Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    منگل، 22 مارچ، 2016

    ٹائٹن، دوسرا مریخ



    خاکہ 7.1 مستقبل کا ایک مسافر کرایکن مئیر کے ساحل پر سرف کو دیکھتے ہوئے، زحل کے چاند ٹائٹن پر موجود میتھین کا سمندر 



    اگر کوئی سیاروں اور ان کے چاندوں کو لے کر تاروں بھرے آسمان میں پھیلا کر ان کو بہ لحاظ حجم ترتیب دے تو ٹائٹن سیارہ عطارد اور مریخ کے درمیان کہیں موجود ہوگا۔ اس کا کرۂ فضائی ان دونوں سیاروں سے زیادہ کثیف ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ٹائٹن میں ہوا کا دباؤ زمین سے بھی زیادہ ہے۔

    ہمارے نظام شمسی کے چاندوں میں ٹائٹن منفرد ہے اس کی وجہ اس کا نظام شمسی میں واحد چاند ہونا ہے جہاں پر مہین کرۂ فضائی سے زیادہ موٹا کرۂ فضائی موجود ہے۔ اس کا کثیف نائٹروجن میتھین کرۂ فضائی نظام شمسی میں پائے جانے والی تمام ٹھوس اجسام میں سب سے زیادہ موٹا ہے۔1.5 بار پر اس کے کرۂ فضائی کی چادر منفی 178 سینٹی گریڈ سطحی درجہ حرارت برداشت کرتی ہے جو قریبی انسیلیڈس سے کہیں زیادہ گرم ہے جس کا دن کا درجہ حرارت منفی 201 سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔

    ٹائٹن کا سال زحل کے سال کی طرح زمین کے 29.7 برسوں جتنا ہے۔ اس کا ماحول زمین کے ماحول کی طرح ہی لگ بھگ پیچیدہ ہے جہاں سرگرم موسمیات اور متحرک مائیاتی چکر پورے نظام شمسی میں صرف ہمارے جہاں کو چھوڑ کر اپنی مثال آپ ہے۔ سیاروی سائنس دان اور انجنیئر رالف لورینز کہتے ہیں، "وہ اصولی توجیح جس کی وجہ سے ہم ٹائٹن میں اب زیادہ دلچسپی نہیں لیتے وہ یہ ہے کہ یہ کافی دور ہے۔ خلائی جہاز کو وہاں پہنچنے کے لئے 7 برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اگر یہ مسائل کسی طرح سے ختم ہو جائیں یا تو ٹائٹن کو سورج سے کسی طرح قریب کر دیا جائے یا پھر ہم اپنی خلائی ٹیکنالوجی کو بہتر بنا لیں تو میں سمجھتا ہوں کہ کئی وجوہات کی بنا پر یہ ہماری زبردست دلچسپی کا ہدف ہوگا۔ سب سے پہلے تو اس کا کرۂ فضائی انواع مظاہر سے لبریز ہے ۔ اس کے کثیف کرۂ فضائی کی وجہ سے وہاں پر کچھ ایسی سرگرمیاں جاری و ساری ہے جو ہم آج مریخ پر نہیں دیکھتے جیسے کہ بادلوں کا بننا اور بارش، سطح پر مائع کا جمع ہونا، ان کی مدوجزر اور قیاسی طور پر ہوا کی وجہ سے ہونے والی حرکت، موجوں کا بننا۔ آپ کے پاس یہاں ٹائٹن پر کافی دلچسپ فلکی حیاتیاتی کیمیا موجود ہوگی کیونکہ کرۂ فضائی میں موجود میتھین سینکڑوں مرکبات میں تبدیل ہوتی ہے۔"

    خاکہ 7.2 ٹائٹن کی کیمیا سے لبریز کرۂ فضائی نظام شمسی میں کسی بھی ٹھوس جسم میں موجود دوسری سب سے زیادہ کثیف کرۂ فضائی ہے۔

    محققین کے مطابق ٹائٹن میں ان جگہوں پر کافی امید افزا چیزیں موجود ہوں گی۔ حیاتی طبیعیات دان بینٹن کلارک جس وقت مریخ پر اترنے والا پہلا کامیاب وائکنگ کا خاکہ بنا رہے تھے اس وقت ان کی دلی آرزو تھی کہ وہ ٹائٹن کی کھوج کرنے والی چاہے 1970ء ہی کی ٹیم کا حصّہ ہوتے ۔ اس وقت ٹائٹن گمنامی کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اور ٹائٹن پر اترنے والے خاکوں میں ممکنہ امکانات کا جائزہ لیا جا رہا تھا جس میں برف کے پشتوں سے لے ٹھوس سطح اور میتھین کے حمام تک شامل تھے۔ کلارک کی دلی آرزو اس وقت حقیقت بن گئی جب اس نے یورپین ہائی گنز ٹائٹن کھوجی منصوبے میں حصّہ لیا ۔ ہائی گنز ناسا کے جس کیسینی سٹرن مدار گرد پر سوار تھا اس نے زحل پر 2004ء میں پہنچنا تھا (ملاحظہ کیجئے تیسرا باب)۔

    "یہ واقعی ہیجان انگیز تھا کیونکہ آپ ایک بہت ہی مختلف جگہ جا رہے تھے ۔ شروع میں یہ سمجھا گیا کہ ٹائٹن ایک سمندر سے ڈھکا ہوا ہوگا۔ بعد میں حاصل ہونے والی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ یہ زیادہ تر زمینی ہی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم نے وہاں پر قدم رکھا ہمیں معلوم ہوا کہ ٹائٹن پر بڑے سمندر موجود ہیں۔[ہائی گنز] بہت ہیجان انگیز تھا کیونکہ اگر مریخ پر اترنے سے مقابلہ کیا جائے تو یہ پوری ہی الگ مہم تھی اور یہ یوروپین تھی۔ یورپینز نے اس کو بنایا تھا۔ وہ اس سے پہلے کبھی بھی کہیں نہیں اترے تھے، لہٰذا یہاں پر ہیجان انگیزی ، قسمت اور کسی چیز کو پہلی مرتبہ سرانجام دینے کے تمام لوازمات موجود تھے۔" کلارک کہتے ہیں۔

    ڈھائی گھنٹے پیراشوٹ سے اترنے کے سفر کے بعد ہائی گنز نے نئی زمین پر قدم رکھا، ہر لحاظ سے ایک نیا جہاں۔ کھوجی نے بذریعہ ریڈیائی لہریں قیمتی خزانے کے اعداد و شمار کو ٹائٹن کی پیچیدہ ہوا کی تہ، بادلوں اور کہر میں سے گزارتے ہوئے واپس صحیح سالم حالت میں بھیجا اور ہمیں ہوائی اور زمینی سطح سے لئے گئے دونوں طرح کے اجنبی زمین کے نظارے تصاویر کی صورت میں بھیجے۔ اس جری کھوجی نے زمین پر اترنے کے بعد 90 منٹ تک اطلاعات کو بھیجنا اس وقت تک جاری رکھا جب تک اس کا رابطہ زمین سے منقطع نہیں ہو گیا۔ دھندلی نارنجی کہر کے نیچے ٹائٹن کے جہاں میں کیسینی مدار گرد کے بھید پانے والے آلات سے تلاش جاری رکھی گئی۔

    خاکہ 7.3. 18کلومیٹر لگ بھگ کے عرض بلد سے ای ایس اے کا ہائی گنز کھوجی نیچے برفیلی زمین پر دریائی وادی کی شاخوں کو دیکھتا ہوا۔

    خاکہ 7.4 ہائی گنز نے ٹائٹن کی سطح کے انبار کی تصاویر کو٩٠ منٹ تک ارسال کرنا جاری رکھا جو بظاہر سوکھی ہوئی دریائی گزرگاہ لگتی ہے۔ گول پتھروں پر غور فرمائیں، جو مخصوص دریائی کٹاؤ سے بننے والی ساخت ہے۔

    اس چکرا دینے والی زمین کے علاوہ کافی سارے علاقے ایسے ہیں جو ریڈار سے پہلی مرتبہ حاصل کردہ تصاویر میں شناسا لگتے ہیں۔ کلارک کہتے ہیں۔ " یہ کافی حیرت انگیز درجہ تک زمین جیسی ارضیات لگتی ہے۔ آپ کے پاس یہ بہاؤ والی صورت کی شکل ہے۔ وہاں پر دریائی وادیوں کے نظام ہیں جو ایسا لگتا ہے کہ نکاسی نالیوں میں بہ رہی جیسے کہ وہ جھیل ہو سکتی ہو۔" مزید براں ٹائٹن میں پہاڑی سلسلے اور ریت کے عظیم ٹیلوں کے سمندر بھی موجود ہیں۔ مستقبل کے مسافروں کے لئے نفیس سیاحت کی جگہ۔
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ٹائٹن، دوسرا مریخ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top