حصّہ اوّل - کائنات
باب اوّل
طفلی شبیہِ کائنات
شاعر صرف " ستاروں سے آگے جہاں او ر بھی ہیں" کی بات کرتا ہے۔ یہ تو منطقی ہوتا ہے جو اسے ان جہانوں کا احساس دلاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس احساس کو دلاتے ہوئے اس کے اپنے دماغ کی چولیں ہل جاتی ہیں۔
جی کے چیسٹر سن
جب میں چھوٹا تھا تو اس وقت میرے اپنے مذہبی عقیدے سے کچھ ذاتی اختلافات ہو گئے تھے۔ میرے والدین بدھ مت کے پیرو کار تھے۔ تاہم میں ہر ہفتے دینی مدرسے ("اتوار کے اسکول ")جاتا تھا جہاں مجھے انجیل کے قصّے سننا بہت پسند تھے جو وہیل ، کشتیوں، نمک کے ستونوں، پسلیوں اور سیبوں کے بارے میں ہوتے تھے۔ میں عہد نامہ قدیم کی حکایات سے بہت زیادہ متاثر ہوتا تھا اور مدرسے میں میری سب سے زیادہ دلچسپی اسی حصّے میں ہوتی تھی۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ عظیم سیلاب، جنگل کی آگ ، اور دریا میں پانی کو چیر کر راستہ بنانا، بدھ مت کے بھجنوں اور مراقبوں سے کہیں زیادہ دلچسپ ہیں۔ درحقیقت یہ جانبازی اور المناکی کی قدیمی کہانیاں جو نہایت واضح انداز میں خیر و شر اور اخلاقیات کو بیان کرتی ہیں ساری زندگی میری ہمدم بنی رہیں۔
مدرسے میں ایک دن ہم توریت کا پہلا باب "کتاب پیدائش" پڑھ رہے تھے۔ آسمان سے خدا کی آتی ہوئی گرج ، "روشن ہو جا!" نروانا کے خاموش مراقبے کے مقابلے میں کافی ڈرامائی لگتی ہے۔ اپنی معصومانہ جاننے کی جستجو کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک دن میں نے مدرسے کی معلمہ سے پوچھ ہی لیا ، "کیا خدا کی ماں ہے ؟" گہرے اخلاقی سبق دینے کے علاوہ عام طور پر وہ سوال کے جواب کاٹ کھانے کے انداز سے دیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ اس سوال کو سن کر وہ حیرت میں پڑھ گئیں۔ نہیں ، انہوں نے تذبذب سے جواب دیا۔ شاید خدا کی کوئی ماں نہیں ہے۔" تو پھر خدا کہاں سے آیا ؟" میں نے پوچھا۔ انہوں نے منمناتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں وہ منتظم سے پوچھ کر ہی بتا سکتی ہیں۔
مجھے اس بات کا احساس نہیں تھا کہ حادثاتی طور پر میں نے علم الہیات کا عظیم سوال پوچھ لیا تھا۔ میں حیران تھا کیونکہ بدھ مت میں تو کوئی خدا تھا ہی نہیں بس وقت سے ماورا کائنات تھی جس کی نہ تو ابتدا تھی نہ ہی انتہا۔ بعد ازاں جب میں نے دنیا کے عظیم علم الاساطیر کا مطالعہ کرنا شروع کیا ، تو مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ مذہب میں دو طرح کے کائنات سے متعلق نظریئے موجود ہیں۔ ایک کی بنیاد اس لمحے پر ہے جب خدا نے کائنات کو تخلیق کیا جبکہ دوسرا نظریہ اس بات پر کھڑا ہے کہ کائنات ابد سے ہے اور ازل تک رہے گی۔
یہ دونوں کیسے صحیح ہو سکتے ہیں۔ میں نے سوچا۔
بعد ازاں مجھ پر یہ بات آشکار ہونا شروع ہوگئی کہ یہ دونوں نظریئے باقی ثقافتوں میں بھی ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر چینی دیومالائی کہانیوں میں ابتدا میں ایک کائناتی انڈا تھا۔ نوزائیدہ دیوتا "پان کو " لگ بھگ ہمیشہ سے اس انڈے کے اندر تھا جو ایک بے شکل خلائے بسیط کے سمندر میں تیر رہا تھا۔ جب انڈے سے مکمل طور پر دیوتا نکلنے کے لئے تیار ہو گیا ، تو پان کو بہت تیزی سے بڑھنے لگا ، اس کے بڑھنے کی رفتار لگ بھگ دس فٹ فی دن تھی ، اس طرح سے انڈے کا اوپری آدھا چھلکا آسمان بن گیا جبکہ نچلا آدھا حصّہ زمین بن گیا۔ ١٨ ہزار برسوں کے بعد، وہ ہماری زمین کو جنم دینے کے بعد مر گیا : اس کا خون ہمارے دریا بن گئے ، جبکہ اس کی آنکھیں سورج اور چاند اور آواز آسمانی بجلی کی گرج بن گئی۔ کئی طرح سے ، پان کو کا دیومالائی قصّہ دوسرے مذاہب اور قدیمی دیومالائی قصّوں کا ہی عکس ہے ، یعنی کہ کائنات "عدم سے اچانک " ہی وجود میں آ گئی۔ یونانی داستانوں میں ، کائنات خلائے بسیط کی حالت میں شروع ہوئی (درحقیقت لفظ "خلائے بسیط " یونانی زبان سے آیا ہے جس کا مطلب "تحت الثریٰ" ہے )۔ یہ شکل و صورت سے بے نیاز خلاء اکثر ایک سمندر کے طور پر بیان کی جاتی ہے مثلاً بابلی اور جاپانی داستانوں میں اسے ایسے ہی بیان کیا جاتا ہے۔ قدم مصری داستانوں کا مرکزی خیال بھی ایسے ہی پایا جاتا ہے جہاں پر سورج دیوتا "را " تیرتے ہوئے انڈے سے نکلتا ہے۔ پولی نيشِيائی داستان میں انڈے کے چھلکے کو ناریل کے خول سے بدل دیا گیا۔ مایا والوں کا عقیدہ اس کہانی سے کچھ الگ ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کائنات ہر پانچ ہزار سال بعد پیدا ہوتی اور فنا ہوتی ہے۔ اور بار بار زندہ ہونے کے لئے وجود و فنا کا یہ چکر بار بار دہرا کر ایک نا ختم ہونے والے سلسلے کی طرح جاری رہتا ہے۔
عدم سے وجود میں آنے کا عقیدہ بدھ مت اور ہندوؤں کے فرقوں کے عقائد کے برخلاف ہے۔ ان کی داستانوں کے مطابق کائنات وقت سے ماورا ہے جس کی نہ تو کوئی ابتدا ہے نہ ہی کوئی انتہا۔ وجود کے کئی مرحلے ہو سکتے ہیں جن میں سب سے بلند مقام نروانا ہے جو ابدی ہے اور صرف پاکیزہ ریاضت سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ہندوؤں کے مہاپرانا میں یہ لکھا ہوا ہے ، "اگر خدا نے جہاں کو بنایا ہوتا تو وہ تخلیق سے پہلے کہاں تھا ؟۔۔۔ یہ بات معلوم تھی کہ دنیا اور وقت بذات خود بنا نہیں ہے، بغیر کسی شروعات اور انجام کے۔ "یہ داستانیں ایک دوسرے کے مخالف ہیں ،اور ان کے درمیان کو بظاہر مفاہمت ہوتی بھی نظر نہیں آتی ہے۔ دونوں میں سے ایک بات ہی ہو سکتی ہے یا تو کائنات کی ابتدا تھی یا پھر ایسا نہیں تھا۔ دونوں کے بیج کسی قسم کا راستہ نظر نہیں آتا۔
آج بہرحال ان دونوں کے درمیان بالکل ایک نئی سمت سے مفاہمت ہوتی نظر آ رہی ہے۔ یہ نئی سمت سائنس کی دنیا ہے۔ یہ ان نتائج کا حاصل ہے جو نئے نسل کے طاقتور سائنسی آلات سے حاصل کئے ہیں جو خلائے بسیط میں بلندی پر بھیجے گئے۔ قدیمی دیومالائی قصّے کہانی بیان کرنے والے کے ان فلسفیانہ افکار کی تشریح ہوتے تھے جو وہ ہماری کائنات کے ماخذ کے بارے میں لگاتے تھے۔ آج سائنس دان خلائی سیارچوں کی فوج ظفر موج ، لیزر ، ثقلی موجی سراغ رساں ، تداخل پیما ، تیز رفتار سپر کمپیوٹرز اور انٹرنیٹ کا استعمال کائنات کے متعلق ہمارے فہم میں انقلاب بپا کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اور ہمیں اب تک کی حاصل ہونے والی کائنات کی تخلیق سے متعلق پر زور دلیلیں دے رہے ہیں۔
اب تک حاصل ہونے والے مواد سے جو چیز بتدریج نمودار ہو رہی ہے وہ ان دونوں مخالف نظریوں کا وسیع تناظر میں ہم آہنگ ہونا ہے۔ شاید سائنس دان اس بات کا گمان کر رہے ہیں کہ تخلیق بار بار نروانا کے وقت سے ماورا سمندر میں واقع ہوتی ہے۔ اس نئے تناظر میں ہماری کائنات بڑے سمندر میں تیرتے ہوئے ایک بلبلے کی مثل ہے۔ اس سمندر میں نئے بلبلے ہمہ وقت بنتے رہتے ہیں۔ اس نظریئے کے مطابق ، کائنات، ابلتے پانی میں بنتے بلبلوں ، کی طرح مسلسل تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہے۔ کائنات کا یہ کھیل کا میدان جہاں وہ تیر رہی ہے وہ نروانا کی گیارہ جہتوں کا اضافی خلاء ہے۔ طبیعیات دانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات کو بیان کرتی ہے کہ اصل میں ہماری کائنات ایک عظیم انفجار کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے جس کو بگ بینگ کا نام دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ دوسری کائناتوں کے ازلی سمندر کے موجود ہے۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو بگ بینگ آپ کی ان سطروں کو پڑھتے ہوئے بھی واقع ہو رہا ہوگا۔
دنیا بھر کے طبیعیات دان اور ماہر فلکیات اب ان قیاس آرائیوں میں لگے ہوئے ہیں کہ کہ متوازی دنیائیں دیکھنے میں کیسے لگتی ہوں گی۔ یہ کن قوانین کے تابع ہوں گی ، یہ کیسے پیدا ہو کر آخر میں اختتام پذیر ہوں گی۔ ممکن ہے کہ یہ متوازی جہان اجاڑ اور ویران ہوں جہاں پر حیات کی بنیادی اجزا ہی موجود نہ ہوں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ ہماری کائنات جیسے ہی ہوں اور یہ کسی کوانٹمی واقعے کے نتیجے میں ہماری کائنات سے الگ ہو گئے۔ کچھ طبیعیات دان تو یہاں تک قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ ایک دن جب حیات ہماری موجودہ کائنات میں اس کی بڑھتی عمر اور ٹھنڈ کی وجہ سے رہنے کے قابل نہیں ہوگی تو وہ کسی دوسری کائنات کی جانب فرار ہو جائے گی۔ ان نظریوں کو پھلنے پھولنے کا موقع اس وسیع مواد سے ملا ہے جو خلاء میں موجود خلائی سیارچے تخلیق کے باقی بچے ہوئے حصّوں کی تصاویر لے کر بہم پہنچا رہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر سائنس دان اب بگ بینگ سے صرف تین لاکھ اسی ہزار سال کے بعد کے اس عرصے تک میں تاکا جھانکی کر سکتے ہیں جب تخلیق نے کائنات کو پہلے پہل اپنی جھلک دکھا کر لبریز کر دیا تھا۔ شاید سب سے پراثر اس تخلیق کے عمل سے پیدا ہونے والی شعاع ریزی کی تصویر جو ہم نے حاصل کی ہے وہ ڈبلیو میپ کی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں