تغیر آواز کا اثر اور پھیلتی ہوئی کائنات
ہبل جانتا تھا کہ کسی بھی دور دراز جسم کی رفتار کو معلوم کرنے کا ایک سادہ طریقہ یہ ہے کہ اس جسم سے نکلتی آواز یا خارج ہوتی ہوئی روشنی کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کو تغیر آواز کا اثر یا ڈوپلر کا اثر کہا جاتا ہے۔ سڑک پر ہمارے سامنے سے گزرتی گاڑیاں اس اثر کو پیدا کرتی ہیں۔ پولیس اس اثر کو گاڑیوں کی رفتار کو ناپنے کے لئے استعمال کرتی ہے۔ وہ ایک لیزر کی شعاع گاڑی پر مارتے ہیں جو ان کی گاڑی تک معکوس ہوتی ہے ۔ لیزر کی روشنی کے تعدد ارتعاش (فریکوئنسی) میں ہونے والی تبدیلی کو ناپتے ہوئے وہ ہماری سمتی رفتار (ولاسٹی) کو معلوم کر لیتے ہیں ۔
مثال کے طور پر اگر ایک ستارہ ہماری طرف چلا آ رہا ہے تو اس سے ہونے والی روشنی کا طیف نیلا مائل ہوگا۔ یعنی اس کا طول موج (ویو لینتھ) چھوٹی ہوگی ۔ ایک پیلا ستارہ ہلکا سا نیلا نظر آئے گا ( کیونکہ نیلے رنگ کی طول موج پیلے رنگ سے چھوٹی ہوتی ہے)۔ اسی طرح سے اگر کوئی ستارہ ہم سے دور جا رہا ہوگا تو اس کی روشنی کی موجیں کھنچی ہوئی ہوں گی جس کے نتیجے میں اس کا طول موج لمبی ہوگی اس طرح سے ایک پیلا ستارہ ہلکا سا لال نظر آئے گا۔ بگاڑ جس قدر زیادہ ہوگا اسی قدر زیادہ ستارے کی سمتی رفتار ہوگی ۔ لہٰذا اگر ہمیں ستارے کی روشنی کے تعدد ارتعاش کی تبدیلی کے بارے میں معلوم ہو تو ہم ستارے کی رفتار کو معلوم کر سکتے ہیں۔
1912ء میں فلکیات دان وسٹو سلائیفر نے یہ بات دریافت کر لی تھی کہ کہکشائیں زمین سے زبردست سمتی رفتار سے دور ہو رہی تھیں۔ نا صرف کائنات ہماری پرانی سوچ سے کہیں زیادہ بڑی تھی بلکہ یہ زبردست رفتار سے پھیل بھی رہی تھی۔ چند ایک استثناء کو چھوڑ کر اس کو زیادہ تر کہکشائیں نیلی تبدیلی کے بجائے سرخ تبدیلی کا اخراج کرتی ہوئی نظر آئیں ۔ اس کی وجہ حرکت کرتی ہوئی کہکشاؤں کی ہم سے دوری تھی۔ سلائیفر کی دریافت نے اس بات کو ثابت کیا تھا کہ کائنات اصل میں نیوٹن اور آئن سٹائن کی سوچ کے برخلاف ساکن کے بجائے متحرک ہے۔
پچھلے دور میں جن سائنس دانوں نے بنٹلے اور البرز کے تناقضہ (پیراڈاکس) کا مطالعہ کیا ان میں سے کسی نے بھی سنجیدگی سے کائنات کے پھیلنے کا نہیں سوچا۔ 1928ء میں ہبل نے ہالینڈ کا ثمر آور دورہ کیا جس میں وہ ویلم ڈی سٹر سے ملا ۔ ہبل کو ڈی سٹر کے پیش کردہ اس تصور نے بہت زیادہ حیرت میں ڈال رکھا تھا کہ کہکشاں جتنی زیادہ ہم سے دور ہو گئی اتنا ہی زیادہ تیزی سے وہ حرکت کرے گی ۔ ذرا ایک ایسے غبارے کا تصور کریں جس کی سطح پر کہکشائیں موجود ہیں ۔ جیسے ہی غبارہ پھولے گا ،وہ کہکشائیں جو ایک دوسرے سے قریب ہوں گی وہ ایک دوسرے سے نسبتاً آہستہ دور ہوں گی ۔یعنی کہکشائیں جتنا ایک دوسرے سے قریب ہوں گی اتنا ہی آہستہ دور ہوں گی ۔ لیکن جو کہکشائیں غبارے کی سطح پر ایک دوسرے سے خاصی دور ہوں گی وہ زیادہ تیزی سے اور دور ہوں گی۔
ڈی سٹر نے ہبل سے درخواست کی کہ وہ اس اثر کو اپنے اعداد و شمار میں تلاش کرے۔ اس چیز کو کہکشاؤں کی سرخ منتقلی (ریڈ شفٹ) کا جائزہ لے کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔ جتنا زیادہ کہکشاؤں کی سرخ منتقلی ہو گئی ، اتنا ہی تیزی سے وہ دور ہو رہی ہوں گی لہٰذا وہ ہم سے اتنا ہی دور ہوں گی ۔( آئن سٹائن کے نظرئیے کے مطابق ، تیکنیکی طور پر کہا جائے تو کہکشاؤں کی سرخ منتقلی اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ زمین سے تیزی سے دور جا رہی ہیں بلکہ اس کی وجہ کہکشاؤں کے درمیان مکان کا بذات خود پھیلاؤ ہے۔ سرخ منتقلی کا اصل ماخذ یہ ہے کہ دور دراز کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی پھیلتے ہوئے خلاء کی وجہ سے کھنچی ہوئی یا لمبوتری ہوتی ہے لہٰذا وہ سرخی مائل نظر آتی ہے۔)
ہبل کا قانون
جب ہبل واپس کیلی فورنیا پہنچا تو اس نے ڈی سٹر کے مشورے کا احتیاط کے ساتھ جائزہ لیا اور اس اثر کے ثبوتوں کی تلاش شروع کردی۔ چوبیس کہکشاؤں کا تجزیہ کرنے کے بعد اس نے آخر کار معلوم کر لیا کہ جو کہکشاں جتنی دور ہو گئی وہ اتنا ہی تیز ہم سے دور بھاگ رہی ہے۔ بعینہ آئن سٹائن کی مساوات کے عین مطابق۔ ان دونوں (رفتار تقسیم بذریعہ فاصلہ) کی نسبت لگ بھگ مستقل ہی تھی۔ یہ جلد ہی ہبل کے مستقل یا ایچ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ غالباً یہ علم فلکیات میں واحد سب سے زیادہ اہم مستقل ہے۔ کیونکہ اس سے ہمیں اس شرح کا معلوم ہوتا ہے جس سے کائنات پھیل رہی ہے۔
سائنس دانوں نے سوچا کہ اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یقیناً اس کی ابتدا بھی ہوگی۔ ہبل کے مستقل کا الٹ اصل میں کائنات کی عمر کا حساب لگانے میں مدد دیتا ہے۔ کسی دھماکے کی ویڈیو کا تصوّر کریں ، دھماکے کی جگہ سے نکلنے والی گرد و غبار سے پھیلاؤ کی سمتی رفتار معلوم کر سکتی ہے ۔ یعنی اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہم ویڈیو کو اس وقت تک الٹا چلا سکتے ہیں جب تک وہ اس نقطہ پر نہ پہنچ جائے جہاں تمام ملبہ ایک تھا ۔ کیونکہ ہمیں پھیلاؤ کی سمتی رفتار معلوم ہے لہٰذا ہم اس بات کا خام اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دھماکہ کس وقت وقوع پذیر ہوا تھا۔
(ہبل کے اصل اندازے نے کائنات کی عمر کو ایک ارب اسی کروڑ بتایا تھا ، جس نے کئی ماہرین تکوینیات کو سر درد میں مبتلا کر رکھا تھا کیونکہ یہ عمر زمین اور ستاروں کی مسلمہ عمر سے کم تھی۔برسوں بعد ماہرین فلکیات نے آخر کار اس بات کو معلوم کر ہی لیا کہ اینڈرومیڈا میں موجود قیقاؤسی متغیر سے خارج ہونے والی روشنی نے ہبل کے مستقل کی غلط مقدار دے دی تھی۔ اصل میں "ہبل کی جنگ" جو ہبل مستقل کی درست مقدار کو معلوم کرنے کے لئے ہوئی وہ ستر برس تک جاری رہی ۔ عصر حاضر میں سب سے زیادہ قابل بھروسہ مقدار ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل ہوئی ہے۔)
1931ء میں جب آئن سٹائن نے ماؤنٹ ولسن رصدگاہ کا دورہ کیا تو وہ پہلے ہبل سے ملا۔ جب اسے کائنات کے پھیلاؤ کا اندازہ ہوا تو اس نے اپنے فلکیاتی مستقل کو زندگی کی سب سے بھیانک غلطی تسلیم کرلیا۔( بہرحال آئن سٹائن کی اس فاش غلطی نے ، غلط ہونے کے باوجود فلکیات کی بنیادوں کی ہلا کر رکھ دیا ہے جیسے کہ ہم آگے اس وقت دیکھیں گے جب ہم ڈبلیو میپ سیارچے سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کو زیر بحث لائیں گے۔) جب آئن سٹائن کی بیوی کو اس جسیم رصدگاہ کا دورہ کرایا گیا تو اس کو بتایا گیا کہ یہ دیوہیکل دوربین کائنات کی حتمی ساخت کا تعین کرنے جا رہی ہے۔ آئن سٹائن کی بیوی نے سرد مہری سے جواب دیا ،" میرا شوہر یہ کام پہلے ہی اس پرانے لفافے کی پشت پر کر چکا ہے ۔"
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں