گینی میڈ
پر دن میں درجہ حرارت ہمارے زمینی تجربے کے مقابلے میں کافی شدید ہیں ۔ یہ اوسطاً
منفی ١٤٠ ڈگری ہوتا ہے۔ لیکن قطبین پر چاند کا درجہ حرارت اور گر جاتا ہے۔
یہاں پر برف کی گرد گڑھوں اور وادیوں کو
ڈھانپ کر ایک پتلے پردے سے ڈھانک دیتی ہے۔ محققین کو شبہ ہے کہ یہ برف پانی کی ہے
لیکن اس میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی برف بھی
ملی ہوئی ہے، یہ بات برفیلے سیارچوں کے ماہر جیف مور کہتے ہیں۔"گینی میڈ میں
اس کے مقامی پہاڑیوں کے ساتھ
باالخصوص پرانے گڑھوں سے پر تاریک علاقوں
میں برف کے کچھ ذخائر موجود ہوں گے جو چند
میٹر ہی گہرے ہوں گے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ جیسے ان پہاڑیوں پر برف باری ہوئی ہو۔
یہاں پر یعنی قطبی علاقوں پر ہم کافی
مقدار میں برف کے ذخائر کو دیکھتے ہیں۔[گلیلیو خلائی جہاز کے ساتھ] ہم نے کم از کم
ایک پٹی کو پکڑا جو بلند شمالی ارتفاع کے ساتھ چل رہی تھی اور ہم نے دیکھا کہ ٹھنڈی ڈھلانوں میں کافی مقدار میں برف کے ذخائر موجود ہیں۔ اسی وجہ سے گینی میڈ کی
روشن قطبی ٹوپیاں ہیں۔"
درجہ
حرارت کے علاوہ ایک اور اجنبی عامل بھی ہے جو ان قطبین پر عمل کار ہے۔ قطبی
برف ان علاقوں میں بنتی ہے جو گینی میڈ کے
مقناطیسی خطوط کے ساتھ خالی جگہوں پر
موجود ہیں۔ ان قطبی علاقوں میں گینی میڈ کے مقناطیسی میدان اس کی سطح کی
حفاظت مشتری سے آنے والی خطرناک تابکاری
سے نہیں کرتے۔ اصل میں گینی میڈ کے مقناطیسی میدان اس کی سطح پر موجود ارضیات پر براہ راست اثر
انداز ہوتے ہیں۔ یوروپا کی طرح گینی میڈ
کے اندر بھی ایک سمندر گھات لگائے بیٹھا ہے۔ یوروپا میں سمندر چٹان کے فرش پر موجود ہے جہاں
معدنیات اور شاید آتش فشاں حیات کی نمو کو شروع کرنے والے عناصر کو بنا
رہے ہیں۔ لیکن گینی میڈ پر ایسا نہیں ہے۔ چاند کے تحریصی مقناطیسی میدان اس بات کا پتہ دے رہے ہیں کہ جمی ہوئی پرت کے نیچے ایک اندرونی سمندر موجود
ہے جو شاید اپنے اوپر اور نیچے دو برف کی
پرتوں کے درمیان سطح سے ١٧٠ کلومیٹر کے
نیچے غرق ہے۔ اس کا رابطہ معدنیات سے
بھرپور چٹانی قلب سے ٹوٹا ہوا ہے لہٰذا اس کی حیات کو سہارا دینے کی کیا امید ہو
سکتی ہے؟ کچھ حالیہ تحقیق سے حاصل کردہ
نتائج نے فلکیاتی حیاتیات دانوں کو خاموش کرا دیا ہے۔ نمونے بتا رہے ہیں کہ برف/ چٹان میں موجود نمکین پانی اوپر کی
طرف ٹپک رہا ہے اور برف سے قید سمندر کی طرف ہجرت کر رہا ہے۔ راستے میں پانی
تالابوں میں بھی جمع ہو رہا ہے۔ گینی میڈ میں پائے جانے والے درجہ حرارت اور دباؤ
تجربہ گاہوں میں بنانا کافی مشکل ہے لیکن
ایسا لگتا ہے کہ چٹان اور سمندر کے درمیان برف کی دیوار کچھ ایسی بھی رکاوٹ نہیں
ہے۔ اگرچہ انھیں وہاں پر کوئی بازار تو نہیں ملے ہیں لیکن فلکی حیاتیات دانوں نے گینی میڈ پر بھی
حیات کے ممکن ہونے کے امکان پر غور و فکر شروع کر دیا ہے۔
خاکہ5.21 چرمی کاغذ میمفس فکولا
برف کا ایک روشن تالاب پھیلا رہا
ہے جو ٣٥٠ کلومیٹر گینی میڈ کے قدیم سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ غور سے دیکھیں کہ کھانچے دار سطح کناروں کے قریب ہے۔ وسطی بائیں جانب : گینی میڈ
پر چھوٹے گڑھوں میں مرکزی چوٹی بھی ہوتی
ہے جو اکثر اٹھے ہوئے ستون پر رکھی ہوئی
ہوتی ہے۔ مرکزی دائیں طرف: بڑے گڑھوں میں
بیچ میں تالاب اور گنبد سے بن جاتے ہیں۔ اسی طرح سے گڑھے کیلسٹو میں بھی بنتے ہیں۔ دائیں بعید : منور شگاف تازہ
برف کو پرانے تاریک سطح کی طرف پھیلا دیتے ہیں۔
برفیلے
چاندوں میں گینی میڈ میں ایک منفرد خاصیت بھی موجود ہے- ایک جبلی مقناطیسی میدان جو اس کے پگھلے ہوئے قلب
نے پیدا کی ہے۔" یہ گینی میڈ سے متعلق سب سے دلچسپ بات ہے۔ اس کے اپنے
مقناطیسی میدان ہیں ۔ اصل میں اس کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ اپنے مقناطیسی
میدان کو خود سے پیدا کرے۔ نظام شمسی میں
موجود صرف دو جگہیں ایسی ہیں ( دیو ہیکلوں کو چھوڑ کر) جن کے اپنے مقناطیسی میدان ہیں یعنی زمین اور عطارد۔ لہٰذا گینی میڈ چاند ہونے کے باوجود حیران کن طور پر اپنے اندرون میں اس قدر متحرک
ہے کہ یہ برجیسی مقناطیسی
میدان کے سامنے کھڑا ہوا ہے۔ یہ بات اس کو
ایک بہت ہی غیر معمولی جسم بناتی ہے۔" لوئیس پراکٹر کہتی ہیں۔ انسانی تلاش کے
لئے یہ بہت ہی اہم بات ہے۔ گینی میڈ کے مقناطیسی میدان کا بلبلہ
کم از کم قریبی مشتری کے ہیبت ناک
تابکاری سے تو بچائے گی، اس طرح سے بسائے
جانی والی بستی کو حفاظتی ڈھال، تابکاری
سے بچاؤ والے آلات اور بھاری لباسوں سے نجات مل جائے گی۔ جیوف کولنس
تصوّر کرتے ہیں کہ مستقبل میں مسافر
اس طرح یہاں آئیں گے جیسے کہ وہ
گینی میڈ کی ڈھلوانوں پر چڑھ رہے ہوں۔ "تاریک علاقے چاند کے بلند
علاقوں کے جیسے ہو سکتے ہیں، بس فرق اتنا ہے کہ ان حیران کن روشن
برفیلی ڈھلانوں اور تاریک مٹی والا
مادّہ شگافوں اور ریخوں کے نیچے موجود
ہے۔ روشن سطح نئی ہونے کے باوجود بھی ارب ہا برس پرانی ہے لہٰذا اس کے کنارے ختم
ہو گئے ہیں۔ میں اپالو کی ان تصاویر کے بارے میں سوچتا ہوں - وہ نرم نظر آنے والے پہاڑ اور گینی میڈ پر کچھ نظر آنے والی چیزیں شاید
کچھ ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ میری دیوار پر
ہیڈلے ریل کی تصویر موجود ہے جب اپالو ١٥ وہاں پہنچا تھا۔ فاصلے سے ہیڈلے
ریل کافی نوکیلی لگتی ہے؛ وہاں پر یہ اچھے چپٹے میدان موجود ہیں اور پھر یہ یکایک
اس وادی میں غوطہ لگا دیتی ہے۔ لیکن جب خلا نورد اس سے قریب ہوئے تو وہاں پر شاید کناروں پر موجود چھوٹی سے چٹان
نظر آ رہی تھی، لیکن اس کا زیادہ تر حصّہ روڑوں ، ملبے اور دھول سے ڈھکا ہوا تھا۔
میں بھی اسی طرح سے گینی میڈ کا تصوّر کرتا ہوں۔" جیوف کولنس ناسا کے کافی سارے منصوبوں میں شامل ہیں
مثلاً مشتری کی جانب جانے والی گلیلیو مہم
اور زحل کی طرف جانے والی کیسینی۔ دیکھیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں کہ وہ
بیرونی نظام شمسی میں قریب سے کیا دیکھنا چاہئیں گے:
میرا تعلق ارضیات سے ہے، ارضیات میری پہلی محبت ہے اور میری ہمیشہ سے شگافوں اور پہاڑی سلسلوں میں اور ان کے بننے کے عمل کو جاننے میں دلچسپی
رہی ہے۔ ١٩٧٩ء میں جب وائیجر سے حاصل کردہ گینی میڈ کے روشن علاقوں کی تصاویر کو
دیکھا تو مجھے سیاروی مسئلے میں ارضیاتی
شگافوں کے علم کو اس برفیلے سطح پر منطبق کرکے دیکھنے میں کافی دلچسپی پیدا ہو
گئی۔ یہ تب سے مجھے مسحور کئے ہوئے ہے اور
میں ہمیشہ قریب سے یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہاں پر کیا چل رہا ہے۔
میں گینی میڈ کے مشتری کے نظام میں کئی طرح سے
ایک گولڈی لاکس زون دیکھتا ہوں۔ یہاں پر کافی دلچسپی کی چیزیں چل رہی ہیں مگر وہ
ایسی نہیں ہیں کہ آپ کی جان لے لیں۔ نہ کافی عمر رسیدہ نہ ہی کافی نوجوان ، کچھ
تابکاری یہاں موجود ہے لیکن اتنی بھی
زیادہ نہیں ہے۔ یہ مشتری سے قریب ہے لیکن اتنا بھی قریب نہیں ہے۔ یہاں پر مدو جزر
کا تھوڑا بہت عمل ہے لیکن بہت زیادہ مدو جزر کی لہریں بھی نہیں ہیں۔[ارضیاتی نقطہ
نگاہ سے] آپ کے پاس یوروپا اور آئی او
کافی دلچسپ ہیں جبکہ دوسری طرف کیلسٹو ہے
جو اتنا زیادہ دلچسپ نہیں ہے، اس طرح سے گینی میڈ بہترین ہے۔ اس میں یوروپا اور
کیلسٹو دونوں جیسی خصوصیات موجود ہیں۔ تو جب ہم گینی میڈ پر جا سکتے ہیں تو کیوں
یوروپا یا کیلسٹو پر جائیں؟ یوروپا پر نچڑے ہوئے
ایسی پٹیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں ایک دوسرے سے کھینچ
کر الگ کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گینی میڈ پر بھی کچھ ایسی چیزیں موجود ہیں۔
گینی میڈ پر کچھ ایسی جگہیں بھی موجود
ہیں جہاں پر ایسا لگتا ہے کہ یوروپا
جیسی سرگرمی جاری ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ
شاید یہ کافی مدو جزر حرارت والی قسط سے
گزر چکا ہے ، اچانک شروع ہونے والی سرگرمی لیکن اس کے بعد سے یہ کافی خاموش ہے۔
لہٰذا اس کو یوروپا کی پرانی شکل کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ مشتری آسمان میں کیلسٹو
کے مقابلے میں کافی روشن اور کافی متاثر کن ہوگا۔ مقناطیسی میدان بھی آپ کی مدد
کریں گے۔ گینی میڈ میں کافی حصّے ایسے ہیں جو کولوراڈو کے پہاڑوں سے ملتے ہیں ؛ آپ
کو ایسا لگے کہ آپ کافی سارے پہاڑوں کے سلسلوں کے درمیان موجود ہیں۔ یہاں پر برف پر پھسلنے کا عمل کیلسٹو کی بہ نسبت کافی بہتر ہے۔ یوروپا کافی مسحور کر دینے والا ہے لیکن وہاں پر آپ کو جلد ہی کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہو جائے گا۔
آئی او بھی شاندار ہے لیکن جلد ہی وہاں پر موت واقع ہو جائے گی۔
سیاحت کی منزل کے حوالے سے گینی میڈ کے مدار میں داخل ہونا بھی آسان ہے۔ مشتری کے
نظام میں یہ سب سے زیادہ ضخیم ہے۔ آپ اس کو ایک اچھے قوّت ثقل کے کانٹے کے طور پر
استعمال کر سکتے ہیں۔ یہاں پر رہتے ہوئے مشتری کے نظام کی کھوج بھی ہو سکتی
ہے بلکہ یہاں پر چیزوں کوسطح پر لانا اور واپس گینی میڈ کے مدار میں پہنچانا نسبتاً آسان ہے ۔ یوروپا کے مدار میں داخل ہونے
سے زیادہ آسان ہے۔ کیلسٹو بھی ایسا ہی ہے؛ یہ تھوڑا چھوٹا ہے اور اس میں بھی کچھ ملتے
جلتے فائدے ہیں ۔ لیکن یہ اور دور ہے۔ یہاں سے مشتری کا اچھا نظارہ نہیں ہوگا۔
ناسا نے مختلف خلائی جہازوں کو بنانے کے خیال کے درمیان مقابلہ رکھا تھا اور میں ایک ایسی ٹیم میں موجود تھا
جو ایک ایسی مہم پر تحقیق کر رہی تھی جو
ایک ساتھ ہی مشتری کے تمام نظام پر نظر رکھ سکے۔ جس حل پر ہم پہنچے وہ یہ تھا کہ
مشتری کے نظام میں ہونے والی تمام چیزوں کے
مشاہدہ کرنے کے لئے سب سے بہتر بات یہ ہے کہ ہبل خلائی دوربین جیسی کوئی چیز بنا کر گینی
میڈ کے مدار میں رکھ دی جائے۔ لہٰذا اگر ہم مشتری کے نظام کو کھوجنا چاہتے ہیں تو
گینی میڈ ایک شاندار جگہ ہو گی جہاں سے یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ آپ ایک مثالی تابکاری
سے محفوظ ایک ایسی جگہ سے دیکھ سکتے ہیں
جس کو مدار میں آسانی سے رکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ مشتری کا نظام کھوجنا
چاہتے ہیں تو گینی میڈ یہ کام کرنے کے لئے
ایک مثالی جگہ ہوگی۔ اس کے کئی فائدے ہیں۔ یوروپا اور آئی او دیکھنے کے لئے کافی اچھے ہیں۔ اگر آپ آئی او کے
آتش فشانوں کو محفوظ جگہ سے دیکھنا چاہتے ہیں
تو آپ گینی میڈ جانا چاہیں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں