سائنس کی دنیا میں گیمو کی اگلی خدمت اس نیوکلیائی عمل کی دریافت تھی جس میں ان ہلکے عناصر کا جنم ہوا جن کو ہم کائنات میں چہار طرف دیکھتے ہیں۔ وہ اس کو "ماقبل کائناتی بھٹی " کہتا تھا جہاں کائنات کے تمام عناصر بگ بینگ کی شدید حرارت میں پکے تھے۔ آج اس عمل کو ہم "نیوکلیائی ترتیب" کے نام سے جانتے ہیں یا اسے کائنات میں عناصر کی فراوانی کا حساب بھی کہا جاتا ہے۔ گیمو کے خیال میں یہ ایک لگاتار زنجیر ی عمل تھا جو ہائیڈروجن سے شروع ہوا اور بعد میں ہائیڈروجن کے عنصر میں مزید ذرّات کو جمع کرتے ہوئے دوسرے عناصر کو بناتا گیا۔ وہ سمجھتا تھا کہ مینڈلوف کے کیمیائی عناصر کا پورا دوری جدول بگ بینگ کی حرارت سے بنایا جا سکتا ہے ۔
گیمو اور اس کے شاگرد نے اس کی وجہ یہ بیان کی کہ کیونکہ تخلیق کے لمحے کائنات ناقابل تصوّر حد تک گرم پروٹون اور نیوٹران کا امتزاج تھی لہٰذا ہو سکتا ہے کہ عمل گداخت (فیوزن) شروع ہو گیا ہو ۔ جس میں ہائیڈروجن کے ایٹم ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہوئے ہیلیئم کے ایٹموں میں بدلتے رہے ہوں۔ جیسا کہ کسی ہائیڈروجن کے بم یا ستارے میں ہوتا ہے کہ درجہ حرارت اس قدر بلند ہوتا ہے کہ ہائیڈروجن ایٹم کے پروٹون ایک دوسرے سے تصادم شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے میں ضم ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہیلیئم کا مرکزہ معرض وجود میں آتا ہے۔ ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے بعد کے ٹکراؤ اسی طرح کے اگلے عنصر کی تشکیل کرتے ہیں جس میں لیتھیم اور بیریلیئم بھی شامل ہیں۔ گیمو نے اس بات کو فرض کیا کہ بھاری عنصر اسی طرح سے سلسلہ وار ذیلی جوہری ذرّات کو مرکزے میں جمع کرکے بنائے جا سکتے ہیں - بالفاظ دیگر تمام کے تمام سو کے لگ بھگ عنصر جنہوں نے مل قابل مشاہدہ کائنات کو بنایا ہے ، وہ بگ بینگ کی اصل قیامت خیز حرارت میں ہی پکے ہوں گے۔
ایک خاص انداز میں گیمو نے اپنے اس جرات مند پروگرام کے نقشے کے خطوط رکھے اور اپنے پی ایچ ڈی کرنے والے طالبعلم رالف الفر کو اس کی تفصیلات بھرنے کو دیا۔ جب مقالہ تیار ہو گیا تو وہ عملی مذاق کرنے سے باز نہیں رہا۔ اس نے طبیعیات دان ہانس بیتھ کا نام مقالے پر اس کی اجازت کے بغیر لکھ دیا اور یہ مقالہ شہرہ آفاق الفا بیٹا گیما مقالے کے نام سے مشہور ہو گیا۔
گیمو نے اس بات کی کھوج کر لی تھی کہ بگ بینگ اس قدر گرم تھا کہ ہیلیئم کی تشکیل ہو سکتی تھی جو کائنات کی کل کمیت کا تقریبا 25 فیصد ہے۔ بگ بینگ کو "ثابت" کرنے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ آج ایک طائرانہ نظر ڈال کر ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہو گئی کہ وہتقریباً 75 فیصد ہائیڈروجن اور 25 فیصد ہیلیئم سے بنے ہیں جبکہ دوسرے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ (جیسا کہ پرنسٹن کے طبیعیات دان ڈیوڈ اسپرجل کہتے ہیں ، "جب بھی آپ غبارہ خریدتے ہیں تو آپ اس میں بھری ہوئی وہ ہیلیئم لے رہے ہوتے ہیں [جس میں سے کچھ] بگ بینگ وقوع ہونے کے صرف چند منٹ میں ہی پیدا ہو گئی تھی۔")
بہرحال گیمو کو تخمینہ لگانے میں کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا نظریہ شروع کے ہلکے عناصر سے تو خوب ہم آہنگ رہتا ہے ۔ لیکن 5 اور 8 نیوٹران اور پروٹون والے عناصر کافی غیر پائیدار ہوتے ہیں لہٰذا وہ کسی بھی طرح سے ایک "پل" کا کام نہیں کر سکتے تھے جس کو پار کرتے ہوئے وہ بڑے اعداد والے پروٹون اور نیوٹران والے عنصر کو بنا سکیں اور یہی بات اپنے پیچھے ایک فلکیاتی اسرار چھوڑ دیتا ہے۔ پانچ اور آٹھ ذرّاتی جگہ سے آگے گیمو کے پروگرام کی ناکامی عرصہ دراز تک ایک ضدی مسئلہ بنا رہا اور اس کے اس تصوّر کے آگے ایک دیوار کی طرح ثابت رہا جس میں کائنات کے تمام عناصر بگ بینگ کے لمحے میں ہی تخلیق ہو گئے تھے ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں