جب چارلس ڈارون نے ١٤٣ برس پہلے نظریہ ارتقاء بذریعہ قدرتی چناؤ کے متعارف کروایا، تو اس دور کے سائنس دانوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا، تاہم رکازیات ، جینیات ، علم حیوانیات ، سالماتی علم الحیات اور دوسرے ذرائع سے بتدریج حاصل ہونے والے ثبوتوں نے ارتقاء کو معقولیت کی حد تک استوار کر دیا۔ آج یہ جنگ ہر جگہ جیتی جاچکی ہے۔ تاہم عوام الناس کے ذہن اب بھی اس کو قبول کرنے میں تردد کا شکار ہیں۔
خاکہ 1ذہین صورت گری اور نظریہ ارتقاء کے حامیوں کے درمیان بحث جاری ہے اور دونوں طرف سے اپنے اپنے دلائل دیئے جا رہے ہیں۔
پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی سب سے جدید اقوام پر بھی تخلیقی سیاست دانوں، قاضیوں اور عام شہریوں پر زبردست طرح سے اپنا اثرو رسوخ قائم کئے ہوئے تھے اور ان کو باور کروانے میں کامیاب رہے تھے کہ ارتقاء میں نقص ہے اور اس کے کوئی ثبوت و شواہد موجود نہیں ہیں۔ "ذہین صورت گری" جیسے تخلیقی خیالات کو نظریہ ارتقاء کے متبادل طور پر اسکولوں میں پڑھایا جاتا تھا۔ اس مضمون کی اشاعت کے وقت اوہائیو بورڈ آف ایجوکیشن ایسی کسی تبدیلی پر بحث و مباحثے میں الجھا ہوا ہے۔ کچھ ارتقاء کے مخالف جیسا کہ فلپ ای جانسن جو قانون کے پروفیسر برکلے کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور "ڈارون کی جانچ" کے مصنف ہیں تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا "ذہین صورت گری" کے نظریئے کا مقصد اسکولوں میں خدا کے ذکر کو دوبارہ عام کرنا ہے۔
نرغے میں موجود معلم اور دوسرے اپنے آپ کو ارتقاء کا دفاع اور تخلیق کا رد کرنے میں مشکلات کا سامنا کرتے تھے۔ تخلیقی جو دلائل دیتے تھے وہ عام طور سے خوشنما اور ارتقاء کے متعلق غلط فہمی (یا سیدھے جھوٹ)کی بنیاد پر مبنی ہوتے تھے، تاہم تعداد اور اعتراضات کے تنوع اچھے خاصے پڑھے لکھے آدمی کو بھی پسپائی پر مجبور کر دیتے تھے۔
1۔ ارتقاء تو صرف ایک نظریہ ہے۔ یہ کوئی حقیقت یا سائنسی قانون نہیں ہے۔
کافی لوگ ابتدائی تعلیم کے دوران پڑھتے ہیں کہ نظریہ، یقینیت کے درمیان کہیں موجود ہے - یہ ایک قیاس تو ہے تاہم کوئی قانون نہیں ہے۔ بہرحال سائنس دان اس اصطلاح کا استعمال اس طرح سے نہیں کرتے ۔ نیشنل اکیڈمی آف سائنس (ناس) کے مطابق ایک سائنسی نظریہ " اچھی طرح سے قرائن و ثبوت کی بنیاد پر کی جانے والی قدرتی جہاں کے کچھ رخ کی تشریح ہے جس میں امر واقعہ، قانون ، استنباط اور جانچے ہوئے قیاس کو شامل کیا جاتا ہے۔" نظریئے کو قانون میں بدلنے کے لئے کسی قسم کی توثیقی تبدیلی نہیں کی جاتی جو ہئیت کی عمومی کیفیت ہے۔ لہٰذا جب سائنس دان نظریہ ارتقاء کے بارے میں بات کرتے ہیں - یا جوہری نظریئے یا نظریہ اضافیت کے بارے میں – تو وہ اس کی سچائی کے بارے میں کوئی جملہ شرائط کو بیان نہیں کرتے۔
خاکہ 2 نظریہ ارتقاء کے حامی از راہ تفنن قوّت ثقل کی مثال بطور نظریہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ارتقاء پر اعتراض کرنے والے اس کو کیوں قبول کرتے ہیں۔
مزید براں نظریہ ارتقاء والوں کے لئے تغیر کے ساتھ نزول کے خیال کا مطلب ارتقاء کی حقیقت کے بارے میں کہنا ہے۔ ناس امر واقعہ کو اس طرح بیان کرتا ہے " ایک ایسا مشاہدہ جس کی بار ہا تصدق کی جاچکی ہو اور تمام عملی مقاصد کے لئے اس کو "سچا" مان لیا گیا ہو۔" رکازی نامچہ اور دوسرے کثیر تعداد کے ثبوت گواہی دے رہے ہیں کہ جاندار وقت کا ساتھ ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ ہرچند کہ کسی نے اس کا مشاہدہ نہیں کیا، تاہم بالواسطہ ثبوت واضح، قطعی اور حقیقت کو قبول کرنے پر مجبور کر دینے والے ہیں۔
عموماً تمام سائنس بالواسطہ ثبوتوں پر انحصار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر طبیعیات دان ذیلی جوہری ذرّات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کر سکتے لہٰذا وہ ان کی موجودگی کی تصدیق کے لئے ان کے غماز راستوں کو دیکھتے ہیں جو ذرّات ابر خانے میں اپنے پیچھے چھوڑتے ہیں۔ براہ راست ثبوتوں کے عدم مشاہدے کی وجہ سے طبیعیاتی نتائج کم قطعی نہیں ہو جاتے۔
2۔ قدرتی چناؤ کی بنیاد تدویری دلیل ہے یعنی کہ جو باقی رہ گئے وہ موزوں ہیں اور جو موزوں ہیں وہ باقی رہ گئے ۔
"بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے، تاہم مزید تیکنیکی توضیح بقا کی مختلف شرح اور تولیدگی کو بیان کرتی ہے۔ یعنی بجائے انواع کو موزوں اور غیر موزوں جماعت میں بیان کرنے کے اس طرح سے ان کو بیان کر سکتے ہیں کہ مخصوص حالات میں وہ کتنے بچے پیدا کر سکتے ہیں۔ ایک تیز رفتار نسل بڑھانے والی چھوٹی چونچ والی سنہری چڑیا کے جوڑے اور ایک سست رفتار نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا کے جوڑے کو ایک ایسے جزیرے پر چھوڑیں جو دانے دنکے سے بھرا ہوا ہو۔ چند ہی نسلوں میں تیز رفتار سے نسل بڑھانے والی سنہری چڑیا خوراک کے زیادہ وسائل پر قبضہ کر لیں گی۔ اگر بڑی چونچ والی سنہری چڑیا دانے کو آسانی کے ساتھ توڑ سکتی ہیں تاہم اس بات کا بھی فائدہ چھوٹی چونچ والی چڑیا کو ہی ہوگا۔ گالاپگوس جزیرے پر ہونے والی تحقیق میں پرنسٹن یونیورسٹی کے پیٹر آر جی گرانٹ نے مشاہدہ کیا کہ اس طرح کی آبادی میں اتار چڑھاؤ بے لگام ہوتا ہے [ان کا مضمون "قدرتی چناؤ اور ڈارون کی سنہری چڑیاں"؛ سائنٹفک امریکن ، اکتوبر ١٩٩٩ء میں دیکھا جا سکتا ہے ]۔
خاکہ 3 "بقائے اصلح" قدرتی چناؤ کو بیان کرنے کا ایک متنازعہ طریقہ ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ موزونیت سے مطابقت حاصل کرنے کو بقا کے بغیر بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ بڑی چونچ والی بیچ کو توڑنے کے لئے زیادہ مطابقت پذیر تھیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کی یہ خصوصیت مخصوص حالات میں ان کو بچانے کے کسی خاص کام آ سکی۔
3۔ ارتقا غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابل جانچ یا قابل تحریف نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات کے بارے میں بات کرتا ہے جس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اس کو کبھی بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔
ارتقاء کی اس طرح سے برخاستگی اس اہم اختلاف کو نظر انداز کر دیتی ہے جو اس میدان کو کم از کم دو وسیع علاقوں میں بانٹتا ہے۔ اصغری ارتقاء اور اکبری ارتقاء۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے – وہ تبدیلیاں جو آغاز انواع کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ، نئی انواع کا ماخذ۔ اکبری ارتقاء اس کا مطالعہ کرتا ہے کہ کس انواع کی سطح کے اوپر کس طرح سے تقسیمی جماعت تبدیل ہوتی ہے۔ اس کے شواہد اکثر اوقات رکازی نامچوں اور ڈی این اے کے تقابل سے حاصل ہوتے ہیں جو مختلف جانداروں کے آپس میں باہمی نسبت کو جاننے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
خاکہ 4 ۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے جبکہ اکبری ارتقاء انواع کی سطح کے اوپر تقسیمی جماعت کی تبدیلی کا مطالعہ کرتا ہے۔
ان دنوں اکثر تخلیقی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصغری ارتقاء تجربہ گاہ ( جیسا کہ خلیہ، پودوں اور پھل مکھی کی تحقیقات میں ) میں کی گئی جانچوں میں اور میدان (جیسا کہ گرانٹ کی گالاپگوس سنہری چڑیوں کی ارتقائی عمل سے گزرتی چونچ کی تحقیق میں ) ثابت ہو چکے ہیں۔ قدرتی چناؤ اور دوسرے طریقے - جیسا کہ لوئی جسمیہ تبدیلی، ہم زیستی اور دوغلیت - وقت کے ساتھ آبادی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔
اکبری ارتقاء کی تحقیق کی تاریخی نوعیت میں براہ راست مشاہدات کے بجائے رکازیات اور ڈی این اے سے استنباط کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود تاریخی سائنس (بشمول فلکیات، ارضیات اور آثار قدیمہ کا علم، اور ارتقائی حیاتیات) میں قیاسات کو اس طرح سے جانچا جا سکتا ہے کہ آیا وہ طبعی ثبوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آیا کہ وہ مستقبل کی دریافتوں کے لئے قابل تصدیق اندازوں تک لے جاتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ارتقاء کہتا ہے کہ انسانوں کے اولین آباؤ اجداد (لگ بھگ پچاس لاکھ برس پرانے) اور جدید انسان (لگ بھگ ایک لاکھ برس پہلے) کے ظہور کے درمیان انسان نما جانور جیسی خصوصیات والے جاندار ملنے چاہئیں جس میں بتدریج بندروں کی کم اور انسانوں جیسی زیادہ خاصیت ہوں، حقیقت میں رکازی نامچہ یہی چیز بیان کرتا ہے۔ تاہم کسی کو جدید انسان کے رکاز جراسی دور (چودہ کروڑ چالیس لاکھ برس پہلے) کے طبقات میں پیوستہ نہ تو ملتے ہیں نہ ہی ملنے چاہئیں۔ ارتقائی حیاتیات معمولات میں اس سے کہیں زیادہ بہتر اندازے قائم کر سکتی ہے اور محققین مسلسل اس کی جانچ کر رہے ہیں۔
ارتقاء کو دوسرے طریقوں سے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مردہ مادّے سے کسی ایک پیچیدہ حیات کی خود سے بڑھوتری کا ثبوت دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ چند مخلوقات جن کو رکازی نامچوں میں دیکھا گیا ہے اس طریقے سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ اگر فوق ذہین خلائی مخلوق نمودار ہو جائے اور زمین پر حیات کی تخلیق کا دعویٰ کرے (بلکہ کسی ایک مخصوص نوع کا بھی)، تو خالص ارتقائی توضیح بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا۔
یہ بات غور طلب ہے کہ قابل تکذیب کا تصوّر بطور سائنس کی تعریفی خاصیت کے فلسفی کارل پوپر نے ١٩٣٠ء میں پیش کیا۔ حال ہی میں اس کے تصوّر کی مزید توسیع نے اس کے اصول کی تنگ تشریح کو پھیلایا خاص طور پر اس لئے کہ یہ سائنسی جدوجہد کی کافی ساری شاخوں کو کم کر دیتی ہے۔
4۔ بتدریج سائنس دان ارتقاء کی سچائی پر متشکک ہو رہے ہیں۔
کوئی ثبوت ایسا نہیں ہے جو اس تجویز کو پیش کرے کہ ارتقاء طرفداری کو کھو رہا ہے۔ کوئی بھی ہم جماعتی تجزیہ کا حیاتیاتی جریدہ اٹھا کر دیکھ لیں اور آپ کو اس میں ایسے مضامین مل جائیں گے جو ارتقاء کے مطالعہ کی حمایت کریں گے یا پھر ارتقاء کو بنیادی تصوّر کے بیان کریں گے۔
اس کے برخلاف سنجیدہ سائنسی اشاعت جو ارتقاء کے خلاف ہوں ناپید ہیں۔ ١٩٩٠ء کے عشرے کے وسط میں یونیورسٹی آف واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو گلکرسٹ نے بنیادی ادب کے ہزار ہا جریدوں کا جائزہ لیا جس میں اس کی تلاش ذہین صورت گری یا تخلیقی سائنس تھی۔ سینکڑوں ہزار ہا جریدوں میں اسے ایک بھی ایسا نہیں ملا۔ گزشتہ دو برسوں کے درمیان ساؤتھ ایسٹ لوزیانا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی باربرا فوریسٹ اورکیس ویسٹرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے لارنس ایم کراس بھی اس قسم کے جائزے میں خالی ہاتھ ہی رہے۔
تخلیقی بدلے میں جواب دیتے ہیں کہ تنگ نظر سائنسی لوگ ان کے ثبوتوں کو رد کرتے ہیں۔ اس کے باوجود نیچر ، سائنس اور دوسرے اہم جریدوں کے مدیروں کے مطابق کچھ ضد ارتقاء سے متعلق مقالاجات بھی انھیں بھیجے گئے۔ کچھ ضد ارتقاء مصنفین نے اپنے مضامین کو سنجیدہ جرائد میں بھی شایع کروایا۔ تاہم ان مقالاجات میں شاذونادر ہی ارتقاء پر کوئی براہ راست حملہ کیا گیا یا تخلیق سے متعلق اپنے دلائل دیئے گئے؛ اس کے بجائے انہوں نے اپنی پوری کوشش ارتقاء سے متعلق کچھ مسائل کو ناقابل حل اور مشکل (جس کے بارے میں کوئی انکاری نہیں ہے) ثابت کرنے میں لگا دی۔ مختصراً تخلیقیوں نے سائنسی دنیا کو کوئی ایسے اچھے دلائل نہیں پیش کئے جس سے وہ انھیں سنجیدہ لیتے۔
5۔ارتقائی حیاتیات دانوں کے درمیان بھی اختلاف موجود ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کتنی کمزور سائنس ارتقاء کی بنیاد ہے۔
ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں، آغاز انواع کیسے شروع ہوا، ارتقائی تبدیلیوں کی شرح، پرندوں اور ڈائنوسارس کے آباؤ اجداد میں تعلق، آیا کہ نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے، اور اسی طرح کے دوسرے ۔ یہ اختلافات بعینہ ایسے ہیں جیسے کہ کسی بھی دوسری سائنس کی شاخوں کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ارتقاء کی قبولیت بطور امر حقیقی اور رہنما اصول حیاتیات میں آفاقی ہیں۔
خاکہ 5 ارتقائی حیاتیات دان مختلف موضوعات پر گرما گرم بحث کرتے ہیں جس میں یہ بات بھی شامل ہیں کہ آیا نینڈرتھال جدید انسان ہی کی کوئی قسم تھے یا نہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر ارتقاء کے مخالف اپنی حق میں ثبوت پیش کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے بد دیانت تخلیقی اکثر اوقات سائنس دانوں کے تبصروں کو سیاق و سباق سے ہٹ کر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں تاکہ بحث کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کر سکیں۔ کوئی بھی جو ماہر رکازیات ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے اسٹیفن جے گولڈ کے کام کے بارے میں جانتا ہوں اسے معلوم ہوگا کہ اعتدال منقطع کے نمونے کے شریک مصنف کے علاوہ ، گولڈارتقاء کا دفاع کرنے والے سب سے خوش گفتار اور واضح کلام کرنے والے ہیں۔ (اعتدال منقطع رکازی نامچوں میں موجود نمونے کے بارے میں بتاتا ہے کہ اکثر ارتقائی تبدیلیاں مختصر ارضیاتی ادوار میں ہوئیں – جو اس مختصر دورانئے کے باوجود سینکڑوں نسلوں پر محیط ہو سکتی ہیں۔) تخلیقی گولڈ کے ضخیم نثری کام میں سے وہ جملے نکالنے میں خوش ہوتے ہیں جس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ ارتقاء کے اوپر متشکک ہے، اور وہ اعتدال منقطع کو ایسے پیش کرتے ہیں جسے یہ نئی انواع کو راتوں رات پیدا کرتا ہے یا رینگنے والے جانور کے انڈوں سے پرندے پیدا ہوتے ہیں۔
جب بھی کسی سائنسی صاحب علم کے قول کا سامنا کریں جو ارتقاء پر سوال اٹھاتا نظر آئی تو کوشش کریں کہ سیاق و سباق کو بھی حاصل کرکے اس کے تناظر میں اس قول کو پڑھیں۔ تقریباً ثابت طور پر ارتقاء پر حملہ ایک دھوکہ دہی ثابت ہوگا۔
6۔ اگر انسان بندروں کی اولاد ہیں، تو اب تک بندر کیوں موجود ہیں؟
یہ سب سے عام کیا جانے والے اعتراض ہے جو ارتقاء کے بارے میں لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ارتقاء یہ نہیں تعلیم دیتا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں؛ بلکہ یہ بیان کرتا ہے کہ دونوں کے جد ایک ہی تھے۔
خاکہ 6 نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں۔
یہ اعتراض اس بات کو پوچھنے کے ہم پلہ ہے جو مزید گہری غلطی ہے ، " اگر بچے، بالغوں سے پیدا ہوتے ہیں، تب اب بھی کیوں بالغ موجود ہیں؟" نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں اور جب جانداروں کی آبادی اپنی اصل نسلی خاندان سے جدا ہو کر کافی تغیر حاصل کر لیتی ہے تب وہ ہمیشہ اپنا امتیاز باقی رکھتی ہے ۔ مورث نوع اس کے بعد لامحدود عرصے تک باقی رہ سکتی ہے یا وہ معدوم بھی ہو سکتی ہے۔
7۔ ارتقاء یہ بیان نہیں کرتا کہ حیات کا آغاز کس طرح سے زمین پر ہوا۔
حیات کا آغاز اب بھی اسرار میں لپٹا ہوا ہے، تاہم حیاتیاتی کیمیا دان یہ بات جان چکے ہیں کہ نامیاتی مرکبات(مرکزائی تیزاب اور امینو تیزاب ) اور دوسرے حیات کو بنانے کی بنیادی چیزیں خود سے بن کر اپنے آپ کو اس طرح سے تشکیل دے سکتی ہیں کہ وہ خود اپنی نقول خود پر انحصار کرنے والی بنا سکیں اور اس طرح سے انھوں نے خلیاتی حیاتیاتی کیمیا کی بنیاد ڈال دی۔ فلکی کیمیائی تجزیہ عندیہ دے رہا ہے کہ ان مرکبات کی مقدار شاید خلاء میں پیدا ہوئی ہوں اور زمین پر دم دار ستاروں کی صورت میں پہنچی ہوں، ایک منظر نامے جو شاید اس مسئلہ کو حل کر سکے کہ یہ بنیادی اجزاء کس طرح سے ان حالات میں بنے جب ہمارا سیارہ نوجوان تھا۔
خاکہ 7 حیات کا آغاز اب بھی اسرار میں لپٹا ہوا ہے۔
تخلیقی کبھی کبار کوشش کرتے ہیں کہ تمام ارتقاء کو غلط ثابت کر دیں اور اس کام کے لئے وہ سائنس کی حیات کے ماخذ کو بیان میں ناکامی کا سہارا لیتے ہیں۔ تاہم اگر زمین پر حیات کا آغاز غیر ارتقائی نکلا (مثال کے طور پر اگر خلائی مخلوق نے پہلا خلیہ آج سے ارب ہا برس پہلے متعارف کروا دیا تھا )، تب بھی ارتقاء کا عمل زور و شور سے لاتعداد صغیر و کبیر ارتقائی تحقیق سے مستحکم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
8۔ ریاضیاتی طور پر یہ بعید الفہم ہے کہ زندہ خلیہ کی تو بات کو چھوڑ ہی دیں کوئی پروٹین جیسی پیچیدہ چیز یا انسان اتفاق کا نتیجہ ہو۔
اتفاق ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں (مثال کے طور پر الل ٹپ تغیر نئی خصلت کو پیدا کر سکتے ہیں)، تاہم ارتقاء جانداروں، پروٹین یا دوسری ہستیوں کو بنانے کے لئے اتفاق پر انحصار نہیں کرتا۔ اس کے برخلاف قدرتی چناؤ، جو ارتقاء کا اہم معلوم نظام ہے، غیر اٹکل پچو تبدیلیوں کو قابو میں کرکے ان کے "عمدہ" (مطابقت ) خصوصیات کو محفوظ رکھتا ہے اور "ناپسندیدہ" (غیر مطابقت ) والی خصلتوں کو ختم کر دیتا ہے۔ جب تک چناؤ کی قوّت مستحکم رہتی ہے، قدرتی چناؤ ارتقاء کو ایک سمت میں دھکیل سکتا ہے اور حیرت انگیز مختصر عرصے میں ہی پیچیدہ ساختیں پیدا کر سکتے ہیں۔
خاکہ 8 اتفاق ارتقاء میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
بطور تشبیہ ایک تیرہ حروف پر مشتمل سلسلہ “TOBERORNOTTBE” دیکھیں۔ وہ قیاسی کروڑوں بندر جن میں سے ہر ایک جملوں کے ڈھیر میں سے ایک جملہ فی سیکنڈ کے حساب سے نکال رہا ہوگا، ٧٨ ہزار ٨ سو برس میں 2613 سلسلوں پر مشتمل اس جملے جتنے جملوں کے درمیان سے اس کو ڈھونڈ سکتے ہیں۔ تاہم ١٩٨٠ء کے عشرے میں گلنڈیل کالج سے تعلق رکھنے والے رچرڈ ہارڈیسن نے ایک کمپیوٹر کا پروگرام لکھا جو بے تکے جملے لکھنے کے بعد ان انفرادی الفاظ کا مقام محفوظ رکھ لیتا تھا جو اتفاق سے درست جگہ پر رکھے گئے تھے (حقیقت میں اس قسم کے جملے محفوظ کر رہا تھا جو ہیملیٹ ڈرامے جیسے تھے)۔ اوسطاً پروگرام نے ٣٣٦ مرتبہ دہرا کر صرف ٩٠ سیکنڈ سے بھی کم عرصے میں یہ کام کرلیا تھا۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ شیکسپیئر کا پورا کھیل صرف ساڑھے چار دنوں میں لکھ سکتا تھا۔
9۔ حرحرکیات کا دوسرا قانون کہتا ہے کہ نظام گزرتے وقت کے ساتھ زیادہ ناکارہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا حیوی خلیات غیر نامیاتی مادّوں سے ارتقاء پذیر نہیں ہو سکتے اور کثیر خلیہ والی حیات یک خلیہ سے ارتقاء نہیں پا سکتی۔
یہ دلیل دوسرے قانون کی غلط تشریح کرکے دی جاتی ہے۔ اگر ایسا درست ہوتا تو معدنی قلمیں اور برف کے گالے بننا ممکن نہ ہوتا کیونکہ وہ بھی کافی پیچیدہ ساختیں ہیں جو بے ساختہ بے ترتیب حصّوں سے بنتے ہیں۔
دوسرا قانون اصل میں یہ کہتا ہے کہ ایک بند نظام کی کل ناکارگی (ایک ایسا نظام جہاں نہ تو مادّہ یا توانائی ڈالا جا سکتا ہوں نہ اس سے باہر نکالا جا سکتا ہو) کم نہیں ہو سکتی۔ ناکارگی ایک طبیعی تصوّر ہے جس کو اکثر بے خیالی میں بے ترتیبی سے بیان کر دیا جاتا ہے تاہم یہ اس الفاظ کے روایتی استعمال سے بالکل الگ ہے۔
خاکہ 9 ناکارگی ایک طبیعی تصوّر ہے جس کو اکثر بے خیالی میں بے ترتیبی سے بیان کر دیا جاتا ہے۔
مزید اہم بات بہرحال یہ ہے کہ دوسرا قانون نظام کے حصّے میں ناکارگی کو اس وقت تک کم کرنے کی اجازت دیتا ہے جب تک دوسرے حصّے ناکارگی میں اتنا ہی اضافہ کریں۔ لہٰذا ہمارا سیارہ بطور مجموعی زیادہ پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ سورج اس میں حرارت اور روشنی ڈالتا ہے، اور سورج کے نیوکلیائی گداخت کے عمل سے نسبت رکھنے والی ناکارگی توازن کو برابر کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ سادے جاندار دوسری حیات کی قسموں اور غیر جاندار مادّوں کا استعمال کرکے اپنی نمو کو پیچیدگی کی طرف بڑھاوا دے سکتے ہیں۔
10۔ تقلیب ارتقاء کا لازمی حصّہ ہے، تاہم تقلیب میں تو صرف خصلت ختم ہو سکتی ہے۔ اس میں نئی خصلتیں نہیں پیدا ہو سکتیں۔
اس کے برخلاف حیاتیات نے تقلیب کے ذریعہ ہونے والی (جاندار کے ڈی این اے کی مخصوص جگہ میں تبدیلی کرکے ) کئی خصلتوں کا پتا لگایا ہے۔ مثال کے طور پر ضد حیوی کے خلاف جرثوموں کی مزاحمت۔
تقلیب جو ہومیو باکس خاندان کی نمو میں ظاہر ہوا ہے - جانداروں میں جین کو قابو کرکے پیچیدہ اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ ہاکس جین اس سمت کی طرف ہدایات دیتا ہے جہاں ٹانگیں، پر، انٹینا اور جسم کے حصّوں کو بڑھنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر پھل مکھی میں انٹینا پیڈیا کہلانے والی تقلیب ٹانگوں کو وہاں پھیلانے کا سبب بنتی ہے جہاں انٹینا کو بننا ہوتا ہے۔ یہ غیر ضروری انگوٹھے کام کے نہیں ہوتے تاہم ان کا وجود ثابت کرتا ہے کہ جنیاتی غلطیاں پیچیدہ ساخت بنا سکتی ہیں جس کو بعد میں قدرتی چناؤ کا عمل ممکنہ استعمال کے لئے جانچتا ہے۔
خاکہ 10 پر ضد حیوی کے خلاف جرثوموں کی مزاحمت کس طرح سے حاصل ہوتی ہے۔
مزید براں سالماتی حیاتیات نے جین کی تبدیلی کے نظام کو دریافت کیا ہے جو تقلیب کے وقت سے آگے جاتی ہے، اور یہ ان طریقوں کو بڑھاتی ہے جس میں نئی خصلتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ جین کے اندر موجود فعلی نمونے نئے طریقوں میں ایک ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ مکمل جین کی حادثاتی طور پر کسی جاندار کے ڈی این اے میں نقول بن سکتی ہیں، اور نقول اس بات کے لئے آزاد ہوتی ہیں کہ نئی پیچیدہ خصلتوں والی جین میں تبدیل ہو جائیں۔ مختلف جانداروں کے ڈی این اے کا موازنہ ہمیں بتاتا ہے کہ یہی وہ طریقہ ہے جس کے نتیجے میں خون کے پروٹین کے گلوبن خاندان کروڑ ہا برسوں میں ارتقاء پذیر ہوئے۔
11۔ قدرتی چناؤ شاید صغیر ارتقاء کی تشریح کر سکتا ہے، تاہم یہ نئی انواع کا آغاز اور اونچے درجے کی حیات کو بیان نہیں کر سکتا۔
ارتقائی حیاتیات دان تفصیل سے لکھ چکے ہیں کہ کس طرح سے قدرتی چناؤ نئی انواع کو پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ نمونہ جو ایلوپیٹری کہلاتا ہے جس کوہارورڈ یونیورسٹی کے ارنسٹ میر نے بنایا تھا کہتا ہے کہ اگر جانداروں کی آبادی کو اپنی باقی نوع سے جغرافیائی حدود کے ذریعہ الگ کر دیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ ان پر مختلف چناؤ کا دباؤ پڑے۔ الگ ہوئی آبادی میں تبدیلیاں جمع ہو سکتی ہیں۔ اگر وہ تبدیلیاں کافی اہمیت کی حامل ہو جائیں کہ الگ ہوئی جماعت اپنی اصل کے ساتھ تولیدی عمل کو سرانجام نہ دے سکے تو الگ ہوئی جماعت تولیدی طور پر الگ ہو کر نئی نوع بننے کی راہ پر گامزن ہوگا۔
قدرتی چناؤ ارتقائی نظام کے مطالعہ کا سب سے بہترین طریقہ ہے، تاہم حیاتیات دانوں نے دوسرے ممکنہ امکانات کے لئے بھی اپنی دماغ کے دروازے کھلے رکھے ہیں۔ حیاتیات دان مستقل انواع کے آغاز کو شروع کرنے والے یا جانداروں میں پیچیدہ خصلتوں کو پیدا کرنے والے غیر معمولی جینیاتی نظام کے امکان کو بھی جانچتے رہتے ہیں ۔ ایم ہرسٹ میں واقع یونیورسٹی آف میسا چوسٹس سے تعلق رکھنے والی لین مارگولس اور دوسرے ازراہ ترغیب دلائل دیتے ہیں کہ کچھ خلیاتی عضیہ جس طرح توانائی پیدا کرنے والے خیطی ذرّہ (مائٹو کونڈریا ) قدیمی جانداروں کے ہم زیستانہ انضمام کے عمل میں پیدا ہوئے۔ پس سائنس قدرتی چناؤ کی طاقتوں کے علاوہ بھی ممکنہ ارتقائی عمل کو خوش آمدید کہتی ہے۔ باوجود اس کے وہ طاقتیں لازمی طور پر قدرتی ہوتی ہیں؛ ان کو ان پراسرار ذی شعور تخلیقی افعال کے ساتھ جوڑا نہیں جا سکتا جس کا وجود سائنس کی اصطلاح میں غیر ثابت شدہ ہے۔
12۔کسی نے بھی کبھی نئی نوع کو ارتقاء پاتے نہیں دیکھا۔
انواع کا آغاز ممکنہ طور پر نایاب ہوتا ہے اور کئی صورتوں میں صدیوں کا عرصہ لگا دیتا ہے۔ مزید براں نوع کو اس کے بننے کے مرحلے میں شناخت کرنا مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ حیاتیات دان نوع کی تعریف میں ہی اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ سب سے زیادہ استعمال ہونے والی تعریف، میر کی حیاتیاتی انواع کا تصوّر ہے ، جس میں نوع کو قابل تولید الگ آباد ہوئی مختلف گروہ کے طور پر شناخت کیا جاتا ہے - ایک ایسی جانداروں کی جماعت جو عام طور پر اپنی گروہ سے باہر اپنی نسل نہیں بڑھا سکتی۔ عملی طور پر، اس معیار کا اطلاق ان جانداروں پر کیا جانا مشکل ہو سکتا ہے جو فاصلے، زمین یا سیارے کی وجہ سے الگ ہو گئے ہوں (بلاشبہ رکاز نسل نہیں بڑھاتے)۔ حیاتیات دان اسی لئے عام طور سے ان جانداروں کی طبیعی اور نفسیاتی خصلتوں کا استعمال ان کے نوع کے خاندان سے تعلق کو جوڑنے کے لئے کرتے ہیں۔
خاکہ 12 جارج ڈبلیو سالٹ نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر وہ پھل مکھی کے گروہ کو مختلف ماحول کے حساب سے چن کر ان کو الگ سے ٣٥ نسلوں تک بڑھائیں، تو نئی پیدا ہوئی مکھیاں دوسرے ماحول کی مکھیوں سے عمل تولید کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر سائنسی علم میں بظاہر پودوں، کیڑوں اور کرم میں انواع کے آغاز سے متعلق رپورٹیں موجود ہیں۔ ان تجربات کی اکثریت میں محققین کے فاعل جاندار مختلف قسم کے چناؤ کا سامنا کرتے ہیں - اعضائے بدن کے اختلافات کے لئے، ملاپ کے برتاؤ کے لئے، رہنے کی ترجیحات کے لئے اور دوسری خصلتوں کے لئے - اور اس میں وہ پاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی جانداروں کی آبادی پیدا کر لی ہے جو اپنے علاوہ کسی اور سے عمل تولید نہیں کر سکتی۔ مثال کے طور پر، یونیورسٹی آف میکسیکو سے تعلق رکھنے والے ولیم آر رائس اور ڈیوس میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے جارج ڈبلیو سالٹ نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ اگر وہ پھل مکھی کے گروہ کو مختلف ماحول کے حساب سے چن کر ان کو الگ سے ٣٥ نسلوں تک بڑھائیں، تو نئی پیدا ہوئی مکھیاں دوسرے ماحول کی مکھیوں سے عمل تولید کرنے سے انکار کر دیتی ہیں۔
13۔ ارتقائی کسی عبوری رکاز مثال کے طور پر ایسی مخلوق جو آدھی رینگنے والی ہو اور آدھی پرندہ ہو، کی شناخت نہیں کر سکتے۔
درحقیقت ماہرین رکازیات درمیانے رکازوں کی کافی مثالوں کے بارے میں مفصل طور پر جانتے ہیں جو مختلف تجنیسی جماعتوں کے درمیان موجود ہیں۔ ان میں سب سے مشہور زمانہ اوبی طائر (پرِندوں کی قدیم ترین صُورت و مُتحجرات کی شکل میں مِلتی ہے)ہے جس میں پروں اور مخصوص پرندوں والی ڈھانچے کی ساخت ڈائنوسارس والی خصلتوں کے ساتھ ملتی ہے۔ ایک اور جھنڈ پروں والی رکازی نوع جس میں سے کچھ زیادہ طیوری طرف اور کچھ کم طیوری طرف ہیں وہ بھی پائے گئے ہیں۔ چھوٹے ابتدائی دور کے گھوڑے سے جدید گھوڑوں کے درمیان کے ارتقائی رکازات کے سلسلے بھی پائے گئے ہیں۔ وہیل کے چار پائے والے زمین پر چلنے والے آباؤ اجداد تھے جو ایمبیلو سیٹس اور روڈھو سیٹس کے نام سے جانے جاتے ہیں اور جنہوں نے اس عبوری دور میں مدد کی تھی [ملاحظہ کیجئے "ممالئے جنہوں نے سمندر کو فتح کیا،" از کیٹ وونگ ؛ سائنٹفک امریکہ ، مئی] رکازی خول سے کروڑوں برس پر پھیلے ہوئے مختلف گھونگوں کے ارتقاء کا سراغ لگایا جا سکتا ہے۔ شاید ٢٠ یا اس سے زائد انسان نما (جن میں سے تمام ہمارے آباؤ اجداد نہیں تھے) ان خالی جگہ کو پر کرتے ہیں جو لوسی - آسٹرل اوپتھی اور جدید انسانوں کے درمیان موجود ہیں۔
خاکہ 13 اوبی طائر (archaeopteryx) جس میں پروں اور مخصوص پرندوں والی ڈھانچے کی ساخت ڈائنوسارس والی خصلتوں کے ساتھ ملتی ہے۔
تخلیقی ہرچند ان رکازی تحقیق کو رد کرتے ہیں۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ اوّلین پرندہ (آرکیو پٹیرکس) رینگنے والے جانداروں اور پرندوں کے درمیان کوئی کھویا ہوا ربط نہیں ہے - یہ تو صرف معدوم ہوا پرندہ ہے جس میں پرندے اور رینگنے والے جانور دونوں کی خصلتیں موجود تھیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ارتقائی ایسے عجیب، خیالی عفریت نکال کر لے آئیں جنھیں کسی معلوم جماعت میں گروہ بند نہ کیا جا سکتا ہوں۔ یہاں تک کہ اگر تخلیقی کسی رکاز کو دو انواع کے درمیان قبول کرتے ہیں ، تو وہ اس بات پر اسرار کرتے ہیں کہ اس کے درمیان اور پہلے دو کے درمیان موجود دوسرے رکازات بھی دکھائے جائیں۔ یہ تنگ کرنے والی فرمائشیں ایک نہ ختم ہونے والے بحث کو جنم دیتی ہیں اور ہمیشہ نامعقول قسم کا وزن نامکمل رکازی نامچوں پر ڈالتی ہیں۔
ان تمام باتوں کے باوجود، ارتقائی مزید واقعاتی شہادتیں سالماتی حیاتیات سے دیتے ہیں۔ تمام جاندار لگ بھگ ایک ہی جین کے شراکتی ہیں، تاہم جیسا کہ ارتقائی پیش گوئی کرتے ہیں کہ ارتقائی رشتے کو مد نظر رکھتے ہوئے اس جین کی ساخت اور اس کی پیداوار میں انواع کے درمیان تنوع ہے۔ ماہر جینیات "سالماتی گھڑی" کے بارے میں بات کرتے ہیں جو گزرے وقت کا حساب رکھتی ہے۔ یہ سالماتی اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ کس طرح سے مختلف جاندار ارتقاء کے دوران عبوری عمل سے گزرے۔
14۔ زندہ جانداروں میں بہت ہی پیچیدہ خصائص ہوتے ہیں - اعضائے بدن، خلیاتی اور سالماتی سطح پر - جو اس وقت کام نہیں کر سکتے اگر وہ کم پیچیدہ ہوتے۔ ایک زیرک نتیجہ صرف یہی نکلتا ہے کہ یہ کسی ارتقائی عمل کی نہیں بلکہ ذہین صورت گری کی پیداوار ہیں ۔
خاکہ 14 ارتقاء کے مخالف جاندار اجسام کی اصغری سطح پر پیچیدہ ساخت کو براہ راست ربانی کام کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔
یہ " صورت گری سے متعلق دلیل" ارتقاء پر کئے جانے والے زیادہ تر حالیہ حملوں کی بنیاد ہیں تاہم یہ پرانے دلائل میں سے بھی ایک ہیں۔ ١٨٠٢ء میں عالم دین ولیم پیلے نے لکھا کہ اگر کوئی جیب گھڑی کو میدان میں پاتا ہے، تو سب سے معقول نتیجہ یہی ہوگا کہ کسی نے اس کو یہاں پر پھینکا ہے، کسی قدرتی طاقت نے اسے وہاں نہیں بنایا۔ اسی طرح پیلے دلیل دیتا ہے کہ جاندار اجسام کی پیچیدہ ساخت کو لازمی طور پر براہ راست ربانی کام کا نتیجہ ہونا چاہئے۔ ڈارون نے انواع کے ماخذ میں پیلے کے جواب کے طور پر لکھا: اس نے بیان کیا کہ کس طرح سے چناؤ کی قدرتی طاقت، قدرتی وصف پر عمل کرتی ہیں اور بتدریج مرصع نامیاتی ساختوں میں ارتقائی شکل حاصل کرتی ہیں۔
تخلیقیوں کی نسلوں نے آنکھ کی ساخت کی مثال دے کر ڈارون کو جواب دینا چاہا کہ وہ کبھی نہیں ارتقاء پا سکتی۔ آنکھ کی بصارت کی صلاحیت کا انحصار اس کے حصّوں کے بے عیب ترتیب پر انحصار کرتا ہے، یہ ناقدین کہتے ہیں۔ لہٰذا قدرتی چناؤ کبھی بھی آنکھ کے ارتقائی عمل کے دوران درکار عبوری اشکال کی مدد نہیں کر سکتا – آدھی آنکھ کا کیا فائدہ ہے؟ اس تنقید کا اندازہ لگاتے ہوئے ڈارون نے تجویز کیا کہ "نامکمل آنکھ" بھی فائدے مند ہو سکتی ہے ( جیسا کہ مخلوق کی روشنی کی طرف سمت کرنے میں مدد ) لہٰذا وہ مزید ارتقائی بہتری کے لئے باقی رہ سکتی ہے۔ حیاتیات دان ڈارون کی پر زور تائید کرتے ہیں: محققین نے قدیمی آنکھوں اور روشنی کی حس رکھنے والے اعضاء کی شناخت پورے جانداروں کے خاندان میں کی ہے بلکہ انہوں نے تو آنکھ کی ارتقائی تاریخ کا سراغ بذریعہ جینیاتی تقابل بھی کرلیا ہے۔ (اب ایسا لگتا ہے کہ جانداروں کے مختلف خاندانوں میں، آنکھ خود مختار طور پر ارتقاء پذیر ہوئی۔)
آج ذہین صورت گری کی وکالت کرنے والے اپنے پیش رو سے کافی آگے ہیں، تاہم ان کے اعتراضات اور مقصد بنیادی طور پر کوئی الگ نہیں ہیں۔ وہ ارتقاء پر تنقید کرنے کی کوشش ایسے کرتے ہیں کہ ارتقاء حیات کو اس طرح سے بیان نہیں کرتا جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اور پھر وہ زور دیتے ہیں کہ صرف اس کا متبادل یہ ہے کہ حیات ایک غیر شناخت یافتہ ذی شعور خالق نے تخلیق کی۔
15۔حالیہ دریافتیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ خرد پیمانے پر بھی حیات اتنی ہی پیچیدہ ہے جو ارتقاء کے ذریعہ حاصل نہیں ہو سکتی۔
"ناقابل تخفیف پیچیدگی" ڈارون بلیک باکس :ارتقاء کو حیاتیاتی للکار کے مصنف اور لیہائی یونیورسٹی کے مائیکل جے بی کا طبل جنگ ہے۔ "ناقابل تخفیف پیچیدگی" کے حامی بطور روز مرہ کی مثال دینے میں بھی چوہے دان کو پسند کرتے ہیں - ایک ایسی مشین جو اس وقت کام نہیں کرے گی اگر اس کا کوئی بھی حصّہ موجود نہ ہوگا اور اس کے کسی بھی حصّے کی کوئی قدر الگ سے نہیں ہوگی بجز کہ مکمل حصّے موجود ہوں۔ چوہے دان کے بارے میں جو بات سچ ہے وہی بات جرثومے سوطہ(flagellum) پر لاگو ہوتی ہے جو ایک باریک بال نما خلوی جاندار ہے جس کا بنیادی کام دھکیلنا ہے اور جو اطراف میں لگی موٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ وہ پروٹین جو سوطہ کو بناتے ہیں انہونی طور سے موٹر کے پرزوں کی شکل میں ترتیب پا گئے ہیں، ایک ایسے آفاقی جوڑوں اور ساختوں میں جس کو انسانی انجنیئر ہی بنا سکتے ہیں۔ اس بات کا امکان کہ اس قسم کی پیچیدہ ترتیب ارتقائی عمل کے درمیان حاصل ہو جائے مجازی طور پر ممکن نہیں ہے، بی دلیل دیتے ہیں اور یہی بات ذی شعور صورت گری کے بارے میں بذات خود بتاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ خون کی گٹھلیوں کے نظام اور دوسرے سالماتی نظاموں کے بارے میں دلیل دیتے ہیں۔
اس کے باوجود ارتقائی حیاتیات دانوں کو ان اعتراضات کا جواب دینا ہے۔ سب سے پہلے تو سوطہ کی اس سے سادے اقسام پائی جاتی ہیں جس کا بی ذکر کرتے ہیں لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ تمام وہ اجزاء سوطہ کے لئے موجود ہونے چاہئیں جس سے وہ کام کر سکیں۔ سوطہ کے تمام پیچیدہ حصّے قدرت میں پہلے ہی سے پائے جاتے ہیں، جیسا کہ براؤن یونیورسٹی کے کینتھ آر ملر اور دوسروں نے بیان کیا ہے۔ حقیقت میں سوطہ کی تمام بناوٹ بہت حد تک خلوی جاندار یرسینیاپیسٹس کے مشابہ ہیں، بابلی طاعونی جرثومے کے جو زہر کو خلیہ میں داخل کرتا ہے۔
خاکہ 15 ارتقاء کے مخالفین پروٹین سوطہ (flagellum)کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے موٹر کے پرزوں کی شکل میں ترتیب پانے والے آفاقی جوڑ اور ساخت کو کوئی ذی شعور انجنیئر ہی بنا سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ سوطہ کے حصّوں کی ساخت جن کی بی کے مطابق کوئی قدر نہیں ہے بجز دھکا دینے کے لئے ، اصل میں کثیر فعل انجام دے سکتے ہیں جو ان کے ارتقائی عمل میں مدد کر سکتے ہیں۔ سوطہ کا حتمی ارتقاء ہو سکتا ہے کہ پیچیدہ حصّوں کے نئے طریقوں سے ہی بنے ہوں جن کا شروع میں اصل مقصد کچھ اور ہو۔ اسی طرح خون کی گٹھلیوں کا نظام ایسے تغیر اور پروٹین کے صراحت کا حصّہ لگتا ہے جو اصل میں ہاضمے میں استعمال ہوتے تھے، سان ڈیاگو میں واقع یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رسل ایف ڈولٹل کی تحقیق یہ بتاتی ہے۔ لہٰذا کچھ پیچیدگی جس کو بی ذی شعور صورت گری کا ثبوت کہتے ہیں اصل میں "ناقابل تخفیف " ہے ہی نہیں۔
مختلف قسم کی پیچیدگی – "مخصوص پیچیدگی" - بیلر یونیورسٹی کے ولیم اے ڈیمبسکی کی کتاب "صورت گری انبساط اور کوئی مفت کا کھانا نہیں میں ذی شعور صورت گری کی بنیاد ہے ۔ ان کے دلائل کی روح یہ ہے کہ جاندار اجسام اس قدر پیچیدہ ہیں کہ ایک غیر سمتی، اٹکل عمل کبھی انھیں نہیں بنا سکتا۔ صرف ایک ہی منطقی نتیجہ جو ڈیمبسکی ٢٠٠ برس پہلے پیلے کی طرح نکالتے ہیں وہ یہ کہ کوئی فوق انسان ذی شعور موجود ہے جس نے حیات کو بنایا اور ترتیب دیا۔
ڈیمبسکی کی دلیل میں کافی سقم ہیں۔ ہوشیاری سے اس طرف لگانا کہ توضیح کے میدان میں صرف اٹکل عمل ہیں یا ذہین صورت گری ہے ایک غلط بات ہے۔ غیر خطی نظام اور خلوی خود حرکی پر تحقیق کرنے والے سانتا فی انسٹیٹیوٹ کے محققین اور دیگر نے یہ اس بات کا مظاہرہ کیا ہے کہ سادے غیر ارادی عمل غیر معمولی پیچیدہ نمونے پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جانداروں میں کچھ نظر آنے والی پیچیدگی اس قدرتی مظہر کے ذریعہ ہوتی ہے جس کو ہم بمشکل سمجھ سکیں ہیں۔ تاہم یہ اس سے کہیں مختلف ہے پیچیدگی قدرتی طور پر وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔
"تخلیقی سائنس" اپنے اصطلاح میں ہی تضاد رکھتی ہے۔ جدید سائنس کا ایک مرکزی کلیہ طریقیاتی جبلت ہے - یہ کائنات کو خالص مشاہداتی یا قابل جانچ قدرتی نظام میں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔لہٰذا طبیعیات جوہری مرکزے کو مخصوص تصوّر کے ساتھ بیان کرتی ہے جس کا اطلاق مادّے اور توانائی پر ہوتا ہے، اور یہ ان تشریحات کو تجرباتی طور پر جانچتا ہے۔ طبیعیات دان نئے ذرّات جیسے کہ کوارک کو متعارف کرواتے ہیں تاکہ اپنے نظریات کو مفہوم دے سکیں تاہم یہ کام اسی وقت کرتے ہیں جب اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ گزشتہ تشریح مناسب طور پر مشاہدہ کئے ہوئے مظہر کو بیان نہیں کرسکتی۔ نئے ذرّات کی کوئی خود مختارانہ جبلت نہیں ہوتی، مزید یہ کہ ان کی تعریف سختی کے ساتھ قید ہوتی ہے کیونکہ نئے ذرّات کو لازمی طور پر پہلے سے موجود طبیعیات کے ڈھانچے میں اترنا ہوتا ہے۔
اس کے ذہین صورت گری کے نظری مبہم ہستیوں کو مدد کے لئے بلاتے ہیں جو آسانی کے ساتھ موجود اسرار کو بغیر کسی قید کے حل کر دیتی ہیں۔ بجائے سائنس طرز فکر کو آگے بڑھانے کے ایسے جوابات اس عمل کو ختم ہی کر دیتے ہیں۔ (کوئی کس طرح سے حکیم قادر مطلق کے وجود کا انکاری ہو سکتا ہے؟)
ذہین صورت گری کم جوابات دیتا ہے۔ مثال کے طور پر کب اور کیسے ذہین صورت گری نے حیات کی تاریخ میں داخل اندازی کی؟ پہلا ڈی این اے بنا کر؟ پہلا خلیہ بنا کر؟ پہلا انسان بنا کر؟ کیا کبھی نوع کو بنایا گیا یا صرف شروع کی چند ایک بنائی گئیں؟ ذہین صورت گری کی وکالت کرنے والے اکثر ان نکات کا جواب دینے سے کتراتے ہیں۔ وہ تو کوئی کوشش بھی نہیں کرنا چاہتے کہ اپنے ذی شعور تصوّر میں پائے جانے والے تضادات کو درست بھی کرلیں۔ اس کے بجائے وہ دلیل کو خارج کرکے نافذ کرنا چاہتے ہیں - یعنی وہ ارتقائی تشریحات کو گھٹا کر دور کی کوڑی یا نامکمل کہتے ہیں اور پھر سمجھتے ہیں کہ صرف صورت گر کی بنیاد پر موجود متبادل ہے باقی بچتا ہے۔
منطقی طور پر یہ گمراہ کن ہے اگر کسی قدرتی کی توضیح میں کوئی سقم بھی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ سارے ہی ایسے ہی ہیں۔ مزید براں یہ کسی ذہین صورت گری کے نظریہ کو دوسرے کے مقابلے میں زیادہ معقول نہیں بنا دیتی۔ سننے والوں کو خود سے اس بات پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ خالی جگہ کو اپنے آپ پر کر لیں، اور بلاشبہ کچھ لوگ ایسا کرتے بھی ہیں اور اس میں وہ اپنے مذہبی عقائد کو سائنسی تصوّرات سے بدل دیتے ہیں۔
بار بار سائنس بتاتی ہے کہ طریقیاتی جبلت جہالت کو پیچھے دھکیل سکتی ہے، اور بڑھتے ہوئے مفصل اور معلوماتی جوابات ان پہیلیوں کو تلاش کرسکتی ہے جو کسی زمانے میں ناقابل حل سمجھے جاتے تھے: روشنی کی ہئیت، بیماریوں کی وجہ، دماغ کس طرح کام کرتا ہے۔ ارتقائی بھی ان پہیلیوں کے ساتھ وہی کام کر رہے ہیں جو حیاتی دنیا کی ساخت سے متعلق ہیں۔ تخلیقی اپنے نام کی طرح اس سعی میں کسی بھی قسم کے شعوری افادے کو نہیں شامل کر رہے ہیں۔
ماخذ:http://www.scientificamerican.com/article/15-answers-to-creationist/
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں