آئی او
کا قریب سے جائزہ
٣٦٣٦
کلومیٹر کے قطر کے ساتھ آئی او زمین کے
چاند جتنا ہی ہے، اس کی سطح شمالی امریکہ کے برابر ہے ۔ آئی او اور دوسرے گلیلائی
مہتاب بھی اپنے مداروں میں مدوجزر سے بندھے ہوئے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک ہی نصف کرہ
ہمیشہ مشتری کے سامنے رہے گا۔ آئی او کا دن اپنے مدار کے وقت یعنی ٤٣ گھنٹے کے
برابر ہے۔
انسانی تجربے کے پیمانے پر آئی او کی ملتانی مٹی کا ارضیاتی نظارہ شمالی امریکہ کے عظیم میدان یا روسی دشت کی آن بان جیسا لازمی ہوگا۔ لہر
دار سنہری منظر جن پر جگہ جگہ سبز رنگ کا
چھڑکاؤ اور کہیں کہیں سلفر کا نارنجی آتش
فشانی دہانے کا تڑکا لگا ہوا ہو۔ اگرچہ زمین کے شمالی میدان سخت سردی کے لئے بدنام
ہیں آئی او کا شمالی بارد جیسا موسم جمی ہوئی سلفر ڈائی آکسائڈ کے کمبلوں
کو سنگ دار کھوکھلے غلاف کی سطح پر جما دیتا ہے ۔ لیکن سیاحوں کو اس منظر سے تیزی
سے محظوظ ہونا ہوگا۔ آج کے حالیہ خلائی کپڑے
پہن کر وہ برجیسی تابکاری سے منٹوں کے اندر ہی ہلاک ہو جائیں گے۔
شیکسپیئر
کی جولیٹ رومیو سے مشہور زمانہ سوال پوچھتی ہے، "نام میں کیا رکھا ہے؟"
مشتری کے گلیلائی مہتابوں میں سے زیادہ قریبی چاندوں کا نام مشتری کی محبوباؤں پر
رکھا ہوا ہے ۔ مشتری اور آئی او میں آپس میں ایک منفرد گندھا ہوا رشتہ موجود ہے ۔ آئی او مشتری کے مدار میں 421,800
کلومیٹر پر مشتری کی مہلک تابکاری کی
گہرائی میں چکر لگا رہا ہے۔ تابکاری اور
برقی بہاؤ مسلسل آئی او کی زمین پر گولہ
باری کر رہے ہیں اور مشتری اور اس کے مہتاب کے درمیان جنگ جاری رہتی ہے۔ گلیلیو
خلائی جہاز نے تصدیق کی ہے کہ آئی او کے قلب میں نکل اور لوہا موجود ہے۔ اس کا قلب
مشتری کے اس مقناطیسی کرہ سے تعامل کرتا ہے جو سیارے کے گرد گھوم رہا ہوتا ہے ۔
٢٠٠١ء کے
اگست اور اکتوبر کے مہینے میں جب گلیلیو مدار گرد نے آئی او کے قطبین کے پاس پرواز
کی تو وہ چاند کے قلب سے نکلنے والے
مقناطیسی میدان کی تلاش میں تھا۔ لیکن اس کو کچھ بھی نہیں ملا۔ مقناطیسی میدان کے
بجائے خلائی جہاز نے ان بار دار ذرّات میں
دس گنا زیادہ اضافہ دریافت کیا جو آئی او
کو مشتری سے جوڑتے تھے۔ آئی او ہزار تجارتی نیوکلیائی ری ایکٹروں کے مقابلے میں
زیادہ برقی رو پیدا کر رہا تھا اور اس میں سے زیادہ تر مشتری کے میدانوں کے ساتھ
بہہ رہے تھے۔ گلیلیو نے دو عامل آتش فشانوں کے عین اوپر توانائی کے خطوط کا سراغ
لگا لیا۔ الیکٹران اور برق پارے مقناطیسی خطوط
کے ساتھ راستوں پر دوڑ رہے
تھے اور آئی او کے منبع کو مشتری سے جوڑ رہے تھے۔ توانائی کی اس شاہراہ کا نام بہاؤ
کی نلکی رکھا گیا ہے۔ جو توانائی کو آئی او سے مشتری اس کے قطبی علاقوں کے قریب
بھیج رہی ہے اور یوں طاقتور قطبی روشنیاں سیارے اور چاند پر پیدا ہو رہی ہیں۔ آئی
او کی یہ حرکات اصل میں مشتری کے طاقتور میدانوں اور ذرّات کو مضبوطی فراہم کر رہی
ہیں ۔ جیسا کہ سیاروی ارضیات دان ولیم مک کینون اس طرح سے کہتے ہیں، "مشتری
آئی او کی وجہ سے ہی برا بنا ہے ۔ آئی او
سلفر کو مقناطیسی کرہ میں بھرتا ہے۔ سیارچوں کے نظام [دوسرے سیاروں کے
]چھوٹے ہوتے ہیں اور اس طرح سے مقناطیسی میدان پر اثر انداز نہیں ہوتے۔"
آئی او
کے آس پاس نہلا دینے والی تابکاری نے خوفناک ماحول کو جنم دیا ہے، ساؤتھ ویسٹ
ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سیاروی سائنس دان جان
اسپینسر کہتے ہیں۔ "آئی او واقعی میں اپنے رس میں ہی گل رہا ہے۔ یہ اپنا تمام
آتش فشانی مادّہ باہر نکال رہا ہے اور وہ برجیسی مقناطیسی کرۂ میں فرار ہو رہا
ہے اور پھر وہ وہاں جا کر مشتری کے نظام
کے طاقتور مقناطیسی میدان کے ذریعے ناقابل بیان توانائی کا اسراع حاصل کرکے واپس آئی او کی جانب کم از کم اس کا کرۂ فضائی میں واپس لوٹتا ہے۔
اور وہاں جا کر وہ مزید مادّے کو نکالتا ہے اور یوں ایک چکر بن جاتا ہے ، اس طرح
سے تمام برجیسی مقناطیسی کرہ اس بلند
توانائی کی حامل آکسیجن/ سلفر کے جوہروں اور الیکٹران سے بھر جاتا ہے جو اس کے قریب غلطی سے بھٹکنے والے کسی بھی
اس انسان کی جان لینے کے لئے کافی ہیں ۔
یہ کسی خلائی جہاز کے لئے بھی کافی مہلک ہیں؛ کوئی ایسا خلائی جہاز بنانا جو اس قسم کے ماحول میں صحیح سلامت رہ سکے کافی
مشکل کام ہے۔" بلند توانائی کےحامل الیکٹران کے سمندر آئی او کے مختلف حصّوں کو روشن کرتے ہیں۔ آئی او
کا آسمان اپنے اس سوڈیم کے بادلوں کی چمک
سے لبریز ہوگا۔ سوڈیم کافی چمکدار ہوتا ہے جو اچھی کارکردگی کے حامل چراغوں کو
بنانے کے کام آتا ہے۔ یہ پیلے نارنجی چراغ جلنے کے بعد چشم عریاں سے رات میں دیکھے
جا سکتے ہیں۔ آئی او کی وہ تصاویر جب چاند
مشتری کے سائے میں سے گزرتا ہے، تو آتش
فشانوں سے نکلنے والی روشنی سطح پر دانوں
کی طرح نظر آتی ہے جو جلنے کی غماز ہے۔
نکلنے والا دھواں بھی اس طرح منور ہوتا ہے جیسے وہ چھوٹے چاند کی قرص کے گرد موجود پتلی کرۂ فضائی ہو۔ یہ چمک آئی او کے کرۂ فضائی سے اوپر بھی
چلی جاتی ہے جہاں مشتری کے مقناطیسی میدان
کے خطوط ایک ایسی جگہ پر براہ راست ملتے
ہیں جو مشتری کی قریب اور اس سے دور ہوتے
ہیں۔ روشنی کے بادل مشتری کے ہر چکر کے ساتھ ڈگمگاتے ہیں کیونکہ سیارے کے مقناطیسی
میدان جھکے ہوئے ہیں۔ ان جوڑوں کی جگہ بدلتی رہتی ہے جب مقناطیسی کرۂ اپنی جگہ
بدلتے ہیں۔ آئی او کے آتش فشانوں کی اوّلین دریافت اس کی سطح کا مشاہدہ کرنے سے
نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے پیچھے موجود ستاروں کا مشاہدہ کرتے ہوئے کیا گیا تھا۔ آئی
او کے قریب پہنچنے کا صرف تیسرا دن تھا ، 8 مارچ
کے دن جب وائیجر اوّل نے راستے کی
نشاندہی کے لئے ستاروں کی تصاویر اتارنے کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان تصاویر میں سے
ایک نے سورج سے روشن ایک کونا یا آئی او
کے ہلال کا کچھ حصّہ دیکھا۔ ٣٠٠ کلومیٹر
چاند کی سطح کے اوپر معلق چھتری کی شکل
دھند کا ایک حصّہ لگ رہی تھی۔ اسی طرح کی ایک چیز خاتم (دن اور رات کے
درمیان سرحد) کے وقت بھی چمکی تھی۔
خاکہ 5.4
طاقتور میدان اور ذرّات مشتری کے آتش
فشانی چاند کو سیارے سے جوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہم ان کو دیکھنے کے قابل ہوتے تو ہمیں بہاؤ کی نلکی آئی او کے قطبین سے نکل کر
مشتری کے مقناطیسی کرۂ کے قطبین تک جاتے ہوئے نظر آتی۔ اس وقت آئی او ایک
فوق بار ڈونٹ کے اندر تیر رہا ہوتا ہے آئی
او کا پیندا مشتری کے گرد ایک میدان میں لپٹا ہوا ہے اور یہ میدان خط استواء سے تھوڑا سے جھکا ہوا ہے۔
ماہر
جہاز رانی لنڈا مرابیٹو نے اس بھوت جیسے سائے کو بادل سمجھا۔ یہ جاننے کے بعد کہ
آئی او کا کوئی کرۂ فضائی نہیں ہے ، صرف ایک ہی منطقی بات ان کو سمجھ میں آ رہی
تھی کہ یہ کوئی ناقابل تصوّر متشدد آتش فشانی پھٹاو تھا جس
نے آسمان میں گیس اور غبار کی چھتری کو چھوڑ دیا تھا۔ تصویر لینے والی ٹیم کے
محققین اس بات پر متفق تھے اور زیریں سرخ حساسئے
اس بات کی تصدیق کر رہے تھے کہ چھوٹے چاند کی پوری سطح پر گرم جگہیں موجود
ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں