کائنات کا انجام
آئن سٹائن کے نظریئے نے بڑی کامیابی کے ساتھ سورج کے گرد ستاروں کی روشنی میں خم اور سیارہ عطارد کے مدار میں ہلکی سی ڈگمگاہٹ جیسے فلکیاتی مظاہر کو بہت اچھی طرح واضح کیا، لیکن اس کے کائناتی اندازے اب بھی کافی انوکھے ہیں۔ روسی طبیعیات دان الیگزینڈر فرائیڈ مین نے مادّے کو کافی وضاحت کے ساتھ بیان کیا۔ اس نے آئن سٹائن کی مساوات کا عمومی اور حقیقی حل تلاش کیا۔ آج بھی اس کی کھوج کو تمام سند عطا کرنے والے اضافیت کے کورس میں پڑھایا جاتا ہے۔( اس نے یہ حل 1922ء میں حاصل کیا لیکن اس کا انتقال 1925ء میں ہوا اور اس کے کام کو کئی برسوں تک بھلا دیا گیا۔)
آئن سٹائن کا نظریہ غیر معمولی اور مشکل مساوات کے سلسلے پر مشتمل ہے جس کو حل کرنے کے لئے اکثر کمپیوٹر درکار ہوتا ہے۔ بہرحال فرائیڈمین نے فرض کیا کہ کائنات متحرک ہے اور اس کے بعد دو سادہ سے مفروضے لئے ( جو کائناتی اصول کہلائے): یعنی کہ کائنات تمام اطراف میں یکساں ہے ( یہ ہمیشہ سے ایک جیسی ہی لگے گا اس بات سے کائنات کے مشاہدے پر کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ آپ کہاں سے اسے دیکھ رہے ہیں )، اور کائنات ہم مشابہ ہے ( یہ ایک جیسی ہی ہے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ہم کہاں پر موجود ہیں )۔
ان دو سادے مفروضوں کی رو سے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ مساواتیں منہدم ہو جاتی ہیں۔( اصل میں آئن سٹائن اور ڈی سٹر دونوں کے حل، فرائیڈ مین کے عمومی حل کی مخصوص حالت ہیں۔) غیر معمولی طور پر اس کا حل تین مقدار معلوم پر انحصار کرتا ہے:
1۔ H، جو کائناتی پھیلاؤ کی شرح کا تعین کرتا ہے۔ (آج ہم اس کو ہبل کا مستقل کہتے ہیں، اس کا نام ہبل کی عظیم خدمات کے صلے میں رکھا گیا ہے۔ ہبل نے سب سے پہلے کائناتی پھیلاؤ کو ناپا تھا۔)
2۔ اومیگا، جو کائنات میں مادّے کی اوسط مقدار کو ناپتا ہے۔
3۔ لمبڈا، وہ توانائی جو خالی خلاء سے نسبت رکھتی ہے یا تاریک توانائی۔
کئی عالم تکوینیات اپنی پوری پیشہ وارانہ زندگی صرف اس مقصد کے حصول میں گزار دیتے ہیں کہ کسی طرح سے ان تینوں اعداد کی صحت اور درستگی کے ساتھ مقدار کا تعین کر سکیں۔ ان تینوں مستقلات کے درمیان ہلکا سا تفاوت ہی پوری کائنات کے مستقبل کے ارتقا کا تعین کرے گا۔ مثلا قوّت ثقل کشش رکھتی ہے، لہٰذا کائنات کی کثافت یعنی اومیگا ایک طرح سے رکاوٹ کا کام دے گی۔ تاکہ بگ بینگ کے پھیلاؤ کی شرح کو الٹا کرکے کائنات کے پھیلاؤ کو آہستہ کر دے۔ ذرا ایک پتھر کو فضا میں پھینکنے کا تصوّر کریں۔ عام طور پر قوّت ثقل اس قدر طاقتور ہوتی ہے کہ پتھر کی سمت کو بدل دیتی ہے جو واپس زمین کی طرف ہی گرتا ہے۔ بہرحال اگر پتھر کو کافی تیز پھینکا جائے تو وہ زمین کی قوّت ثقل سے مفر ہو کر خلاء میں ہمیشہ کے لئے بلند ہو سکتا ہے۔ پتھر کی طرح، کائنات شروع میں بگ بینگ کی وجہ سے پھیلی، لیکن مادّہ یا اومیگا کائنات کے پھیلاؤ میں ایک رکاوٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے بعینہ ایسی جیسے کہ زمین کی ثقلی قوّت پتھر کے لئے رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔
ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ لمبڈا یعنی کہ خالی خلاء سے نسبت رکھنے والی توانائی صفر ہے۔ تو کائنات کی کثافت کو اومیگا مان لیتے ہیں جس کو مبصرانہ کثافت سے تقسیم کرتے ہیں۔(کائنات کی مبصرانہ کثافت لگ بھگ ہائیڈروجن کے 10 ایٹم فی مکعب میٹر ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ کائنات کس قدر خالی ہے یوں سمجھ لیں کہ کائنات کی مبصرانہ کثافت ایسی ہے جیسا کہ ایک ہائیڈروجن کے ایٹم کو تین باسکٹ بال کے میدان کے حجم میں اوسطاً تلاش کیا جائے۔)
اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا، تو سائنس دان نتیجہ اخذ کریں گے کہ کائنات میں اتنا مادّہ نہیں ہے کہ بگ بینگ سے شروع ہونے والے پھیلاؤ کو الٹا سکے۔(مثال کے طور پر پتھر کو ہوا میں پھینکیں اور اگر زمین کی کمیت زیادہ نہیں ہوگی تو پتھر زمین پر واپس نہیں لوٹے گا۔) اس نتیجے میں کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی جس کے نتیجے میں بالآخر اس وقت عظیم انجماد (بگ فریز) رونما ہوگا جب درجہ حرارت مطلق صفر تک گر جائے گا۔(یہی اصول ریفریجریٹر اور ایئر کنڈیشنر کے پیچھے کارفرما ہے۔ جب گیس پھیلتی ہے، تو یہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے ایئر کنڈیشنر میں پائپ میں دوڑنے والی گیس پھیلتی ہے جس کے نتیجے میں پائپ اور کمرے کو ٹھنڈا کرتی ہے۔)
اگر اومیگا ایک سے بڑا ہوگا، تو کائنات میں اتنا مادّہ اور قوّت ثقل موجود ہوگی کہ کائناتی پھیلاؤ کے عمل کو الٹا دے۔ نتیجتاً کائنات کا پھیلاؤ رک جائے گا اور کائنات سکڑنا شروع ہو جائے گی۔ (جیسا کہ ہماری پتھر والی مثال میں جب پتھر کو ہوا میں پھینکا تھا تو زمین کی کمیت کی وجہ سے پتھر زیادہ سے زیادہ اونچائی پر جا کر واپس لوٹ آئے گا۔) درجہ حرارت بڑھنا شروع ہو جائے گا کیونکہ ستارے اور کہکشائیں ایک دوسرے کی جانب دوڑ لگا دیں گے۔( آپ میں سے جس نے بھی سائیکل کے پہیے میں ہوا بھری ہوگی تو وہ یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہوگا کہ گیس کو دبانے سے حرارت پیدا ہوتی ہے، بعینہ کائنات کا سکڑاؤ ثقلی توانائی کو حرارتی توانائی میں بدل دے گا۔) بالآخر درجہ حرارت اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ تمام حیات معدوم ہو جائے گی کیونکہ کائنات ایک قیامت خیز " عظیم چرمراہٹ" (بگ کرنچ) کی جانب محو سفر ہوگی۔ (ماہر فلکیات کین کروسویل اس عمل کو تخلیق سے احتراق کہتے ہیں۔)
کائنات کے ارتقا کے تین ممکنہ حل ہیں۔ اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا (اور لمبڈا صفر ہو )، تو کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی یہاں تک کہ عظیم انجماد وقوع پذیر ہو جائے گا۔ اگر اومیگا ایک سے بڑا ہوگا تو کائنات واپس ایک بڑے چرمراہٹ میں منہدم ہو جائے گی۔ اگر اومیگا ایک کے برابر ہوگا تب کائنات چپٹی (فلیٹ) ہوگی اور ہمیشہ پھیلتی رہے گی۔ (ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل کردہ مواد بتاتا ہے کہ اومیگا اور لمبڈا ملا کر ایک کے برابر ہیں، یعنی کہ کائنات چپٹی ہے۔ یہ بات افراط زدہ کائنات کے نظریئے سے مطابقت رکھتی ہے۔)
اگر اومیگا ایک سے کم ہوگا (اور لمبڈا صفر ہوگا)، تب کائنات کھلی ہوئی ہوگی اور اس کا خم منفی ہوگا جیسا کہ زین کی صورت میں ہوتا ہے۔ متوازی خط کبھی بھی نہیں ملیں گے اور تکون کے زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ 180 درجے سے کم ہوگا۔
ایک تیسرا ممکنہ حل یہ ہے کہ اومیگا کی قدر بالکل صحیح ایک کے ہو، بالفاظ دیگر کائنات کی کثافت مبصرانہ کثافت کے برابر ہو، اس صورت میں کائنات دو انتہاؤں کے درمیان لٹکتی رہے گی لیکن ساتھ ساتھ ازل تک پھیلتی بھی رہے گی۔ ( یہ صورت حال افراط زدہ کائناتی تصویر میں فٹ بیٹھتی ہے۔)
آخر میں یہ بھی ممکن ہے کہ کائنات، عظیم چرمراہٹ کے بعد، دوبارہ سے ایک نئے بگ بینگ کی صورت میں نمودار ہو سکتی ہے۔ اس نظریئے کو جھولتی کائنات کا نظریہ کہتے ہیں۔
فرائیڈمین نے یہ بھی ثابت کیا کہ ان تمام صورتوں میں مکان و زمان کے خم کا تعین بھی ہوگا۔ اگر اومیگا ایک سے کم ہے اور کائنات ہمیشہ پھیلتی رہے گی تو نا صرف وقت لامحدود ہوگا بلکہ خلاء بھی لامتناہی ہوگی۔ ایسی کائنات کو ہم کھلی ہوئی کائنات کہیں گے۔ یعنی کہ وہ مکان وزمان میں لامحدود ہے۔ جب فرائیڈ میں نے کائنات کے خم کا حساب لگایا تو اسے یہ منفی ملا۔ ( جیسا کہ کسی گدی یا زین جیسا ہوتا ہے۔ اگر کوئی کیڑا اس کی سطح پر رہتا ہو، تو اس کو دو متوازی لکیریں کبھی بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آئیں گی۔ اور تکون کے اندر کے زاویوں کو جب جمع کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ 180 درجے سے کم ہوگا۔) اگر اومیگا ایک سے زیادہ ہوگا تو کائنات بالآخر سکڑ کر عظیم چرمراہٹ میں ختم ہو جائے گی۔ مکان و زمان محدود ہوگا۔ فرائیڈ مین کو کائنات کا خم مثبت ملا (جیسا کہ کرہ کا ہوتا ہے )۔ بالآخر اگر اومیگا ایک کے برابر ہوگا تو خلاء سپاٹ ہوگی اور مکان و زمان دونوں غیر مجلد ہوں گے۔
اگر اومیگا ایک سے زیادہ ہوگا، تو کائنات بند ہوگی اور اس کا خم مثبت ہوگا، جیسا کہ کرہ میں ہوتا ہے۔ متوازی خط ہمیشہ ملیں گے اور تکون کے زاویوں کا مجموعہ ہمیشہ 180 درجوں سے زیادہ ہوگا۔
فرائیڈ مین نے نہ صرف پہلی مرتبہ آئن سٹائن کی کائناتی مساوات تک جامع رسائی دی بلکہ اس نے روز قیامت کی بھی حقیقی صورت پیش کی۔ یعنی کہ کائنات کا حتمی مقدر کیا ہوگا آیا کہ یہ عظیم انجماد میں ختم ہوگی یا پھر ایک عظیم چرمراہٹ میں بھن جائے گی یا پھر یہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان جھولتی رہے گی۔ اس کا جواب انتہائی اہم مقدار معلوم میں پنہاں ہے۔ یعنی کہ کائنات کی کثافت اور خلاء کی توانائی میں۔
لیکن فرائیڈ مین کی تصویر میں ایک بڑا شگاف تھا۔ اگر کائنات پھیل رہی تھی، تو اس کا مطلب تھا کہ اس کی شروعات بھی تھی۔ آئن سٹائن کا نظریہ کائنات کی ابتدا کے بارے میں خاموش تھا۔ جو چیز اس میں سے غائب تھی وہ تخلیق کا لمحہ یعنی کہ بگ بینگ تھا۔ اور آخر کار تین سائنس دانوں نے ہمیں بگ بینگ کی ناقابل رد تصویر پیش کردی۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں