نیوکلیائی
تالیف کی اس شدید بحث کے نتیجے میں ایک ضمنی چیز حاصل ہوئی یعنی کہ اس بحث نے ہمیں
ستارے کی حیات کا مکمل چکر بیان کر دیا۔ سورج جیسا کوئی بھی ستارہ اپنی حیات کو
ایک عظیم منتشر ہائیڈروجن کی گیند سے شروع کرتا ہے جس کو ابتدائی ستارہ کہتے
ہیں اور یہ بتدریج قوّت ثقل کے زیر اثر
سکڑتا رہتا ہے ۔ جب وہ منہدم ہونا شروع ہوتا ہے تو تیزی سے گھومنا شروع کر دیتا ہے (اکثر اس کے نتیجے میں ثنائی ستاروں کا جنم ہوتا ہے ، جس میں دو ستارے
ایک دوسرے کو بیضوی مدار میں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں ، یا پھر گھومتے ہوئے ستارے
کے میدان میں ہیسیارے خلق ہوتے ہیں )۔
ستارے کا قلب زبردست طریقے سے گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے یہاں تک کہ درجہ
حرارت تقریباً ایک کروڑ ڈگری یا اس سے بھی
زیادہ ہو جاتا ہے ۔ اور اسی وقت ہائیڈروجن
یا ہیلیئم کا عمل گداخت ہونا شروع ہوتا
ہے۔
ستارے
میں جب چنگاری لگ جاتی ہے تو اس دور کو
ستارے کا اہم سلسلہ کہا جاتا ہے اور یہ
سلسلہ اگلے دس ارب برس تک جاری رہ سکتا ہے ۔ اپنی اس حیات میں ستارہ آہستگی کے
ساتھ اپنے قلب میں ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں بدلتا رہتا ہے ۔ ہمارا سورج اس عمل کا
نصف دور پورا کر چکا ہے۔ جب
ہائیڈروجن جلنے کا دور اپنے اختتام کو پہنچتا ہے
تو ستارہ ہیلیئم کو جلانا شروع کر دیتا ہے ، اس وقت یہ زبردست طور پر پھیل
کر مریخ کے مدار تک پھیل چکا ہوگا اور ایک سرخ دیو یا سرخ ضخام بن جائے گا ۔ جب قلب میں ہیلیئم کا ایندھن ختم ہو جائے گا تو اس کی باہری پرت غائب ہو جائے گی جس کے نتیجے میں صرف قلب ہی باقی رہے گا ۔ یہ زمین کے حجم کا رہ جائے گا جس کو
"سفید بونا" یا " سفید صغر " کہا جاتا ہے۔ ہمارے سورج جیسے
چھوٹے ستارے خلاء میں مرنے کے بعد ایک طرح
سے سفید بونے کے نیوکلیائی کچرے میں تبدیل
ہو کر تیرتے رہیں گے ۔
لیکن بڑے
ستارے جن کی کمیت شاید سورج سے دس سے چالیس گنا زیادہ ہوتی ہے ، ان میں ہونے والا
گداخت کا عمل بہت تیزی سے جاری رہتا ہے ۔
جب ایسا کوئی ستارہ سرخ فوق دیو بنتا ہے ، تو اس کا قلب ہلکے عناصر کو بہت تیزی کے
ساتھ بھاری عناصر میں بدلنے لگتی ہے ، یہ ایک طرح سے مخلوط ستارہ بن جاتا ہے یعنی ایک سرخ دیو کے اندر ایک سفید بونا۔ اس سفید بونے ستارے کے اندر ہلکے عناصر دوری جدول میں موجود لوہے تک کے
عناصر کو تخلیق کرتے ہیں ۔ جب گداخت کا عمل اس سطح پر پہنچتا ہے جہاں لوہے بنتا
ہے تو پھر اس گداخت کے عمل سے نکلنے والی مزید توانائی حاصل نہیں کی جا سکتی،
لہٰذا ارب ہا برس کے بعد یہ نیوکلیائی بھٹی بند ہو جاتی ہے ۔ اس نقطے پر پہنچنے کے
بعد ستارہ اچانک ہی منہدم ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں زبردست دباؤ پیدا ہوتا
ہے جو اصل میں الیکٹرانوں کو مرکزوں کی
جانب دھکیلتا ہے ۔ (اس کثافت پانی کی کثافت سے ٤ کھرب گنا زیادہ ہو سکتی ہے ۔) اس
کے نتیجے میں درجہ حرارت دسیوں کھرب ڈگری تک بڑھ جاتا ہے ۔ ثقلی توانائی جو اس
ننھے سے جسم میں دبی ہوتی ہے دھماکے سے باہر کی جانب ایک سپرنووا کی صورت میں
پھٹتی ہے۔ اس عمل کے دوران پیدا ہونے والی زبردست حرارت عمل گداخت کو ایک دفعہ پھر
سے شروع کر دیتی ہے اور دوری جدول میں
موجود لوہے کے بعد کے بھاری عناصر کی
تالیف ہوتی ہے۔
مثال کے
طور پر سرخ فوق دیو ابط الجوزا غیر
پائیدار ستارہ ہے جس کو برج جوزا میں
آسانی کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ کبھی بھی سپرنووا بن کر پھٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں یہ بڑی مقدار میں گیما اور ایکس ریز کی شعاعوں کی بوچھاڑ
اپنی ارد گرد کے پڑوس میں پیدا کرے گا۔ جب کبھی ایسا ہوگا تو یہ سپرنووا دن
کی روشنی میں بھی نظر آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ رات کو چاند کی روشنی کو
بھی پیچھے چھوڑ دے۔ (پہلے کسی دور میں یہ
سمجھا جاتا تھا کہ کسی سپرنووا سے نکلنے والی عظیم توانائی نے ہی آج سے ٦ کروڑ ٥٠
لاکھ برس پہلے ڈائنوسارس کو غارت کر دیا
تھا۔ اصل میں کوئی بھی سپرنووا جو ہم سے صرف دس
نوری برس کے فاصلے پر ہو زمین پر موجود تمام حیات کو ختم کر سکتا ہے۔خوش
قسمتی سے اسپیکا اور ابط الجوزا جیسے
دیوہیکل ستارے ہم سے بالترتیب ٢٦٠ اور ٤٣٠ نوری برس کے فاصلے پر موجود ہیں۔ یہ فاصلہ اتنا ہے
کہ جب وہ پھٹیں گے تو زمین کو سنجیدہ قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکیں گے۔ تاہم کچھ
سائنس دان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ آج سے بیس لاکھ برس پہلے سمندروں میں ہونے
والی معدومیت صغیر کی وجہ ایک ١٢٠ نوری
برس پر ہونے والا سپرنووا تھا۔)
اس کا
مطلب یہ ہے کہ ہماری زمین کی اصل ماں سورج
نہیں ہے ۔ ہرچند کہ زمین کے کافی لوگ اس سورج کو دیوتا مان کر اس کی پوجا کرتے ہیں جس نے زمین کو جنم دیا
، یہ ادھورا سچ ہے۔ اگرچہ زمین اصل میں سورج سے ہی پیدا
ہوئی ہے (اس دائرہ البروج گرد و غبار کے میدان کا حصّہ بن کربنی ہے جو سورج کے گرد آج سے ٤ ارب ٥٠ کروڑ برس پہلے
گھوم رہا تھا)، ہمارا سورج بمشکل اس قابل
ہے کہ ہائیڈروجن کو ہیلیئم میں گداخت کر سکے۔ اس کا مطلب ہوا کہ ہماری اصل
ماں کوئی بے نام ستارہ یا ستاروں کا
مجموعہ ہے جو آج سے ارب ہا برس پہلے کسی سپرنووا کے دھماکے میں عدم کو سدھار گئے تھے ۔ لیکن جانے سے پہلے
انہوں نے اپنے قریب موجود سحابیہ میں لوہے
سے بھاری ان عناصر کے بیج کو بو دیا تھا جنہوں نے ہمارے جسم کو بنایا ہے۔ کلی طور پر ہمارے جسم ان ستاروں کی خاک سے بنے ہیں جو ارب ہا برس پہلے
موت سے ہمکنار ہو گئے تھے۔
سپرنووا
دھماکے کے بعد ستارے کی ایک ننھی سی باقیات رہ جاتی ہے جس کو نیوٹران ستارہ کہتے
ہیں ۔ یہ خالص نیوکلیائی مادّے سے بنا ہوتا ہے ۔ یوں سمجھ لیں کہ مین ہٹن جتنے شہر
کو دبا کر صرف ٢٠ میل جتنا کر دیا جائے۔(نیوٹران
ستاروں کے وجود کے بارے میں سب سے پہلے
١٩٣٣ءمیں فرٹز زوائیکی نے
اندازہ لگایا تھا۔ لیکن یہ اس قدر تعجب خیز لگے تھے کہ سائنس دانوں نے
انھیں عشروں تک نظر انداز کیے رکھا۔) کیونکہ نیوٹران ستارے تابکاری کو بے قاعدگی
سے خارج کرتے ہیں اور نہایت تیزی سے گھومتے ہیں
لہٰذا ان کو ہم روشنی کے مینار سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔ یہ گھومتے ہوئے
تابکاری کو پھینکتے ہیں۔ زمین سے دیکھنے پر، نیوٹران ستارے نبض کی طرح دھڑکتے ہیں لہٰذا ان کو "نباض
" بھی کہتے ہیں ۔
بہت بڑے ستارے شاید سورج کی کمیت سے چالیس گنا
زیادہ والے ستارے جب بالآخر سپرنووا کے
دھماکے سے گزرتے ہیں تو اس وقت اپنے پیچھے
تین سورجوں کے برابر کی کمیت
جتنا نیوٹران ستارہ چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نیوٹران ستارے کی قوّت ثقل اس قدر
زیادہ ہوتی ہے کہ وہ نیوٹرانوں
کے درمیان قوّت دفع سے مزاحمت کرتی
ہے جس کے نتیجے میں شاید ستارہ آخری دفعہ
منہدم ہوتا ہوا کائنات کی سب سے عجیب و غریب چیز یعنی کہ بلیک ہول میں بدل جاتا
ہے۔ جس کو ہم پانچویں باب میں بیان کریں گے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں