ایم نظریہ اور گیارہویں جہت
شروع میں متوازی کائناتوں کا نظریہ سائنس دانوں کی نظر میں کافی متشکک ٹھرا۔ وہ اس کو روحانی ، بہروپیے اور کھسکے ہوئے لوگوں کا تختہ مشق سمجھتے تھے۔ کوئی بھی سائنس دان جو متوازی کائناتوں کے نظریہ پر کام کرنے کی ہمت کرتا اس کا مذاق اڑایا جاتا تھا اور اس کا مستقبل داؤ پر لگ جاتا تھا۔ کیونکہ آج بھی کوئی ایسے تجرباتی شواہد موجود نہیں ہیں جو ان کی موجودگی کا بین ثبوت ہوں۔
لیکن حالیہ دور میں یہ سلسلہ تبدیل ہو گیا ہے۔ اب دنیا کے اعلیٰ ترین افراد تندہی سے اس مفروضے پر کام کر رہے ہیں۔ اس اچانک تبدیلی کی وجہ ایک نئے نظریہ اسٹرنگ اور اس کے جدید نظریہ ایم کی آمد ہے۔ یہ دونوں نظریات نا صرف اس بات کی امید دلاتے ہیں کہ ہم متوازی کائناتوں پر سے پردہ اٹھا سکیں گے بلکہ یہ ہمیں خدا کی حکمت کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گے ، جیسا کہ آئن سٹائن نے ایک دفعہ اس کو خوش بیانی میں بیان کیا تھا۔ اگر یہ بات ثابت ہو گئی، تو یہ دو ہزار سال کی طبیعیاتی تحقیقات میں اس وقت سے اتمام حاصل ہوگا جب یونانیوں نے پہلی دفعہ ایک مربوط اور جامع کائنات کے نظرئیے کی تلاش شروع کی تھی۔ اسٹرنگ اور ایم نظرئیے سے متعلق مقالہ جات کی تعداد دسیوں ہزار تک جا پہنچی ہے۔ سینکڑوں بین الاقوامی کانفرنسیں ان پر رکھی جاچکی ہیں۔ دنیا کی تمام بڑی جامعات میں یا تو کوئی جماعت اسٹرنگ کے نظرئیے پر کام کررہی ہے یا پھر اس کو سیکھنے کی لگن لئے ہوئے ہے۔ بہرصورت یہ نظریہ ہمارے دور حاضر کے کمزور آلات کے بل بوتے پر جانچا نہیں جا سکتا لیکن اس کے باوجود اس نے طبیعیات کی دنیا میں آگ لگا کر رکھی ہوئی ہے۔ طبیعیات دان ، ریاضی دان بلکہ یہاں تک کہ تجرباتی بھی اس میں زبردست دلچسپی لے رہے ہیں اور اس امید میں ہیں کہ مستقبل میں اس نظرئیے کا حدود اربعہ خلائے بسیط میں بھیجے طاقتور ثقلی موجوں کے کھوجی اور عظیم جوہری تصادم گروں کی مدد سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
آخر کار یہ نظریہ ان سوالات کا جواب دے سکتا ہے جو ماہرین تکوینیات کو بگ بینگ کے نظرئیے کے پیش کرنے کے بعد سے الجھائے ہوئے ہیں یعنی کہ بگ بینگ سے پہلے کیا تھا؟
اس کام کے لئے ہمیں اپنی طبیعیات کے مکمل علم کی طاقت، اور ہر طبیعیاتی دریافت کو صدیوں تک جمع کرنا ہوگا۔ تب کہیں جا کر ہم اس قابل ہوں گے کہ کوئی قابل ذکر بات معلوم کر سکیں۔ آئن سٹائن نے اپنی عمر کے آخری تیس برس اس نظرئیے کو حاصل کرنے میں گزار دیے لیکن اس کے باوجود بھی وہ ناکامی سے دوچار ہوا۔
فی الوقت، سب سے اہم (اور اکلوتا) نظرئیے جو ان طاقتوں کی تنوع کو بیان کر سکتا ہے جن کو ہم کائنات کو چلاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ اسٹرنگ کا نظریہ ہے یا اس کی بعد کی تازہ شکل ایم نظریہ ہے۔(یہاں ایم کا مطلب میمبرین یعنی جھلی ہے لیکن اس سے اسرار، جادو یہاں تک کہ ماں کا مطلب بھی لیا جا سکتا ہے۔ ہرچند کہ اسٹرنگ نظریہ اور ایم نظریہ ملتا جلتا ہے ، ایم نظریہ زیادہ پراسرار اور پیچیدہ بنیادی ساخت ہے جو مختلف اسٹرنگ کے نظریوں کو ایک لڑی میں پروتا ہے۔)
جب سے یونانی فلسفیوں نے اندازہ لگایا تھا کہ مادّے کو بنانے والا چھوٹے سے چھوٹا ذرّہ ، ننھا ذرّہ ہو سکتا ہے تب سے انہوں نے اس کو جوہر کا نام دیا۔ آج ہم طاقتور جوہری تصادم گروں اور ذرّاتی اسراع گر کی مدد سے جوہروں کو الیکٹران اور مرکزے میں توڑ سکتے ہیں۔ پھر ان ذرّات کو ہم مزید ذیلی ذرّات میں توڑ سکتے ہیں۔ بجائے ہم سادہ اور نفیس ڈھانچہ حاصل کرتے ہمیں سینکڑوں ذیلی ذرّات ان ذرّاتی اسراع گروں سے حاصل ہوئے جن کے نام بھی کافی عجیب ہیں جیسے کہ نیوٹرینو، کوارک ، میسون، لیپٹون ، ہیڈرون، گلوآن ، ڈبلیو بوسون وغیرہ وغیرہ۔ اس بات پر یقین کرنا واقعی بہت مشکل ہے کہ قدرت اس بنیادی سطح پر ایسے عجیب ذیلی ذرّات کا جمعہ بازار لگا کر بیٹھی ہوئی ہے۔ اسٹرنگ کا نظریہ اور ایم نظریہ اس سادے اور نفیس خیال پر انحصار کرتے ہیں کہ پوری کائنات کو بنانے والے ان ذیلی ذرّات کی بوقلمونی ان سروں کی مانند ہیں جن کو کوئی بھی بعینہ پیانو کے تار کو چھیڑ کر یا ڈھول کی جھلی کو پیٹ کر مختلف آوازیں نکال کرحاصل کر سکتا ہے۔( یہ کوئی عام سریں یا جھلیاں نہیں ہیں ؛ ان کا وجود دسویں اور گیارہویں جہت کی اضافی خلاء میں ہے۔)
روایتی طور پر طبیعیات دان الیکٹران کو ایک نقطے والا ذرّہ گردانتے تھے جو حد درجے صغیر ہوتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ طبیعیات دانوں کو سینکڑوں ذیلی جوہری ذرّات میں سے ہر ایک کو الگ نقطے والا ذرّہ گردانہ پڑتا جو کہ بہت ہی پریشان کن امر تھا۔ لیکن اسٹرنگ نظرئیے کے مطابق اگر ہمارے پاس فوقی خرد بین موجود ہوتی جو الیکٹران کے قلب میں جھانک سکتی تو ہم دیکھتے کہ یہ نقطے والا ذرّہ نہیں ہے بلکہ ننھا مرتعش دھاگہ ہے۔ یہ نقطے والا ذرّہ اس لئے ہمیں دکھائی دیتا ہے کیونکہ ہمارے آلات کافی خام ہیں۔
یہ ننھے دھاگے مختلف تعدد ارتعاش اور گونج میں مرتعش ہوتے ہیں۔ اگر ہم اس مرتعش دھاگے کو کھینچے تو یہ اپنی طبیعی صورت کو بدل کر ایک دوسرا ذیلی جوہری ذرّہ بن جائے گا جیسے کہ کوارک۔ دوبارہ سے اس کو کھینچیں تو اب یہ نیوٹرینو بن جائے گا۔ اس طرح سے ہم ان ذیلی جوہری ذرّات کے جمعہ بازار کو تار کے مختلف سر کہہ سکتے ہیں۔
اس نئی زبان میں ، ہزاروں برس کے دوران احتیاط کے ساتھ کئے گئے تجربات کی روشنی میں طبیعیات کے قوانین کچھ اور نہیں بلکہ سروں میں ہم آہنگی کے قوانین ہیں جس کو تاروں اور جھلیوں کی صورت میں لکھا جا سکتا ہے۔ کیمیا کے قوانین وہ دھنیں ہیں جن کو کوئی بھی ان تاروں سے بجا سکتا ہے۔ کائنات تاروں کی سمفونی (پورے آرکسٹرا کے لیے تیار کیا گیا نغمہ) ہے۔ اور جس خدا کی حکمت کے بارے میں آئن سٹائن نے بہت ہی فصیح طریقے سے بیان کیا ہے وہ کائناتی موسیقی کی گونج ہے جو اضافی خلاء میں بج رہی ہے۔ (اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر کائنات تاروں کی سمفونی ہے تو کیا کوئی اس کا راگ ساز بھی ہے؟ میں اس سوال کو بارہویں باب میں بیان کروں گا۔
موسیقی مماثل
|
اسٹرنگ مماثل
|
موسیقی کے تال
|
ریاضی
|
رباب کے تار
|
سپر اسٹرنگ
|
سُر
|
ذیلی جوہری ذرّات
|
تال کے قوانین
|
طبیعیات
|
دھن
|
کیمیا
|
کائنات
|
اسٹرنگ کی سیمفونی
|
خدا کی حکمت
|
اضافی خلاء میں موسیقی کی گونج
|
موسیقار
|
؟
|
کائنات کا انجام
ڈبلیو میپ نا صرف ابتدائی کائنات کی انتہائی درست تصویر پیش کرتا ہے بلکہ یہ بھی مفصل طور سے بیان کرتا ہے کہ ہماری کائنات کی موت کس طرح سے ہو گی۔ جس طرح سے ضد ثقل قوّت نے زمان کی ابتداء میں کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے دور کرنا شروع کیا تھا ، یہی ضد ثقل قوت اب کائنات کو اس کے حتمی انجام کی طرف دھکیل رہی ہے۔ پہلے ماہرین فلکیات سمجھتے تھے کہ کائنات کا پھیلاؤ بتدریج آہستہ ہو رہا ہے۔ اب ہمیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ کائنات اصل میں اسراع پذیر ہے جس میں کہکشائیں ہم سے بتدریج بڑھتی ہوئی رفتار سے دور ہو رہی ہیں۔ وہی تاریک توانائی جو کائنات کے کل مادّے اور توانائی کے تہتر فیصد حصّے پر مشتمل ہے وہی کائنات کے پھیلاؤ کو اسراع دے رہی ہے۔ اس وجہ سے کہکشائیں متواتر بڑھتی ہوئی رفتار سے ہم سے دور ہو رہی ہیں۔ "کائنات ایک ایسے ڈرائیور کی طرح برتاؤ کر رہی ہے جو ٹریفک کی سرخ بتی تو دیکھ کر آہستہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ہری بتی دیکھتے ہی رفتار بڑھا دیتا ہے،" اسپیس ٹیلی اسکوپ انسٹیٹیوٹ کے ایڈم ریس کہتے ہیں۔
تاوقتیکہ کوئی ایسا واقع وقوع پذیر ہو جو اس اسراع کو الٹا کر دے ، ١٥٠ ارب برسوں بعد ہماری ملکی وے کہکشاں بالکل اکیلی رہ جائے گی کیونکہ 99.99999 فیصد قریبی کہکشائیں قابل مشاہدہ کائنات کی سرحد کو عبور کر چکی ہوں گی۔ رات کے آسمان میں دکھائی دینے والی ہماری شناسا کہکشائیں اتنی تیزی سے ہم سے دور جا رہی ہوں گی کہ ان کی روشنی ہم تک کبھی نہیں پہنچے گی۔ کہکشائیں بذات خود غائب نہیں ہوں گی ، لیکن وہ ہم سے اس قدر دور ہو جائیں گی کہ ہماری دوربینیں ان کا مزید مشاہدہ نہیں کر سکیں گی۔ اگرچہ قابل مشاہدہ کائنات میں ایک کھرب کہکشائیں موجود ہیں ، ١٥٠ ارب برسوں میں صرف چند ہزار کہکشائیں جو مقامی گروہ کے فوق جتھے میں موجود ہیں وہ ہی نظر آئیں گی۔ یہاں تک کہ مزید وقت گزرنے پر صرف ہمارے مقامی جماعت پر مشتمل لگ بھگ ٣٦ کہکشائیں، قابل مشاہدہ کائنات میں باقی نظر آئیں گی ، جبکہ ارب ہا کہکشائیں کائناتی افق کے کنارے سے بھی باہر تیرتی ہوئی نکل جائیں گی۔
(اس کی وجہ یہ ہے کہ مقامی جماعت کے درمیان موجود قوّت ثقل اتنی طاقتور ہے جو اس پھیلاؤ کو برداشت کر لے گی۔ حیرت انگیز طور پر جیسے ہی دور دراز کہکشائیں ہماری نظروں کے سامنے سے دور ہوں گی ، کوئی بھی فلکیات دان جو اس تاریک دور میں موجود ہوگا وہ کائنات میں ہونے والے پھیلاؤ کا سراغ لگانے میں ناکام رہے گا۔ مستقبل بعید میں رات کے آسمان کا تجزیہ کرنے والے فلکیات دان پہلی بار اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں گے کہ کائنات میں کوئی پھیلاؤ بھی چل رہا ہے اور وہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ کائنات ساکن اور صرف چھتیس کہکشاؤں پر مشتمل ہے۔)
اگر اس ضد ثقل قوّت کی کارستانیاں جاری رہیں تو کائنات حتمی طور پر عظیم انجماد کے انجام سے دوچار ہوگی۔ کائنات میں رہنے والی تمام ذہین مخلوق آخر کار منجمد ہو کر اذیت ناک موت سے ہمکنار ہوگی۔ کیونکہ اس وقت درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا اور اس درجہ حرارت پر سالمات بذات خود بمشکل حرکت کر پاتے ہیں۔ آج سے دسیوں کھرب سال بعد کسی وقت ستارے اپنی تابانی ہمیشہ کے لئے کھو دیں گے ، ان کے ایندھن ختم ہونے کی وجہ سے ان میں جاری رہنے والی نیوکلیائی آگ بجھ جائے گی۔ اور رات کا آسمان ہمیشہ کے لئے ظلمت کے اندھیرے میں ڈوب جائے گا۔ کائناتی پھیلاؤ اپنے پیچھے صرف ٹھنڈی اور مردہ کالے بونے ستاروں، نیوٹران ستاروں اور بلیک ہولز کی کائنات کو چھوڑ دے گی۔ اور مستقبل میں اور آگے بلیک ہولز بھی اپنی توانائی کو خارج کر دیں گے۔ نتیجتاً بے جان ، ٹھنڈے بنیادی ذرّات کی کہر ہی بچے گی۔ اس سرد ، خنک اور ویران کائنات میں کوئی ذی شعور حیات طبعی طور پر تو وجود قائم نہیں رکھ سکتی۔ حرحرکیات کے فولادی قوانین ایسے کسی بھی منجمد ماحول میں اطلاعات کی منتقلی کی اجازت نہیں دیتے۔ لہٰذا اس ماحول میں تمام حیات کو لازمی طور پر فنا ہونا ہوگا۔
سب سے پہلے اس بات کا ادراک اٹھارویں صدی میں ہوا کہ کائنات کی موت ٹھنڈ میں ہوگی۔ مایوس کن خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ قوانین طبیعیات تمام ذی شعور حیات کا خاتمہ کر دیں گے چارلس ڈارون لکھتا ہے ، " میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ مستقبل بعید میں انسان آج کے مقابلے میں زیادہ مکمل ہوگا ، یہ ایک ناقابل برداشت خیال ہے کہ وہ اور دوسری تمام ذی حس ہستیاں ایک لمبے مسلسل اور سست عمل کے نتیجے میں مکمل فنا سے دوچار ہوں گی۔" بدقسمتی سے ڈبلیو میپ سے حاصل کردہ تازہ ترین مواد ڈارون کے بدترین خدشے کی تصدیق کرتا نظر آ رہا ہے۔
اضافی خلاء میں فرار
یہ طبیعیات کا قانون ہے کہ تمام ذی شعور حیات جو کائنات میں رہتی ہے لازمی طور پر اس حتمی موت سے دوچار ہوگی۔ لیکن یہ بھی ارتقا کا قانون اپنی جگہ موجود ہے کہ جب بھی ماحول تبدیل ہوتا ہے ، حیات یا تو اس ماحول کو چھوڑ دیتی ہے، یا اس سے مطابقت پیدا کر لیتی ہے یا پھر مر جاتی ہے۔ کیونکہ کسی ایسی کائنات کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنا مشکل ہے جو موت سے دوچار ہو رہی ہو، لہٰذا ہم دو چیزوں میں سے صرف ایک ہی کا انتخاب کر سکتے ہیں یا تو مر جائیں یا پھر کائنات کو چھوڑ دیں۔ جب کائنات اپنی حتمی موت کی جانب گامزن ہوگی ، تو کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی تہذیب جو ہم سے کھرب ہا برس آگے اور جدید ہو ، وہ اس قابل ہوں کہ تمام ضروری ٹیکنالوجی کو جمع کرکے ہماری کائنات کو ایک جہتی بچاؤ کشتی میں بیٹھ کر دوسری نوجوان اور گرم کہکشاں کی طرف تیر جائیں؟ اور یا وہ اپنی اعلیٰ درجے کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے "وقت کو خم" دے سکیں اور واپس اپنے ماضی میں سفر کر سکیں جب درجہ حرارت کافی گرم تھا؟
کچھ طبیعیات دانوں نے کچھ معقول تجاویز کو پیش کیا ہے ، ہرچند کہ یہ ابھی بہت زیادہ قیاسی ہیں لیکن انہوں نے دستیاب شدہ سب سے جدید طبیعیات کا استعمال کرتے ہوئے انتہائی حقیقی نقطۂ نظر دوسری کائناتوں میں جانے والے جہتی گزر گاہوں یا راستوں کو پیش کیا ہے۔ طبیعیات کی تجربہ گاہوں میں موجود بلیک بورڈ تجریدی مساواتوں سے اٹے پڑے ہیں۔ طبیعیات دان حساب لگا رہے ہیں کہ آیا "عجیب توانائی" اور بلیک ہولز کا کوئی استعمال دوسری کائناتوں کی گزر گاہوں کو معلوم کرنے کے لئے کیا جا سکتا ہے۔ کیا کوئی جدید تہذیب ، شاید آج سے کروڑوں سے لے کر ارب ہا برسوں بعد ہماری ٹیکنالوجی سے اتنا آگے ہوگی کہ مروجہ قوانین قدرت کا استعمال کرتے ہوئے دوسری کائناتوں میں داخل ہونے کے قابل ہو سکے؟
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر تکوین اسٹیفن ہاکنگ نے ایک دفعہ از روئے طنز کہا تھا ،" ثقب کرم ، اگر ان کا وجود ہے تو، خلاء کے تیز رفتار سفر کے لئے انتہائی موزوں ہوں گے۔ آپ ثقب کرم میں سے ہو کر کہکشاں کے دوسری جانب سفر کر سکتے ہیں اور واپس آکر رات کا کھانا گھر میں کھا سکتے ہیں۔"
اگر ثقب کرم اور جہتی گزرگاہیں بہت ہی زیادہ چھوٹی ہیں اور اس بات کی اجازت دیں کہ ہم اپنی کائنات سے ہجرت کر سکیں تو ایک اور دوسرا اختیار بھی ہوگا یعنی کہ ایک جدید ذی شعور تہذیب کے مکمل علم کو سالماتی پیمانے پر چھوٹا کرکے ان راستوں میں داخل کیا جائے ، تاکہ یہ دوسری جگہ پہنچ کر خود سے اپنی آپ کو از سر نو ترتیب دے سکیں۔ اس طرح سے ایک پوری تہذیب اپنا تخم جہتی گزر گاہوں کے ذریعہ بھیج کر اپنے آپ کو پوری عظمت کے ساتھ قائم کر سکتی ہے۔ اضافی خلاء ، نظری طبیعیات دانوں کے کھیل کے میدان سے نکل کر ممکنہ طور پر ایک ایسا امیدوار بن کر سامنے آئی ہے جو حتمی طور پر ذی شعور حیات کو مرتی ہوئی کائنات سے نجات دلائے گا۔
لیکن اس واقع کے مضمرات کو مکمل طور پر سمجھنے کے لئے ہمیں پہلے یہ بات سمجھنی ہوگی کہ کس طرح سے سخت محنت کرتے ہوئے ماہرین تکوینیات اور ماہرین طبیعیات اس تعجب خیز نتیجے تک پہنچے۔ متوازی جہانوں کے سفر میں ، ہم علم تکوین کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے بالخصوص ہمارا زور ان تناقضات پر ہوگا جنہوں نے اس میدان میں صدیوں تک خلل ڈالے رکھا اور جو افراط پذیر کائنات کی شکل میں منتج ہوئے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو تمام تجرباتی مواد سے تو ہم آہنگ ہے لیکن ہمیں کثیر کائناتوں کے خیال کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں