ساکن یا دائمی
حالت کی کائنات کا نظریہ
١٩٤٠ء میں ہوئیل بگ بینگ کے نظرئیے کا گرویدہ نہیں تھا۔ نظرئیے کی ایک خامی یہ تھی کہ ہبل نے دور دراز سے آتی ہوئی کہکشاؤں کی روشنی کو ناپنے میں غلطی کردی تھی جس کی وجہ سے کائنات کی عمر ایک ارب اسی کروڑ برس نکلتی تھی۔ ماہرین ارضیات اس بات کے دعویدار تھے کہ زمین اور نظام شمسی ہی کئی ارب ہا برس کے ہیں ۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات اپنے سیاروں سے کم عمر ہو؟
اپنے رفقائے کار تھامس گولڈ اور ہرمن بونڈی کے ساتھ مل کر ہوئیل نے اس نظرئیے کے خلاف ایک متبادل نظریہ بنایا۔ افواہ یہ ہے کہ ان کا دائمی حالت کا نظریہ ١٩٤٥ء کی فلم "رات کی موت" سے متاثر ہو کر بنا تھا۔ فلم بھوتوں کی کہانیوں پر مشتمل تھی لیکن آخری منظر میں ایک یادگار موڑ تھا : فلم ایسے ختم ہوتی ہے جیسے کہ وہ شروع ہوئی تھی۔ لہٰذا فلم چکردار تھی جس میں نہ تو کوئی شروعات تھی نہ ہی کو اختتام۔ (بعد میں گولڈ نے اس کہانی کو واضح کیا تھا ۔ وہ بتاتا ہے ، " میرے خیال میں ہم نے یہ فلم کافی مہینوں پہلے دیکھی تھی ، اس کے بعد میں نے دائمی حالت کا نظریہ پیش کیا تھا ، میں نے ان سے کہا 'یہ کچھ اسی رات کی موت کی طرح نہیں ہے؟'")
اس نمونے میں کائنات کے کچھ حصّے پھیل رہے ہیں، لیکن ساتھ ساتھ نیا مادّہ بھی عدم سے وجود میں آ رہا ہے لہٰذا کائنات کی کمیت میں کوئی فرق نہیں پڑ رہا تھا۔ ہرچند انہوں نے اس بات کی کوئی تفصیل نہیں دی کہ مادّہ کہاں سے پیدا ہو رہا ہے لیکن اس نظریہ نے ان وفاداروں کی توجہ حاصل کر لی جو بگ بینگ کے نظرئیے سے جنگ و جدل میں مصروف تھے۔ ہوئیل کے مطابق یہ غیر منطقی بات تھی کہ ایک قیامت خیز دھماکہ عدم سے پیدا ہوا اور اس نے تمام سمتوں میں کہکشاؤں کو پھیلا دیا؛ لہٰذا اس نے عدم سے کمیت کی یکساں تخلیق کو فوقیت دی۔ بالفاظ دیگر کائنات وقت سے ماورا تھی ۔ اس کا کوئی اختتام یا شروعات نہیں تھی۔ یہ ایسی ہی تھی۔
(دائمی حالت اور بگ بینگ کی جنگ ویسی ہی تھی جیسا کہ ارضیات اور دوسرے سائنسی میدانوں میں چل رہی ہے۔ ارضیات میں ایک نہ ختم ہونے والی بحث نظریہ تسلسل [یہ عقیدہ کہ زمین ماضی میں ہونے والی بتدریج تبدیلیوں سے ڈھلی ہے ] اور نظریہ ابتلائے عظیم [ جو اس بات کو پیش کرتا ہے کہ تبدیلیاں بذریعہ متشدد واقعات کے رونما ہوئی ہیں] میں چلتی ہے۔ ہرچند نظریہ تسلسل زمین کے زیادہ تر ارضیاتی اور ماحولیاتی خواص کو بیان کرتا ہے لیکن کوئی دمدار ستاروں اور سیارچوں کے ٹکراؤ سے انکار نہیں کر سکتا جو اجتماعی معدومیت کا سبب بنے ہیں یا پھر براعظموں کی ٹوٹ پھوٹ یا حرکت بذریعہ ساختمانی بہاؤ کا بھی کوئی منکر نہیں ہو سکتا۔)
بی بی سی لیکچرز
ہوئیل نے کبھی بھی اچھی لڑائی سے منہ نہیں موڑا۔ ١٩٤٩ء میں ہوئیل اور گیمو دونوں کو برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے کائنات کی ابتدا سے ہونے والی بحث کے لئے بلایا۔ نشریات کے دوران ہوئیل نے تاریخ رقم کردی جب اس نے مخالف نظریہ پر ضرب لگائی۔ اس نے حتمی طور پر کہا، "ان نظریات کی بنیاد ان مفروضوں پر ہے کہ تمام مادّہ بگ بینگ کے ایک مخصوص وقت میں ماضی بعید میں تخلیق ہوا۔"اس کے اس جملے کو ادا کرنے کے ساتھ ہی نظریئے کا نام پڑ گیا۔ مخالف نظریہ کو "بگ بینگ" کا نام اس کے سب سے بڑے مخالف نے ہی دے دیا تھا۔(بعد میں اس نے دعویٰ کیا کہ اس کا مقصد اہانت کرنا ہرگز نہیں تھا۔ اس نے تسلیم کیا، " ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ میں اہانت کرنے کے لئے اس اصطلاح کو گھڑوں ۔ میں نے تو اس اصطلاح کو ڈرامائی بنانے کے لئے گھڑا تھا۔")
(برسوں تک بگ بینگ کے حامیوں نے بہت کوشش کی کہ اس کا نام تبدیل کر دیں۔ وہ اس عام سے نام بلکہ نام کی بیہودہ تضمین سے غیر مطمئن تھے اور پھر سب سے بڑی بات کہ اس کا نام اس کے سب سے بڑے مخالف نے رکھا تھا۔ نکتہ سنج بطور خاص اس بات سے خائف تھے کہ یہ حقیقی طور پر بھی غلط تھا۔ پہلی بات تو بگ بینگ عظیم نہیں تھا (کیونکہ یہ شروع ایک ننھی سے وحدانیت سے ہوا تھا جو ایک جوہر سے بھی چھوٹی تھی۔ دوسرے یہ کوئی دھماکہ نہیں تھا (کیونکہ باہری خلاء میں ہوا ہی موجود نہیں تھی)۔ اگست ١٩٩٣ء اسکائی اینڈ ٹیلیسکوپ میگزین نے ایک مقابلہ منعقد کروایا تاکہ بگ بینگ کا نام تبدیل کر دیا جائے۔ مقابلے میں تیرہ ہزار سے زائد اندراج ہوئے ، لیکن ججوں کو اصل نام سے بہتر کوئی دوسرا نام نہیں ملا۔)
ہوئیل کی شہرت کو پوری نسل تک پھیلانے کے لئے اس کا مشہور بی بی سی ریڈیو کا سائنس پر سلسلے وار پروگرام تھا ۔ ١٩٥٠ء میں بی بی سی نے ہر ہفتے کی شام کو سائنس پر لیکچر دینے کا پروگرام بنایا۔ بہرحال جب اصلی مہمان نے آنے سے معذرت کر لی تو پروڈیوسر اس کا متبادل ڈھونڈنے کے لئے مجبور ہوا۔ انہوں نے ہوئیل سے رابطہ کیا جس نے آنے کے لئے رضا مندی ظاہر کردی۔ جب انہوں نے اس کی فائل جانچی تو وہاں پر ایک نوٹ درج تھا، "اس آدمی کو کبھی بھی نہیں بلانا۔"
اتفاقاً انہوں نے پچھلے پروڈیوسر کی اس ہولناک تنبیہ کو نظر انداز کر دیا۔ اور اس طرح سے اس نے دنیا کو اپنے پانچ زبردست لیکچرز دیے۔ اس کلاسک بی بی سی کی نشریات نے قوم میں سحر طاری کر دیا اور ایک طرح سے اگلی نسل کے فلکیات دانوں کو متاثر کیا۔ فلکیات دان والس سارجنٹ اس تاثر کو یاد کرتے ہیں جو اس نشریات نے ان کے ذہن پر چھوڑا تھا۔ "جب میں پندرہ برس کا تھا ، میں نے سنا کہ فریڈ ہوئیل بی بی سی پرلیکچرز دیتے ہیں جس کا عنوان "کائنات کی نوعیت "ہے۔ جب آپ کو معلوم چلتا ہے کہ سورج کے قلب میں کیا درجہ حرارت ہوتا ہے اور اس کی کیا کمیت ہے تو آپ سکتے میں آ جاتے ہیں۔ پندرہ برس کی عمر میں ایسی کوئی بھی چیز علم سے کوسوں دور کی نظر آتی ہے ۔ یہ صرف حیرت انگیز اعداد ہی نہیں تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ آپ یہ سب جان سکتے تھے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں