رات کا آسمان کالا کیوں ہے؟
بنٹلے کے تناقضہ کے علاوہ ایک اور گہرا تناقضہ کسی بھی لامحدود کائنات کے نظریئے میں خلقی طور پر موجود ہے۔ اولبرز کا تناقضہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے کہ رات کا آسمان کالا کیوں ہے۔ جوہانس کیپلر کے دور کے ماہرین فلکیات نے اس بات کا احساس کرلیا تھا کہ اگر کائنات یکساں اور لامحدود ہے تو جہاں کہیں بھی آپ آسمان پر نگاہ دوڑائیں گے آپ کو لامحدود تعداد کے ستاروں سے آتی ہوئی روشنی نظر آئے گی۔ آسمان میں کہیں پر بھی دیکھیں، ہماری نگاہ آخر کار ان گنت ستاروں کی تعداد سے جا ٹکرائے گی اور اس طرح سے ہمیں لامحدود ستاروں کی روشنی نظر آئے گی۔ لہٰذا رات کے آسمان میں تو آگ لگی ہوئی ہونی چاہئے! یہ حقیقت کہ رات کا آسمان سفید نہیں بلکہ کالا ہے ایک بہت ہی لطیف امر ہے لیکن اس کا کائناتی تناقض پر بہت ہی عمیق اثر صدیوں تک رہا ہے۔
اولبرز کا تناقضہ، بنٹلے کے تناقضہ کی طرح معصومانہ حد تک سادہ ہے لیکن اس نے کئی نسلوں سے فلسفیوں اور ماہرین فلکیات کو دق کرکے رکھا ہوا ہے۔ بنٹلے اور اولبرز کا تناقضہ اس مشاہدے پر انحصار کرتا ہے کہ لامحدود کائنات میں ثقلی قوّتیں اور روشنی کی کرنیں صرف لامحدود بے معنی نتائج فراہم کریں گے۔ صدیوں تک غلط جوابات کا ڈھیر پیش کیا جاتا رہا۔ کیپلر تو اس تناقضہ سے اتنا مایوس ہوا کہ اس نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ کائنات محدود ہے جو ایک خول میں بند ہے۔ لہٰذا اس لئے ستاروں کی محدود روشنی ہماری آنکھوں تک پہنچ سکتی ہے۔
اس متناقض بات پر پراگندگی اس قدر زبردست تھی کہ 1987ء میں کی جانے والی ایک تحقیق بتاتی ہے کہ فلکیات کی 70 فیصد نصاب کی کتب میں غلط جواب دیے گئے تھے۔
شروع میں تو کوئی بھی اولبرز کے تناقضہ کو حل کرنے کے لئے یہ کہہ سکتا ہے کہ ستاروں کی روشنی گرد کے بادلوں میں جذب ہو جاتی ہے۔ یہ وہی جواب ہے جو ہینرچ ولہیلم البرز نے خود کو1823ء میں اس وقت دیا جب اس نے واضح طور پر اس تناقض کو بیان کیا تھا۔ البرز نے لکھا، " یہ کتنی خوش قسمتی کی بات ہے کہ زمین فلکی گنبد کے ہر نقطے سے ستاروں کی روشنی حاصل نہیں کرتی! باوجود ناقابل تصوّر روشنی اور حرارت کے جو 90 ہزار گنا اس روشنی اور حرارت کے ہوتی جس کو ہم اب محسوس کرتے ہیں، پروردگار عالم آسانی کے ساتھ ایسے جاندار تخلیق کر سکتا تھا جو اس شدید ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال سکتے۔"
زمین کو سورج کی قرص جتنی پس منظر کی روشنی میں نہانے سے بچنے کے لئے، اولبرز نے تجویز پیش کی کہ گرد کے بادلوں نے لازمی طور پر یہ شدید حرارت جذب کر لی ہوگی تاکہ زمین پر حیات پروان چڑھ سکے۔ مثال کے طور پر ہماری کہکشاں کا شعلہ فشاں مرکز جو رات کے آسمان پر چھایا ہوا ہوتا ہے، اصل میں گرد کے بادلوں کے عقب میں چھپا ہوا ہے۔ اگر ہم برج قوس کے مجموع النجوم کی جانب دیکھیں جہاں پر ملکی وے کا قلب واقع ہے تو ہمیں خیرہ کنا آگ کی گیند کے بجائے تاریکی کے ٹکڑے نظر آئیں گے۔
لیکن گرد کے بادل البرز کے تناقضہ کا صحیح حل پیش نہیں کرتے۔ لامحدود وقت میں یہ گرد کے بادل جو لامحدود ستاروں کی روشنی کو جذب کر رہے ہوں گے بالآخر خود بھی گرم ہو کر کسی ستارے کی طرح منور ہو جائیں گے۔ لہٰذا گرد کے بادل بھی رات کے آسمان میں درخشاں نظر آئیں گے۔
اسی طرح سے کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ستارہ جتنا دور ہوگا اس کی روشنی اتنی ہی مدھم ہوگی۔ یہ بات سچ ہے، لیکن یہ بھی کوئی درست جواب نہیں ہوگا۔ اگر ہم رات کے آسمان کے ایک حصّہ کی جانب دیکھیں، تو دور دراز کے ستارے حقیقت میں بہت ہی مدھم ہیں، لیکن آپ جتنا اور زیادہ دور دیکھیں گے اتنے ہی اور زیادہ ستارے آپ کو نظر آئیں گے۔ یہ دونوں اثرات ایک یکساں کائنات میں ایک دوسرے کا اثر زائل کر دیں گے جس کے نتیجے میں آسمان روشن ہو جائے گا۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ ستاروں کی روشنی کی شدت فاصلے کے جذر المربع کی نسبت سے کم ہوتی ہے، اس کم ہوتی روشنی کا اثر بڑھتے ہوئے فاصلے پر ستاروں کی تعداد فاصلے کی نسبت سے جزر المربع سے بڑھے گی۔)
عجیب بات ہے کہ تاریخ میں سب سے پہلا شخص جس نے اس تناقضے کو حل کیا ہے وہ امریکی پراسرار کہانیاں لکھنے والا مصنف ایڈگر ایلن پو تھا جس کو فلکیات میں کافی عرصے سے دلچسپی رہی تھی۔ اپنا مرنے سے کچھ عرصے پہلے، اس نے اپنے مشاہدے کو ہلکے پھلکے انداز کی فلسفیانہ نظم میں پیش کیا جس کا نام "میں نے پا لیا۔ یہ ایک نثری نظم "تھی۔ ایک قابل دید پیراگراف میں اس نے لکھا:
اگر ستاروں کا تسلسل غیر مختتم ہوتا، تو آسمان کا پس منظر یکساں تابانی کا مظہر ہوتا، جیسا کہ کہکشاں میں نظر آتا ہے - کیونکہ مطلق طور پر پورے پس منظر میں کوئی بھی نقطہ ایسا نہ ہوتا جہاں پر کوئی ستارہ موجود نہ ہوتا۔ صرف ایک ہی بات ایسی ہو سکتی ہے جس میں ہم کو اپنی دوربین سے نظر آنے والی یہ لاتعداد خالی جگہیں سمجھ آتی ہیں کہ غیر مرئی پس منظر میں فاصلہ اس قدر زیادہ ہے کہ اس کی کوئی بھی شعاع ہم تک اب تک پہنچنے کے قابل نہیں ہوئی ہے۔
اس نے اپنی بات تمام کرکے ایسے درج کی " یہ خیال کافی اچھا ہے کہ سچائی کو اس کی اساسیت کے تابع نہ کیا جائے۔"
یہ درست جواب تھا۔ کائنات لامحدود طور پر پرانی نہیں ہے۔ تخلیق کا عمل تھا۔ ایک محدود انفصالی نقطہ اس روشنی کے لئے موجود تھا جو ہماری آنکھوں تک پہنچتی ہے۔ سب سے دور دراز ستارے کی روشنی ابھی ہم تک نہیں پہنچ سکی ہے۔ ماہر تکوین ایڈورڈ ہیرسن جنہوں نے سب سے پہلے اولبرز کے تناقضہ کا 'پو' کا حل دریافت کیا تھا، نے لکھا ہے، "جب میں نے 'پو' کے لفظوں کو پہلی دفعہ پڑھا تو میں ہکا بکا رہ گیا۔ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شاعر بلکہ اس کو شوقیہ سائنس دان کہنا بہتر ہوگا، نے صحیح جواب برسوں پہلے بوجھ لیا تھا جبکہ ہمارے کالجز میں غلط وضاحت ابھی تک پڑھائی جا رہی ہے؟"
1901ء میں اسکاٹ لینڈ کے رہائشی طبیعیات دان لارڈ کیلون نے بھی صحیح جواب حاصل کرلیا تھا۔ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جب آپ رات کے آسمان کو دیکھتے ہیں، تو آپ روشنی کی رفتار کی حد کی وجہ سے اس کو حال کے بجائے ماضی میں دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ روشنی کی رفتار زمین کے پیمانے پر بہت برق رفتار (186,282میل فی سیکنڈ) ہونے کے باوجود محدود ہے، اور دور دراز تاروں کی روشنی کو زمین تک پہنچنے کے لئے وقت درکار ہوتا ہے۔ کیلون نے حساب لگایا کہ رات کے آسمان کو روشن ہونے کے لئے کائنات کو ہزار ہا کھرب نوری برسوں پر پھیلا ہوا ہونا چاہئے۔ لیکن کیونکہ کائنات دسیوں کھرب سال عمر کی نہیں ہے لہٰذا رات کا آسمان لازمی طور پر کالا ہے۔ (ایک دوسری وجہ کہ آیا کیوں رات کا آسمان کالا ہے وہ ستاروں کی محدود زندگی ہے، جس کو ارب ہا برسوں میں ناپا جاتا ہے۔)
حال ہی میں پو کے حل کی صحت کو تجرباتی طور پر ہبل خلائی دوربین جیسے سیارچوں کی مدد سے جانچا جانا ممکن ہو سکا ہے۔ یہ طاقتور دوربینیں ہمیں ان سوالات کا جواب بھی دیتی ہیں جن کو بچے بھی اکثر پوچھتے ہیں : سب سے دور ستارہ کہاں ہے؟ اور اس پرے ستارے سے آگے کیا ہے؟ ان سوالات کے جواب کے لئے ماہرین فلکیات نے نے ہبل خلائی دوربین کو ایک تاریخی کام کرنے پر لگا دیا۔ یعنی کہ اس سے کائنات کے دور دراز حصّے کی تصویر لی۔ خلاء کی گہرائیوں میں موجود حد درجے دھندلا تی ستاروں کی روشنی کی تصویر حاصل کرنے کے لئے، دوربین کو ایک بے نظیر کام سرانجام دینا تھا یعنی انتہائی صحت و درستگی کے ساتھ آسمان میں برج جوزا کے قریب آسمان کے ایک نقطہ کی طرف دوربین سے کل ملا کر کئی سو گھنٹے تک دیکھنا تھا۔ اس کام کے لئے دوربین کو بے عیب طریقے سے زمین کے گرد چار سو مرتبہ چکر لگاتے ہوئے ایسا صف بستہ رہنا تھا کہ اس کی نظر ایک ہی جگہ ٹکی رہے۔ یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس میں چار مہینے سے بھی زائد کا عرصہ لگ گیا تھا۔
2004ء میں ایک ششدر کر دینے والی تصویر شایع ہوئی جس نے دنیا میں اکثر اخباروں کے صفحہ اوّل پر جگہ پائی۔ اس میں دس ہزار کہکشاؤں کا مجموعہ نظر آ رہا تھا جو بگ بینگ کے بعد بننا شروع ہوئی تھیں۔ "شاید ہم شروعات کا اختتام دیکھ رہے تھے" اس بات کا اظہار اسپیس ٹیلی سکوپ سائنس انسٹیٹیوٹ کے انٹون کوکے مور نے کیا۔ اس تصویر میں بے ترتیب مدھم کہکشائیں زمین سے تیرہ ارب نوری برس کے فاصلے پر نظر آ رہی ہیں یعنی ان کو روشنی کو زمین تک پہنچنے کے لئے تیرہ ارب برس کا وقت لگا۔ کیونکہ خود کائنات کی عمر تیرہ ارب ستر کروڑ برس کی ہے اس کا مطلب ہے کہ یہ کہکشائیں لگ بھگ تخلیق کے پچاس کروڑ برس بعد بننا شروع ہو گئیں تھیں۔ جب اولین ستارے اور کہکشائیں بگ بینگ کے بچے ہوئے گیسوں کے ملغوبے سے بننا شروع ہو گئیں تھیں۔ "ہبل ہمیں بگ بینگ کے نہایت قریب لے جاتی ہے،" انسٹیٹیوٹ کے ماہر فلکیات ماسیمو اسٹیواویلی نے کہا۔
لیکن اس سے سوال اٹھتا ہے کہ دور دراز کی کہکشاں کے پار کیا ہے؟ جب اس حیرت انگیز تصویر کو دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ واضح چیز ان کہکشاؤں کے درمیان تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ یہ تاریکی ہی رات کے آسمان کی تاریکی کا سبب ہے۔ یہ دور دراز کے ستارے سے آتی ہوئی روشنی کا آخری انفصالی نقطہ ہے۔ بہرحال یہ تاریکی اصل میں پس منظر کی خرد موجی اشعاع ہیں۔ لہٰذا حتمی جواب اس سوال کا جس میں یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیوں رات کا آسمان کالا ہے یہ ہے کہ رات کا آسمان کالا تو بالکل بھی نہیں ہے۔ (اگر ہماری آنکھیں صرف بصری روشنی کے بجائے خرد موجی اشعاع دیکھنے کے قابل ہوتیں تو ہم بگ بینگ سے نکلنے والی اشعاع کا سیلاب دیکھ سکتے۔ ایک طرح سے بگ بینگ سے پیدا ہونے والی اشعاع روزانہ رات کے آسمان میں نظر آتی ہیں۔ اگر ہماری آنکھیں خرد موجوں کو دیکھنے کے قابل ہوتیں تو ہم دور دراز تارے کے پار تخلیق کو خود سے دیکھ سکتے۔)
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں