Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 30 دسمبر، 2015

    مکانی خمیدگی

    قوّت بطور مکانی خمیدگی(FORCE AS THE BENDING OF SPACE)


    نیوٹن کا مکان و زمان ایک خالی کھیل کا میدان تھا جس میں واقعات قوانین حرکت کے تحت وقوع پذیر ہوتے تھے۔ سیج حیرتوں اور اسرار سے بھری ہوئی تھی، لیکن بنیادی طور پر یہ جمودی اور بے حرکت ہوتی ہے، جیسے کوئی بے حس قدرت کے ناچ کا ناظر۔ آئن سٹائن نے بہرحال اس خیال کو تلپٹ کر دیا۔ آئن سٹائن کے لئے سیج زندگی کا ایک اہم حصّہ بن گئی تھی۔ آئن سٹائن کی کائنات میں مکان و زمان نیوٹن کے فرض کیے ہوئے ساکن کھیل کے میدان نہیں تھے۔ بلکہ یہ متحرک اور عجیب انداز میں خمیدہ اور مڑے ہوئے تھے۔ حیات کی سیج کو ایک ترپال کے جال سے بدل کر اس طرح فرض کر لیں، جیسے اداکار حلیمانہ طریقے سے اپنے وزن سے اس میں دھنس رہے ہیں۔ اس طرح کے کھیل کے میدان میں سیج خود سے اتنا اہم ہو گیا ہے جتنا کہ اس کے اداکار۔

    فرض کریں کہ ایک باؤلنگ بال کو بستر پر رکھا ہوا ہے جو آہستگی کے ساتھ گدے میں دھنس رہی ہے۔ آپ ایک کنچا گدے کی خمدار سطح کی جانب چھوڑیں۔ یہ باؤلنگ بال کے گرد ایک خمدار راستے میں محو سفر ہوگا۔ ایک نیوٹنی جو دور سے کنچے کا نظارہ کر رہا ہوگا وہ یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ کنچے پر باؤلنگ بال کوئی پراسرار قوّت لگا رہی ہے۔ ایک نیوٹنی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ باؤلنگ بال کھنچاؤ پیدا کر رہی ہے جو کنچے کو مرکز کی جانب دھکیلنے کے لئے قوّت لگا رہی ہے۔

    لہٰذا آئن سٹائن اس نتیجے پر پہنچا کہ قوّت ثقل ایک غیر مرئی چیز کے بجائے ایک ساخت (فیبرک) ہے جو کائنات میں فی الفور عمل کرتی ہے ۔ اگر کوئی اس ساخت کو تیزی سے ہلائے گا تو موجیں پیدا ہوں گی جو سطح کے ساتھ ایک محدود رفتار سے سفر کریں گی۔ یہ امر سورج کے غائب ہونے کے تناقض کو حل کر دیتا ہے۔ اگر قوّت ثقل مکان و زمان کی ساخت کے خم ہونے کی ضمنی پیداوار ہے، تو سورج کے غائب ہونے کا مقابلے باؤلنگ بال کو اچانک بستر سے اٹھا کر کیا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی بستر واپس اچھل کر اپنی اصل جگہ جائے گا ویسے ہی موجیں بستر کی چادر پر محدود رفتار سے سفر کریں گی۔ لہٰذا مکان و زمان کے خم کو کم کرکے آئن سٹائن قوّت ثقل اور اضافیت میں موافقت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔

    فرض کریں کہ ایک چیونٹی ایک شکن دار کاغذ کے پنے کو چل کر پار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ ایک نشے میں دھت ملاح کی طرح چل رہی ہوگی، جب وہ شکن شدہ علاقے کو پار کرنے کی کوشش کر رہی ہوگی تو وہ سیدھی سے الٹی طرف بصورت معکوس جھول رہی ہوگی۔ چیونٹی احتجاج کرے گی کہ وہ نشے کی حالت میں نہیں ہے بلکہ کوئی پراسرار قوّت اس کو کبھی سیدھے سے الٹے تو کبھی الٹے سے سیدھی جانب کھینچ رہی ہے۔ چیونٹی کے لئے خالی جگہ پراسرار قوّتوں سے لبریز ہے جو اس کو سیدھے راستے پر چلنے نہیں دے رہی۔ قریب سے چیونٹی کو دیکھنے سے ہمیں معلوم ہوگا کہ کوئی بھی ایسی طاقت نہیں ہے جو اس کو کھینچ رہی ہو۔ اس کو شکن دار کاغذ کے پنے کی شکنوں سے پریشانی ہو رہی ہے۔ چیونٹی پر لگنے والی قوّت ایک ایسا سراب ہے جو مکان کے خم سے خود پیدا ہوا ہے۔ یہ "کھنچاؤ " کی قوّت اصل میں "دھکیل" کی قوّت ہے جو سی وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ کاغذ کی شکن پر چل رہی ہوتی ہے۔ با الفاظ دیگر قوّت ثقل کھینچتی نہیں ہے بلکہ خلاء دھکیلتی ہے۔

    1915ء میں آئن سٹائن نے بالآخر عمومی نظریئے اضافیت کو مکمل کرلیا جو تب سے لے کر اب تک اس عمارت کی بنیاد بنی ہوئی ہے جس پر تمام علم تکوین رکھا ہوا ہے۔ اس نئی حیران کن تصویر میں قوت ثقل کوئی ایسی خود مختار قوّت نہیں ہے جس نے کائنات کو لبریز کیا ہوا ہے بلکہ یہ تو مکان و زمان کی ساخت میں ہونے والے خم کا ایک ظاہری اثر ہے۔ اس کا نظریہ اس قدر طاقتور تھا کہ وہ اس کو صرف ایک آدھ انچ کی مساوات میں بیان کر سکتا تھا۔ اس شاندار نئے نظریئے میں مکان و زمان میں خم کی مقدار کو مادّے اور توانائی کی مقدار سے معلوم کیا جاتا ہے۔ تصور کیجئے کہ آپ ایک پتھر تالاب میں پھینک رہے ہیں، پتھر تالاب میں گرنے کے ساتھ ہی لہروں کا ایک سلسلہ پیدا کرے گا۔ جتنا بڑا پتھر ہوگا اتنا ہی وہ تالاب کی سطح میں خم پیدا کرے گا۔ بعینہ جتنا بڑا ستارہ ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ اپنے آس پاس کے مکان و زمان میں خلل ڈالے گا۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    2 comments:

    گمنام کہا... 30 دسمبر، 2015 کو 4:29 PM

    جناب آپ نے تو خشک نوالے کو تر بنا دیا ہے۔

    Zuhair Abbas کہا... 30 دسمبر، 2015 کو 4:58 PM

    پسند کرنے کا شکریہ! اصل کام تو کاکو کا ہے ہم نے تو بس ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے!

    Item Reviewed: مکانی خمیدگی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top