Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 2 جنوری، 2016

    گلیلائی چاند - حصّہ اوّل

    پانچواں باب

    گلیلائی چاند
    خاکہ 5.1 مشتری کے ضخیم چاند کیلسٹو پر موجود عجیب و غریب برف کے ستون مستقبل کے مسافروں کے لئے  مینار راہ ہوں گے۔

    جرمن ماہر فلکیات سائمن موریس  وہ چیزیں دیکھنے جا رہا تھا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھیں تھیں۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو اسے  بین الاقوامی سطح پر گرما گرم مباحثوں میں گھسیٹنے  والی تھیں۔ ١٦٠٨ء کی خزاں میں موریس کی   ایک جاننے والے سےمڈبھیڑہوگئی  جس کے پاس حیران کن کہانی تھی۔ جان فلپس فچس توپ خانے کا افسر اور لارڈ پریوی مارگریوز  آف برانڈنبرگ – انسبچ   کا کونسلر ابھی ابھی فرینکفرٹ کے قریب منعقدہ میلے سے لوٹے تھے۔ اس میلے میں موجود ایک پرتگالی نے ایک چھوٹی سی نلکی دکھائی جو دور کی چیزوں کو "ایسے دکھاتی ہے جیسے کہ وہ کافی قریب ہوں۔" فچس نے ان جاسوسی عینکوں کو خریدنے کی کوشش کی، لیکن قیمت پر بات نہیں بنی۔

    فچس اور موریس نے کوشش کی کہ وہ دوربین کو عینکوں کے عدسوں کی مدد سے بنا سکیں، لیکن اس میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ایک برس بعد  یہ نئی دریافت جب کافی عام  اور سستی ہو گئی تو موریس اس قابل ہوا کہ وہ اس کو خرید سکے۔ ١٦٠٩ء کے نومبر یا دسمبر میں ، موریس نے مشتری کو  نظم و ترتیب کے ساتھ دیکھنا شروع کیا۔ اس نے دیکھا کہ ستارے جیسی چیزیں اس کے ساتھ حرکت کر رہی ہیں  جیسا کہ اس نے ١٦١٤ء میں لکھا، "۔۔۔جوں ہی  مشتری  پیچھے کی طرف لوٹنے لگا، میں تب بھی ان ستاروں کو اس کے ساتھ  پورے دسمبر دیکھتا رہا ، پہلے تو میں کافی حیران رہا؛ تاہم اس کے بعد دوسرا نظارہ کرتے وقت  سمجھ گیا کہ جس طرح سے یہ ستارے مشتری کے گرد حرکت کر رہے ہیں یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ پانچ شمسی سیارے سورج کے گرد چکر لگاتے ہیں۔"

    موریس نے اپنے اس مشاہدے کو ٢٩ دسمبر ١٦٠٩ء میں جولیس تقویم کے حساب سے  درج کرنا شروع کیا۔ یہ تاریخ گریگورین  تقویم کے لحاظ سے ٨ جنوری ١٦١٠ء بنتی تھی[1] جو اتفاق سے اس دن کی دوسری رات تھی جب اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی  نے مشتری کے مصاحبین  کی   دستاویزات کو ضبط تحریر کیا۔ گلیلیو نے  فلکیاتی پیغام بر مارچ ١٦١٠ء میں شایع کیا۔ اس مقالے میں گلیلیو کے بنائے ہوئے ستر سے زائد چاند کے مرحلے اور شگاف، برج  اور سب سے اہم مشتری  کے اپنے مہتابوں کے ساتھ  خاکے موجود تھے۔

    گلیلیو نے برجیسی مہتابوں کا ذکر اپنے ایک اور پہلے خط میں بھی کیا تھا  جس کی تاریخ ٧ جنوری  تھی   لہٰذا غالب گمان یہ ہے کہ  اس نے مشتری کے چار بڑے مہتابوں کو موریس سے کم از کم ایک رات پہلے دریافت کیا تھا۔ موریس نے اپنی تحقیق کو کئی برسوں تک شایع نہیں کیا۔ جب اس نے  ١٦١٤ء [2]میں اس کو شایع کیا تو اس نے دریافت کا سہرا اطالوی ماہر فلکیات کو یہ کہتے ہوئے  دیا، " لہٰذا اٹلی میں ان ستاروں کی پہلی دریافت کا سہرا  گلیلیو کو جاتا ہے اور وہ اس کا ہی رہے گا " لیکن موریس کے مداحوں نے اس بات کا مطلب یہ لیا کہ گلیلیو کواس دریافت کا  سہرا صرف اٹلی میں جاتا ہے جب کہ موریس نے اصل دریافت جرمنی  میں کی۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ موریس اس بارے میں کیا محسوس کرتا تھا، لیکن وہ گلیلیو سے پہلے ہی نووا کے تنازعہ  میں کافی برسوں پہلے سے الجھا ہوا تھا۔ بلاشبہ وہ  کسی بھی دوسرے تنازعے  سے بچنا چاہتا تھا۔ اس کے باوجود موریس کے چاہنے والوں  کے دباؤ پر گلیلیو مجبور ہوا کہ  موریس کی دریافت کے "دعووں " کی تردید کرے۔

    موریس کے  ١٦١٤ء کے مندرجات مہتابوں کی مخصوص حرکت کی پہلی تفصیل تھی  اور یہ موریس ہی تھا جس نے ان ناموں کی تجویز دی  تھی جو ان کو تفویض کئے گئے ہیں، مشتری کی محبوباؤں  کے نام ۔ ان ناموں کی تجویز اس کو جوہانس کیپلر نے اپنے خط بتاریخ اکتوبر ١٦١٣ء میں دی تھی۔ اس طرح سے اگرچہ مشتری کے بڑے مہتابوں کو گلیلائی سیارچے کہتے ہیں  لیکن ان کے نام موریس نے رکھے تھے۔

    دوربینوں کے طاقتور ہونے کےباوجود گلیلائی علم تھم سا گیا تھا۔ برجیسی نظام اس قدر دور ہے اور اس کے مہتاب اس قدر چھوٹے ہیں کہ دوربینوں کے ذریعہ انتہائی کم تفصیلات حاصل کی جا سکتی تھیں۔  تفصیلات متاثر کرنے کی حد تک تو تھیں تاہم وہ ان مہتابوں کی اصل نوعیت کو بیان کرنے سے پریشان کن حد تک قاصر تھیں۔ ٣٠٠ برس بعد ١٩٣٣ءمیں اپنی کتاب [3]Sur Les Autres Mons” میں لوشین روڈیکس  جو پیرس کی میڈون رصد گاہ کا منتظم تھا نے لکھا، "کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اہم سیارچے ہمارے چاند سے بڑے ہیں اور کئی سیاروں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ گینی میڈ کا قطر لگ بھگ مریخ کے جتنا  ہے اور عطارد سے بڑا ہے، مؤخر الذکر تو [گینی میڈ سے] چھوٹا ہے ۔" روڈیکس  نے گلیلائی سیارچوں کا مقابلہ  زمین کے پڑوسی سیاروں سے کیا۔ "آپ سرمئی رنگ کے چھوٹے  پیوند دیکھ سکتے ہیں جو قدرتی طور پر بنی ہوئی مختلف سطحی ساختوں کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ پس اس لئے چاند اور سیاروں کی طرح انھیں ہم زمین سے دیکھ سکتے ہیں۔    
     
    خاکہ 5.2 موریس منڈس جوویلس  (بائیں) اور گلیلیو سڈریس ننسیس  کی کوور پلیٹ

    ہمارے لئے یہ ممکن ہے کہ ہم سطح کو سمجھ سکیں، لیکن ہم ان  جگہوں کے بارے میں اور کیا جان سکتے ہیں؟ کیا ہم رنگوں کے حادثوں کو دیکھ رہے ہیں؟ کیا وہ ہموار ہیں یا کھردرے؟ کیا وہ جراثیم سے پاک ہیں یا نہیں؟ اس سلسلے میں یہ بات ناممکن ہے کہ  ہم بالکل درست بات معلوم کر سکیں۔" روڈیکس بطور فن کار اور ماہر فلکیات اس خیال سے مزاحمت نہیں کر سکا کہ یہ چھوٹی دنیائیں انسانی پیمانے پر کیسی دکھائی دیتی ہوں گی۔ "یہ ممکن ہے کہ وہاں جایا جا سکے۔ لیکن ان میں سے کس پر ہمیں جانا چاہئے؟"

    اگلے بیس برسوں  میں دوربین کے مشاہدات نے ماہرین فلکیات کو ان چار چاندوں کی کمیت  اور حجم کے بارے میں کافی بہتر طور پر اندازے قائم کرنے میں مدد کی، لیکن ان کی ہئیت کو سمجھنے کے سلسلے  میں بہت ہی کم معلوم ہو سکا۔ روئے گیلنٹ  ١٩٥٨ء کی اپنی کتاب "سیاروں کی کھوج" میں [4] چند مختصر سے پیراگراف میں حالیہ گلیلائی مہتابوں سے متعلق سائنسی معلومات کو کوزہ بند کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ ان کی تحریر کا کچھ حصّہ ایسا ہے :

    آئی او ۔۔۔ کے متعلق غالب گمان یہ ہے کہ وہ ایک چٹانی کرہ ہوگا جس میں ہر جگہ دھاتیں پھیلی ہوئی ہوں گی۔ دوسرا بڑا سیارچہ یوروپا ہے ۔۔۔ سورج کی روشنی کو بہت اچھے طرح سے منعکس کرنے والا ، کبھی کبھار  تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے خط استواء پر اس نے گہری پٹی پہنی ہوئی ہے  اور ہلکے قطبی علاقے دکھا رہا ہے۔ عموماً سیارچہ سفید نظر آتا ہے ۔۔۔[گینی میڈ] میں گہرے پیوند ہیں، نہروں جیسے نشان اور  قطبی چوٹیاں مریخ جیسی ہیں۔ ہمارے چاند کی طرح ، گینی میڈ کو لازمی طور پر سرد جہاں ہونا چاہئے جہاں حد درجے لطیف کرہ فضائی ہوگا۔۔۔ کیلسٹو ۔۔۔ روشنی کا برا منعکس کرنے والا ہے اور گہرے استواء کے ساتھ سرمئی مائل نیلا دکھائی دیتا ہے۔۔۔ سیارچے کی تاریکی  اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ کیلسٹو اپنے دوسرے ساتھیوں سے الگ ہے۔ کچھ فلکیات دان اس کو ٹھوس برف کی گیند سمجھتے ہیں۔ جبکہ دوسرے کہتے ہیں کہ اس کا قلب  برف سے ڈھکا ہوا ہے۔" بہرحال  ١٩٧٠ءکے عشرے میں کئی محققین سمجھتے تھے کہ گلیلائی مہتابوں کی سطح پر گڑھے موجود ہوں گے اور وہ بنجر ہوں گی۔۔۔[گینی میڈ] کی زمین ممکنہ طور پر ہمارے چاند جیسی ہوگی۔۔۔ وہاں جمی ہوئی گیسیں چٹانی میدانوں پر چڑھی ہوئی ہوں گی۔[5]

    ہرچند کہ برجیسی مہتابوں  کا اژدہام  اپنے راز چھپائے ہوئے تھا، لیکن انہوں نے اپنے مرکزی سیارے کی اندرونی ساخت کے بارے میں بھی کچھ معلومات فراہم کی۔ ان کی حرکت کو انتہائی احتیاط کے ساتھ درج کرنے کے بعد، طبیعیات دان مہتابوں کی کمیت  کا کافی قریبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مہتابوں کا یہ ناچ دوسری طرف مشتری کے حجم کو بھی بیان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ گلیلائی مہتابوں کو روشنی کی رفتار ناپنے کے تجربات میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔

    مہتابوں کی کمیت کو بیان کرنے کے لئے ،  فلکیات دانوں نے  ان کے اندرون کی ساخت کو جاننے کی کوشش کی۔ ١٩٦٠ء کے ابتدائی عشرے تک، اس بات پر سب ہی متفق ہو گئے تھے کہ گلیلائی مہتاب پانی کی برف اور پتھروں پر مشتمل ہیں۔ یہ امتزاج کیسے حاصل ہوئے اس کے بارے میں بس اندازے قائم کئے جا رہے تھے۔ آیا کیا  مہتاب صرف منجمد برف اور پتھروں کی روڑی  کے ملغوبے کا شوربہ تھے؟ برف کے کرے کثیف چٹانوں/ لوہے کے قلب کے ساتھ؟ ایک چیز تو صاف تھی۔ جس طرح سے سیارے اپنے مرکزی ستارے کے گرد چکر لگاتے ہیں ، گلیلائی چاند جو اپنے مرکزی سیارے سے نزدیک تھے وہ زیادہ ضخیم تھے اور دور والا  کیلسٹو  کم ضخیم تھا۔ ایک طرح سے گلیلائی چاند چھوٹا سا نظام شمسی بناتے ہوئے نظر آتے تھے۔

    ١٩٦٤ء کی شروعات میں ۔ فلکیات دانوں نے ان ستاروں کا احتیاط کے ساتھ مشاہدہ کرنا شروع کیا جب وہ مہتابوں کے پیچھے جا کر غائب ہوتے تھے اس  مظہر کو  "احتجاب کوکب" کہتے ہیں۔ اگر مہتابوں کا کرہ فضائی موجود ہوا تو ستارے کی روشی بتدریج  کم ہوتی ہوئی ایسے نظر آئے گی جیسا کہ ستارے چاند کے پیچھے جا رہا ہے۔ لیکن ایسا نہیں تھا؛ یہ بات عیاں ہو گئی تھی کہ سیاروں کے حجم والے مہتابوں کا کرہ فضائی موجود نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو بہت ہی معمولی تھا۔





    [1] ۔ بطور کیتھولک گلیلیو نے گریگورین تقویم کا استعمال کیا تھا۔
    [2] ۔ یا "مشتری کی دنیا ١٦٠٩ء میں ولندیزی جاسوسی عینک کے ذریعہ دریافت ہوئی۔"
    [3] ۔ یا ۔۔۔ دوسرے جہانوں پر اصل میں اوجی جیلن ، ہولئیر – لاروسے نے ١٩٣٧ءمیں شایع کی تھی۔ اس کو دوبارہ ١٩٩٠ء میں شایع کیا گیا۔ ایک مشاق شاہد ہونے کے علاوہ روڈیکس ایک مصوّر بھی تھا۔ اس کی تصاویر نے پہلی مرتبہ سائنسی بنیادوں پر تاریخ میں درست طور پر خلاء کو بیان کیا۔
    [4] ۔ سیاروں کی کھوج از روئے اے گیلنٹ ، ڈبل دے اینڈ کو ١٩٥٨ء۔
    [5] ۔ چاند اور سیارے از جوزف سڈل ؛ شایع کردہ پال ہملین ،لندن  ١٩٦٥ء۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: گلیلائی چاند - حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top