خاکہ 5.3
گلیلائی سیارچوں کا نقشہ از اے سی ڈولفس
بذریعہ استعمال ٦٠ سینٹی میٹر کی پک ڈو میڈی رصد گاہ کی دوربین، جدید گلیلائی سیارچوں کا نقشہ
فلکیات
دانوں نے بھی دوسرے کافی کرتب اپنی
آستینوں میں چھپائے ہوئے تھے۔ بڑھتی ہوئی دوربینی طاقت کے ذریعہ وہ سیارچوں کا
درجہ حرارت ناپنے کے قابل ہو گئے تھے۔ درجہ حرارت سطح پر موجود مادّہ کے بارے میں
نشاندہی کرنے کا ایک اچھا ذریعہ ہوتا ہے۔ سب سے بڑا اور آسانی کے ساتھ لائق تحقیق
گینی میڈ تھا۔ جب مشتری کا سایہ چاند پر گرتا تھا
تو درجہ حرارت میں بدلاؤ مشاہدہ
کرنے والوں کو بتاتا تھا کہ سطح پر موجود مادّہ حرارت کا اچھا موصل نہیں ہے۔ اس
معلومات کو دوسرے اعداد و شمار کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ " ہو سکتا
ہے کہ برف کی تہ – پانی اور امونیا کے
وسیع سمندرنے سیارچے کو ڈھکا ہوا ہو اور اس گہرے سمندر کے نیچے چٹان اور آئرن آکسائڈ
سے بنا ہوا قلب موجود ہو۔"[1]
ایک اور
اہم جدت ان کی ہئیت کو سمجھنے کے لئے ١٩٧٣ء میں اس وقت آئی جب پائینیر دہم خلائی
جہاز مشتری کے قریب سے گزرا، اور اس نے سیارے اور اس کے مہتابوں کی تصاویر کو اتارا۔ پائینیر یاز دہم ایک برس بعد اس کے
پیچھا کرتا ہوا گزرا۔ دونوں میں سے کوئی بھی خلائی جہاز کیمرہ لے کر نہیں گیا تھا
(ملاحظہ کیجئے تیسرا باب) بلکہ ان میں تقطیعی
ضیائی تقطیب پیما موجود تھا جس سے
تصاویر کو بنایا جا سکتا تھا۔ آج کے معیار کے لحاظ سے تصاویر کافی خام تھیں، سب سے
بہترین گلیلائی مہتابوں کی تصاویر ١٦٠ کلومیٹر فی پکسل حاصل کی گئیں۔ دور سے دیکھنے کے باوجود رنگوں
اور درجہ بیاض (کسی سیارے یا سیارچے پر پڑنے والی ضیائی کرنوں کی اس امر کے ساتھ پیمائش
کہ کتنی کرنیں خارج ہوئیں اور کتنی پہنچیں) میں
تبدیلی دیکھی جا سکتی تھی۔ (ملاحظہ کیجئے خاکہ 5.5)۔ پائینیر یاز دہم نے آئی او کا سب سے بہتر
نظارہ کیا تھا، جس میں سیدھا ایک نارنجی
قطبی علاقے کو سفید قطبی پٹیوں کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ آئی او نے محققین کو اپنے
چمکدار رنگوں کی سطح اور طیف میں پانی کی مکمل غیر موجودگی سے دق کرنا جاری رکھا۔ ریزولوشن ٣٧٦ کلومیٹر فی
پکسل کی تھی۔
یوروپا
کی ایک ہی مرتبہ پائینیر دہم سے تصویر لی گئی ہے۔ تصویر میں رنگوں میں فرق کافی کم
تھا۔ ایک تاریک علاقہ نصف روشن کرے کے مرکز کو قطع کر رہا تھا بعینہ جیسے روڈیکس نے چار دہائیوں پہلے دیکھا تھا۔ یوروپا کی بہترین منعکس کرنے والی
سطح اس شک کو یقین میں بدل رہی تھی کہ اس
کی سطح پانی کی برف سے ڈھکی ہوئی ہے۔
دو تصاویر نے گینی میڈ کے سانولے چہرے کو دکھایا جو تقریباً ایک جیسے ہی رنگ کا تھا تاہم ایک گہرا بیضوی علاقہ اس کے مرکز میں تھا اور ایک روشن قطب اس کے شمال میں تھا۔ سیاہی مائل کیلسٹو ، جو گلیلائی چاندوں میں سب سے زیادہ تاریک ہے ، اس کی تصویر ٣٩١ کلومیٹر پر محیط دور کے فریم سے لی گئی تھی۔ صغیر تغیر رنگ اور درجہ بیاض خط استواء کے قریب ہلکے علاقوں کے علاوہ اور کچھ نہیں بتا رہے تھے۔
پائینیر نے ہوائی انجینیروں کو کمیت کے بارے میں کافی بہتر معلومات فراہم
کیں لیکن تفصیلات جاننے کے لئے انہیں مزید ٦ برسوں کا انتظار اس وقت تک کرنا
تھا جب تک وائیجر وہاں پہنچتا۔ وائیجر نے
سیاروی سائنس کی بنیاد ہی کو کئی طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ سیاروی ارضی طبیعیات دان
ولیم مک کننون جو واشنگٹن یونیورسٹی کے شعبے
مک ڈونل سینٹر فار دی اسپیس سائنس میں کام
کرتے ہیں وہ وائیجر کی اڑان سے آنے والی
کایا پلٹ کو کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں۔ "لوگوں کی کافی تعداد زمین پر
برسوں سے چھان پھٹک میں لگی ہوئی ہے اوراس کے باوجود زمین کے بارے میں ہمیںحال ہی میں معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ وائیجر
نے برفیلی دنیاؤں کا پہلا نظارہ ہمیں ٣٥ یا اس سے زائد برسوں میں دیا ہے۔ وہاں پر
جانا ہی ہمیں نئے طرز فکر سے روشناس کروا سکتا ہے۔"
ایک نئی
چیز جو ہمیں معلوم ہوئی ہے وہ مدوجزر سے حاصل ہونے والی حرارت ہے۔ مشتری کے گرد
چکر لگانے والا چھوٹا جہاں لوشین
روڈیکس کے اندازے کے مطابق زمین کے چاند کی برفیلی صورت ہی تھا۔ لیکن
پڑوسی مہتابوں اور مشتری کی قوّت ثقل ارضیاتی اشکال کے جمعہ بازار لگانے کی وجہ سے پیدا ہوئی اندرونی حرارت اس کو اندازے سے کہیں
زیادہ متحرک کیے ہوئے ہے۔ " مدوجزر اور اس کے اثر کے بارے میں قیاس کیا جا رہا تھا، لیکن ہم نے ایسی کوئی
چیز اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی، اور نہ ہی کسی نے اس کی اصل قوّت کے بارے میں سوچا
تھا۔ ننھے جہاں بھی کافی متحرک ہیں۔" مک کینن یاد کرتے ہیں۔ سب سے پہلے وائیجر کا مشتری کے
ساتھ سامنا صبح ٤ بج کر ٤٢ منٹ بروز ٥ مارچ ١٩٧٩ء کو ہوا۔ بہار کی صبح میں پاساڈینا میں ہوا کافی
خوش گوار تھی لیکن سائنس دان جے پی ایل کے مرکز میں وان کرمان آڈیٹوریم میں
گھنٹوں سے الگ تھلگ بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے قریب آمنے سامنے کا اصل وقت صبح ٤
بج کر ٥ منٹ تھا لیکن اس فاصلے سے اشاروں کو خلاء سے زمین پر واپس آنے میں ٣٧ منٹ لگے۔
وائیجر
اوّل اپنے اس راستے میں کیلسٹو، گینی میڈ اور یوروپا کی کئی تصاویر اتار چکا تھا۔
دلفریب تصاویر واضح دھبے، داغ اور خطوط کو دکھا رہے تھے تاہم ان کی ریزولوشن کافی پست تھی (١٠٠ کلومیٹر فی
پکسل کے لگ بھگ) جس سے کوئی بہت واضح
معلومات حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن مزید چیزوں کو آنا تھا۔ دنیاؤں کے بادشاہ کی
چھان پھٹک کے بعد وائیجر اوّل نے گلیلائی مہتابوں کا سروے قریب سے کرنا شروع کی۔
اس میں ایک چھوٹا سا منفرد سیاروی نظام
گیسی دیو کے گرد چکر لگاتا ہوا دکھائی دیا۔ چار ماہ بعد وائیجر دوم نے تکمیلی دورے
میں کافی مہتابوں کا مطالعہ خاصی قریب سے کیا
جس کو اس سے پہلے گزرنے والے اس کے جڑواں خلائی جہاز نے کافی دور سے دیکھا
تھا۔
گلیلائی
سیارچوں کی اب تک مفصل تفصیلات گلیلیو اوربیٹل مشن سے سولہ برس بعد حاصل ہوئیں
(ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ بجائے وہاں سے گزر کر آگے جانے کے گلیلیو برجیسی نظام
کے مقناطیسی کرہ سے لے کر حلقوں تک اور اس کے سیارچوں پر لمبے عرصے کی تحقیق کے لئے اس کے مدار میں ٹھر گیا۔ جے پی ایل کے رابرٹ
پپلارڈو گلیلیو سے حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں ہماری بنیادی تفہیم میں ہونے
والی تبدیلی کو یوں بیان کرتے ہیں:
گینی میڈ کے مقناطیسی میدان کا تصور فوراً دماغ میں آتا ہے ۔ یہ تصوّر ہی
کافی بڑا ہے کہ گینی میڈ اندرونی طور پر
اس قدر گرم ہے کہ اس کے اپنے مقناطیسی میدان موجود ہوں۔ اس کے بعد یہ بات
ظاہر ہوئی کہ سیارچے ،کم از کم تین، تو ایک دوسرے سے مکمل طور پر
مختلف ہیں [ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اس نقطے پر نمو پائی جہاں ہلکے عناصر پرت سے اوپر اٹھ گئے ہوں گے جبکہ بھاری عناصر مرکز میں
کثیف ہو کر بیٹھ گئے ہوں گے]۔ اب ہم اس کو یوں ہی لیتے ہیں، لیکن پہلے ہم
پوچھتے تھے، "کیا وہ ایک جیسے ہیں، یا ان
میں کوئی چٹانی قلب بھی ہے؟" یوروپا کا سمندر تو دیوانے کی بڑ نظر آتا
تھا، لیکن اب ہمارے پاس یہ نیا تصوّر ہے کہ سمندر بھی ایک خول کے اندر موجود ہو سکتے
ہیں۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب تک برف کا خول ایصال حرارت کے لئے موٹا ہوگا تو پوری چیز منجمد ہو جائے گی [باہری
قشر سے لے کر قلب تک]، لہٰذا ان میں سے کسی کے پاس بھی سمندر نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک
بڑا کام تھا۔
ولیم مک
کینون اضافہ کرتے ہیں، " حرارت کے لئے برف میں سے نکلنا مشکل ہوتا ۔ کچھ عرصے
کے لئے ہم نے ایصال حرارت کے بارے میں سوچا، ایک برفانی تودے جیسی حرکت اندرونی حرارت سے پیچھا چھوڑا دے گی۔ اس کے
باوجود لوگ پھر بھی سوچتے تھے کہ یوروپا بلکہ انسیلیڈس کے
نیچے بھی سمندر ہو سکتے تھے، اعداد و شمار ہمیں کھینچ کراس جگہ لے گئے جہاں ہم چیخنے لگے کہ برفیلے
مہتابوں میں سمندر عام بات ہیں۔
"
یوروپا کی سطح کی عمر بھی ایک حیرت کا
جہاں بنی جو گلیلیو مہم کے نتائج سے معلوم ہوئی، پاپالارڈو کہتے ہیں۔ " وہاں پر پگھلی ہوئی زمین ہے –
تالاب جو ہم وائیجر خلائی جہاز سے دیکھتے
ہیں۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آیا یہ اندر سے
پیدا ہوئے ہیں یا بہت زیادہ تصادموں سے پیدا ہوئے ہیں موخّرالذکر صورت میں ان کو کافی عمر کا ہونا چاہئے تھا۔ بہرصورت
یہ تصادم سے بنے ہوئے گڑھے نہیں تھے۔ یہ پرانے نہیں تھے، اور یہی بنیادی تبدیلی تھی۔ جب وہاں جا رہے تھے تو ہم
سمجھ رہے تھے کہ سیارچے چٹانوں اور برف کے
ملغوبے کا کافی یکساں امتزاج ہوں گے اور شاید ایک چھوٹا قلب بھی موجود ہو۔ کیلسٹو کا دوسرے سیارچوں کی روشنی میں ان سے الگ نہ
ہونا ایک پہیلی تھی ۔"
کچھ
اسرار جو گلیلیو سے بھی حل نہیں ہوئے تھے ان پر سے بھی جلد ہی پردہ اٹھ جانا تھا۔
مشتری کی جانب کافی مہمات یا تو بننے کے مرحلے میں ہیں یا وہاں بھیجی جا چکی ہیں
(ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔ اسی دوران، زمینی تحقیقی مراکز مسلسل آگے بڑھتے رہے۔
سب سے
بڑی دوربین میں بھی آئی او ایک یا دو پکسل
جتنا نظر آتاتھا۔ مشاہدہ کرنے والوں کو کافی چالاک ہونا چاہئے تھا تاکہ وہ اعداد و
شمار سے تفصیلات کو حاصل کر سکیں۔ جے پی ایل کے ایشلے ڈویز کہتی ہیں۔" آپ کے
پاس چند پکسل پر پھیلا ہوا آئی او ہے، لہٰذا آپ پورا سیارچہ ایک ساتھ دیکھ رہے
ہیں۔ کیونکہ آئی او پر آپ کے پاس مختلف حرارتی منبع ہیں ، لہٰذا جب آئی او گھومتا
ہے تو دوسرے کچھ منبع گھومتے ہوئے سامنے آ جاتے ہیں جبکہ کچھ گھوم کر غائب ہو جاتے
ہیں۔ اگر کوئی بڑا شرارتی غائب ہو جائے تو
حرارتی بہاؤ [حرارت میں فرق] نیچے چلا جاتا ہے، اور جب گھوم کر واپس آتا ہے تو
بہاؤ پھر بڑھ جاتا ہے۔ اس کے باوجود آپ تمام توانائی کو پوری قرص سے آتا ہوا کسی بھی وقت دیکھ رہے ہوتے ہیں، آپ اب بھی
اونچے درجہ حرارت کے واقعات کا سراغ لگا سکتے ہیں۔"
[1] ۔
نئے جہاں : ہمارے نظام شمسی سے ہونے والی دریافت
از وان براؤن اور اورڈ وے (اینکر پریس ١٩٧٩ء)۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں