھا، اور اس میں زیادہ تر شاہد اور انجنیئر تھے ۔ اس دوربین
میں گول کے بجائے مربع کی شکل میں آئینے
لگے ہوئے تھے ۔ میرے رفیق کار کوسٹاس پاپا لیولیوس(Costas
Papaliolios) اور پیٹر نیسن سن(Peter Nisenson) نے اس عجیب دوربین کو ڈیزائن کیا تھا تاکہ نجمی چمک کو زیادہ سے
زیادہ حاصل کیا جا سکے اس طرح سے ستارے کے نزدیک سمٹے ہوئے سیارے کی جھلک مل سکتی
ہے ۔ بیس ماہرین کی ٹیم کے ساتھ ہم نے ایک مفصل سائنٹفک انجینئرنگ کی تجویز پیش کی
جس کی رہنمائی ہمارے تجربہ کار خلائی مہم کے سائنس دان گیری میلنک (Gary Melnick) کر رہے تھے ۔
اس ٹیم میں میری ذمہ
داری اس بات کی تلاش تھی کہ ہماری دوربین
کس قسم کے سیاروں کو دریافت کر سکتی ہے ۔ اس وقت ایسا لگتا تھا کہ عظیم ارض ہماری
پہنچ میں ہیں ۔(میں مختصراً ان کو عظیم ارض اور عظیم زہرہ کہنا پسند کرتا تھا،
کیونکہ فلکیات کی دنیا میں "عظیم " صفت نئی دریافت یا کسی ایسے جسم کا تصوّر
کرنا جو حجم میں بہت ہی زیادہ بڑا ہو یا توانائی جو معلوم توانائی سے کہیں زیادہ
ہو کے آگے لگانے کی ریت تھی ۔ مثال کے طور
پر ستارے جو جسیم ستاروں سے بڑے ہوتے ہیں
ان کو عظیم دیو ہیکل کہتے ہیں ، اسی طرح سے وہ دھماکے جو نوتارے سے بڑے ہوں
ان کو عظیم نوتارا (یا سپرنووا ) کہتے ہیں اور اسی طرح علی ہذا القیاس۔) یہ مختصر
نام چپک ہی گیا جیسا کہ آپ نے پہلے ہی اندازہ لگا لیا ہوگا۔
آخر کار دسمبر ٢٠٠١ء،
ایک مشن جو اب کیپلر مشن کے نام سے جانا جاتا ہے
منظور ہوا۔ مارچ ٢٠٠٩ء میں سات سال کے بعد کیپلر کو کیپ کنویرل سے خلاء میں
بھیجا گیا جو فلوریڈا میں واقع ہے جس نے
دو مہینے بعد زمین پر تصویروں کو بھیجنا
اور انتہائی نفاست سے ان ستاروں اور سیاروں
کو ناپنا شروع کیا جو ہم سے سینکڑوں برس
کی دوری پر تھے۔ کیپلر ناسا کا پہلا مشن تھا جس میں اس بات کی اہلیت تھی کہ وہ
زمین کے حجم اور چھوٹے سیاروں کو سورج جیسے
ستاروں کے گرد قابل رہائش حصّوں میں ڈھونڈ سکے (یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر
ہم بعد میں بات کریں گے )۔ یہ ایک مناسب
اوسط درجے کی دوربین ہے ، اس کا حجم ہبل سے آدھا ہے ، مگر اس میں موجود عدسے زیادہ
بڑی منظر کشی سب سے بڑے کیمرے کی مدد سے کر
سکتے ہیں ۔ یہ کیمرہ ناسا کی کسی بھی سائنسی مہم میں استعمال ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا کیمرہ ہے - ایک ٩٥ میگا پکسل کا عفریت جو لاکھوں ستاروں
کی تصویر ایک ہی دفعہ اتار سکتا ہے ۔
ناسا کا کیپلر مشن
عبوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئی زمین جیسے حجم کے اور اسی جیسے مدار میں موجود
سیاروں کو دریافت کرے گا ۔ اس مہم کا مقصد منظم اور جامع طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ہم اس بات کی تلاش کر
سکیں کہ کتنے ستاروں کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں ۔ اس مہم کو اس طرح سے
بنایا گیا ہے کہ معیاری عبوری طریقے کو غیر متوقع چیزوں سے بچاتے ہوئے
ایک جامع اور انتہائی محتاط دو لاکھ ستاروں پر مشتمل فہرست کو سیاروں کی
تلاش کے لئے کھنگالا جائے ۔ اس دوربین کو بنانے کے لئے کئی برسوں کی کڑی محنت کی
گئی ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں ۔ شروع
کے چند مہینوں میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھ لینے کے بعد، کیپلر کو ایک
لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کو دیکھنے کے لئے تقریباً تین سے چار برسوں کے
لئے ٹھہرا دیا۔ تمام جدید کام کا مطلب
تھا کہ کیپلر کی ضیا پیمائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امیدوار سیاروں کے ہمیں
بہت ہی کم غلط اشارے ملیں گے ؛ کیپلر کی ٹیم میں موجود ہم لوگوں نے ایک منصوبہ
ترتیب دیا تھا کہ کس طرح سے ہم غلط اشاروں کو اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے الگ
کریں گے جو ہم نے اوگل فہرست کے لئے اپنایا تھا ، جیسا کہ میں لکھ رہا ہوں ہمارے
طریقہ کار کامیاب ہو رہا تھا ؛ ہماری ابتدائی آزمائش نے بتایا کہ غلط اشاروں کی
تعداد بہت ہی کم تھی ۔
آخر کار عبوری طریقہ سیاروں کی دریافت کے لئے
انتہائی کامیاب ثابت ہو رہا تھا ، ان سیاروں میں زمین جیسے قابل قدر سیارے بھی
شامل تھے ۔ عبوری سیارے ہمارے لئے کم عرصہ
میں تجزیہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ
بہترین تھے۔ ان کی درست کمیت اور حجم معلوم ہونے کی وجہ سے ہم ان کے انبار کے اجزاء کو ان کی اوسط کمیت سے
نکال سکتے تھے ۔ مزید براں یہ کہ عبور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم دور بیٹھ کر بھی سیارے کے ماحول کا تجزیہ کر
سکتے تھے ۔عبوری مدت کے دوران ، ستارے کی روشنی سیارے کے ماحول سے رنگدار ہو جاتی
ہے ؛ ہم اس وقت کے طیف کو سیارے کے اس وقت
کے طیف سے مماثل کر سکتے تھے جب وہ ستارے کو عبور نہیں کر رہا ہو اور ہم طیف نگار کے فن کے استعمال سے سیارے کے
ماحول میں موجود کیمیائی اجزاء جیسا
کہ پانی ، میتھین یا کاربن ڈائی
آکسائڈ کو شناخت کر سکتے تھے ۔
تاریخ اپنے آپ کو
دہراتی ہے ۔ اہمیت کے اعتبار سے پراسرار
متوازیت سترویں صدی میں پہلے پہل مشاہدے
کیے گئے عطارد اور زہرہ کے عبور اور آج کے دور کے
پہلے ماورائے شمس سیارے کے عبور کے مشاہدے میں موجود ہے ۔آج، جیسا کہ
سترویں صدی میں ہوا تھا کہ پہلے عبوری مشاہدے نے ایک بڑے نئے تصوّر پر کسی
بھی باقی رہنے والے شک کو زائل کیا تھا۔
آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا ، ویسے بھی پہلے عبوری مشاہدے نے غیر معمولی نتائج دیئے تھے ۔ آج
، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا، پہلے عبوری مشاہدے نے عبور طریقے کے مستقبل کے
استعمال کے نئے دریچے کھول دیئے ہیں ۔ شاید فرق صرف اتنا ہوگا کہ
پچھلے دور میں عبوری طریقے کا فائدہ اٹھانے میں پوری ایک صدی لگ گئی تھی جبکہ ، ہم نے پہلے ہی سے فائدہ
اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔
یہ کوئی اتفاق نہیں
تھا کہ جو ہا نز کیپلر (Johannes Kepler)جو ایک فلکیات دان ،
ریاضی دان ، پیش گو اور
صوفی تھا اس کا نام نئی دنیاؤں کی کھوج کی
اس مہم کو دیا گیا ۔ اس نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا جو سیاروں کی حرکت
کو بیان کرتے ہیں ، اس کے لکھے ہوئے قوانین کو ہم آج بھی ناسا کی کیپلر دوربین سے
دریافت کیے ہوئے سیاروں کے مداروں کا حساب
لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بس یہ ہی کافی نہیں ہے ۔ ایک حقیقت جو زیادہ تر
لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ جو ہانز کیپلر
وہ پہلا شخص تھا جس نے انتہائی
درستگی کے ساتھ عطارد اور زہرہ کے عبور کی پیش گوئی کی تھی ۔
جو ہا نز کیپلر نے یہ
عبور کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ اپنے پہلے عبور کی پیش گوئی کو دیکھنے سے صرف ایک
سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا ، جو عطارد کا ١٦٣١ء میں ہوا تھا ۔ لیکن کم از کم ایک
فلکیات دان ، پیری گیسنڈی (Pierre Gassendi)نے کیپلر کی پکار پر
توجہ دی اور پیرس سے اس نے ٧ نومبر ١٦٣١ء
میں اس عبور کا مشاہدہ کیا ۔
پیرس میں نومبر کا مہینہ اکثر ابر آلود رہتا ہے ، ایک دن پہلے
ہی گیسنڈی کو بارش اور بادلوں نے گھیر لیا
تھا ۔ اس نے سورج کا مشاہدہ کرنے کا منصوبہ عبور کی پیش گوئی کیے ہوئے وقت سے پہلے اور بعد میں
کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ کیپلر نے اپنے حساب کتاب میں کافی زیادہ غیر یقینی کو
درج کیا ہوا تھا ۔ ٧ نومبر کی صبح تھوڑی دیر کے لئے مطلع صاف ہوا اور گیسنڈی نے
چھوٹا کالا عطارد کا نقطہ شمسی قرص پر دیکھا ۔ وہ سورج کا عکس ایک سفید اسکرین پر
ڈال رہا تھا بعینہ ایسے جیسے کہ آج کل
عوام الناس گھر پر سورج کو دیکھنے کے لئے
کرتے ہیں ۔ گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا کہ کس طرح سے سورج کے تاریک دھبوں کو عطارد
کے گہرے دھبے سے الگ کیا جاتا ہے ۔ صرف بیس برس قبل ہی گلیلیو گلیلی نے اپنی نئی
دوربین سے سورج کے ان دھبوں کو دریافت کیا تھا
کہ وہ کسی طرح سے حرکت کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں ؛ گیسنڈی گلیلیو اور اس کے
تجرباتی طریقوں کا ایک پرجوش پیرو تھا
اور اس بات کو جانتا تھا کہ عطارد کے ننھے نقطے کو اس کے مدار کا پیچھا کر
کے دیکھا جا سکتا ہے ۔
١٦٣١ء میں ہونے والی
عطارد کا عبور کافی ساری وجوہات کی وجہ سے
اہم تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عالموں نے کوپرنیکن انقلاب کو
قبول کر لیا تھا تاہم پھر بھی کچھ
لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ الغرض روم میں
ہوئی جیورڈانو برنو(Giordano Bruno) کی موت کے صرف
تیس برس ہی گزرے تھے، جبکہ گلیلیو کی
سرکاری تفتیش تو ابھی تازہ تازہ تھی ۔ عبور
شمس مرکزی نظام کے ایک اور کامیاب
ثبوت تھا، اسی طرح سے گلیلیو کا مشاہدہ زہرہ کی
١٦٠٩ء میں رویت تھا ۔ کیپلر کے
عبور کے وقت سے متعلق پیش گوئی گھنٹوں کے
حساب سے انتہائی درست تھی ، جو اس دور کے لحاظ سے ایک انتہائی حیرت انگیز بات
تھی اور کوپرنیکن کے نظام کی کامیابی اور اس کے پیش بینی کی طاقت کا مظہر تھی ۔
بہرحال ، جو حیرت
انگیز بات کیپلر اور گیسنڈی کے عطارد اور زہرہ کے عبور کی تھی وہ براہ راست ان
سیاروں یا کسی بھی دوسرے سیاروں کے حجم کو ناپنے کا موقع تھا اور یہ بہت اہم بات تھی ۔ کیپلر سمجھتا تھا کہ اس نے ایک اور
قانون دریافت کر لیا تھا یعنی کہ سیارے کی
ضخامت اس کے سورج کے فاصلے کی نسبت سے
راست تناسب سے ہوتی ہے ۔ سیاروں کے مدار
میں حرکت کے قانون کے برخلاف یہ کسی شہادت
پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ راست تناسب کی ہم آہنگی پر انحصار کرتا ہے جو کیپلر کے عالمگیری منظر نامے ، کرۂ کی ہم
آہنگی کا حصّہ تھا ۔
گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا اور ننھے سے عطارد کو دیکھ
کر بہت زیادہ حیرت زدہ تھا ۔ بہرحال وہ پہلے سے ہی تیار تھا اور اس نے انتہائی درستگی کے ساتھ اس کی پیمائش
کی اور اس کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ متشکک
سامعین کے سامنے گوش گزار کردی ۔ کیپلر کے
سیاروں کے ضخامت کے قانون ہم آہنگی نے
عطارد اور زہرہ کے حجم کا تخمینہ بہت
زیادہ جبکہ مشتری اور زحل کے حجم کا
تخمینہ بہت کم لگایا تھا لیکن اس
دور کے عالم کیپلر کے لگائے گئے حساب کو غلط ماننے کو تیار نہیں تھے ۔ آٹھ سال بعد
جب زہرہ کو پہلی دفعہ عبور کرتے ہوئے پایا گیا
تو وہ ہی حیرت زدہ چیز ویسے ہی موجود تھی ۔ وہ امیدوں کے برخلاف بہت ہی
چھوٹا پایا گیا اور اس وقت کے عالموں نے
جان لیا کہ سیاروں کے حجم اور مدار سختی کے ساتھ ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے ۔
جب تپتے ہوئے مشتری سیارہ HD 209458b کو اپنے ستارے کو عبور کرتے
وقت ١٩٩٩ء میں مشاہدہ کیا گیا، تو کچھ
متشکک لوگوں نے اس بات کی بحث کی تھی کہ نئے ڈگمگاتے ہوئے ستارے شاید سیاروں کے
بجائے کسی دوسری چیزوں کے مظہر ہوتے ہیں ۔ مگر HD 209458b سیارے کے عبور نے ایک ہی دفعہ
سارے شکوک و شبہات کو ہمیشہ کے لئے ختم کر
دیا۔ لیکن مشاہدہ نے ایک حیرت زدہ
حقیقت(جیسے کہ ١٦٣١ء میں عطارد نے ) سیارے
کے حجم کے بارے میں منکشف کی ، سیارے کا
حجم اس کی امید سے کہیں زیادہ تھا یعنی کہ وہ مشتری کے حجم کا تھا ۔
دس برس بعد پھولا ہوئے
قطر کےسیارے HD 209458b اور دوسرے درجن بھر سیاروں کا ، ایک معمہ بنا رہا ۔ جیسا کہ ہم نے
دیکھا تھا کہ مشتری کے وزن جیسے سیارے ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بنے ہوتے ہیں ۔
ہائیڈروجن اور ہیلیئم جو کائنات کی سب سے ہلکی گیسیں ہیں ، ان کو لے کر کوئی بھی
سیارہ ایک خاص حد تک اپنا حجم ، گیسوں کو
اپنے وزن سے دبا کر حاصل کر سکتا ہے ۔ کسی
بھی بھاری عنصر کی موجودگی جیسا کہ آکسیجن یا دھاتیں سیارے کو سکڑنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔
جیرمیاه ہوروکس(Jeremiah Horrocks) نے کیپلر کی غلطی کو پکڑا اور زہرہ کو عبور کرتے ہوئے سب سے پہلے دیکھا ۔ |
مشتری اور زحل اس
نظریہ کے تابع ہیں ، لہٰذا یہ بات نہایت ہی حیرت انگیز تھی کہ کئی ماورائے شمس
سیارے جو مشتری جیسے ہیں وہ اس سے ٣٠ سے لے کر ٥٠ فیصد حجم میں بڑے ہیں ۔اگرچہ ایک غیر متوقع صورتحال
میں جب وہ خالص ہائیڈروجن سے بنے ہوں ، ان کا یہ حجم صرف ایک مسلسل اندرونی حرارت
کے منبع کی بدولت ہی بیان کیا جا سکتا ہے۔ تپتے ہوئے مشتری بہت ہی زیادہ گرم ہوتے ہیں لیکن سائنس دان اس بات کی وجہ بیان کرنے میں
ناکام رہے ہیں کہ ان کی توانائی کا منبع
آخر کہاں پر ہو تا ہے ۔ ایک دفعہ ہم عبوری
مشتریوں کو کیپلر کی دوربین کے ذریعہ مختلف قسم کے مداروں میں اپنے ستاروں سے دور
تلاش کر کے ان کے نصف قطر کو ناپ لیں اس
کے بعد ہم اس سراغ کے بارے میں خوشہ چینی کر سکیں گے جو ان تپتے ہوئے مشتریوں کو اس طرح سے اتنا زیادہ پھلاتا ہے۔
جوہانز کیپلر نے عطارد اور زہرہ کے عبور میں ایک اور غلطی کی
تھی : اس نے صرف ایک زہرہ کے عبوری جوڑےکا
سترویں صدی میں اندازہ لگایا تھا۔ کیپلر نے زہرہ کے عبور کا اندازہ ٦ دسمبر
١٦٣١ء کو لگایا تھا جو عطارد کے نقش قدم
پر ایک مہینے کے بعد تھا ۔ ہمارے پیرس میں موجود دوست پیری گیسنڈی نے لگا تار تین دن تک سورج کا مشاہدہ کیا مگر سب بیکار گیا ۔ یہ اس کی غلطی نہیں تھی :
یہ عبور صرف مغربی نصف کرۂ میں دکھائی دیتا
جیسا کہ کیپلر نے ٹھیک اندازہ لگایا تھا ۔ جس چیز کا کیپلر اندازہ لگانے
میں ناکام رہا تھا وہ یہ تھا کہ آٹھ سال
کے بعد ٤ دسمبر ١٦٣٩ء میں زہرہ ایک دفعہ
پھر سے عبور کرتا اور اس دفعہ یہ یورپ میں
دکھائی دیتا۔ ایک نوجوان انگریز
جیرمیاه ہوروکس(Jeremiah Horrocks) نے کیپلر کی غلطی کو پکڑا اور زہرہ کو عبور
کرتے ہوئے سب سے پہلے دیکھا ۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک سولہ برس کا
ہوروکس کیپلر سے ایک بہتر سیاروی
حساب لگا سکتا تھا جو بابائے قوانین مدرتھا ، ؟ اس کا جواب فلکیاتی اکائی (سورج سے زمین کا فاصلہ )کی پیمائش
میں موجود تھا جو زہرہ کے عبور کے ایک صدی بعد دریافت ہوا تھا۔
کیپلر کے دور میں یہ فاصلہ معلوم نہیں تھا ، صرف تخمینہ جات موجود تھے اور کیپلر
نے ایک مختصر فاصلہ لے کر حساب لگایا تھا ۔ لہٰذا زمین پر موجود ایک شاہد کے لئے ٤ دسمبر ١٦٣٩ء کو زہرہ کا مخالف زاویہ بہت زیادہ
بڑا تھا اور کیپلر نے اندازہ لگایا کہ زہرہ سورج
کے سامنے سے گزرنے کے بجائے اس سے ہلکا سا دور ہوتا ہوا گزر جائے گا۔ ہوروک
نے نئے چھپے ہوئے جدول کی مدد سے دوبارہ حساب لگایا جس میں سورج سے زمین کا فاصلہ زیادہ لمبا بیان کیا ہوا تھا ۔ یوں اس طرح اس نے عبور کو پا لیا تھا !
اس چھوٹی سی حکایت نے
ایک اہم حقیقت کو بیان کیا ہے - کیپلر کے
قوانین درست اور ٹھیک تھے ، تاہم یہ وہ نسبت دیتے ہیں کہ ایک سیارے کے مدار
سے کس طرح سے دوسرے سیارے کا مدار
ناپا جا سکتا ہے ۔ اصل (مطلق) فاصلے کو
حاصل کرنے کے لئے (مثلاً جیسے کہ کلومیٹر ) ہمیں کم از کم ایک مدار کو
اسی قدر میں جاننا لازمی ہے ۔ لہٰذا اگر ہم فلکیاتی اکائی کو جانتے ہیں، تو اس کا
استعمال کرتے ہوئے ہم نظام شمسی میں موجود تمام سیاروں کا فاصلہ جان سکتے ہیں۔
آج فلکیاتی اکائی کی درست پیمائش کو جاننا
بہت اہم ہے کیونکہ اس سے ہم دوسرے ستاروں اور ان کے سیاروں کا فاصلہ ناپ سکتے ہیں ۔
ہوروک کےزہرہ کے عبور
کے مشاہدے کے پچیس سال بعد ، اسکاٹ لینڈ
میں موجد جیمز گریگوری (James Gregory) نے فلکیاتی اکائی کو درستگی سے ناپنے کے لئے عبور کو استعمال کرنے
کی تجویز دی ۔ اسی دوران ، درست راستے کی نشاندہی
اس دور کی شاہی قوّت کے لئے تزویراتی اہمیت کی حامل بن گئی تھی۔ فلکیاتی جدول کی درستگی فلکیاتی اکائی پر منحصر ہے اور
فلکیاتی جدول کی حیثیت درست راستے کو ناپنے کے لئے مرکزی ہے ۔١٧٦١ء
اور ١٧٦٩ء میں زہرہ کے عبور کا معاملہ پیرس کے اپارٹمنٹ میں موجود
وقتی فلکیات دان یا انگلستان کے کسی گاؤں کے گھر والے کے ہاتھ میں نہیں رہا
تھا ۔ زہرہ کے عبور کا تعاقب کرنا اب بین الاقوامی مقابلہ بن گیا تھا ۔
اٹھارویں صدی میں
زہرہ کے عبور کی اہمیت کا احساس کرنے کے
لئے ان لوگوں کو دیکھیں جو اس میں ملوث تھے اور ان کی مہمات کو
عالمگیر سطح پر مالی تعاون حاصل تھا ۔ چارلس میسن(Charles Mason) اور جیرمیاه ڈکسن(Jeremiah Dixon) ، جو بعد میں شہرہ آفاق میسن –ڈکسن سرحد پنسلوانیا اور میری
لینڈ کے درمیان کھنچنے کے لئے گئے ، انہوں نے برطانیہ کی عبور
کو ناپنے کی پہلی مہم کی رہنمائی کی۔ کپتان جیمز کک نے دوسرے برطانوی عبور کو
ناپنے کی رہنمائی کی اور بعد میں
بحرالکاہل کے کافی حصّے کی کھوج کی مہم پر گیا ۔
عطارد اور زہرہ کے عبور نے اپنی عملی اہمیت
اکیسویں صدی میں کھو دی ۔ بہرحال ہمارے جہاز اب بھی بندرگاہیں چھوڑتے وقت اور اوپر خلاء میں خلائی سیاروں کے لئے بھی عبور کا تعاقب کرتے ہیں۔ جوہا نز کیپلر اس بات
کو جان کر یقینی طور پر خوش ہوتا کہ ان خلائی دوربینوں میں سے ایک اس کے نام پر رکھی
گئی ہے ۔ کپتان کک اس کو شاباش اور ہمیں نئے جہانوں کی کھوج کے لئے ترغیب دیتا ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں