حصّہ دوم - حیات کا ماخذ
باب ہفتم - حیات کا پیمانہ
شیکسپیئر نے ایک دفعہ کہا تھا کہ دنیا ایک اسٹیج ہے اور تمام مرد و
عورتیں صرف کھیل کے کردار ہیں ۔ شیکسپیئر کے اس قول کو میں اس طرح سے کہتا ہوں، سائنس
دان ایک ایسے کھیل کا حصّہ ہیں جس کا اسکرپٹ
(اگر وہ موجود ہے تو )وہ نہیں جانتے ہیں اور نہ ہی اس بات کی خبر رکھتے ہیں
کہ سامعین میں سے بھی کوئی ان کو دیکھنے
کے لئے موجود ہے ۔ اور یقینی طور پر یہ اسٹیج ہمارے حجم کے لئے نہیں بنا ہے۔ یہ
طلسماتی دنیاؤں سے بھی بہت زیادہ بڑا ہے۔
ہم انسان چھوٹی شوخ مخلوق ہیں - ہم دنیا
کی وسعت کے حساب سے قابلیت اور توجیہ
رکھنے کے قابل ہیں۔
میں جب کالج میں تھا تو میرے پاس ایک چھوٹی دوربین تھی۔
میرے والد نے مجھے اس کا استعمال سکھایا؛ وہ زیادہ تر دن میں سکھاتے تھے ؛ گھر کے پچھواڑے میں رات کے پہر میں، میں
خود سے گھنٹوں آسمان کو دیکھتا تھا۔ جس
جگہ میں پلا بڑھا تھا وہ ایک چھوٹی جگہ
تھی ، ہمارے اسکول میں نہ تو کوئی رصدگاہ تھی نہ ہی کوئی دوربین تھی۔ یہ ضرور تھا
کہ میں نے کتابیں پڑھ رکھی تھیں جس میں سے کچھ میں تصاویر بھی موجود تھیں ، لیکن
دوربین کے ذریعہ دیکھنے کا اپنا الگ ہی مزہ تھا۔ تجربہ انتہائی رونگٹے کھڑا کر
دینے والا ہوتا تھا - جب میں اپنی دوربین
کو ستاروں کی جانب لے جاتا تھا تو ایک سنسنی کی لہر میرے ریڑھ کی ہڈی سے گزر جاتی
تھی۔ بالآخر وہ احساس تو غائب ہو گیا
لیکن وہ سنسی کی لہر مجھے اب تک
یاد ہے۔ جب میں ستاروں کے درمیان تاریکی پر نظر ڈالتا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ جیسا میں اس اندھیرے
میں ڈوب جاؤں گا۔ جیسا کہ اونچائی سے گرنے کا خوف ہوتا ہے یہ خوف اس کا الٹ تھا۔
جیسا کہ چکر آنے میں ہوتا ہے۔
میں نے ایک کتاب کئی مرتبہ پڑھی تھی اور میں
چیزوں کا تصوّر کافی واضح طور پر کرتا تھا۔ الغرض میں نے ستاروں کے درمیان
موجود خالی خلاء کی وسعت کے بارے میں اپنی کتابوں میں کافی پڑھا ہوا تھا۔ لیکن اگر
ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ کائنات کس قدر بڑی اور عظیم ہے ، تو شاید ہماری
ریڑھ کی ہڈی میں ہونے والی سنسنی ساری زندگی برقرار رہے گی۔ کائنات کی وسعت سے پاگل
ہونے سے بچنے کے لئے ، فلکیات دان ریاضی کا استعمال کرتے ہیں ، بلکہ کافی زیادہ
استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ اگرچہ اس
مشکل کام سے نمٹنے کا یہ ہی ایک سنجیدہ طریقہ ہے۔ قدیم یونان کے ایراٹوستھینس (Eratosthenes) کے عہد سے، جس نے زمین کا حجم ناپا تھا ، انسان
ریاضی (جیومیٹری ) کا استعمال کائنات کو
ناپنے کے لئے کر رہا ہے۔ ہر مرتبہ نئے حاصل کردہ علم نے ہماری حیرت میں اضافہ ہی
کیا ہے۔ کئی سائنس دان (جس میں سے ایک میں بھی ہوں ) آپ کو بتائیں گے کہ وہ ایسا
کیوں کرتے ہیں۔
حیرت انگیز طور پر
یہ وسعت - جو ہمارے ننھے پیمانے سے
بالکل بھی میل نہیں کھاتی - شاید حیات کے
ظاہر ہونے کے لئے لازمی ہے۔ تو چلیں اس میں سے کچھ کی ہم چھان بین کرتے ہیں۔ میں
یہاں سے لفظ "پیمانہ " اکثر استعمال کروں گا ؛ جس کا مطلب ہوگا کشادگی یا کسی چیز کا نسبتی حجم ، چاہئے
وہ مکان ہو یا زمان۔ جب یہ وقت کے لئے
استعمال ہوگا تو میں "وقت کا پیمانہ "کہوں گا۔ چلیں پہلے خلاء سے نمٹ
لیں۔
ہم ایک کہکشاں -
ملکی وے - میں رہتے ہیں۔ جو ستاروں اور گیس کا ایک جزیرہ ہے اور یہ مرکز کے گرد مرغولے نما بازوں کے ساتھ گھوم رہا
ہے۔ دوربین کے ذریعہ نظر آنے والی کائنات
کہکشاؤں سے لبریز ہے۔ حالیہ اندازہ لگ بھگ دو کھرب کہکشاؤں کا ہے۔
کالج کے ایک نوجوان کی حیثیت سے میں رات کے آسمان میں مختلف
قسم کی کہکشاؤں کو دیکھتا تھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا کیونکہ زیادہ تر کہکشاؤں کو
دیکھنے کے لئے اندھیرا ، صاف آسمان اور بڑی دوربین کی ضرورت ہوتی تھی۔ بہرحال ایک ایسی کہکشاں تھی
جو خالی آنکھ سے دیکھی جا سکتی تھی ، اور دوسری کہکشاؤں کے برعکس اس کا نام بھی
تھا :اینڈرومیڈا۔ اگر آپ خط استواء کے شمالی حصّے کی جانب رہتے ہیں تو آپ اس کو
دیکھنے کی کوشش کر سکتے ہیں - ایک دھندلا
سے سحابیہ جیسا اینڈرومیڈا مجموعہ نجوم
میں - جو موسم گرما کی راتوں کے آخری پہر
میں مشرق سے طلوع ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، اور خزاں اور سردیوں
کے موسم میں عین سروں پر نظر آتا ہے۔ میں آپ کو اس بات کا مشورہ دوں گا کہ اس کو دیکھنے کے لئے کافی زیادہ کوشش
کیجئے گا کیونکہ دوربین یا کسی اور چیز کی مدد کے بغیر یہ خالی
انسانی آنکھ سے نظر آنے والا دور
دراز کا جسم ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں پچیس لاکھ نوری برس دور ہے ، یعنی اس کا فاصلہ
ان ستاروں سے لگ بھگ دس ہزار گنا زیادہ ہے
جن کو ہم رات میں دیکھتے ہیں۔
اینڈرومیڈا کہکشاں ہماری ملکی وے کہکشاں سے بہت زیادہ ملتی
ہے۔ اینڈرومیڈا بھی ایسی ہی چپٹی ستاروں اور گیس کی قرص ہے ، جس میں زیادہ تر اس
کے مرغولہ نما بازوں میں موجود ہیں اور لگ
بھگ اس کا حجم بھی اتنا ہی ہے۔ اگر قسمت کی دیوی آپ پر مہربان ہو ، اور تاریک صاف
رات آپ کو مل سکے تو آپ کو اینڈرومیڈا کا
ایک دھندلا دھبہ لمبوترے بیضوی شکل کا
نمودار ہوتا دکھائی دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی قرص کے اطراف ہماری سمت میں ہیں۔
کہکشائیں زیادہ تر آپس میں ایک دوسرے کے قریب ہوتی ہیں ؛ آپ
ملکی وے کے پڑوس کا ایک کہکشانی نمونہ
پیمانے کے حساب سے اپنے کمرے میں بنا سکتے ہیں۔ فرض کریں کے ہماری کہکشاں ایک
کھانے کی پلیٹ ہے ، تو اینڈرومیڈا ہم سے
بارہ فٹ دور ایک دوسری کھانے کی پلیٹ ہوگی ، مثلث کہکشاں (ایک دوسری پڑوسی کہکشاں
جس کو ایم ٣٣ بھی کہا جاتا ہے ) وہ ہم سے
پندرہ فٹ دور اور اینڈرومیڈا سے کچھ قریب
ایک سلاد کی پلیٹ ہوگی۔ ایسا ہماری کائنات
میں عام ہے۔ کہکشائیں جو دیوار سے دیوار تک لگی ہوئی ہیں وہ ایک دوسرے سے
اپنے حجم کی نسبت سے الگ ہوئی ہیں۔ یہ فاصلہ اتنا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو زیادہ تنگ نہیں کرتیں۔
ستارے کے معاملے میں تصویر کا رخ ڈرامائی طور پر بالکل ہی تبدیل ہو جاتا ہے اور اسی طرح سے سیاروں کے بارے میں ہوتا ہے۔ آپ
سورج کے پڑوسیوں کا کوئی نمونہ فاصلے کے پیمانے پر نہیں بنا سکتے - ستارے اپنے درمیان موجود فاصلوں کے مقابلے
میں بہت چھوٹے ہیں۔ کہکشاؤں کے لئے حجم
اور فاصلے کی نسبت لگ بھگ 1:50 یا 1:10 کی ہوگی (جیسا
کہ ایم اینڈ ایم کی چاکلیٹ کی گولیوں سے کھانے کی پلیٹ کی نسبت ہے)، ستاروں کے لئے
یہ نسبت 1:100,000,000 یا اس سے بھی زیادہ کی ہے (بعینہ ایسے ہی جیسے کہ انسانوں کا
موازنہ جوہروں سے کیا جائے )۔ سیاروں کی نسبت سے بھی یہ عظیم تر ہے اگرچہ ستاروں
کی بہ نسبت کم ہے۔ جی ہاں یہ کائنات ایسی ہی ہے !
کیا ان لمبے فاصلوں کا حیات سے کوئی تعلق ہے ؟
ایک جواب ہو سکتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔ یہ مختلف پیمانے
اس لئے ہیں کہ انہوں نے ایسا ہی ہونا تھا ، اور بس۔ یا شاید نہیں۔ حیات ایک ایسا
نظام - ایک کیمیائی نظام - جو ، کم از کم ہمارے علم کے مطابق ، صرف
چھوٹے پیمانوں پر ہی کام کرتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ حیات کیا ہے ، لیکن ہمیں یہ
بات معلوم ہے کہ اس کی کچھ بنیادی باتیں کیا ہیں۔ حیات نے جو پیمانہ لیا ہوا ہے اس کے بارے میں کچھ خاص بات تو ہے جو
اس بات کو یقین بناتی ہے کہ حیات کو ایک پائیدار ماحول مل سکے جہاں پر وہ کام کر
سکے۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے چلیں واپس بڑی تصویر کی جانب چلتے ہیں۔
کہکشائیں کائنات میں ایک دوسرے کی نسبت حرکت میں ہیں جو لگ بھگ ٥ سو کلو میٹر فی سیکنڈ ہے۔ کہکشاں
میں موجود ستارے بھی لگ بھگ اسی رفتار سے اپنے مدار میں رواں دواں ہیں اور ایک دوسرے کی نسبت تھوڑا سا ہلکے (٥٠ سے
٢٠٠ کلومیٹر فی سیکنڈ ) چکر لگا رہے ہیں۔ ہمارا روز مرہ واسطہ پڑنے والی رفتار کے
مقابلے میں یہ رفتار دماغ کی چولیں ہلا دینے والی ہے۔ مثال کے طور پر گولی کی
رفتار اس سے سو گنا زیادہ سست ہے۔
اب یہاں پر مسئلہ یہ ہے : یہ رفتار کہکشاؤں کے فاصلے کے
مقابلے میں بہت کم ہے۔ اینڈرومیڈا کی کہکشاں سیدھی ہماری طرف ٤ سو کلومیٹر فی
سیکنڈ کی رفتار سے دوڑی چلی آ رہی ہے لیکن
ہمارے قریب آنے(اور ہو سکتا ہے کہ ہم سے ٹکرانے ) کے لئے اسے تین ارب سال درکار
ہیں۔ ستاروں کے معاملے میں ایسا نہیں ہے ! اس رفتار سے ، اگر ستاروں کا حجم ان کے
درمیان فاصلے کی نسبت سے ہو ، تو وہ ایک
دوسرے کے اندر ہر وقت گھسے رہتے - ان کے
گرد چکر لگانے والے سیاروں کے مقدر کے بارے میں تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔
خوش قسمتی سے ستارے اس پیمانے پر وجود نہیں رکھتے
جس کی وجہ سے ان کے درمیان تصادم کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ
اگر اینڈرومیڈا کہکشاں آج سے لگ بھگ تین
ارب سال بعد ملکی وے میں گھس بھی جائے تو دونوں کہکشاؤں کے ستارے پھر بھی آپس میں نہیں ٹکرائیں گے۔ اینڈرومیڈا کے ستارے ملکی وے کے ستاروں سے دور سے گزر
جائیں گے ، اور پھر مل کر اپنے مداروں کو
نئی بننے والے کہکشاں کے گرد بنا لیں گے۔
لہٰذا سماوی پیمانے پر، پائیداری نسبتاً تھوڑی زیادہ
ہے جو حیات کے لئے نہایت ضروری ہے۔ لیکن
کتنی پائیداری کی ضرورت ہے؟ کیونکہ جو پائیداری جرثومے کے لئے کافی ہوگی وہی
پائیداری ڈائنوسارز کے لئے تباہی ہو سکتی ہے۔
یہ مسئلہ اسی قسم کے شہرہ آفاق مسئلہ جیسا ہے جس کو
شروڈنگر نے ١٩٤٤ء میں اٹھایا تھا، کیوں
حیات جوہر کے مقابلے میں اس قدر بڑی ہے؟ میں اس سوال کو الٹا کرکے پوچھتا ہوں:
حیات سیارے کے مقابلے میں اتنی ننھی کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے
شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب اشارہ کیا تھا کہ کیسے بڑے کیمیائی پیچیدہ جوہروں سے
بنے سالمے حیات کی بنیادی اکائی ہیں۔ بڑے سالمے اور ان کے درمیان جاری رہنے والے
کیمیائی تعامل حیات سے جڑے ہر عمل کی اصل
روح ہیں۔ وہ توانائی کا ذخیرہ بھی کرتے ہیں اور اس کو خارج بھی کرتے ہیں ، وہ
اطلاعات اٹھائے پھرتے ہیں جس کو موروثی
خاصہ بھی بنایا جا سکتا ہے اور یہ ریشوں ،
دیواروں ، مختلف ساختوں اور دوسری چیزوں میں بھی اپنے آپ کو ڈھال سکتے ہیں۔
شروڈنگر نے اس نقطے کی جانب بھی اشارہ کیا تھا کہ جوہروں کے چھوٹے پیمانے - ایک ایسا جہاں جس کو کوانٹم میکانیات کے
اصولوں سے بیان کیا جاتا ہے - وہ ہر وقت
تبدیل ہوتے ناقابل پیش گوئی ہیں (بلکہ
کافی تتربتر ہوتے ہیں)۔
ایک ایسے صائب الرائے سائنس دان کے طور پر جس نے کوانٹم
میکانیات کو بنانے میں مدد کی تھی ، وہ
جانتا تھا کہ یہ اس کلاسیکل میکانیات سے کس قدر مختلف ہے جو تین صدی قبل آئزک نیوٹن
نے بنائی تھی۔ کلاسیکل میکانیات بڑے پیمانے اور بڑے اجسام کے حرکت کے اصول بیان کرتی ہے جیسا کہ ستارے ،
سیارے ، ان کے مدار ، پل ، گاڑیوں کے انجن
وغیرہ وغیرہ۔ حیات کا پیمانہ کلاسیکل
میکانیات میں پوری طرح بیٹھنے کے لئے کافی بڑی تھا ، اور اسی طرح سے اس کی بنیادی اکائیاں – بڑے سالموں
کے لئے بھی وہ بہت ہی بڑی تھی۔
اپنے سوال کا جواب دینے کے لئے شروڈنگر نے خیال ظاہر کیا کہ حیات کے سالمے اور خلیے اس
لئے کافی بڑے ہیں تاکہ وہ جوہروں کے غیر یقینی اور تباہی کے بے سروپا پیمانے سے جان بچا سکیں – یعنی کوانٹم کی طبیعیات کے
جہاں سے۔ اور دوسری طرف حیات جوہروں کے
خاصے یعنی کہ کیمیائی بندھوں کی ثمر آوری کا فائدہ بھی اٹھا سکے۔ میرے نقطہ نگاہ
سے ، حیات کے پیچیدہ سالمے اور کیمیائی جالوں نے اپنے مسکن بڑی کائنات کی شدید تباہی سے بچنے کے لئے ایسے
پیمانوں پر بنائے ہیں جو اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کو پائیدار ماحول میسر کر سکیں۔
لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ حیات کے سکونت کے پیمانے کچھ خاص طرح
کی خصوصیات رکھتے ہوں گے۔ کائنات کے پیمانے
پر خلاء میں دیکھنے سے ہم دلچسپ چیزوں
کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ کہکشائیں جسیم
کچھووں کی مانند آہستگی کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں ، ان میں موجود ستارے مکھیوں کی
طرح سے بھنبھنا رہے ہیں ، ستاروں کے گرد سیارے اور تیز ی سے چکر کاٹ رہے ہیں ، اور
اسی طرح دوسری چیزیں یہاں تک کہ ہم جہاں صغیر
- جوہروں اور الیکٹران کی کوانٹم کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ پیمانہ جتنا
چھوٹا ہوگا اتنی ہی زیادہ تعجب انگیز
چیزیں وقوع پذیر ہوں گی۔ حقیقت میں یہ
مخبوط الحواس ہوگی اور جدید طبیعیات کے پاس اس کو بیان کرنے کی ایک اچھی
توجیہ ہے۔ اس کو اور آسان بنانے کے لئے، بڑی چیزیں آہستہ حرکت کرتی ہیں، جبکہ چھوٹی
چیزیں تیز حرکت کرتی ہیں۔ ایک ٹرک اور سائیکل کے بارے میں سوچیں جو ٹریفک کے اشارے
پر رکے ہوئے ہیں اور اس وقت حرکت میں آتے
ہیں جب اشارے میں ہری بتی جلتی ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کمیت اور رفتار مل
کر توانائی دیتی ہیں اور توانائی باقی رہتی ہے۔ کمیت میں اضافہ کی وجہ سے رفتار میں
کمی ہوگی۔ الغرض اس بات میں ایک نظم
پوشیدہ ہے۔
حیات کے پیمانے کے لئے
پائیدار ماحول کی کثرت کے علاوہ بھی اشیاء درکار ہیں۔ حیات کے پیمانے کی
خصوصی خاصیت کو جاننے کے لئے پہلے غیر حیاتی مادوں کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔
جوہر کے حصّے بنیادی ذرّات سے مل کر بنتے ہیں |
جیسا کہ قدیم یونانیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ جوہر اور
جوہری پیمانے عام مادّے کی بنیادی اینٹیں ہیں۔ کم از کم خالص جدولی عناصر کے لئے
ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں جیسا کہ کاربن ،
لوہا یا سونا اگرچہ ہمیں اس بات کا اندازہ
ہے کہ عام مادّہ اصل میں جوہروں کا مرکب ہوتا ہے۔ بہرحال بیسویں صدی میں جو بات
عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ عام مادّہ چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جن کو بنیادی
ذرّات کہا جاتا ہے اور جوالگ الگ چار ذرّات
(اور چار ضد ذرّات )کے تین خاندانوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان ذرّات میں سب سے
زیادہ عام اور شناسا پہلے خاندان کا ہلکا
ذرّہ ہے : یعنی الیکٹران ، اوپری کوارک ، نچلا کوارک
اور چھوٹا الیکٹران نیوٹرینو۔
آپ اور میں، ہمارا سیارہ ، ستارہ سب کے سب اسی سے بنے ہیں ،
خاص طور پر الیکٹران ، اوپری کوارک ، نچلے کوارک سے۔ کوارک کی دو اقسام مل کر
پروٹونوں (دو اوپری اور ایک نچلا ) اور
نیوٹرا نوں (دو نچلے اور ایک اوپری )کو بناتی ہیں، اور یہ مل کر جوہر کا مرکزہ
بناتے ہیں اور اسی طرح کسی بھی عنصر کی کیمیائی شناخت بنتی ہے۔ ہلکا
الیکٹران مرکزے کے گرد چکر لگاتا ہے اور
جوہروں کو سالمات میں بندھنے کی صلاحیت ودیعت کرتا ہے۔ جوہر کا مرکزہ
وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پر کمیت موجود ہوتی ہے ، اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے الیکٹران
نہایت ہی ہلکے ہوتے ہیں تاہم ان ہی کی
بدولت کیمیا ممکن ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے باورچی خانے میں کھانا بناتے ہیں تو آپ الیکٹران سے کھیل رہے ہوتے ہیں - جو کیمیائی بند توڑتے اور دوبارہ سے بناتے
ہیں۔ اگر کھانے کے نتیجے میں آپ کا وزن بڑھتا ہے
تو اس کی وجہ ہوتی ہے کہ آپ نے اپنے جسم میں مزید کوارکوں کو جمع کر لیا ہے۔
کہانی ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے۔ ہم بنیادی قوّتوں کو بھول
نہیں سکتے۔ ایک ذرّہ دوسرے کو متاثر کر سکتا ہے ؛ مثال کے طور پر ہائیڈروجن کے
جوہر کا مثبت پروٹون اپنے مدار میں منفی
الیکٹران کو پکڑ کر رکھتا ہے۔ مادّے کا ایک ٹکرا دوسرے ٹکڑے پر ان قوّتوں کی صورت
میں اثر انداز ہوتا ہے۔ بنیادی قوّتیں چار ہیں – ثقلی قوّت ، برقی مقناطیسی قوّت
، مضبوط قوّت اور کمزور قوّت۔ ہماری
روزمرہ زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہم شروع کی دو قوّتوں سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ قوّت ثقل ہمیں زمین پر
ٹکے رہنے میں مدد کرتی ہے (جس کا اثر ہم وزن کی صورت میں محسوس کرتے ہیں ) اور
برقی مقناطیسی قوّت ہمیں ہلنے جھلنے میں مدد کرتی ہے (رگڑ کی صورت میں )۔ ان تمام
قوّتوں کی ایک عام خاصیت یہ ہے کہ یہ سب ایک مشترکہ ذرّہ سے پہچانے جاتے ہیں(جس پر حالت سکون میں
کوئی کمیت نہیں ہوتی ) اور جو طاقت کے سب
سے چھوٹے کوانٹم (یا بنڈل ) رکھتے ہیں۔ برقی مقناطیسی طاقت کا ذرّہ فوٹون کہلاتا
ہے۔ ہم فوٹون کو روشنی کے ذرّے یا پھر حرارت کی صورت میں دیکھتے ہیں یا مثال کے طور پر ہم اس کو موبائل فون پر بات کرنے کے لئے استعمال کرتے
ہیں۔ ذرّے کی ثقلی طاقت کو گرویٹون کہتے
ہیں۔ ان تمام ذرّات میں موج کی خصوصیت
ہوتی ہے۔
اب اس پیمانے پر غور کریں جو بہت زیادہ بڑا ہے - کہکشائیں ، ستارے اور نظام ہائے سیارگان۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں
قوّت ثقل کی حکمرانی ہے۔ یہاں پر کوئی رگڑ یا برقی مقناطیسی قوّت نہیں ہے جو ان
اجسام کو ان کے مدار سے کج رو یا آہستہ کر دے
اور کیمیائی بند جو حیات کے شروع ہونے کے لئے ضروری ہیں وہ اس پیمانے پر یہاں وقوع پذیر نہیں ہو
سکتے تھے۔ دوسری انتہاء پر جو پیمانہ ہے
وہ ہمارے لحاظ سے بھی بہت چھوٹا ہے یعنی کہ
کوانٹم کا پیمانہ۔ قوّت ثقل کا یہاں کوئی عمل دخل نہیں ہے ؛ انفرادی ذرّات
کی کمیت اتنی کم ہوتی ہے کہ یہاں پر برقی مقناطیسی قوّت کی حکمرانی ہے۔ دونوں بڑے
اور چھوٹے پیمانوں پر حیات کے لئے کوئی جائے پناہ نہیں موجود ہے۔ کائناتی پیمانے
پر اشعاع کا سمندر ہے اور اس کے باہر منجمد کر دینے والی ٹھنڈ کسی بھی اس چیز کو ختم کر دے گی جو اتصال کے
لئے برقی مقناطیسیت پر انحصار کرتی ہے۔
چھوٹے پیمانے پر اشیاء بہت ہی تیز اور ناقابل پیش گو حرکت کرتی ہیں اور کسی بھی حیات جیسی منظم چیز
کو اس پیمانے پر کھڑے ہونے کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ کرۂ ارض پر حیات آسانی کے ساتھ
ان دونوں کے درمیان ہی قائم رہ سکتی ہے -
جس کو ہم بڑے سالمات کا پیمانے کہہ لیتے
ہیں۔ ان کا درجہ ستاروں سے شروع ہوتا ہے
جو کوانٹم پیمانے سے کچھ درجے اوپر (١٠٢٩ ایم ) سے کر ہمارے گھر کے درجے سے قریب
(١٠٢٥ ایم )پر ختم ہوتا ہے۔
بڑے سالمات کا پیمانہ ہی اس حیات کا اصل پیمانہ ہے جس کو ہم
جانتے ہیں۔ تمام ضروری حیاتی عمل ، اطلاعات لے جانے والے سالمے اور زیادہ تر جاندار (جرثومے ) آسانی کے ساتھ
اس پیمانے میں سما سکتے ہیں (خاکہ نمبر7.1 کو دیکھیں ) حیات کے پیمانے کا اطلاق بہت ہی موزوں طریقے سے سیارے پر بھی لاگو ہو
جاتا ہے۔ بڑے پودے اور جانداروں جن کی نشو
نما بڑے سالمات کے پیمانے پر ہوئی ہے- یہ حالیہ دور کی ہی پیش رفت ہے۔
مماثل حجم :حیات کے سالمے پانی کے سالمات (H2O)کے مقابلے میں بہت بڑے ہوتے ہیں؛ یہ بڑے سالمی پیمانے کو بیان کرتے ہیں۔ |
بڑے سالمات کے
پیمانے میں ایسی کیا خاص بات ہے ؟ قوّت
ثقل اب بھی کمزور ہے ، لیکن بڑے سالمات کی
کمیت اب نظر انداز کر دینے کے قابل نہیں ہے۔ لہٰذا قوّت ثقل کا رد عمل قابل پیمائش ہے۔ ایک اہم
بات یہ ہے کہ پانی کا محلول جس میں یہ
سالمے اور ان کی ساخت قائم رہ کر کام کرتی ہیں اس پر قوّت ثقل کا اثر ہوتا ہے۔
قوّت ثقل اس پیمانے پر ایک استحکام بخش
عامل کے طور پر کام کرتی ہے - برقی مقناطیسی قوّت کے خلاف بطور دافع کام کرکے
توازن قائم رکھتی ہے۔ سیارہ زمین اس کی ایک اچھی مثال ہے : یہ اتنا ضخیم ہے کہ
اپنی قوّت ثقل کے زیر اثر سکڑ اور بھینچ سکے۔ جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس کی
چٹانیں بہت ہی زیادہ دباؤ میں آ کر بھینچی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں آکسیجن ،
سلیکان اور لوہے کے جوہر ایک دوسرے کے
قریب آ گئے ہیں۔ ان کے درمیان موجود برقی مقناطیسی طاقت جو بطور دافع کام کر رہی
ہے اس نے قوّت ثقل کو مادّے کو بھنچ کر ایک دوسرے کے قریب کرنے کی ایک حد قائم کردی
ہے ؛ لہٰذا زمین اسی حالت میں ارب ہا سال سے پائیداری سے جمی ہوئی ہے اور آنے والے لمبے عرصے تک ایسی ہی قائم رہے گی۔
یہی توازن ہمارے سورج کو بھی ارب ہا برسوں
تک چمکنے کے لئے قائم رکھے گا۔
چھوٹی چیزیں – مثال کے طور پر ہمارے جسم - بھی اسی طرح کے دباؤ کے توازن میں ایک ساتھ
قائم ہیں لیکن یہ توازن قوّت ثقل اور برقی
مقناطیسی طاقتوں والا توازن نہیں ہے۔(ہمارے جسم میں کمیت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ
قوّت ثقل اس کو ایک ساتھ جوڑ کر رکھ سکے )۔ اس کے بجائے ہمیں زمین کی قوّت ثقل
کھینچ کر رکھتی ہے اور ساتھ ہی ہمارے اوپر ہوا کا دباؤ بھی موجود رہتا ہے - جو پندرہ پونڈ فی مربع انچ کا ہوتا ہے۔ ہوا
کو بھی قوّت ثقل نیچے کی جانب کھینچ رہی ہوتی ہے۔ جتنے چھوٹے پیمانے پر ہم جاتے
ہیں برقی مقناطیسی قوّت اسی قدر توانا ہوتی جاتی ہے اور قوّت ثقل اس پیمانے پر مقابلے سے باہر ہو
جاتی ہے۔ برقی مقناطیسی قوّت جو کیمیائی
بندھ کے ذریعہ اپنا مظاہرہ کرتی ہے ہمارے
بافتوں کی ساخت کو مضبوط بناتی ہے اور خلیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر ملا کر بڑے کثیر الخلوی اجسام بناتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز اپنے مناسب اور موزوں طاقت و جسامت کے ساتھ ایک
قاعدے میں ہے – جیسا کہ جے بی ایس
ہیلڈن (J. B. S.
Haldane) - جو ابتدائی ماہر جینیات
اور سائنس کو عام لوگوں میں پھیلانے والے تھے - ١٩٢٨ء میں اپنے ایک مضمون کو لکھتے
ہوئے اس بات سے انگشت بدنداں تھے۔ وہ اس سوال کا جواب دیتے تھے جو ہم اپنے لڑکپن
سے ہی پوچھتے ہیں: کیڑے اس طرح سے کیسے
بنے ہیں کہ وہ اپنی جسامت سے کئی گنا بلندی سے گرتے ہیں اور پھر بھی انھیں کچھ
نہیں ہوتا ؟ کچھ کیڑے پانی کی سطح پر کیسے چل لیتے ہیں جبکہ دوسرے اس میں ڈوب جاتے
ہیں ؟
ہیلڈن نے عام فہم
طور سے صحیح جواب دیا تھا۔ ایک سابقہ رفیق کار ، بل پریس(Bill Press) نے زیادہ ریاضیاتی طریقے سے اس کا جواب دیا اور انسانی جسم کے حجم کا صحیح جواب حاصل کر
لیا۔ صحیح جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں تین باتیں فرض کرنی ہوں گی:کہ انسانی جسم
(١) غیر قلمی ہئیت کے بجائے پیچیدہ سالمات جو دھاگے (کثیر سالمی مرکب ) سے بنے
ہیں، (٢) ان کو ایک ایسے ماحول کی ضرورت
ہوتی ہے جو ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے مل کر نہ بنا ہوا (٣) اور اپنے بڑے دماغ کو جسم میں رکھنے کے لئے
جتنا ممکن ہو سکے بڑی جسامت حاصل کر لے، وہ ٹھوکر کھانے اور گرنے والا تو ہو تاہم ایسا کرتے ہوئے اس کو ٹکڑے ٹکڑے نہیں ہونا چاہئے۔
اس طرح سے اس نے ایک تندرست جاندار کا صحیح حجم بتا دیا جو ٹھوس زمینی سطح پر رہ سکے۔ اس میں وہ درجہ حرارت بھی
شامل ہے جس پر انسان (اور زیادہ تر جانور )
جی سکیں - اور اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہئے کہ - وہ درجہ حرارت ان کے کیمیائی بندھوں کی توانائی کے قریب ہونا چاہئے۔
جیسا کہ بل نے اشارہ کیا ہے کہ یہ حقیقت ہی خوراک کو بنانا ممکن کر پاتی ہے۔
عظیم کائنات بلاشبہ ہمارے انسانی پیمانے پر نہیں بنی
ہے اور مسئلہ خلاء کی وسعت کا ہی نہیں ہے یہاں تو ناقابل فہم وقت کا بھی
بڑا مسئلہ اپنی جگہ بدرجہ اتم موجود ہے۔ جیسا
کہ ہم نے بیسویں صدی کی طبیعیات سے سیکھا ہے کہ زمان و مکان لاینفک
طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لہٰذا اس بات میں کوئی حیرت کی بات نہیں
ہے کسی ایسی بڑی جگہ میں چیزیں بدلنے کے
لئے بہت لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ میری کہانی کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ آپ کو ان
تمام باتوں کا احساس ہو۔ اس بات سے قطع
نظر کہ کائنات بحیثیت مجموعی انسانی پیمانے پر نہیں بنی ہے ، لیکن یہ بات ظاہری طور پر ممکن ہے کہ یہاں پر کوئی ایسی جگہ
موجود ہو جیسا کہ ہمارا اپنا سیارہ ہے اس
کو تلاش بھی کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بات کوئی
حادثاتی بات نہیں ہے جیسا کہ میں اگلے باب میں زیر بحث کروں گا۔ حیات کو سیارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آئیے
دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں