ریاضیاتی نمونوں کا استعمال کرکے، سائنس دان فوق ارض سیاروں کے اندروں میں 'جھانک' کر معلوم کر سکتے ہیں کہ اس میں ایسے مرکبات موجود ہو سکتے ہیں جن کو بننے کی اجازت کلاسیکل کیمیائی قوانین نہیں دیتے - یہ مرکبات حرارتی منتقلی کی شرح میں اضافہ اور ان سیاروں کے مقناطیسی میدان کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
مقالے کے مصنفین ماسکو انسٹیٹیوٹ آف فزکس اینڈ ٹیکنالوجی (ایم آئی پی ٹی) سے تعلق رکھنے والے محققین کی ایک جماعت ہے جس کی سربراہی اسکولکووو انسٹیٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے اور ایم آئی پی ٹی لیبارٹری آف کمپیوٹر ڈیزائن کے سربراہ ارٹیم اگانوف کر رہے ہیں۔ ایک پچھلی تحقیق میں اگانوف اور اس کے رفقاء نے ایک ایسا الوگرتھم استعمال کیا جو اگانوف نے بنایا تھا اور اس کو یوایس پی ای ایکس کہتے ہیں اس کا کام سوڈیم اور کلورین کے نئے مرکبات اور دوسرے اجنبی مادّوں کی شناخت کرنا تھا۔
ان کے تازہ ترین مقالے میں محققین نے یہ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے کہ کون سا مرکب سلیکان، آکسیجن اور میگنیشیم سے بلند دباؤ پر بن سکتا ہے۔ ان مخصوص عناصر کو اتفاق سے چنا ہی نہیں گیا تھا۔
"زمین جیسے سیاروں میں سیلیکٹ کی ایک پتلی سے قشر سیلیکٹ آکسائڈ غلاف - جو زمین کی کل مقدار کا 7/8 حصّہ ہوتا ہے اور یہ 90 فیصد سے زیادہ سیلیکٹ اور میگنیشیم آکسائڈ پر مشتمل ہوتا ہے - اور ایک لوہے کا قلب ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ میگنیشیم، آکسیجن اور سلیکان زمین اور زمین جیسے سیاروں پر کیمیا کی بنیاد بناتی ہیں،' اگانوف کہتے ہیں۔
یو ایس پی ای ایکس کے الوگرتھم کا استعمال کرتے ہوئے محققین نے میگنیشیم سیلیکٹ اور آکسیجن کی کئی ساختی تراکیب لیں جو 50 لاکھ سے 3 کروڑ فضائی دباؤ تک میں وقوع پذیر ہو سکتی ہیں۔ اس طرح کا دباؤ فوق ارض سیاروں کے اندرون میں موجود ہو سکتا ہے جن کی ٹھوس سطح زمین کی کمیت سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔
نظام شمسی میں اس طرح کی قسم کا کوئی سیارہ موجود نہیں ہیں، تاہم فلکیات دان دوسرے ستاروں کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس طرح کے سیاروں کو جانتے ہیں جو اس قدر بھاری تو نہیں ہوتے جتنے کہ گیسی دیو، تاہم زمین سے کافی بھاری ہوتے ہیں۔ ان کو فوق ارض (Super Earth)کہتے ہیں۔ ان سیاروں میں حالیہ دریافت ہونے والا گلیز 832c شامل ہے جو زمین سے پانچ گنا زیادہ بھاری ہے یا میگا زمین کیپلر -10c (جس کی تصویر کو شروع میں اوپر دکھایا گیا ہے)، جو زمین سے سترہ گنا زیادہ بھاری ہے۔
کمپیوٹر نمونوں کے نتائج بتاتے ہیں کہ ان سیاروں کے اندرون میں شاید "اجنبی" مرکبات MgSi3O12 اور MgSiO6 موجود ہو سکتے ہیں۔ زمین پر پائے جانے والے MgSiO3 کی بنسبت ان میں زیادہ آکسیجن کے جوہر ہو سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ MgSi3O12 ایک دھاتی آکسائڈ اور حاجز ہیں جبکہ دوسرے مرکبات جس میں Mg-Si-O جوہر شامل ہوتے ہیں وہ غیر موصل یا نیم موصل ہوتے ہیں۔ "ان کی کیمیائی خصوصیات میگنیشیم، آکسیجن اور سلیکان کے عام پائے جانے والے مرکبات سے بہت ہی الگ ہوں گی - ان میں سے اکثریت دھاتی یا نیم موصل ہوں گے۔ ان سیاروں پر یہ مقناطیسی میدانوں کو پیدا کرنے کے لئے اہم ہے۔ ایک مقناطیسی میدان سیارے کے اندرون میں برقی رو پیدا کرتی ہے، بلند ایصالیت کا مطلب خاصی طاقت ور مقناطیسی میدان ہو سکتا ہے،" اگانوف بیان کرتے ہیں۔
زیادہ طاقت ور مقناطیسی میدان کا مطلب کائناتی اشعاع سے زیادہ طاقت ور حفاظت، اور یوں زندہ اجسام کے لئے زیادہ بہتر حالات۔ محققین یہ بھی اندازہ لگاتے ہیں کہ نئے میگنیشیم اور سلیکان آکسائڈ جو کلاسیکل کیمیا کے قوانین میں نہیں بیٹھتے - وہ MgO2 اورMg3O2 کے آکسائڈ کے علاوہ SiO, SiO3, اور MgO3 ہیں جن کا اندازہ اگانوف نے کم دباؤ پر لگایا تھا۔
کمپیوٹر نمونے محققین کو اس قابل کرتے ہیں کہ جب MgSiO3 فوق ارض پر زبردست اونچے دباؤ سے گزرتا ہے - مابعد - پروف اسکائٹ تو وہ بوسیدگی کے عمل کا تعین کر سکیں۔
" یہ غلاف میں موجود پرتوں کے کناروں کو اور ان کے محرک کو متاثر کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک جاذب حرارت کا مرحلہ غلاف کی ایصال حرارت کی رفتار اور سیارے کے اندر حرارت کی منتقلی کو تبدیل کر سکتا ہے اور حرارت گیر مرحلے میں تبدیلی اس کو آہستہ کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیارے پر کرۂ حجری کی تختیاں(lithospheric plates) شاید اونچی ہوں،" اگانوف کہتے ہیں۔
ایصال حرارت جو ساختمائی تختیوں اور غلاف کی آمیزش کا تعین کرتی ہیں وہ تیز رفتار (غلاف کی ملاوٹ اور حرارتی منتقلی کے عمل کی رفتار بڑھا کر) یا آہستہ دونوں ہو سکتی ہے۔ حرارت گیر تبدیلی(endothermic change) میں ایک ممکنہ منظر نامے سیارے کی کئی خود مختار ایصالی پرتوں میں تقسیم ہے، وہ درج کرتے ہیں۔
یہ حقیقت کہ زمین کے براعظم مسلسل حرکت میں رہتے ہیں، غلاف کی سطح پر "تیرتے" رہتے ہیں جس کی وجہ سے آتش فشاں اور سانس لینے کے قابل ماحول بنتا ہے۔ اگر براعظموں کا تیرنا رک جائے تو اس اثر آب و ہوا پر انتہائی ہولناک ہوگا۔
ڈیلی گلیکسی بذریعہ ماسکو انسٹیٹیوٹ آف فزکس اینڈ ٹیکنالوجی
تصویر کریڈٹ: ناسا / چندرا ایکس رے رصدگاہ
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں