Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 16 دسمبر، 2015

    متناقض کائنات

    دوسرا باب

    متناقض کائنات



    اگر میں تخلیق کے وقت موجود ہوتا تو میں کائنات کی ترتیب کے لئے کچھ کارآمد مشورے دیتا۔
    - حکیم الفانس

    نظام شمسی بہت ہی برا ہے۔ کم روشنی؛ بہت دور سیارے؛ دم دار ستاروں کی تکلیف، کمزور حکمت ؛ اس سے کہیں بہتر [کائنات[میں بنا سکتا تھا۔
    - لارڈ جیفری 


    اس کھیل "جیسے آپ کی مرضی " میں شیکسپیئر نے لافانی الفاظ میں لکھا

    دنیا ایک اسٹیج ہے،
    مرد اور عورتیں صرف اس کے کردار ہیں۔
    بس ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔

    قرون وسطیٰ میں، دنیا حقیقت میں ایک اسٹیج تھی، لیکن یہ اس وقت چھوٹی اور ساکن تھی اور صرف چھوٹی سی ایک چپٹی زمین پر مشتمل تھی جس کے گرد اجرام فلکی پراسرار طور پر نہایت بے عیب طریقے سے آسمانی مداروں میں چکر لگاتے تھے۔ دم دار ستاروں کو برا شگون سمجھا جاتا تھا اور ان کے نمودار ہونے کو بادشاہ کی موت کی تعبیر سے موسوم کیا جاتا تھا۔ جب عظیم دم دار تارہ 1066ء انگلستان میں نمودار ہوا تھا، تو بادشاہ ہیرالڈ کے سیکسن کے فوجی خوف زدہ ہو گئے تھے اور نہایت تیزی کے ساتھ انہوں نے اپنی برتری کو فاتح ولیم کے دستوں کے سامنے گنوا دیا، اور اس کے نتیجے میں جدید انگلستان کی بنیاد پڑی۔

    یہی دم دار تارہ انگلستان میں 1682ء میں دوبارہ نمودار ہوا اور اس نے پورے یورپ کے لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ دہقان سے لے کر بادشاہ تک ہر کوئی اس غیر متوقع فلکی مہمان کے آنے سے پریشان تھا جو آسمان فلک میں دور تک جاتا نظر آتا تھا۔ دم دار تارے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ جاتے کہیں ہیں؟ ان کا مقصد کیا ہوتا ہے؟

    ایڈمنڈ ہیلے ایک صاحب ثروت، ذی مرتبہ انسان اور ایک شوقیہ فلکیات دان بھی تھا وہ اس دم دار تارے سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے اپنے دور کے نابغہ روزگار سائنس دان یعنی کہ آئزک نیوٹن سے اس کے بارے میں رائے جاننی چاہی۔ جب اس نے نیوٹن سے یہ جاننا چاہا کہ کون سی ممکنہ طاقت اس دم دار ستارے کی حرکت کو قابو میں رکھتی ہے، تو نیوٹن نے نہایت اطمینان سے جواب دیا کہ دم دار ستارہ ایک بیضوی مدار میں حرکت کرتا ہے جو قانون معکوس مربع کی قوّت کا حاصل ہے (یعنی کہ دم دار ستارے پر لگنے والی قوّت سورج سے دور جاتے وقت فاصلے کے جذرالمربع کی نسبت کم ہوتی ہے۔)اصل میں نیوٹن اس سیارچہ کا مشاہدہ اپنی نئی دوربین کے ذریعہ کر رہا تھا جو اس نے حال میں ہی ایجاد کی تھی۔ (یہی وہ انعکاسی دوربین ہے جو آج کل ماہرین فلکیات پوری دنیا میں استعمال کر رہے ہیں) اور اس دم دار تارے کا مدار اس کے قوّت ثقل کے قوانین کے تابع ہیں جو اس نے بیس سال پہلے بنائے تھے۔ ہیلے یہ بات سن کر مبہوت رہ گیا وہ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھا۔ "تمہیں کیسے معلوم ہوا؟" اس نے جاننا چاہا۔ "کیوں، اس لئے کہ میں نے اس کا حساب لگایا ہے،" نیوٹن نے جواب دیا۔ ہیلے نے تو اپنے خواب و خیال میں بھی فلکی اجرام کے راز کو جاننے کا نہیں سوچا تھا جسے اس نئے قوّت ثقل کے قانون کی مدد سے بیان کیا جا سکتا تھا۔ اس دم دار ستارے نے انسانیت کو اس وقت سے ورطہ حیرت میں ڈالا ہوا تھا جب سے انسان نے فلک پر نظر ڈالی تھی۔

    اس عظیم الشان دریافت کی اہمیت کے پیش نظر ہیلے نے اس کے نئے نظریات کو چھپوانے کی فراغ دلانا پیش کش کی۔ 1687ء میں ہیلے کی حوصلہ افزائی اور مالی تعاون کی بدولت نیوٹن نے اپنا شاہکار کام "قدرتی فلسفے کے ریاضی اصول " کو شائع کیا۔ اس کو اب تک شائع ہونے والے کام میں سب سے زیادہ ممتاز مقام حاصل ہے۔ ایک ہی ہلے میں، وہ سائنس دان جو نظام شمسی کے بڑے اجسام کے قوانین سے نا واقف تھے، اچانک ہی سے نہایت صحت اور درستی کے ساتھ اجرام فلکی کی حرکت کا اندازہ لگانے کے قابل ہو گئے تھے۔

    اصول کا اثر اس قدر وسیع پیمانے پر ہوا کہ حجام کی دکان اور آنگنوں میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ یہاں تک کہ شاعر الیگزینڈر پوپ نے لکھا :

    قدرت اور قدرت کے قوانین شب میں چھپے ہوئے تھے،
    خدا نے کہا، نیوٹن! اور سب روشن ہو گیا۔

    (ہیلے اس بات کو سمجھ گیا تھا کہ اگر دم دار تارے کا مدار بیضوی ہے تو کوئی بھی اس بات کا اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ اگلی مرتبہ کب انگلستان میں نمودار ہوگا۔ پرانے اندراجات کی خاک چھاننے کے بعد اس نے معلوم کرلیا کہ 1531ء، 1607 ء اور 
    1682ء کا دم دار تارہ حقیقت میں ایک ہی تھا۔ وہ دم دار تارہ جس کو جدید انگلستان کی بنیاد میں انتہائی اہمیت حاصل ہے اور جسے 1066ء میں ہر ایک نے دیکھا تھا جس میں جولیس سیزر بھی شامل تھا۔ ہیلے نے اندازہ لگایا کہ دم دار تارہ انگلستان میں دوبارہ 1758ء میں نمودار ہوگا، نیوٹن اور ہیلے دونوں کے وفات کے کافی عرصے بعد۔ جب دم دار تارہ کرسمس کے دن اپنے وقت کے مطابق اس سال نمودار ہوا تو اس کا نام ہیلے کا دم دار تارہ رکھ دیا۔)

    نیوٹن نے کائناتی قوّت ثقل کا قانون بیس سال پہلے اس وقت دریافت کرلیا تھا جب طاعون کی بیماری کی وجہ سے کیمبرج یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا تھا اور بحالت مجبوری اس کو اپنے گاؤں وولس تھورپ لوٹنا پڑا۔ اس کو یہ بات بیان کرنے کا بہت شوق تھا کہ جب وہ اپنی زمین کا چکر لگا رہا تھا تو اس نے ایک سیب کو گرتے دیکھا۔ تب اس نے اپنے آپ سے سوال کیا جس نے بالآخر انسانیت کی تاریخ بدل دینی تھی: اگر سیب گر سکتا ہے تو کیا چاند بھی گر سکتا ہے؟ اچانک ہی اس پر منکشف ہوا کہ، سیب، چاند اور تمام سیارے ایک ہی قوّت ثقل کے قانون کے تابع ہیں اور وہ تمام کے تمام قانون معکوس مربع کے زیر اثر ہی ہیں۔ جب نیوٹن یہ سمجھ گیا کہ سترویں صدی کی ریاضی اس قانون قدرت کو حل کرنے کے لئے بہت ہی ابتدائی نوعیت کی ہے تو اس نے ریاضی کی ایک نئی شاخ نکالی جس کو علم الا احصا کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے گرتے ہوئے سیب اور چاند کی حرکت کا حساب لگایا جا سکتا ہے۔

    اصول میں نیوٹن نے میکانیات کے قوانین کو بھی لکھا، وہ قانون جو تمام میدانی اور فلکی اجسام کی سمتی حرکت کا تعین کرتےہیں۔ ان قوانین نے مشین بنانے، بھاپ کی طاقت کو زیر استعمال لانے اور ریل کے انجن کو بنانے کے بنیادی قوانین کو ڈھالا۔ جنہوں نے آگے چل کر صنعتی انقلاب اور جدید تہذیب کی داغ بیل ڈالی۔ آج فلک شگاف عمارتیں، ہر پل اور ہر راکٹ نیوٹن کے قوانین حرکت کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ اس نے دنیا کے بارے میں ہمارے پرانے خیالات کو بدل دیا اور ہمیں ایک ایسی نئی کائنات سے روشناس کروایا جہاں پر اجرام فلکی پر حکمرانی کرنے والے پراسرار قوانین زمین پر چلنے والے قوانین جیسے ہی تھے۔ اب حیات کی سیج صرف ڈرانے والے فلکی اجرام کے شگونوں سے نہیں گھری ہوئی تھی، بلکہ وہ قوانین جو ہم پر لاگو ہوتے تھے وہی ان پر بھی لاگو تھے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: متناقض کائنات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top