Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 29 دسمبر، 2015

    آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کے تناقضات

    باغی آئن سٹائن 


    نیوٹن کے پیش کردہ میکانیات اور ثقلی قوانین اس قدر کامیاب تھے کہ سائنس کو البرٹ آئن سٹائن کے کام کے ساتھ اگلا نتیجہ خیز قدم اٹھانے میں دو سو سال سے کچھ زیادہ کا عرصہ لگ گیا۔ آئن سٹائن نے اپنا پیشہ بطور غیر امید افزا انقلابی امیدوار کے شروع کیا۔ 1900ء میں جب وہ زیورخ میں واقع پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے فارغ التحصیل ہوا تو اس کا سامنا مایوس کن حالات سے تھا۔ وہ بیروزگار تھا۔ اس کا مستقبل اس کے پروفیسر کے ہاتھوں برباد ہو گیا تھا۔ پروفیسر جماعت سے اکثر غائب رہنے والے اس منہ پھٹ اور بیباک طالبعلم کو انتہائی ناپسند کرتا تھا۔ اس کے خطوط کی صورت میں موجود بیان اس بات کی گہرائی کو ثابت کرتے تھے کہ کس طرح سے ٹوٹ کر اس سے بدلہ لیا گیا تھا۔ آئن سٹائن اپنے آپ کو ایک ناکام اور والدین پر تکلیف دہ بوجھ سمجھتا تھا۔ ایک دل خراش خط میں، وہ قبول کرتا ہے کہ اس نے خود کو ختم کرنے کا بھی سوچا تھا۔" میرے والدین کی بدقسمتی ہے، جنہیں کئی برسوں تک مسرت کا کوئی لمحہ میسر نہیں ہوا اس کا سب سے بڑا سبب میں ہوں۔۔۔۔ میں صرف اپنے رشتے داروں پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوں۔۔۔ یہ یقینی طور پر زیادہ بہتر ہوتا اگر میں پیدا ہی نا ہوا ہوتا،" اس نے اداسی سے لکھا۔

    مایوسی کی حالت میں اس نے اپنا پیشہ تبدیل کیا اور ایک انشورنس کمپنی میں ملازمت کر لی۔ یہاں تک کہ اس نے بچوں کی معلمی بھی کی لیکن اس کی اپنے آجر سے کسی بات پر تلخ کلامی ہو گئی اور اس کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جب اس کی محبوبہ ملیوا مارک غیر متوقع طور پر امید سے ہو گئی تب اسے احساس ہوا کہ ان کے بچے غیر قانونی طور پر پیدا ہوں گے کیونکہ اس کے پاس شادی کرنے کے لئے وسائل موجود نہیں تھے۔(کوئی نہیں جانتا کہ اس کی غیر قانونی بیٹی لیزرل کے ساتھ کیا ہوا۔) اور یہ گہرے ذاتی صدمے سے اس وقت اور دوچار ہوا جب اس کے والد کی اچانک موت ہو گئی۔ اس صدمے نے اس کے دل پر وہ داغ چھوڑا جو کبھی نہیں بھر سکا۔ اس کے والد کا انتقال یہ سوچتے ہوئے ہو گیا کہ اس کا بیٹا ناکارہ ہے۔

    ہرچند 1901ء اور 1902ء آئن سٹائن کی زندگی کا بدترین دور تھا، لیکن آئن سٹائن کے ہم جماعت مارسیل گروسمین کی سفارش نے اس کو گمنامی کے اندھیرے میں ڈوبنے سے بچالیا جس کے نتیجے میں اس کو ایک نسبتاً محفوظ البتہ حقیر محرر کی نوکری برن میں واقع سوئس پیٹنٹ آفس میں ملی۔


    اضافیت کے تناقضات 

    بظاہر دیکھیں تو پیٹنٹ آفس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں سے طبیعیات کی دنیا میں نیوٹن کے بعد عظیم انقلاب برپا کیا جائے۔ لیکن اس جگہ کے اپنے فوائد تھے۔ میز پر رکھی پیٹنٹ کی فائلوں کو تیز رفتاری کے ساتھ بھگتانے کے بعد آئن سٹائن سکون سے بیٹھ جاتا تھا اور اپنے اس خواب کو دیکھنے لگتا تھا جو وہ اپنے لڑکپن کی عمر سے دیکھتا آیاتھا۔ اپنی نوجوانی کے عالم میں اس نے ایرون برنسٹین کی ایک کتاب پڑھی تھی جس کا نام "قدرتی سائنس پر عوامی کتاب" تھا۔ "ایک ایسا کام جس کو میں توجہ سے سانس لئے بغیر پڑھ جاتا تھا،" وہ بتاتا ہے۔ برنسٹین قارئین سے کہتا ہے کہ وہ اس بات کا تصوّر کریں کہ وہ برق کے ساتھ اس وقت چل رہے ہیں جب وہ تار میں سے گزر رہی ہے۔ جب وہ سولہ برس کا ہوا تو آئن سٹائن نے خود سے سوال کیا :اگر آپ  روشنی کی کرن کو پکڑیں گے تو وہ کیسی لگے گی؟ آئن سٹائن ماضی کے اوراق پلٹ کر یاد کرتا ہے،" ایسا کوئی بھی اصول اس تناقض (پیراڈوکس) کا نتیجہ ہوگا جس سے میرا واسطہ سولہ برس کی عمر میں پڑا تھا۔ اگر میں روشنی کی کرن کو سمتی رفتار (ولاسٹی)  c (روشنی کی سمتی رفتار خلاء میں ) سے پکڑنے کی کوشش کروں، تو مجھے ایسی روشنی کی کرن کا مشاہدہ کرنا چاہئے جو مکانی مرتعش برقی مقناطیسی میدان (spatially oscillatory electromagnetic field) میں حالت سکون میں ہو۔ بہرحال ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی چاہئے وہ تجربات کی رو سے ہوئے یا میکسویل کی مساوات کی روشنی میں۔" بچے کے طور پر آئن سٹائن نے سوچا کہ اگر آپ روشنی کی کرن کے ساتھ ساتھ دوڑ سکتے ہیں تو وہ منجمد دکھائی دے گی جیسا کہ حرکت کے بغیر موج۔ بہرحال کسی نے بھی منجمد روشنی کو نہیں دیکھا لہٰذا دال میں کچھ کالا ہے۔

    صدی کے آغاز میں طبیعیات کے دو ایسے عظیم ستون موجود تھے جس پر طبیعیات کی تمام عمارت کھڑی تھی۔ ایک تو نیوٹن کی میکانیات اور قوّت ثقل تھی، جبکہ دوسری میکسویل کا روشنی کا نظریہ تھا۔ 1860ء کے عشرے میں اسکاٹ لینڈ کے رہائشی طبیعیات دان جیمز کلارک میکسویل نے اس بات کو ثابت کیا کہ روشنی مرتعش برق (vibrating electric) اور مقناطیسی میدان پر مشتمل ہے جو متواتر ایک دوسرے میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ آئن سٹائن حیرت زدہ تھا کیونکہ یہ دونوں ستون ایک دوسرے سے متصادم تھے اور ان میں سے کسی ایک کو گرنا تھا۔

    میکسویل کی مساوات میں اس نے اس معمے کا حل تلاش کرلیا جو اس کو دس برس سے پریشان کیے ہوئے تھا۔ آئن سٹائن نے ایک ایسی چیز کھوج لی تھی جس کو دریافت کرنے سے میکسویل بھی چوک گیا تھا۔ میکسویل کی مساوات نے بتایا کہ روشنی مسلسل ایک سمتی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ اس کو پکڑنے کے لئے کتنی بھی کوشش کر لیں۔ روشنی کی رفتار c تمام جمودی ترتیب (inertial frames) میں ایک جیسی ہی ہوگی (یعنی ترتیب ایک مستقبل سمتی رفتار سے سفر کرے گی)۔ چاہئے آپ ساکن کھڑے ہوں، یا ٹرین میں محو سفر ہوں، یا پھر تیز رفتار دم دار ستارے پر سوار ہوں، آپ روشنی کی ایک ایسی کرن دیکھیں گے جو آپ سے آگے اسی ایک جیسی رفتار سے بھاگ رہی ہوگی۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ کتنی تیزی سے حرکت کرتے ہیں آپ کبھی بھی روشنی کی رفتار کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتے۔

    یہ نظریہ فوری طور پر تناقضات کے پہاڑ کھڑا کر دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے تصوّر کریں کہ کوئی خلا نورد روشنی کی کرن کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ خلا نورد اپنے راکٹ کو دوڑاتا ہے یہاں تک کہ وہ روشنی کی رفتار کے دوش بدوش چلنے لگتا ہے۔ زمین پر کھڑا ناظر اس فرضی پکڑم پکڑائی کو دیکھ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ خلا نورد اور روشنی کی رفتار ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو سفر کر رہی ہیں۔ بہرحال خلا نورد ایک مکمل الگ بیان دے گا۔ وہ بتائے گا کہ روشنی تو اس سے ایسے تیز رفتاری سے آگے نکلتی ہوئی نظر آ رہی ہے جیسے کہ اس کا راکٹ ساکن کھڑا ہو۔

    جو سوال آئن سٹائن کو پریشان کر رہا تھا وہ یہ تھا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ دو لوگ ایک ہی واقعہ کی دو مختلف تاویل پیش کریں ؟ نیوٹن کے نظریہ کے مطابق روشنی کی رفتار کو کوئی بھی ہمیشہ پکڑ سکتا تھا۔ آئن سٹائن کی دنیا میں یہ بات ناممکن تھی۔ اچانک ہی اس پر منکشف ہوا کہ طبیعیات کی بنیاد میں تو ایک بنیادی نقص ہے۔ 1905ء کے موسم بہار میں "میرے دماغ میں ایک طوفان چل رہا تھا۔" آئن سٹائن یاد کرتا ہے۔ ایک ہی ہلے میں اس نے آخر کار مسئلہ کا حل تلاش کرلیا۔ وقت مختلف شرح سے گزرتا ہے، اس کے گزرنے کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ کتنی تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ حقیقت میں جتنا تیز آپ حرکت میں ہوں گے اتنی ہی آہستہ وقت گزرے گا۔ وقت کوئی مطلق چیز نہیں ہے، جیسا کہ نیوٹن کبھی سوچتا تھا۔ نیوٹن کے مطابق، وقت یکساں رفتار سے پوری کائنات میں گزرتا ہے، لہٰذا زمین پر گزرا ایک سیکنڈ مشتری یا مریخ پر گزرے ایک سیکنڈ کے برابر ہی ہوگا۔ گھڑیاں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ پوری کائنات میں چلتی ہیں۔ آئن سٹائن کے مطابق بہرحال مختلف گھڑیاں مختلف شرح سے پوری کائنات میں چلتی ہیں۔ 

    آئن سٹائن کو اس بات کا ادراک ہو گیا تھا کہ اگر وقت کی تبدیلی آپ کی سمتی رفتار پر منحصر ہے تو دوسری چیزیں جیسا کہ لمبائی، مادّہ اور توانائی کو بھی تبدیل ہونا چاہئے۔ اس کو معلوم ہوا کہ جتنا تیز آپ حرکت کریں گے اتنا ہی فاصلہ سمٹ جائے گا (اس کو اکثر لورینٹز فٹز جیرالڈ سمٹاؤ [Lorentz-FitzGerald contraction] بھی کہتے ہیں )۔ اسی طرح سے جتنا تیز آپ حرکت کریں گے اتنی ہی زیادہ آپ بھاری ہوں گے۔(درحقیقت جب آپ روشنی کی رفتار کے قریب پہنچیں گے، وقت آہستہ ہو کر رک جائے گا، جو بہت ہی فضول سی بات لگتی ہے۔) یہی وجہ ہے کہ آپ روشنی کی رفتار کی حد کو نہیں توڑ سکتے۔ روشنی کی رفتار کائنات میں کسی بھی چیز کی رفتار کی حد ہے۔)


    مکان و زمان کے اس محیرالعقل بگاڑ، نے ایک شاعر کو یہ لکھنے پر مجبور کر دیا:

    ایک نوجوان مقتدی جس کا نام فسک تھا 
    جس کی تلوار بازی کا فن نہایت ہی بہترین تھا 
    اس کے وار اس قدر برق رفتار تھے
    کہ فرٹز جیرالڈ کے سمٹاؤ نے 
    اس کی دو دھاری تلوار کو کم کرکے قرص بنا دیا تھا۔

    جس طرح سے نیوٹن کی دریافت نے زمینی طبیعیات کو سماوی طبیعیات سے ہم آہنگ کر دیا تھا، بعینہ ایسے ہی آئن سٹائن نے مکان کو زمان کے ساتھ ایک کر دیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس نے یہ بھی ثابت کیا کہ مادّہ اور توانائی بھی ایک ہی ہیں لہٰذا ایک دوسرے میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اگر کوئی جسم تیزی سے حرکت کرتا ہوا بھاری ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ توانائی، مادّے میں تبدیل ہو رہی ہے۔ اس کا الٹ بھی درست ہوگا - مادّہ بھی توانائی میں بدل سکتا ہے۔ آئن سٹائن نے حساب لگایا کہ کتنی توانائی مادّہ میں تبدیل ہو سکتی ہے اور نتیجتاً اس کو E=MC^2 کا فارمولا حاصل ہوا۔ یعنی کہ مادّے کی ننھی سی مقدار "m " کو بھی اس وقت ایک عظیم عدد سے ضرب دینا ہوگا (جو روشنی کی رفتار کا مربع ہوگا) جب وہ توانائی میں بدلتی ہے۔

    اس طرح سے ستاروں کی توانائی کے پراسرار مادّے کے منبع کی توانائی میں تبدیلی اس مساوات کے ذریعہ ظاہر ہوئی اور اسی نے کائنات کو روشن کیا ہوا ہے۔ ستاروں کا راز ایک سادے سے جملے سے حاصل کیا جا سکتا ہے کہ روشنی کی رفتار ہر جمودی ڈھانچے میں یکساں ہوگی۔

    اپنے پیش رو نیوٹن کی طرح آئن سٹائن نے حیات کی سیج کو دیکھنے کا طریقہ بدل دیا۔ نیوٹن کی دنیا میں تمام اداکاروں کو نہایت درستگی کے ساتھ معلوم تھا کہ کیا وقت ہوا ہے اور فاصلہ کیسے ناپا جاتا ہے۔ وقت کے بہنے کی رفتار اور سیج کی جہت کبھی بھی نہیں بدلتی تھی۔ لیکن اضافیت نے ہمیں مکان و زمان کو سمجھنے کا ایک عجیب نقطۂ نظر دیا۔ آئن سٹائن کی دنیا میں تمام اداکاروں کی گھڑی وقت کو الگ الگ بتاتی ہے۔ لہٰذا سیج پر موجود تمام گھڑیوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ناممکن ہے۔ اداکاروں کی ریہرسل کے لئے دوپہر کا مطلب مختلف اداکاروں کے لئے مختلف ہوگا۔ دراصل عجیب و غریب چیزیں اس وقت پیدا ہونا شروع ہو جائیں گی جب اداکار سیج پر دوڑنے لگیں گے۔ جتنا تیزی سے وہ حرکت کریں گے، اتنا آہستہ ان کی گھڑیاں چلیں گی اور ان کے جسم اتنے ہی زیادہ بھاری اور چپٹے ہوں گے۔ 

    آئن سٹائن کے نقطۂ نظر کو سائنسی سماج میں اپنی پہچان بنانے میں برسوں کا عرصہ لگ گیا۔ لیکن آئن سٹائن بیکار نہیں بیٹھا ؛ وہ اپنے اس اضافیت کے نظریئے کو قوّت ثقل پر لاگو کرنا چاہتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے، اس نے اپنے دور کے سب سے زیادہ کامیاب نظریئے سے شروع کیا۔ میکس پلانک جو کوانٹم کے نظریئے کا بانی تھا اس نے اسے خبردار کرتے ہوئے کہا، " ایک دیرینہ ساتھی کی حیثیت سے، میں تمہیں اس کے خلاف پہلے ہی نصیحت کرتا ہوں، تم کامیاب نہیں ہو گے، اور اگر کامیاب بھی ہو گئے تو کوئی بھی تمہارا یقین نہیں کرے گا۔"

    آئن سٹائن کو اس بات کا ادراک ہو چکا تھا کہ اس کا نظریہ اضافیت نیوٹنی قوّت ثقل کے نظریئے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ نیوٹن کے مطابق قوّت ثقل فی الفور تمام کائنات میں سفر کرتی ہے۔ لیکن اس سے ایک سوال اٹھتا ہے جو اکثر بچے بھی پوچھتے ہیں کہ "اگر یک دم سورج غائب ہو جائے تو کیا ہو گا؟" نیوٹن کے مطابق تمام کائنات سورج کے غائب ہونے کی ایک ساتھ شاہد ہوگی۔ لیکن خصوصی اضافیت کے نظریئے میں یہ بات ناممکن تھی کیونکہ ستارے کا غائب ہونا روشنی کی رفتار سے مشروط ہے۔ اضافیت کے مطابق سورج کے یکدم غائب ہو جانے سے ایک کروی ثقلی صدماتی موج پیدا ہوگی جو باہر کی جانب روشنی کی رفتار سے سفر کرے گی۔ اس صدماتی موج سے باہر شاہد کہے گا کہ سورج اب بھی چمک رہا ہے کیونکہ قوّت ثقل ابھی اس تک نہیں پہنچی ہے۔ لیکن کرہ کے اندر کوئی بھی شاہد کہے گا کہ سورج غائب ہو گیا ہے۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے آئن سٹائن نے ایک بالکل ہی مختلف مکان و زمان کی صورت پیش کی۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئنسٹائن کے نظریہ اضافیت کے تناقضات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top