'خلائی مخلوق کی بنائی ہوئی عظیم ساخت' کی گونج جلد ہی ختم ہو جائے گی
ہماری کہکشاں میں کہیں پر موجود ذی شعور مخلوق کے ہونے کے امکان پر اکتوبر ٢٠١٥ء کے آخری ہفتے میں انٹرنیٹ پر کافی چرچا رہا ہے۔ یہ شور و غوغا اس وقت برپا ہوا جب اٹلانٹک پر ایک مضمون چھپا۔ اس مضمون میں ان تفصیلات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ کس طرح سے ناسا کے سیارہ شناس کیپلر خلائی جہاز نے ہماری ملکی وے کہکشاں میں ایک انوکھا ستارہ دیکھا ہے جس کا نام KIC 8462852 ہے۔
فلکیاتی دنیا کے لوگ اس عجیب ستارے پر اپنی ناظرین جمائے ہوئے تھے ، جس کو گزشتہ برس ییل یونیورسٹی کی مابعد ڈاکٹریٹ رکن تبیتھا بویاجیان نے دریافت کیا تھا۔ یہ ستارے پچھلے چند برسوں کے دوران بہت ہی ڈرامائی انداز میں مدھم ہوتا چلا گیا اور اپنی تابانی کو اس نے ٢٢ فیصد تک کم کر دیا۔ ان واقعات کی وجہ سے عالمگیر سطح پر ایک ایسی بحث شروع ہو گئی جس میں یہ کہا گیا کہ اس ستارے کے گرد کوئی ایسی چیز ہے جس کو خلائی مخلوق نے بنایا ہے، کوئی ڈیسن کرہ جیسی کوئی چیز – پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے جیسن رائٹ کے مطابق یہ ایک ایسا قیاس ہے جس کو اس وقت جانچا جا سکتا ہے جب KIC 8462852 دوبارہ مدھم ہو۔
"جب تک اس قسم کے واقعات دوبارہ وقوع پذیر ہوتے رہیں گے، تو ہم اس دوران اس کو پکڑنے کے قابل ہوں گے، اور تب ہم یقینی طور پر اس قابل ہو سکیں گے کہ ہم آخر دیکھ کیا رہے ہیں،" رائٹ نے اسپیس ڈاٹ کوم سے بات کرتے ہوئے کہا۔ پچھلے برس، رائٹ بویاجیان سے اس وقت ملا جب وہ سینٹر فار ایکزو پلانٹ اینڈ ہیبی ٹیبل ورلڈز (مرکز برائے ماورائے شمس اور قابل سکونت جہانوں) میں تقریر کے لئے گئی تھیں۔ سیمینار کے بعد انہوں نے رائٹ سے بات کی اور ان کو وہ ستارہ دکھایا جو انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر کیپلر دوربین سے ڈھونڈا تھا۔ "ماورائے ارض ذی شعور حیات کی تلاش کے لئے ہمارے پاس کچھ زیادہ اچھی جگہیں موجود نہیں ہیں، لہٰذا یہ سب سے بہتر لگتا ہے،" رائٹ کہتے ہیں۔
ایم آئی ٹی کی فلکیات دان اور سیاروی سائنس دان سارا سیگر کے مطابق شہ سرخیاں تو مکمل طور پر مضحکہ خیز اور گمراہ کن تھیں۔ "یہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ صحافت ہے۔ کیونکہ اگر آپ اس مضمون کو دیکھیں – وہ سائنسی مقالہ جو مصنف نے لکھا ہے – [یہ خیال] حقیقت میں تو وہاں پر موجود ہی نہیں ہے،" سیگر نے ورج سے بات کرتے ہوئے بتایا۔
"میں تو اس بات سے ہی مسحور ہو گیا کہ وہ دیکھنے میں کیسا لگے گا،" رائٹ نے اٹلانٹک سے بات کرتے ہوئے کہا۔ "خلائی مخلوق تو وہ آخری چیز ہو گئی جس کا آپ قیاس کر سکتے ہیں، تاہم اس کو دیکھنے سے ایسا لگتا ہے کہ آپ امید کرنے لگتے ہیں کہ کسی خلائی تہذیب نے اسے بنایا ہوگا۔"
گزموڈو میں چھپنے والی ایک حیران کن رپورٹ کے مطابق کچھ فلکیات دان کہتے ہیں کہ ایسا ایک تیز رفتار گھومتے ہوئے اور بے شکل ستارے کے ثقلی اندھیرے اور مدار میں گماؤ کے سیدھ میں نہ آنے کی وجہ سے ہوا ہوگا۔
برطانوی خبر رساں ادارے انڈیپنڈنٹ نے خبر دی ہے کہ ستارہ ملکی وے سے اوپر ہے اور یہ مجمع النجموم دجاجہ اور بربط کے درمیان کہیں واقع ہے۔ یہ ستارہ اس لئے مختلف ہے کیونکہ اس ستارے کے آس پاس دھول جمع ہے جس کی وجہ سے روشنی کے عجیب و غریب خطوط حاصل ہو رہے ہیں، رائٹ کہتے ہیں۔ " میرے بہترین اندازے کے مطابق ستارے کے گرد کوئی مادّے کی قرص موجود ہے۔ تاہم سب سے بہتر نظریہ کہتا ہے کہ یہ دم دار ستاروں کا شاندار جھنڈ ہے۔"
نوجوان ستاروں میں عام طور پر سیاروں کو بنانے والی سیاروی قرص ہوتی ہے۔ جب ستارہ عمر گزارنے لگتا ہے تو یہ قرص ٹوٹ کر سیاروں کو بناتی ہے۔ تاہم اس طرح کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ کوئی نوجوان ستارہ ہے، رائٹ کہتے ہیں۔
نوجوان ستاروں کی قرص ستارے سے بہت نزدیک ہوتی ہے، لہٰذا اس سے کافی حرارت نکلتی ہے۔ وہ کہکشاں میں سے تیز رفتاری سے نہیں گزر سکتی، اور عموماً اس کے ساتھ دوسرے ستارے بھی موجود ہوتے ہیں جو اس نظام میں ہی بنے ہوتے ہیں اور وہ بھی اسی سمت میں حرکت کرتے ہیں، رائٹ نے کہا۔ KIC8462852 میں ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ رائٹ مزید کہتے ہیں کہ طبیعی علم کے حوالے سے کوئی ایسی وجہ نہیں ہے جو ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دے کہ ایسا صرف خلائی مخلوق ہی کر سکتی ہے۔
پچاس برس پہلے پرنسٹن انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانسڈ اسٹڈی کے طبیعیات دان، فری مین ڈیسن نے از روئے قیاس تخیلات کے گھوڑے دوڑاتے ہوئے اندازہ لگایا تھا کہ وسیع ساخت مکمل طور سے اپنے مورث ستارے کے گرد حلقہ بنا لے گی۔ یہ ڈیسن کے کرہ - جو کاردیشوف کی جماعت دوم کی تہذیب نے بنائے ہوں گے – اپنے مورث ستارے سے پیدا ہوئی تمام کی تمام توانائی کو جذب کرنے کے قابل ہوں گے۔
فلکیات دان کیپلر نظام کا مطالعہ اس لئے کر رہے ہیں تاکہ وہ اس طرح کی ساخت کی غماز کرنے والے شواہد کو ڈھونڈ سکیں۔ ان شواہد کو نا صرف مرکزی ستارے سے آنے والی روشنی کی سطح کا تجزیہ کرکے ڈھونڈا جا سکتا ہے بلکہ ماورائے ارض تہذیبوں کے درمیان ہونے والے ممکنہ لیزر کے اشاروں سے بھی ان کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ "فرمی بلبلے،" جو مرغولہ نما کہکشاؤں میں بصری روشنی میں خالی نظر آتی ہیں، یہ اصطلاح فرمی لیب کے ایک سبکدوش سائنس دان رچرڈ کیریگن نے اپنے تحقیقاتی کام میں استعمال کی ہے۔ انہوں نے زیریں سرخ شعاعی فلکیاتی سیارچے (انفراریڈ ایسٹرونومیکل سیٹلائٹ )کے اعداد و شمار کی مدد سے اپنی اس تحقیق میں کائناتی پیمانے کی مصنوعی ساختوں جیسا کہ ڈیسن کے کرے یا کاردیشوف تہذیبوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ کیریگن کے مطابق فرمی بلبلہ اس وقت بڑھے گا جب کوئی تہذیب خلاء کو آباد کرے گی۔
کیریگن کے مطابق وہ تہذیب اپنی کہکشاں کو کہکشانی چکر کے وقت کے مطابق یا ٢٢ کروڑ ٥٠ لاکھ برس سے لے کر ٢٥ کروڑ برس کے درمیان اس کو ڈھانپ سکے گی، اور ہو سکتا ہے کہ اس سے کم وقت میں بھی وہ ایسا کر سکے۔
کائناتی پیمانے کی مصنوعی ساختوں کے نقش پاؤں کو تلاش کرنا روایتی سیٹی کے بجائے ڈیسن کرہ یا کاردیشوف کی تہذیبوں کو ڈھونڈھنے کی صورت نسبتاً ایک دلچسپ متبادل ہے۔ اس طرح کی مصنوعات کی کھوج میں اصل تہذیب کی طرف سے اشاروں کی منتقلی کی کھوج کی ضرورت نہیں پڑتی۔
ڈیلی گلیکسی بذریعہ پین اسٹیٹ یونیورسٹی، اسپیس ڈاٹ کوم، اور ورج ۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں