Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    جمعہ، 4 دسمبر، 2015

    حیات بطور سیاروی مظہر


    باب نہم

    حیات بطور سیاروی مظہر


    جنوبی افریقہ میں کیپ آف گوڈ ہوپ  سے شمال مغرب میں آدھے دن کے سمندری سفر  کے بعد کیپ ٹاؤن ہے ۔ آج بھی یہ  شہر ایک فوجی چوکی کے ہونے کا احساس دلاتا ہے ، ایک آرام دہ لیکن مضطرب بندرگاہ جو دنیا کے کنارے پر موجود ہے۔ الغرض جنوب میں انسانی آنکھ کو دیکھنے کے لئے صرف برف کے علاوہ کوئی دوسری چیز موجود نہیں ہے ، ایک منجمد جنوبی سمندر کرۂ ارض کی سب سے کم قابل رہائش  زمین کو گھیرے ہوئے ہے۔

    اجنبی جدولی پہاڑ کے سائے میں ،نومبر ١٨٧٣ء میں ایک غیر معمولی برطانوی جنگی جہاز جس کا نام ایچ ایم چیلنجر تھا اس نے ایک لمبے صبر آزما سفر کا آغاز انٹارکٹکا کے برفیلے ساحل سے آسٹریلیا اور دنیا کے گرد شروع کیا۔ ایچ ایم ایس بیگل کے  چارلس ڈارون کے ساتھ شہرہ آفاق سفر کے چالیس سال بعد ، ایچ ایم ایس چیلنجر پھر سے ایک چار سال کے سفر پر روانہ ہوا تاکہ نئے جہانوں کی کھوج سمندری دنیا کی گہرائی میں جا کرکر سکے۔ ایچ ایم ایس چیلنجر کے اس سفر میں جہاز کے عملے کے ساتھ چھ سائنس دان زاد سفر تھے اور جہاز کے عرشے پر آلات کی بھرمار تھی :جن کا کام سمندر کا درجہ حرارت ، گہرائی اور رو کو ناپنا ، سمندر کے نمونے حاصل کرنا  اور جو بھی  سمندری مخلوق ہاتھ لگتی اس  کے  زندہ نمونے جمع  کرنے تھے ۔

    نتیجوں نے سائنس دانوں اور عام آدمی دونوں کے ایک جیسا ہی حیرت زدہ کیا۔ مکمل تاریکی اور زبردست دباؤ جو آٹھ یا اس سے زیادہ  کلومیٹر نیچے سمندر کی گہرائی میں موجود تھا ، وہاں سے ایم ایس چیلنجر نے چھ سو سے زائد نمونوں کو جمع کیا۔ ثمر آ ور نتیجے نے اس بات کو ثابت کیا کہ سمندر کے اندر پانی کی دنیا کوئی ویران صحرا نہیں ہے۔ سیارے کی سطح پر ہر جگہ حیات موجود تھی۔
     
    شاید تین ارب برس سے زائد عرصے سے حیات سیارہ زمین پر اسی صورت میں موجود ہے۔
    حالیہ دور میں پچھلے بیس برسوں میں ہونے والی تحقیق نے دو مزید حیرت انگیز چیزوں کا ادراک فراہم کیا۔ پہلا  صرف زمین نے  حیات کو گھر مہیا نہیں کیا بلکہ وہ حیات کے ذریعہ پوری طرح بدل گئی جو اس کے ساتھ لگ بھگ 4.5 ارب سال پہلے اس کی تخلیق کے ساتھ  سے ہی چپکی ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ حیات  سطح سے چپکی ہوئی جس قدر نازک لگتی ہے جس کو  شدید کائناتی واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ اتنی نازک نہیں ہے ۔ ہم نے جو سیکھا ہے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ  کرۂ ارض پر حیات  کو مجازی طور پر تباہ نہیں کیا جا سکتا ۔ ثبوت اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ یہ ایسی طرح سے کافی لمبے عرصے سے ہے شاید ٣ ارب سال پہلے سے۔ زمین پر موجود تمام حیات کے خاتمے کے لئے لازمی ہے کہ  زمین کو سورج کا قلب پگھلا دے۔ حیات کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ناصرف  زمین کے گرد گھومنے والے تمام خلائی جہازوں کی تعدیم کی جائے بلکہ ان خلائی جہازوں کو بھی فنا کیا جائے جن کو ہم خلاء میں دوسری جگہیں کھوجنے کے لئے بھیج چکے ہیں۔ اگرچہ اس بات کی امید تو نہیں ہے کہ مریخ کو ہم نے کچھ جرثوموں کے ساتھ بسا دیا ہوگا ؛ لیکن کچھ انتہاء درجے کے لچک دار جرثومے پچھلے تیس برسوں میں دریافت کیے جا چکے ہیں  اور کچھ  مثلاً ڈینوکوکس ریڈیو ڈورنس(Deinococcus radiodurans)  اتنے  سخت جان ہیں کہ مریخ کے سفر تک زندہ رہ سکتے ہیں۔ اصلی خلائی مسافر!
    ڈینوکوکس ریڈیو ڈورنس(Deinococcus radiodurans)   جرثومے بہت  سخت جان ہوتے ہیں۔

    ارضی حیاتی کرۂ کا اپنے آپ کو تباہی سے بچانے کا راز بے میل بوقلمونی اور ان جانداروں کی اختراعیت  ہے جو ہمارے سیارے پر حکمرانی کرتے رہے ہیں  - یعنی کہ جرثومے۔ ان میں سب سے زیادہ سخت جان  ایکسٹریمو فائلز (Extremophiles)کہلاتے ہیں  جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی شدید ماحول میں بھی بس جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو ٢٥٠ فارن ہائیٹ (١٢٢ سینٹی گریڈ ) میں گرم موسم بہار میں اور سمندر کی تہ میں موجود"بلیک –سموکر " گرم آتش فشانی ریخوں  میں بھی بچے رہے تھے۔ جبکہ کچھ  دوسرے اونچے دباؤ پر بھی زندہ رہے ہیں ، مثال کے طور پر جب سنگترے کے رس کی جراثیم ربائی(Sterilizing) کی گئی یا  بحرالکاہل میں موجود مریانا کھائی کے قدرتی مسکن میں آٹھ سو گنا زیادہ دباؤ میں رہنے والے جرثومے۔ ان کے علاوہ بھی دوسرے جرثومے اپنا گھر چٹانوں کے ننھے  سوراخوں میں زمین کی سطح سے چار کلومیٹر کی گہرائی میں بناتے ہوئے دریافت ہوئے۔ تاریخ اپنے آپ کو پھر دہرا رہی تھی ، اکیسویں صدی کے جنگی بیڑے نے  چیلنجر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سمندر کی سطح میں سوراخ کیا۔
     
    سب سے زیادہ سخت جان  جرثومے ایکسٹریمو فائلز (Extremophiles)کہلاتے ہیں  جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انتہائی شدید ماحول میں بھی بس جاتے ہیں۔
     سائنس دان شاید ابھی تک زمینی حیاتی کرۂ کی تہ تک نہیں پہنچ سکے۔ جرثومے جو زمین کی پرت کی گہرائی میں رہتے ہیں ان کو اکثر سیلائم (ایس ایل آئی ایم ای  - سب سرفیس لیتھو اوتھو ٹروپک  مائکروبل ایکو سسٹم )سماج کہتے ہیں۔ ان کا انحصار سطح کی کسی بھی چیز پر نہیں ہوتا۔ حرارت سیارے کی گہرائی سے آتی ہے ، کیمیائی چیزیں اور پانی پہلے سے ہی وہاں پر موجود ہے  اور سورج کی روشنی کی ان کو ضرورت نہیں ہوتی۔ اگرچہ ماحول کافی شدید ہوتا ہے لیکن پھر بھی  ان  کے لئے وہ محفوظ ہوتا ہے۔

    یہ کوئی خلاف معمول مخلوق نہیں ہیں۔ تہ زمین کی وہ جگہ ہے  جہاں حیات بظاہر آج کے دور میں ناقابل معدوم ہے کیونکہ سطح کے نیچے کا یہ ماحول  سیارے کی کافی زیادہ حیات  کو اپنے اندر رکھتا ہے۔ کچھ سائنس دان جیسا کہ کورنیل یونیورسٹی کے آنجہانی تھامس گولڈ کہتے تھے کہ حقیقت میں حیوی کمیت (Biomass)کی اکثریت سطح کے نیچے ہے۔ حالیہ تخمینوں کے مطابق تین کھرب ٹن کاربنی  حیوی کمیت  کا مقابلہ پورے بر اعظم  کی سطح پر موجود حیوی کمیت سے کیا جا سکتا ہے یہ  زیادہ تر نباتاتی حیات ہے۔ اس گہرے حیاتی کرہ میں موجود جراثیمی سماج چٹانوں اور سمندری گاد  میں رہتے ہیں جو لگ بھگ سمندر کی تہ کے پانچ سو سے ایک ہزار میٹر کی گہرائی میں موجود ہیں ؛ ایک کیس میں تو بحر اوقیانوس کی تہ سے سولہ سو میٹر نیچے بھی حیات کو پایا گیا ہے۔ سیارے کی سطح کا ستر فیصد سمندر کی سطح نے ڈھکا ہوا ہے ، اور تہ کی نیچے کی گاد کے ہر مکعب سینٹی میٹر  میں دس لاکھ خلیے پائے گئے ہیں  اور جو زمین پر پائے جانے والے تمام جرثوموں سے آدھے سے بھی زیادہ ہیں۔

    حالیہ دور میں ، حیاتی کرۂ کی گہرائی کی کھوج کرنے والوں نے پہلی  غیر جرثومی حیات کو ایک سے ساڑھے تین کلو میٹر کی گہرائی میں جنوبی افریقہ میں دیکھا ہے  - ایک ننھا کیڑا جو سطح کے نیچے رہنے والے جرثوموں کو بطور خوراک استعمال کرتا ہے۔ یہ بات  زمین کی گہری پرت میں موجود حیات کی زرخیزی کے بارے میں بیان کرتی ہے۔

    یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جرثومے  سورج کی روشنی اور  آکسیجن کے بغیر  میلوں کی گہرائی میں موجود چٹانوں میں زندہ رہ سکیں جہاں غذا  اور پانی کی قلت ہے ؟سوراخ کرکے حاصل کردہ نمونوں سے معلوم ہوا کہ وہاں پر ایسے جرثوموں کا غلبہ ہے  جو نہ صرف زبردست دباؤ کو برداشت کر سکتے ہیں بلکہ  خاص طور پر بقائے توانائی کے اصول پر کاربند رہتے ہوئے انتہائی آہستگی کے ساتھ صدیوں پر محیط وقت کے پیمانے پر پھلتے پھولتے (تعداد کو دوگنا کرتے)ہیں ! اگر ان کو کوئی ذمہ داری  بھی ہوتی ہے تو وہ کم از کم سطح پر رہنے والے ہم جانداروں کے بارے میں نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ بات واضح طور پر عیاں ہے کہ کروڑوں سال پہلے  ان کے آباؤ اجداد بھی سمندر کی تہ میں اور سطح پر رہنے والے تھے۔ یہ بات ان کے جینیاتی  نقشے سے معلوم ہوئی ہے۔ الغرض یہ کوئی بہت ہی غیر معمولی نہیں ہیں۔

    زمین پر حیات کی تاریخ بہت ہی تیز رفتار مطابقت پذیری دکھاتی ہے  اور اس بات کا عندیہ دیتی ہے کہ جہاں کہیں بھی پانی ہے وہاں حیات اپنا مسکن بنا لیتی ہے ، چاہئے وہاں جو بھی درجہ حرارت ، دباؤ یا ترشی ہو۔ گہرے پانی کا چکر  - سطح کا پانی جو سمندر کی سطح کے نیچے زمین کی پرت کی گہرائی میں پہنچتا ہے – اپنے ساتھ حیات کو لے کر جاتا ہے   شاید یہ اس وقت سے ہی  ہے جب سے حیات سیارے پر نمودار ہوئی۔
     
    حیات کے لئے اکثر خطرات آسمان سے ہی نازل ہوئے ہیں۔
    حیات کے لئے زیادہ تر خطرات آسمان سے ہی نازل ہوئے۔ سب سے زیادہ ڈرامائی خطرہ کائناتی ہی ہیں : سیارچوں اور دم دار ستاروں کے تصادم ، اور کبیر ماحولیاتی تبدیلیاں  جس میں پورے کرۂ فضائی کا خاتمہ بھی شامل ہے۔  جی ہاں ڈرامائی ، ضروری نہیں  ہے کہ  وہ سیارے کی حیات کو مکمل طور پر  معدوم کر دینے والے ہوں۔

    سیارچوں کے تصادم سیاروی نظام میں کی  حیات کا لازمی حصّہ ہیں۔، سیارچے ، ایک میل کے حجم کے (اکثر کئی میل کے حجم کے بھی ) چٹانی سیاروں کے بچے ہوئے ٹکڑے ہوتے ہیں  ان کے مدار ایسے ہوتے ہیں کہ بڑے سیاروں کے زیر اثر آتے رہتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان میں سے کئی  بڑے سیاروں سے جا ٹکراتے ہیں یا  وہ انہیں دور اٹھا کر پھینک دیتے ہیں ، جیسا کہ نظام شمسی میں موجود مشتری  ہے۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر اس پٹی میں موجود ہیں جو مشتری اور مریخ کے درمیان واقع ہے۔ لمبے عرصے میں سیاروں کے  ثقلی اثرات  ان سیارچوں  پر اس قدر پڑتے ہیں کہ  وہ ان کو  آپس میں یا دوسرے سیاروں سے تصادم کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔

    دو کلومیٹر کے  سیارچے سے زمین کا ٹکراؤ انسانیت کے لئے تباہی ہو سکتا ہے لیکن گہرے حیاتی کرۂ میں موجود زیادہ تر جرثوموں کو تو اس تصادم کا پتا بھی نہیں چلے گا۔ کوئی بھی عطارد جتنا جسم اگر زمین سے ٹکرائے تب ہی زمین کی پرت اور سمندر تباہ ہوں گے اور شاید تب ہی جرثوموں کی تمام بستیاں جو سطح سے میلوں دور ہیں ختم ہو سکیں گی۔ بہرحال اکیسویں صدی کی ابتداء میں ہی ہمارے فلکیات دانوں نے نظام شمسی میں موجود ان سیارچوں کا مکمل شمار کرلیا ہے جو زمین کے مدار میں سے گزریں گے۔ ہم ان تمام اجسام کو جانتے ہیں جن کا حجم دو کلومیٹر سے زیادہ ہے اور جو ہم سے ٹکرا سکتے ہیں۔ فلکیات دان ابھی تک کسی بھی ایسے سیارے کے بارے میں نہیں جانتے جو زمین کے لئے خطرہ ثابت ہو سکے۔
        
    سیارچوں اور سیارے کے درمیان تصادم  ، سیاروں کی تشکیل کے  دور میں بہت ہی  زیادہ عام ہوں گے اور یہ سلسلہ  سیاروں کے بننے کے ٥٠ کروڑ سال بعد تک بھی جاری رہا ہوگا۔ ہمیں یہ بات دوسرے نظام ہائے شمسی کو بنتے دیکھنے کے دوران معلوم ہوئی ہے۔ اگر بڑے سیاروی تصادم زیادہ عام ہوتے  تو سیاروں کے مدار کے درمیان گھومنے والے چھوٹے ذرّات  ہمارے جانے پہچانے سیاروں کے مداروں میں اتنی  زیادہ تعداد میں ہوتے کہ ہماری  نظروں سے چھپ نہیں سکتے تھے۔ ایسی "ملبے کی ٹکیائیاں"(Debris Disks) کہلانے والی  چیزیں کافی جانی پہچانی ہوتی ہیں  اور آسانی کے ساتھ ہماری جدید زیریں سرخ ٹیکنالوجی کے ذریعہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ اسپٹزر خلائی دوربین ، جو زیریں سرخ  دوربین ہے اور ہبل خلائی دوربین کی دور کی رشتے دار ہے ، اس کی فراہم کردہ معلومات سے  معلوم ہوا ہے کہ ہمارا نظام شمسی دوسرے نظام ہائے شمسی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔

    تو پھر قیامت خیز ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں کیا خیال ہے  - زمین کے مکمل کرۂ فضائی کے خاتمے  اور باقی بچے ہوئے سمندروں کے منجمد ہونے  کا۔ یہ صرف  اس صورت میں ہو سکتا ہے جب  چاند کے حجم کا کوئی  ضخیم سیارچہ زمین سے آ کر ٹکرا جائے یا  پھر قریب میں کوئی نجمی دھماکا ہو : کسی عظیم نو تارے کا دھماکہ یا پھر گیما شعاعوں کی بوچھاڑ۔

    گیما شعاعیں سب سے زیادہ قوی برقی مقناطیسی موجیں ہوتی ہیں۔ گیما شعاعوں کی بوچھاڑ ان تمام واقعات جن سے ہم باخبر ہیں اس میں سب سے زیادہ پر تشدد واقعہ  ہوتی ہیں اور کسی بھی کہکشاں میں  کبھی کبھار وقوع پذیر ہو جاتی ہیں۔ اس بات سے صرف نظر ، فلکیات دان  دن میں ایک کا سراغ پھر بھی لگا لیتے ہیں۔ اس کی وجہ ان کی انتہاء درجے کی تابانی اور سرایت کرنے کی خوبی ہے۔ ہم پورے قابل مشاہدہ کائنات میں ان کی بوچھاڑ کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اس حتمی دھماکے کے نتیجے میں خارج ہوتی ہیں جو بہت ہی وزنی ستارے (عظیم نو تارے کے  خصوصی دھماکے ) اور دو مرغولہ کھاتے نیوٹران ستارے پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال یہ دونوں واقعات نایاب اور دور دراز کائنات  میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایک عام شرح اور اوسط فاصلے سے جو  ہمیں پریشان کرنے والا اثر یہ ڈال سکتے ہیں وہ اوزون کی تہ ہے۔ کسی بھی ایسے دور دراز امکان میں جس میں ہم سے پچاس نوری برس کے فاصلے پر  کوئی ایسی بوچھاڑ ہو جائے تو ہم مصیبت میں آ سکتے ہیں۔ زمین کا کرۂ فضائی مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور  سطح پر موجود تمام حیات معدوم ہو جائے گی۔ لیکن وہ حیات معدوم نہیں ہوگی جو پرت کے اندر  موجود ہوگی۔

     ایک اچانک  ہونے والے واقعہ میں کرۂ فضائی کا نقصان زمین کے لئے ارضیاتی وقتی پیمانے پر عارضی طور پر ہوگا۔ کیونکہ زمین کی اندرونی ساخت  زیادہ تبدیل نہیں ہوگی، بنیادی ٹیکٹونک پلٹیں اور آتش فشانوں کے ذریعہ سیارے کے اندرون سے نکلنے والی گیسیں  آتش فشانی حرکت میں نکلتی رہیں گی۔ آتش فشانوں سے نکلنے والا کاربن ڈائی آکسائڈ کرۂ فضائی کو دوبارہ سے بھر دے گا  کیونکہ کاربن ڈائی آکسائڈ ایک سبز نباتاتی خانے  کی گیس ہے  جو منجمد سمندروں(یا اس میں سے جو بھی کچھ باقی بچا ہوگا اس ) کو پگھلا دے گی۔ اگر  اس نے اسے جزوی طور پر بھی پگھلا دیا تو پانی کی کرۂ فضائی میں تبخیر کاربونیٹ  سیلیکٹ کے چکر کو دوبارہ شروع کر دے گا۔

    کاربونیٹ  سلیکیٹ کا چکر بالکل اس سے ملتا جلتا ہے جسے آج ہم  غیر نامیاتی کاربن کا چکر یا کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر کہتے ہیں۔ یہ بنیادی سیاروی چکر  اس کثیر گیس کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہے  جو زمین کے اندرون سے اوپر اٹھ کر  سطح اور سمندر کے اوپر موجود  کرۂ فضائی میں جا کر تبدیل ہوتی ہے اور پھر آخر میں واپس زمین کے اندر چلی جاتی ہے۔ کاربونیٹ  سلیکیٹ  چکر کے مخصوص  چکر کا ایک خاص وقت کا پیمانہ ہے  -   ایک خاص وقت  جو تبدیلی  کو رونما کرتا ہے۔ سیارے زمین کے لئے یہ وقت کا پیمانہ چار لاکھ سال ہے۔ لہٰذا اگر گیما شعاعوں کی بوچھاڑ نے زمین کا کرۂ فضائی تباہ کر دیا ، تو  اس کو واپس اپنی پائیدار حالت میں آنے کے لئے صرف چند دسیوں لاکھ سال درکار ہوں گے یا شاید اس سے بھی کم۔ کوئی بھی جرثومہ جو پرت کی گہرائی میں بچا رہ جائے گا  - اور ایسے کئی ہوں گے  - اس کے پاس کافی موقع ہوں گے کہ وہ زمین کی سطح پر دوبارہ سے بس جائے۔ مثال کے طور پر جرثوموں کے وہ سماج جو ٹیکساس میں گہری کھدائی کے دوران پائے گئے ہیں  ایسا لگتا ہے کہ ان کا سطح سے رابطہ  ٨ کروڑ سال پہلے منقطع ہو گیا تھا یہ وقت اس سے کہیں زیادہ ہے   جو دسیوں لاکھ سال سطح کو دوبارہ  بسانے کے لئے درکار ہیں۔

    بیشک اگر کوئی بھی ایسی آفات نازل ہوئی تو زمین کا کرۂ فضائی ڈرامائی طور پر تبدیل ہو جائے گا :آج   کرۂ فضائی میں موجود  گیسوں میں سے  دو اہم گیسیں  نائٹروجن اور آکسیجن  فضا سے غائب ہو جائیں گی اور آتش فشانوں اور سمندر کی تبخیر سے دوبارہ نہیں بھریں گی۔ بلاشبہ   یہ سطح کے نیچے رہنے والے خرد بینی جانداروں  کے لئے جو دوبارہ سے سطح پر ہجرت کر رہے ہوں گے  کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوگا؛ ان کو اپنی حالیہ جگہ پر آکسیجن کی کوئی ضرورت نہیں ہے  اور وہ پرانی دنیا میں بننے والے نئے جہاں میں اچھے طریقے سے اس وقت تک رہ لیں گے جب تک ان کو پرت میں موجود نائٹروجن کی باقیات کے منبع  تک رسائی ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ اگر انھیں ایک ارب سال کا عرصہ ملے تو  وہ ان گیسوں کو واپس کرۂ فضائی میں پہنچا دیں  کیونکہ یہ گیسیں ان خرد بینی حیات کی ضمنی پیداوار ہوتی ہیں  بعینہ  جیسے کہ انہوں نے زمین پر دو ارب سال  پہلے کیا تھا۔
               
    یہ تو صرف انسان اور پیچیدہ حیات کی شکلیں ہیں  جن کی بقاء کائنات کی تبدیلیوں کے  نازک توازن پر قائم ہے۔ زمینی حیات جو کہ زیادہ تر بیشمار اور قدیمی خرد بینی جانداروں پر  مشتمل ہے  وہ  ہمارے چھوٹے سیارے پر اس وقت تک مورچہ بند رہے گی جب تک سورج اپنی زندگی پوری کرکے زمین کو پوری طرح سے ڈھانک نہیں لیتا۔ ذرا  اس بارے میں سوچیں کہ اگر زمین کا مدار غیر متوازن ہو  کر مشتری سے تصادم کی جانب گامزن ہو جائے اور  مشتری زمین کو اٹھا کر نظام شمسی سے باہر  دور پھینک دے تو کیا ہوگا۔ سننے میں ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہو جائے گا ، کیونکہ تاریکی اور گہری ٹھنڈ سطح کو  پوری طرح سے ڈھک لے گی۔ بہرحال ہائیڈرو تھرمل  سرگرمی بغیر کسی تعطل کے  جاری رہی گے۔ کالا دھواں پینے والی زیادہ تر حیات تو کافی عرصے تک زندہ رہے گی۔ پرت ایک بہترین کمبل کی طرح کام کرے گی  جو زمین کے اندرون سے نکلنے والی  اس حرارت کو قید کر لے گی جو زمین نے بنتے وقت حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ حرارت بھی قید ہو جائے گی جو زمین تابکاری کے نتیجے میں ان عناصر سے خارج کرتی ہے جیسے کہ یورینیم ،  پوٹاشِيَم ٤٠ اور تھوریم۔ حقیقت میں اندرونی خارج ہونے والی حرارت کو آج ٨٧ ملی واٹس فی مربع میٹر ناپا گیا ہے۔ یہ توانائی  گھر میں استعمال ہونے والے روشنی کے قمقمے میں استعمال ہونے والی توانائی سے  قریباً ایک ہزار گنا زیادہ کم ہے ، ایک ٢٥ واٹ روشنی کے بلب کو روشن کرنے کے لئے ایک کالج کی جماعت سے بھی زیادہ جگہ کی توانائی کو جمع کرکے اس بلب  کو جلایا جا سکے گا۔ اکیسویں صدی میں انسانی سماج کی  درکار  توانائی کے پس منظر میں یہ  سمندر میں صرف ایک قطرے کی مانند لگتا  لیکن یہ ان خرد بینی جانداروں کے لئے کافی ہوگا جو زمین کی گہری پرت  اور سمندر کی تہ میں ہائیڈرو تھرمل ریخوں کے پاس  رہتے ہیں۔ خلاء میں بھٹکتی ہوئی زمین اندرونی حرارت کو حالیہ شرح سے خارج کرنے کے بعد  بھی کم از کم ٥ ارب سال تک اپنے رہائشیوں کو اس حرارت کے بل بوتے پر  زندہ رکھ سکتی ہے۔

     زمین پر حیات کافی لچک دار ہے  اور یہ بات اس نے اپنی تاریخ سے بھی ثابت کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لینا  اور بدلتی صورتحال کا فائدہ  کر یہاں تک کہ شدید ماحول میں بھی  رہ لینا ہے۔ اس عمل کے دوران نہ صرف یہ ماحول کو تبدیل کرتی ہے بلکہ نیا ماحول بھی بنا لیتی ہے  جو آخر کار پورے سیارے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ سیارہ زمین اس سیارے سے بہت مختلف ہے جس پر شروع میں حیات نمودار ہوئی تھی  اس کی وجہ نمودار ہونے والی حیات ہی تھی۔

    مزید براں زمین نہایت  سخت طریقے سے ارب ہا سال تک اپنے  پر نمودار ہونے والی  نئی حیات کے لئے ناسازگار بھی رہی ہے ،جس کی وجہ اس دور کی حیات اور اونچے درجے کی  تکسیدی تیزابی ماحول کا ماحول تھا۔ حیات اصل میں سیاروی مظہر ہی ہے اور سیاروں کا ارتقاء ، متحرک پن  اس کے ساتھ سختی سے جڑا ہوا ہے۔ سیارے حیات کے دوام کے لئے ایک اچھی جگہ ہو سکتے ہیں  لیکن ہمیں ابھی تک اس بات کا جواب نہیں مل سکا  کیا زمین حیات کے نمودار ہونے کے لئے ایک مثالی جگہ ہے ؟

      
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: حیات بطور سیاروی مظہر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top