باب سوم
کوپرنیکن انقلاب
کی تکمیل
1543ء میں نکولس
کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus)نے کچھ ایسی چیزوں
کی بنیاد ڈالی جس نے سائنس ، ٹیکنالوجی اور انسانی سماج پر گہرے اثرات ڈالے۔ اس کی
بصیرت نے کائنات کی بناوٹ کو انتہائی سادہ کر دیا تھا جس میں نظام ہائے سیارگان میں زمین کے بجائے سورج کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ اس کی یہی بصیرت آنے والے سائنس دانوں کی دو نسلوں(خاص
طور پر گلیلیو اور نیوٹن ) کے لئے مشعل راہ بننی تھی اور اسی نے آگے چل کر جدید
طبیعیات کی بنیاد ڈالنی تھی ۔ کوپرنیکن انقلاب سیدھا اس سوال کے قلب میں جا کر
اترتا تھا جس میں کائنات میں بنی نوع
انسان کی حیثیت کے بارے سوال کیا گیا تھا ۔
نکولس کوپرنیکس (Nicolaus Copernicus) |
کافی سارے مفکرین
خاص طور پر مشہور ڈچ طبیعیات دان
کرسچن ہائیگنز (1629ء – 1695ء ) [Christiaan Huygens]نے کوپرنیکن کے
زمین کے بطور ایک سیارے کے تصوّر سے آگے چھلانگ لگاتے ہوئے
دوسرے سیاروں پر زندگی کے امکانات کا خدشہ
ظاہر کیا ۔1686ء میں برنارڈ ڈی فونٹنیلی (Bernard de Fontenelle)نے
ماورائے ارض حیات کے خیال کو کثیر
جہانوں کی بحث میں کافی مقبول بنا دیا تھا۔ یہ تمام
کام تین صدیوں بعد کہانیوں اور فلموں کی شکل میں جیسا کہ اسٹار وارز اور اسٹار
ٹریک میں جا کر منتج ہوا ۔
امیدوں کے برخلاف
دوسرے سیاروں کی موجودگی کے ان خیالات نے
ساڑھے چار صدیوں تک حقیقت کا روپ نہیں دھارا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ قریبی
ستارے بھی ہم سے بہت ، بہت دور واقع ہیں ؛
ان ستاروں کے گرد چکر کاٹتے چھوٹے سیاروں
کی تمیز کرنے کے لئے چار صدیوں پر محیط ٹیکنالوجی
میں ترقی و جدت درکار تھی ۔ آخر کار اب
ہم کوپرنیکن کے انقلاب کو مکمل کرنے کے
دوراہے پر پہنچ ہی گئے ہیں جس میں ہم زمین
جیسے سیاروں اور دوسرے نظام ہائے شمسی کی دریافت کر سکیں۔
ماورائے شمس
سیاروں کو ڈھونڈنے میں سب سے بڑا مسئلہ ان کا زبردست فاصلہ اور اس حقیقت کا سامنا ہے کہ وہ اپنے سے کئی گنا
زیادہ بڑے اور روشن ستاروں کے گرد چکر لگا
رہے ہیں ۔ کم از کم بصری روشنی میں کوئی
بھی ستارہ اپنے سیارے سے ایک ارب سے لے کر
دس ارب گنا زیادہ تک روشن ہو سکتا ہے۔ یہ
تناسب بہت ہی زیادہ بڑا ہے ۔ فاصلے کی وجہ سے کیونکہ شاہد بہت دور ہوتا ہے لہٰذا
دوربین سے دیکھنے پر ستارہ اور سیارہ آپس میں بہت زیادہ نزدیک نظر آتے ہیں اس لئے مصیبت اور بڑھ جاتی ہے ۔
ستارے اور سیارے کی قربت اور دونوں کا
بلند تقابلی فرق کا تناسب اگر علیحدہ
علیحدہ لیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے ۔
دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ناقابل شناخت ہوتے ہیں ۔
پچھلے بیس برسوں
میں استعمال ہونے والی دوربینیں بشمول ہبل
خلائی دوربین میں اس بات کی صلاحیت و قابلیت موجود ہے کہ وہ قریبی روشن ستارے سے دس ارب گنا دھندلے اجسام کی روشنی کو جمع کر
سکتی ہیں ۔ یہ بعینہ ایسے ہی کام کرتا ہے جیسے فوٹوگرافر شام کے دھندلکے میں کیمرے کے شٹر کو دیر تک
اٹھا کر رکھتا ہے ۔ زیادہ دیر تک شٹر کھلا رکھنے سے کیمرے کے اندر موجود سراغ رساں کو روشنی کو زیادہ جمع کرنے کا موقع ملتا ہے جس کے نتیجے میں دھندلے اجسام کی تصویر حاصل ہو
جاتی ہے ۔ ہبل ڈیپ فیلڈ سے حاصل کردہ شہرہ آفاق
تصویر کو حاصل کرنے میں تینتیس گھنٹے لگے تھے جس کے دوران اس نے بصری روشنی کو جمع کرکے ہزار ہا دور دراز کی کہکشاؤں کی
تصویر حاصل کرکے ان کو ہم پر منکشف کیا تھا۔
آج جانے والے
کئی ماورائے شمس سیاروں کا سراغ بھی اسی
طرح کے لمبے عرصے تک لی جانے والی تصاویر کے نتیجے میں لگا تھا بس اس کے نتیجے میں
حاصل ہونے والی تصویر کے بیچ میں ستارہ بہت ہی روشن دھبہ لگ جاتا ہے ۔ فوٹوگرافر
کی زبان میں ستارہ زیادہ ایکسپوز ہو جاتا ہے
اور اس کی روشنی پوری تصویر پر پھیل جاتی ہے ۔ حقیقت میں یہ سراغ رساں آلے کو
نقصان بھی پہنچا سکتی ہے ۔ نجمی منتشر روشنی میں کہیں سیارے کی مدھم سی روشنی بھی
کھوئی ہوئی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کسی عام ستارے کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیارے کو
ڈھونڈھنا اتنا بڑا چیلنج ہوتا ہے ۔ ان
مسائل سے نمٹنے کے لئے کچھ حل بھی پیش کئے گئے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ستارے
اور اس کے سیارے کا مشاہدہ الگ قسم کی روشنی کے طیف میں کیا جائے ۔ ستارے کی سیارے
کی بصری روشنی کے مقابلے میں نسبت ایک ارب
کے مقابلے میں ایک یا دس ارب کے مقابلے میں ایک ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں
کہ روشنی مختلف رنگوں اور مختلف طول امواج
کا مجموعہ ہوتی ہے ۔ ان موجوں کو جب طول
موج کے مطابق پھیلایا جاتا ہے (مثال کے
طور پر جیسا کہ منشور ( پرزم) میں کیا جاتا ہے ) تو روشنی ہمیں طیف پر مشتمل نظر
آتی ہے ، بعینہ جیسے پانی کی بوند سورج کی روشنی کو قوس و قزح میں توڑ دیتی ہے ۔
نتیجتاً پرزم کا استعمال کرتے ہوئے ستارے اور سیارے سے آنے والی طول موج کا
استعمال کیا جا سکتا ہے جس میں ستارے اور سیارے کی روشنی میں اتنا زیادہ نسبتی فرق
نہیں ہوگا اور یہ بات ہمارے لئے سیارے کا سراغ لگانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے ۔
پانی کی بوندیں سورج کی روشنی کو قوس و قزح میں توڑتی ہوئی |
کچھ موقعوں پر یہ
کام کر جاتی ہے ۔ بہت زیادہ گرم سیارے جیسا کہ پگاسی 51 ب ہے ، اس ضمن میں جب اسے
زیریں سرخ اشعاع میں دیکھا جاتا ہے
تو ستارے اور سیارے کی نسبت ایک ہزار گنا
تک بہتر ہو جاتی ہے(اور فرق صرف دس لاکھ گنا تک رہ جاتا ہے)۔ زیریں سرخ اشعاع طویل
اور طویل تر طول موج ہوتی ہیں اس کے بعد ہماری
آنکھیں سرخ روشنی دیکھتی ہیں ، جبکہ ہماری
جلد اس کو حرارت کی صورت میں محسوس کرتی ہے۔ ایک گرم سیارہ ، زیریں سرخ اشعاع میں
اپنے ستارے کے سامنے ہونے کے باوجود ہمیں اس بات کا بہتر موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم
اس کا مشاہدہ کر سکیں کیونکہ وہ اپنی گرمی
سے بھی چمکتا ہے ۔ تپتے ہوئے مشتری(Hot Jupiter) کا درجہ حرارت پندرہ سو سے دو ہزار کیلون ہو
سکتا ہے جو زمین کے287 کیلون کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے تاہم اس درجہ
حرارت کا مقابلہ سورج کے درجہ حرارت 5800کیلون سے کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام باتوں
سے قطع نظر 107 کی نسبت اب
بھی بہت زیادہ ہے ۔ حالیہ دنوں میں زیریں سرخ اشعاع میں کئی پہلے سے دریافت شدہ
سیاروں کا مشاہدہ کرنے سے کچھ مخصوص
حالتوں میں کامیابی تو حاصل ہوئی ہے تاہم ان سے کسی قسم کی تصاویر حاصل
نہیں ہو سکیں اور یہ طریقہ اب بھی نئے سیاروں کی دریافت کے لئے استعمال نہیں کیا
جاتا ۔
دوسری وہ کونسی
ستارے اور سیاروں کے درمیان موجود نسبتیں ہیں جن کا ہم استعمال کر سکتے ہیں ؟ پہلی
چیز تو کمیت اور حجم ہے ، دونوں کی ستارے اور سیارے کی نسبت روشنی کی نسبت سے کافی
سود مند ہے ۔ مثال کے طور پر سورج ، مشتری سے 1050 گنا زیادہ ضخیم ہے ، ان دونوں
کا ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت 103 ہے ۔ یہ 107 کی گنا تھوڑی بہتر ہے ۔ حجم کے ساتھ چیزیں
اور بہتر ہو جاتی ہیں ۔ سورج ، مشتری کے حجم سے صرف دس گنا زیادہ ہے (اور زمین کے
حجم سے صرف 103 گنا زیادہ ہے)! یہ نظری
طور پر تو سننے میں کافی اچھا لگتا ہے ، تاہم اس کا عملی دنیا میں کس طرح سے استعمال کیا جا سکتا
ہے؟
چلیں ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کو دیکھتے ہیں، کیونکہ یہ اب
تک استعمال ہونے والا سب سے مقبول و
کامیاب طریقہ ہے ۔ کسی بھی جسم کی کمیت اس
کی قوّت ثقل کی قوّت کا تعین کرتی ہے ۔ جو
جسم جتنا زیادہ ضخیم ہوگا اس کی اتنی زیادہ مضبوط قوّت (یا کھینچنے کی طاقت )ہوگی ۔
لہٰذا یہی وجہ ہے کہ مشتری سورج کے گرد
ابد تک چکر لگاتار ہے گا ۔ لیکن ذرا رکیے ! کیا مشتری سورج کے گرد کسی گمنام غلام
کی طرح چکر کاٹ رہا ہے یا سورج اور مشتری
ملکی وے کہکشاں میں ڈگمگاتے اپنے مقررہ
راستے پر رواں دواں ہیں؟
وہ سنگ میں رقص
کرتے ہوئے اپنے راستے پر رواں دواں ہیں ! ہر طاقت کے لئے ایک برابر کی مخالف طاقت
موجود ہوتی ہے ، لہٰذا سورج اور مشتری ایک دوسرے کو مرکز کمیت(Center of Mass) کے گرد سہارا دیئے ہوئے ہیں ۔ مرکز کمیت ایک
ایسا مجازی نقطہ ہے جو اس خط پر موجود ہے
جو ان دونوں کو ایک دوسرے سے باندھ کر رکھتا ہے ۔ وہ دونوں اپنے مرکز کمیت کے گرد
ایک محو رقص جوڑے کی طرح چکر لگاتے ہیں۔ سورج ہزار ہا گنا زیادہ ضخیم ہونے کے باوجود
، اپنا مرکز کمیت اپنے آپ سے کافی قریب تو رکھتا ہے ، اس کے باوجود وہ مرکزی کمیت سورج کے
اندر موجود نہیں ہے ۔سورج اور مشتری کا مرکز کمیت سورج کے نصف قطر کا لگ بھگ ٧
فیصد ہے جو سورج کی سطح سے اوپر واقع ہے ۔
دور دراز کے ستارے پر موجود ایک لا پرواہ
شاہد کے لئے یہ بات ناقابل شناخت ہو سکتی ہے
کہ مشتری صرف سورج کے گرد چکر لگا رہا ہے ۔لیکن ایک ماہر اور تیز نظر فلکیات دان اس مقررہ راستے پر ان کو اس وقت ڈگمگاتا ہوا دیکھ سکتا ہے جب سورج مشتری کے ساتھ مرکز کمیت کے گرد چکر لگا رہا ہو
۔ اس طریقے کی خوبصورتی یہ ہے کہ فلکیات دان سورج کی ڈگمگاہٹ کا اس وقت بھی مشاہدہ
کر سکتا ہے جب وہ مشتری کو کسی بھی طرح سے دیکھنے کے قابل بھی نہ ہو! کسی بھی
سیارے کی دریافت کا یہ ایک بلا واسطہ
طریقہ ہے ۔
کئی عملی طریقے
موجود ہیں جس کے نتیجے میں ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کی مدد سے ماورائے شمس
سیاروں کو دریافت کیا جا سکتا ہے ۔ ان طریقوں میں سے تین ایسے ہیں جو مرکزی یا مورث
ستارے کی ڈگمگاہٹ کا سراغ لگاتے ہیں جبکہ ایک کمیت کی نسبت
کا فائدہ اٹھاتا ہے ۔کسی ستارے کی
ڈگمگاہٹ کا سراغ دوسرے ستاروں کی نسبت سے
اس کے محل و وقوع کا احتیاط کے ساتھ براہ راست مشاہدہ کرکے لگایا جا
سکتا ہے ۔ اس مشاہدہ کے لئے درکار وقت لازمی طور پر فرضی سیارے کے مدار میں چکر لگانے کے وقت سے
زیادہ ہونا چاہئے ۔ نجوم پیمائی(astrometry) کا یہ طریقہ ہماری اس طرح مدد کرتا ہے کہ بجائے ہم کائنات کو بڑے پیمانے پر ناپیں ہم فرضی سیارے کے اپنے مورث ستارے کے برتاؤ پر پڑنے والے اثر کو الگ کر لیں۔ اس طریقے کا
استعمال کافی عرصے سے کیا جا رہا ہے کم از
کم بیسویں صدی کی شروعات سے تو اس کا استعمال ہور ہا ہے لیکن اب اس طریقے کے استعمال کی مانگ کافی بڑھ
گئی ہے ۔ حال ہی میں ناسا کی جیٹ پروپلشن
لیبارٹری نے ایک طریقہ ایجاد کیا ہے ۔ یہ
ایک ایسا طریقہ ہے جس میں نجوم پیمائی کرتے ہوئے انتہائی
درستگی کے ساتھ سیاروں کی کھوج کی جا سکتی ہے لہٰذا یہ طریقہ مستقبل میں کافی اچھے نتائج دے سکتا ہے ۔
ایک اور ڈگمگاہٹ
والا طریقہ موجود ہے جس کی مدد سے پہلے ماورائے شمس سیارے کو تلاش کیا گیا تھا ۔ یہ ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف پر
ڈوپلر اثر پر انحصار کرتا ہے ۔ ڈوپلر اثر
جس کو ١٨٤٢ء میں ایک آسٹریا کے طبیعیات دان کرسچین ڈوپلر(Christian
Doppler) نے بیان کیا تھا اور اس
اثر کو یقینی طور پر آپ نے بھی اکثر و
بیشتر محسوس کیا ہوگا ۔ یہ اثر اس وقت
واقع ہوتا ہے جب کوئی جسم بیک وقت حرکت
کرتے ہوئے آواز کی لہریں خارج کرے ۔ آواز کی موجیں ہوا میں سے گزر کر ہمارے کانوں
سے ٹکراتی ہیں جس سے ہمیں آواز سنائی دیتی ہے ۔ لہٰذا گزرتی ہوئی گاڑی (یا
ایمبولینس کا سائرن ) کی آواز اپنی اوج کو ڈوپلر کے اثر کی وجہ سے تبدیل کرتی ہے یعنی
کہ سائرن کی آواز ہمیں اس وقت زیادہ تیز سنائی دیتی ہے جب ایمبولینس ہماری قریب آتی ہے
اور اس کے دور جانے کے ساتھ ہی اس کی آواز بھی آہستہ ہوتی جاتی ہے ۔ مزید براں
حرکت کی نسبت ہی اہم چیز ہے۔ لہٰذا اگر
رکی ہوئی ایمبولینس کا سائرن بج رہا ہے
اور آپ اس کے پاس سے گزریں گے تو بھی آپ کو وہی ڈوپلر اثر ملے گا ۔ ڈوپلر
کے اثر کو عملی طور پر اجسام کی رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا
ہے ، مثال کے طور پر جب موٹر وے کی پولیس
تیز رفتاری کرتے ہوئے کسی بھی ڈرائیور کو
اپنے ریڈار کی مدد سے پکڑ لیتی ہے یا جب
ماہر موسمیات طوفان کا سراغ لگانے کے لئے ہوا کی رفتار میں ہونے والے بدلاؤ کو ناپتے ہیں ۔
روشنی برقی
مقناطیسی موجوں پر بھی مشتمل ہوتی ہے جو
آواز کی موجوں سے چھوٹی ہوتی ہیں ۔ لہٰذا روشنی پر بھی ڈوپلر کا اثر ایسے ہی پڑتا
ہے جیسا کہ آواز پر ، اس طرح سے ہم
ستاروں ، کہکشاؤں اور دوسری چیزوں کی اضافی رفتار کو ناپ سکتے ہیں۔ اس بات
کی فلکیات کی دنیا میں بہت زیادہ اہمیت ہے
جہاں ہمارے پاس ان دور دراز کے اجسام کی حرکت کو ناپنے کا کوئی اور دوسرا طریقہ نہیں ہے ۔
ڈوپلر اثر کو
جاننے کے لئے سائنس دان دوربین ، پرزم اور ایک کیمرے کا استعمال کرتے ہیں تاکہ
ستارے سے آتی ہوئی روشنی کے طیف کو درج کر سکیں۔ پھر وہ طیف میں نشان کو دیکھتے
ہیں ۔ اگر جس ستارے کا آپ مشاہدہ کر رہے ہیں اس سے آتی ہوئی روشنی کے طیف لمبی طول
موج (سرخ روشنی )کی طرف ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ستارے آپ سے دور جا رہا ہے ۔
جتنی تیز رفتاری سے ستارہ آپ سے دور جا رہا ہوگا اتنا ہی اس کا طیف سرخ روشنی کی
جانب مائل ہوگا ۔ اگر ستارہ ہماری طرف آ رہا ہوگا
تو اس کا الٹ ہور ہا ہوگا ۔ ستاروں سے آنے والی زیادہ تر بصری روشنی بعینہ تاباں روشنی کے بلب جیسی ہی ہوتی ہے اور جب وہ طیف میں تقسیم ہوتی ہے تو قوس و قزح
کی ہی طرح دکھائی دیتی ہے ۔لیکن جب سائنس دان اس کوپرزم کے ساتھ دیکھتے ہیں تو اس میں ان کو کئی اور نشان بھی نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر ستاروں کے طیف میں یہ
نشان تو تنگ تاریک خطوط کی شکل میں دکھائی
دیتے ہیں جو اس جانب اشارہ ہوتا ہے کہ مخصوص طول موج اس میں سے غائب ہے ۔ یہ خطوط
، طیفی جذبی لکیریں ستارے کی سطح کے قریب
موجود جوہروں اور برق پاروں کی وجہ سے
پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب روشنی جوہروں سے بنی گیس میں سے گزرتی ہے تو جوہر اس کی کچھ روشنی کو جذب کر لیتے ہیں ؛ یہ
مظہر ہم اپنے روز مرہ زندگی میں بادلوں کے ساتھ دیکھتے رہتے ہیں ۔ ہرچند کہ ہم اپنی چشم عریاں سے اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ روشنی
مخصوص طول موج یا رنگوں میں جذب ہوتی ہے۔
یہ جذبی لکیریں اور ان کا طول موج؛
جوہر(برق پاروں اور سالموں ) کے گرد چکر لگانے والے الیکٹران کی بدولت ایسا
برتاؤ کرتا ہے۔ الیکٹران کی کئی مخصوص توانائی کی حالتیں اور مدار ہوتے ہیں اور یہی وہ جگہ ہوتی ہے جہاں روشنی غائب
ہوتی ہے ۔ کیونکہ توانائی کی یہ حالتیں بہت ہی مخصوص ہوتی ہیں اسی لئے جذبی لکیریں اور ان کا طول موج بھی بہت ہی مخصوص ہوتا ہے ۔ اسی
لئے ہر معلوم عنصر ، ہلکے ترین ہائیڈروجن سے لے کر بھاری ترین معلوم دھات تک ، ان
کے جوہر ایک مخصوص اور ناقابل تردید انفرادی خصوصیت جو ہزار ہا جذبی لکیروں کی صورت میں ہوتی ہے رکھتے ہیں ۔
یہی طیف کی جذبی لکیریں وہ نشان ہیں جن کے استعمال سے
ہم ستاروں میں ڈوپلر کا اثر ناپتے ہیں ۔ ایسا کرتے ہوئے ہم ستاروں کی رفتار میں
معمولی تبدیلی میں بھی امتیاز کر سکتے ہیں۔ اس میں ستاروں کی ڈگمگاہٹ بھی شامل ہے۔
مزید براں ڈوپلر کے اثر کو اس طرح سے ناپنے میں ہم ستارے کی اصل رفتار کا
بھی اندازہ کر سکتے ہیں جس کے ذریعہ وہ
اپنے مدار میں رہ کر مرکز کمیت کے گرد چکر کاٹ رہا ہوتا ہے۔ یہ مدار کی رفتار ، مدار کے وقت کے ساتھ مل
کر - جو ستارے اور سیارے دونوں کی ایک ہی
ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے مرکز کمیت کے گرد
چکر لگا رہے ہوتے ہیں - ہمیں دونوں کی
کمیت معلوم کرنے کے قابل کرتی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ستارے کی کمیت
کس طرح سے اس کے طیف کو دیکھ کر کی جا سکتی ہے ؛ یہ جذبی لکیریں معلومات کا بھنڈار
ہوتی ہیں ۔ لہٰذا ہم سیارے کی کمیت معلوم کر سکتے ہیں ۔ بہرحال اس میں ایک قباحت
ہے : ہم اس زاویہ کو نہیں ناپ سکتے جس زاویے پر وہ مدار ہماری طرف جھکا ہوا
ہے کیونکہ ڈوپلر کے اثر سے ہم صرف اضافی
حرکت ہی ناپ سکتے ہیں نتیجتاً کمیت کے
اندازے کے بارے میں کچھ بے یقینی اپنی جگہ موجود رہتی ہے ۔ اس بے یقینی کا خاتمہ
کرنے کے لئے ہمیں سیاروں کی دریافت اور ان
کا مطالعہ کرنے کے لئے دوسرے طریقوں کو
استعمال کرنا پڑتا ہے مثال کے طور پر عبوری طریقہ (اس کے بارے میں ہم مزید تفصیلات
آگے چل کر دوسرے باب میں فراہم کریں گے۔)
ڈگمگاہٹ کے سراغ
لگانے کا تیسرا عملی طریقہ وقت کا دورانیہ
ہے ۔اگر کچھ مخصوص وقتی اشاروں اور وقت کو
ہم انتہائی درستگی کے ساتھ ناپ لیں ، تو
سیارے کی وجہ سے ستارے کی چال میں ہونے والی ڈگمگاہٹ اشارے کے وقت کے دوران مخصوص مدت میں ظاہر ہوگی ۔ ایسے مخصوص مدت کے گردشی اشارے کیا ہو سکتے ہیں ؟ یہ اشارے نابض] (پلزار )[Pulsar –ایک نیوٹران ستارہ جو انتہائی تیزی کے ساتھ گھومتا ہوا ریڈیائی لہریں چھوڑ رہا ہوتا ہے - سے بھی نکل سکتے ہیں یا دو ستاروں سے بھی آ
سکتے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد مدار میں بہت ہی نزدیک چکر لگا تے ہوئے ایک دوسرے کو
وقفے وقفے سے گرہن لگا رہے ہوتے ہیں (یہ گرہن کا وقفہ چند گھنٹوں یا دنوں کا ہو
سکتا ہے )۔ یہی وجہ ہے کہ ١٩٩٢ء میں ریڈیائی فلکیات دانوں اے وولز چن(A.
Wolszczan) اور ڈی فریل(D. Frail)
نے PSR 1257112
نابض کے گرد چکر لگاتے ہوئے سیاروں کو دریافت کیا تھا ۔ یہ ایک غیر معمولی دریافت تھی مگر اس کو وہ توجہ
نہیں ملی جو ١٩٩٥ء میں پگاسی ٥١ ب کو ملی
تھی اس کی دو وجوہات تھیں ۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ نابض سیارے ، دونوں طرح سے بطور
سیارہ اور نظام ہائے سیارگان اجنبی تھے ۔ دوسرے نابض سیارے بہت ہی کمیاب تھے ۔ ہم صرف
چند ہی ایسے نظاموں کو جانتے ہیں ، ان کا مطالعہ کرنے کے لئے کچھ زیادہ مواد نہیں
تھا اور وہ اپنے ماخذ کو سمجھنے میں ہماری بہت ہی تھوڑی سی مدد کر سکتے تھے ۔
میعادی ٹیکنالوجی
کو بھی اس وقت بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جب ایک سیارہ اپنے قریب میں موجود دوسرے
سیارے کی وجہ سے کھینچا اور دھکیلا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر اگر کسی نظام میں
کوئی تپتا ہوا مشتری ہوتا اور ہم اس تپتے ہوئے مشتری پر اس وقت مستقل نظر رکھے ہوئے ہوتے جب وہ اپنے مورث ستارے کے گرد مدار میں قاعدے
سے چکر لگا رہا ہوتا (جیسا کہ گرہن یا عبوری مرحلے کے مواقع کو نشان زدہ کر لینا ؛ مزید تفصیلات
کے لئے اگلا باب ملاحظہ کیجئے )، تو ہم اس کے
باضابطہ مدار میں کچھ تبدیلی محسوس کرتے جو دکھائی نہ دینے والے سیارے کی
وجہ سے ہوتی ۔بعض اوقات اس قسم کی وقتی
تبدیلیوں سے دوسرے سیارے کا سراغ لگانا ستارے کی ڈگمگاہٹ کو دیکھنے کی نسبت زیادہ
آسان ہوتا ہے۔ سیاروں کی کھوج کا یہ طریقہ کیپلر سیارے کی کھوج کے منصوبے کے شروع میں انتہائی کامیاب رہا ہے ۔ مثال کے
طور پرکیپلر ١١ کے نظام میں پانچ گزرتے
ہوئے سیاروں کی تصدیق کی جا سکتی تھی اور
ان کی کمیت صرف عبوری وقت کی تبدیلیوں سے ہی حاصل کی جا سکتی تھی ۔
سیاروں کی کھوج کا
ایک اور ایسا طریقہ موجود ہے جو ستارے اور سیارے کی کمیت کی نسبت کا فائدہ اٹھا تا
ہے - ثقلی عدسے کا اثر، ایک ایسا اثر جس کی پیش گوئی آئن سٹائن نے کی تھی اور جس کو اس نے عمومی نظریہ اضافیت کی تصدیق کے لئے بھی
استعمال کیا تھا ۔ نظریاتی کام کے پہل کار ، پرنسٹن کے آنجہانی فلکی طبیعیات دان بودن پیکزنسکی (Bohdan
Paczynski)نے
آئن سٹائن کی پیش گوئی کو عملی طور پر کرکے دکھایا یوں کئی بین الاقوامی منصوبے، ستاروں کے ثقلی عدسے کے اثر کی نگرانی کے لئے شروع ہوئے ۔ اس اثر کو دیکھنے
کے لئے روشنی کے منبع کی ضرورت ہوتی ہے، جو عام طور سے دوسرا ستارہ مہیا کرتا
ہے جو مذکورہ ستارے کے پیچھے موجود ہوتا
ہے ۔ جب ہم اس پیچھے والے ستارے کی روشنی
کی طرف دیکھتے ہیں تو اس سے آتی ہوئی
روشنی آگے والے ستارے کی ثقلی قوّت کی وجہ
سے خم کھاتی ہے ۔ اگر آگے والے ستارے کے ساتھ کوئی سیارہ بھی موجود ہے تو وہ عدسی
اثر کو قابل ذکر طور پر تبدیل کر دے گا۔ ٢٠٠٥ء میں جے پی بولیو(J.
P. Beaulieu) اور ان کے رفقائے کاروں نے ایک سیارہ دریافت کیا جو زمین کی کمیت کے مقابلے میں پانچ
سے چھ گنا زیادہ کا تھا جس کو "فوق
ارض "(Super Earth) کہتے ہیں ۔ اس سیارے کا نام انتہائی مشکل OGLE-2005-BLG-390Lb
تھا ، اور یہ ایک چھوٹے سے ستارے کے گرد
کم از کم زمین کے سورج کے فاصلے کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ دور
چکر کاٹ رہا تھا ۔ صرف یہی بات ہم OGLE-2005-BLG-390Lb سیارے کا بارے میں اب تک جانے ہیں کیونکہ
ثقلی عدسے کے اثر کے طریقے کے استعمال سے ہمیں صرف ایک ہی مرتبہ موقع ملتا ہے کہ اس میں جھانک کر فوری تصویر حاصل کر سکیں۔ اپنی نوعیت کی بدولت
مشاہدے کو دہرایا نہیں جا سکتا۔
بہرحال ثقلی عدسے
کے طریقے کی اہمیت ماورائے شمس سیاروں کی دریافت میں شماریات کی شکل میں موجود ہے ۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس طریقے میں عظیم
مشتری اور عظیم ارض دونوں کے دریافت ہونے کا امکان برابر ہوتا ہے ۔ اگرچہ
ابھی تک اس طریقے کا استعمال کرتے ہوئے چند
ہی سیارے دریافت ہوئے ہیں ، مگر شماریات کی زبان میں دیکھا جائے تو یہ لہر
واضح طور پر نظر آتی ہے کہ چھوٹے سیارے بھی اتنی ہی تعداد میں موجود ہیں جتنی
تعداد میں بڑے سیارے اور ممکن ہے کہ وہ بڑے سیاروں کی نسبت زیادہ تعداد میں
موجود ہوں ۔
ماورائے شمس
سیاروں کی کھوج کی پہلی دہائی میں دریافت
کے کئی طریقوں میں بالیدگی نظر آئی ہے۔ ان میں سے کچھ طریقے ایک دوسرے کی مدد کرتے اور ہمیں دریافت شدہ
سیاروں کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں ۔ یہ ہماری اس مہم کے لئے انتہائی اہمیت کے
حامل اس لئے ہیں کہ ان کے ذریعہ ہم جان سکیں گے کہ کیا ہمارا نظام شمسی ، کرۂ ارض
، اور ارضی حیات منفرد اور نایاب ہیں یا
پھر یہ کائنات میں عام پائی جانے والی چیزیں ہیں ۔ ایک دفعہ ہمیں یہ بات معلوم ہو
جائے تو ہم کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل کر لیں گے ۔ان طریقوں کے آخری طریقے کا نام
"عبوری طریقہ"(Transiting Method) ہے جس میں ہم ستارے اور سیارے کے حجم کی نسبت کا
فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہ طریقہ اب تک کا سب
سے آسان طریقہ نظر آتا ہے ۔ بہرصورت ستارے اور سیارے کے حجم میں واضح فرق کافی نمایاں ہوتا ہے جو حجم کی نسبت دس سے سو گنا تک ہو سکتا ہے۔ درحقیقت ہماری
مہم میں عبوری طریقہ ایک خاص کردار ادا
کرتا ہے ۔ لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے اس طریقے میں بھی ایک قباحت ہے ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں