چرچ جانے کی وجہ سے گیمو کی زندگی میں تبدیلی آ گئی۔ چرچ میں کام کرنے کے بعد وہ وہاں سے چوری چھپے کچھ اشتراکی روٹیاں (جس کو حضرت عیسی کے بدن کا ٹکرا بیان کیا جاتا تھا) گھر لانے لگا۔ خرد بین سے دیکھنے پر اسے اشتراکی روٹی اور عام روٹی میں کوئی فرق نہیں دکھائی دیا۔ گیمو کا کہنا ہے، "میرے خیال میں یہ وہ تجربہ تھا جس نے مجھے سائنس دان بنا دیا۔"
اس نے یونیورسٹی آف لیننگراڈ سے طبیعیات دان الیگزینڈر فرائیڈ مین کے زیر نگرانی تعلیم حاصل کی۔ بعد میں یونیورسٹی آف کوپن ہیگن میں وہ کئی عظیم طبیعیات دانوں جیسا کہ نیلز بوہر وغیرہ سے ملا۔ (1932ء میں اس نے اپنی بیوی کے ساتھ سوویت یونین سے بھاگنے کی کوشش کی جو ناکام ہو گئی۔ وہ کریمین سے کشتی پر بیٹھ کر ترکی جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بعد ازاں وہ اپنی اس کوشش میں اس وقت کامیاب ہو گیا جب وہ برسلز میں ہونے والی ایک طبیعیات کی کانفرنس میں گیا۔ اور اس کے نتیجے میں سوویت یونین نے اسے واجب القتل قرار دے دیا۔)
گیمو اپنے دوستوں کو مخمس ہجویہ نظم بھیجنے کے لئے مشہور تھا۔ ان میں سے زیادہ تر تو ناقابل اشاعت ہیں تاہم ان میں سے ایک ہجویہ نظم نے ماہرین تکوینیات کی اس بے بسی کا احاطہ کیا جب وہ فلکیاتی اعداد سے نبرد آزما ہوتے تھے اور لا محدودیت ان کے چہرے کو تکتی تھی :
ایک نوجوان مقتدی ٹرینٹی سے تعلق رکھتا تھا
جس نے لا محدودیت کا جزر المربع لیا
لیکن ہندسوں کے اعداد نے
اس کو مضطرب کر دیا؛
اس نے ریاضی کو چھوڑ کر الوہیت اختیار کر لی۔
1920ء کی دہائی میں روس میں گیمو نے پہلے پہل کامیابی اس وقت حاصل کی جب اس نے اس اسرار سے پردہ اٹھایا کہ تابکار انحطاط کیونکر ممکن ہوتا ہے۔ مادام کیوری اور دوسروں کے کام کی وجہ ہے سائنس دان اس بات کو جان سکے کہ آیا کیوں یورینیم کے جوہر غیر پائیدار ہوتے ہیں اور تابکاری کو الفا شعاعوں (ہیلیئم کے جوہر کے مرکزے) کی صورت میں خارج کرتے ہیں۔ تاہم نیوٹنی میکانیات کے مطابق پراسرار نیوکلیائی طاقت جو مرکزوں کو جوڑی رکھتی ہے اس کے پاس کوئی بند ہونا چاہئے تھا جو اس رساؤ کو رسنے سے روکتا۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟
گیمو (اور آر ڈبلیو گرنی اور ای یو کونڈون )نے اس بات کا ادراک کر لیا تھا کہ تابکار انحطاط کوانٹم کے نظرئیے کی رو سے ہونا ممکن تھا یعنی اصول عدم یقین کا مطلب تھا کہ کوئی کبھی بھی کسی بھی ذرّے کی درست سمتی رفتار اور محل وقوع معلوم نہیں کر سکتا؛ لہٰذا ہمیشہ اس بات کا تھوڑا بہت امکان رہے گا کہ یہ سرنگ بن جائے یا پھر سیدھا رکاوٹ میں سے جذب ہو جائے۔ (دور حاضر میں یہ سرنگ [ٹنلگ] کا خیال طبیعیات کی دنیا کی جان ہے اور اس کا استعمال برقی آلات کی خصوصیات ، بلیک ہول اور بگ بینگ کو بیان کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کائنات بھی اسی سرنگ جیسی کسی چیز کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہو۔)
اس تمثیلی خیال کا استعمال کرتے ہوئے گیمو نے ایک قیدی کو جیل کی اونچی دیواروں میں بند تصوّر کیا۔ نیوٹن کی مستند دنیا میں ، فرار ناممکن ہے۔ لیکن کوانٹم نظرئیے کی عجیب و غریب دنیا میں ، آپ اس بات کو درست طور پر نہیں جان سکتے کہ قیدی اس لمحے کہاں ہے اور اس کی سمتی رفتار کیا ہوگی۔ اگر قیدی جیل کی دیواروں سےمسلسل ٹکراتا رہے گا تو آپ اس موقع کا حساب لگا سکتے ہیں جو ایک دن اسے اس دیوار میں سے گزرنے کے لئے ملے گا۔ یہ بات براہ راست عقل عامہ اور نیوٹن کی میکانیات سے متصادم ہے۔ اس محدود امکان کا ریاضی میں قابل حل صورت موجود ہے کہ وہ کبھی جیل کی دیواروں سے باہر نکل سکے گا۔ اس امکان کے وقوع پذیر ہونے کے لئے قیدی جیسے بڑے اجسام کے لئے کائنات کی عمر سے بھی لمبی عمر درکار ہو گئی جس میں یہ معجزانہ واقعہ رونما ہو سکے۔ لیکن الفا ذرّات کے لئے اور ذیلی جوہری ذرّات کے لئے یہ معجزے ہر وقت رونما ہوتے رہتے ہیں کیونکہ یہ ذرّات مرکزے کی دیواروں سے وسیع توانائی کی مقدار کے ساتھ متواتر ٹکراتے رہتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ گیمو کو اس اہم کام کے لئے نوبیل کا انعام دینا چاہئے تھا۔
1940ء میں گیمو کی دلچسپی اضافیت سے فلکیات کی طرف منتقل ہو گئی جو اس کے وجدان میں زیادہ زرخیز اور ان دیکھی دنیا تھی۔ کائنات کے بارے میں اس وقت جو معلوم تھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آسمان سیاہ ہے اور کائنات پھیل رہی ہے۔ گیمو کو ایک خیال نے راہ دکھائی۔ کوئی بھی ایسا ثبوت یا "رکاز" حاصل کیا جائے جو اس بات کو ثابت کر سکے کہ بگ بینگ ارب ہا برس پہلے شروع ہوا تھا۔ یہ بہت ہی پریشان کن امر تھا کیونکہ فلکیات اپنی اصل روح میں کوئی تجرباتی سائنس تو تھی نہیں۔ کوئی بھی ایسا تجربہ نہیں تھا جو بگ بینگ کے لئے کیا جا سکتا۔ فلکیات ایک طرح سے سراغ رسانی کی کہانی ہے ، یہ تجرباتی سائنس کے برعکس ایک مشاہداتی سائنس ہے، تجرباتی سائنس میں آپ صحت کے ساتھ تجربہ کر کے "باقیات" کی تلاش یا جرم کے منظر سے ثبوت تلاش کرتے ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں