Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 3 فروری، 2016

    زحل کے برفیلے چاند - ڈائی اونی حصّہ اوّل

    خاکہ 6.1 آیاپیٹس کی استوائی پہاڑی پر ایک پہاڑی گزرگاہ  -  تعطیلات  گزارنے کی ایک ایسی  جگہجس میں ہر چیز کی سہولت  شامل ہے۔ یہاں سے زحل اور اس کے حلقوں کا شاندار نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کی جگہیں زمین پر  کھڑی چٹانیں  مثلاً یونانی گاؤں سنتورینی  کے مشابہ ہیں ۔ 

    زحل کے چاند مستقبل  کے کھوجیوں کے لئے کئی تحقیقی  منزلیں اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پر اترنے اور سطح پر چلنے کے اپنے اپنے مسائل ہیں اور ان میں سے ہر ایک  قریبی زحل کے بھورے مکھنی بادل، قطبی روشنیاں اور وسیع حلقے سب کے سب  ایک منفرد نظارہ پیش کرتے  ہیں۔

    مشتری کے بعد، حلقوں کا سردار سورج کے گرد شاہانہ انداز سے ہر ٢٩ برس چھ ماہ میں اپنا ایک چکر مکمل کرتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں کسی بھی سیارے کے مقابلے میں اس کے سنہری کرہ  کے گرد سب سے جامع  حلقوں اور سیارچوں کے نظام  موجود ہیں۔ اس کے 62 تصدیق شدہ اہم مہتابوں میں سے ،[1]  13سیارچوں  کا قطر 50 کلومیٹر سے زیادہ ہے  (ملاحظہ کیجئے خاکہ 6.7) سیاروی حجم رکھنے والے  ٹائٹن کے علاوہ، یہ چاند درمیانی حجم کے فلکی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں  جن کے بارے میں گلیلائی چاندوں کے مقابلے میں  انتہائی کم معلومات میسر ہیں۔

    اس قسم کے حجم کے چاندوں نے محققین کو دق کرکے رکھا ہوا ہے، اے پی ایل کی ایلزبتھ ٹرٹل  کہتی ہیں۔ " بڑے چاند بالخصوص  گلیلائی چاند کس طرح سے کام کرتے ہیں یہ بات ہم کافی اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ ان سیارچوں کی بنیاد پر ہماری تاریخ ہے، جو آخر کے اراکین کے درمیان ایک اچھا سلسلہ بناتی ہے۔ لیکن درمیانی حجم کے سیارچے بہت ہی اچھی طرح سے نہیں سمجھے گئے ہیں۔" ٹرٹل اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ زحل کا درمیانے درجہ کے سب سے  بڑے چاند  ریا کا حجم سب سے چھوٹے گلیلائی چاند یوروپا کے نصف قطر سے بھی کم ہے۔

     
    برفیلے مسمار جہاں : ڈائی اونی


    جین ڈومینک کیسینی  نے زحل کے چار چاندوں کو سترویں صدی کے آخر میں دریافت کیا۔ وہ ان کو فرانسیسی  بادشاہ لوئیس   چہار دہم  کے اعزاز میں  "لوئیس کے ستاروں" سے موسوم کرنا چاہتا تھا۔ تاہم چاندوں کا نام کرونوس (یونانی زحل  ثانی) کے بھائی بہنوں ٹائٹنس کے نام پر پڑا۔[2]  ان کے نام ڈائی اونی ، ٹیتھس، آیاپیٹس اور ریا رکھے گئے۔[3]

    زحل کے چاند جوڑوں کی صورت میں نظر آتے ہیں۔ سیارے سے دور جائیں تو میماس  اور انسیلیڈس  دونوں  500 کلومیٹر  قطر کے ہیں۔ ٹیتھس اور ڈائی اونی  1000 کلومیٹر پر پھیلے ہوئے ہیں جبکہ ریا اور آیاپیٹس 1500 کلومیٹر پر محیط ہیں۔ جب وائیجر اوّل و دوم زحل کے نظام سے گزرے تو انسانیت نے پہلی مرتبہ برفیلے جہانوں کا واضح نظارہ کیا۔ ہر خلائی جہاز کا ایک الگ کام تھا ۔ وائیجر اوّل  کا کام ٹائٹن، ڈائی اونی ، ریا اور میماس کا مفصل مطالعہ تھا۔ جبکہ وائیجر دوم  کے ذمے  ٹیتھس ، آیاپیٹس، ہائیپیریین اور انسیلیڈس  کا قریبی سروے کرنا تھا۔ زحل کا کرہ فضائی اس کے برفیلے چاندوں کی سطح کا تعین کرتا ہے۔  اوسط درجہ حرارت  کم ہو کر منفی 187 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے  اس  انجمادی درجہ حرارت پر  ان چھوٹے سیارچوں میں پانی کی برف سے بنی ہوئی پرت  سنگلاخ پتھر کی طرح برتاؤ کرتی ہے۔ محققین کا اندازہ ہے کہ زحل کے یہ درمیانہ حجم کے  برفیلے جہاں  بہت ہی منفرد خدوخال اپنی اجزائے ترکیبی اور درجہ حرارت کی وجہ سے رکھتے ہوں گے۔ جب وائیجر وہاں پہنچا، تو محققین انتظار میں تھے کہ دیکھیں اس قسم کے درجہ حرارت سے کس قسم کا ارضی میدان بنتا ہے۔

    وائیجر اوّل نے ڈائی اونی کو کافی قریب سے دیکھا اور کافی گڑھوں والے منقش میدانی  شگاف بھی دیکھے۔ وائیجر دوم نے دوسرے علاقوں کی تصاویر اتاریں  لیکن تھوڑے فاصلے سے جو اس  کے جڑواں خلائی جہاز نے نہیں دیکھے تھے  ۔ وائیجر دوم کے ذریعہ دور سے لی جانے والی تصاویر نے چاند کے دوسری طرف کے حصّے کو سنبھالا ہوا تھا جہاں پراسرار لچھے دار روشن خطوط تھے جیسے کہ  کہر کو سطح پر پھیلا دیا گیا ہو۔ ڈائی اونی کے سامنے اور پیچھے کے نصف کرہ   ایک دوسرے سے الگ تھے۔ پروں جیسے روشن نشان  پیچھے کے تاریک نصف کرہ میں مروڑے ہوئے پھیلے تھے جبکہ سامنے والا نصف کرہ زیادہ روشن اور گڑھوں سے بھرپور تھا۔ ابتداء میں کچھ محققین کا اندازہ تھا کہ ڈائی اونی کی  تاریخ کی شروعات میں اس کی سطح برفیلے آتش فشانی اخراج  سے نکلی ہوئی تازہ برف سے شگافوں کے ساتھ  روشن تھی۔ جب ارضیاتی حرکت ختم ہو گئی تو سامنے کے نصف کرہ  کے چہرے پر ثبوت مٹتے چلے گئے  اور صرف لچھے ہی نسبتاً محفوظ طرف  باقی بچے۔






    [1] ۔ اس کتاب کے لکھنے کے وقت تک، کیسینی مہم ان چاندوں جن میں سے اکثریت ننھے(500 میٹر  سے بھی کم قطر والے ) مہتابوں کی ہے، کھوج میں مسلسل مصروف ہے۔ گنجان بی حلقے میں ہی صرف 150 سے زائد مہتابوں کو نشان زدہ کیا گیا ہے۔ یہ چاند اس قدر چھوٹے ہیں کہ یہ مسلسل خالی جگہوں  مثلاً کیلر خلاء یا کیسینی ڈویژن کو بھی نہیں بھر سکتے۔ یہ صرف  دھکیلو  کی شکل کے علاقے کو اپنے آگے پیچھے سے صاف کرتے ہیں۔
    [2]۔ برطانوی سائنس دان سر جان ہرشل نام رکھنے کے بارے میں خیال پیش کرتے ہیں۔ یہ ولیم ہرشل کے بیٹے ہیں جس نے یورینس کی دریافت کی تھی۔ انہوں نے زحل کے دو چاند میماس اور انسیلیڈس کو بھی دریافت کیا تھا۔ اپنی خاندانی کائناتی کھوج کو جاری رکھتے ہوئے ولیم کی بہن کیرولن نا صرف ان کی مدد گار کے طور پر کام کرتی تھیں بلکہ انہوں نے خود سے کافی سارے سیارچے اور سحابیے بھی دریافت کئے تھے۔
    [3]۔ اس وقت تک ٹائٹن کو پہلے سے ہی کرسچین ہائی گنز  نے ١٦٥٥ء میں  دریافت کرلیا تھا۔  
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: زحل کے برفیلے چاند - ڈائی اونی حصّہ اوّل Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top