Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 24 جنوری، 2016

    ساکن یا دائمی حالت والی کائنات کے خلاف ثبوت


     
    بہرحال عشروں پر محیط وقت کے دوران ثبوت آہستگی کے ساتھ دائمی  حالت والی کائنات کے خلاف جمع ہونے لگے۔ ہوئیل کو خود اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ  وہ یہ جنگ ہار رہا ہے۔ اس کے نظرئیے میں کیونکہ کائنات کا ارتقا نہیں ہوا تھا  بلکہ وہ مسلسل مادّے کو پیدا کر رہی تھی  لہٰذا ابتدائی کائنات کو دور حاضر جیسی کائنات جیسا ہی دکھائی دینا چاہئے تھا۔ آج نظر آنے والی کہکشاؤں کو آج سے ارب ہا برس پہلے نظر آنے والی کہکشاؤں جیسا ہی دکھائی دینا چاہئے تھا۔ دائمی حالت کا کائناتی نظریہ اس وقت رد کیا جا سکتا تھا جب ارب ہا برس گزرنے کے دوران ڈرامائی طور پر ارتقا کے واضح نشان موجود ہوں۔

    ١٩٦٠ء میں ایک پراسرار زبردست توانائی کا منبع خلائے بسیط میں پایا گیا جس کا نام "کوزارز" یا  "مثل نجمی اجسام" رکھا گیا۔ ( یہ نام توجہ کو اس قدر گرفت میں لینے والا تھا  ٹیلی ویژن سیٹ کے بعد میں آنے والے نمونوں میں سے کچھ کو اس کے نام پر رکھا گیا۔) کوزارز زبردست توانائی پیدا کر رہے تھے  اور ان کی سرخ منتقلی بھی کافی زیادہ تھی، مطلب صاف ظاہر تھا کہ وہ ہم سے ارب ہا برس دور تھے اور  انہوں نے فلک کو اس وقت روشن کیا ہوا تھا جب وہ اپنے عہد طفلی سے گزر رہی تھی۔(آج ماہرین فلکیات  اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ نوجوان دیوہیکل کہکشائیں  ہیں جن کو جسیم بلیک ہول  قابو میں کیے ہوئے ہیں۔) دور حاضر میں ہمیں کوزارز  کہیں نظر نہیں آتے۔ جبکہ دائمی حالت کے نظرئیے کے مطابق ان کو موجود ہونا چاہئے تھا۔ ارب ہا برس گزرنے کے بعد وہ غائب ہو گئے تھے۔
                      
     ہوئیل کے نظرئیے میں ایک اور مسئلہ بھی تھا۔ سائنس دانوں نے اس بات  کا فہم حاصل کر لیا تھا  کہ دائمی حالت والی  کائنات میں صرف  ہیلیئم ہی کافی  زیادہ  موجود  ہونا چاہئے تھی تاکہ اس نظرئیے میں وہ فٹ بیٹھ سکے۔ بچوں کے گیس کے غبارے میں بھری ہوئی ہیلیئم کی گیس سے کون واقف نہیں ہوگا ۔ یہ گیس اصل میں زمین پر کافی کمیاب ہے، لیکن کائنات میں ہائیڈروجن کے بعد سب سے زیادہ وافر مقدار میں موجود ہے ۔ یہ اتنی کمیاب ہے کہ پہلی دفعہ اس کو زمین کے بجائے سورج میں دریافت کیا گیا۔ (١٨٦٨ء میں سائنس دانوں نے سورج کی روشنی کا تجزیہ  ایک منشور سے گزار کر کیا۔ خمیدہ روشنی  معمول کی قوس و قزح  کے رنگوں اور طیف  کے خطوط میں بٹ گئی ، تاہم سائنس دانوں نے  ایک پراسرار عنصر کے بنائے ہوئے مدھم  طیفی خطوط کا سراغ لگایا  جن کو انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے غلط قیاس کرتے ہوئے اس کو دھات سمجھا. عام طور پر دھاتوں کے نام کے آخر میں  "ium" لگایا جاتا ہے  جیسا کہ لیتھیم  اور یورینیم۔ انہوں نے اس پراسرار دھات کا نام ، یونانی زبان میں سورج کے لئے استعمال ہونے والا لفظ  "helios"  سے لے کر دے دیا۔ آخر کار ١٨٩٥ء میں ہیلیئم کو زمین میں یورینیم کے ذخائر میں دریافت کرلیا گیا۔ اور سائنس دانوں  نے پریشان کن انداز میں اس کو دھات کے بجائے  گیس پایا۔ اس طرح سے ہیلیئم پہلی دفعہ سورج میں پائی گئی اور  اس کا نام  غلط بطور دھات کے رکھ دیا گیا۔)

    اگر قدیمی ہیلیئم  صرف ستاروں کے اندر ہی پیدا ہوئی ہوتی جیسا کہ ہوئیل  کا خیال تھا تو پھر اس کو کافی کمیاب ہونا چاہئے تھا  اور صرف ستاروں کے قلب کے پاس ہی موجود ہونا چاہئے تھا۔تاہم تمام فلکیاتی اعداد و شمار اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ہیلیئم اصل میں کافی مقدار میں موجود ہے  جس کی وجہ سے اس کا کائناتی  کمیت میں حصّہ ٢٥ فیصد تک کا ہے۔ یہ کائنات میں یکساں طور پر پھیلی ہوئی ہے (جیسا کہ گیمو کا خیال تھا )۔

    آج ہم جانتے ہیں کہ گیمو اور ہوئیل دونوں نیوکلیائی تالیف کے معاملے میں تھوڑے تھوڑے درست تھے۔ گیمو سمجھتا تھا کہ تمام کیمیائی عناصر بگ بینگ کی باقیات تھے ۔ لیکن اس کا نظریہ ٥ ذرّاتی اور ٨ ذرّاتی  عناصر میں آکر ناکام ہو جاتا تھا۔ ہوئیل سمجھتا تھا کہ وہ بگ بینگ کے نظریئے کو   یہ ثابت کرکے ہمیشہ کے لئے دفن کر دے گا کہ تمام عنصر ستارے بناتے ہیں۔ لہٰذا ان عناصر کو بنانے  کے لئے کسی بگ بینگ کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ تاہم اس کا نظریہ  ہیلیئم کی بہتات کو بیان کرتے ہوئے ناکام ہو جاتا ہے۔ جس کی فراوانی کو کائنات میں ہم اب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔


    اصل میں دیکھا جائے تو گیمو اور ہوئیل دونوں نے ہمیں  نیوکلیائی تالیف کی ایک تکمیلی تصویر پیش کی ہے۔ بہت ہی ہلکے عناصر  جن کی کمیت ٥ اور ٨ تک کی ہے حقیقت میں بگ بینگ کے وقت تخلیق ہوئے تھے  جیسا کہ گیمو کا خیال تھا۔ آج طبیعیات کے میدان میں ہونے والی دریافتوں کی بدولت  ہم جانتے ہیں کہ بگ بینگ نے زیادہ تر ڈیوٹیریئم ، ہیلیئم – ٣، ہیلیئم -٤، اور لیتھیم -٧  کو اوّلین دور میں تخلیق کیا جن کو ہم آج قدرت میں دیکھتے ہیں۔ تاہم لوہے تک بھاری عنصر زیادہ تر ستاروں کے قلب میں پکے ہیں جیسا کہ ہوئیل کا خیال تھا۔ اگر ہم لوہے کے بعد کے عناصر (مثلاً تانبے، زنک اور سونے) کو ملا لیں تو ہمارے پاس  مکمل تصویر موجود ہوگی جو اس بات کا بیان کرنے کی اہل ہے کہ آخر کیوں  کائنات میں پائے جانے والے کچھ  عناصر دوسروں کی نسبت وافر مقدار میں موجود ہیں۔( دور حاضر  کے علم تکوینیات میں کسی  بھی ایسے نظریئے کو جو اس  کو جھٹلا سکے  ناقابل یقین چیلنج کو پورا کرنا ہوگا  یعنی کہ  سو کے قریب مختلف عناصر  اور ان کے ہزاروں ہم جا کی کائنات میں  نسبتی فراوانی کو بیان کرنا ہوگا۔) 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ساکن یا دائمی حالت والی کائنات کے خلاف ثبوت Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top