حصّہ دوم
- منزل
چوتھا
باب
گیسی اور
برفیلے دیو
خاکہ 4.1
زحل کے حلقوں کے بالائی حصّہ پر ، ایک تیرتا ہوا تفریحی جہاز حلقے بی کے باہری کونے پر موجود شیوران
(انگریزی حرف V کی شکل جیسی ساخت) پر نگاہ جمائے ہوئے ہے۔ یہاں پر ننھے چاند کی
وجہ سے ہونے والی ثقلی اتھل پتھل مادّے کی
2.5کلومیٹر اونچی لہر کو پیدا کر رہی ہے۔ پس منظر
میں (بائیں سے دائیں)میماس ،ٹیتھس اور انسیلیڈس
ہیں جبکہ حلقے کے بائیں طرف وسط میں چھوٹا حلقے میں پیوست چاند موجود ہے۔
فرانسیسی
تاثر پسند مصّور پئیری آگسٹی رینوئر کھلی فضا میں تصویر بنانا پسند کرتا تھا۔ اس تجربے میں اس کو اپنے
کینوس پر تازگی اور وجدان ملتا تھا ۔ وہ
چاہئے جتنی مرتبہ بھی گیورنی کے باغ یا
فونٹین بلیو کے جنگلات میں تصویر بناتا ، ہر مرتبہ قدرت اسے متحیر کر دیتی تھی۔ اپنے روزنامچے
میں اس نے تبصرہ کیا، "آپ قدرت کے پاس اپنے نظریات لے کر آتے ہیں اور وہ ان تمام کو چت کر دیتی ہے۔" شاید وہ سیاروی سائنس کے بارے میں بات کر رہا ہوگا ۔
خلائی
دور کی آمد کے ساتھ ہی کئی نظریات چت ہو گئے۔ اس سے پہلے مشاہدہ کرنے والے عظیم
فاصلوں پر انتہائی کم روشنی کے اندر بیرونی نظام شمسی کو کھوجنے کی جدو جہد میں مصروف عمل رہتے تھے۔ یہاں تک کہ ١٩٦٠ء کی
دہائی تک بھی دوربینیں پراسرار دیوہیکل سیاروں کے بارے میں
کچھ زیادہ نہیں بتاتی تھیں۔ ماہرین فلکیات مشتری کے عظیم سرخ دھبے اور تقابلی دھبوں کے بارے میں صدیوں سے جانتے تھے۔ ایک شوقین شاہد اسکاٹ لینڈ کے رہائشی "ولیم تھامسن ہائے " نے زحل پر عظیم سفید دھبے کو دریافت کرلیا تھا، یہ
اس بات کی جانب اشارہ تھا کہ سنہری سیارہ بھی مشتری جیسے موسم رکھتا ہے۔ یورینس
اور نیپچون کافی ضدی ثابت ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے کسی بھی قسم کے رازوں کو آشکار کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جیسا کہ
پیٹرک مور نے ١٩٦١ء میں ' تازہ علم کے خلاصے' میں لکھا:
دو بیرونی دیوہیکل کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم
نہیں ہے، یورینس اور نیپچون دونوں ایک دوسرے کے جڑواں لگتے ہیں۔ وہ بعینہ مشتری
اور زحل کے نمونے پر بنے ہوئے لگتے ہیں ، لیکن سطح کی تفصیلات حاصل کرنا کافی مشکل
ہیں کیونکہ وہ کافی زیادہ دور ہیں۔۔۔ دونوں بیرونی سیاروں کے سیارچے ہیں۔ یورینس
کے پانچ جبکہ نیپچون کے دو ہیں۔ ان میں سے ایک نیپچون کا مصاحب (ٹرائیٹن) تین ہزار
میل سے بھی زیادہ رقبے پر مشتمل ہے، دوسرا (نریڈ ) ایک بونا ہے، اور اس کا مدار
اتنا بیضوی ہے کہ اس کا نیپچون سے فاصلہ
دس سے ساٹھ لاکھ میل کے درمیان رہتا ہے ۔ [1]
سیکھنے
کی کافی چیزیں وہاں موجود ہیں، لیکن ایک
چیز شروع میں ہی واضح تھی۔ ایسا لگتا ہے
کہ گیسی دنیا کے کرہ فضائی زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم پر مشتمل ہیں۔ ہرچند کہ
سائنس دان گیسی اور برفیلے دیو ہیکلوں پر نہیں جا سکتے لیکن وہ ان کے بارے میں کچھ چیزیں تجربہ گاہ میں معلوم کر سکتے ہیں۔ اسٹینلے ملرکے رہنما کام نے دیوہیکل سیاروں کے کرہ فضائی میں اس قسم کے
نامیاتی مادّوں اور پیچیدہ ہائیڈرو کاربن کو سمجھنے میں مدد دی ہے جو حیات کے
بنیادی جز ہیں ۔[2]
١٩٥٣ء
میں ملر اور اس کی شکاگو یونیورسٹی سے
تعلق رکھنے والے پروفیسر ہیرالڈ یوری [3]
نے بھاپ کو ہائیڈروجن، میتھین اور امونیا کے امتزاج میں داخل کیا۔ انہوں نے قدیمی
گارے پر برق کو خارج کیا، نتیجے میں گہرے
نامیاتی مادّہ کی بارش حاصل ہوئی۔ اس مادّہ
نے بھورے رنگ کی کیچڑ کو بنایا یہ مادّہ ملر کو اپنی تجربہ گاہ کے نیچے تجرباتی جار میں
ملا اور اس کو تھولین کہا گیا۔ امیدیں اس وقت جاگ اٹھائیں جب لائف جریدے کے
مصنف نے ١٩٦٦ء میں اپنی کتاب سیاروں میں لکھا:[4]
حیات کی شکل کو سہارا دینے سے معذور: سب کی یہ متفقہ رائے ماضی میں ان
چار دور دراز سیاروں - زحل، نیپچون، یورینس
اور پلوٹو کے بارے میں تھی۔۔۔ لیکن اس رائے پر اب
معقول حد شبہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ
حقیقت کہ زحل، یورینس اور نیپچون کے کرۂ فضائی
موجود ہیں جو حیات ماقبل جیسے
حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔۔۔ حالیہ
دریافتوں سے معلوم ہوا ہے کہ (ان کے کرۂ فضائی ) کیمیائی طور پر ان تعاملات کے لئے
موزوں ہیں جو حیات کی شروعات کے لئے ضروری ہیں۔ مزید براں کہ ماضی میں ان دور کے سیاروں کے درجہ حرارت کو منفی ٢٧٠ اور اس سے کم ایک
جیسا ہی سمجھا جاتا رہا تھا لیکن ایسا
نہیں تھا۔ سورج کی حرارت سیاروں کی اندرونی حرارت سے مل کر ہمیشہ کے لئے ان کے کرہ
فضائی کے خول میں پھنس جاتی ہے۔
ماہر
فلکیات کارل ساگاں اور ماحولیاتی سائنس
دان مثلاً جوناتھن لونائن اس تصور کے
دلدادہ تھے کہ دیوہیکل سیاروں کی ہی طرح، زحل کا بڑا چاند ٹائٹن بھی تھولین کو سورج کی روشنی کے ساتھ میتھین کے تعامل سے پیدا کر سکتا ہے، تجربہ کار سیاروی سائنس
دان بین کلارک اضافہ کرتے ہیں، "تجربہ
گاہ میں وہ ٹائٹن پر موجود ماحول کو ان
گیسوں کی مدد سے بنانے کی کوشش کرتے ہیں
جو ان کے خیال میں وہاں موجود ہیں اور پھر
دیکھتے ہیں کہ وہاں کس قسم کے ذرّات موجود ہیں۔ اس طرح یہ تھولین کو ایسے ہی پیدا
کرتا ہے جیسے کارل ساگاں اور اسٹین ملر نے کیا تھا۔ اس کے ساتھ کام کرنا تھوڑا
خطرناک ہے۔ یہ سرطان پیدا کرنے والا ہے کیونکہ
اس میں تمام عجیب و غریب کیمیائی مادوں
کو ملایا جاتا ہے۔" ہم اب یہ
جانتے ہیں کہ یہ عمل بیرونی نظام شمسی کے بالائی کرہ فضائی میں عام ہے، اور تمام گیسی اور برفیلے دیوہیکل سیاروں میں
جاری ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حیات کی کیمیائی بنیادیں مشتری، زحل، یورینس، نیپچون اور ٹائٹن کے تمام
بادلوں میں بکھری ہوئی ہیں۔[5]
خاکہ 4.2 ملر یوری تجربے میں استعمال ہونے والا آلہ
|
جدید
نقطہ نظر
جدید
خلائی کھوجی اور دور سے مشاہدہ کرنے کے
طریقوں میں جدت کی بدولت ہم سے بیرونی
سیاروں کا تعارف بادلوں اور کہر کے جہاں
کے طور پر ہوا، ایسی دنیائیں جہاں چنگھاڑتی ہوائیں چلتی ہیں اور کرچی کرچی کر دینے والی آندھی و طوفان ہزاروں میل پر محیط ہوتے ہیں۔ زمین کے حجم جتنے طوفان وہاں پر برسوں یا عشروں سے
دھاڑتے، ایک دوسرے میں ضم ہوتے، رنگ بدلتے
رنگین کہر میں چھپ جاتے ہیں۔ گیسی جہانوں میں کرۂ فضائی ہائیڈروجن، ہیلیئم اور امونیا
سے مل کر بنا ہے، جبکہ نیلے برفیلے
دیو کے موسموں میں میتھین کا غلبہ ہے۔ زمین پر ہم امونیا سے اپنے غسل خانے صاف کرتے ہیں اور میتھین سے اپنے
چولھے جلاتے ہیں۔ لیکن گیسی اور برفیلے جہاں سن کر دینے والی سردی کے ساتھ موجود
ہیں جہاں میتھین بارش کی صورت میں برستی ہے
اور امونیا کی برف باری زہریلے بادلوں کے ذریعہ ہوتی ہے ۔
بیرونی
جہانوں میں بارش کو نیچے گرنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہیں ہے۔ ارضی سیاروں کے برعکس
ان کی سطح برف اور چٹان کے بجائے گیسوں اور بادلوں کی ہے۔ تمام گیسی اور برفیلے
جہانوں میں ٹھوس اور مائع کے درمیان کوئی
سرحد نہیں ہے، ان دیوہیکل سیاروں پر کھڑے ہونے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ گیسی
دیوہیکل سیاروں کے قلب زمین سے زیادہ کثیف ہیں، لیکن جب ان کے قلب مرکز سے آگے
بڑھنا شروع ہوتے ہیں تو ماحول چٹانی اور
دھاتی ٹھوس سے بدل کر مائع دھاتی ہائیڈروجن کے سمندر میں بدل جاتا ہے، اور اس کے
بعد گیس میں۔ یورینس اور نیپچون میں قلب
کا دباؤ اتنا نہیں ہے کہ ہائیڈروجن کو مائع
دھات میں بدل سکے۔
ہمارے گھر
کا کوئی بھی پڑوسی ارضی سیارہ گیسی
دیو کے حجم کے آگے بونا لگے گا۔ اصل میں
ہمارا نظام شمسی سورج، مشتری اور کچھ
حادثاتی ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ مشتری خود تمام دوسرے سیاروں اور تمام مہتابوں کی کمیت
کو ملانے کے بعد بھی ان سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ زمین جیسے ١٣٠٠ سیارے اس کے اندر سما
سکتے ہیں۔ زحل بھی چھوٹا نہیں ہے۔ اس کے حلقے کے نظام زمین اور چاند کے فاصلے کا دو تہائی حصّے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یورینس
اور نیپچون دونوں حجم میں لگ بھگ جڑواں ہیں۔ دونوں کے پاس ٦٠ زمینوں جیسی مادّے کی مقدار موجود ہے۔ یورینس کا موسم اتنا لطیف
نہیں ہے جتنا کہ پہلے سمجھا جاتا تھا اور
اس کا موسم نیپچون کو ایک طرح سے مشین کی طرح جوڑتا ہے، یہاں میتھین کے ایسے باد
باراں کی آندھی اور طوفان پیدا ہوتے ہیں جن کا حجم کسی بھی ارضی سیارے جتنا ہوتا
ہے۔
تمام
دیوہیکل سیارے تیزی سے گھومتے ہیں۔ مشتری کا ایک دن ٩ گھنٹے اور ٥٥ منٹ کا ہوتا
ہے۔ زحل ایک چکر ١٠ گھنٹے ٣٠ منٹ میں پورا کر لیتا ہے۔ کیونکہ یہ سیارہ مشتری سے
کہیں زیادہ کم کثیف ہے لہٰذا اس کا گھماؤ اس کے قطبین کو کافی چپٹا کر دیتا ہے۔
یورینس اور نیپچون ١٢ گھنٹے ١٥ منٹ اور ١٦ گھنٹے میں بالترتیب اپنا ایک چکر مکمل
کرتے ہیں۔
مشتری،
زحل اور یورینس کے ماحول میں تغیر ہے، ان کے کرہ فضائی میں زیادہ تر
غلبہ قدیمی نظام شمسی کو بنانے والی گیسوں یعنی کہ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کا ہے ۔
ہیلیئم اور ہائیڈروجن میں آپس کی نسبت دونوں مشتری اور زحل میں سورج کی ترکیب جیسی ہی ہے۔ یورینس اور نیپچون کا
ارتقاء تھوڑا سا ہٹ کر مختلف گیسوں سے ہوا ہے
یہاں میتھین کی فراوانی کافی ہے۔ بیرونی نیلے جہانوں کی ہوا
میں کم از کم ١٥ % ہیلیئم موجود ہے
لیکن کسی چیز نے مشتری اور زحل کی بالائی
فضا سے ہیلیئم کو نکال دیا ہے۔ ہو سکتا
ہے کہ گیسی دیو کے کرہ فضائی میں موجود
ہیلیئم قلب کے قریب کثیف مائع دھاتی ہائیڈروجن کے "سمندر" میں غرق ہو
گئی ہو۔
چاروں کی
چوکڑی میں ، دیوہیکل سیارے اسی طرح کے ایک جیسے میلان رکھتے ہیں جیسا کہ بنیادی
فرق۔ چاروں جہانوں میں خط استوا کے متوازی بادلوں کی پٹیاں موجود ہیں۔ بادلوں کے پٹیوں
پر ناقابل تصوّر تیز ہوائیں تھپیڑے مارتی ہیں، لیکن یہ ارض بلدی حصّوں میں مستحکم
رہتی ہیں۔ زمین پر براعظم ہوا کی رو کو
پھیرتے ہیں، جبکہ طوفان ہمہ وقت بادلوں کی پٹیوں کو توڑتے رہتے ہیں۔ ارضیاتی طوفان آتے ہیں اور
جاتے ہیں عام طور پر ایک ہی دن کے ہوتے
ہیں یا طوفان باد باراں اور مون سون کی طرح ہفتے بھر تک رہتے ہیں۔ لیکن
گیسی دیوہیکل سیاروں کے دیوہیکل طوفان عشروں یا پھر صدیوں تک چلتے رہ سکتے ہیں
۔ماہرین فلکیات مشتری کے عظیم سرخ دھبے کو لگ بھگ چار سو برس سے دیکھ رہے ہیں۔
شروع میں انہیں لگا کہ یہ شاید زبردست آتش فشاں ہے، لیکن ان کو بالآخر یہ حقیقت
معلوم ہو گئی کہ دیوہیکل جہاں
عظیم الجثہ طوفان پیدا کر سکتے ہیں ۔ مشتری کے اس سرخی مائل طوفان میں دو
زمینیں سما جانے کے بعد بھی کافی جگہ بچ
جائے گی۔
بادلوں کی
پٹیاں گیسی دیو مشتری اور زحل پر زیادہ
واضح ہوتے ہیں، جہاں سورج زیادہ تر خط استوا پر چمکتا ہے ۔ سورج سے فاصلے کے
باوجود ، نیپچون کے بادلوں کے پٹیاں بھی اچھی طرح سے واضح ہیں۔ یہاں تک کہ یورینس
جس کا محور اس طرح سے جھکا ہوا ہے کہ
سیارہ اپنی اطراف میں ایک طرح سے سورج کے گرد لپٹتا ساہے ، اس کی بھی
بادلوں کی لطیف پٹیاں ہیں۔ کافی سیاروی ماہرین موسمیات کے اندازوں کے مطابق سورج
سے دور سیاروں پر موسم مقابلے میں پرسکون
ہونا چاہئے تھا۔ ہوا کو حرکت دینے کے لئے وہاں پر حرارت کم ہوگی، ماہرین کے اندازے
کے مطابق زحل کی ہوائیں مشتری سے ہلکی ہوں گی، اور یورینس اور نیپچون اسی رجحان کے ساتھ پرسکون آسمان والے ہوں گے۔ لیکن
فاصلہ سکون نہیں لاتا۔ کالٹک کے اینڈی انجرسول ، جو دنیا کے صف اوّل کے ماہر
اوروائیجر کے سیاروی ماحولیات کی تحقیق کے
اعلیٰ تفتیش کار ہیں، کہتے ہیں۔ "ہمیں یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جب آپ
سورج سے دور نظام شمسی میں جاتے ہیں تو ہوائیں کم نہیں ہوتیں۔ یہ کافی اہم کھوج
ہے۔ یہ ہمیں تب معلوم ہوا جب وائیجر
یورینس اور نیپچون کی جانب گیا۔" سب سے زیادہ ڈرامائی میلان نیپچون میں تھا، کیونکہ فاصلے پر موجود سیارے
کو صرف مشتری کے مقابلے میں ٥ فیصد سورج
کی توانائی ملتی ہے۔ حقیقت میں تمام بیرونی دیوہیکل سیاروں کی ہوائیں زمین
سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ "ایسا کیوں ہے کہ بیرونی نظام شمسی میں ہوائیں
زیادہ طاقتور ہیں؟"انجرسول پوچھتے ہیں۔ "دیوہیکل سیاروں کے درمیان بھی
آیا یہ ہوائیں نیپچون میں مشتری سے زیادہ طاقتور کیوں
ہیں؟"
شرقاً
غرباً ہوائیں بیرونی سیاروں کے بادلوں کوگہری پٹیوں اور ہلکے علاقوں کے نمونوں
میں الگ کرتی ہیں۔ زمین پر بھی کچھ اس سے
ملتا جلتا دونوں نصف کروں میں موجود ہے۔ باد مراد (ان ہواوٴں میں سے ایک جو بحرِ
اوقیانوس اور بحرُ الکاہل میں خَطِ استوا کی طرف چلتی رہتی ہے) مغربی ہواؤں کی رو
کو خط استوا کے قریب ارض بلد پر حرکت دیتی ہیں جبکہ بھاپ کی دھاریں شرقاً بہاؤ کے
ساتھ درمیانی ارض بلد پر تیرتی ہیں۔ نیپچون کی پٹیاں بھی اسی طرح دو اہم بہاؤ کے
ساتھ ہر نصف کرہ میں چلتی ہیں۔ وائیجر نے یورینس کے صرف ایک ہی نصف کرہ کو دیکھا لیکن زمینی مرکز
سے حاصل کردہ اعداد و شمار اس بات کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ اسی طرح کی پٹیاں
پورے سیارے پر موجود ہیں۔ مشتری کے پاس پانچ یا چھ ایسی پٹیاں ہیں اور ہر نصف کرہ
میں ایک جیسے ہی تعداد میں علاقے موجود ہیں۔ علاقوں میں ایسا لگتا ہے کہ ہوا کی
کمیت سکڑ رہی ہوتی ہے، جب کہ پٹیوں میں اٹھتی ہوئی ہوا موجود ہے۔ زحل کی پٹیاں
دیکھنا مشکل ہے، جو سنہرے کہر کے نیچے
گھات لگائے بیٹھی ہیں ، لیکن حلقے والے دیو ہیکل کے پاس بھی اسی تعداد میں پٹیاں
موجود ہیں لیکن ان میں چلنی والی ہوائیں مشتری میں پائی جانے والی ہواؤں سے کافی تیز رفتار ہیں ۔
مشاہدات
اور کمپیوٹر کے نمونے اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ہر گیسی دیو کے بادلوں میں
تین پرتیں موجود ہیں۔ مشتری اور زحل میں
سب سے اوپر امونیا موجود ہے۔ اس کے نیچے بھوری برف کی قلموں کا ملغوبہ اور
ہائیڈروجن سلفائڈ ہے۔ اس کے نیچے درمیان
میں پانی کی برف کا کہر یا گہرائی میں
پانی کے بخارات ہیں۔ نیپچون اور یورینس کے
بادل بھی اسی طرح سے ترتیب میں لگتے ہیں، لیکن ان کا سرد درجہ حرارت بلند امونیا کے بادلوں کو نہیں بننے دیتا۔ اس
کے بجائے میتھین کے سفید بادل گہری نیلی پرت کے اوپر تیرتے ہیں۔ نیچے والی بادلوں کی تہ بھی میتھین کی ہو سکتی
ہے۔ اس سے کافی نیچے، پانی کے بادلوں میں امونیا موجود ہو سکتی ہے لیکن اگر ایسا ہے، تو وہ درمیانی تہ کے نیچے چھپی
ہوئی ہے۔
بیرونی
سیاروں کے آسمانوں کے اندر ثمر آور اور
پیچیدہ کیمیائی کی نمو کرنے والے بے تحاشہ
تعاملات بشمول اٹھتی ہوئی اندرونی حرارت کی رو، بادلوں کی تشکیل ( عمل تکثیف)
اور ضیا افتراقی (وہ عمل جس میں سورج کی روشنی گیس کے سالمات کو
توڑتی ہے) کی افزائش ہو رہی ہے۔ سیاروی پیمانے کے کیمیائی تجربات کے نتیجے میں،
مشتری اور زحل کے بادل گہرے نارنجی، گندمی، بھورے اور نیلے رنگ کے ہو گئے ہیں۔ مزید آگے جائیں تو میتھین
نے یورینس اور نیپچون کو روشنی کے طیف کے
نیلے حصّے کی جانب جھکا کر ہلکا رنگ دے دیا ہے۔ نیپچون کی صاف ہوا نے مرغابی
کی صورت کے بادل کا عرشہ سا بنا دیا ہے،
جبکہ ہائیڈرو کاربن کہر نے یورینس کو ایک ہلکے نیلے ہرے رنگ کا کر دیا ہے۔
ایک خاصیت جو گیس اور برف کے دیو میں مشترک ہے وہ یہ کہ ان
میں سے ہر ایک کے گرد حلقے موجود ہیں۔ زحل کے شاندار نظام سے لے کر نیپچون کے غیر مکمل
کمان جیسے حلقے تک حلقے حجم ، تکمیل روشنی اور پیمانے میں ایک دوسرے سے
مختلف ہیں۔ حلقوں میں موجود اختلاف کی ایک
وجہ عمر بھی ہو سکتی ہے۔ زحل کا وسیع و عریض حلقوں کا نظام شاید حال ہی میں بنا
ہے۔ حلقوں کے نظام کی پیدائش گرما گرم بحثوں کا موضوع رہا ہے۔ کیا حلقے کسی چاند
کے تباہ ہونے سے وجود میں آئے ہیں؟ کیا کوئی آوارہ گرد ملبے کا ڈھیر سیارچہ سیارے سے کافی قریب تو
نہیں ہو گیا تھا اور پھر ہو سکتا ہے کہ سیارے کی قوّت ثقل کی وجہ
سے بکھر گیا ہو؟ کیا حلقے ان مہتابوں کی باقیات ہیں جو "بن کھلے مرجھا گئے" کے مصداق مکمل مہتاب بننے سے پہلے ہی بکھر گئے؟
جہانوں
کا بادشاہ
عشروں پر
محیط خلائی کھوج اور صدیوں کے مشاہدات نے تفتیش کاروں کو اس قابل کر دیا کہ وہ
مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر مشتری کے آسمان کا واضح خاکہ بنا سکیں۔ کرۂ قائمہ ،آسمان کا
وہ حصّہ جو زیادہ تر موسم سے بس اوپر ہی ہوتا ہے، میں ہوا صاف ہے۔ یہ ہائیڈرو
کاربن کہر کے زہر سے کَس کر بھری ہوئی
ہے، یہ سورج کی روشنی کو برقی مقناطیسی انتشار کی وجہ سے بعینہ ویسے
ہی نیلے طیف کی طرف منتشر کرتی ہے جیسے زمین کے آسمان میں ہوا کرتی ہے۔
اس تہ کے بالکل ہی نیچے نازک سفید امونیا کے برفیلے قلموں کے لچھے تیر رہے
ہیں۔ پیونددار بادلوں کا عرشہ اوپر کی
جانب سفر کرتا ہے اور اوپر کرۂ قائمہ اور کرۂ متغیرہ کے درمیان سرحد میں چپٹا ہو جاتا ہے ۔ نیچے
درجہ حرارت بڑھتا ہوا گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ روشن امونیا کے بادلوں کے اوپر،
زمین پر سطح سمندر پر موجود دباؤ0.1 بار
کے دسویں حصّے جتنا دباؤ موجود
ہوتا ہے اور درجہ حرارت منفی 152 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ امونیا کی برف باری
بادلوں سے نیچے کی جانب ہوتی ہے۔
اگلے
مرحلے پر، زرخیز زردی مائل بھورا عرشہ روئی کے جھالر کی طرح پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے
مشتری کی گہری پٹیاں بنی ہیں۔ امونیا
ہائیڈرو سلفائڈ کے بادلوں کی اس تہ کے نیچے ، امونیا کے عرشے کے ٨٠ کلومیٹر نیچے،
شاید زرخیز معدنی عناصر کو کافی ساری قوّتیں پیدا کر رہی ہیں: حرارت اور تابکاری
جو مشتری کے اندر سے نکل رہی ہے، جبکہ امینو ایسڈ کے پیچیدہ سلسلے بادلوں میں طاقتور آسمانی بجلی سے بھی پک رہے
ہیں۔ زمین کے آسمان کے مقابلے میں یہاں آسمانی بجلی شاذونادر ہی چمکتی ہے، لیکن
برجیسی بجلی کی کڑک میں اتنی توانائی ہوتی
ہے کہ ایک چھوٹے سے قصبے کو کئی دن تک روشن رکھ سکتی ہے۔
زمین کے
براعظم جتنے حجم کے بیضوی شکل کے طوفان
اپنے ارد گرد موجود بادلوں کی پٹیوں کو چبا جاتے ہیں۔ پر دار کہر کا
سلسلہ طاقتور چشمے کی دھاروں کے ساتھ
سیکڑوں میل دور تک چلا جاتا ہے۔ داغ دار
رنگوں کے ایک دوسرے کے گرد ناچ لگاتار رنگ ، حرکت، اور بدلتی شکل کے کھیل میں ملتے
اور الگ ہو جاتے ہیں۔ ہلکے سرمئی مائل
نیلے بادل امونیم ہائیڈرو سلفائڈ کے گلابی
بادلوں میں ادھر ادھر ٹوٹتے رہتے ہیں اور
نیچے سے پانی کے بادل ابلتے ہیں۔ پانی کے بادلوں کا عرشہ سب سے نیچے ہے ،یہ لگ بھگ بلند امونیا کی بیل سے ١٠٠ میل نیچے
تیرتا ہے۔ یہاں درجہ حرارت پانی کے نقطہ
پگھلاؤ سے بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے پانی کے بخارات بادلوں
میں بدل جاتے ہیں۔ اس بادل کی تہ کے اندر کچل دینے والے دباؤ کے ساتھ ازلی
رات اور جھلسا دینے والا درجہ حرارت موجود
ہے، ہوا جو زیادہ تر ہائیڈروجن پر مشتمل ہے اس دباؤ پر دب کر مائع بن جاتی ہے
اور پھر انتہائی عجیب برقی موصل دھاتی مائع کا سا برتاؤ کرتی ہے۔
مشتری کی
پٹیاں اور علاقے ہو سکتا ہے کہ کھال سے
تھوڑی زیادہ موٹی ہوں۔ کرۂ فضائی مائع کا سا برتاؤ کرتا ہے۔ گھومتے ہوئے کرہ میں مائع
گھماؤ کے محور کے ساتھ قطار میں مل جاتا
ہے۔ تمام دیو ہیکل سیاروں کا اندرون ممکنہ طور پر قرص کی قطار کے سلسلوں سے ترتیب دیا ہوا ہے ، جس میں سے ہر قرص اپنی
رفتار سے گھوم رہی ہے۔ سادہ طور پر خطے گھومتے ہوئے سلنڈروں کا سطحی اثر ہو سکتے ہیں۔
مشتری کے گرد باریک دھوئیں کی طرح گرد کے حلقے
موجود ہیں۔ یہ حلقے اس قدر پتلے ہیں کہ ان کا سراغ اس وقت تک نہیں لگایا جا سکا جب
تک وائیجر خلائی جہاز نے مشتری کی طرف
اڑنے کے بعد ان کو نہیں دیکھا ، اس کو
چمکتے ہوئے حلقے پیچھے سے نظر آئے۔
مستقبل
کے کھوجیوں کے لئے مشتری جاتے ہوئے جس سب
سے بڑے مسئلے سے نمٹنا ہوگا وہ اس کی زبردست قوّت ثقل کے میدان اور مہلک تابکاری ہیں۔ اس کے پگھلے ہوئے قلب کا
حجم کسی ارضی سیارے جتنا ہے، اور یہ خلاء میں کروڑوں میل دور تک کا مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے۔ اس کے
طاقتور مقناطیسی میدان کس قدر مہلک ہیں اس بات کا اندازہ پائینیر اور وائیجر کو بھیجنے سے پہلے (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب) ہی
ماہرین فلکیات کو ہو گیا تھا انہوں نے وہاں کچھ وہاں عجیب و غریب سلسلہ جاری دیکھا تھا ۔
طاقتور ریڈیائی شعاعیں برجیسی کرہ فضائی سے
مشتری کے گھماؤ کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر نکل رہی تھیں، جبکہ کچھ دوسری مشتری کے چاند آئی او کے مداروی حرکت کا پیچھا
کر رہی تھیں۔ یہ تمام سرگرمیاں زمینی
لوگوں کے لئے کافی پراسرار تھیں۔ خلائی جہاز پر فوراً ناپنے والے آلات کی بدولت ہمیں معلوم ہوا کہ مشتری کے مقناطیسی میدان زمین کے مقناطیسی
میدانوں کے مقابلے میں بیس ہزار گنا زیادہ طاقتور ہیں۔ الیکٹران اور دوسرے مہلک
ذرّات مشتری کے گرد بنے ہوئے بلبلے میں قید ہے ، یہ بلبلہ سیارے کے گرد خلاء میں لگ بھگ تیس لاکھ کلومیٹر
تک پھیلا ہوا ہے۔ شمسی ہوائیں مشتری سے ایک دُم کو گھسیٹ کر اس کے بعد ایک ارب
کلومیٹر دورتک لے جاتی ہیں۔
خاکہ 4.4
پائینیر یاز دہم سے حاصل کردہ تصاویر میں
مشتری کی پٹیاں اور علاقے قطبی تناظر
میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر پر عمل کاری ٹیڈ اسٹرائیک نے کی ہے۔
یہ کیسے ممکن
ہے کہ اس قسم کا معاندانہ ماحول ٹھیک طرح سے جانچا لیا گیا ہے؟ جانس ہوپکنس یونیورسٹی کے شعبے اپلائڈ فزکس لیب کے رالف مک نٹ مسئلے
پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔" اگر ہم سمجھتے ہیں کہ آسمان ہی ہماری حد ہے، تو
ٹیکنالوجی اور پیسوں کے ساتھ آپ کسی قسم کا بالائی صوت خلائی جہاز کا سوچ سکتے
ہیں جو برجیس کے بالائی کرہ فضائی میں اڑ
سکتا ہے۔ مشتری کے ثقلی میدان کافی طاقتور ہیں، لہٰذا اس سے پہلے کہ آپ کسی چیز کو اس کی واجبی نظر آنے والی سطح پر اتارنے کی کوشش کریں آپ دسیوں کلو میٹر فی سیکنڈ کی رفتار تک اسراع
حاصل کر چکے ہوں گے۔ آپ اس ثقلی
میدان میں گرنے کی بات کر رہے ہیں جو آپ
کی رفتار کو اتنا اسراع دے گی جس رفتار سے زمین سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے۔"
اس رفتار پر ایک بالائی صوتی طیارہ اجنبی دنیا کے کافی علاقوں میں اڑان بھر سکتا ہے
اور زیادہ تر دیوہیکل جہانوں کے آسمان پر اڑ سکتا ہے۔
زحل
شاندار
حلقوں کا مالک زحل مشتری کی چوتھائی شمسی توانائی حاصل کرتا ہے (زمین کے مقابلے
میں سو گنا کم)۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اس کے موسم مشتری کے مقابلے میں کم قوّت والے ہونے
چاہئیں کیونکہ یہ کم شمسی توانائی حاصل کرتا ہے۔ اپنی دوربینوں کے ذریعہ دیکھنے
والوں کو بے حس پٹیاں اور علاقے مشتری کا مدھم سا انداز دکھاتے ہیں۔ لیکن وائیجر
نے زحل کے موسموں کو بھی فتنہ و فساد
انگیز اور منفرد انداز والا پایا۔ قریباً تین عشروں
بعد زحل کے گرد مدار میں چکر لگانے والے
کیسینی نے سنہری اجنبی خلائی دنیا کو اپنے
ہم مادر پدر برجیس جیسا ہی پایا۔
اس کے کہر اور بادلوں کی طویل عمر کی خاصیت زمین کے متلون مزاج موسم پر تحقیق کے
برخلاف تھی۔ یہ ایک سبق تھا کہ بیرونی سیارے بار بار نئی چیزیں سکھا رہے ہیں۔ زمین
کی تشبیہ کا اطلاق ہمیشہ دیوہیکل سیاروں
پر نہیں ہوتا۔
ایک
سنہری کہر زحل کے رفیع الشان روپ اور دھیمے خد و خال کی ذمہ دار ہے۔ کہر تب بنتی
ہے جب سورج کی بالائی بنفشی روشنی ہائیڈرو کاربن مثلاً ايسيٹيلِيَن یا ایتھین کو
بناتی ہے۔ یہ لمبی زنجیر والے ہائیڈرو کاربن بننے کے بعد بتدریج ایک کہر میں تکثیف
ہو جاتے ہیں جو پٹیوں اور علاقوں کے اوپر تیرتی ہے۔
سیارے کی
ہوائیں نظام شمسی کی سب سے غضب ناک ہوائیں ہیں۔ زحل ایک ایسی دنیا ہے جو فوق صوتی
ہوا کے جھکڑوں کے ساتھ چیری جاتی ہے، جہاں پیلے - سفید بادل گہرے پٹیوں میں اس طرح لٹتے ہیں جیسے کہ
اولمپک دوڑنے والے پرچم کو لوٹتے
ہیں۔ جس وقت کیسینی لمبے عرصے کی چھان
پھٹک کے لئے مدار میں اتر ا تھا اس وقت ایک طاقتور گرجنے والے طوفانوں نے جنوبی نصف کرہ
کو جنوبی خط استواء سے ٣٧ درجے پر محدود علاقے میں گھیر لیا تھا۔ اس "طوفانی پٹی" نے
لمبے عرصے تک قائم رہنے والے روشن بادل بنائے جو برق کو چھوڑ رہے تھے۔
عام طور
پر آسمانی بجلی کا تعلق پانی سے ہوتا ہے، اور پانی کے بادل زحل میں کافی گہرائی
میں دفن تھے۔ پانی پہلے ٢٠ باد پیما پر تکثیف ہوتا ہے، نظر آنے والے بادلوں کے اوپری حصّے سے کچھ ٢٠٠ کلومیٹر نیچے۔
اندرونی حرارت ان کو اوپر کی جانب ایک ٧٠
کلومیٹر کے عمودی سفر پر اٹھاتی ہے اور
پانی کو دس باد پیما ارتفاع پر پہنچا دیتی ہے۔ اس سطح پر یہ برف بن جاتا ہے۔
زمین پر آسمانی بجلی اس بلندی پر بنتی ہے
جہاں پانی برف بن رہا ہوتا ہے۔ برف کے ذرّات اور مائع پانی آپس میں ٹکراتے ہیں جو
بار کو الگ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ نمونے بتاتے ہیں کہ زحل پر بجلی
دس باد پیما کی سطح پر قریباً بادلوں کی چوٹی سے ١٠٠ کلومیٹر نیچے بننا
شروع ہو جاتی ہے۔
گرج چمک
کو اس مرتکز علاقے تک محدود کرنے کی حقیقت نے محققین کو چکرا کر رکھا ہوا ہے۔ لیکن
تحقیق جوں جوں آگے بڑھتی رہی، نمونہ بتدریج آہستہ سا ظاہر ہوتا گیا اور کچھ محققین کو شبہ ہوا کہ شاید یہ صرف ایک
دفعہ کا مسئلہ تھا۔ زمین کے ماحول پر ابتری پھیلنے کا وقت کا پیمانہ دنوں سے لے کر ہفتوں تک چلتا ہے۔
گیسی اور برفیلے دیو اتنے بڑے ہیں کہ وہ اس رخ
کے کچھ حصّے کو کو نا پیش بین(ناقابلِ پیشگوئی) برتاؤ کی طرح دکھاتے ہیں ، لیکن ممکن ہے کہ وہ لمبے عرصے میں جا کر بنتے ہوں۔ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اس
طوفان کی روش کچھ خاص تھی؟
بدلتے
موسم کے ساتھ جواب مل گیا۔ جب خزاں شمالی کرہ کی جانب آئی تو طوفانی پٹی میں موجود
طوفان کمزور پڑ گیا ، اور شمال میں بادلوں
کے پھٹنے کا سب سے ڈرامائی عمل نظر آنا شروع ہو گیا۔ پانی کے بادل اوپری کرہ میں
ابلنے لگے، اور ایک ہی ہفتے میں انہوں نے مکمل طور پر پورے کرہ کو گھیرے میں لے لیا۔ اور
شاندار طوفان شمال کے خط استواء سے بالکل
اتنے ہی فاصلہ پر ظاہر ہوا جتنا گرج چمک کا طوفان جنوب کے خط استواء سے دور تھا۔
زحل کے عظیم بارش کے طوفان ایسا لگتا ہے کہ موسمی ہیں۔
زحل کا
موسم ایک اور خوبصورت للچا دینے والے جیومیٹری کی شکل کو پیش کرتا ہے جس نے قطبین کو گھیرے میں لیا
ہوا ہے، ایک عظیم بھنور بادلوں کے بیج سے جھانک رہا ہے۔ طوفان کا نشیبی کنارہ ارد
گرد کے بھنور سے ٤٠-٦٤ میل اوپر ہے۔ ٥٥٠ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی
ہواؤں کے باوجود طوفان جنوبی قطب کے درمیان میں مرکز میں براہ راست ٹھہرا رہتا ہے۔ زحل کے شمالی قطب کے مخالف ،
ایک شاندار شش پہلوی کناروں والا زمین کے
قطر کا دوگنا موجود ہے۔ ١٩٨٠ء کے عشرے میں وائیجر سے
دیکھی جانے والی حیرت انگیز ہوا کی رومستحکم اور لمبی عرصے تک کی تھی۔ کچھ لوگوں
کے مطابق وائیجر سے حاصل کردہ تصاویر اس
بات کی جانب اشارہ کر رہی ہیں کہ یہ شش پہلو طوفان تھوڑی عرصے رہنے والی بیکلی ہے
جس کو کچھ متصل گردابوں یا دھبوں نے زبردستی بنا دیا ہے۔ لیکن کیسینی سے حاصل کردہ
تصاویر نے یہ بات عیاں کی کہ شش پہلو اب بھی وہیں ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ اب
بھی اسی حجم اور ہئیت کا ہے۔
خاکہ 4.5
زحل کی "طوفانی پٹی" اپنے خط
استواء سے ٣٧ ڈگری درجے پر گھومتے ہوئے گردابوں کا ایک سلسلہ دکھا رہی ہے۔ ٢٠١١ء میں ایک
عظیم طوفان اس وقت نمودار ہوا جب
شمالی نصف کرہ میں بہار شروع ہوئی۔
زحل کی
ایک اور منفرد خاصیت اس کے قطبی علاقوں کے رنگ ہیں۔ جب کیسینی وہاں پہنچا، زحل پر
شمالی کرہ میں سردی ختم ہو رہی تھی۔ حلقوں کے سائے نے شمالی کرہ کو کئی برسوں تک
اندھیرے میں رکھا تھا، اور باقی سیارے کی نسبت وہاں بادل زیادہ نیلے تھے۔ کیسینی
امیجنگ ٹیم پائی کیرولن پورکو وضاحت کرتی
ہیں، " حلقوں کے پڑنے والے سائے ماحول کو حقیقت میں سرد کر دیتے ہیں ۔ ایک
خیال یہ تھا کہ شاید بادل ڈوب رہے ہیں
کیونکہ ہوا اتنی ٹھنڈی ہو گئی ہے کہ کرہ فضائی کی
وہ سطح جہاں بادل بنتے ہیں نیچے سے
نیچے ہو رہی تھی۔ بادلوں سے اوپر کرہ فضائی صاف سے صاف ہو رہا تھا اور آپ کو وہاں زیادہ اشعاع نظر آ رہی تھیں۔ جب
زحل نقطہ اعتدال (جب دن اور رات برابر ہو) کو پار کرتا ہے تو حلقوں کے سائے خط استواء کی طرف سکڑ جاتے ہیں اور شمال
گرم ہونا شروع ہوتا ہے، اور زحل کی سنہری چمک وہاں واپس آ جاتی ہے۔ حلقوں کے سائے
جب جنوبی کرہ کی طرف منتقل ہوتے ہیں، تو بادل واضح طور پر نیلے ہونا شروع ہو جاتے
ہیں ، جو ایک زحل کا منفرد موسمی مظہر ہے۔
خاکہ 4.7 عظیم شش پہلو طوفان چار زمینوں کو گھیر سکتا
ہے۔ اوپر والے منظر میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ حلقے فریم کے اوپر سیارے کے پیچھے ہیں
۔ اس کے نیچے ایک کونے پر نفیس بادلوں کی
تشکیل کی تفصیلات ہیں ۔
تمام
دیوہیکل سیاروں میں سب سے عظیم حلقے زحل
کے ہیں۔ اندرونی کنارے سے لے کر بیرونی کنارے تک، ٦٧ ریاست ہائے متحدہ کے براعظم
اس میں سما سکتے ہیں ۔ اس وسیع قطر کے باوجود، ان کی موٹائی زیادہ تر جگہوں پر صرف
تین منزلہ عمارت جتنی ہے۔ بنیادی طور پر یہ برف سے بنے ہوئے لگتے ہیں ، ہرچند
کہ کچھ حصّہ میں برف میں لپٹی ہوئی چٹانیں
بھی ہیں۔ حلقے کے اندر کئی چھوٹے مہتاب بھی موجود ہیں جو ممکنہ طور پر حلقوں کے
بننے کے دور کی باقیات ہیں۔ ماہرین فلکیات نے حلقوں کے نام حروف تہجی میں ان کی دریافت کی ترتیب کے حساب سے رکھے
ہیں۔ سب سے روشن مرکزی حلقے کا نام "بی" ہے؛ یہ اپنے ارد گرد موجود
"اے" اور "سی" حلقوں کے ساتھ ہی دریافت ہو گیا تھا۔
"ایف" اور دوسرے مدھم حلقوں کو دریافت اس وقت ہوئی جب خلائی جہاز وہاں
پہنچا۔
باریک
لہریں، موجیں پورے نظام میں بہتی رہتی ہیں، جن کو چھوٹے چاند کی قوّت ثقل پھیلاتی
ہے۔ بڑے چاند ذرّات کے ساتھ گمگ پیدا کرتے ہیں اور حلقے میں موجود درزوں کو بھرتے ہیں۔
ساؤتھ
ویسٹ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈین دردا جو سیارچوں
اور نظام شمسی کے چھوٹے مہتابوں کے
ماہر ہیں وہ کہتے ہیں کہ حلقوں کے پاس ہمیں بتانے کو
بہت کچھ ہے۔" تمام چھوٹی موجیں اور مرغولہ نما کمیتی لہریں، ہر وہ چیز جو ہم
دیکھتے ہیں وہ آئزک نیوٹن کے کھیل کا
میدان ہے۔ یہ قوّت ثقل کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ذرّات کے درمیان یہ صرف نیوٹنی
قوّت ثقل ہے اور اس قدر وسیع ہزار ہا
مظاہر کا مظاہرہ جو اس سے بن سکتے ہیں وہ بہت ہی حیرت انگیز بات ہے۔ زحل کے حلقوں کا
نظام شاید قدرت کی سب سے بہترین تجربہ گاہ ہیں جہاں ہم ان مظاہر کو دیکھ سکتے ہیں۔" دو چاند جن
کی تصاویر کافی قریب سے لی گئی ہیں وہ پین
اور اٹلس ہیں اور دونوں میں ایک عجیب چیز
مشترک ہے کہ ان کے خط استواء سے واضح ابھار سے نکل رہے ہیں ۔ یہ ابھار حلقوں کا
مادّہ لگتے ہیں اور یہ چیز ہمیں ان کے
ارتقاء کے بارے میں کچھ بتاتی ہے۔ پورکو کہتی ہیں :
آپ کو انہیں بنانے کے لئے شروعات میں موٹی قرص میں پیوست
کرنا ہی ہوگا۔ ایک ایسا دور ضرور ہوگا جب چاند اتنا بڑا نہیں ہوگا کہ وہ بڑے شگاف کو بنا سکے، لہٰذا وہ اس دور میں حلقوں سے ہمیشہ ٹکراتا رہے گا۔ میں اس بات کا
تصوّر کر سکتی ہوں کہ ان ذرّات کے چاند پر جمع اور دور ہونے کی شرح ایک ہی ہوگی ۔ لیکن فرض کریں کہ چاند بڑے سے
بڑا ہو رہا ہے، اور اس کے ارد گرد بننے والا شگاف بھی بڑے سے بڑا ہو رہا ہے اور
بالآخر وہ ٣٦٠ درجے کے علاقے کو صاف کر دیتا ہے۔ ایک مرتبہ جب وہ ایسا کر لیتا ہے، تو اس کے بعد بھی وہ اپنے آپ میں مادّے کو جمع کرنے میں لگا رہتا ہے
اور وہ مادّہ جمع کرتا رہے گا بشرطیکہ اس کے گرد
حلقوں کا نظام چپٹا ہو چکا ہو۔ یہ بنیادی
احتیاج ہے کہ جس حلقے کے نظام سے وہ مادّہ کو کھینچ رہا ہے لازمی طور پر جمع کرنے والے حلقے کے مقابلے میں چپٹا ہو۔ اصل
بات یہ ہے کہ آپ کے پاس چاند پر مادّہ بچنا چاہئے، میرے خیال میں ایسا اس وقت ہوتا ہے جب
شگاف بنتے ہیں۔ خالص نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قوّت ثقل مادّے کو
خط استواء کے آس پاس جمع کر دیتی ہے
اور اس کے کچھ عرصے کے بعد جب چاند
شگاف کو کھول دیتا ہے تو جمع شدہ مادّہ
چھٹ جاتا ہے۔
خاکہ 4.8 حلقوں کے سائے سیارے کے تمام نصف کرہ کو ٹھنڈا کر دیتے ہیں، اس وجہ سے
بادل نیچے ڈوب جاتے ہیں اور قطبی علاقے میں نیلے نظر آتے ہیں۔ کیسینی کی اس تصویر
میں اس نے جنوبی قطب کی اس وقت منظر کشی کی ہے جب سردی بڑھ رہی تھی۔
خاکہ 4.9
چھوٹے مہتابوں اٹلس (دائیں) اور پین کے
حیرت انگیز ابھار ان کے خط استواء پر
موجود ہیں ۔
یہ عمل
شاید کافی عرصے پہلے رک گیا تھا کیونکہ دور حاضر میں مہتابوں کے مدار مادّے کو اس
کے ارد گرد جمع ہو کر اپنی سطح پر آنے سے روک دیتے ہیں۔ اس دور کو نظام شمسی میں
موجود ایک اور مثال سے تقویت ملتی ہے، پورکو کہتی ہیں۔ "آیا پیٹس کے ابھار
دیکھیں: یہ پرانے لگتے ہیں، لہٰذا یہ ابھار کچھ وقت تک باقی رہ سکتے ہیں۔
اگر نیپچون کے کمان نما حلقے ماضی کے وسیع حلقوں کے نظام کی باقیات ہیں، تو ہمیں
اسی قسم کے ابھار خط استواء پر وہاں پر کچھ دوسرے مہتابوں میں بھی نظر آنے
چاہئیں۔"
ٹلمان
ڈینک ، جو کیسینی امیجنگ ٹیم کے ایک رکن
اور فری یونیورسٹی آف برلن میں کام کرتے ہیں، وہ زحل کے حلقوں کو ایک دوسری
نظر سے دیکھتے ہیں: "میں اکثر سوچتا ہوں، اگر بنی نوع انسان زحل کی طرف رخت
سفر باندھے گی، تو وہ وہاں کیا کرے گی؟ عوام الناس سے بات کرتے ہوئے، میں اکثر اس
بات کا ذکر کرتا ہوں کہ زحل کے نظام میں حلقوں والے مہتابوں پین اور اٹلس کے شمالی اور جنوبی قطب پر بنے ہوٹلوں میں
چھٹیاں گزار نا سب سے مزیدار بات ہوگی۔ آپ
حلقے کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر اپر ہوں گے، اور یہ انتہائی بڑی قرص گھنٹوں
میں (تبدیلی دن کی وجہ سے ) بدلتی رہے گی ایک اور ہوٹل سے دوسرے ہوٹل کی طرف جاتے
ہوئے آپ روشن حصّے کو بھی دیکھ سکتے ہیں
یا حلقے کے دوسری طرف بھی دیکھ سکتے ہیں۔"
ڈینک اس
جانب بھی توجہ دلاتے ہیں کہ بیرونی بے قاعدہ مہتاب عارضی رکنے کی جگہ فراہم کرتے
ہیں۔ ان پر آسانی کے ساتھ پہنچا جا سکتا ہے، وہاں سے زحل کے نظام کا اچھا نظارہ
کیا جا سکتا ہے، اور ان کے مستقل برتاؤ کو
قابو کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں سے یومیہ کھوجوں کی ابتداء کرکے انہیں مربوط بھی کیا جا سکتا ہے۔"
بہرحال حلقے میں کچھ جگہیں اب بھی نئے مہتابوں کو بنا رہی ہیں۔ ایک ایسا ہی علاقہ ، سیاروی سائنس دان کارل مررے [1] نے اپریل ٢٠١٣ میں دیکھا، ١٢٠٠ کلومیٹر سے زیادہ لمبا حصّہ الگ اور روشن نظر آ رہا تھا۔ مررے اور دوسرے محققین نے اندازہ لگایا کہ یہ چاند ایک کلومیٹر سے کم پھیلا ہوا ہے، اور یہ کیسینی کی آنکھوں سے اس وقت تک چھپا رہا جب تک کوئی چیز اس سے ٹکرائی نہیں، اس ٹکر کے نتیجے میں اس کے گرد حلقے میں موجود مادّہ میں کافی بے کلی پھیلی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ چاند حال ہی میں بنا ہو ، دسیوں برس سے لے کر کچھ لاکھوں برس کے اندر لیکن اس کا مقدر معلوم نہیں ہے۔ مادّہ کے ڈھیر کو بطور سیارچہ زندہ رہنے کے لئے اتنے عرصے لے لئے مستحکم رہنا ہوگا کہ وہ حلقے سے نکل کر اپنے واضح اور صاف مدار میں پہنچ جائے۔ سائنس دان دیکھ رہے ہیں اور مستقبل میں وہاں کیسینی کو مزید قریب بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ وہ ایک ایسا منظر دیکھیں گے جو نظام شمسی کی ٤ ارب برسوں پر محیط تاریخ میں بار بار دہرایا جا رہا ہوگا یعنی نئے چاند کی پیدائش۔
یورینس
یہ
"نظام شمسی کا سب سے بیزار کن سیارہ کہلاتا تھا۔ انسانی آنکھ کے لئے، اس کی
نیلی ہری قرص کسی بھی قسم کے خدوخال سے خالی ہے۔ لیکن دیوہیکل سیاروں میں سب سے
چھوٹا ہماری اوّلین جانچ سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔ یورینس کے شاندار رنگ اس کے کرہ فضائی میں موجود میتھین کے مرہون منت ہیں
۔ میتھین سرخ رنگ کو جذب کر لیتی ہے ، یوں طیف کا صرف نیلا حصّہ بچ جاتا ہے
جو منعکس ہو کر دیکھنے والے شاہد کو نظر
آتا ہے۔ یورینس کا کرہ فضائی گہرائی تک شفاف اور پرسکون ہے۔ ایک گلابی کہر بادلوں
کے عرشے کے رنگ کو سبز رنگ کی طرف منتقل
کرتی ہے۔
یورینس
کی پٹیاں اور علاقے اس کے پڑوسی گیسی دیو
کی کم تر صورت ہیں۔ عظیم سبز دنیا سے
وائیجر کے ٹکراؤ کے دوران، سورج لگ بھگ
جنوبی قطب کے اوپر تھا۔ بہرحال بادلوں کے نمونے دوسرے گیسی دیوہیکل سیاروں کی ہی
طرح ترتیب میں تھے، جہاں پٹیاں خط استواء کے متوازی تھیں۔ یورینس اس طرح لگ رہا
تھا جیسے کہ مشتری کی چھوٹی تراشیدہ صورت
ہو۔ اس سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ سورج بیرونی سیاروں کے موسموں کا تعین نہیں کرتا۔
یہ سیارے کی محوری گردش تھی جو اس پیچیدہ بادلوں کی ترتیب کی ذمہ دار تھی۔
ہرچند کہ
پٹیاں، علاقے، بھنور اور طوفان دوسرے تینوں دیو ہیکل سیاروں پر واضح طور پر دیکھے
جا سکتے ہیں، یورینس کا موسم کافی خاموش ہے۔ کس چیز نے اس کو دوسروں سے جدا کیا
ہے؟ مشتری، زحل اور نیپچون تمام کے تمام سیارے اس توانائی سے زیادہ توانائی پیدا کر رہے ہیں جتنی انھیں سورج سے مل
رہی ہے۔ ان کی اندرونی حرارت موسموں کی رت کو جگا رہی ہے۔ لیکن یورینس اپنی ارد
گرد سے کہیں زیادہ سرد ہے۔ یورینس اور نیپچون پر درجہ حرارت لگ بھگ منفی ١٦١
ڈگری ہی ہے، اگرچہ کہ نیپچون سورج کی روشنی یورینس کے مقابلے میں
صرف 4/9 ہی حاصل کرتا ہے ۔ اصل میں یورینس کا درجہ
حرارت حاصل ہونے والی شمسی توانائی
سے متوازن دکھائی دیتا ہے، جس کی وجہ سے
ایک ایسا کرہ فضائی بنتا ہے جو سطح سے اندرونی حصّے کی جانب کم ملتا ہے۔ کافی سارے محققین یورینس
کے کم حرارتی بہاؤ کو سیارے کے اطراف میں گھومنے سے منسوب کرتے ہیں۔ اس کا عجیب رخ
بھی ہو سکتا ہے کہ آوارہ گھومتے ہوئے سیارے کے عظیم تصادم کی وجہ سے بنا
ہو۔ ایسا کوئی بھی تصادم اندرونی حرارت کے منبع کو منقطع کرنے کے لئے کافی ہوگا،
اس طرح سے اس کو یہ موقع مل گیا ہوگا کہ تصادم
کے بعد زیادہ موثر انداز سے مختصر عرصے
میں گرم ہو سکے۔ کچھ ماہرین اس بات کی بھی تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حرارتی
منبع مکمل طور پر بند ہو گیا ہو۔ تاہم
ایسا لگتا ہے کہ اس تصادم نے یورینس کو اس کے محور پر عجیب طرح سے جھکا دیا، نظری
ماہرین نے سیارے سے نہ نکلنی والی گرمی کی دوسری وجوہات بھی بیان کی ہیں۔ مثال کے
طور پر ایک تصوّر ایصال حرارت سے متعلق ہے۔ یورینس کا برفیلا غلاف اس طرح پرت دار بن گیا کہ ایصال
حرارت کے عمل کو ہونے نہ دیتا ہو۔ قلب تو
گرمی پیدا کر رہا ہے لیکن حرارت کو باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا ہو۔
خاکہ 4.10
چاند کی پیدائش؟ زحل کے "اے"حلقے کے کونے پر اٹھتے ہوئے حلقوں کے
ذرّات شاید ایک نئے چاند کی پیدائش کا
اشارہ ہوں جو مادّے کو جمع کرنے کے بعد
سیارے سے دور ہو جاتا ہے۔
وائیجر
جب یورینس کے نظام کی طرف پہنچا ، تو اس وقت ایک گہری کہر کی قطبی
چھتری جنوب (روشن قطب) پر پھیلی ہوئی تھی۔ ایک ٹھنڈا علاقہ ١٠ درجے سے ٤٠
درجہ ارض بلد کے درمیان پھیلا ہوا تھا۔ ایک روشن پٹی، جو قطب پر ہی مرتکز تھی، ٥٠
درجے ارض بلد پر نیچے حلقہ بنا رہی تھی۔
یہ پٹی ممکنہ طور پر میتھین کے بادلوں اور اوپر بہتی ہوئی کہر کی وجہ سے بنی تھی۔ تاریک پٹیاں روشن پٹیوں کے
اطراف میں قوسین کی طرح ٢٠ درجے اور ٦٥ درجے ارض بلد میں موجود تھیں۔ یہ علاقے تاریک علاقوں کو منکشف کر
رہے تھے جہاں ہوا ڈھیروں نیچے اتر رہی تھی۔ مشتری کے برعکس جہاں پر روشن بادل سرد
ترین تھے، یورینس کے روشن بادل تاریک علاقوں سے گرم تھے۔ اس تفاوت کی وجہ ممکن ہے
کہ یورینس کے میتھین کے بادلوں اور مشتری کے امونیا کے بادلوں میں مخفی حرارت میں
ہونے والے فرق کا نتیجہ ہو۔ یورینس کے
بادل کرہ فضائی کی گہرائی میں دفن ہیں جس کی ابتدا 0.9
باد پیما کی سطح کے دباؤ سے شروع ہوتی ہے۔
اوپری کرہ فضائی سالماتی ہائیڈروجن پر مشتمل ہے، کچھ جوہری ہائیڈروجن، ہیلیئم اور
ہائیڈرو کاربن کی کہر کی تہیں بھی موجود ہیں۔ سائنس دان اس وقت وائیجر کی ریڈیائی
لہروں پر نظر رکھے ہوئے تھے جب وہ سیارے کے پیچھے سے گزر رہا تھا، اور نچلی ساخت
کو دیکھ سکتا تھا۔ بادلوں کے عرشے کی بنیاد 1.3 باد پیما کی سطح پر موجود لگتی تھی، جہاں پر
درجہ حرارت لگ بھگ منفی ١٩٢ سینٹی گریڈ
تھا۔ بادلوں کی کافی تنگ پٹیاں سیارے کے خط استواء کے قریب اس کو گھیرے ہوئے تھیں۔ کچھ الگ بادلوں کی
استوائی ہواؤں کی سمتی رفتار ٥٨٠ کلو میٹر فی گھنٹہ تک وائیجر نے درج کی ہیں۔ مرئی
بادل میتھین کی برف کی قلمیں تھیں اور شاید نیچے سے اوپر کی طرف بہ رہی تھیں۔
وائیجر
نے ہمیں ٹھنڈے، دور کے جہاں کو حالت سکون
میں بتایا۔ " اس کے بعد کافی لوگوں نے یورینس کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا،
کیوں پریشان ہوں؟" ہیدی ہامل کہتے ہیں جنہوں نے دنیا کی کئی اہم رصد گاہوں اور
ہبل خلائی دوربین کے ذریعہ تحقیق کی ہے:
اگر وائیجر کچھ نہیں دیکھ سکا تو یقینی طور پر
ہم زمین پر موجود دوربینوں سے کچھ نہیں دیکھ سکیں گے۔ ہبل کو ١٩٩٠ء میں چھوڑا گیا،
وائیجر کے وہاں سے صرف چار برس گزرنے کے بعد ، لیکن کوئی بھی یورینس کو دیکھنا
نہیں چاہتا تھا؛ یہ ایک فضول تجویز ہوتی۔ تاہم جب
میں ١٩٩٤ء میں سیاروی سائنس کے شعبے کے اجلاس میں موجود تھا تو وہاں ایک پوسٹر ہبل کے ذریعہ یورینس کے گرد موجود مہتابوں کو ڈھونڈنے سے
متعلق موجود تھا۔ پوسٹر کے اوپر اس سیارے کی تصویر تھی جس کے گرد مہتابوں پر نشان
لگایا ہوا تھا اور میں نے مصنف بن زیلنر
سے کہا، "درمیان میں کس چیز کی تصویر ہے؟" وہ بولا، "ہم ہبل سے
چاند ڈھونڈنے کے لئے گہرائی میں تصویریں لے رہے تھے لہٰذا یورینس پر تصویر لیتے
ہوئے روشنی کچھ زیادہ دیر تک پڑ گئی، تاہم ہر
مرتبہ ایک تین سلسلوں کی تصویر لیتے،
لہٰذا ہم نے یورینس کی ایک وہ تصویر لی جس
پر زیادہ روشنی نہیں پڑی تھی اور وہ اپنے
پوسٹر پر لگا لی۔" اور یہ تصویر خدوخال دکھا رہی تھی ، ایک پٹی تھی اور
جداگانہ بہت روشن بادل تھے اور میں نے کہا
، "ویسے یہ ایسا نہیں ہے جیسا کہ یورینس
نظر آتا ہے۔" اور اس نے کہا، " یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ہمیں نظر آتا
ہے۔"
خاکہ 4.11 وائیجر کے ذریعہ حاصل کی گئی سب سے
بہترین تصویریں بھی کم بادلوں کو ظاہر
کرتی ہیں۔
ہامل نے دو مزید تصاویر لیں جن کی مدد سے وہ سیارے کی محوری گردش کی نئی پیمائش کرنے کے قابل
ہوا۔ یورینس کا سکون ماضی کا قصّہ تھا، سیارے کا کافی زیادہ حصّہ روشن ہو رہا تھا
اور اس کا زاویہ سورج کی طرف اس وقت سے
زیادہ تھا جب وائیجر وہاں سے گزر رہا تھا۔
اسی
دوران ایرک کوکوشکا نے ہبل سے یورینس کی حاصل کردہ ابتدائی تصاویر
پر کام کیا۔ اس نے وہ تصویر لی جس کو ہامل نے یورینس کی "حیرت انگیز" تصویر
کہا تھا، جس میں پورا سیارہ ماحولیاتی خصائص سے لبریز تھا۔
ہامل کے لئے یہ تبدیلی کی ابتداء تھی۔" ہم میں سے کافی لوگوں
نے اس کو ہبل خلائی دوربین سے دیکھنا شروع کر دیا۔ چیزیں اس وقت کافی ہیجان انگیز
ہونا شروع ہو گئیں جب میں نے ایمکے ڈی پے
ٹر کے ساتھ مل کر کیک دوربین کے ذریعہ کام شروع کیا۔ میں نے
تصاویر لینے کے ایک سلسلے کی تجویز سامنے رکھی تاکہ ہم ہواؤں کی رفتار کا پیچھا کر
سکیں۔ یہ بادل شمالی نصف کرہ کی طرف ظاہر ہو رہے تھے، یہ نصف کرہ بالآخر بیس برس کی تاریکی کے بعد منور
ہونے لگا تھا۔ ایمکے نےزمین سے کیک رصد
گاہ کا استعمال کرتے ہوئے یورینس کا اس وقت جائزہ لینا شروع کیا جب میں ہبل سے
تصاویر اتار رہا تھا۔ ہم نے اپنی توانائیوں کو ملا لیا اور اپنے اپنے اعداد و شمار
کو ملا کر ایک بہت ہی اعلیٰ مواد کا جوڑا تیار کیا۔ اور یہیں سے ہماری لمبے عرصے
کی رفاقت کی شروعات ہوئی۔"
یورینس کے نقطہ اعتدال - وہ نقطہ جب پورا سیارہ قطب تا قطب روشن ہوتا
ہے - پر پہنچنے سے چار برس پہلے مشاہدہ
کرنے والوں نے کافی روشن خدوخال دیکھنے شروع کر دئیے تھے۔ ہامل اور دوسروں کو لگا
کہ جیسے یہ میتھین کے سحابی بادل ہیں جو
بادلوں کے عرشے کے درمیان سے نکل رہے ہیں اور پھر واپس انہیں میں ڈوب جاتے ہیں۔ ٢٠٠٧ء تک
ماہرین فلکیات نے ایسے درجنوں بادلوں کا پیچھا کیا۔ "ایک تصویر میں تو آپ کو
وائیجر سے دیکھے گئے خدوخال کی نسبت تین گنا زیادہ خدوخال نظر آئیں گے۔" کچھ
مواقع پر تو گہرے طوفان پورے سیارے پر ایک
دوسرے پر چڑھے جا رہے تھے اور ضم ہو کر ایک بڑے طوفان کو بنا رہے تھے جس نے روشن
ہونا تھا۔ ہبل کی تصویر نے مشتری کے عظیم سرخ دھبے کی طرح ایک نشان کو ظاہر کیا۔
خاکہ 4.12
نیا یورینس۔ بادل اور معین پٹیاں اس وقت بن گئے تھے جب یورینس ٢٠٠٧ء میں نقطہ اعتدال تک پہنچا۔
یورینس
ویسا سیارہ نہیں تھا جیسا کہ وائیجر نے تین دہائیوں پہلے دیکھا تھا۔ یہ اتنا متحرک کتنے عرصے تک
رہے گا؟ ہامل اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ " یہ ایک ٨٤ برس کا دور
ہے۔ ١٩٨٦ء میں وائیجر سے لے کر ٢٠٠٧ء تک ہم نے سورج کے گرد ایک چوتھائی نقطہ
اعتدال عبور کرلیا ہے۔ دوبارہ پرسکون ہونے کے لئے اس کو مزید ایک عشرہ درکار ہوگا۔
وہ نصف کرہ جو اس قدر متحرک اور متغیر ہے وہ کیا دوبارہ پرسکون ہو جائے گا؟ ان
تبدیلیوں کو ہم ابھی دیکھ رہے ہیں۔ یورینس اپنے تغیر میں بہت ڈرامائی ہے۔"
نیپچون
١٩٨٩ء
میں خلاء میں بارہ برس گزارنے اور کافی حادثات کو جھیلنے کے بعد (ملاحظہ کیجئے
تیسرا باب) وائیجر دوم نیپچون کے جہنمی
ماحول کے پاس پہنچ گیا۔ یورینس کے حلیم
سبز چہرے کے برعکس نیپچون کا گہرا نیلمی چہرہ اکھڑا ہوا تھا۔ اس کے بادل خلقی طور
پر یورینس سے زیادہ نیلے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے کرہ فضائی میں کوئی رنگنے
والی چیز موجود تھی جس نے انھیں آلودہ کر دیا تھا۔ نیپچون کے اس شاندار نیلے رنگ
کی وجہ یورینس کے سبز ہونے کی وجہ جیسی ہی تھی یعنی کہ وہاں بھی سرخ روشنی کا
فقدان تھا۔ کرہ فضائی کا تین فیصد میتھین پر مشتمل تھا اور میتھین کے سالمات میں سرخ
رنگ میں موجود روشنی کی مخصوص طول موجوں
کو جذب کرنے کی قابلیت کافی قابل رشک ہوتی ہے۔
نیلا دیو جیسے جیسے وائیجر کے تصویری نظام سے
قریب ہوتا گیا ، ویسے ویسے اس تصویری نظام نے بے ہنگم گولے کو تاریک اور روشن
بادلوں میں دیکھ لیا۔ بلکہ پہلے کی کچھ تصاویر میں ہی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ نیپچون میں یورینس
کے چار برس قبل کے موسم کے مقابلے میں کہیں
زیادہ متحرک موسم ہیں۔ وائیجر نے نیپچون کی منفرد قوس نما حلقوں پر نظر رکھی ہوئی
تھی اور آخری دنوں میں اس نے نیپچون کے مہتابوں
کی نقشہ سازی شروع کردی۔ وائیجر کی ایک سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ مشتری اور زحل کی طرح نیپچون بھی اس
سے زیادہ حدت نکالتا ہے جتنی وہ سورج سے حاصل کرتا ہے۔ اندرونی حرارت ہی نیپچون کے
آسمانوں کی متحرک حرکت کی ذمہ دار ہیں۔ میتھین
کی قلموں کے سفید بادل دھیرے دھیرے پوری
لطیف پٹیوں اور علاقوں میں دوڑتے پھرتے ہیں، اور اکثر طوفانی وضع قطع حاصل
کر لیتے ہیں۔
مشتری
اور زحل کے بادلوں کے برعکس، نیپچون کے بادلوں کا پیچھا کرنا مشکل ہے۔ نیپچون پر جدا
روشن بادل کافی تیزی سے بنتے ہیں، لہٰذا ایک رات میں بننے والے بادل آسانی سے اگلے
چکر پر شناخت نہیں ہوتے۔ نیپچون کا موسمی نظام مشتری اور زحل کے مقابلے میں کافی
کم منظم ہے۔ علاقے تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ایک ارض بلد سے دوسرے ارض بلد
کو پار کرتے ہیں، جن کے اوپر لچھے جیسے بادل ہوتے ہیں جو الل ٹپ آتے ہیں
اور جاتے ہیں ۔
دوسرے
گیسی دیو ہیکل کی طرح نیپچون کے کرہ فضائی
میں بھی ہائیڈروجن کا غلبہ ہے جو کائنات کا سب سے ارزاں عنصر ہے۔ دوسری ارزاں گیس
وہاں ہیلیئم ہے۔ تیسری گیس میتھین ہے جو اس کو جداگانہ نیلا رنگ دیتی ہے۔ گہرائی
میں نیلے بادلوں کے عرشے کے نیچے کرہ فضائی میں پانی اور امونیا لگتا ہے۔
نیپچون
کے صاف بالائی کرہ فضائی میں ، درجہ حرارت منفی ١٨٠ سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ زمین
پر سمندر کی سطح کے دباؤ کے مقابلے میں درجہ حرارت منفی ١٦٧ ڈگری پہنچ جاتا ہے ۔
اس کے نیچے ہوا اتنی گرم ہوتی ہے کہ میتھین مائع یا بخارات کی شکل میں موجود ہو
سکتی ہے۔ میتھین کی برف کی قلموں کے بادلوں کے عرشے کی بنیاد لگ بھگ ایک باد پیما
کے دباؤ پر ہوتی ہے، جہاں میتھین ٹھنڈی ہو کر تکثیف ہو کر بادلوں کو بناتی ہے۔ اس بلندی سے بادل
بھڑکتے ہیں اور میتھین کو کرہ قائمہ میں لے آتے ہیں۔ تاہم نیپچون کے کرہ قائمہ میں میتھین اس سے کہیں
زیادہ ہے جو اس کا کرہ فضائی رکھنے کے قابل ہے۔ بخارات لازمی طور پر گہرائی میں
موجود میتھین کے طوفان سے اوپر کی جانب آرہے ہوں گے۔ طوفانوں لازمی طور پر ٥٠ -١٠٠ کلومیٹر کی بلندی پر چل
رہے ہوں گے۔
پچھلے
تین عشروں سے سائنس دان اس بات کا تصوّر کر رہے ہیں کہ کرہ قائمہ میں موجود بڑی
مقدار میں میتھین کے بخارات بڑھتے ہوئے ایصال حرارت کی وجہ سے ہیں یعنی کہ حد درجہ
طاقتور طوفان میتھین کے برفیلے ذرّات کے ساتھ اوپر اٹھتے ہیں اور پھر وہاں ٹھنڈے ہو کر برف کے ذرّات میں
تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لیکن حال ہی میں زمینی دوربینوں کی مدد سے کیے گئے مشاہدات کی روشنی میں محققین نے یہ
خیال پیش کیا کہ نیپچون کے قطبین کی ساخت معمول سے ہٹ کر ہے جس کی وجہ میتھین رستے ہوئے وسطی کرہ قائمہ میں نکل جاتی ہے۔ اس وجہ سے
میتھین کوعالمگیر طاقتور ایصال حرارت کی
ضرورت نہیں ہوتی جس پر کچھ سائنس دان متشکک تھے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ یورینس
نے اپنے بالائی کرہ فضائی میں اضافی میتھین
کو ظاہر نہیں کیا جیسے کہ نیپچون کرتا ہے۔
اپنے
تیزی سے بدلتے بادلوں کی ہئیت کے باوجود نیپچون میں کچھ لمبے عرصے تک موجود رہنے
والی ساختیں موجود ہیں۔ وائیجر نے جو پہلی
دور سے تصویر حاصل کی تھی اس میں پہلی چیز جو نظر آئی تھی وہ ایک بڑا نیلے رنگ کا
طوفان ، مشتری کے سرخ دھبے کے مماثل تھا ۔
طوفان سیارے کے حجم کی نسبت لگ بھگ اسی
حجم کا تھا۔
سائنس
دانوں نے اس کو فوری طور پر "عظیم گہرے دھبے"(GDS-89)
کا نام دے دیا ، مشتری کے عظیم سرخ دھبہ کا رشتے دار۔ تاہم جب وائیجر نے اس کی
مزید تفصیلات حاصل کیں تو دھبہ کی اپنی
منفرد خصوصیات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ عظیم گہرا دھبہ زمین کے قطر جتنی جگہ پر پھیلا ہوا تھا۔ یہ
بیضوی شکل کا طوفان ہر آٹھ دن کے بعد گھوم یا جھول رہا تھا، اور مشتری کے طوفان کی
نسبت مختلف طریقے سے چل رہا تھا۔
خاکہ 4.13
بادلوں کی تشکیل۔ بالائی بائیں جانب روشن بادل ا سکوٹر ہیں۔ اس کے نیچے دائیں طرف
وہ طوفان ہے جس کو ہم عظیم گہرا دھبہ دوم
یا چھوٹے گہرے دھبے کے نام سے جانتے ہیں۔ نیپچون کا عظیم گہرا دھبہ لگ بھگ
زمین کے حجم کا ہی ہے۔
جب ہبل خلائی دوربین نے ١٩٩٣ء میں کام کرنا شروع
کیا تو اس وقت ١٩٨٩ء کا وہ عظیم گہرا دھبہ اپنا نشان چھوڑے بغیر غائب ہو
چکا تھا۔ تاہم ١٩٩٤ء میں ہیدی ہامل نے ایک
ایسا ہی طوفان شمالی کرہ میں ہبل سے لی
گئی تصویر میں دیکھا۔ جس کو اب ہم GDS -94 کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ طوفان تھوڑا سا
چھوٹا ہے۔ یہ کچھ ہی برسوں میں غائب ہو
گیا اور دوسروں نے اس کی جگہ لے لی ۔ گہرے طوفان کی حیات لگ بھگ پانچ برس کی لگتی
ہے۔
یورینس
اور نیپچون دونوں پر موجود سفید بادل عام طور پر پتلی متوازی لڑیوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ نیپچون پر کچھ تو بیل
کی طرح سینکڑوں میل تک پھیلے ہوئے ہوتے ہیں، جبکہ دوسرے پتریوں کی طرح گہرے نیلے
بادلوں کے نچلے حصّے میں چند گھنٹوں یا دنوں تک رہتے ہیں۔ وائیجر ٹیم کے ارکان اس
قسم کے ایک بادل کو اسکوٹر کہتے ہیں۔ زیادہ تر روشن بادلوں کے برعکس، اسکوٹر کی
جڑیں کرہ فضائی کی گہرائی میں موجود ہیں۔ GDS اور دوسرے
بادلوں کی نسبت ، یہ بادل
شرقاً حرکت کرتے ہیں۔ یہ GDS کے
مقابلے میں تیزی سے حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا نام رکھا گیا ہے۔
خاکہ 4.14 وائیجر کے جانے کے بعد سیارے کا نظارہ۔ کیک دوربین سے حاصل کردہ یورینس کی
تصویر (اوپر) بمقابل ہبل سے حاصل کی گئی نیپچون کی تصویر کے۔
بادلوں
میں بسے شہر – ذرا ہٹ کر
خاکہ 4.15
ایک تیرتی ہوئی چوکی جیفری لنڈس کا تخیل
ناسا کے
جان گلین ریسرچ سینٹر میں مستقبل کی خلائی مہمات کے لئے جدید تصورات پیش کرنے کے
علاوہ، جیفری لنڈس نے ہیوگو اور ہینلین ایوارڈ بطور سائنس فکشن مصنف کے حاصل کیا ہے۔ انہوں نے حال ہی میں ناسا کے مالی تعاون سے
ایک تحقیق مکمل کی ہے جس میں اس بات کو دکھایا گیا ہے کہ زہرہ کے بادلوں میں بستی
بسانے کے لئے کیا کرنا پڑے گا۔ تیرتی ہوئی بستی کرہ فضائی میں ٥٠ کلومیٹر اپر گشت
کر رہی ہوگی جہاں پر نسبتاً شفیق ماحول ہوگا کیونکہ ہوا کا دباؤ زمین پر سطح سمندر کے دباؤ جتنا ہی ہوگا جبکہ درجہ حرارت عام کمرے کے درجہ حرارت جتنا گر جاتا
ہے ۔لنڈس نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ زہرہ میں زرخیز ذرائع موجود ہیں۔ اس کا کثیف
ماحول کائناتی شعاعوں سے حفاظت کرتا ہے
اور بادلوں کے اوپر وافر مقدار میں شمسی توانائی موجود ہے۔ زہرہ کے محل وقوع کا
ایک اور فائدہ یہ ہے کہ زہرہ کے کاربن ڈائی آکسائڈ ماحول کی کثافت کی وجہ سے، اصل
میں سانس لینے والی ایک تیراک فضا موجود
ہے جو بطور اٹھان والی گیس کے استعمال ہو سکتی ہے جیسے کہ زمین پر ہیلیئم استعمال
کی جاتی ہے۔ ایک ٤٠٠ میٹر نصف قطر کا غبارہ جو ایک چھوٹے کھیل کے میدان کے حجم کا
ہو وہ ٣٥٠ ہزار ٹن یعنی امپائر اسٹیٹ بلڈنگ جتنی کمیت کو اٹھا سکتا ہے۔
لنڈس کی
رپورٹ نتیجہ اخذ کرتی ہے، "مختصراً زہرہ کا کرہ فضائی نظام شمسی میں سب سے
زیادہ زمین جیسا ہے۔۔۔لمبے عرصے کے لئے مستقل بنیادوں پر بستیاں شہروں کی صورت میں
اس طرح بنائی جا سکتی ہیں کہ زہرہ کے کرہ
فضائی میں ٥٠ کلومیٹر کی بلندی پر معلق رہیں۔"
گیسی اور
برفیلے دیو ہیکل سیاروں کے بادلوں میں شہر بسانے کے بارے میں کیا خیال ہے؟ مشتری
،زحل، یورینس اور نیپچون پر
ہائیڈروجن اور ہیلیئم گیسوں کا غلبہ ہے جو سب سے ہلکی گیسیں ہیں۔ اس وجہ سے "ہوا
سے ہلکے" غبارے بنانے ممکن نہیں ہے۔ تاہم لنڈس کہتے ہیں کہ اس کا حل موجود
ہے۔ " گرم ہائیڈروجن گیس کے غباروں کو تیرا یا جائے - جب تک خول کے اندر موجود گیس کو ارد گرد ماحول سے زیادہ گرم رکھا جائے گا تو وہ تیرنے لگے گی۔ بہرحال اس کے لئے
توانائی درکار ہوگی۔"
مشتری کے اطراف میں غضب ناک تابکاری کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا۔
مشتری کی تابکاری کی سطح برجیسی بادلوں کی
تہوں کی سطح پر کافی گر جاتی ہے جبکہ درجہ
حرارت بھی کافی شفیق ہوتا ہے۔ چیر ڈالنے والی ہوائیں بلا کی قیامت خیز ہوتی ہیں لیکن ایک پٹی یا علاقے میں رو پر سوار ہوائیں کافی مستحکم ہوتی ہیں۔ شاید
جو اصل مسئلہ وہ ان دیوہیکل سیاروں کے گرد رہتے ہوئے ہوگا کہ آپ کا گھر مستقل
ہوگا۔ کوئی ایسا طریقہ عملی طور پر موجود نہیں ہے جو مشتری کی زبردست قوّت ثقل کے کنوؤں کو مات دے کر واپس زمین کی طرف لوٹنے
دے۔
حتمی
رائے
انسانوں
کے لئے بذات خود جا کر گیسی دیو ہیکل سیاروں کی آسمانوں کی کھوج کرنا بجز نیابتی
طریقے کے ممکن نہیں ہے۔ رالف مک نٹ کے خیال میں روبوٹ اور انسان مل کر سب سے بہتر طریقے سے اس
کام کو کر سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں گینی
میڈ یا کیلسٹو پر انسانی ارضی قیام گاہ بنائی جائے جہاں عملہ
دور سے بیٹھ کر مشتری کے کرہ فضائی میں بھیجے گئے ڈرون کو قابو کرکے اڑائے۔
"شاید یہاں بات کسی قسم کے بالائی
صوتی ہوائی جہاز کی ہو رہی ہے، بہت تیز رفتار ہونے کے باوجود مشتری بہت بڑا ہے لہٰذا
آپ اس کے بہت ہی تھوڑے حصّے پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ تاہم ہم خلائی کھوج میں جس چیز
کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ جب بھی کسی چیز کو
دس گنا زیادہ دیکھنے کے لئے پہلا قدم بڑھایا جاتا ہے، تو ہمیں مزید اور چیزیں
سیکھنے کو ملتی ہیں۔ عام طور پر اس میں پچھلے سوالات کے کافی جوابات موجود ہوتے
ہیں جو بالکل نئے جہانوں کو ہم پر ہویدا کرتے ہیں۔ ہمارے ارد گرد دنیا اصل میں
کیسی لگتی ہے یہ اس کو کھوجنے کے تجرباتی فہم کا حصّہ ہے ۔"
خاکہ 4.16
ایک حقیقی خلائی جہازوں کے بیڑے نے بیرونی سیاروں اور ان کے مہتابوں کا چکر لگایا
ہے ۔ اس بات پر غور کریں کہ ان کی تعداد کس طرح سے بیرونی برفیلے دیوہیکل سیاروں کی طرف جاتے ہوئے کم ہو
رہی ہے ۔
مشہور
راکٹ انجنیئر کرافٹ ایرک اکثر انسانی خلائی کھوج پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ اپنے
لیکچر کا آغاز اس طرح سے کرتے ہیں، "
اگر خدا بنی نوع انسان کو خلاء میں بھیجنا چاہتا، تو وہ بالکل ہمارے پڑوس میں
سیارے کو رکھتا۔" اپنے اس تبصرے کے بعد ایرک چاند کی سلائڈ دکھاتے ہیں۔ اسی
طرح سے ہم بھی قدرتی بستیاں گیسی دیوہیکل
جہانوں کے بالکل پڑوس میں یعنی کہ ان کے
قدرتی سیارچوں پر بنا سکتے ہیں۔
[2] ۔ اس وقت
سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ قدیمی زمین میں اس طرح کا کرہ فضائی موجود تھا جس طرح کا
کرۂ فضائی گیسی دیو کے پاس اب ہے۔ ہرچند کے
یہ مفروضہ اب باقی نہیں رہا ، تاہم تجرباتی
کام کا اطلاق اب بھی بیرونی سیاروں پر ہوتا ہے۔ ملر کے بعد کا کام مختلف قسم کے گیسوں
کے امتزاج کا استعمال کرتا ہے جن کا قدیمی
دنیا میں موجود ہونے کا احتمال زیادہ ہے۔
[3] ۔ انہوں
نے بعد یہ تجربہ سان ڈیاگو میں واقع کیلی فورنیا یونیورسٹی میں کیا جہاں اس کو ١٩٥٤ء میں شایع کیا گیا۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں