Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 22 مارچ، 2016

    اجتماعی معدومیت کے عظیم ہتھیار - (Weapons of Mass Extinctions)



    ہم اس حقیقت کا ادرک کر چکے ہیں کہ ہم ایک انتہائی پر ہنگام کائنات میں رہتے ہیں ۔کائنات مستقل ہماری تاک میں ہے۔ کائنات میں سیارے ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہیں۔ ماضی میں زمین کی پوری سطح پگھلے ہوئے لاوے کی طرح جہنم کا نظارہ پیش کر چکی ہے۔ بلیک ہول غیر مرئی موت بانٹنے والی اشعاع چھوڑ رہے ہیں۔ کسی بھی وقت یوم حشر روز قیامت کے دن برپا ہو سکتا ہے۔ سیارچے بغیر پیشگی اطلاع کے ٹکرانے کے لئے بیتاب ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ان تمام امکانات کے ہونے کا احتمال صرف مستقبل بعید میں ہے ، در حقیقت ان تمام امکانات میں سے کوئی بھی چیز اگلے دس منٹوں میں بھی واقع ہو سکتی ہے ۔ 

    یہ کائناتی ہتھیارے زمین سے ماضی میں بار بار ٹکراتے رہے ہیں جس کے نتیجے میں انہوں نے زمین پر موجود کئی انواع کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا تھا اور کرۂ ارض پر حیات کو گمنامی کے اندھیروں میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ یہ تباہی و بربادی پہلے بھی ہو چکی ہے اور آئندہ بھی ہو سکتی ہے جس میں اس کا اگلا نشانہ بنی نوع انسان بھی ہو سکتے ہیں۔ مستقبل میں کوئی بھی آفت آسکتی ہے جو ہمیں ختم کر سکتی ہے۔ 

    پرسکون اور وسیع ، اپنے معتدل موسموں کے ساتھ، پانی اور آکسیجن سے بھرپور کرۂ ارض نہ صرف ہماری پرورش کرتی ہے بلکہ وہ ہماری حفاظت بھی کرتی ہے ۔لیکن خیال رہے کہ راوی زیادہ دیر تک یہ چین کی بانسری بجانے والا نہیں ہے ۔ خطرات اور مشکلات ہمارے سر پر منڈلا رہی ہیں۔ جب ہم اپنے آس پاس کائنات میں نظر دوڑاتے ہیں تو پہلی نظر میں ہمیں کائنات بہت ہی پرسکون لگتی ہے مگر ہمیں اس بات سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ اگرچہ زمین پر دلسوز باد سبا اور معتدل موسم موجود ہیں۔ تاہم درحقیقت کائنات بہت ہی زیادہ بے قابو اور درہم برہم رہتی ہے۔ کائنات ایک خوش باش اور محفوظ جگہ ہرگز نہیں ہے۔ کائنات میں سیارچوں کے تصادم، شمسی طوفان، سپرنووا، بلیک ہول، کہکشانی تصادم یہ سب ہمارے تخیل سے بھی زیادہ خطرناک اور بےقابو چیزیں ہیں۔ اور زمین ان تمام کے درمیان موجود ہے۔ 

    اپنی پیدائش سے لے اب تک پچھلے4.5 ارب سال میں ان بے قابو مظاہر قدرت نے زمین سے کروڑوں قسم کی انواع کو قیامت خیز تصادموں کے نتیجے میں صفحہ ہستی سے مٹا کر معدوم کر دیا ہے۔ اجرام فلکی کے زمین سے ٹکرانے اور ارضیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بہت بڑے پیمانے پر جتنی تعداد میں انواع معدوم ہوئی ہیں وہ ان تمام پودوں اور جانوروں کی انواع سے کہیں زیادہ ہیں جو آج زمین پر موجود ہیں۔ اجتماعی معدومیت ہونا ایک عام بات ہے جو وقتاً فوقتاً ہوتی رہی ہے۔ ہم اس دور میں جی رہے ہیں جب آخری اجتماعی معدومیت کو وقوع پذیر ہوئے کافی عرصہ گزر گیا ہے۔ اجتماعی معدومیت پہلی بھی ہوئی ہے اور اب بھی ہو سکتی ہے۔ وقت تو دوڑا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم اجتماعی معدومیت کے خطرے سے قریب تر ہو رہے ہیں۔ ہر نئی دریافت کے ساتھ کائنات پہلے سے زیادہ ہیبت ناک ہوتی جا رہی ہے۔ 


    خاکہ 1 پرسکون اور وسیع ، اپنے معتدل موسموں کے ساتھ، پانی اور آکسیجن سے بھرپور کرۂ ارض نہ صرف ہماری پرورش کرتی ہے بلکہ وہ ہماری حفاظت بھی کرتی ہے ۔ 

    نومبر ٢٠١٢ کو ماہرین فلکیات نے زمین سے ١٠٠ نوری برس کے فاصلے پر ایک سیارہ دریافت کیا جو مشتری سے کم از کم چار گنا زیادہ ضخیم تھا لیکن وہ سیارہ ایک آوارہ گرد سیارہ تھا۔ زمین اور نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کی طرح یہ کسی ستارے کے گرد مدار میں چکر نہیں کاٹ رہا تھا۔ یہ سیارہ خلاء میں کھو گیا تھا۔ سائنسی افسانوں پر مبنی فلموں میں اکثر بھٹکتے ہوئے سیارے پائے جاتے ہیں جو کسی بھی ستارے کے گرد چکر نہیں کاٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت ان کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ یہ کیا بیوقوفی کی بات ہے ؟ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی سیارہ بغیر کسی ستارے کے کائنات میں موجود ہو ۔ لیکن اب یہ بات ثابت ہو رہی ہے کہ واقعی ایسا ہونا ممکن ہے۔ 

    سیارے اپنی تشکیل کے دوران ثقلی قوّت کی بدولت ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ ہمارے نظام شمسی کی تشکیل کے وقت بھی بہت سے سیارے اس عمل کے نتیجے میں اس نظام سے باہر بین النجم خلاء میں دھکیل دیئے گئے ہوں۔ ہماری کہکشاں میں ایک اندازہ کے مطابق ٢ کھرب آوارہ گرد سیارے موجود ہوں گے۔ یعنی ہماری کہکشاں میں جتنے ستارے ہیں اتنے ہی تعداد میں آوارہ گرد سیارے بھی موجود ہوں گے۔ ان آوارہ گر سیاروں میں سے کوئی بھی ایک ہماری طرف سیدھا چلا آ سکتا ہے۔ 


    خاکہ 2 کہکشاؤں میں یتیم و آوارہ گرد سیاروں کی بھی بہتات ہے۔ 

    ایک سیارے کا دوسرے سیارے سے ٹکرانا بعید از قیاس لگتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ صحیح بات تو یہ ہے کہ ایسا آج سے4.5 ارب سال پہلے ہو چکا ہے جب ایک نوجوان سیارہ زمین کے مدار میں داخل ہو گیا تھا ۔ زمین سے مریخ کے حجم جتنا سیارہ آکر ٹکرا گیا تھا۔ دونوں سیارے ایک دوسرے سے ٢٥ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرائے تھے یہ رفتار بندوق سے نکلنے والی گولی کی رفتار سے بھی ١٢ گنا زیادہ تھی۔ اس تصادم کے نتیجے میں چھوٹا سیارہ تباہ ہو گیا تھا۔ زمین بمشکل بچ پائی تھی ۔ اس تباہی و بربادی کا تصوّر کرنا بھی ہمارے لئے محال ہے۔ ہمیں تو بس اتنا اندازہ ہے کہ دونوں سیارے آپس میں ٹکرائے اور ٹکرانے کے بعد انہوں نے ایک پگھلا ہوا سیارہ بنا دیا تھا ۔ اس ٹکر کی شدّت اور پیمانہ اس قدر بڑا اور شدید تھا کہ زمین کی پوری سطح پگھل گئی تھی۔ 

    ذرا تصوّر کریں کہ سطح زمین پر ایک زندہ آتش فشاں ٹھوس چٹانوں کے جزیروں کے ساتھ موجود ہو جس کے دائیں اور بائیں لاوا ابل ابل کر نکل رہا ہو۔ پورے سیارہ کی سطح ایسی ہی صورتحال پیش کر رہی ہوگی۔ تھوڑے عرصے کے لئے تو زمین کی فضاء میں بھی پگھلی ہوئی چٹانیں موجود ہوں گی جو جہنم کا منظر پیش کر رہی ہوں گی۔ گرد و غبار ٢٠ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پگھلی ہوئی زمین کے گرد مدار میں چکر لگا رہا ہوگا۔ قوّت ثقل نے اس ملبے کو آپس میں قریب کر دیا ہوگا جس کے نتیجے میں ہمارا چاند وجود میں آیا۔ 


    خاکہ 3زمین اور سیارہ تھیا کی ٹکر سے ہمارا چاند وجود میں آیا۔ 

    ہمارا چاند زمین کی تاریخ کے ایک تباہ کن تصادم کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ تصادم کے نتیجہ میں ہمیشہ بربادی نہیں ہوتی کبھی کبھی کوئی چیز بھی وجود پا لیتی ہے۔ سماوی تصادم کے نتیجے میں پیدا ہوئے اس ٹکڑے کے بغیر حیات زمین پر کبھی اپنے قدم جما نہیں سکتی تھی۔ چاند کی قوّت ثقل نے نوزائیدہ زمین کے سمندروں کو مدو جزر کی قوّت پیدا کرکے کھینچا جس سے زمین پر موجود غذائیت بخش اجزاء سمندر کے پانی میں پھیل گئے۔ چاند ہی نے کرۂ ارض کی محوری گردش کو ٦ گھنٹے کے بجائے ٢٤ گھنٹے تک کر دیا۔ اس تصادم کے ایک ارب سال گزر جانے کے بعد زمین کے پرسکون اور زرخیز ماحول میں حیات نے اپنے پر پرزے نکلنے شروع کئے۔ اگر زمین کے ماضی میں وہ سیاروی تصادم نہیں ہوتا تو چاند نہیں بن پاتا۔ لہٰذا اس ناقابل تصوّر ٹکر نے اصل میں حیات کو زمین پر پہلی دفعہ پروان چڑھنے کا موقع دیا جس سے ہمیں یعنی انسانوں کو اگلے چند ارب سال میں نمو پانے کا موقع ملا۔ 

    کوئی چیز جو ماضی میں ہمارے لئے اچھی ثابت ہوئی ہو وہی چیز اگر آج کے ماحول میں وقوع پذیر ہو جائے تو وہ ہمارے لئے تباہی کا سامان بن جائے گی۔ اب ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ ماضی کے جیسے کوئی سیاروی تصادم اب یا مستقبل میں ہوں کیونکہ ایسا کوئی بھی واقعہ کرۂ ارض پر موجود حیات پر جھاڑو پھیرنے کا سبب بن جائے گا۔ کسی بھی سیاروی تصادم سے پھیلنے والی تباہی اس قدر زیادہ ہوگی کہ ہم اس کا مقابلہ نیوکلیائی ہتھیاروں سے ہونے والی تباہی سے بھی نہیں کر سکتے۔ اس کی طاقت ارب ہا نیوکلیائی بموں سے بھی کہیں زیادہ ہوگی۔ اس ٹکر کی شدّت اتنی ہوگی کہ زمین کی سطح کو نیچے کئی میل کی گہرائی تک پگھلا دے گی۔ یہ زمین پر موجود تمام حیات پر جھاڑو پھیر دے گی۔ اس خونی تصادم کے بعد خود سیارے کے لئے دوبارہ جینا ایک طرح سے نہایت مشکل کام ہوگا۔ 

    کیا یہ ڈراؤنا خواب حقیقت بن سکتا ہے؟ ابھی تک تو سب سے قریبی آوارہ گرد سیارہ بھی ہم سے کھرب ہا میل دور ہے اور ہمارے پڑو سی سیارے اپنے اپنے مدار میں پرسکون انداز میں چکر لگا رہے ہیں۔ مستقبل قریب میں تو سیاروی ٹکراؤ ممکن نہیں ہے۔ مگر دھیان رہے کہ اس بات سے ہمیں زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ تمام سیاروں کی قوّت ثقلی ایک دوسرے سے کھیلتی رہتی ہے اور سیارے ایک دوسرے کا مدار بدلتے رہتے ہیں۔ لہٰذا اگر ہم وقت کا پہیہ تیزی سے گھما کر ارب ہا سال آگے کر دیں تو پھر سیاروی ٹکر ممکن ہے۔ فی الحال تو ابھی کافی عرصے تک ہمیں اس بات سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ 

    چار ارب سال پہلے ایک زبردست تصادم نے زمین پر حیات کی نمو کو ممکن بنایا۔ دو ارب سال بعد حیات نے اپنے آپ کو ختم کرنے پر کمربستہ کرلیا تھا ۔ ہمارے نیلے سیارے نے ایک انتہائی نامہرباں کائنات میں زندگی کو بچایا اور اس کی پرورش کی ۔ دو ارب چالیس کروڑ سال بعد ایک سادے سے یک خلوی جاندار نے غذائیت سے بھرپور سمندر میں تیرنا شروع کیا۔ مگر اس کے پیدا ہوتے ہی اس کی دنیا تو تباہی کے دھانے پر کھڑی تھی۔ 

    جب ہم اجتماعی معدومیت کی بات کرتے ہیں تو اس میں دو خطرات کی بات کی جاتی ہے ایک خطرہ جو باہر و خلاء سے نمودار ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا خطرہ خود زمین کے اندر چھپا بیٹھا ہوتا ہے۔ زمین سورج کے گرد مدار میں چکر لگاتی ہے مگر اس کا یہ مدار غیر پائیدار ہے۔ سینکڑوں ہزاروں سال کے بعد یہ تبدیل ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں زمین خلاء میں اور دور چلی جاتی ہے اور اپنے محور پر مزید مڑ جاتی ہے۔ اس تمام چکر میں سورج سے خم کھائے ہوئے کرۂ ارض ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ 

    دو ارب چالیس کروڑ سال پہلے کوئی چیز اس قدرتی برفانی دور کو عالمگیر تباہی میں بدل دیتی ۔ یہ کائنات میں موجود حیات کے لئے سب سے زیادہ تباہی پھیلانے والی چیزوں میں سے ایک تھی ۔اس وقت ننھے جانداروں نے سمندر کو اپنے آپ سے بھر دیا تھا۔ آس پاس آکسیجن بچی ہی نہیں تھی اور ایک یہ ایسی چیز تھی جو سب کو پسند تھی۔ لیکن اسی وقت ایک نئی قسم کے بیکٹیریا پیدا ہو گئے جس کا نام شائنو بیکٹیریا تھا جو سبز اور نیلے رنگ کا ہوتا ہے ۔ یہ زبردست گیس پیدا کرتے تھے۔ 


    خاکہ 4 شائنو بیکٹیریا نے پیدا ہونے کے ساتھ ہی آکسیجن بنانا شروع کردی تھی ۔ 

    ذرا تصوّر کریں کہ ارب ہا سال پہلے زمین پر آکسیجن نہیں تھی۔ شائنو بیکٹیریا نے آکسیجن بنانا شروع کردی ۔ یہ زہریلی گندگی پھیلا رہے تھے۔ اگر اس دور میں وہاں کوئی انضباطی ایجنسی موجود ہوتی تو وہ اس جرثوموں کے خلاف بالکل ہی بے بس نظر آتی (جیسے کہ پاکستانی حکومت دہشت گردوں کے ہاتھوں بے بس نظر آتی ہے )۔ آخر کاران جرثوموں نے پوری دنیا کو آلودہ کر دیا۔ انہوں نے عالمگیر ماحولیاتی عمل میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ آکسیجن کے اس عظیم بحران نے نباتاتی خانے کے اثر کو متزلزل کر دیا جو زمین کو گرم رکھتا ہے ۔ عالمگیر درجہ حرارت یکدم گر گیا۔ اس تمام ہنگامے کی ذمےدار جاندار ہی تھے۔ جرثوموں نے آکسیجن پیدا کرکے سیارے کا نظام درہم برہم کر دیا تھا۔ آکسیجن نے میتھین کے نباتاتی خانہ کے اثر کو تباہ کر دیا تھا جس سے زمین منجمد ہو گئی تھی۔ 

    دو ارب چالیس کروڑ سال پہلے برف قطبین سے پھیلنا شروع ہو گئی تھی۔ سیارے کو گرم کرنے کے بجائے سورج کی روشنی برف سے ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی جس سے مزید درجہ حرارت گرتا نتیجتاً اور برف پیدا ہوتی تھی جو مزید سورج کی روشنی کو لوٹ جانے پر مجبور کر دیتی نہ ختم ہونے والا یہ شیطانی عمل اس وقت تک جاری رہا جب تک زمین کے ٹھنڈے ہونے کا عمل بے قابو نہیں ہو گیا۔ برف نے ہر جگہ پھیلنا شروع کر دیا تھا ۔ درجہ حرارت گر گیا تھا۔ نیلا سیارہ سفید ہو گیا تھا ۔ اس وقت دنیا برف کی ایک گیند کی مانند تھی۔ حیرت انگیز طور پر یہ برفانی دور ایک دفعہ کی بات نہیں ہے بلکہ کے سورج کے گرد زمین کی پیدائش کے ایک ارب سال گزرنے کے بعد سے لے کر اب تک ایسا کم از کم تین دفعہ ہو چکا ہے۔ 


    خاکہ 5زمین ایک مرتبہ سے زیادہ برفانی دور سے گزر چکی ہے۔ 

    ان تمام تر مشکلوں اور دشواریوں کے باوجود اور تمام تر امکانات کے برخلاف اچھی خاصی تعداد میں انواع حیات سے چمٹی رہیں لیکن اس بات کا سہرا آتش فشانوں کو جاتا ہے۔ اس پورے عرصے کے دوران اس کرۂ ارض کو جو چہار جانب سے برف میں گہری ہوئی تھی آتش فشاں حرارت مہیا کر رہے تھے۔ آتش فشانی حرارت کے نتیجے میں کچھ جگہوں پر پانی مائع حالت میں بچا رہا تھا لہٰذا حیات نے اپنے آپ کو کسی طرح سے اس برفانی دور میں معدوم ہونے سے بچا لیا تھا۔ اس پورے عرصے کے دوران آتش فشانوں نے زندگی کی مدد کاربن ڈائی آکسائڈ اگلتے ہوئی کی تھی ۔آتش فشانوں سے نکلی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ نے نباتاتی خانہ کے اثر میں اضافے کے ساتھ ہی ماحول کو بھی گرما دیا تھا ۔ 

    ٦٤ کروڑ سال پہلے آخری برفانی دور کا خاتمہ ہوا۔ اس دور میں زندہ رہنے والے ایک نئے جہاں میں نمودار ہوئے۔ برفانی دور کے خاتمے کے بعد کافی دلچسپ چیزیں کرۂ ارض پر ظہور پذیر ہوئیں۔ حیات کے پروان چڑھنے کے کئی دریچے کھل گئے۔ برف پگھلنے لگی، پانی بہنے لگا، جدا نہ ہونے والے نامیاتی مادّے تیار ہونے لگے۔ لہٰذا آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بلیدگی کا عمل یکدم پھٹ پڑا۔ اس دوران شائنو بیکٹیریا اور زیادہ آکسیجن کو بنانے میں جت گئے ۔ دوسرے جانداروں نے اس ماحول میں یا تو سانس لینا سیکھ لیا یا پھر انہوں نے موت کو گلے لگا لیا۔ کئی جانداروں نے اندازہ لگا لیا کہ آکسیجن کا یہ زہر ان کے کافی کام کا ہے۔ یہ توانائی سے بھرپور ہے اور ان کو اس بات کی اجازت دیتے ہوئے اس عمل میں ان کا معاون ثابت ہو سکتا ہے جس میں ان کو اپنی جسامت بڑھانے اور پیچیدہ بناوٹ حاصل کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ 

    برفانی دور ایک ماحولیاتی سانحہ تھا مگر یہ ارتقاء کی فتح تھی ۔ پیچیدہ حیات پھلنے پھولنے لگی ۔ مگر زیادہ تر مخلوقات اس زمانے سے لے کر اب تک کبھی ارتقاء پذیر نہیں ہوئیں۔ کسی چیز نے انھیں مرنے سے روک دیا۔ برفانی دور کائنات کے مہلک ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہے مگر یہ پلک جھپکتے میں گزر جاتا ہے۔ متشدد کائنات میں تمام تر امیدوں کے برخلاف ایک دفعہ جیت پھر حیات کی ہوئی۔ 

    اس بات کو دھیان میں رکھیں کہ کائنات کبھی بھی اپنے ایک اور خفیہ ہتھیار کی لبلبی دبا سکتی ہے جو خلائے بسیط میں موجود موت کی شعاعوں کو چھوڑ کر زمین پر موجود تمام حیات کو ختم کر سکتا ہے۔ 

    ١٩٦٠ء کے عشرے تک کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس قسم کی کوئی چیز کائنات میں موجود ہو سکتی ہے۔ ١٩٦٧ ء میں جب سرد جنگ اپنے انتہائی عروج پر تھی ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور سوویت یونین ایک دوسرے کو نیچا کرنے کی دوڑ میں مصروف تھے اور اس دوران نیوکلیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ جمع کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ نت نئے ہتھیاروں کی جانچ میں بھی مصروف تھے۔ امریکہ کو اس بات پر کا خدشہ تھا کہ سوویت یونین نیوکلیائی ہتھیار خلاء میں جانچ لینے کی قابلیت حاصل کر لے گا۔ لہٰذا امریکہ نے مصنوعی سیارچوں کو خلاء میں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تاکہ نیو کلیانی دھماکوں سے پیدا ہونے والی گیما شعاعوں کی مخبری حاصل کی جاسکے۔٢ جولائی ،١٩٦٧ ء کے دن چھوڑے گئے مصنوعی سیارے نے گیما شعاعوں کے ایک انفجار کو ریکارڈ کیا جو برقی مقناطیسی اشعاع کی سب سے مہلک اور توانائی سے بھرپور شکل ہوتی ہے ۔ اس خبر کے فوراً بعد ہی پینٹاگون میں ہلچل مچ گئی۔ ان کو لگا کہ ہو سکتا ہے کہ روس نے خلاء میں ایک قوی القوّت ہائیڈروجن بم کی جانچ کر لی ہے اور امریکا ابھی تک خالی ہاتھ ہے ۔ 


    خاکہ 6قیاس ہے کہ ماضی میں بھی گیما شعاعوں نے زمین پر تباہی مچا دی تھی۔ 

    خلاء میں موجود گیما شعاعیں کسی بم کے پھٹنے سے نہیں آ رہی تھیں ۔ جس چیز سے گیما شعاعیں نکل رہی تھیں وہ بم سے کہیں زیادہ مہلک چیز تھی۔ جب پینٹاگون کو اس بات کا درست اندازہ ہوا تو پتا چلا کہ یہ انفجار تو ملکی وے کہکشاں کے پار ارب ہا نوری سال دور سے آرہے تھے۔ ایک نئی قسم کی توانائی دریافت کر لی گئی تھی جس کا نمبر طاقت و توانائی میں بگ بینگ کے بعد دوسرا ہے۔ 

    جب پہلی دفعہ گیما شعاعوں کو دریافت کیا گیا تھا تو لوگ سمجھ رہے تھے کہ یہ بہت ہی قریب سے آ رہی ہیں ۔ اور وہ ایسا سمجھنے میں بالکل بجا تھے کیونکہ ان کو ہم سے قریب ہی ہونا چاہئے تھا اس لئے کہ وہ آسمان میں سب سے زیادہ روشن تھیں ۔ بہرحال اب ہم کو معلوم ہے کہ گیما شعاعوں کے انفجار نا صرف دور بلکہ وہ تو ہماری کہکشاں میں بھی موجود نہیں ہیں وہ تو قریبی کہکشاؤں سے بھی کہیں زیادہ دور ہیں ۔ بلکہ زیادہ درست بات یہ کہنا ہوگی کہ اصل میں وہ تو کائنات کے کنارے سے زیادہ قریب ہیں۔ وہ اس قدر دور ہیں کہ ان سے زیادہ دور ہم نے ابھی تک کوئی چیز نہیں دیکھی۔ یہ بات ہماری سمجھ سے ماوراء ہے۔ فاصلے پر روشنی مدھم ہوتی ہے۔ جتنا اس کو فاصلہ طے کرنا پڑے گا اتنی ہی وہ مدھم ہوتی جائی گی۔ اگر دور دراز کی کہکشاں سے آتی ہوئی روشنی گیما شعاعیں ہوں تو دھماکہ ناقابل یقین حد تک بہت ہی زیادہ طاقتور ہوگا۔ 

    جب روشنی خلاء میں سفر کرتی ہے تو اس کا طیف کھینچتا ہے جس سے اس کی توانائی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور کیونکہ روشنی کافی فاصلہ طے کر کے ہم تک پہنچتی ہے اور اس طویل فاصلے کو طے کرنے کے باوجود وہ گیما شعاعوں کی شکل میں باقی رہتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پیدائش کے وقت وہ بہت ہی زیادہ توانائی سے بھرپور اشعاع ہوں گی ۔ توانائی کی وہ مقدار ناقابل یقین ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سورج اپنی پوری زندگی میں جتنی توانائی پیدا کرتا ہے اتنی توانائی یہ صرف چند سیکنڈ میں پیدا کر ڈالتی ہیں۔ یہ گنگ کر دینے کی حد تک پر تشدد واقعے ہوتے ہیں۔ 


    خاکہ 7فرمی خلائی دوربین کا کام گیما شعاعوں کا سراغ لگانا تھا۔ 

    جون ٢٠٠٨ء میں ناسا نے فرمی خلائی دوربین کو خلاء میں بھیجا۔ اس کا مقصد خلاء میں ان عظیم دھماکوں کی جگہ کا پتا لگانا تھا۔ فرمی نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔ اس نے کائنات کی بہت ہی مختلف شکل ہمارے سامنے پیش کی اور اس بات کو کھول کھول کر ہمیں بتایا کہ کائنات میں کیا چل رہا ہے جس سے کائنات کو سمجھنے کی ہماری صلاحیت نہایت عمیق ہو گئی۔ 

    اگر آپ کی آنکھیں گیما شعاعوں کو دیکھنے کے قابل ہوتیں تو آپ کو ملکی وے پورے بیچ آسمان میں درخشاں روشن نظر آتی۔ آپ کی بصارت کثیف ، دھڑکتے ہوئے ستارے اور سب سے بڑے اور ضخیم بلیک ہول کے زیر اثر ہوتی۔ بلیک ہول ہی گیما شعاعوں کے راز سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔ جب کوئی بہت ہی دیو ہیکل ستارا مرتا ہے جو سورج سے کم از کم ٢٥ گنا زیادہ ضخیم ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ میں منہدم ہوتا ہوا بلیک ہول تشکیل دیتا ہے۔ سائنس دانوں کو یقین ہے کہ کائنات میں موجود ان چند بڑی اور طاقتور چیزوں میں بلیک ہول بھی شامل ہیں جو گیما شعاعوں کے انفجار کو پیدا کرنے کے قابل ہیں۔ 

    گیما شعاعوں کا انفجار بلیک ہول کے پیدا ہونے کے وقت رونے کی قلقاری ہے۔ جب ایک ضخیم ستارہ پھٹتے ہوئے بلیک ہول میں بدلتا ہے تو اس کا قلب منہدم ہوتے ہوئے بلیک ہول بنا دیتا ہے۔ مادّہ اس کے ارد گرد جمع ہو کر اس میں گرنے لگتا ہے جس سے وہ ایک گھومتی ہوئی پرت دار قرص بنا دیتا ہے جو بہت ہی زیادہ گرم ہوتی ہے۔ مادّہ بلیک ہول میں گرتے ہوئے زبردست مقناطیسی میدان پیدا کرتا ہے ۔ ستارے کی باقیات بلیک ہول کی طرف گرداب کی صورت میں جاتی ہیں ۔ زبردست برقی مقناطیسی طاقت اس پرت دار قرص میں سے کچھ مادّے کو باہر کی جانب اچھال دیتی ہے ۔ مادّہ بلیک ہول کی زبردست مقناطیسی میدانوں کی جانب اور ان کے مخالف دونوں جگہ دھکیلا جاتا ہے۔ مادّہ ابتدائی دھماکے سے پیدا ہونے والے ملبے سے ٹکراتا ہے جس سے روشنی کی رفتار کے قریب اسراع پیدا ہوتا ہے جو کروڑوں ڈگری درجہ حرارت تک گرم ہو جاتا ہے۔ یہ تیز رفتار ٹکراؤ ناقابل تصوّر توانائی کی مقدار کو چھوڑتے ہیں۔ 

    گیما شعاعیں متحیر کر دینے والی ہوتی ہیں۔ ہم ان کا مشاہدہ اس لئے کر سکتے ہیں کیونکہ وہ نہایت روشن ہوتی ہیں۔ اگر وہ ہم سے تھوڑا سے بھی قریب ہوں جیسے کہ ٦ ہزار نوری برس کے فاصلے پر تو وہ ہمارے لئے حد درجہ تباہ کن ہوں گی۔ گیما شعاعیں اس قدر بڑی ہوتی ہیں کہ اگر وہ زمین سے صرف ١٠٠ نوری برس کے فاصلے پر ہوں تو زمین پر پہنچنے تک وہ ہمارے پورے نظام شمسی کو اپنے گھیرے میں لے لیں گی۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر ہم زمین پر کھڑے ہوں اور ان کو دیکھیں تو ہمیں صرف ایک روشنی کا جھماکہ دکھائی دے گا اور اس سے پہلے کہ ہم یہ پوچھ سکیں کہ یہ کیا ہے وہ ہمارا خاتمہ کر دیں گی ۔ توانائی کی مقدار جو اس جگمگاہٹ کے ساتھ تمام خلاء میں چلتی ہے وہ اس قدر شدید ہوتی ہے کہ کافی فاصلے سے ہی زمین پر آگ لگا سکتی ہے۔ گیما شعاعیں کرۂ ارض کی فضاء کو چھیل دیں گی ، سمندر ابل جائیں گے ، چٹانیں پگھل جائیں گی۔ وہ قیامت کے دن روز محشر جیسا ہی کوئی دن ہوگا۔ یہ سب سے خطرناک واقعہ ہوگا ۔ 

    لیکن کیا گیما شعاعوں کا انفجار زمین سے کچھ دور ہو تو ہم بچ پائیں گے؟ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر گیما شعاعوں کا انفجار ٦ ہزار نوری برس کے فاصلے کے اندر ہوا تو کیا ہوگا ؟ ہمارے خیال سے یہ سوال درست نہیں ہے۔ گیما شعاعوں کے انفجار زمین سے قریب ماضی میں ہوتے رہے ہیں اور شاید ماضی میں حیات بھی ان کی وجہ سے معدوم ہو چکی ہے۔ 


    خاکہ 8ماضی میں گیما شعاعوں کے انفجار نے سمندری مخلوق تک کو معدوم کر دیا تھا۔ 

    برفانی دور کے ٢٠ کروڑ سال کے بعد سمندر پیچیدہ حیات سے لبریز تھے مگر ٤٤ کروڑ سال پہلے تمام مخلوقات کا ٨٥ فیصد تک خاتمہ ہو چکا تھا ۔ اور ان کو اس انجام تک پہنچانے میں کسی اور کا نہیں بلکہ ان گیما شعاعوں کا ہی ہاتھ تھا۔ وہ انفجار سمندر کی اوپری سطح میں گھس گیا تھا جس سے اس نے سمندر کی سطح کے قریب رہنے والی مخلوقات کو ختم کر دیا تھا۔ اس سطح سے نیچے رہنے والی مخلوقات تو پہلے ہلے میں بچ گئیں تھیں مگر وہ زیادہ وقت گیما شعاعوں کے شکنجے سے نہیں بچ سکتی تھیں ۔ اس انفجار نے زمین کی اوزون کی پرت کو بھی نقصان پہنچایا تھا جس سے کرۂ ارض پر سورج کی مہلک بالائے بنفشی اشعاع کا خطرہ منڈلانے لگا تھا نتیجہ تیزابی بارشوں اور گرتے ہوئے درجہ حرارت کی صورت میں نکلا تھا۔ پانچ لاکھ سال سے تھوڑا عرصہ زیادہ گزرنے کے بعد وہ مخلوقات جو گیما شعاعوں کے انفجار کے بعد بھی زندہ بچ گئیں تھیں وہ بھی گیما شعاعوں کے بعد کے پڑنے والے اثرات کی وجہ سے مرنا شروع ہو گئیں تھیں ۔ 


    خاکہ 9 ہم WR- 104 کے بالکل صحیح نشانے پر ہیں ۔ 

    یہ گیما شعاعیں ہی تھیں جنہوں نے ماضی میں زمین پر سے حیات کو سمیٹ دیا تھا اور مستقبل میں بھی یہ ایسا کر سکتی ہیں۔ ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے کہ اگلا قریب ترین گیما شعاعوں کا انفجار خطرناک متزلزل ستارے جس کا نام WR- 104 ہے سے متوقع ہو سکتا ہے۔ WR- 104 ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہمیں ڈرا رہا ہے ہمارے پاس اب امکانی طور پر ایک امیدوار ایسا ہے جو گیما شعاعوں کا انفجار ہماری زمین تک لانے کا موجب بن سکتا ہے۔ درحقیقت ہم WR- 104 کے بالکل صحیح نشانے پر ہیں ۔ یہ ایک نہیں بلکہ دو ضخیم ستارے ہیں جو ایک دوسرے کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں ۔ یہ زمین سے ٨ ہزار نوری پرس کے فاصلے پر واقع ہے لہٰذا ہم اس کے تباہی پھیلانے والے علاقہ کے زیر اثر آتے ہیں۔ خدانخواستہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کل جب ہم آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو اچانک فلک سے اشعاع کے انفجار کی بارش نظر آئے۔ یہ شعاعیں اوزون کی پرت کو اتار پھینک دیں گی جس سے فضا میں ایک زہریلی کہر سی بن جائے گی اور ہمیں سورج کی مہلک شعاعوں کے سامنے کھڑا کر دے گی۔ 

    حیات کی وہ شکل جس سے ہم واقف ہیں ختم ہو چکی ہوگی۔ درخت جل چکے ہوں گے جس کے بعد وہ جانور جن کا انحصار پودوں اور درختوں پر ہوتا ہے مرنا شروع کر دیں گے۔ انسانی تہذیب زمین کی سطح کے نیچے پناہ گزیں ہو جائے گی۔ یہ سب ایسا لگ رہا ہے جیسے کے اسٹار وار میں کوئی ستارا زمین کو مار رہا ہو مگر فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں کوئی ستارہ خود سے زمین کو نہیں مار رہا ہوگا بلکہ یہ کام گیما شعاعیں کر رہی ہوں گی ۔ ہماری معدومیت کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ مگر ضروری نہیں ہے کہ وہ مہلک ہتھیار خلاء سے ہی ہم پر دھاوا بول دے۔ یہ کرۂ ارض پر سے بھی نمودار ہو سکتا ہے جس نے حیات کی پرورش کی اور اسے پروان چڑھایا۔ ہمارا سیارہ بھی اپنی اندر اجتماعی معدومیت کے ہتھیار چھپا کر بیٹھا ہے جو کسی وقت بھی باہر نکل سکتے ہیں ۔ ان میں سے ایک ہتھیار ہمارے پیروں تلے انتہائی گہرائی میں موجود ہے۔ گیما شعاعوں کے انفجار کے ٢٠ کروڑ سال کے بعد انفجار نے سمندروں سے حیات کو تباہ کر دیا تھا۔ بچنے والوں نے زمین کی سطح کے نیچے پناہ لے لی تھی۔ ان مختلف قماش کے رینگنے والے عفریتوں میں اسکوٹو سارس اور گورگونو پیزینس بھی تھے۔ وہ اپنے دور کے کامیاب اور طاقتور جاندار تھے ۔ 


    خاکہ 10ماضی میں سائبیریا میں آتش فشانی پھٹاؤ نے زمین پر زبردست تباہی پھیلا دی تھی۔ 

    لگ بھگ ٢٥ کروڑ سال پہلے کرۂ ارض کو سب سے بڑی اجتماعی معدومیت کا سامنا کرنا پڑا جس کو قدیم ارضیاتی عصر کے آخری دور کی معدومیت بھی کہا جاتا ہے۔٩٠ فیصد سے زیادہ سمندری حیوانیہ اور ٧٠ فیصد سے زائد زمینی حیوانیہ سیارہ سے ایسے غائب ہوئے تھے جیسا کہ گدھے کے سر سے سینگ۔ ان سب کو ختم کرنے کا ذمہ دار آتش فشانی دھماکا تھا جو کرۂ ارض کی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکہ تھا ۔٢٥ کروڑ سال پہلے اس جگہ جس کو اب سائبیریا کہتے ہیں وہاں زمین پھٹی جس کے نتیجے میں اسے وسیع گرم سیارے کی گہرائی سے نکلتے ہوئے لاوے کی پھواروں سے دھکا لگا۔ زمین خود سے کچھ ایسی تباہ کن چیزیں پیدا کرنے کی اہل ہے جس میں کروڑ ہا سال چلنے والے پھٹتے ہوئے آتش فشاں بر اعظمی پیمانے پر پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس سیاہ مرمریں آتش فشانی وقوعہ نے پورے سیارے کے کچھ حصّوں پر سنگ سیاہ کے لاوے کا سیلاب امڈ دیا تھا ۔ لاوا متواتر ٢٠ سال تک اگلا جاتا رہا۔ اس قدر لاوا نکلا کہ وہ پورا ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو کئی ہزار فٹ تک ڈھک سکتا تھا۔ اس کے نتیجہ میں پوری خشکی پر اور سمندر کی گہرائیوں میں بھی بڑی تعداد میں مخلوقات کی موت واقع ہو گئی تھی ۔ سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوا تھا ؟ اس سوال کا جواب دنیا کے سب سے زیادہ آتش فشانی ملک آئس لینڈ میں چھپا ہوا ہے۔ جہاں ویسا ہی انفجار بہت ہی چھوٹے پیمانے پر آج سے ٢٣٠ سال پہلے رونما ہوا تھا۔ 


    خاکہ 11آئس لینڈ کے علاقے میں حالیہ دور میں پھٹنے والا آتش فشاں۔ 

    جون ١٧٨٣ ، میں ایک ہولناک سلسلہ شروع ہوا جس نے آئس لینڈ کو برباد اور پوری دنیا میں موجود لاکھوں لوگوں کو جان سے مار دیا تھا ۔ لاکی گاؤں کے قریب ایک ١٧ میل لمبا زمین میں شگاف پیدا ہو گیا تھا ۔زمین پر موجود سوراخوں اور شگافوں میں سے میگما کے فوارے آسمان پر اڑتے ہوئی نظر آرہے تھے۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ لاکی میں سے نکلنے والا پورا مادّہ تقریباً 3.5 کیوبک میل جتنا آتش فشانی مادّہ تھا یہ در حقیقت بہت ہی زیادہ مادّہ ہوتا ہے۔ صرف لاکی کا حجم ہی اس کو خصوصی نہیں بناتا بلکہ اس میں موجود جو نہایت خطرناک چیز اس سے نکلتی ہے وہ اس کو خصوصی جگہ بناتی ہے ۔ اس انفجار کے ساتھ کافی مقدار میں زہریلی گیسیں جیسے سلفر اور کافی زیادہ تعداد میں فلورین کا اخراج بھی جڑا ہوا تھا۔ سلفر ڈائی آکسائڈ ماحول کے ساتھ اس کے چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ اس کے بڑے قطروں نے دیوہیکل شیشوں کا کام کیا تھا جنہوں نے سورج کی گرمی کو زمین سے دور منعکس کر دیا تھا ۔ 

    یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ لاکی جیسے چھوٹے سے آتش فشانی پھٹاؤ بہت بڑی تباہی کا سبب بن سکتے ہیں اور ماحول پر نہایت ہی ڈرامائی اثر ڈال سکتے ہیں۔ امریکہ کے شمالی علاقوں میں اب تک کی ریکارڈ کی جانے والی سب سے زیادہ ٹھنڈ پڑی ہے۔ حقیقت میں مسی سپی تو جم ہی گیا تھا ۔ یہ جاپان میں قحط جیسی صورتحال پیدا کر رہا تھا۔ آتش فشاں سے نکلنے والی یہ مہیب گیسیں ماحول میں عالمگیر پیمانے پر تباہی پھیلا سکتی ہیں۔ 

    اب ذرا اپنے تصوّر میں ٢٥ کروڑ سال پہلے سائبیریا کے پھٹاؤ کا منظر لائیں جو لاکی سے ٢ لاکھ گنا زیادہ بڑا تھا اور کروڑوں سال تک چلا تھا ۔ اس نے بڑے پیمانے پر بہت زیادہ مقدار میں گیسوں کو فضاء میں چھوڑا جس سے ماحول میں زبردست تبدیلی ہوئی تھی ۔ درجہ حرارت پہلے گر ا پھر اس نے ماحول کو گرما دیا۔٧٠ فیصد زمین پر رہنے والے جاندار جن میں طاقتور گوگونو پیزینس اور اسکاٹو سارس بھی شامل تھے وہ معدوم ہو گئے تھے۔ لیکن کرۂ ارض کو اس سے بھی زیادہ بری صورتحال کا سامنا کرنا پڑنا تھا۔ گرم ہوتے ہوئے سمندروں میں آکسیجن کی کمی ہو گئی تھی جس سے وہ ساکن سے ہو گئے تھے۔ زہریلی کائی نے کمان سنبھالتے ہوئے سمندروں کو ہائیڈروجن سلفائڈ سے آلودہ کر دیا تھا جس سے ٩٦ فیصد سے زیادہ سمندری حیات کا خاتمہ ہو گیا تھا اور سمندروں میں اودے رنگ کے بیکٹیریا کا ایک سیلاب سا آگیا تھا جس سے سمندروں کے پانی کا رنگ گلابی سا ہو گیا تھا۔ اس سے زیادہ حیات کی معدومیت کا خطرہ زمین کو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ 


    خاکہ 12 ٢٥ کروڑ برس پہلے سائبیریا کے آتش فشانوں نے اسکاٹو سارس جیسے طاقتور جانداروں کو بھی نابود کر دیا تھا۔ 

    ٢٠ کروڑ سال گزرنے جانے کے بعد بچ جانے والوں نے ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے اپنا آپ کو تبدیل کرلیا تھا ۔ ایک نئی طرح کے جانور نمودار ہونا شروع ہوئے۔ وہ کرۂ ارض پر موجود اس کی تاریخ کے سب سے کامیاب اور بڑی مخلوق تھی جن کو ہم ڈائنوسارس کہتے ہیں۔ زیادہ خوش مت ہوں یہ بھی فنا کا سامنا کریں گے۔ 

    کائناتی قاتل گھات لگائے کائنات میں پھر رہے ہیں تاکہ حیات کو کرۂ ارض پر سے جھاڑو لگا کر ختم کر دیں۔ وہ پہلے بھی زمین سے ٹکرا کر حیات کو معدومیت کے خطرے سے دوچار کر چکے ہیں اور وہ پھر دوبارہ بھی ٹکرا سکتے ہیں اور یہ آپ کے اس باب کو پڑھنے سے پہلے بھی ہو سکتا ہے ۔ ١٥ فروری ، ٢٠١٣ صبح ٩ بج کر ٤٢ منٹ پر سائبیریا کے شہر چیلیا بنسک میں ایک عام سرد سا دن تھا جب اچانک ایک ١٤ ہزار ٹن ٦٥ فٹ شہابیہ فضاء کو چیرتا ہوا ٤٢ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آسمان میں نمودار ہوا۔ وہ ہوا میں ١٨ میل اوپر ہی پھٹ پڑا جس سے ایک زبردست طاقتور دھماکے کی موج نے کھڑکیوں کے شیشے توڑتے ہوئے ٧ ہزار عمارتوں کو نقصان اور ١٥ سو سے زیادہ لوگوں کو زخمی کر دیا تھا ۔ ذرا تصوّر کریں کہ اگر وہ سیارچہ زمین پر ایک ثابت ٹکڑے کی صورت میں ٹکراتا تو کیا ہوتا۔ چیلیا بنسک روس میں جو ہوا وہ ہم دیکھ چکے ہیں ۔ خدانخواستہ یہ شہابیہ سالم بھی زمین سے ٹکرا سکتا تھا اور اگر ایسا ہوتا تو اس سے ٹکرانے کی صورت میں جو قوّت پیدا ہوتی وہ ہیروشیما پر مارے جانے والے ٢٠ بموں کی قوّت پیدا کر سکتی تھی ۔ 


    خاکہ 13 چیلیا بنسک روس میں گرنے والا شہابیہ ۔ 



    آپ میں سے کسی نے روس میں گرنے والے اس شہابی ویڈیو کو اس کی زبردست آواز کی رفتار سے بھی تیز بھنبھناتے دیکھا ہے تو آپ کو اس بات کا اچھی طرح سے اندازہ ہوگا کہ ایک چھوٹی سی چیز – کائناتی پیمانے پر چھوٹی سی چیز – کس طرح سے انسانوں پر ایک ڈرامائی اثر ڈال سکتی ہے۔ زمین پر چھوٹے شہابیے روز ٹکراتے ہیں ، تھوڑے سے بڑے ہر ہفتے اور ان سے کچھ بڑے ہر سال میں ایک دفعہ ٹکراتے ہیں۔ اور کوئی شہابیہ جو چیلیا بنسک شہابیے جتنا ہوتا ہے وہ ایک صدی میں ایک دفعہ ٹکراتا ہے۔ لہٰذا اگلے بڑے ٹکراؤ کے ہونے میں کوئی شک نہیں ہے اصل سوال تو یہ ہے کہ اس وقت کیا ہوگا؟ اس بات کے جواب کا سراغ ماضی میں ڈائنو سارس کی معدومیت میں چھپا ہوا ہے۔ 


    خاکہ 14 کہتے ہیں کہ ڈائنوسارس کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے والا ایک سیارچوی تصادم تھا۔ 


    65 کروڑ سال پہلے ایک عام سی صبح کے وقت اگر آپ اس دور میں موجود ہوتے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے تو آپ کو ایک ہلکی سی مدھم سی روشنی اپنی طرف آتی دکھائی دیتی جو رفتہ رفتہ روشن سے روشن اور گرم سے گرم ہوتی جا رہی ہوتی ۔ یہ کوئی ٦ میل چوڑی ماؤ نٹ ایورسٹ پہاڑ کے جتنی چیز تھی جو زمین کی طرف ٢٥ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑی چلی آ رہی تھی۔ تباہی و بربادی کی پہلی لہر تو اس چیز کے ٹکرانے سے بہت پہلے ہی شروع ہو چکی تھی ۔ پورے سیارے پر صدماتی موجوں ، گرمی اور ہواؤں کا راج ہو گیا تھا۔ ہر وہ جگہ جو اس سیارچے کے راستہ میں آئی اس میں آگ لگ گئی تھی ۔ سمندر ابلنے لگے تھے۔ سیارچے نے سمندر سے ٹکراتے ہوئے وہ جگہ بنائی جس کو آج ہم میکسیکو میں جزیرہ نما یوکا تان کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سیارچہ زمین پر کسی بھی طاقتور ترین نیوکلیائی بم سے ٢ لاکھ گنا زیادہ قوّت رکھتا تھا جس نے ایک ایسا گڑھا بنایا جو ٢٠٠ میل پر پھیلا ہوا تھا۔ 

    تصادم کے وقت ایک زبردست گرم صدماتی موج آواز کی رفتار سے بھی دگنی تیز اٹھی ۔ ٥ کھرب ٹن لال گرم چٹانی مادّہ خلاء کے کنارے تک جا پہنچا ۔ تصادم کے ٢ گھنٹے کے بعد ٣٠٠ فٹ سونامی کی لہریں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ساحلوں میں شمال میں کیلی فورنیا تک جا ٹکرائیں۔ اگلے چند گھنٹوں تک بلکہ دنوں تک ، گرد و غبار کی بارش نے سیارہ کو دھندلا کر دیا تھا ۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں آگ سے نکلنے والے دھوئیں نے ماحول میں موجود گرد میں اضافہ کیا۔ پسی ہوئی چٹانیں اور جلا ہو ا مادّہ فضاء میں اس قدر موجود تھا کہ زمین پر کھڑے رہ کر اس کی سطح اور سورج دونوں کو دیکھنا ناممکن تھا ۔ اور یہ صورتحال کافی عرصے تک قائم رہی۔ یہ قدیمی تباہی ڈائنو سارس کے لئے روز قیامت کا دن تھا۔ لیکن اس تباہی کے بغیر ہم یہاں یہ بات کرنے کے لئے موجود نہیں ہوتے۔ ڈائنو سار س کے زمانے میں زیادہ تر جاندار ان کی خوراک بن جاتے تھے ۔ جب ڈائنو سارس مٹ گئے اس وقت چھوٹے ممالیوں نے اپنا حجم بڑھانا شروع کیا اور ڈائنو سارس کے بعد اپنی حکمرانی کو مستحکم کیا۔ لہٰذا ہم کہ سکتے ہیں کہ معدومیت کے اس دور میں حیات نے ایک شکل سے دوسری شکل اختیار کر لی تھی جس کو ہم موزوں ترین کی بقاء کے کلیہ سے جانتے ہیں۔ 

    ہمارے لحاظ سے ماضی کی اجتماعی معدومیت اچھی تھی مگر ہم بھی یہاں بہت ہی کم عرصہ کے لئے ہیں۔ مستقبل میں کبھی بھی کوئی بھی آفت ہمارا نام و نشان مٹا سکتی ہے۔ اس بات کا امکان ٥ ہزار میں سے ایک کا ہے کہ اگلے ایک ہزار برس میں کوئی بھی اتنا بڑا سیارچہ جس نے ڈائنو سارس کو ختم کردیا تھا ہمارے سیارے سے آکر ٹکرا جائے اور یہ کبھی بھی ہو سکتا ہے۔ در حقیقت اس بات کا امکان بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ اگلے ١٠ منٹوں میں آکر ٹکرا جائے مگر ایسے کسی امکان کے ہونے کی شرح بہت ہی کم ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ کسی بھی لاٹری کو جیتنے کے لئے بہت زیادہ تیاری کی ضرورت نہیں ہوتی۔ 

    اپریل ٢٠١٤ کو سائنس دانوں نے ایک دہلا دینے والا اعلان کیا ۔ ٢٠٠٠ء سے لے کر اس وقت تک ٢٦ سیارچے کرۂ ارض کے کرۂ فضائی میں پھٹے ہیں جس میں سے ہر ایک کی طاقت ایک نیوکلیائی بم جتنی تھی جبکہ ان میں سے کچھ کی طاقت تو ہیروشیما پر گرائے جانے والے بم سے ٤٠ گنا زیادہ تھی ۔ خطرے کی بات یہ تھی کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی ہم گرنے سے پہلے شناخت نہیں کر پائے تھے۔ اگر ہمارے پاس ایسی ٹیکنالوجی بھی موجود ہو جو ہمیں کسی بھی سیارچے کا زمین سے ٹکرانے سے پہلے بتا دے تو کیا ہم اس کو صحیح وقت پر ختم کر سکتے ہیں؟ ہالی وڈ کی فلموں کا سب سے زیادہ پسندیدہ موضوع تو یہ ہی ہے جس میں خلاء نوردوں کو اس سیارچے پر بھیجا جاتا ہے اور وہ اسے نیوکلیائی بم سے اڑا دیتے ہیں ۔ حقیقی دنیا میں ایسا بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ کچھ مخصوص حالتوں میں ایک صحیح حجم کے سیارچے سے زمینی تصادم سے بچاؤ کے لئے ایک آخری حربے کے طور پر سیارچے کو اس طرح سے تباہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ بات دھیان میں رہے کہ نیوکلیائی بم صورتحال کو بگاڑ بھی سکتا ہے ۔ سیارچے پر نیوکلیائی ہتھیاروں کے استعمال سے وہ تابکار ٹکڑوں میں بٹ کر پتھروں کی بارش پورے سیارے پر کر سکتا ہے۔ 

    کچھ فنی مہارتیں بہرحال ایسی ہیں جن کا استعمال کرتے ہوئے سیارچے کو ٹکڑوں میں بانٹنے کے بجائے اس سے دوسرے طریقے سے چھٹکارا حاصل کیا جائے جیسے کہ سیارچے پر لیزر کی شعاعیں یا سورج کی روشنی مارنا جس سے ایک مصنوعی سیارچوی فوارہ بن جائے جس سے سیارچہ کی سطح پر موجود پانی اور کچھ معدنیات بخارات بن کر اڑ جائیں اور سیارچے کو اس کے مدار سے آہستگی کے ساتھ ہٹا دیں۔ ایک اور بہت ہی شاندار اور طاقتور فنی مہارت جس کا نام ثقلی کھینچو ہے اس کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے ہمیں سیارچے کے قریب ایک خلائی جہاز پہنچانا ہوگا جس پر مواصلاتی نظام کے کافی سارے آلات لگے ہوں گے۔ خلائی جہاز میں ایک دھکیلنے والی چیز لگی ہوگی جس سے وہ خلائی جہاز سیارچہ کے اوپر منڈلاتا رہے گا اور اپنی اور اس کی قوّت ثقل کو استعمال کرکے سیارچے کو آہستگی سے اس کے مدار سے کھینچ کر ہٹائے گا۔ ابھی تو ایسی کوئی بھی فنی مہارت صرف کاغذوں پر ہی موجود ہے۔ اگر یہ حقیقت میں وجود میں بھی آ جائیں اس کے باوجود ہمیں اس سیارچے کو تباہ کرنے کے لئے کئی مہینوں کی تیاری کی ضرورت ہوگی۔ 

    آوارہ سیارے، گیسی دیو، گیما شعاعوں کے انفجار، آتش فشاؤں کا پھٹنا اور سیارچوی تصادم جس سے کائنات نے ہمیں دو چار کیا، ہم ان تمام تباہی پھیلانے والے عفریتوں سے زندہ بچے رہنے میں کامیاب رہے مگر ہماری نوع اب بھی اجتماعی معدومیت کے خطرے کا سامنا کر سکتی ہیں۔ اس بات کا امکان اتنا ہی قوی ہے جتنا کہ سورج کے طلوع ہونے کا ہے۔ یہ کائناتی موت کی لڑائی ہے اب تک تو ہم اس لڑائی میں زندہ بچ جانے والے ہیں مگر آخر کار جیتنا تو کائنات نے ہی ہے ۔ اجتماعی معدومیت سے ہمارا سامنا ناگزیر ہے اور اس دفعہ اجتماعی معدومیت کا ذمے دار کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا سورج ہوگا۔ 


    خاکہ 15 مستقبل میں سورج جب سرخ دیو بنے گا تو وہ زمین کو ہڑپ کر جائے گا۔ 

    ہم ایک بہت ہی بڑے نیوکلیائی بم کے گرد چکر لگا رہے ہیں جس کو ہم سورج کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ ستارہ سپرنووا بن کر نہیں پھٹے گا ۔کیونکہ اس کی کمیت کافی کم ہے ۔ سورج ہر گزرتے دن کے ساتھ تھوڑا سے بڑا ہوتا جا رہا ہے۔ سورج کی پیدائش کے دن سے ہائیڈروجن سورج کے قلب میں ہیلیئم میں تبدیل ہو رہی ہے۔ جمع ہوتی ہیلیئم کے ساتھ سورج کا قلب کثیف ہوتا جا رہا ہے ۔ ہر سیکنڈ میں ١٥ کروڑ ٹن ہیلیئم سورج کے قلب میں دب رہی ہے جس سے گیسیں بھینچ کر گرم ہو رہی ہیں۔ اس وقت سورج کے قلب کا درجہ حرارت ٢ کروڑ ٧٠ لاکھ ڈگری ہے اور یہ روز اوّل سے گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ سائنس کا ایک بہت ہی سادہ سا اصول ہے کہ جب گیسوں کو گرم کیا جاتا ہے تو وہ پھیلتی ہیں اور یہ ہی عمل سورج میں جاری ہے ۔ سورج سوجھتے ہوئے زیادہ روشن نظر آئے گا۔ آج سے ٢ ارب سال بعد سورج ١٥ فیصد زیادہ روشن ہو جائے گا ۔ اتنے برسوں تک زمین اپنے موجودہ مدار میں ٹکی رہی تو یہ اس پر بے قابو نبات خانے کا اثر ڈال دے گا۔ سمندر بخارات بن جائیں گے اور زمین کی سطح کا درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری تک جا پہنچے گا۔ لہٰذا اگر ہم نے اگلے ٢ ارب سال تک کچھ نہ کیا تو ہم تو بھون دیئے جائیں گے۔ بنی نوع انسان اس وقت تک کرۂ ارض پر موجود رہے تو ہم ان کا خاتمہ لازمی ہو جائے گا ۔ دوسرے سخت قسم کی انواع ہو سکتا ہے کہ کوئی زندہ رہنے کا طریقہ نکل لیں۔ اس کے باوجود وہ ادھار لئے ہوئے وقت میں جی رہی ہوں گی۔ کیونکہ سورج نے پورے آسمان کو ڈھک لینا ہے ۔ 

    اس وقت پورے افق پر آسمان میں آگ سی لگی ہوگی۔ آج سے ٥ ارب سال کے بعد سورج میں ہائیڈروجن ختم ہو چکی ہوگی اور وہ اپنی آخری منزل کی جانب گامزن ہوگا اس کے نتیجے میں اس کا حجم آج کے مقابلے میں ١٠٠ گنا زیادہ ہوگا۔ ہمارا حیات بخش سورج اس وقت غضبناک سرخ دیو کی شکل اختیار کر لے گا۔ سرخ دیو اس قدر بڑے ہوتے ہیں کہ وہ ہمارے سیارے کو آسانی سے نگل سکتے ہیں ۔ ہم نے کائنات میں ایسے سرخ دیو کی مثالیں بھی دیکھی ہیں جنہوں نے ہمارے نظام شمسی میں موجود مشتری کے مدار جتنا پھیلنا شروع کیا۔ سورج اتنا بڑا تو بہرحال نہیں ہوگا مگر پھر بھی امکان یہ ہے کہ مریخ تک ضرور جا پہنچے گا۔ اس دوران آخر میں سورج اس قدر بڑا ہو جائے گا کہ زمین اس میں سما جائے گی اور اس وقت کی صورتحال کچھ زیادہ خوش گوار نہیں ہوگی۔ سرخ دیو کا پھیلا ہوا جسم زمین کو ہضم کر چکا ہوگا۔ ہمارا سیارہ اس وقت تک جلے گا جب تک وہ مرتے ہوئے ستارے کے اندر گیس اور دھول میں نہیں بدل جائے گا۔ سورج کی موت اجتماعی معدومیت کی انتہاء ہوگی۔ اس بات کا امکان ١٠٠ فیصد یقینی ہے۔ اس بات کا امکان بھی ١٠٠ فیصد موجود ہے کہ یہ ہمارے سیارے اور اس پر موجود کسی بھی قسم کی حیات کو ختم کر دے گا۔ 


    ماخذ: ڈسکوری چینل کا پروگرام “How The Universe Works – Season 3, Episode 6”
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اجتماعی معدومیت کے عظیم ہتھیار - (Weapons of Mass Extinctions) Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top