Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 5 جنوری، 2016

    آئی او (Io) مشتری کا چاند - حصّہ دوم

    خاکہ 5۔5 آئی او کے حصّے کے اوپر آتش فشانی مکھی پر سورج کی کرنیں۔ نیو ہورائیزن نے آئی او کے شمالی قطب کے اوپر ٣٣٠ کلومیٹر اڑتے ہوئے اس عظیم دھوئیں کی تصویرلی۔ یہ دھواں تواشتر سے آ رہا ہے۔

    یہ پہلی مرتبہ تھا کہ محققین نے مدوجزر  کو اس طرح کا برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ مشتری اور دوسرے گلیلائی مہتابوں کی دھکم پیل آئی او کی سطح کو روزانہ ٤٥ میٹر تک اوپر  اٹھاتی اور پھر نیچے گراتی ہے۔ اس طرح سے مسلے جانے کی وجہ سے اس چھوٹے چاند کے اندرون میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ وائیجر نے ٤٠٠ کے قریب متحرک آتش فشاں دیکھے۔ دو عشروں بعد گلیلیو خلائی جہاز نے  جب چاند سے پہلی مرتبہ آ منا سامنا کیا  تو اسے ١٢٠ سے زائد نئے منبع ملے۔ ماہرین ارضیات کے اندازوں کے مطابق لگ بھگ ٦٠٠ متحرک جگہیں موجود ہیں یہ اتنی ہی ہیں جتنی کہ پوری سطح زمین پر پائی جاتی ہیں۔

    "زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ آئی او کی کہانی وائیجر کے ساتھ شروع ہوئی لیکن ہم جانتے ہیں کہ زمین پر موجود مرکزوں سے حاصل کردہ اعداد و شمار  نے اس میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔" ٹورینس جانسن وائیجر کی تصویری ٹیم کے سربراہ کہتے ہیں۔ جانسن اور ڈینس میٹسن  نے آئی او  کا زمین سے  کافی مفصل طور پر مشاہدہ کیا۔" ہم نے گینی میڈ  اور یوروپاپر پانی کو جذب ہوتے دیکھا  لیکن ایسا کچھ آئی او پر نظر نہیں آیا، ہرچند کہ آئی او بھی اتنا ہی روشن تھا۔ ہم نے آئی او کو مشتری کے مقناطیسی کرۂ کے ساتھ تعامل کرتے ہوئے دیکھا اور ہم نے وہاں سوڈیم کو بھی پایا۔" اکثر محققین نے   خلائی جہاز کے وہاں تین دن پہنچنے سے قبل  ہی وہاں پر آتش فشانی حرکت کے بارے میں رائے قائم کی ہوئی تھی۔[1]

    جب محققین آئی او کی مخصوص ہئیت کو سمجھنے کے لئے جدو جہد کر رہے تھے تب  ان کے آلات نے اس کی سطح پر کافی زیادہ درجہ حرارت کومحسوس کیا تھا۔ حاصل کردہ اعداد دماغ ہلا دینے والے تھے۔ آئی ہو کے پاس زمین کے مقابلے میں ١٠٠ گنا زیادہ حرارت  تھی جو اس کی سطح پر سے بہ رہی تھی۔ آئی او لگ بھگ ہر سیکنڈ میں ایک لاکھ ٹن مادّہ پھینک رہا تھا۔ ہرچند اس سے اٹھنے والے مادّے کی زیادہ تر مقدار واپس اس کی سطح پر جمی ہوئے سلفر کی صورت میں ایسے برستی ہے جیسے مشین گن سے گولیاں برسائی جا رہی ہوں۔ تاہم پھر بھی اس میں سے  کچھ دس ٹن کے لگ بھگ ہر سیکنڈ میں  برجیسی مقناطیسی کرۂ کے ارد گرد فرار ہو جاتی ہے۔ 5 فیصد سے زیادہ آئی او کی سطح  آتش فشانی دہانوں سے بھری ہوئی ہے۔" پہیلی کا جو حصّہ غائب تھا وہ حرارتی عمل تھا،" جانسن کہتے ہیں۔ " اسٹین پیلی نے مدوجزر کی حرارت کی تجویز پیش کی، لیکن اس کی ٹیم  بھی نہیں سمجھتی تھی کہ آئی او متحرک آتش فشانوں کو پکانے کے لئے حرارت پیدا کر سکتا ہے۔" ایک مرتبہ جب سائنسی سماج نے  مدو جزر کی قوّت کو شناخت کر لیا تو سیاروی سائنس دان تیزی سے  "وائیجر دور کی تبدیلی" پر مرتکز ہو گئے جس میں مدو جزر کی حرارت نظام شمسی کی ارضیات میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔

    آئی او کے سطح پر  ہر جگہ پھٹاؤ سے پیدا ہونے والے  درجہ حرارت نے سائنس دانوں کو اس کی اصل ہئیت کے بارے میں معلومات فراہم کی۔ وائیجر سے حاصل ہونے والی ابتدائی معلومات نے کم درجہ حرارت ، سلفر سے بنے آتش فشانوں کی نشاندہی کی تھی لیکن گلیلیو  کی بہتر ریزولوشن  نزدیکی  زریں سرخ کمیتی طیف پیما نے مزید درست اعداد و شمار فراہم کئے۔ گلیلیو کے روبوٹوں کی آنکھ سے نظر آنے والا درجہ حرارت حد درجہ گرم تھا۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اونچا درجہ حرارت کا منبع سیلیکٹ کے پھٹاؤ کی وجہ سے تھا، لیکن زیادہ تر محققین درجہ حرارت کو ارضیاتی پھٹاؤ سے زیادہ نہیں سمجھ رہے تھے۔ زمین کی ابتدائی تاریخ میں بلند  میگنیشیم کے لاوے نے فوق حرارت کے پھٹاؤ  کو جنم دیا جس کا درجہ حرارت ١٥٠٠ سینٹی گریڈ تک ہوتا تھا۔ لیکن گلیلیو سے حاصل ہونے والے ابتدائی اعداد و شمار آئی او پر درجہ حرارت کو زبردست ١٧٠٠ سینٹی گریڈ تک کا بتا رہے تھے ۔ اس وقت کے نظریات اس درجہ حرارت کو بیان کرنے سے قاصر تھے۔ جانسن مزید کہتے ہیں :" وہ درجہ حرارت  بوکھلا دینے کی حد تک گرم تھے،  چٹان کے لئے بھی۔"

    تین قسم کے آئی او کے آتش فشانوں نے آئی او کی دوزخی زمین کو بنانے کے لئے مدد کی ہے۔ پہلا اور سب سے زیادہ پایا جانے والا آتش فشانی زخم لاوا کی جھیلیں ہیں، میدان کی سطح پر منہدم سوراخ۔ اس ساخت کی سب سے اچھی مثال لوکی پٹیرا (جس کا نام نورس کے آگ کے دیوتا کے اوپر رکھا گیا ہے) ہے۔ لوکی ایک آتش فشانی گڑھا یا دہانہ  ہوتا ہے جو لاوے کی ٢٠٠ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی جھیل سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے تاریک مرکز میں کھولتے ہوئے میدان عظیم الجثہ جمے ہوئے سلفر ڈائی آکسائڈ کے برفیلے  تودے  کو ابال کر گومڑ سی شکل میں ڈھالتے ہیں۔ یہ ضخیم تودہ افریقہ کی جھیل  وکٹوریہ کے حجم کا ہے۔ اس جیسی ارضی لاوا کی جھیلوں میں ٹھنڈا لاوا ایک قشر بناتا ہے جو آتش فشاں کے دھانے کے ساتھ ٹکرا کر ٹوٹ جاتی ہے۔ گلیلیو کی زیریں سرخ موجوں کے مشاہدے سے معلوم ہوا کہ ایک دہکتا ہوا کنارہ جھیل کے ایک کونے پر ہوائی کی کیلا یوا  اور ہیل مو مو لاوا جھیلوں جیسا ہی ہے۔

    آتش فشاں کی دوسری قسم جو آئی او پر عام پائی جاتی ہے وہ لاوے کا بہنا ہے۔ خلائی جہاز سے حاصل کی گئی تصاویر میں پگھلی ہوئی چٹان ہر مربع میٹر پر پھیلی ہوئی ہے۔ سب سے لمبا بہاؤ امیرانی  ہے جو ٣٠٠ کلومیٹر کے مڑے ہوئے میدانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ بہاؤ کی ایک بڑی تعداد  غیر موصل ہے مطلب کہ ٹھنڈے لاوا کی قشر نے اس کو ڈھکا ہوا ہے۔ بہاؤ کے رخ پر میگما اکثر قشر کو توڑ کر کئی کلومیٹر تک باہر  نکل آتا ہے۔

    ایک وسیع بہاؤ پرومیتھیس  آتش فشاں کے دھانے سے نکلتا ہے جس سے نکلنے والا مادّہ خلاء میں ٨٠ کلومیٹر دور تک چلا جاتا ہے۔ وائیجر اور گلیلیو کے درمیان سترہ برسوں میں، پرومیتھیس سے نکلنے والا دھواں مغرب میں کچھ ٧٠ کلومیٹر دور تک ہٹ گیا۔ "یہ حقیقت میں ایک پہیلی ہے،" جے پی ایل کے   ماہر برکانیات  روسلے لوپس کہتے ہیں۔ سائنس دان گلیلیو سے حاصل کردہ اطلاعات کا مطالعہ کرکے اس بات کو جان چکے ہیں کہ اصل میں پرومیتھیس کے آتش فشاں کا منبع اپنی جگہ سے نہیں ہلا بلکہ لاوے کے بہنے نے اپنی جگہ بدل لی ہے ۔" جب لاوا سطح کے ساتھ حرکت کرتا ہے  تو وہ قشر میں تبدیل ہو جاتا ہے  اور ٧٠ کلومیٹر دور لاوا اس کو دوبارہ سے توڑ ڈالتا ہے اور سلفر ڈائی آکسائڈ کی برف سے تعامل کرتا ہے ۔" وہ وضاحت کرتی ہیں۔ یہ تعامل ان آج نظر آنے والے دھوئیں کو جنم دیتی ہیں۔

    آتش فشانوں کی تیسری قسم  تو سب سے زیادہ ڈرامائی ہے۔ پیلے کی جوالا مکھی نظام شمسی میں کہیں پر بھی  سب سے اونچے اور طاقتور دھوئیں کے بادل چھوڑتے ہیں ان کی دریافت حادثاتی طور پر ہوئی۔ ٢٠٠٠ء  کے دسمبر کے مہینے میں گلیلیو تاوشتار کیٹینا کے علاقے میں اڑ رہا تھا۔ اس وقت  روشن لاوے کا پردہ ٢٢ کلومیٹر لمبے فوارے سے بن رہا تھا جو  عظیم داہنے کی زمین کے ایک سوراخ میں سے نکل رہا تھا۔ ایک قریبی  دھوئیں نے پھٹ کر گیسوں کو کالے آسمان پر ١٠٠ کلومیٹر دور تک بکھیر دیا۔ اب تک کا دیکھا جانے والا سب سے طاقتور دھواں  ٥٠٠ کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا جو ہوا میں ایک آتش فشاں پیلن سے نکلا تھا۔ پیلن کے دہانے آئی او کے پراسرار درجہ حرارت کے منبع ہیں۔ فوق حرارت پیلن پھٹاو  نظام شمسی میں کافی منفرد لگتے ہیں۔

    ایک عام خاصیت جو ارضیاتی آتش فشانوں کی ہے وہ حیرت انگیز طور پر آئی میں نہیں ہے اور وہ ہے ڈھالی یا آتش فشاں کے دھانے کے گرد بننے والے پہاڑ ہیں۔ آئی او کی سطح پر آتش فشاں ہمہ وقت قشر پر قشر چڑھا کر نئی سطح بنا رہے ہیں  لیکن اس کی چپٹی زمین سے کوئی اونچی ساخت کی چیزیں نہیں بن رہی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آتش فشانوں کا پھٹنا ہر جگہ پر ہے جس کی وجہ سے کسی  ایک جگہ کو دوسری جگہ سے بلند ہونے کا موقع نہیں ملتا۔ مزید براں آئی او پر موجود  زیادہ تر دھانے سطح میں سوراخ کی طرح ہیں۔ وہ اپنے مادّہ کو اندر ہی باز یافت کر لیتے ہیں۔ خلاء میں جوالا مکھی پھٹ کر پھیل جاتے ہیں۔ زیادہ تر دھوئیں کا مادّہ باریک ذرّات یا گیس سے بنتے ہیں ۔ دھانے کے منبع پر بہت ہی کم کچھ بن پاتا ہے۔ اگرچہ آئی او پر پہاڑ آتش فشانوں کی وجہ سے نہیں بنے ہیں  لیکن  ان کا کچھ تعلق ان سے لگتا ہے۔ آئی او کے کافی سارے بڑے پہاڑ دھانے سے قریب ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ سائنس دان اس بات کو سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ آئی او کے پہاڑوں کا بننا اپنی ہئیت میں کافی الگ ہے۔ لگتا ہے کہ پہاڑ شگاف  میں دھکا  لگنے کی وجہ سے بنے ہیں  اور اسی شگاف میں مزید نیچے جا کر جوالا مکھی پھٹتے ہیں۔ گہرائی میں سطح کے نیچے موجود ساخت  میں ہونے والی شکستگی  لاوا اور گیس کو فرار ہونے کے لئے نئے راستے بنا کر دیتی ہے۔ ایک ایسی ہی جگہ توہل  کے پہاڑ ہیں جو ایک چھ کلومیٹر ہلال کی شکل  کی ڈھلان ہے جو دہانے کے ساتھ موجود ہے۔ کافی ساری پہاڑی کی ٹوٹ پھوٹ نے توہل کی پہاڑی ڈھلانوں  کو داغ دار کیا ہوا ہے ، لیکن گرد و غبار ایک متصل دہانے کے فرش پر غائب ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ بظاہر گڑھے کا اندرون  اکثر پہاڑی کٹاؤ کے بعد تازہ لاوے کے بہاؤ سے بھرا ہوا لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے توہل آتش فشانی گڑھوں  سے متصل شگافوں کے ساتھ اوپر اٹھا ہوا ہے  یا پھر شگاف کے ساتھ پہاڑ کے اٹھنے کے بعد دہانہ بنا ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے۔







    [1] ۔ پیلی  ایس جے کیسن پی، رینالڈس  آر ٹی ۔ " آئی او کی پگھلائی  بذریعہ مدو جزر انتشار " سائنس ، ٢ مارچ ١٩٧٩ء۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئی او (Io) مشتری کا چاند - حصّہ دوم Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top