کاربن سے آگے - "کائنات میں دوسری جگہوں پر زندگی کے امکانات حیرت انگیز ہیں"
"اگر آپ مختلف امکانات کا جائزہ نہیں لیں گے کہ کائنات میں حیات کیسی ہو سکتی ہے تو جب آپ اس کو تلاش کرنے نکلیں گے تو آپ جان نہیں پائیں گے کہ کس چیز کو دیکھنا ہے،" یہ بات واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاروی سائنس دان ڈرک شولزے مکوخ نے کہی۔ "ہم یہ نہیں کہتے کہ اس طرح کے جاندار وجود رکھتے ہیں تاہم اس بات کی طرح توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان کا وجود طبیعیات اور کیمیائی قوانین کے علاوہ حیاتیات سے بھی مطابقت رکھتا ہوگا۔
پانی کے بغیر برسوں زندہ رہنے والی، جبکہ دوسری خلاء کی خالی کھلی ہوئی جگہ میں زندہ رہ سکنے والی عجیب و غریب مخلوق۔ زمین پر کچھ بہت ہی زیادہ غیر معمولی جاندار شولزے مکوخ کو اندازہ لگانے کے لئے راہ دکھاتے ہیں کہ کائنات میں کہیں پر حیات کس طرح کی ہو سکتی ہے۔
کچھ عرصے پہلے 100 نئے سیاروں کی ملکی وے کے اندر مجمع النجموم بربط اور دجاجہ میں ناسا کی دریافت نے خلائی حیات کے بارے میں قیاس آرائیوں کا ایک طوفان چھوڑ دیا ہے۔ جریدے لائف میں اپنے ایک مضمون میں شولزے مکوخ زمین کی سب سے زیادہ شدید ماحول میں رہنے والی حیاتی شکل اور مریخ اور زحل کے چاند ٹائٹن کی طرف توجہ دلاتے ہیں تاکہ اس تصویر کو واضح کر سکیں کہ دوسرے سیاروں پر موجود حیات کیسے ہوگی۔
مثال کے طور پر زمین پر بمبار نامی بھونرے کی ایک نوع شکاریوں سے بچنے کے لئے ہائیڈروجن پیروکسائڈ اور دیگر کیمیائی مرکبات کو ملا کر کے ایک دھماکہ خارج کرتی ہے۔
"دوسرے سیارے پر جہاں مریخ پر موجود قوّت ثقل جیسی صورتحال موجود ہو بمبار بھونرے جیسی خلائی مخلوق اسی طرح کا رد عمل خارج کرکے اپنے آپ کو ہوا میں 300 میٹر تک دھکیل سکتا ہے،" شولزے مکوخ کہتے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ مریخ کے کھوجی زمین جیسی مخلوق کو دیکھ لیں تاہم ٹائٹن جیسے سیارے پر حیات کے لئے بالکل نئی حیاتیاتی کیمیا کی ضرورت ہوگی۔ اس طرح کی دریافت سائنس دنیا میں ایک بڑی کامیابی ہوگی جس کے انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
زمینی حیات اپنی منفرد حیاتیاتی کیمیائی آلات کے ساتھ مریخ جیسے کسی سیارے پر چند نئی مطابقت پذیری کے ساتھ سہولت سے جی سکتی ہے۔
سب سے پہلے جانداروں کو اس ماحول میں پانی کی ضرورت ہوگی جو چلی کے ایٹاکاما صحرا کا مزید خشک اور ٹھنڈی بدلی ہوئی صورت ہے۔ ایک ممکنہ مطابقت میں پانی کے بجائے پانی اور ہائیڈروجن پیروکسائڈ کے آمیزے کو بینُ الخِلوی(intracellular) مائع کے طور پر استعمال کیا جانا پڑے گا، شولزے مکوخ کہتے ہیں۔
ہائیڈروجن پیروکسائڈ قدرتی ضد انجماد ہے جو خرد حیات کو مریخی سردی میں جمنے سے بچنے میں مدد دے گا۔ یہ جاذب رطوبت بھی ہے یعنی کہ یہ قدرتی طور پر ماحول سے پانی کے سالموں کو کھینچے گا۔
دن کے دوران، پودوں جیسے جاندار مریخ جیسی سطح پر ہائیڈروجن پیروکسائڈ کی ضیائی تالیف کر سکتے ہیں۔ رات کے وقت جب ماحول نسبتاً مرطوب ہوتا ہے تو وہ اپنی ذخیرہ شدہ ہائیڈروجن پیروکسائڈ کا استعمال کرکے کرۂ فضائی سے پانی کو ڈھونڈ نکال سکتے ہیں بعینہ ایسے جیسے کہ خرد اجسام کی آبادی ایٹاکاما میں نمی کا استعمال کرتی ہے جہاں وہ ہوا سے کھاری پانی نکال کر زندہ رہتے ہیں۔
شولزے مکوخ زمین کے بمبار بھونرے سے مشابہت رکھنے والی اس پیچیدہ خلائی مخلوق کے بارے میں اندازہ لگاتے ہیں کہ وہ ان خرد اجسام کو خوراک اور پانی کے طور پر استعمال کر سکتی ہے۔ حیات کو دوام بخشنے والے ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کے لئےخرد اجسام اس طرح کے اپنے آپ میں موجود قدرتی راکٹ جیسے دھکیلو استعمال کر سکتے ہیں۔
سورج سے عظیم فاصلے کی وجہ سے ٹائٹن زمین سے کہیں زیادہ ٹھنڈا ہے۔ اس کی سطح کا درجہ حرارت اوسطاً منفی 290 ڈگری فارن ہیٹ ہوتا ہے۔ مزید براں سطح پر مائع پانی بھی نہیں ہے اور نہ ہی کرۂ فضائی میں کاربن ڈائی آکسائڈ موجود ہے۔ حیات کے بارے میں جتنا ہم جانتے ہیں یہ دونوں اجزاء اس کے لئے لازمی ہیں۔
اگر حیات ٹائٹن یا کائنات میں کہیں اور ٹائٹن جیسے سیارے پر موجود ہوگی تو وہ پانی کے علاوہ کوئی اور چیز بینُ الخِلوی مائع کے طور پر استعمال کر رہی ہوگی۔ ایک امکان میتھین یا ایتھین کی طرح مائع ہائیڈروکاربن کا بھی ہے۔ پانی کے بغیر حیات کی شکل آسانی کے ساتھ میتھین یا ایتھین کی ان جھیلوں یا سمندروں میں رہ سکتی ہے جو ٹائٹن کی سطح کا ایک بڑا حصّہ ہیں بعینہ جس طرح زمین پر پانی میں جاندار رہتے ہیں، شولزے مکوخ کہتے ہیں۔
اس طرح کی قیاسی مخلوق آکسیجن کی جگہ ہائیڈروجن کو لے کر اس سے بلند توانائی کی ايسيٹيلِيَن سے کرۂ فضائی میں تعامل کروائے گی تاکہ کاربن ڈائی آکسائڈ کے بجائے میتھین کو پیدا کر سکیں۔
اپنے منجمد ماحول کی وجہ سے ان جانداروں کو انتہائی قوی ہیکل (زمین کے معیار کے مطابق) اور بہت ہی آہستہ نظام تنفس والے خلیات سے بنا ہوا ہونا ہوگا۔ نظام تنفس کی آہستہ شرح کا مطلب یہ ہوگا کہ وہاں پر ارتقاء اور عمر میں اضافہ زمین کے مقابلے میں کہیں کم رفتار سے ہوگا جس سے ممکنہ طور پر انفرادی جانداروں کی حیات کا عرصہ کافی زیادہ بڑھ جائے گا۔
"زمین پر ہم نے ابھی صرف ان فعلیاتی چناؤ کی سطح کو ہی کھرچا ہے جو جانداروں کے پاس ہیں۔ تاہم ہم جو بات جانتے ہیں وہ بہت ہی دم بخود کر دینے والی ہے،" شولزے مکوخ کہتے ہیں۔ "زندگی کے امکانات کائنات میں اس سے بھی کہیں زیادہ حیرت انگیز ہیں۔
"صرف ماورائے ارض حیات اور دوسرے حیاتیاتی کرہ کی دریافت سے ہی ہم ان مفروضات کی جانچ کر سکیں گے،" انہوں نے کہا، "جو ہمارے جیسی نوع کے لئے سب سے عظیم تر دریافتوں میں سے ایک دریافت ہوگی۔"
ڈیلی گلیکسی بذریعہ واشنگٹن اسٹیٹ یونیورسٹی
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں