باب ششم
عظیم ارضی سیارے - کائنات کی سخت ترین چٹانیں
چٹانوں کی چھان بین کرنا ایک مزیدار کام ہے : ہتھوڑا ،
چھینی اور ایک رہنما کتاب لے کر کسی پہاڑی کی طرف روانہ ہو جائیں۔اگر آپ خوش
قسمت(اور ثابت قدم )رہے ، تو آپ کو اپنے
گھر میں غلاف کے جمع کئے مجموعہ کے لئے کافی سارے نمونے مل جائیں گے۔ آپ
کو اس قدر بوقلمونی ملے گی کہ ایسا لگے گا
کہ یہ تو ختم ہی نہیں ہوگی۔ ایک اوسط چٹان شناس تو صرف زمین کی سطح ہی کریدتا ہے۔
اگر ہم زمین کے اندر جھانک سکیں تو سوچیں کہ وہاں کیا کیا عجوبے موجود ہوں گے ؟اصل
میں اگر آپ زمین کی گہرائی میں جا سکیں تو
معدنیات کی بوقلمونی بہت ہی تیزی کے ساتھ کم ہو جائے گی صرف چند ایک ہی رہ جائیں گے اور اس میں سے ایک
پروف اسکائیٹ ہمارے سیارے کے زیادہ تر جسم
کا حصّہ ہوگا (اس کی کمیت کا40 فیصد )۔
پروف اسکائیٹ کی سیاروی کثرت کے باوجود اس کو ماہرین ارضیات نے ١٨٣٧ء میں ہی درج اور درجہ بند کیا ہے۔ اس کی
دریافت کی شروعات اس وقت ١٨٢٠ء کے عشرے میں ہوئی ، جب روس کے سیزار نیکولس اول(Czar Nicolas I) سائبیریا کی
زرخیزی کی نقشہ کشی کے مشتاق ہوئے اورایک جرمن قدرتی ماہر الیگزینڈر
وان ہمبولڈت(Alexander von
Humboldt) کو دعوت دی کے وہ اس علاقے
کی مہم کو سر کرنے کے رہنما بن جائیں۔ ہمبولڈت نے مشرق میں موسم بہار میں
اپنے ساتھ دو مدد گار لئے اور مہم شروع کردی ۔وہ
یورل پہاڑیوں اورجھیل کیسپین کی
چھان بین کرتے ہوئے وسطی ایشیاء میں الٹا ئی پہاڑیوں تک جا پہنچے جہاں روس، چین
اور منگولیا ملتے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق ہمبولڈت کو اس مہم میں کچھ خاص مزہ نہیں آیا
۔ اس کا ایک مدد گار ، گستاف روز (Gustav Rose) ماہر ارضیات تھا ۔
وہ جو معدنیات جمع کرکے لیا تھا اس میں ایک بھاری گہرا ٹکڑا بھی تھا جو اس کو سلاٹسٹ
قصبے کے قریب یورل کے علاقے سے ملا تھا ۔ اس سے پہلے وہ فہرست میں شامل
نہیں تھا ، لہٰذا روز کو اس کا نام رکھنے کا اختیار مل گیا تھا ۔ اس نے اس کا نام پروف اسکائیٹ ، روسی ماہر
ارضیات کاؤنٹ لیو ایلیزیوچ وان پروفسکی(Count Lev
Alexeevich von Perovski) کے اعزاز میں ان کے نام پر رکھا جو ماسکو میں اس مہم کی
میزبانی کر رہے تھے۔ گستاف روز کو اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ اس نے کرۂ ارض
کی سب سے وافر مقدار میں پائی
جانے والی معدن کی دریافت کی ہے!
چٹانیں ایک یا کئی معدن پر مشتمل مجموعہ ہوتی ہیں ۔ معدنیات
غیر نامیاتی ٹھوس ہوتے ہیں جن کی مخصوص کیمیائی ترکیب ہوتی ہے ۔ وہ ایک عنصر (جیسا
کہ سونے ) سے لے کر انتہائی پیچیدہ سیلیکا
تک ہو سکتے ہیں ۔ سیاروں پر سب سے زیادہ غلبہ ان معدنیات کا ہے جو آکسائڈ
ہوتی ہے - یعنی ایک یا ایک سے زیادہ آکسیجن کا جوہر سلیکان ، لوہے ، میگنیشیم، المونیم اور
اس طرح دوسرے عنصر کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر سیلیکا کو کوارٹز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جو ایک سلیکان اور دو آکسیجن کے جوہروں پر
مشتمل ہوتا ہے ۔سیلیکا معدنیات چٹانوں میں سب سے زیادہ عام پائی جاتی ہے ، ایک سلیکان کا جوہر کافی سارے آکسیجن کے
جوہروں میں گھرا ہوا ہوتا ہے ۔قلموں کی مختلف ممکنہ ساختوں کے بننے کا انحصار اس
بات پر ہوتا ہے کہ جوہر اپنے آپ کو کس طرح
سے لگا تار نمونوں میں ترتیب دیتے ہیں۔
پروف اسکائیٹ معدن جو روس میں گستاف روز نے دریافت کی تھی
وہ ٹائٹینیم اور کیلشیم کا آکسائڈ تھا ۔ ایک کافی زرخیز گروہ معدنیات کا ایسا بھی موجود ہے (جس کو پروف اسکائیٹ کا گروہ
کہا جاتا ہے ) جس میں سب کے سب ایک منفرد قلمی ساخت رکھتے ہیں، سلیکان اور
ٹائٹینیم جو آکسیجن کے چھ جوہروں سے بند
باندھ کر ایک جڑی ہوئی ہشت سطحی ساخت
بناتے ہیں ۔ اس بات کے باوجود کہ روز نے ٹائٹینیم پروف اسکائیٹ کو سب سے پہلے
دریافت کیا تھا ، زمین کے نچلے غلاف میں مقدار کے حوالے سے زیادہ تر جگہ سلیکان
پروف اسکائیٹ معدن نے ہی گھیری ہوئی ہے۔
پروف اسکائیٹ معدنیات میں زمین کی نایاب دھاتیں موجود ہیں (جیسا کہ لینتھینم ،
نیوڈیمیئم، اور نیوبیئم)۔ طبیعیات دانوں میں پروف اسکائیٹ ایک ایسے معدن کے طور پر
جانا جاتا ہے جس میں اونچے درجے پر فوقی موصلیت پہلی دفعہ ١٩٨٦ء میں الیکس
مولر (Alex Muller) اور جارج بیڈنورز
(Georg Bednorz)نے دریافت کی تھی ۔ اس بات سے صرف نظر ، زیادہ تر لوگوں نے
اس کے بارے میں کبھی سنا بھی نہیں ہوگا
اور اس کا ذکر شاذونادر ہی چٹانوں اور معدنیات کی عمومی میدانی رہنما کتابوں میں ملتا ہے ۔(ایک اور زیادہ عام
معدن جس کو انسٹاٹائیٹ کہتے ہیں ، جو پروف اسکائیٹ جیسی ہی ہوتی ہے ، وہ بھی مختلف چٹانوں میں
پائی جاتی ہے۔)مشہور ہونے کے لئے اہمیت کا حامل ہونا ضروری ہے ۔
یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ
پروف اسکائیٹ - خاص طور پر اونچے
درجہ حرارت پر اس کے برتاؤ کو جاننا - عظیم ارض
کے تجزیہ کے لئے بہت زیادہ اہم ہے۔
درحقیقت یہ ہی وہ رابطہ ہوگا جو ہمارے اور
دوسرے سیاروں کو آپس میں ایک دوسرے سے
ارضیاتی طور پر جوڑے گا ۔ ٢٠٠٤ء میں ایک اہم دریافت ہوئی ، جب زمین کے قلب میں
موجود ایک لمبے عرصہ تک رہنے والے اسرار
کو بیان کیا گیا ۔ زلزلہ شناس اور دوسرے سائنس دانوں نے دیکھا کہ ایک مہین سی پرت
غلاف کے نیچے موجود ہے ، جو صرف قلب کی سرحد سے تھوڑا سے ہی اوپر تھی ، اور اس کا
غیر متوقع اثر زلزلے کی ان موجوں پر ہوتا
ہے جو اس میں سے گزرتی ہیں ۔ اس پرت کا نام "ڈی " رکھا گیا اور یہ صرف ایک سو پچاس کلومیٹر گہری
تھی اور کسی کو بھی اس بات کا اتا پتا
نہیں تھا کہ یہ کیوں زلزلے کی موجوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔اونچے درجے پر کچھ
مختلف ملے جلے تجربات مروکامی(Murukami) اور ان کے
رفقائے کاروں نے کئے ، جبکہ نظریاتی تخمینا جات اگانوف (Oganov) اور اونو (Ono)نے کئے اور اس سبب کو پیدا کرنے والے مجرم
- یعنی اونچے درجہ حرارت پر پروف اسکائیٹ
کے برتاؤ کو پکڑ لیا ۔ اتنی گہرائی میں جہاں دباؤ فضائی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا
زیادہ ہوتا ہے - پروف اسکائیٹ کی انتہائی قریبی
بند ساخت ، بگڑ کر نینو پیمانے پر پرت کی
چادریں سی بنا دیتی ہے - ایک نئی ہئیت
جس کو دریافت کنان مابعد پروف اسکائیٹ کہتے ہیں ۔
جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا ہے کہ یہ پرت ہمارے سیارے پر بہت چھوٹی صرف ١٥٠
کلومیٹر تک ہوتی ہے - تاہم یہ عظیم ارضی سیاروں میں ان کا اہم جز ہوگی!
کوئی بھی عظیم ارض جو لگ بھگ ٢ ایم ای یا اس سے زیادہ ہوگی ، اس کے زیادہ تر غلاف کے اندر دباؤ زمینی دباؤ سے تیرہ لاکھ گنا زیادہ ہوگا ، لہٰذا
عظیم ارض چاہئے وہ چٹانی ہوں یا
سمندری وہ مابعد پروف اسکائیٹ
سیارے ہی ہوں گے۔
آپ نے شاید اس غیر اہم نئے معدن کے نام پر توجہ دی ہوگی ۔
یہاں پر اس کو کوئی نام نہیں دیا جا رہا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ زمین کی سطح پر موجود چٹانوں میں نہیں پایا جا
سکتا ، لہٰذا ابھی تک کسی نے بھی اس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیا اور ناہی لے سکے گا
۔(اس کی بظاہر وجہ معدنیات کو نام دینے کے لئے قرون وسطیٰ کے ارضیاتی سوسائٹیوں کے
اصول ہیں۔) ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ مابعد پروف اسکائیٹ کی ساخت اس کو ایک توانائی
سے بھرے ہوئے اسپرنگ کی طرح بنا دیتی ہے ؛ اگر ایصال حرارت کے نتیجے میں وہ سطح کے
قریب آئے گا تو وہ اپنی پروف اسکائیٹ کی
شکل میں واپس آ جائے گا ۔
مابعد پروف اسکائیٹ کی دریافت بالکل صحیح وقت پر ہوئی تھی
کیونکہ اس کی وساطت سے ہی آنے والے دور میں عظیم ارض کا تجزیہ کیا جا سکتا تھا ،
مگر ہم نے اپنے اس کام کو شاید ابھی تک ختم نہیں کیا ۔ مسئلہ یہ ہے کہ سب سے ضخیم
عظیم ارض کے غلاف میں دباؤ، فضائی دباؤ سے
ایک کروڑ گنا زیادہ ہوتا ہے ، یہ
دباؤ اس سے کہیں زیادہ ہے جو پروف اسکائیٹ کو مابعد پروف اسکائیٹ میں تبدیل کر دے ۔
یہ بھی ممکن ہے کہ معدنیات کے دوسرے مرحلے بھی اس کے اندر موجود ہوں - ہو سکتا ہے کہ مابعد مابعد پروف اسکائیٹ
مرحلہ بھی موجود ہو ؟
نظریہ اور تجربات دونوں پہلے ہی اس بات کا اشارہ دے چکے ہیں کہ مابعد پروف اسکائیٹ کا مقدر اونچے درجہ حرارت پر کیسا ہوگا۔ اونچے درجہ
حرارت پر اہم کردار آکسیجن کے جوہر کا ہوگا۔ دو قلمی ترتیب حاصل کرنے کے بعد ، جس
کو سنگوانا یا باندھنا (Packing) کہتے ہیں ،پٹی کی مزید
تنگی آکسیجن کے جوہروں کو دوبارہ خود سے
از سرنو ترتیب دے دیتی ہے ۔ یہ اثردار بندھائی
ایک اور ممکنہ قلمی ساخت بناتی
ہوئی لگتی ہے - ایک ١٢ نقطے کی ہئیت۔
گیڈولینم گیلیئم یاقوت |
اس کا سراغ ایک غیر
معروف قلم کے تجزیہ سے حاصل ہوا ہے جس کو گیڈولینم
گیلیئم یاقوت (Gadolinium Gallium
Garnet) - یا جی جی جی کہتے ہیں ۔ جی جی
جی اونچے دباؤ پر ایک شفاف اور بہت ہی سخت
قسم کا عنصر بن جاتا ہے - وہ سائنس دان جو ہائیڈروجن کو لاکھوں گنا فضائی دباؤ پر دبانے کی کوشش میں
لگے ہوئے ہیں تاکہ تھرمو نیوکلیائی
توانائی کو تجارتی پیمانے پر قابل عمل بنا
سکیں ان کے لئے یہ اپنی اس خاصیت کی بدولت
کافی کام کا ہے ۔ ہائیڈروجن کو طاقتور
لیزر کی مدد سے دبایا جاتا ہے ، تاہم
یہ بہت تیزی سے دب کر جلد ہی واپس اپنی پرانی حالت پر آ جاتی ہے ۔اس طرح سے اس حالت کو
دیکھنے کے لئے وقت کا انتہائی مختصر لمحہ ملتا ہے۔ اونچے دباؤ پر یہ اتنی جلدی
واپس اپنی حالت پر نہیں پلٹتی ۔ ٢٠٠٥ء میں جاپان اور امریکہ کے سائنس دانوں نے
طاقتور لیزر ضربوں کے استعمال سے جی جی جی کو بارہ لاکھ گنا زیادہ فضائی دباؤ پر
بھینچا، خلاف توقع وہ قلم ایک ایسے حالت
میں بگڑ گئی جو ہیرے سے بھی زیادہ سخت تھی (کم دبنے والی )۔ یہ
ایک عالمی ریکارڈ تھا ۔ لہذا جی جی جی ایک
بہتر مادّے کے طور پر نمودار ہوئی جس کو اونچے درجہ حرارت کے تجربوں میں ہائیڈروجن
پر استعمال کیا جا سکتا تھا اس طرح سے اس نے نیلم اور ہیرے کی جگہ لے لی
جو اس وقت تک تجزیہ کے لئے انتہائی کم وقت مہیا کرتے تھے ۔
جی جی جی تجربے نے اس بات کو ثابت کیا کہ آکسیجن کے جوہروں
کی زیادہ کثیف بندھائی مابعد پروف اسکائیٹ مادوں میں ممکن ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ یہ
وہ آخری بگاڑ ہو جس کی ہمیں عظیم ارض کے اندرون کو جاننے کے لئے ضرورت ہو ۔خوش
قسمتی سے ہم تجربہ گاہ میں تجربے کر سکتے ہیں
، اگرچہ وہ مہنگے تو ہوتے ہیں ، لہٰذا اس راز سے پردہ اٹھنے میں اب کچھ
زیادہ دیر ہمیں انتظار کرنا نہیں پڑے گا ۔ اسی دوران ہمیں یہ بھی معلوم ہو چکا ہے
کہ عظیم ارض کائنات میں معلوم سخت ترین مادّے سے بنے ہوئے ہیں :مابعد پروف اسکائیٹ نے چٹانی ، پانی ، اور ہیرے والے کمیاب کاربنی سیارے کو بنایا ہوگا ۔ حقیقت میں یہ بات عظیم ارض کی
تحقیق کی خوبصورتی بیان کرتی ہے جو نئے
ثمر آور اجنبی مادّوں کو جدولوں اور تجربہ گاہ میں لے کر آئے ہیں ۔ گرم پانی کی
برف VII ، X ، اور XI ہمارے جہاں کے لئے اور
کائنات کے لئے اتنی ہی غیر معمولی ہیں جتنی کہ مابعد پروف اسکائیٹ اور جی جی جی ۔
دباؤ میں پانی کی ٹھوس حالت اور زیادہ دبی
ہوئی مکعبی قلمی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ برف VII قلمی چٹانی نمک جیسی ہی ہوتی
ہے کیونکہ وہ اسی طرح سے بنتی ہے اور اتنی
ہی اوسط کثافت بھی ہوتی ہے ۔ کیا کیا حیرت کدے موجود ہیں!
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں