یہ بھی
ممکن ہے کہ انتشاری علاقے بالواسطہ طور پر
بنے ہوں۔ اصل بات جو سیاروی ماہرین ارضیات دیکھ رہے ہیں وہ یوروپا کے سمندر کی
تہ اور اس کے سطح کی پرت کے درمیان موجود
فاصلہ ہے۔ اگر نمونے درست ہیں تو دھاروں
والے مادّے کو سمندر کی تہ سے سطح پر آنے
میں ہفتے بلکہ مہینے بھی لگ جاتے ہوں گے۔
مزید براں انتشاری علاقوں کو کافی وقت تک گرم ہونے کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ
پرتوں کی مشاہدہ کی ہوئی حرکات کو بیان کر سکیں۔ کچھ محققین نے دھاروں کے
فاصلے کو گرم برف کے شہتیروں سے بنا کر
مسئلے سے جان چھڑا لی۔ اس صورتحال میں ایک
گرم دھار لمبے عرصے تک برف کو حرارت دیتی ہے۔ حرارت برف میں سے اس طرح حرکت کرتی
ہے جیسے کہ لاوا کے چراغ میں جلتا ہوا
مادّہ حرکت کرتا ہے۔ برف کے ذریعہ مکمل طور پر پگھلنے کے بجائے یہ عمل بتدریج اور مسلسل ہوتا رہتا ہے اور برف کو اس قدر نرم
کر دیتا ہے کہ شہتیر کافی عرصے کے لئے
آزاد ہو جاتے ہیں۔ مزید براں برف میں موجود کثافت اس عمل کے لئے نقطۂ پگھلاؤ کو کم کرکے مدد گار ثابت ہوتی ہے۔
تھوڑی مقدار میں نمک یا گندھک کا تیزاب –
جنہیں گلیلیو نے تجرباتی طور پر شناخت کیا ہے – اس قدر قوّت پیدا کر سکتا ہے دسیوں کلومیٹر برف میں سے گنبد سے بن سکتے ہیں۔
ایک عام طور پر مانے جانے والے نظریئے کے
مطابق جب برف کو نیچے سے گرم کیا جاتا ہے – ممکنہ طور پر سمندر کی تہ میں موجود دھاروں سے – تو برف پگھلتی نہیں ہے۔ اس کے بجائے ایک ابھرتی
ہوئی ٹھوس چیز (نوکیلی ) پرت میں سے نکلتی ہے اور بالآخر سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ یہ
نوکیلے گنبد پھنسے ہوئے نمکین پانی سے بھی
تعامل کرتے ہیں۔ انتشاری علاقوں کو تیزی سے بنانے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک
لمبے اور بتدریج عمل کے ذریعہ بنتے ہیں۔
نوکیلے گنبد کا نمونہ تاریک دھبوں یا
علاقوں کو بھی بیان کرنے میں مدد کرتے
ہیں۔ دھبے مختلف شکلوں بشمول چھوٹے انتشاری علاقوں ، جوہڑوں ، دبی ہوئی جگہوں اور
گنبدوں کی صورت میں آتے ہیں ۔ ان میں سے
اکثر تاریک دھبے آس پاس کے زمین میں جھکے
اور داغ دار ہوتے ہیں۔ گلابی برف نمکین ہوتی ہے جو اس تصوّر کو اور پکا کرتی ہے کہ تاریک مادّے
سطح پر رس رہے ہیں - یا
خارج ہو رہے ہیں۔ وہی قوّت جو آئی
او پر اس کے پانی سے محروم کرتی ہے اور اس
کے قلب کے اندرون کو پگھلاتی ہے اس کا یہاں پر اثر یوروپا سے الگ ہوتا ہے۔ یہ برف
کی دنیا جس میں خم دار شگاف ، متوازی
پہاڑیاں، اور منتشر ارض موجود ہے مستقبل
کے مسافروں کو کھوجنے کے لئے ایک پیچیدہ جہاں فراہم کرتی ہے۔ صحیح آلات کے ساتھ
شاید وہ یہاں پر تیرنے کے بھی قابل ہو سکیں گے۔
خاکہ 5.13
اوپر: سرخ زمین کے جڑواں علاقے، تھیرا اور
تھریس ماکولا یوروپا کے پرانے برفیلے
ناہموار میدان پر خارج ہوتے ہوئے۔ تھیرا (بائیں) لگ بھگ ٧٠ کلومیٹر چوڑا اور ٨٥
کلومیٹر اونچا ہے اور آس پاس کی زمین سے تھوڑا سا نیچے لگتا ہے۔ اس کے اندر برفیلی
پرتیں آس پاس کے انتشاری علاقے کے کناروں
سے ٹوٹ گئیں ہیں ۔ تھریس (دائیں) لمبا ہے اور پرانے آس پاس کے روشن میدانوں کے
اوپر گنبد جیسا لگتا ہے ۔ نیچے: ایجینور
لینیا ایک روشن پٹی یوروپا کے
برفیلی سطح پر پھیلی ہوئی ہے۔ تصویری ماہرین نے ایجینور کی زیادہ ریزولوشن کی
رنگین تصویر کو کم ریزولوشن کی علاقائی
تصویر سے آراستہ کیا ہے۔ ایجینور ایک تہری پٹی ہے
جس کے دونوں جانب گہرا سرخ مادّہ موجود ہے۔
رابرٹ
پاپالارڈو جیٹ پروپلشن لیبارٹری ،
پسادینہ کیلی فورنیا کے شعبہ سائنس ڈویژن کے پلانیٹری
سائنس ڈویژن میں سینیئر
سائنسی محقق ہیں۔ گلیلائی چاندوں میں اگرچہ ان کا سب سے پسندیدہ گینی میڈ
ہے ، لیکن دوسرا یوروپا ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں یوروپا اتنا کیوں پسند ہے:
ستر کی دہائی کے آخر میں مشتری پر بھیجی جانے
والی وائیجر کی مہمات نے
گلیلائی چاندوں میں میری دلچسپی
کو ابھارا ۔ میرے پاس اب بھی
فلکیاتی جریدے میں چھپنے والا مضمون "چار نئے جہاں" از ٹورینس (جانسن)
اور دیگر موجود ہے۔ جب میں اسکول کا طالبعلم تھا
تو میں ران گریلی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ اس کو یوروپا پر بھیجے جانے والے
گلیلیو کے تصویری نظام کی منصوبہ بندی کا
کام سونپا ہوا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ جب بھی کسی میٹنگ سے آتے تھے تو کہتے " سیارچوں نے بہترین نفع دیا اور ہم
نے گوہر نایاب یعنی یوروپا کو پا لیا ۔" میں نے اس وقت
اپنی پی ایچ ڈی مکمل ہی کی تھی اور ران کے
ساتھ اس کی کچھ منصوبہ بندی میں حصّہ لیا
تھا۔ یہ کام کرتے ہوئے ہم وائیجر کی تصاویر کو دیکھ رہے تھے اور اسی چیز سے رادامانتھس لینیا کے تیا پانچہ کرنے والے
ارضیاتی ثبوتوں کی طرف پہنچے۔ مجھے گینی
میڈ سے بھی اتنا ہی پیار ہے ، لیکن میرے لئے یوروپا ذرا زیادہ پراسرار ہے، گینی
میڈ کو تھوڑا ہم جان گئے ہیں۔ اجلاس میں
جذباتی مباحثے نہیں ہوتے تھے یا یہ بڑے اسرار۔ گینی میڈ کے بارے میں کافی حیرت
انگیز چیزیں موجود تھیں لیکن یوروپا کو ہم اب تک ٹھیک سے نہیں سمجھ سکے۔
آسمان میں مشتری کا بدلتا ، گھومتا اور بتدریج بدلتا نظارہ دیکھ کر سانس لینا بہت ہی
مشکل ہوگا۔ میں تصوّر میں اپنے چھوٹے باغ کی کرسی یوروپا پر کہیں ڈالے بیٹھا دیکھ
رہا تھا۔ کم تابکاری والا علاقہ ایک اچھی جگہ ہوگی، جو مشتری کی طرف والے نصف
کرۂ پرشمال سے دور اور جنوب سے کچھ
قریب کہیں پر موجود ہوگی ۔ میں کہوں گا کہ شمال تاکہ چیزیں الٹی سیدھی نہ ہوں۔ مجھے کچھ اچھی
انتشاری زمین درکار ہے، ایک بڑی چوٹی وہیں کہیں پر، اور بائیں طرف ایک بڑی
پہاڑی جو افق تک کھینچی ہوئی ہو۔ اور آس
پاس کہیں کوئی اچھی سے دھار سے بنی
کہر موجود ہوگی۔
میں وینس کے ساحل کے قریب رہتا ہوں۔ یہ پورے دو
کلومیٹر دور ہے۔ اور عام طور پر یوروپا پر پائی جانے والی دہری ڈھلوان
کی چوڑائی بھی اتنی ہی ہوتی ہے۔ وہ سو میٹر اونچی اور ٢ کلو میٹر چوڑی ہوتی ہیں۔ یہ آدھے گھنٹے کی سیر ہے اور سو
میٹر کچھ زیادہ اونچائی نہیں ہوتی لیکن ١٠
درجے کی ڈھلان کافی اچھی ہوتی ہے۔ کچھ جگہوں پر تو اس کا درجہ ٣٠ ڈگری تک ہو جاتا
ہے جو ٹھیراؤ کے آخری زاویہ کی حد ہے۔ اس کے باوجود یہ پھر بھی اتنی اونچائی ہے کہ
چیزوں وسطی طشت پر گریں گی جہاں پر کچھ اخراج جاری ہوگا ہمارے شمال میں ایک خوبصورت وادی ہوگی جو کاریزو میدان کہلاتی ہے ۔ سان اینڈریاس
کا شگاف اس کو بیچ سے کاٹ رہا ہے ۔ وہاں
پر موجود سان اینڈریاس کی مقامیت کافی
مختلف ہے۔ یہ اوپر اٹھتی ہے، وہاں پر ایک
وادی ہے جہاں شگاف خود سے ابھار کے ساتھ
ساتھ ہے اور پھر وہ دوبارہ نیچے چلا جاتا
ہے۔ یہ دہری پہاڑی ہے۔
اس طرح میں یوروپا کا تصوّر کرتا ہوں۔ یوروپا
پر اب بھی اونچائی ہے۔ وسط میں موجود گہرائی کچھ فٹ بال کے میدانوں جتنی چوڑی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ٹوٹا پھوٹا
ہوگا۔ ہم نے پہاڑیوں کی بنیاد پر اینٹوں جیسی چیز کے ثبوت دیکھے ہیں، جہاں پر
چیزیں اوپر سے گرتی ہیں اور جب آپ ٣٠ درجے کی ڈھلان دیکھتے ہیں تو وہ
جمع کرنے کا زاویہ تجویز کرتا ہے ،[جس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے ] اس غیر
جمع شدہ ملبے نے ہی ڈھلوان کو بنایا ہے۔ یہاں اونچائی پر تھوڑے زیادہ روڑے موجود
ہو سکتے ہیں۔ آپ کو وہاں کچھ اچھے جوتوں کی ضرورت ہوگی۔
یوروپا سے مشتری کا شاندار نظارہ ملے گا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں اکثر فلکی
حیاتیات دان موجود ہوں گے۔ اگر آپ حیات کی
تلاش میں ہیں تو یوروپا ہی وہی جگہ ہے۔
خاکہ 5.14
یوروپا پر پھیلی پٹیاں
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں