Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعرات، 31 دسمبر، 2015

    علم کائنات کی پیدائش

    علم کائنات کی پیدائش 

    آئن سٹائن اس تصور کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کو بحیثیت مجموعی بیان کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ اس وقت تک اس بات سے بے خبر تھا کہ اسے بالاخر بنٹلے کے تناقضہ (پیراڈوکس) کا سامنا کرنا ہوگا جسے صدیوں پہلے پیش کیا گیا تھا۔ 1920ء کی دہائی میں زیادہ تر ماہرین فلکیات اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ کائنات یکساں اور ساکن ہے۔ لہٰذا آئن سٹائن نے آغاز ہی اس بات سے کیا کہ کائنات یکساں طور پر گرد و ستاروں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک نمونے (ماڈل) میں کائنات کو ایک بڑے غبارے یا بلبلے کی تشبیہ دی جاسکتی تھی۔ ہم غبارے کی سطح پر رہ رہے ہیں۔ ستارے اور کہکشائیں جو ہمارے ارد گرد ہیں ان کو غبارے کی سطح پر منقش نقطوں سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔

    جب بھی وہ اپنے نظریہ کی مساوات کو حل کرنے جاتا، تو اس کو اپنی توقعات کے برخلاف کائنات متحرک ملتی۔ آئن سٹائن نے اسی مسئلہ کا سامنا کیا جس کو بنٹلے نے دو سو برس پہلے تشخیص کیا تھا۔ قوّت ثقل ہمیشہ سے کشش رکھتی ہے، اور کبھی دفع نہیں کرتی، لہٰذا ایک محدود ستاروں کے مجموعے کو منہدم ہوتے ہوئے ایک آگ کے گولے میں تبدیل ہونا چاہئے تھا۔ یہ نتیجہ بیسویں صدی کے ابتدا کی کائنات فہمی سے متصادم تھا جو کہتی تھی کہ کائنات یکساں اور ساکن ہے۔

    آئن سٹائن جیسا انقلابی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ کائنات حرکت میں ہو سکتی ہے۔ نیوٹن اور دوسرے سائنس دانوں کے جم غفیر کی طرح آئن سٹائن بھی ساکن کائنات پر یقین رکھتا تھا۔ لہٰذا 1917ء میں آئن سٹائن مجبور ہوا کہ اپنی اس مساوات میں ایک نئی اصطلاح کو شامل کرے۔ ایک "من گھڑت عامل" جو ایک نئی طاقت کو اس نظریئے میں پیدا کرتا ہے یعنی کہ ضد ثقل جو ستاروں کو ایک دوسرے سے دور کرتی ہے۔ آئن سٹائن نے اس کو "کونیاتی مستقل" (کوسمولوجیکل کانسٹنٹ) کا نام دیا۔ یہ ایک ایسا ٹاٹ کا پیوند تھا جو آئن سٹائن کے نظریئے میں لگانا ضروری تھا۔ آئن سٹائن نے پھر اس ضد ثقل کو قوّت ثقل کو زائل کرنے کے لئے خود ہی سے شامل کرلیا جس کے نتیجے میں کائنات ساکن ہو گئی۔ با الفاظ دیگر کائنات ایک حکم کے ذریعہ ساکن بن گئی تھی۔ قوّت ثقل کی وجہ سے کائنات کا اندرونی طرف سمٹاؤ تاریک توانائی کے باہر طرف زور لگانے سے زائل ہو گیا تھا۔ (ستر برسوں تک، یہ ضد ثقل کی قوّت یتیم بنی رہی تاوقتیکہ پچھلے چند برسوں میں اس کو بازیافت کیا گیا۔)

    1917ء میں ولندیزی طبیعیات دان ویلم ڈی سٹر نے آئن سٹائن کے نظریئے کا ایک اور حل پیش کیا، جس میں کائنات لامحدود تو تھی لیکن مکمل طور پر مادّے سے خالی تھی۔ اصل میں وہ صرف توانائی پر مشتمل تھی (یعنی کہ کائناتی مستقل)جو خالی جگہ میں موجود تھا۔ یہ خالص ضد ثقل کی قوّت ہی اس قابل تھی کہ تیز اور برق رفتار کائنات کے پھیلاؤ کو جاری رکھے۔ بلکہ مادّے کے بغیر، یہ تاریک توانائی بھی پھیلتی ہوئی کائنات کو پیدا کر سکتی ہے۔

    طبیعیات دان اب ایک مخمصے کا سامنا کر رہے تھے۔ آئن سٹائن کی کائنات میں مادّہ تو تھا لیکن حرکت نہیں تھی، ڈی سٹر کی کائنات میں حرکت تھی لیکن کوئی مادّہ نہیں تھا۔ آئن سٹائن کی کائنات میں کائناتی مستقل لازمی تھا تاکہ قوّت ثقل کی کشش کو زائل کرکے ایک ساکن کائنات کو بنا سکے۔ جبکہ دی سٹر کی کائنات میں صرف کائناتی مستقل ہی پھیلتی ہوئی کائنات کو بنانے کے لئے کافی تھا۔


    1919ء میں سائنس دانوں کی دو جماعتیں آئن سٹائن کی روشنی سے متعلق پیشن گوئی کی تصدیق کرنے کے لئے نکلیں۔ اس پیش گوئی میں کہا گیا تھا کہ دور دراز ستاروں کی روشنی جب سورج کو پار کرے گی تو وہ خم کھا جائے گی۔ لہٰذا سورج کی موجودگی میں ستارے کا محل وقوع اس کے عام محل وقوع سے دور حرکت کرتا ہوا نظر آئے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج نے اپنے ارد گرد مکان و زمان میں خم پیدا کیا ہوگا۔ 

    بالآخر 1919ء میں جب یورپ جنگ عظیم اوّل کی خونریزی اور بربادی کے ملبے سے نکلنے کی سعی کر رہا تھا، تو ماہرین فلکیات کی ٹیموں کو پوری دنیا میں بھیجا گیا تاکہ وہ آئن سٹائن کے پیش کردہ نئے نظریئے کی جانچ کر سکیں۔ آئن سٹائن پہلے ہی یہ کہہ چکا تھا کہ سورج کا پیدا کردہ مکان و زمان کا خم اتنا ہوگا کہ وہ اپنے ارد گرد سے گزرنے والی ستاروں کی روشنی کو موڑ سکے۔ ستاروں کی روشنی کو سورج کے گرد درست اور قابل حساب طریقے سے خم کھانا چاہئے تھا بعینہ جیسے شیشہ روشنی کو موڑ دیتا ہے۔ لیکن کیونکہ دن میں سورج کی چمک ستاروں کی روشنی کو چھپا لیتی ہے لہٰذا سائنس دانوں کو سورج گرہن کا انتظار کرنا تھا تاکہ وہ اس فیصلہ کن تجربے کو کر سکیں۔

    ایک جماعت جس کی سربراہی فلکی طبیعیات دان آرتھر ایڈنگٹن کر رہے تھے اس کو خلیج گنی میں واقع جزیرہ پرنسیپی بھیجا گیا جو مشرقی افریقہ کے ساحل کے ساتھ ہے تاکہ وہ سورج کے گرد سے آتی ہوئی ستاروں کی روشنی کے خم کو اگلے سورج گرہن کے دوران ناپ سکیں۔ ایک اور ٹیم جس کی سربراہی اینڈریو کروملن کر رہے تھے وہ شمالی برازیل میں واقع سوبرال کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔ جو اعداد و شمار انہوں نے حاصل کیے اس کے مطابق ستاروں کی روشنی کا اوسط انحراف 1.74 آرک سیکنڈ تھا جو آئن سٹائن کی 1.74 آرک سیکنڈ کی پیش گوئی (تجرباتی غلطی) کے اندر تھا۔

    بالفاظ دیگر روشنی سورج کے قریب خم کھا رہی تھی۔ ایڈنگٹن نے بعد میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ آئن سٹائن کے نظریئے کی تصدیق کرنا اس کی زندگی کا سب سے یادگار لمحہ تھا۔

    6 نومبر 1919ء کورائل سوسائٹی اور رائل ایسٹرونومیکل سوسائٹی ان لندن کے ایک مشترکہ اجلاس میں نوبیل انعام یافتہ اور رائل سوسائٹی کے صدر جے جے تھامسن نے باضابطہ طور پر کہا کہ " یہ انسانی شعور ی تاریخ میں ایک عظیم کامیابی ہے۔ یہ دریافت کسی دورافتادہ جزیرے کی نہیں بلکہ نئے سائنسی خیالات کے پورے براعظم کی دریافت ہے۔ جب سے نیوٹن نے اپنے قواعد کا اعلان کیا تھا اس وقت سے لے کر اب تک کی یہ تجاذب سے متعلق عظیم دریافت ہے۔"

    (ایک قصّے کے مطابق، بعد میں ایک صحافی نے ایڈنگٹن کے پوچھا، "ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ پوری دنیا میں صرف تین لوگ ہی آئن سٹائن کے نظریئے کو سمجھتے ہیں۔ یقینی طور پر آپ ان میں سے ایک ہوں گے۔" ایڈنگٹن خاموش رہا، لہٰذا صحافی نے کہا، "ایڈنگٹن اتنی منکسرالمزاجی مت دکھائیں۔" ایڈنگٹن نے کندھے اچکائے اور کہا،" بالکل بھی نہیں میں تو صرف یہ سوچ رہا ہوں کہ وہ تیسرا کون ہے۔")

    اگلے دن، لندن ٹائمز نے شہ سرخی لگائی، " سائنس میں انقلاب - کائنات کا نیا نظریہ - نیوٹن کا نظریہ پھینک دیا گیا۔" اس وقت جب آئن سٹائن دنیا کی ایک نامی گرامی شخصیت بن گیا تھا اس وقت اخبار کی شہ سرخی تھی، "ستاروں کا پیام بر۔" یہ اعلان نا صرف اہم تھا بلکہ اس میں آئن سٹائن نے بنیادی طور پر نیوٹن سے انحراف کیا تھا جس کی وجہ سے اس نے نمایاں رد عمل پیدا کیا۔ کئی ممتاز ماہرین طبیعیات اور ماہرین فلکیات نے اس نظریئے کی اعلانیہ مخالفت کی۔ کولمبیا یونیورسٹی کے چارلس لین پوور، جو سماوی میکانیات کے پروفیسر تھے وہ اضافیت پر تنقید کرنے میں پیش پیش تھے انہوں نے کہا" مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسا کہ میں کسی طلسماتی دنیا میں گھوم رہا ہوں اور کسی جادوگر کے ساتھ چائے پی رہا ہوں۔" 

    ہمارے فہم و ادراک میں اضافیت کا آنا اس کے غلط ہونے کی وجہ نہیں ہے، اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ ہماری فہم عامہ حقیقت کی نمائندہ نہیں ہے۔ ہم کائنات میں منفرد ہیں۔ ہم ایک غیر معمولی قطعہ زمین کے باسی ہیں جہاں حرارت، کثافت اور سمتی رفتار بہت ہی مناسب ہیں۔ بہرحال "اصل کائنات" میں درجہ حرارت ستاروں کے قلب میں جھلسا دینے والا ہوتا ہے یا پھر خلائے بسیط میں سن کر دینے والی سردی ہوتی ہے۔ اور ذیلی جوہری ذرّات تمام خلاء میں روشنی کر رفتار سے محو سفر رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر ہماری عقل سلیم ایک ایسے ماحول میں پلی ہے جو کائنات میں انتہائی غیر معمولی اور مخفی جگہ یعنی کہ زمین پر موجود ہے۔ لہٰذا اس بات میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہماری عقل سلیم سچی کائنات کو سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ مسئلہ اضافیت میں نہیں بلکہ اپنے فہم کو حقیقت سمجھنے میں ہے۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: علم کائنات کی پیدائش Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top