باب دہم
وہ ٹھکانے جنہیں ہم اپنا گھر کہہ
سکتے ہیں
بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک ہمارے ہی جیسی کہکشاں میں
ایک ستارہ پیدا ہوا ۔ جلد ہی سیارے بھی پید ا ہونے شروع ہو گئے۔ جن میں سے تین
سیارے اپنے ستارے کے قریب پیدا ہوئے ۔ وہ بہت زیادہ بڑے نہیں تھے اور پورے کے پورے
چٹانی سیارے تھے۔
ان میں سے سب سے چھوٹے اور سرد ترین سیارے کے کرۂ فضائی میں
آتش فشانوں سے پیدا ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ اور سلفر ڈائی آکسائڈ موجود تھی۔ انہوں
نے نباتاتی خانے کے اثر (Greenhouse
Effect)کے طور پر اپنی سطح کو گرم کرنا شروع کیا جس کے نتیجے میں
کسی طرح سے سطح پر موجود پانی کی تھوڑی مقدار مائع میں بدل گئی۔ کرۂ فضائی اور
سمندروں نے مل کر سیارے کی سطح پر مختلف قسم کے کیمیائی عمل کو شروع کیا - اور
حیات کو نمودار ہونے کا ایک اچھا موقع فراہم کیا۔ یہ سکھی دور چند کروڑ سال کے بعد
ختم ہو گیا۔ ارضیاتی پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو اس دور کا دورانیہ الاسکا میں
پڑنے والی گرمی کے موسم سے زیادہ نہیں تھا ۔ چھوٹے سیارے ہونے کی بدولت اس کو اپنے
کرۂ فضائی کو سنبھال کر رکھنا اور دوبارہ سے اس ارضیاتی سرگرمی کے چکر کو جاری
رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اندر یا باہر سے گرم نہیں رکھ سکا۔
دوسرے دونوں سیارے کیونکہ تیسرے سے بڑے تھے لہٰذا ان میں کافی پانی اور
معقول کرۂ فضائی موجود تھا اگرچہ وہ بھی اندر سے پورے چٹانی تھے۔ ان میں سے ایک
ستارے سے قریب سیارہ اپنے دور کے چھوٹے رشتے دار کی طرح سے تیزی سے تبدیل ہونے
والا تھا اگرچہ یہ تبدیلی اس سے بالکل متضاد قسم کی تھی۔ اس کے سمندروں نے ستارے
کی گرمی کے زیر اثر تبخیر ہو کر اڑنا شروع کر دیا تھا یوں اس کے کرۂ فضائی میں
پانی بھی شامل ہو گیا تھا جہاں پر اس نے
ایک زبردست نباتاتی خانے کے اثر کے طور پر کام کیا - اس طرح ایک بے قابو نباتاتی
اثر نے باقی بچے ہوئے پانی کو ضائع کر دیا اور آخر میں اپنے پیچھے صرف ایک چٹانی
بنجر زمین چھوڑ دی۔
ہرچند کہ دونوں سیاروں پر شروع میں تو کیمیائی عمل میں تنوع
تھا لیکن ارضی کیمیا بہت تیزی کے ساتھ محدود ہو گیا اور بتدریج ایک غیر عامل توازن
میں جم گیا۔ ایسے سیاروں کے مستقبل کے بارے میں پیش گوئی نہایت آسانی کے ساتھ کی
جا سکتی ہے - یعنی ان کے مستقبل کو طبیعیات اور کیمیا کے بنیادی قوانین کی رو سے
آسانی سے بیان کیا جا سکتا ہے۔ جلد ہی انہوں نے کہکشاں کے دوسرے اجسام- گیسی دیو
سے لے کر ستاروں کی باقیات تک - سے گھل مل گئے – ایک آہستہ اور کند عمل کے ذریعہ
ٹھنڈے ہوتے گئے ان میں اب مزید کوئی کیمیائی تبدیلی رونما نہیں ہوگی اب صرف وہ
قوّت ثقل کے بل بوتے پر ہی ادھر ادھر گھومتے رہیں گے۔
تیسرا سیارہ ذرا خوش قسمت نکلا تھا – یہ اتنا بڑا اور گرم
تھا کہ اپنے کرۂ فضائی کو دوبارہ سے بھرکر اس کو قائم رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی سطح
پر موجود مادّے کی باز یافتگی بھی کر سکے۔ ان تمام باتوں کے باوجود وہ بہت زیادہ
گرم نہ تھا لہٰذا وہ اپنی سطح پر موجود زیادہ تر پانی کو پکڑ کر رکھ سکتا تھا۔ اس
سیارے پر موجود کیمیا بھی بہت تنوع کی حامل اور دلچسپ تھی اور یہ اپنے چھوٹے رشتے
داروں سے کہیں زیادہ عمل پذیر تھی۔ پہلے سے موجود کاربن ڈائی آکسائڈ کے ارضی
کیمیائی چکر نے جلد ہی سیارے کی بالیدگی کی سمت کا تعین اس توازن سے دور سے دور کر
دیا۔ کچھ ہٹ کر ہونا شروع ہو گیا۔ اس چکر میں دو ارب سال گزر گئے جس کے دوران کرۂ
فضائی اور سمندر بہت ہی زیادہ عامل آکسیجن سے بھرتے چلے گئے۔ کیمیا کا اصل کام تو اب
شروع ہوا تھا!
اگرچہ کند توازن نے بہت سختی کے ساتھ پہلے دو سیاروں کو جکڑ
لیا تھا، لیکن تیسرا ذرا زیادہ وحشی ہو گیا تھا اور اس نے باہری آفات مثلاً کسی
وقت علی التواتر سے سیارے کی سطح پر برسنے والے سیارچوں کے تصادم کا سامنا پیچیدہ
طریقوں سے کرنا شروع کر دیا ۔ یہ سلسلہ چار ارب سال تک چلتا رہا ، اگرچہ سیارچوں
کے تصادم تو بالآخر اس وقت اختتام پذیر ہو گئے تھے جب پیچیدہ کیمیا نے اچھی خاصی مقامی
توانائی کو قابو کرلیا تاکہ سطح کے چھوٹے ٹکڑے (اور اپنے آپ کو ) مدار میں چھوڑ
سکے، بالآخر وہ اپنے چاند پر پہنچی اور پھر واپس آئی ۔ آخر میں وہ اپنے ستارے سے
دور ہوتی ہوئی اپنی کہکشاں سے بھی دور ہو گئی۔
مذکورہ بالا منظر کے نقطہ نگاہ سے ان تین سیاروں کی بیان
کردہ قسمت کو اگر دور دراز کے ستارے سے بیٹھ کر دیکھا جائے تو یہ بہت ہی قدرتی سا لگے
گا۔ ستارے سیاروں کی با نسبت کہیں زیادہ سادہ لیکن ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ،
بعینہ سیارے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان میں سے کچھ پیچیدہ کیمیا
اختیار کر لیتے ہیں۔ ستاروں سے دیکھی جانے والی حیات کو کسی بھی کیمیائی عمل سے
الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا اگر کچھ دیکھا جا سکتا ہے تو وہ اس پیچیدہ عمل کا ماحصل
ہی ہے۔ بعینہ جیسے ہم پانی کے سیارے بارے میں اس کے کیمیائی ماحصل سمندر کی وجہ سے
بات کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہم نجمی شعور میں سیارے کی زندگی کے بارے میں بات کریں کیونکہ
اگر ہم اس کے اجزاء اور اس کے نظام شمسی
میں مقام کو مد نظر رکھیں تو یہی وہ چیز ہے جو اس کی کیمیا کی رہنمائی کرتی ہے۔
اور جس طرح مائع سمندر کسی بھی قسم کے سیارے کی تاریخ کا حصّہ ہو سکتے ہیں ، تو حیات
کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
یہ جان کر آپ کو زیادہ حیرت نہیں ہوگی کہ جن تین سیاروں کے
بارے میں اوپر بیان کیا گیا ہے آپ ان کو بہت اچھی طرح سے - مریخ ، زہرہ اور زمین
کے نام سے جانتے ہیں۔ اس منظر نامے میں صرف زمین ہی حیات کے لئے ایک موزوں جگہ ہو
سکتی ہے۔ لیکن کیا زمین حیات کے لئے مثالی جگہ ہے ؟ میں اس سوال پر واپس آتا ہوں
جو میں کتاب کے شروع میں اٹھایا تھا۔ اب میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اور
جواب ہے نہیں۔ فوق ارض کافی بہتر ہیں۔
جس سیارے کو بھی ہم پاتے ہیں چاہئے وہ فوق ارض ہو یا نہ ہو
، ہم اس کے قابل رہائش ہونے کی جانچ کرتے ہیں۔ یہ ذرا مشکل بات ہے۔ مثال کے طور پر
اگر ہم کسی بھی جگہ کو قابل رہائش اس لئے بیان کریں کہ ہم انسان وہاں بغیر کسی
خصوصی حفاظت کے رہ سکیں تو زمین پر کئی ایسی جگہیں ہوں گی جو ایسا ماحول مہیا کرنے
میں ناکام ہوں گی۔ اگر ہمیں اس بات کی اجازت ہو کہ ہم اپنی بہترین ٹیکنالوجی کے
ساتھ زندہ رہ سکیں تو مریخ کا خط استواء بھی قابل رہائش جگہ ہو سکتی ہے تاہم آگ کی
بھٹی زہرہ نہیں۔ زمین کے کچھ خرد بینی جاندار اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ وہ مریخی
مٹی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ واضح طور پر کسی بھی سیارے کی سکونت پذیری اس کے
محل وقوع پر منحصر ہوتی ہے :سورج سے بہت زیادہ دور وہ سیارہ بہت ٹھنڈا ہوگا ، اور
قریب ہونے کی صورت میں بہت گرم ہوگا۔ یہ اطمینان بخش فاصلہ سکونت پذیر علاقہ(Habitual Zone) کہلاتا ہے اور
اس کی پہچان یہ ہے کہ پانی سطح کے اوپر موجود ہوتا ہے۔ ہر ستارے کے پاس ایک ایسا
علاقہ ضرور ہوتا ہے۔
میں ایسے ماحول کی تلاش میں ہوں جو پیچیدہ سالماتی کیمیائی
عمل کے لئے مناسب ہو۔ میری دلچسپی کائنات میں حیات کے راستے(اس کے اصل ماخذ ) میں
ہے ، لہٰذا میں ایسے سیاروں کی تلاش کر رہا ہوں جو سطح کے درجہ حرارت پر مائع پانی
کو باقی رکھ سکیں تاکہ اس میں بڑے سالمے زندہ رہ کر کیمیائی ارتکاز حاصل کر کے وقت
کے دوران پائیدار بھی رہ سکیں۔ اگرچہ قابل سکونت تصوّر درجہ حرارت کے لحاظ سے تو
مدد گار ہو سکتا ہے لیکن صرف یہ ہی کافی نہیں ہے۔ کئی دوسرے ایسے بھی عوامل ہیں جو
سیارے کی سکونت پذیری میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ فوق ارض سے متعلق اپنے انتہائی
قلیل علم کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت تک جب ہم مستقبل کے کسی دن وہاں کا سفر نہیں
کر لیتے میں ان کے سکونت پذیری کی قابلیت کے بارے میں ہی بات کرنا پسند کروں گا۔
پہلے دریافت شدہ ہوئے فوق ارضی سیاروں میں کتنی سکونت پذیری
کی صلاحیت موجود ہے ؟ چلیں ان میں سے کچھ کو دیکھتے ہیں۔ گلیز ٨٧٦ ڈی ایک چھوٹے
بونے ستارے کے گرد ہر دو دن میں ایک چکر مکمل کر رہا ہے ! اس کا مطلب ہے کہ اس کا
مدار سورج سے زمین کے فاصلے کا صرف دو فیصد ہی ہے۔ اگرچہ اس کا مرکزی ستارہ سورج
کے وزن اور حجم کے مقابلے میں ایک تہائی ہے اور یہ سورج کے مقابلے میں آدھا گرم ہے
،اس کے باوجود ستارے سے نزدیکی کا مطلب یہ ہے کہ گلیز ٨٧٦ ڈی کی سطح کا درجہ حرارت
زہرہ کے تپش دار درجہ حرارت (لگ بھگ ٧٣٠ کیلون ) سے بھی زیادہ ہوگا۔ فوق ارض گلیز
٨٧٦ ڈی سکونت پذیر علاقے میں نہیں ہے اور اس میں فی الوقت سکونت پذیری کی کوئی
قابلیت نہیں ہے۔(خاکہ10.1)۔
اس ماورائے نظام شمسی میں دو اور مشتری جیسے سیارے موجود
ہیں۔ ان کو ٢٠٠٠ء میں جیف مارسی اور کیلی فورنیا کارنیگی ٹیم نے دریافت کیا تھا
اور ان کا نام گلیز ٨٧٦ ب اور ٨٧٦ ج دیا تھا ان کی کمیت بالترتیب لگ بھگ ٢ اور٦
مشتری کے تھی۔ سکونت پذیر علاقے میں موجود ہونے کے باوجود یہ سیارے گیسی دیو ہیں جس
میں کسی بھی قسم کی ٹھوس سطح نہیں ہے لہٰذا ان میں کسی بھی قسم کی سکونت پذیری کی
قابلیت موجود نہیں ہے۔ بہرحال ان میں سے کسی کے بڑے چاند بھی ہو سکتے ہیں جن میں
زبردست سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں مشتری جیسے
سیارے ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہیں اور آپس میں ثقلی طور پر کافی تعامل کرتے ہیں
جس کی وجہ سے غالب امکان ہے کہ وہ بڑے چاند نہیں رکھتے ہوں گے۔
ایک اور ایم بونا
ستارہ ، گلیز ٥٨١ کے بھی تین عظیم ارضی سیارے ہیں (خاکہ 10.1) ایک تپتا ہوا نیپچون جو ٢٥ ایم ای کے برابر ہے اور (گلیز ٥٨١ ب)
کہلاتا ہے جس کو ہم ٢٠٠٥ء سے جانتے ہیں ، یہ اپنے ستارے کے گرد صرف5.4 دن میں ایک چکر
مکمل کر لیتا ہے۔ بعد میں مچل میئر کی جنیوا کی ٹیم نے دو چھوٹے سیارے جو فوق ارض
سے کافی ملتے جلتے تھے دریافت کیے اور یہ بمشکل سکونت پذیر علاقے میں مدار میں چکر
لگاتے ہوئے لگتے تھے۔ کیونکہ گلیز ٥٨١ اور ٨٧٦ ایک جیسے ستارے ہیں ، لہٰذا ان کے
نظام سیارگان اور قابل سکونت علاقوں کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سادہ خیال کہ فوق
ارضی سیاروں کا کرۂ فضائی ضرور موجود ہونا چاہئے ۔ خاکے میں دکھائے گئے سکونت پذیر
علاقوں کو فرینک سیلسیس اور اس کے رفقائے کاروں کے کام سے ہی بنایا گیا ہے۔ فوق ارض
سیارہ جس میں سب سے زیادہ سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہے وہ گیلز ٥٨١ ڈی ہے جس کا
حجم زمین کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے اور یہ اپنے ستارے سے کافی دور ہے ، تاہم
اس کا کرۂ فضائی اس کو گرم رہنے میں کافی مدد دے گا۔ گلیز ٥٨١ سی کی کمیت زمین سے
پانچ گنا زیادہ ہے وہ کافی گرم لگتا ہے اور اس سے بھی گرم تر فوق ارض ای ، ب کے
مدار میں موجود ہے۔
گلیز ٥٨١ نظام ہائے سیارگان ایک اور طرح سے انتہائی دلچسپی
کا حامل ہے :تمام تو نہیں تاہم زیادہ تر سیارے اپنے مرکزی ستارے سے کافی دور پیدا
ہوئے ہوں گے۔ اس کی وجہ ہے ، سب سے پہلے تو ابتدائی سیاروی قرص میں اتنا مادّہ
موجود نہیں ہوتا ہے کہ ضخیم سیارے جیسا کہ تپتا ہوا نیپچون ہے بن سکے ، گلیز ٥٨١ ب
جیسے حجم کے سیارے اپنے ستارے سے دور بنتے ہیں۔ دوسری وجہ قرص میں ضخیم سیاروں کو
زیادہ مادّہ جمع کرکے بننے کے لئے درجہ حرارت بہت زیادہ ہوگا۔ لہٰذا غالب گمان یہ ہے
کہ تپتے ہوئے نیپچون ، تپتے ہوئے ان مشتریوں کی طرح جن کو پہلے بیان کیا جا چکا ہے،
قرص کے دور دراز علاقے میں پیدا ہوئے اور
پھر قرص نے ان کو دھکا دے کر ستارے سے قریب کر دیا۔ اگر یہ قیاس درست ہوا تو یہ
دونوں ارضی سیارے بھی ستارے سے کافی دور سیاروی قرص میں پیدا ہوئے ہوں گے۔ وہ
سمندری سیارے بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ اس خط سے باہر پیدا ہوئے ہوں گے جس کو
برفیلا خط کہتے ہیں جہاں پانی آسانی سے منجمد ہو کر جم جاتا ہے۔ جب سیارے ستارے سے
نزدیک آئے ہوں گے تو سطح پر موجود اس پانی میں سے کچھ ضرور مائع بن گیا ہوگا۔ الغرض
ممکن ہے کہ وہ گیسوں سے لبریز سیارے ہوں جیسا کہ حالیہ دریافت شدہ سیارہ جی جے
١٢١٤ ب ہے جس کو ڈیوڈ چاربونو نے دریافت کیا تھا یا وہ سیارے جو کیپلر ١١ نظام میں
موجود ہیں۔ ان تمام کی ایک جیسی کمیت ہے - صرف زمین سے چند گنا زیادہ اور ان میں
سب کی کثافت انتہائی کم ہے جس کے نتیجے میں انھیں چھوٹے یورینس اور نیپچون کہا
جاتا ہے۔
دو چیزیں ایسی ہیں جو فوق ارضی سیاروں کو ہمارے جیسے سیارے
جیسی جسامت والے کسی بھی سیارے سے زیادہ قابل سکونت بناتی ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ ہے
کہ زیادہ ضخیم ہونے کی وجہ سے یہ سیارے اپنے کرۂ فضائی کو آسانی سے قائم رکھ کر پانی
کو بھی بخارات بن کر اڑنے سے روک سکتے ہیں۔ یہ ان سیاروں کے لئے بہت ہی اہم بات ہے
جو اپنے ستارے سے نزدیک مدار میں موجود ہوتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ جتنا مریخ سورج
سے قریب ہے اتنا قریب۔ دوسری وجہ ہمارے نظریاتی نمونے کے مطابق اگر وہ چٹانی فوق ارضی
سیارے ہوں گے تو ان کی ٹیکٹونک پلیٹ کی سرگرمی زمین جتنی یا اس سے بھی زیادہ ہوگی۔
یہ بات حیات اور اس کے ماخذ کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں مریخ کی
کبھی بھی حرکی پلٹیں نہیں رہیں جبکہ زہرہ کی پلٹیں بہت ہی خفیف ہلتی ہیں۔ ایسا
لگتا ہے کہ ہماری زمین بھی بمشکل پلیٹوں کو ہلا پائی ہے!
ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرگرمی کا ہم بر اعظمی بہاؤ کی صورت میں
مشاہدہ کرتے ہیں۔ جدید جی پی ایس ٹیکنالوجی ہمیں اس حرکت کو ناپنے کا موقع دیتی ہے۔
لیکن یہ حیات کے لئے فائدہ مند کیوں ہیں ؟ مختصراً اس کا جواب تسلسل اور کیمیائی
ارتکاز کی صورت میں دیا جا سکتا ہے۔ ارب ہا سال گزر جانے کے باوجود زمین نے اپنی
سطح کا درجہ حرارت قائم رکھا۔ مثال کے طور پر سمندر ہمیشہ سے مائع ہی رہے۔ ہم اس
چیز کو ارضیاتی ثبوتوں کی مدد سے جانتے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سورج اپنی
پیدائش سے لے کر اب تک تیس فیصد سے زیادہ تاباں ہو گیا ہے۔ اس معمے کو عالمگیری
ارضی کیمیائی چکر حل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ زمین ایک بڑی گیند کی مانند ہے جو
بہت گرم اور اندر سے کھول رہی ہے۔ سطح پر یہ توانائی چٹانی براعظم اور سمندری
پلیٹوں کو حرکت دیتی رہتی ہے۔ سیاروی ٹیکٹونک پلیٹوں کے بارے میں ضروری چیز ان کا
آپس میں تبادلہ کرنا ہے۔ پگھلا ہوا اندرون بصورت معکوس کیمیائی عناصر کو سطح اور
کرۂ فضائی سے ادل بدل کر سکتا ہے عناصر اس چکر میں صرف بازیافتہ نہیں ہوتے بلکہ ان
کی تبدیلی اور ارتکاز توانائی کو ایک زرخیز متحرک توازن میں تبدیل کرتے ہیں۔ اس کا
متبادل بہت ہی غریب حالت ہے - ایک ساکن توازن جو اندرون اور سطح میں بغیر مقامی
توانائی کے بیٹھ جائے۔ لہٰذا ٹیکٹونک پلیٹ سیارے کو نیا ، متحرک اور حیات بخش
بناتی ہیں۔ جیسا کہ وارڈ اور براؤن لی نے لکھا ہے کہ ٹیکٹونک پلیٹیں ماحول کی
پیچیدگی کو بڑھوتری دیتی ہیں۔ یہ تبادلہ عالمگیری چکر کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
سب سے جانا پہچانا اور غالب عالمگیری سیاروی چکر کاربونیٹ
سلیکیٹ کا چکر ہے (خاکہ10.2 دیکھیں )۔ یہ چکر اس وقت شروع ہوتا ہے جب آتش فشاں کاربن ڈائی
آکسائڈ کو کرۂ فضائی میں چھوڑتے ہیں جہاں وہ پانی کے قطروں میں آسانی سے جذب ہو
جاتی ہے۔ پھر یہ زمین کی سطح پر بارش کے قطروں میں مل کر برستی ہے ، کاربونیٹیڈ
پانی چٹانوں اور مٹی کو سمندر میں بہنے میں مدد کرتا ہے ، جہاں یہ کاربن سے لبریز
چٹانوں مثلاً چونے کے پتھر میں جذب ہو جاتی ہے ۔ ٹیکٹونک کی پلیٹیں کاربن کو پھر
زمین کی پرت میں لے جاتی ہیں ، جہاں وہ پگھل کر ، مل کر ،بازیافتہ ہو کر کرۂ فضائی
میں آتش فشانوں کے ذریعہ دوبارہ پہنچ جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے پچھلے باب میں دیکھا
ہے ، یہ چکر ہمارے سیارے کے کرۂ فضائی کی بقاء کے لئے انتہائی ضروری ہے ، لیکن یہ
چکر اس سے بھی کچھ زیادہ کام کرتا ہے :یہ ایک تھرموسٹیٹ کی طرح کام کرتا ہے کیونکہ
کاربن ڈائی آکسائڈ ایک نباتاتی خانے کے اثر کی حامل گیس ہے اور اس کے چکر میں ایک فیڈبیک
حلقہ بھی شامل ہوتا ہے جو زمین کے درجہ حرارت کو اوسط درجہ حرارت پر لے آتا ہے
(خاکہ10.3 ملاحظہ کیجئے )۔
نباتاتی خانے کے اثر والی گیس سورج کی روشنی کی حرارت کو اندر سطح پر آنے کی اجازت
دیتی ہے اور اس حرارت کو کمبل کی طرح روکنے میں مدد کرتی ہے۔ پانی کے قطرے اور
میتھین بھی ایک طرح سے نباتاتی خانے کے اثر کی حامل گیسیں ہیں۔ اگر زمین کا درجہ
حرارت ذرا سا بھی بڑھتا ہے ، تو کاربن ڈائی آکسائڈ کا فضا میں تناسب کم ہو جاتا ہے
کیونکہ گیس بڑھتے ہوئے عمل تبخیر کے نتیجے میں پانی میں زیادہ حل ہو جاتی ہے اور
بارش اس کو سطح پر لے جاتی ہے یوں چٹانوں میں ٹوٹ پھوٹ اور سمندر میں اس کو دوبارہ
جمع کرنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ اس سے کرۂ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار
کم ہو جاتی ہے اور نباتاتی خانے کا اثر کمزور ہو جاتا ہے اور زمین کا درجہ حرارت
کم ہو جاتا ہے۔ جب سطح کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے تو بارش کم ہونے کے سبب سے کاربن
ڈائی آکسائڈ کا کرۂ فضائی میں حصّہ بڑھ جاتا ہے۔ نتیجے میں مزید کاربن ڈائی آکسائڈ
نباتاتی خانے کے اثر کو مضبوط کرتی ہے اور گرمی بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں زمین
کا درجہ حرارت واپس معمول پر آ جاتا ہے۔ واقعی کیا ایک بے عیب درجہ حرارت کو قابو کرنے
والا آلہ ہے یہ !
ہو سکتا ہے کہ مکمل بے عیب کہنا کچھ زیادہ بڑی بات ہو جائے
گی کیونکہ زمین نے برفیلے دور کو بھی برداشت کیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کا چکر جس
کے نتیجے میں درجہ حرارت قابو میں آتا ہے اس کا عرصہ کافی لمبا (چار لاکھ سال کا )
ہوتا ہے۔ بہرحال برفانی دور زمین پر موجود حیات کے لئے چھوٹی موٹی پریشانی تھی۔
یہاں تک کہ بنی نوع انسان بھی پچھلے دس ہزار سال سے زندہ رہے ہیں جبکہ چھوٹے
جاندار جیسا کہ زمین دوز خرد بینی حیات کو تو پتا بھی نہیں چلا کہ سطح کے اوپر ہوا
کیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائڈ کے چکر نے ہمارے سیارے کو ارب ہا سال سے کسی بھی سنجیدہ
مسئلے سے محفوظ رکھا ہوا ہے اور یہ اس عمل کو اس وقت تک مزید اگلے دو سے تین ارب برس
تک جاری رکھے گی جب تک سورج زیادہ روشن نہیں ہو جاتا۔ اگر شمسی حرارت بڑھتی رہے گی
تو ایک وقت ایسا آئے گا (زہرہ بھی ماضی
میں اس وقت اس صورتحال سے گزر چکا ہے )جب تھرموسٹیٹ ٹوٹ جائے گا۔
متشکک قاری کو کاربن ڈائی آکسائڈ کے تھرموسٹیٹ کا چکر ہمارے
سیارے کی مخصوص خاصیت لگے گی۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ کاربن اور آکسیجن
کائنات میں بہت ہی عام پائے جانے والے عنصر ہیں ، لہٰذا ہماری کہکشاں میں موجود وہ
سیارے جو زیادہ تر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں ان کے پاس کافی زیادہ کاربن ڈائی
آکسائڈ موجود ہوگی۔ آتش فشاں ان کے کرۂ فضائی کو ٹیکٹونک پلیٹوں کی حرکت کے بغیر
بھی دوبارہ سے بھر رہے ہوں گے۔ ہمارے نظام شمسی میں زہرہ اور مریخ کے کرۂ فضائی
میں کاربن ڈائی آکسائڈ کا ہی غلبہ ہے۔ ہماری زمین پر بھی اس کا غلبہ ہوتا ، وہ تو
بھلا ہو چھونے کے پتھر اور سمندروں کا جنہوں نے اس کے زیادہ تر حصّے کو قید کر لیا
ہے۔ اور ممکن ہے کہ حیات نے (جو زیادہ تر سمندری سیپیوں کی شکل میں تھی ) کاربن
ڈائی آکسائڈ کے چکر میں کافی اہم کردار
ادا کیا ہو لیکن یہ چکر ان کے بغیر بھی آسانی کے ساتھ رواں دواں رہ سکتا ہے۔ کاربن
ڈائی آکسائڈ کے تھرموسٹیٹ چکر کو مائع پانی اور ٹیکٹونک پلیٹ کی سرگرمی کی ضرورت
ہے۔ مریخ اور زہرہ بظاہر اتنے چھوٹے لگتے ہیں کہ وہ اپنا پانی فرار ہونے سے نہیں
روک سکتے اور نہ ہی ان میں ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرگرمی جاری رہ سکتی ہے۔ زمین نے بھی
یہ کام بمشکل کیا ہے ! فوق ارضی سیاروں کے لئے یہ کام بہت آسان ہوگا لہٰذا وہ ایک
لمبے عرصے تک پائیدار ماحول فراہم کر سکتے ہیں۔
تائیدی نقطہ نظر ہمیں بتاتا ہے کہ زمین ایک ایسا سیارہ ہے
جس نے بمشکل ٹیکٹونک پلیٹ کی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے یہ ایک ایسی تحقیق ہے جو
ارضیاتی تاریخ کے دوران سرگرمی کی سست رفتاری یا لمبے عرصے کے جمود کا عندیہ بھی
دے رہی ہے ۔ کئی عناصر زمین کے غلاف سے نکل کر ختم ہو گئے ہیں جن کو ٹیکٹونک پلیٹ
کی حرکت کے نائب کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ زمین کی بڑھتی عمر اور سرد ہونے کے
ساتھ اس کا اندرون بتدریج حل پذیری اور تحتی تداخل(قشر زمین کے کسی بھی تختے یا قطعے کا
نیچے اور پہلو کی طرف کھسک کر کسی دوسرے تختے کے نیچے
گھسنے ) کے عمل میں کئی عناصر کو کھوتا جا رہا ہے۔ زمین کے اندرون میں چاندی کی
تقابلی نسبت نیوبیئم سے تھوریم اور ہیلیئم
کے دو ہم جاؤں (4He/3He) کا
موازنہ کریں تو زمین کی تخلیق کے وقت سے لے کر اب تک گردشی چکر میں تبدیلی(بجائے
بتدریجی عمل )کے نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق ٹیکٹونک کی پلیٹوں کی سرگرمی گزرے وقت کے
دوران سست ہو گئی ہے بلکہ اکثر اوقات تو رک بھی گئی تھی اور پھر بعد میں دوبارہ
شروع ہوئی۔ یہ چکر پچھلے تین سے چار ارب سال میں کئی دفعہ ہوتا ہوا نظر آیا ہے۔
ڈائنا ویلنشیا اور رک ا و کونیل کے ساتھ کام میں ہم نے اس
بات کی تفتیش کی تھی کہ کیا ٹیکٹونک پلیٹوں کی سرگرمی فوق ارضی سیاروں میں زیادہ ،
کم یا پھر زمین کے جتنی ہی ہوگی۔ اس بارے میں اب تک کوئی چیز زیادہ واضح نہیں تھی - جب ٹیکٹونک پلیٹوں کی بات آتی ہے تو کوئی بھی
چیز سادہ نہیں لگتی ہے۔ ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں کہ فوق ارضی سیارے اپنے اندرون
میں(ارب ہا برس گزرنے کے بعد ) بہت گرم ہوں گے کیونکہ وہ بڑے ہیں۔ اندرون میں
زیادہ درجہ حرارت کا مطلب زیادہ ابال ہے یوں زیادہ حرکت اور غلاف میں زیادہ توانائی
پیدا ہوگی جو زیادہ دباؤ، دھکیل اور پرت پر نیچے کی جانب سے زور لگائے گی ۔ قدرتی
طور پر اس کے نتیجے میں توڑ پھوڑ ہوگی کیونکہ ان کو اوپر نیچے سے دھکا لگے گا جس
کے نتیجے میں تحتی تداخل وقوع پذیر ہوگا اور ہلکے عناصر بھاری اور کثیف عناصر سے
اوپر آ جائیں گے۔ بدقسمتی سے اس کا ایک اور بھی اثر ہوگا جس کو ہمیں مد نظر رکھنے
کی ضرورت ہے ، بہتے ہوئے غلافی مادّے کی چپچپاہٹ کا درجہ حرارت پر کافی زیادہ
انحصار ہوتا ہے - جیسا کہ شہد کو جب ہم گرم کرتے ہیں تو وہ آسانی کے ساتھ بہہ کر
گرتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے : اگرچہ فوق ارضی سیارے گرم تو ہوتے ہیں اور ان کا غلاف بھی تیزی
سے ابلتا ہے ، تاہم گرم غلاف کم چپچپا ہوتا ہے اور ٹھوس پرت کو کھسکائے بغیر خود آسانی کے ساتھ کھسک سکتا ہے۔ جیسا کہ سائنس
دان کہتے ہیں کہ دونوں اثر ایک دوسرے کو زائل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو سب سے اہم
بات ہے۔ جب ہم مزید احتیاط کے ساتھ اس سرگرمی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک تیسرا
اثر ملتا ہے جو سب کچھ بدل ڈالتا ہے۔ بلند درجہ حرارت فوق ارض کو دبیز پرت بنانے دیتا
ہے۔ بالآخر ہمارے پاس تمام فوق ارضی سیاروں کے بارے ایک بہت ہی طاقتور نتیجہ نکلتا ہے - کم ہوتی پرت
کی دبازت اور بڑھتا ہوا غلافی دباؤ مل کر توانا اور صحت مند ٹیکٹونک پلٹوں کی
سرگرمی پیدا کرتے ہیں۔
زمین کا موازنہ اگر ہم مختلف حجم کے نظریاتی فوق ارضی سیاروں سے کریں تو ہمیں زمین جیسے
پائیدار سیاروی ماحول کی کافی زرخیز بوقلمونی ملے گی۔ حقیقت میں ہم ایسے سیاروں کے
خاندان کو پاتے ہیں جس میں زمین بمشکل شامل ہے ۔ یہ سیارے اس گروہ میں اپنی کمیت ، ٹیکٹونک سرگرمی اور
لمبے عرصے تک درجہ حرارت کی پائیداری کی وجہ سے شامل ہیں۔ چھوٹے ہونے کی وجہ سے
زمین کئی قسم کے کائناتی حادثوں کا زیادہ شکار ہو سکتی ہے۔ اپنے مادری سیارے کے
تعصب سے قطع نظر زمین اس سیاروی خاندان میں کوئی بہت ہی ہونہار بچہ نہیں ہے ! یہ
زمینی وطن پرستی کرنے والوں کے لئے ایک بری خبر ہوگی ، تاہم یہ کائنات میں حیات کی موجودگی کے
لئے ایک بہت ہی زبردست خبر ہوگی - کائنات
میں حیات کے لئے کافی اچھی جگہیں موجود ہیں جہاں اس کا ظہور ہو سکتا ہے اور وہاں
وہ ایک لمبے عرصے تک قائم و دائم بھی رہ سکتی ہے۔
ہمارے لئے سوال یہ ہے کہ فی الوقت سیاروں کا کیا شمار ہے ؟
حیات کا خاندان کتنا بڑا ہو سکتا ہے ؟
1 comments:
thanks
ahmer
ایک تبصرہ شائع کریں